عدم شاید تو کل بلائے ، تو یہ بے نوا نہ ہو ۔

اے دوست اک غریب سے اتنا خفا نہ ہو
شاید تو کل بلائے ، تو یہ بے نوا نہ ہو

بیٹھا ہے کس خیال سے اے قلبِ نامراد
اس گھر میں کون آئے گا جس گھر میں دیا نہ ہو

ایسی تو بد لحاظ نہ تھی وہ ستم ظریف
اے زیست تو نے موت سے کچھ کہہ دیا نہ ہو

لب جل گئے ہیں تلخی صہبائے زیست سے
اے پیرِ مے کدہ یہ تری بد دُعا نہ ہو

انساں کو کوسئیے کہ مشیت کو کو سیئے
پردے میں نا خدا کے رضائے خدا نہ ہو

جس چیز سے طلوع قیامت مراد ہے
میرے شکستِ شیشۂ دل کی صدا نہ ہو

میری نوا سکوتِ بیاباں کی گونج ہے
اے آبروئے نطلق ، میری ہمنوا نہ ہو

دیتا نہیں عدم میں جوانی کو بَد دُعا
اس خوف سے کہ یہ بھی کسی کی رضا نہ ہو

عبدالحمید عدم​
 
شاید یہاں یوں ہوگا

بیٹھا ہے کس خیال سے اے قلبِ نامراد
اس گھر میں کون آئے گا جس میں دیا نہ ہو

بھائی یہ شعر اسی طرح ہے۔لنک حاضر ہے۔
اس گھر میں کون آئے گا جس گھر میں دیا نہ ہو
 

اخلاق-احمد

محفلین
اے دوست اک غریب سے اتنا خفا نہ ہو
شاید تو کل بلائے ، تو یہ بے نوا نہ ہو

بیٹھا ہے کس خیال سے اے قلبِ نامراد
اس گھر میں کون آئے گا جس گھر میں دیا نہ ہو

ایسی تو بد لحاظ نہ تھی وہ ستم ظریف
اے زیست تو نے موت سے کچھ کہہ دیا نہ ہو

لب جل گئے ہیں تلخی صہبائے زیست سے
اے پیرِ مے کدہ یہ تری بد دُعا نہ ہو

انساں کو کوسئیے کہ مشیت کو کو سیئے
پردے میں نا خدا کے رضائے خدا نہ ہو

جس چیز سے طلوع قیامت مراد ہے
میرے شکستِ شیشۂ دل کی صدا نہ ہو

میری نوا سکوتِ بیاباں کی گونج ہے
اے آبروئے نطلق ، میری ہمنوا نہ ہو

دیتا نہیں عدم میں جوانی کو بَد دُعا
اس خوف سے کہ یہ بھی کسی کی رضا نہ ہو

عبدالحمید عدم​
 
Top