محدود وسائل تو خیر نہیں کہ بچی کے والد ایک اعلٰی فوجی افسر تھے اور بچی لاہور کے ایک ایلیٹ سکول لاہور گرائمر میں زیر تعلیم تھی۔
یہ بچی کی خوش قسمتی تھی کے انہیں ایسے والد ملےاور سب سے بڑی بات وہ شہر میں رہائش پذیر تھے۔حالانکہ اگر آپ دیہات میں رہائش پذیر ہوں یا آپ کا بیک گراؤنڈ دیہاتی ہو تو عمو ماً بچیوں کی تعلیم پر بہت کم روپے خرچ کی جاتے ہیں۔
اور میرے تجزیے کے مطابق ارفع کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اسے ایک اچھے مہنگے سکول میں داخل کروایا گیا جہاں وہ اتنی چھوٹی سی عمر میں اتنی تیز انگلش بولنا سیکھ گئی وگرنہ وہ کبھی یہ امتحان نہ پاس کر سکتی۔اگر آپ کسی مڈل لیول کے اور غریب علاقوں میں رہنے والے بچوں کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ ان میں اکژ گریجویشن کرنے کے بعد بھی صحیح طرح سے انگلش نہیں بول سکتے۔
میرے پاس میری اپنی مثال ہے کہ مجھے انٹر کرنے کے بعد بھی صحیح طرح سے انگلش بولنی نہیں آتی تھی اور گریجویشن بھی بس ایسے ہی نکل گئی(حالانکہ میرے کلاس فیلو اور استاد مجھے انگلش میں ذہین سمجھتے تھے) پھر میں نے انگلش میں کتابیں اور انگلش فلمیں دیکھنا شروع کیں اور تب جا کر مجھے انگلش بولنی آئی۔اور میرے زیادہ تر دوست جو میرے ساتھ پڑھتے تھے انہیں ابھی تک انگلش الفاظ کی صحیح پرناؤنسی ایشن نہیں آتی آگے آپ خود حساب لگا لیں۔