شاہد نامہ۔ارفع کریم کے والدین کے ساتھ


آج کے والدین کے لیے کرنل امجد کریم اور ان کی اہلیہ ایک نمونہ ہیں۔جسے ہر موجودہ اور مستقبل کے والدین کو فالو کرنا چاہئیے کہ کس طرح انہوں اپنی محدود وسائل کے ہوتے ہوئے ارفع کی خواہشات کو پورا کیا
اور بلاشبہ وہ ایک ہیرا تھی اور اپنے آپ کو ہمیشہ کے لیے امر کر گئی
 
میرے پاس الفاظ نہیں۔ لائف میں پہلی بار الفاظ ساتھ چھوڑ گئے۔
حسرت ان غنچوں پہ، جو کھلنے سے پہلے مرجھا گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عثمان

محفلین
آج کے والدین کے لیے کرنل امجد کریم اور ان کی اہلیہ ایک نمونہ ہیں۔جسے ہر موجودہ اور مستقبل کے والدین کو فالو کرنا چاہئیے کہ کس طرح انہوں اپنی محدود وسائل کے ہوتے ہوئے ارفع کی خواہشات کو پورا کیا

محدود وسائل تو خیر نہیں کہ بچی کے والد ایک اعلٰی فوجی افسر تھے اور بچی لاہور کے ایک ایلیٹ سکول لاہور گرائمر میں زیر تعلیم تھی۔ :)
 

عثمان

محفلین
سر جی ! مکمل کلپس دیکھ کر نظر ثانی فرمائیں۔
ذرائع ابلاغ پر جو تفصیل ہے اس کا تذکرہ میں نے کیا ہے۔ ویڈیو سرسری سی دیکھی ہے۔ تاہم آپ ویڈیو نمبر اور منٹ کی نشاندہی کردیجیے۔ تاکہ معلوم ہو سکے کہ میں نے کہاں غلطی کی ہے۔ :)
 
ذرائع ابلاغ پر جو تفصیل ہے اس کا تذکرہ میں نے کیا ہے۔ ویڈیو سرسری سی دیکھی ہے۔ تاہم آپ ویڈیو نمبر اور منٹ کی نشاندہی کردیجیے۔ تاکہ معلوم ہو سکے کہ میں نے کہاں غلطی کی ہے۔ :)
میں ایک کلاس لینے لگا ہوں۔ اجازت
 
ذرائع ابلاغ پر جو تفصیل ہے اس کا تذکرہ میں نے کیا ہے۔ ویڈیو سرسری سی دیکھی ہے۔ تاہم آپ ویڈیو نمبر اور منٹ کی نشاندہی کردیجیے۔ تاکہ معلوم ہو سکے کہ میں نے کہاں غلطی کی ہے۔ :)
اسکے والد کے مطابق وسائل تو محدود تھے لیکن انہوں نے اپنی ذات پر بہت کم پیسے خرچ کیے اور اپنی بیٹی کی ہر جائز خواہش پوری کی۔
مثلاً اسی انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے ارفع کو انسٹی ٹیوٹ میں داخل کروایا کہ وہ کوئی کمپیوٹر کا کورس کر سکے تو انسٹی ٹیوٹ والوں نے ان سے 50 ہزار مانگے اور انہوں نے دے دیے اور جب وہ گھر پہنچے تو انکی بیگم نے انکے ساتھ لڑائی کی۔
 
میرے پاس الفاظ نہیں۔ لائف میں پہلی بار الفاظ ساتھ چھوڑ گئے۔
حسرت ان غنچوں پہ، جو کھلنے سے پہلے مرجھا گئے۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
صحیح فرمایا آپ نے
 
محدود وسائل تو خیر نہیں کہ بچی کے والد ایک اعلٰی فوجی افسر تھے اور بچی لاہور کے ایک ایلیٹ سکول لاہور گرائمر میں زیر تعلیم تھی۔ :)
یہ بچی کی خوش قسمتی تھی کے انہیں ایسے والد ملےاور سب سے بڑی بات وہ شہر میں رہائش پذیر تھے۔حالانکہ اگر آپ دیہات میں رہائش پذیر ہوں یا آپ کا بیک گراؤنڈ دیہاتی ہو تو عمو ماً بچیوں کی تعلیم پر بہت کم روپے خرچ کی جاتے ہیں۔
اور میرے تجزیے کے مطابق ارفع کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اسے ایک اچھے مہنگے سکول میں داخل کروایا گیا جہاں وہ اتنی چھوٹی سی عمر میں اتنی تیز انگلش بولنا سیکھ گئی وگرنہ وہ کبھی یہ امتحان نہ پاس کر سکتی۔اگر آپ کسی مڈل لیول کے اور غریب علاقوں میں رہنے والے بچوں کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ ان میں اکژ گریجویشن کرنے کے بعد بھی صحیح طرح سے انگلش نہیں بول سکتے۔
میرے پاس میری اپنی مثال ہے کہ مجھے انٹر کرنے کے بعد بھی صحیح طرح سے انگلش بولنی نہیں آتی تھی اور گریجویشن بھی بس ایسے ہی نکل گئی(حالانکہ میرے کلاس فیلو اور استاد مجھے انگلش میں ذہین سمجھتے تھے) پھر میں نے انگلش میں کتابیں اور انگلش فلمیں دیکھنا شروع کیں اور تب جا کر مجھے انگلش بولنی آئی۔اور میرے زیادہ تر دوست جو میرے ساتھ پڑھتے تھے انہیں ابھی تک انگلش الفاظ کی صحیح پرناؤنسی ایشن نہیں آتی آگے آپ خود حساب لگا لیں۔
 
دوسری بات یہ کہ ارفع کے اندر کانفیڈینس بہت زیادہ تھا۔آپ ایک طرف ارفع کا انٹرویو سنیں اور دوسری طرف بابر اقبال کا تو آپکو خود بخود محسوس ہوگا کہ اس میں کچھ الگ تھا۔عموماً اس طرح کا حو صلہ بچوں میں تھوڑا سا لیٹ آتا ہے۔
ان سب کو مد نظر رکھ کہ کہنا پڑتا ہے کہ وہ ایک گفٹد بچی تھی اور اسکے والدین نے اس تحفے کی قدر کی۔
 
دراصل جس وجہ سے میں یا میرے جیسے کئی لوگ اُس سے محبت کرتے تھے وہ اسکے ارادوں کی وجہ سے تھی۔میں نے بھی پہلے پہل(کوئی 6 ماہ پہلے) اسکے بارے میں پڑھا تو اسے اگنور کر دیا تھا۔لیکن جب وہ بیمار ہوئی تو مجھے اسکے انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا اور جب میں نے اسکے ارادے سنے تو میں اسکا گرویدہ ہو گیا۔
میں عثمان بھائی آپ سے گزارش کروں گا کہ تھوڑا سا ٹائم نکال کر یہ انٹرویو یا ایک دو اور انٹر ویو ہیں اُسکے والدین کے وہ ضرور سنیے گا۔
 
یہ بچی کی خوش قسمتی تھی کے انہیں ایسے والد ملےاور سب سے بڑی بات وہ شہر میں رہائش پذیر تھے۔حالانکہ اگر آپ دیہات میں رہائش پذیر ہوں یا آپ کا بیک گراؤنڈ دیہاتی ہو تو عمو ماً بچیوں کی تعلیم پر بہت کم روپے خرچ کی جاتے ہیں۔
اور میرے تجزیے کے مطابق ارفع کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اسے ایک اچھے مہنگے سکول میں داخل کروایا گیا جہاں وہ اتنی چھوٹی سی عمر میں اتنی تیز انگلش بولنا سیکھ گئی وگرنہ وہ کبھی یہ امتحان نہ پاس کر سکتی۔اگر آپ کسی مڈل لیول کے اور غریب علاقوں میں رہنے والے بچوں کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ ان میں اکژ گریجویشن کرنے کے بعد بھی صحیح طرح سے انگلش نہیں بول سکتے۔
میرے پاس میری اپنی مثال ہے کہ مجھے انٹر کرنے کے بعد بھی صحیح طرح سے انگلش بولنی نہیں آتی تھی اور گریجویشن بھی بس ایسے ہی نکل گئی(حالانکہ میرے کلاس فیلو اور استاد مجھے انگلش میں ذہین سمجھتے تھے) پھر میں نے انگلش میں کتابیں اور انگلش فلمیں دیکھنا شروع کیں اور تب جا کر مجھے انگلش بولنی آئی۔اور میرے زیادہ تر دوست جو میرے ساتھ پڑھتے تھے انہیں ابھی تک انگلش الفاظ کی صحیح پرناؤنسی ایشن نہیں آتی آگے آپ خود حساب لگا لیں۔
جی ارفع نے ایک انٹرویو میں بتایا ہوا ہے"ایک دن جیو کے ساتھ یو ٹیوب" کہ وہ بچپن سے کارٹون دیکھ دیکھ کر انگریزی کو جدید امریکی لہجے میں بولنے کے قابل ہوئی۔ اور ہماری اوقات کیا کہ ہم اس پر اپنی رائے دے سکیں۔ بلا شبہ اگر وہ پختہ عمر میں بھی انگلش سیکھتی تو بھی کمال ہی کر دیتی۔ آپ کی اپنی مثال بالکل حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔ کیونکہ ہم لوگ اس معاملے میں احساس کمتری کا شکار نظر آتے ہیں۔ آپ ایک مختلف اور مثبت سوچ رکھنے والے نوجوان ہیں۔ میں اس مارچ کی 20 تاریخ کو 26 سال کا ہو جاؤں گا۔ لیکن آپ بھی ناتمام سہولیات کے باوجود صلاحیتوں اور مہارتوں سے مالا مال ہیں۔ اگر مجھ سے کوئی مفت مشورہ لینا ہو تو میں حاضر ہوں گا۔ (ذاتی فون نمبر حذف کیا) یہ میرا رابطہ ہے۔ میں ہفتہ اور اتوار کے دن زیادہ مصروف نہیں ہوتا۔ پروفائل میں ایڈریس لکھا ہوا ہے۔ مزید موبائل فون پر ممکن ہے۔ اللہ آپ کی ہر نیک دعا قبول فرمائے۔ آمین

(ذاتی فون نمبر کے لیے ذاتی پیغام کا استعمال کریں۔)
 
Top