خورشیداحمدخورشید
محفلین
شاکر شجاع آبادی سرائیکی زبان کے شاعر ہیں- ان کی ایک سرائیکی غزل پیشِ خدمت ہے- اس میں انہوں نے غربت کو موضوع بنایا ہے۔ چونکہ یہ اردو محفل ہے اس لیے میں نے اس غزل کا اردو ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ لوگ کلام کو سمجھ سکیں ۔ جو لوگ سرائیکی سمجھتے ہیں وہ اصل غزل کا مزہ لے سکتے ہیں اور باقیوں کو ترجمہ شدہ اردو غزل پڑھنے سے کلام سمجھ میں آجائے گا۔
فکر دا سِجھ ابھردا ہے سوچیندیں شام تھی ویندی
خیالاں وچ سکون اج کل گولیندیں شام تھی ویندی
اُنہاں دے بال ساری رات روندن بُھک توں سُمدے نئیں
جنہاں دی کہیں دے بالاں کوں کِھڈیندیں شام تھی ویندی
غریباں دی دعا یارب خبر نئیں کِن کریندا ہیں
سدا ہنجواں دی تسبیح کوں پھریندیں شام تھی ویندی
کڈاہیں تاں دکھ وی ٹل ویسن کڈاہیں تاں سکھ دے ساہ ولسن
پُلا خالی خیالاں دے پکیندیں شام تھی ویندی
مرا رازق رعایت کر نمازاں رات دیاں کردے
جو روٹی رات دی پوری کریندیں شام تھی ویندی
میں شاکر بُھک دا ماریا ہاں مگر حاتم توں گھٹ کے نئیں
قلم خیرات ہے میڈی چلیندیں شام تھی ویندی
اردو ترجمہ غزل کی صورت میں
جو دن چڑھتا ہے فکروں کا بتاتے شام ہو جائے
خوشی کی آس میں آنسو بہاتے شام ہو جائے
اُنہیں کے بچے روتے ہیں وہ بُھوکے سو نہیں سکتے
جنہیں اوروں کے بچوں کو کِھلاتے شام ہو جائے
غریبوں کی دعا مانگی کہاں جاتی ہے اے مالک
مِرے آنسو بنیں تسبیح گھماتے شام ہو جائے
ٹلیں گے دکھ کبھی میرے کبھی آئیں گے سکھ کے دن
خیالوں میں پُلااؤ یہ پکاتے شام ہو جائے
مرا رازق اجازت دے نمازیں رات کو پڑھ لوں
مجھے تو رات کی روٹی کماتے شام ہو جائے
میں شاکر بھوک کا مارا مگر حاتم کا ہمسر ہوں
قلم خیرات ہے میری چلاتے شام ہو جائے
فکر دا سِجھ ابھردا ہے سوچیندیں شام تھی ویندی
خیالاں وچ سکون اج کل گولیندیں شام تھی ویندی
اُنہاں دے بال ساری رات روندن بُھک توں سُمدے نئیں
جنہاں دی کہیں دے بالاں کوں کِھڈیندیں شام تھی ویندی
غریباں دی دعا یارب خبر نئیں کِن کریندا ہیں
سدا ہنجواں دی تسبیح کوں پھریندیں شام تھی ویندی
کڈاہیں تاں دکھ وی ٹل ویسن کڈاہیں تاں سکھ دے ساہ ولسن
پُلا خالی خیالاں دے پکیندیں شام تھی ویندی
مرا رازق رعایت کر نمازاں رات دیاں کردے
جو روٹی رات دی پوری کریندیں شام تھی ویندی
میں شاکر بُھک دا ماریا ہاں مگر حاتم توں گھٹ کے نئیں
قلم خیرات ہے میڈی چلیندیں شام تھی ویندی
اردو ترجمہ غزل کی صورت میں
جو دن چڑھتا ہے فکروں کا بتاتے شام ہو جائے
خوشی کی آس میں آنسو بہاتے شام ہو جائے
اُنہیں کے بچے روتے ہیں وہ بُھوکے سو نہیں سکتے
جنہیں اوروں کے بچوں کو کِھلاتے شام ہو جائے
غریبوں کی دعا مانگی کہاں جاتی ہے اے مالک
مِرے آنسو بنیں تسبیح گھماتے شام ہو جائے
ٹلیں گے دکھ کبھی میرے کبھی آئیں گے سکھ کے دن
خیالوں میں پُلااؤ یہ پکاتے شام ہو جائے
مرا رازق اجازت دے نمازیں رات کو پڑھ لوں
مجھے تو رات کی روٹی کماتے شام ہو جائے
میں شاکر بھوک کا مارا مگر حاتم کا ہمسر ہوں
قلم خیرات ہے میری چلاتے شام ہو جائے