کاشفی

محفلین
شام کے خلاف یکطرفہ کارروائی جارحیت ہو گی
130831113901_putin_304x171_ap_nocredit.jpg

روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شام کے خلاف یکطرفہ کارروائی کرنے پر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ سے منظوری کے بغیر شام کے خلاف کوئی بھی فوجی کارروائی ’جارحیت‘ ہو گی۔
صدر پوتن نے کہا ہے کہ روس نے شام کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی حمایت سے انکار نہیں کیا بشرطیکہ شامی حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیار کے استعمال کے ایسے ٹھوس ثبوت مل جائیں جس کی تردید نہ کی جا سکے۔
اس سے پہلے امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے ممبران نے شام میں محددو اور نپی تلی امریکی فوجی کارروائی کرنے کی ایک مجوزہ قرارداد پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے خارجہ امور کی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے بعد اس مجوزہ قرارداد کو جاری کیا گيا۔
اس مجوزہ قرارداد پر آئندہ ہفتے ووٹنگ ہو گی اور اس میں شام کے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی کو زیادہ سے زیادہ ساٹھ دنوں میں مکمل کرنے کی بات کی گئی ہے جس میں کانگریس کی اجازت سے مزید تیس دنوں کی توسیع بھی ممکن ہو گی۔
مجوزہ قرارداد میں شام کے خلاف زمینی کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ’ اس بات کی اجازت نہیں کہ امریکہ کی مسلح افواج کو شام میں زمینی کارروائی کے لیے استعمال کیا جائے۔‘
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ بشارالاسد حکومت کی جانب سے کیمیائي ہتھیار کے استعمال کے نتیجے میں امریکہ کو حرکت میں آنا پڑا۔
130904025839_john_kerry_304x171__nocredit.jpg

جان کیری نے کہا کہ یہ وقت نہیں کہ قتل عام کا خاموش تماشائی بنا جائے
دوسری جانب ریپبلکن پارٹی کے اہم رہنماؤں جان بوہنر اور ایرک کینٹور نے بھی شام کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کو حاصل قرارداد کے مسودے کےمطابق ’سینیٹرز کی یہ خواہش ہے کہ یہ آپریشن محدود ہو اور شام کے خلاف امریکی فضائیہ کا ضروری استعمال ہو۔‘
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر بشار الاسد حکومت نے کیمیائی ہتھیار تیار کیے اور دمشق کے نزدیک 21 اگست کو ان کا استعمال بھی کیا۔
بی بی سی کے شمالی امریکہ کے ایڈیٹر مارک مارڈیل کا کہنا ہے کہ یہ حتمی تحریک نہیں ہے لیکن اس سے بہت واضح ہوتا ہے کہ کمیٹی ممبران کس طرح سے سوچ رہے ہیں۔
جان کیری نے کہا کہ صدر اوباما نے امریکی جنگ کی اجازت نہیں مانگی ہے ’انہوں نے صرف اس بات کی اجازت مانگی ہے کہ وہ یہ واضح کر دیں اور اس بات کی یقین دہانی کرا دیں کہ امریکہ وہی ہے جسے ہم امریکہ کہتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر ہم اس سے علیحدہ رہے تو دوسرے ممالک کو بھی عام تباہی کے ہتھیار بنانے کی اجازت مل جائے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ وقت نہیں کہ آرام سے کرسی پر علیحدہ ہو کر بیٹھا جائے۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ وقت نہیں کہ قتل عام کا خاموش تماشائی بنا جائے۔‘
 
Top