شامِ شہر یاراں۔۔ فیض (کلامِ تازہ)

الف عین

لائبریرین
کلامِ تازہ


دلِ من مسافرِ من

مرے دل، مرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رُخ نگر نگر کا
کہ سراغ کوئی پائیں
کسی یارِ نامہ بر کا
ہر اک اجنبی سے پوچھیں
جو پتا تھا اپنے گھر کا
سرِ کوئے ناشنایاں
ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا
کبھی اُس سے بات کرنا
تمھیں کیا کہوں کہ کیا ہے
شبِ غم بُری بلا ہے
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت
جو کوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا برا تھا مرنا
اگر ایک بار ہوتا

۔۔ 1978ء
 

الف عین

لائبریرین
غزل​

سہل یوں راہِ زندگی کی ہے
ہر قدم ہم نے عاشقی کی ہے
ہم نے دل میں سجا لئے گلشن
جب بہاروں نے بے رُخی کی ہے
زہر سے دھو لئے ہیں ہونٹ اپنے
لطفِ ساقی نے جب کمی کی ہے
بس وہی سرخرو ہوا جس نے
بحرِ خوں میں شناوری کی ہے
جو گزرتے تھے داغ پر صدمے
اب وہی کیفیت سبھی کی ہے
۔۔ 1978ء
 

الف عین

لائبریرین
پھول مرجھا گئے ہیں سارے​


پھول مرجھا گئے ہیں سارے
تھمتے نہیں آسماں کے آنسو
شمعیں بے نور ہو گئی ہیں
آئینے چور ہو گئے ہیں
ساز سب بج کے کھو گئے ہیں
پایلیں بُجھ کے سو گئی ہیں
اور اُن بادلوں کے پیچھے
دور اِس رات کا دلارا
درد کا ستارا
ٹمٹما رہا ہے
جھنجھنا رہا ہے
مسکرا رہا ہے

۔۔ 1978ء
 

الف عین

لائبریرین
غزل


ستم سکھلائے گا رسمِ وفا، ایسے نہیں ہوتا
صنم دکھلائیں گے راہِ خدا ایسے نہیں پوتا
گنو سب حسرتیں جو خوں ہوئی ہیں تن کے مقتل میں
مرے قاتل حسابِ دوستاں ایسے نہیں ہوتا
جنإ بِ دل میں کام آتی ہیں تدبیریں نہ تعزیریں
یہاں پیمانِ تسلیم و رضا ایسے نہیں ہوتا
ہر اک شب، ہر گھڑی، گزرے قیامت، یوں تو ہوتا ہے
مگر ہر صبح ہو روزِ جزا ایسے نہیں ہوتا
رواں ہے نبضِ دوراں گردشوں میں آسماں سارے
جو تم کہتے ہو سب اچھا، کبھی ایسے نہیں ہوتا

۔۔ 1978ء
 

الف عین

لائبریرین
کوئ عاشق کسی محبوبہ سے


گلشنِ یاد میں گر آج دمِ بادٕ صبا
پھر سے چاہے گل افشاں ہو تو ہو جانے دو
عمرِ رفتہ کے کسی طاق پہ بسرا ہوا درد
پھر سے چاہے کہ فروزاں ہو تو ہو جانے دو
یسے بیگانے سے اب ملتے ہو، ویسے ہی سہی
آؤ دو چار گھڑی میرے مقابل بیٹھو
گر چہ مل بیٹھیں گے ہم تم جو ملاقات کے بعد
اپنا احساسِ زیاں جانئے کتنا ہوگا
ہم سخن ہوں گے جو ہم دونوں تو ہر بات کے بیچ
ان کہی باتوں کا موہوم سا پردا ہوگا
کوئی اقرار نہ میں یاد دلاؤں گا نہ تم
کوئ مضموں نہ وفا کا ، جفا کا پوگا
گردِ اّیام کی تحریر کو دھونے کے لیے
تم سے گویا ہیں دمِ دید جو بوجھل پلکیں
تم جو چاہو تو سنو اور نہ چاہو نہ سنو
اور جو حرف کریں مجھ سے گریزاں آنکھیں
تم جو چاہو تو کہو اور نہ چاہو نہ کہو
۔۔ 1978ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
معذرت کے ساتھ اعجاز صاحب لیکن اس نظم میں کچھ غلطیاں تھیں جنہیں درست کر دیا ہے-

کوئ عاشق کسی محبوبہ سے

گلشنِ یاد میں گر آج دمِ بادٕ صبا
پھر سے چاہے کہ گل افشاں ہو، تو ہو جانے دو
عمرِ رفتہ کے کسی طاق پہ بسرا ہوا درد
پھر سے چاہے کہ فروزاں ہو، تو ہو جانے دو
جیسے بیگانے سے اب ملتے ہو، ویسے ہی سہی
آؤ دو چار گھڑی میرے مقابل بیٹھو
گر چہ مل بیٹھیں گے ہم تم، تو ملاقات کے بعد
اپنا احساسِ زیاں اور زیادہ ہوگا
ہم سخن ہوں گے جو ہم دونوں، تو ہر بات کے بیچ
ان کہی بات کا موہوم سا پردہ ہوگا
کوئی اقرار نہ میں یاد دلاؤں گا، نہ تم
کوئ مضموں وفا کا ، نہ جفا کا ہوگا
گرد ِایّام کی تحریر کو دھونے کے لیے
تم سے گویا ہوں دمِ دید جو میری پلکیں
تم جو چاہو تو سنو، اور جو نہ چاہو، نہ سنو
اور جو حرف کریں مجھ سے گریزاں آنکھیں
تم جو چاہو تو کہو اور جو نہ چاہو نہ کہو
 

الف عین

لائبریرین
ایک غلطی تو میں مان لیتا ہوں۔۔ کہ میں ’ہوگا‘ کو ’پوگا‘ تائپ کر گیا۔۔
لیکن آخری مصرعوں میں جو تم نے ’جو‘ کا اضافہ دو مصرعوں میں کیا ہے، وہ میرے اصل نسخے میں نہیں ہے۔ یوں بھی بغیر ’جو‘ کے بھی دونوں مصرعے وزن میں ہیں۔ تمھارے لکھے مصرعوں میں ’اور‘ کا ’و‘ اور جو کا ’و‘ گرتے ہیں، وہ بھی عروض کے حساب سے درست ہے۔ بات محض اصل نسخے کی ہے۔ میرے پاس ہندوستانی اڈیشن ہے۔
 
Top