شاعری سیکھیں (بارھویں قسط) ۔ مثنوی اور قطعہ

تمام قسطیں یہاں ملاحظہ فرمائیں۔

بارھویں قسط:
محترم قارئین! اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ آپ نے شاعری اور اس کے اوزان کہاں سے سیکھے تو آپ جواب دے سکتے ہیں کہ ’ماہ نامہ ذوق و شوق‘ میں شائع ہونے والے سلسلے ’شوقِ شاعری‘ کی ہر مہینے مشق کرکے سیکھے… مگر ہمارا معاملہ ذرا مختلف ہے:
ایک صاحب ہم سے پوچھنے لگے کہ کیا آپ نے باقاعدہ کہیں سے یہ فن سیکھا ہے؟ تو ہم نے انھیں جواب دیا کہ باقاعدہ کہیں سے نہیں سیکھا۔ اب آپ ہم سے یہ پوچھیں گے کہ پھر دوسروں کو کس طرح سکھا رہے ہیں؟
تو جناب ہم آپ کو یہ راز بتا ہی دیں کہ ہم نے یہ فن نہ کسی کتاب سے سیکھا ہے اور نہ ہی کسی استاد سے، البتہ اچھی خاصی شد بد ہونے کے بعد ہمیں شاعری سے متعلق کتابیں پڑھنے کا موقع ملا اور ماہر اساتذہ کی رہنمائی بھی بعد میں میسر آئی ۔
ہماری عمر تیرہ برس ہوگی کہ جب ہمیں قطعا ًاس بات کا علم نہیں تھا کہ شعر کیا ہوتا ہے اور شاعری کس چڑیا کا نام ہے؟ مدرسے میں فارسی کے ابتدائی قواعد کی کتابیں پڑھنے کے بعد ہماری ’’پنج کتاب‘‘ شروع ہوئی، اس ایک کتاب میں پانچ کتابیں تھیں، جن میں سے پہلی کتاب کا نام ’’کریما‘‘ تھا، یہ شیخ سعدی رحمہ اللہ کی لکھی ہوئی نصیحت آموز اشعار اور نظموں پر مشتمل سولہ صفحے کی مختصر سی کتاب ہے۔ اس کے ابتدائی اشعار یہ ہیں:
کریما! ببخشائے برحالِ ما۔۔۔کہ ہستم اسیرِ کمندِ ہوا
نداریم غیر از تو فریاد رس۔۔۔توئی عاصیاں را خطا بخش و بس
نگہ دار مارا ز راہِ خطا۔۔۔خطا در گزار و صوابم نما​
اس کا وزن تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے، یعنی ’’فعولن فعولن فعولن فعو‘‘
ہم آپ کو لگے ہاتھوں یہ بھی بتاتے چلیں کہ اس طرح کی نظم جس کے ہر شعر میں الگ الگ قافیہ استعمال کیا جائے اسے ’’مثنوی‘‘ کہتے ہیں۔ مثنوی کے لیے عام طور پر یہی وزن استعمال کیا جاتا ہے۔
خیر ہم نے ’’کریما‘‘ کا پہلا شعر پڑھا، سمجھا اور اس کا ترجمہ یاد کرلیا۔ استاد صاحب نے بتایا کہ اس کو شعر کہتے ہیں کہ جس میں دو جملے برابر سرابر ہوں اور دونوں کے آخر میں ایک ایک لفظ ہم قافیہ ہو جیسے کہ درج بالا پہلے شعر میں ’’ما‘‘ اور ’’ہوا‘‘ ہے، ان دونوں کے آخر میں ’’الف‘‘ ہے۔
پھر ایک روز ایک طالب علم ساتھی نے کہا:
’’یہ شیخ سعدی بھی کیا چیز تھے! اتنے اچھے انداز میں نظمیں کہہ ڈالیں۔ واقعی یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔‘‘
اس کی یہ بات سن کر ہم نے دل میں سوچا کہ وہ بھی ہماری طرح انسان تھے، لہٰذا یہ کام تو ہم بھی کرسکتے ہیں، چناں چہ یہ سوچ کر ہم کاغذ قلم لے کر بیٹھ گئے۔ حال یہ تھا کہ شاعری کی الف بے سے بھی واقف نہیں تھے اور ہماری ناواقفیت کا اس سے اندازہ لگائیں کہ ہماری معلومات یہیں تک تھی کہ شاعری کا تعلق صرف فارسی زبان سے ہے… چناں چہ ہم نے بھی فارسی زبان میں ایک نعت لکھنی شروع کردی…ایک گھنٹے میں ایک شعر لکھا جس میں فارسی کے جملہ قواعد کی خلاف وزری کے ساتھ ساتھ شاعری کے قواعد کے ساتھ بھی کافی ناروا سلوک کیا گیا تھا۔
غرض پورے دو دن تک ہم اسی دھن میں رہے کہ چار پانچ اشعار کی ایک نعت لکھیں۔ نہ کھانے پینے کا ہوش، نہ نیند کا خیال۔ بڑی مشکل سے ہم نے ایک عدد نعت لکھ ڈالی۔ پھر ہم نے اسے ایک دوسرے کاغذ پر صاف ستھرا کرکے لکھا اور گئے اپنے ایک استاد صاحب کو دکھانے، استاد صاحب اگرچہ فارسی نہیں پڑھاتے تھے، مگر انھوں نے فارسی پڑھی ہوئی تھی اور شعر و شاعری کا بھی کافی شغف ان میں پایا جاتا تھا۔
’’یہ کیا ہے بھئی…!‘‘ انھوں نے بڑی حیرت سے ہمارے نعت والے پرچے کو دیکھ کر استفسار کیا۔
’’جی… وہ… میں نے ایک نعت لکھی ہے!‘‘ ہم نے ڈرتے ڈرتے بتایا۔
’’کہاں سے دیکھ کر؟‘‘ انھوں نے نظریں نعت پر جمائے ہم سے پوچھا۔
’’جی… کہیں سے نہیں… خود لکھی ہے اپنے ذہن سے۔‘‘ ہم نے حوصلہ کرکے جواب دیا۔
’’اپنے ذہن سے…!!‘‘ شاید انھیں یقین نہیں آیا تھا، اسی لیے زیرِ لب کچھ کہنے لگے، مگر ہمیں کچھ سنائی نہ دیا۔
اور پھر وہ ہوا جس کی ہمیں توقع نہ تھی… ان کی پیشانی پرپڑنے والے بلوں سے ناگواری جھلکنے لگی… پھر وہ کہنے لگے:
’’اول تو لکھا ایسا ہے کہ سمجھ میں بڑی مشکل سے آرہا ہے… پھر فارسی کی بہت سی غلطیاں ہیں … پھر قافیہ بھی درست نہیں باندھا گیا… بیٹا! شاعری کے حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ شعر میں وزن کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے جس سے بہت کم لوگ واقف ہوتے ہیں، خود میری معلومات بھی اس بارے میں کافی محدود ہیں۔‘‘
یہ باتیں سننے کے بعد ہم سے صرف ایک سوال ہی بن پڑا: ’’جی وہ آپ جو اشعار سناتے رہتے ہیں کلاس میں؟‘‘
’’ارے برخوردار! وہ تو میں نے مشہور شعرائے کرام کے کچھ اشعار یاد کرلیے ہیں، بس وہی سناتا ہوں، خود بنانا تو مجھے بھی نہیں آتا۔‘‘ پھر ہماری پیٹھ تھپک کر مخلصانہ مشورہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’جائو، بیٹا! اپنی پڑھائی پر توجہ دو…دیکھو تمھارا خط بھی کافی خراب ہے… پھر فارسی کے قواعد بھی معلوم ہوتا ہے تمھیں صحیح سے یاد نہیں ہیں…ایسے میں اگر شاعری سیکھنے لگو گے تو نہ ادھر کے رہو گے نہ ادھر کے۔‘‘
ہم نے نعت کا پرچہ لپیٹ کر جیب میں ڈالا اور وہاں سے لوٹ آئے، مگر وہ کہتے ہیں نا کہ شکر خورے کو اللہ شکر دے ہی دیتا ہے… ہمیں بھی ہماری مطلوبہ شکر ایک دن اچانک مل گئی، یعنی اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے شعر و شاعری سیکھنے کے اسباب پیدا فرمادیے، وہ کیا اسباب ہوئے؟ یہ ہم آپ کو ان شاء اللہ تعالیٰ پھر کبھی بتائیں گے۔
خیر، مذکورہ بالا قصے سے کچھ اور نہیں تو آپ کو اتنا تو معلوم ہوہی گیا ہوگا کہ ’’مثنوی‘‘ کسے کہتے ہیں، اس کے مقابلے میں ’’قطعہ‘‘ آتا ہے، ’’قطعہ‘‘ ایسی نظم کو کہتے ہیں جس کے ہر شعر کے دوسرے مصرع کا قافیہ پوری نظم میں ایک جیسا ہو… جیسے:
عزیزو ، رفیقو ، مرے دوستو!
مری بس یہی آپ سے عرض ہے
خدا اور نبی سے محبت کرو
یہ ہر اک مسلمان پر فرض ہے
حقوق العباد آپ پورے کریں
یہ بھی زندگی کا بڑا قرض ہے​
اس میں غور کریں ہر شعر کا دوسرا مصرع مققیّٰ ہے اور ’’عرض، فرض اورقرض‘‘ قوافی ہیں۔

کام:
1۔ ’’فعولن فعولن فعولن فعو‘‘ کے وزن پر مثنوی کے انداز میں اللہ کی حمد لکھیںجس میں کم از کم پانچ اشعار ہوں۔
2۔ کسی بھی وزن میں قطعے کے انداز میں نعت لکھیں، جس میں بھی کم از کم پانچ اشعار ہوں۔

الحمدللہ بندۂ ناچیز کی کتاب "آؤ ، شاعری سیکھیں" کتابی شکل میں شائع ہوگئی ہے۔

اگلی قسط
 
آخری تدوین:

تابش کفیلی

محفلین
جناب بہت ہی عمدہ تاہم کیا آپ کے پاس کتاب آموزگار فارسی موجود ہے اگر ہے تو اسکین شدہ ایڈیشن یہاں اپلوڈ کردیں کیونکہ میں نے یہاں کراچی میں بہت تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔
 
جناب بہت ہی عمدہ تاہم کیا آپ کے پاس کتاب آموزگار فارسی موجود ہے اگر ہے تو اسکین شدہ ایڈیشن یہاں اپلوڈ کردیں کیونکہ میں نے یہاں کراچی میں بہت تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔
میرے پاس تو نہیں ہے، شاید مزمل شیخ بسمل بھائی کے پاس ہو یا وہ کوئی رہنمائی کرسکیں۔
 
تابش کفیلی صاحب
آموز گارِ فارسی کراچی میں ملنا مشکل تو بے شک ہو لیکن ناممکن نہیں ہے۔ تھوڑی محنت کے بعد مل جاتی ہے۔ آپ کراچی اردو بازار میں تین دکانیں تلاش کریں مجھے امید ہے آپ کو مل جائے گی۔ تین دکانوں میں پہلے فضلی والے، دوسرے ویلکم بکس، اور تیسرے البلال۔ اگر اس وقت موجود نہ ہوئی تو کچھ رقم انہیں پیشگی دے کر منگوا لیجئے۔ باقی صدر میں بوھری بازار کے سامنے ایمپریس مارکیٹ کے قریب بھی ایک دکان ہے اقبال سنز کے نام سے۔ وہاں سے بھی یہ کتاب منگوائی جاسکتی۔
میرا تجربہ ہے کہ ایسی کوئی کتاب نہیں جو آپ کو کراچی میں حاصل نہ ہوسکے۔ الّا یہ کہ سالوں سے اس کتاب کی اشاعت ہی نہ ہوتی ہو۔ یا دنیا میں محض چند ایک نسخے ہی موجود ہوں تو بات دوسری ہے۔:)
اس کے باوجود بھی کتابیں مل ہی جاتی ہیں۔ بس قیمت کے معاملے میں آپ کو تھوڑا کھلا ہاتھ رکھنا ہوتا ہے۔ یعنی سو روپے کی چیز کے پندرہ سو روپے دو اور حاصل کرلو۔ :)
 

تابش کفیلی

محفلین
تابش کفیلی صاحب
آموز گارِ فارسی کراچی میں ملنا مشکل تو بے شک ہو لیکن ناممکن نہیں ہے۔ تھوڑی محنت کے بعد مل جاتی ہے۔ آپ کراچی اردو بازار میں تین دکانیں تلاش کریں مجھے امید ہے آپ کو مل جائے گی۔ تین دکانوں میں پہلے فضلی والے، دوسرے ویلکم بکس، اور تیسرے البلال۔ اگر اس وقت موجود نہ ہوئی تو کچھ رقم انہیں پیشگی دے کر منگوا لیجئے۔ باقی صدر میں بوھری بازار کے سامنے ایمپریس مارکیٹ کے قریب بھی ایک دکان ہے اقبال سنز کے نام سے۔ وہاں سے بھی یہ کتاب منگوائی جاسکتی۔
میرا تجربہ ہے کہ ایسی کوئی کتاب نہیں جو آپ کو کراچی میں حاصل نہ ہوسکے۔ الّا یہ کہ سالوں سے اس کتاب کی اشاعت ہی نہ ہوتی ہو۔ یا دنیا میں محض چند ایک نسخے ہی موجود ہوں تو بات دوسری ہے۔:)
اس کے باوجود بھی کتابیں مل ہی جاتی ہیں۔ بس قیمت کے معاملے میں آپ کو تھوڑا کھلا ہاتھ رکھنا ہوتا ہے۔ یعنی سو روپے کی چیز کے پندرہ سو روپے دو اور حاصل کرلو۔ :)

جی بہت خوب۔۔۔ درست فرمایا آپ نے کراچی میں ہر کتاب مل جاتی ہے اور بہت شکریہ رہنمائی فرمانے کیلئے تاہم جامعہ کراچی کے شعبہ فارسی میں کتاب موجود ہے بس کوشش یہ ہے کہ کسی طرح فقط ایک روز کیلئے بھی مل جائے تو کاپی کروالیں اب دیکھیے کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں دعا کیجیے گا۔
کتاب غالباْ کئی سالوں سے شائع نہیں ہوتی کتاب حیدرآباد سے شائع ہوتی تھی (شاید)۔
 

ساقی۔

محفلین
محمد اسامہ سَرسَری بھائی
مشق :
1۔ ’’فعولن فعولن فعولن فعو‘‘ کے وزن پر مثنوی کے انداز میں اللہ کی حمد

سنو دوستو اک مری عرض بھی
ہے تم کو بتانا مرا فرض بھی


خدا نے بنایا ہے سب کو حسیں
بہت سی ہمیں نعمتیں بھی ہیں دیں


ہمی بے نشاں تھے ،نشاں بھی دیا
زمیں ہم کو دی تو مکاں بھی دیا


محبت بھی دی ہم کو چاہت بھی دی
تھی مشکل اگرتو، ہے راحت بھی دی


ہے شکوہ تجھے کہ بڑھاپا دیا
مگر پہلے تجھ کو سراپا دیا


ستم پر ستم تم نے کتنے کیے
گناہوں کے ساغر بھی بھر بھر پیے


کبھی اس نے تم کو جتایا ذرا؟
کسی کو تمہارا بتایا ذرا؟


کبھی تو نے اس کا ذکر بھی کیا؟
ہو کھاتے اسی کا ،شکر بھی کیا؟


ذرا سوچ اس بات پر غور کر
شکر کر شکر کر شکر اور کر!

کام نمبر 2:
کسی بھی وزن میں قطعے کے انداز میں نعت لکھیں، جس میں بھی کم از کم پانچ اشعار ہوں۔

محبت سے لفظوں کے موتی پرو کر
عقیدت کو میں آشکارا کروں گا

پاکیزہ زباں مجھ کو دے میرے مولا

محمد ﷺمحمدﷺ پکارا کروں گا

محبت سے تیری میں دل اپنا بھر کے
گناہوں سے بھی پھر کنارہ کروں گا

کروں گا میں سنت پہ تیری عمل بھی
سبھی کو میں اس پر ابھارا کروں گا

ترے نام سے رات روشن رہے گی
ترے ذکر سے دن گزارا کروں گا

قیامت کو جب سخت مشکل پڑے گی
ترے نام سے دل کو سہارا کروں گا
 
آخری تدوین:
ماشاءاللہ بہت خوب محنت کی ہے۔
دونوں نظمیں اصلاح سخن میں دے دیجیے۔
کچھ جو فوری طور پر ذہن میں آیا:
1۔ ”ذکر“ اور ”شکر“ فاع ہیں نہ کہ فعو۔
2۔ ”پاکیزہ“ کو فعولن باندھنا ٹھیک نہیں۔ یہ مفعول یا مفعولن باندھا جاسکتا ہے۔
3۔ ”کروں گا میں سنت پہ تیری عمل بھی“ الفاظ کی ترتیب مناسب رکھنی چاہیے نثر کے انداز میں ، ”تیری سنت پہ“ کے بجائے ”سنت پہ تیری“ سے تعقید پیدا ہورہی ہے ، اسے یوں بھی کیا جاسکتا ہے: ”کروں گا عمل تیری سنت پہ ہردم“
4۔ ”ترے نام سے دل کو سہارا کروں گا“ وزن سے خارج ہے۔
 

ساقی۔

محفلین
کبھی تو نے اس کا ذکر بھی کیا؟
ہو کھاتے اسی کا ،شکر بھی کیا؟

اصلاح
کبھی تو نے اس کا لیا نام بھی؟
برائی ہی کی کچھ کیا کام بھی؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذرا سوچ اس بات پر غور کر
شکر کر شکر کر شکر اور کر!


اصلاح
ذرا سوچ اس بات پر فکر کر
محبت سے اس کا تو اب ذکر کر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قیامت کو جب سخت مشکل پڑے گی
ترے نام سے دل کو سہارا کروں گا


اصلاح
قیامت کو جب سخت مشکل پڑے گی
ترا نام لے کر پکارا کروں گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ساقی۔

محفلین
پاکیزہ زباں مجھ کو دے میرے مولا
محمد ﷺمحمدﷺ پکارا کروں گا

اصلاح
خدا مجھ کو ایسی معطر زباں دے
محمد ﷺمحمدﷺ پکارا کروں گا
 

ساقی۔

محفلین
تیرھویں سبق کی مشق کافی دنوں سے مکمل نہیں ہو پا رہی ۔کافی دنوں سے کوشش کر رہا ہوں مگرکچھ ذہن میں کچھ نہیں آ رہا ہے۔ ذہن بند سا ہو گیا ہے۔
 
تیرھویں سبق کی مشق کافی دنوں سے مکمل نہیں ہو پا رہی ۔کافی دنوں سے کوشش کر رہا ہوں مگرکچھ ذہن میں کچھ نہیں آ رہا ہے۔ ذہن بند سا ہو گیا ہے۔
بس یہیں سے شاعری کا آغاز ہوتا ہے جب ذہن بند سا ہوجاتا ہے اور دل کھل سا جاتا ہے۔
 
پاکیزہ زباں مجھ کو دے میرے مولا
محمد ﷺمحمدﷺ پکارا کروں گا

اصلاح
خدا مجھ کو ایسی معطر زباں دے
محمد ﷺمحمدﷺ پکارا کروں گا
اب ردیف نہیں نبھ رہی ، کیوں کہ اس صورت میں مصرع ثانی میں ”گا“ کا محل نہیں ہے۔
”خدایا! زبانِ معطر عطا کر“ کردیں تو کیسا رہےگا؟
 

ساقی۔

محفلین
اب ردیف نہیں نبھ رہی ، کیوں کہ اس صورت میں مصرع ثانی میں ”گا“ کا محل نہیں ہے۔
”خدایا! زبانِ معطر عطا کر“ کردیں تو کیسا رہےگا؟

خدا مجھ کو ایسی معطر زباں دے۔ یہ استاد محترم اعجاز عبید صاحب کی اصلاح تھی ۔
اب جیسے آپ مناسب سمجھتے ہیں ویسے تدوین کر دیتا ہوں ۔
 
خدا مجھ کو ایسی معطر زباں دے۔ یہ استاد محترم اعجاز عبید صاحب کی اصلاح تھی ۔
اب جیسے آپ مناسب سمجھتے ہیں ویسے تدوین کر دیتا ہوں ۔
خدا مجھ کو ایسی معطر زباں دے
یہ مصرع بجائے خود بالکل درست بلکہ بہت عمدہ ہے ، مگر پھر اگلا مصرع اس طرح ہونا چاہیے:
کہ جس سے محمد پکارا کروں میں
 
السلام علیکم!
میں شاعری کرتا ہوں پہلے سے لیکن ان چیزوں کا مجھے اتنا علم نہیں تھا کچھ غزل میں وزن برابر ہے اور کچھ میں تھوڑا گھڑ بھڑ ہے لیکن کافی بہتر ہیں باقی ساکن اور متحرک الفاظ اور جو فعول فاعلن آپ نے بتائے ان کی کچھ سمجھ تو آئی لیکن آگے جب مزید ایسے الفاظ آتے گئے وہ سمجھ سے باہر ہوتے گئے بس وزن کی سمجھ آ گئی اور کچھ تھوڑی رہنمائی فرما دیں کہ کیسے ٹھیک کر سکتا ہوں۔
 
Top