شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ -2

محمد خلیل الرحمٰن​


قاعدہ کا پہلا حصہ( شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ | اردو محفل فورم (urduweb.org)) لکھے کچھ عرصہ ہوا۔ مڑ کر دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ لطیف پیرائے میں لکھی تحریر اردو محفل پر خاصی مقبول ہوئی۔ پہلے حصے میں مطمحِ نظر یہ تھا کہ شاعری سے نابلد اصحاب بحر سے کچھ واقفیت حاصل کرلیں۔ اب اگلے حصے میں کوشش یہ ہوگی کہ اردو تدریس سے وابستہ اصحاب جو شاعری کی نزاکتوں اور اور اس میں بیان کیے گیے مضامین کی لطافتیوں سے تو یقیناً واقف ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات انہیں شاعری کی تکنیکی باریکیوں سے کماحقہٗ واقفیت نہیں ہوتی، ( گویا وہ شعر کی بلاغت سے تو واقف ہوتے ہیں لیکن فصاحت کے بارے میں کم جانتے ہیں) ان کی معلومات میں کچھ اضافہ کیا جائے۔


ہم جانتے ہیں کہ شعر میں کہی گئی بات میں لطافت و نزاکت اور شاعرانہ تعلی کے ساتھ ساتھ صوتی آہنگ اور موسیقیت کو بھی لازمی دخل ہوتا ہے، جسے ہم شاعری کی زبان میں وزن کہتے ہیں۔ یہ آہنگ شعر سے نکال دیا جائے تو نری نثر بچتی ہے۔ لاکھ کوشش کرکے اسے شعری انداز میں ادا کیا جائے ، شعر کا حق ادا نہیں ہوتا۔


پہلے حصے میں اسی صوتی آہنگ کو سمجھانے کے لیے گا کر شعر پڑھنے پر زور دیا گیا تھا کہ اس سے وزن پورا ہونے کا اندازہ ہو جائے۔ شعر کے وزن کا دار و مدار الفاظ کے املا کے بجائے اس کی صوتی ادائیگی پر ہوتا ہے۔ پہلے حصے ہی سے دو اشعار اس سلسلے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ پہلا حفیظ جالندھری کی نظم کا شعر

تُڑم تُم، تُڑم تُم، تُڑم تُم، تُڑم
دُڑم دُم، دُڑم دُم، دُڑم دُم، دُڑم​

اور کسی نامعلوم شاعر کا شعر


فاعلاتُن فاعلاتُن، فاعلات
ایک تھپڑ، ایک گھونسہ، ایک لات​


استعمال کیے جاسکتے ہیں۔


اب اگر پہلی نظم کے اس شعر کو دیکھا جائے؛

بیاباں میں اونٹوں کا اِک قافلہ
چلا جارہا تھا دُڑم دُم دڑم​


اور اس کے ہر مصرع کو

تُڑم تُم، تُڑم تُم، تُڑم تُم، تُڑم​

کے مد مقابل رکھا جائے تو آوازوں کو برابر کرنے سے مندرجہ ذیل صورتِ حال ہوگی؛

بیابا تُڑم تُم

مے اوٹو تُڑم تُم

کا اِک قا تُڑم تُم

فلہ تُڑم


چلا جا تُڑم تُم

رہا تھا تُڑم تُم

دُڑم دُم تُڑم تُم

دُڑم تُڑم


گویا آوازوں یعنی صوتی آہنگ کے اعتبار سے یہ دونوں مصرعے برابر یا ہم وزن ہیں۔


اردو شاعری میں اس طرح مصرعوں کو توڑ کر وزن نکالنے کو تقطیع کہتے ہیں۔ البتہ وزن کے لیے جو باٹ یا اوزان (weight) استعمال کیے جاتے ہیں وہ کچھ اور ہیں۔


اردو شاعری کی کئی اصناف ہیں، جن میں غزل، نظم ، رباعی ، قطعہ وغیرہ شامل ہیں۔


سرِ دست مضمون میں ہم صرف غزل کی ہیئت کو استعمال کرتے ہوئے شاعری کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔


اردو غزل کا سانچہ کچھ اس قسم کا ہے کہ اس کا ہر شعر اپنے مضمون کے اعتبار سے مکمل ہوتا ہے۔ غزل کے ہر ایک شعر میں دو حصے ہوتے ہیں۔ ہر حصہ ایک مصرع کہلاتا ہے۔ دونوں مصرعوں کا وزن برابر ہوتا ہے۔


غزل میں کم از کم پانچ اشعار ہوتے ہیں۔ تمام اشعار کا وزن برابر ہوتا ہے۔ قدما ء نے غزل کے لیے کچھ مخصوص بحریں ہی استعمال کی ہیں۔


غزل کے اوزان یا باٹ:

صوتی اعتبار سے اردو شاعری کے اوزان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں۔

فعولن، فاعلن، فعلاتن، فاعلاتن، مفاعیلن، مفعولات وغیرہ

گھبرائیے نہیں۔ یہ اوپر حفیظ جالندھری کی نظم میں استعمال کیے گئے باٹوں کی طرح ہی ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ انہیں ہر شاعر استعمال کرتا ہے۔ ان ہی اوزان اور ان جیسے کچھ مزید اوزان یا باٹوں سے ملا کر غزل کی کچھ مخصوص بحریں ترتیب دی گئی ہیں۔ شعرائے کرام عام طور پر انہی بحروں کو استعمال کرتے ہیں۔


مثال کے طور پرایک بحر کچھ یوں ہے

مفعول فاعلاتُن، مفعول فاعلاتُن​

یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ پچھلے حصے میں ہم نے اسی بحر کے کئی اشعار گنگنائے تھے۔ یعنی


یارب رہے سلامت، اردو زُباں ہماری
ہر لفظ پر ہے جسکے قربان جاں ہماری​

اس کے حصے بخرے یعنی تقطیع کی جائے تو کچھ یوں ہوگی؛

یارب ر مفعول

ہے سلامت فاعلاتُن

اردو زُ مفعول

باں ہماری فاعلاتُن


ہر لفظ مفعول

پر ہے جسکے فاعلاتُن

قربان مفعول

جاں ہماری فاعلاتُن


اسی کلیے کے تحت ہم اس بحر کے بقیہ اشعار کی تقطیع بھی بآ سانی کر سکتے ہیں۔

اب تذکرہ کرتے ہیں حفیظ جالندھری کی نظم

دُڑم دُم، دُڑم دُم، دُڑم دُم ، دُڑم​

کا کہ جس کی اصل بحر

فعولن، فعولن فعولن فعو​

ہے۔ یعنی؛

دُڑم دُم فعولن

دُڑم دُم فعولن

دُڑم دُم فعولن

دُڑم فعو


اسی بحر میں محمد حسین آزاد کی نظم کا شعر کچھ یوں تھا؛

سویرے جو کل آنکھ میری کھلی
عجب تھی بہار اور عجب سیر تھی​

اب اس شعر کے بھی حصے بحرے یعنی تکنیکی طور پر ’تقطیع‘ کرنے سے مندرجہ ذیل ٹکڑے ملتے ہیں؛

سویرے فعولن

جو کل آ فعولن

کھ میری فعولن

کھُلی فعو


عجب تھی فعولن

بہار رُر فعولن

عجب سے فعولن

ر تھی فعو


یاد کیجیے کبھی آپ نے کسی محفل میں شرارت سے یه شعر ضرور پڑھا ہوگا


اکہتر بہتر تہتر چوہتر
پچھتر، چھہترستتر اٹھتر​


اسے فعولن فعولن فعولن فعولن کے ساتھ مربوط کرکے دیکھیں تو پتا چلے گا کہ یه دونوں ہم آہنگ ہیں

اکہتر فعولن

بہتر فعولن

تہتر فعولن

چوہتر فعولن


پچھتر فعولن

چھہتر فعولن

ستتر فعولن

اٹھہتر فعولن


گویا یه یونہی تکا نہیں تھا بلکہ باقاعدہ

فعولن فعولن فعولن فعولن​

کی بحر میں تھا


اسی طرح ایک اور شعر


اکسٹھ باسٹھ تریسٹھ چونسٹھ
پینسٹھ چھیاسٹھ سڑسٹھ اڑسٹھ​


کا بغور مطالعہ اسے

فعلن فعلن فعلن فعلن​

کا ہم آہنگ بتلاتا ہے۔ گویا یه ایک ہی بحر ہے۔ اس کے حصے بخرے یعنی شعری اصطلاح میں تقطیع کچھ یوں ہوگی؛

اکسٹھ فعلن

باسٹھ فعلن

تریسٹھ فعلن

چوسٹھ فعلن


اب ذرا ڈھول کی مندرجہ ذیل تال دیکھیے

ڈما ڈم ڈم، ڈما ڈم ڈم،ڈما ڈم ڈم، ڈما ڈم ڈم​

اگر آپ غالب کی مشہور غزل کو اسی تال پر ڈما ڈم ڈم کرنا چاہیں تو بآسانی کرسکتے ہیں

ہزاروں خوا ڈما ڈم ڈم

ہشیں ایسی ڈما ڈم ڈم

کہ ہر خواہش ڈما ڈم ڈم

پہ دم نکلے ڈما ڈم ڈم

اب اسی ڈما ڈم ڈم کو
مفاعیلن مفاعیلن مفاعلین مفاعیلن​

سے تبدیل کردیں تو اردو شاعری کی ایک اور بحر تیار ہے۔


گویا اب تک ہم نے جن پانچ بحروں کا مطالعہ کیا ہے وہ درج ذیل ہیں

1) مفعول فاعلاتُن، مفعول فاعلاتُن

2) فعولن، فعولن فعولن فعو

اسی بحر میں مندرجہ ذیل غزلوں، نظموں کا مطالعہ اور تقطیع کیجیے؛

سویرے جو کل آنکھ میری کھلی
عجب تھی بہار اور عجب سیر تھی​

(محمد حسین آزاد)

میں سوئی جو اِک شب تو دیکھا یه خواب
بڑھا اور جس سے مرا اضطراب​

(ماں کا خواب از علامہ اقبال)


3) فعولن فعولن فعولن فعولن

اسی بحر میں مندرجہ ذیل غزلوں کا مطالعہ اور تقطیع کیجیے؛

جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں

(مرزا غالب)​

نہ آتے ہمیں اِس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی

(علامہ اقبال)

محبت میں یه کیا مقام آرہے ہیں
کہ منزل پہ ہیں اور چلے جارہے ہیں

(جگر مرادآبادی)​

سراپا حقیقت، مجسم فسانہ
محبت کا عالم، جنوں کا فسانہ

(جگر مراد آبادی)​

ترے عشق کی انتہاء چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

(علامہ اقبال)

گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں

(علامہ اقبال)​


4) فعلن فعلن فعلن فعلن

اسی بحر میں مندرجہ ذیل غزلوں، نظموں کا مطالعہ اور تقطیع کیجیے؛

کوئی یه کہہ دے گلشن گلشن
لاکھ بلائیں ایک نشیمن

( جگر مراد آبادی)

ڈھلکے ڈھلکے آنسو ڈھلکے
چھلکے چھلکے ساغر چھلکے

( ادا جعفری)​



5) مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن

اسی بحر میں مندرجہ ذیل غزلوں، نظموں کا مطالعہ اور تقطیع کیجیے؛

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

(مرزا غالب)

چمک تیری عیاں بجلی میں، آتش میں شرارے میں
جھلک تیری ہویداچاند میں، سورج میں، تارے میں

(علامہ اقبال)​


مرزا غالب نے جن معروف بحروں کو اپنی غزلوں میں استعمال کیا ان کی فہرست اردو محفل پر موجود ہے۔ نیز کسی بھی معروف و مستند شاعر کی غزل کی بحر معلوم کرنی ہو تو اس فہرست سے دیکھ لیں یا علم عروض کی کسی کتاب یا اس علم کے کسی بھی ویب صفحے پر موجود معروف بحور کی فہرست کے ساتھ موازنہ کرکے معلوم کی جاسکتی ہے۔ ممکن ہو تو عروض ڈاٹ کام سے بحر معلوم کی جاسکتی ہے۔


غزل کے تمام اشعار ایک ہی بحر میں ہوتے ہیں۔ پہلے شعر میں شاعر قافیہ اور ردیف کا تعین کرتا ہے۔ ردیف پہلے شعر کے دونوں مصرعوں میں دہرائے جانے والے ایک سے حرف، لفظ یا الفاظ کے مجموعے کو کہا جاتا ہے جبکہ ردیف سے فوراً پہلے ہم آواز الفاظ کو قافیہ کہا جاتا ہے۔ اس پہلے شعر کو غزل کا مطلع کہتے ہیں۔ کسی بھی غزل میں کم از کم ایک مطلع ضرور ہوتا ہے۔


بعد کے اشعار میں یه تکلف برتا جاتا ہے کہ پہلا مصرع اسی بحر کا ہوتا ہے جس میں ردیف و قافیہ کی پابندی نہیں کی جاتی البتہ ہر دوسرے مصرع میں ردیف و قافیہ کی پابندی لازمی ہوتی ہے۔ آخری شعر جس میں شاعر عموماً اپنا تخلص استعمال کرتا ہے اسے مقطع کہتے ہیں۔


پہلے بھی بیان کیا جاچکا ہے کہ غزل میں عام طور پر ہر شعر میں شاعر ایک مکمل مضمون بیان کرتا ہے۔ البتہ اگر کوئی مضمون دو اشعار میں مکمل کوریا ہوتو اسے قطع بند کرنے کے لیے شاعر ان دونوں اشعار سے پہلے "ق" لکھ دیتا ہے۔


امید ہے اس مختصر بیانیے سے قارئین شاعری کے چیدہ چیدہ اہم نکات سے آگاہ ہوچکے ہوں گے۔ ان باتوں کی تفصیل درکار ہو تو ذیل میں علم عَروض کی چند اہم کتابوں اور ویب سائیٹ کے نام دئیے جارہے ہیں جن سے خاطر خواہ استفادہ کیا جاسکتا ہے۔


۱۔ شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ
۲۔ غالب کی استعمال کردہ مانوس بحریں از محمد ریحان قریشی | اردو محفل فورم (urduweb.org)
۳۔ عروضی اصطلاحات | اردو محفل فورم (urduweb.org)
۴۔ علم عروض اور شعری اصطلاحات سے متعلقہ لڑیاں | اردو محفل فورم (urduweb.org)
۵۔ اصلاح کے متمنی اس لڑی کا مطالعہ ضرور کریں | اردو محفل فورم (urduweb.org)
۶۔ شعریت، تغزل، مصرعہ سازی سے متعلق معلومات | اردو محفل فورم (urduweb.org)

۷۔ تقطیع، شاعری اور بلاگ - عروض (aruuz.com)
۸۔ (2) اساسیاتِ اُردُو | Facebook
۹۔ صریرِ خامۂ وارث (muhammad-waris.blogspot.com)
۱۰۔ آؤ شاعری سیکھیں از محمد اسامہ سرسری || Australian Islamic Library : Free Download, Borrow, and Streaming : Internet Archive

ٹیگ:
 
آخری تدوین:

فرحت کیانی

لائبریرین
شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ -2

محمد خلیل الرحمٰن​


قاعدہ کا پہلا حصہ( شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ | اردو محفل فورم (urduweb.org)) لکھے کچھ عرصہ ہوا۔ مڑ کر دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ لطیف پیرائے میں لکھی تحریر اردو محفل پر خاصی مقبول ہوئی۔ پہلے حصے میں مطمحِ نظر یہ تھا کہ شاعری سے نابلد اصحاب بحر سے کچھ واقفیت حاصل کرلیں۔ اب اگلے حصے میں کوشش یہ ہوگی کہ اردو تدریس سے وابستہ اصحاب جو شاعری کی نزاکتوں اور اور اس میں بیان کیے گیے مضامین کی لطافتیوں سے تو یقیناً واقف ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات انہیں شاعری کی تکنیکی باریکیوں سے کماحقہٗ واقفیت نہیں ہوتی، ( گویا وہ شعر کی بلاغت سے تو واقف ہوتے ہیں لیکن فصاحت کے بارے میں کم جانتے ہیں) ان کی معلومات میں کچھ اضافہ کیا جائے۔


ہم جانتے ہیں کہ شعر میں کہی گئی بات میں لطافت و نزاکت اور شاعرانہ تعلی کے ساتھ ساتھ صوتی آہنگ اور موسیقیت کو بھی لازمی دخل ہوتا ہے، جسے ہم شاعری کی زبان میں وزن کہتے ہیں۔ یہ آہنگ شعر سے نکال دیا جائے تو نری نثر بچتی ہے۔ لاکھ کوشش کرکے اسے شعری انداز میں ادا کیا جائے ، شعر کا حق ادا نہیں ہوتا۔


پہلے حصے میں اسی صوتی آہنگ کو سمجھانے کے لیے گا کر شعر پڑھنے پر زور دیا گیا تھا کہ اس سے وزن پورا ہونے کا اندازہ ہو جائے۔ شعر کے وزن کا دار و مدار الفاظ کے املا کے بجائے اس کی صوتی ادائیگی پر ہوتا ہے۔ پہلے حصے ہی سے دو اشعار اس سلسلے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ پہلا حفیظ جالندھری کی نظم کا شعر

تُڑم تُم، تُڑم تُم، تُڑم تُم، تُڑم
دُڑم دُم، دُڑم دُم، دُڑم دُم، دُڑم​

اور کسی نامعلوم شاعر کا شعر


فاعلاتُن فاعلاتُن، فاعلات
ایک تھپڑ، ایک گھونسہ، ایک لات​


استعمال کیے جاسکتے ہیں۔


اب اگر پہلی نظم کے اس شعر کو دیکھا جائے؛

بیاباں میں اونٹوں کا اِک قافلہ
چلا جارہا تھا دُڑم دُم دڑم​


اور اس کے ہر مصرع کو

تُڑم تُم، تُڑم تُم، تُڑم تُم، تُڑم​

کے مد مقابل رکھا جائے تو آوازوں کو برابر کرنے سے مندرجہ ذیل صورتِ حال ہوگی؛

بیابا تُڑم تُم

مے اوٹو تُڑم تُم

کا اِک قا تُڑم تُم

فلہ تُڑم


چلا جا تُڑم تُم

رہا تھا تُڑم تُم

دُڑم دُم تُڑم تُم

دُڑم تُڑم


گویا آوازوں یعنی صوتی آہنگ کے اعتبار سے یہ دونوں مصرعے برابر یا ہم وزن ہیں۔


اردو شاعری میں اس طرح مصرعوں کو توڑ کر وزن نکالنے کو تقطیع کہتے ہیں۔ البتہ وزن کے لیے جو باٹ یا اوزان (weight) استعمال کیے جاتے ہیں وہ کچھ اور ہیں۔


اردو شاعری کی کئی اصناف ہیں، جن میں غزل، نظم ، رباعی ، قطعہ وغیرہ شامل ہیں۔


سرِ دست مضمون میں ہم صرف غزل کی ہیئت کو استعمال کرتے ہوئے شاعری کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔


اردو غزل کا سانچہ کچھ اس قسم کا ہے کہ اس کا ہر شعر اپنے مضمون کے اعتبار سے مکمل ہوتا ہے۔ غزل کے ہر ایک شعر میں دو حصے ہوتے ہیں۔ ہر حصہ ایک مصرع کہلاتا ہے۔ دونوں مصرعوں کا وزن برابر ہوتا ہے۔


غزل میں کم از کم پانچ اشعار ہوتے ہیں۔ تمام اشعار کا وزن برابر ہوتا ہے۔ قدما ء نے غزل کے لیے کچھ مخصوص بحریں ہی استعمال کی ہیں۔


غزل کے اوزان یا باٹ:

صوتی اعتبار سے اردو شاعری کے اوزان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں۔

فعولن، فاعلن، فعلاتن، فاعلاتن، مفاعیلن، مفعولات وغیرہ

گھبرائیے نہیں۔ یہ اوپر حفیظ جالندھری کی نظم میں استعمال کیے گئے باٹوں کی طرح ہی ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ انہیں ہر شاعر استعمال کرتا ہے۔ ان ہی اوزان اور ان جیسے کچھ مزید اوزان یا باٹوں سے ملا کر غزل کی کچھ مخصوص بحریں ترتیب دی گئی ہیں۔ شعرائے کرام عام طور پر انہی بحروں کو استعمال کرتے ہیں۔


مثال کے طور پرایک بحر کچھ یوں ہے

مفعول فاعلاتُن، مفعول فاعلاتُن​

یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ پچھلے حصے میں ہم نے اسی بحر کے کئی اشعار گنگنائے تھے۔ یعنی


یارب رہے سلامت، اردو زُباں ہماری
ہر لفظ پر ہے جسکے قربان جاں ہماری​

اس کے حصے بخرے یعنی تقطیع کی جائے تو کچھ یوں ہوگی؛

یارب ر مفعول

ہے سلامت فاعلاتُن

اردو زُ مفعول

باں ہماری فاعلاتُن


ہر لفظ مفعول

پر ہے جسکے فاعلاتُن

قربان مفعول

جاں ہماری فاعلاتُن


اسی کلیے کے تحت ہم اس بحر کے بقیہ اشعار کی تقطیع بھی بآ سانی کر سکتے ہیں۔

اب تذکرہ کرتے ہیں حفیظ جالندھری کی نظم

دُڑم دُم، دُڑم دُم، دُڑم دُم ، دُڑم​

کا کہ جس کی اصل بحر

فعولن، فعولن فعولن فعو​

ہے۔ یعنی؛

دُڑم دُم فعولن

دُڑم دُم فعولن

دُڑم دُم فعولن

دُڑم فعو


اسی بحر میں محمد حسین آزاد کی نظم کا شعر کچھ یوں تھا؛

سویرے جو کل آنکھ میری کھلی
عجب تھی بہار اور عجب سیر تھی​

اب اس شعر کے بھی حصے بحرے یعنی تکنیکی طور پر ’تقطیع‘ کرنے سے مندرجہ ذیل ٹکڑے ملتے ہیں؛

سویرے فعولن

جو کل آ فعولن

کھ میری فعولن

کھُلی فعو


عجب تھی فعولن

بہار رُر فعولن

عجب سے فعولن

ر تھی فعو


یاد کیجیے کبھی آپ نے کسی محفل میں شرارت سے یه شعر ضرور پڑھا ہوگا


اکہتر بہتر تہتر چوہتر
پچھتر، چھہترستتر اٹھتر​


اسے فعولن فعولن فعولن فعولن کے ساتھ مربوط کرکے دیکھیں تو پتا چلے گا کہ یه دونوں ہم آہنگ ہیں

اکہتر فعولن

بہتر فعولن

تہتر فعولن

چوہتر فعولن


پچھتر فعولن

چھہتر فعولن

ستتر فعولن

اٹھہتر فعولن


گویا یه یونہی تکا نہیں تھا بلکہ باقاعدہ

فعولن فعولن فعولن فعولن​

کی بحر میں تھا


اسی طرح ایک اور شعر


اکسٹھ باسٹھ تریسٹھ چونسٹھ
پینسٹھ چھیاسٹھ سڑسٹھ اڑسٹھ​


کا بغور مطالعہ اسے

فعلن فعلن فعلن فعلن​

کا ہم آہنگ بتلاتا ہے۔ گویا یه ایک ہی بحر ہے۔ اس کے حصے بخرے یعنی شعری اصطلاح میں تقطیع کچھ یوں ہوگی؛

اکسٹھ فعلن

باسٹھ فعلن

تریسٹھ فعلن

چوسٹھ فعلن


اب ذرا ڈھول کی مندرجہ ذیل تال دیکھیے

ڈما ڈم ڈم، ڈما ڈم ڈم،ڈما ڈم ڈم، ڈما ڈم ڈم​

اگر آپ غالب کی مشہور غزل کو اسی تال پر ڈما ڈم ڈم کرنا چاہیں تو بآسانی کرسکتے ہیں

ہزاروں خوا ڈما ڈم ڈم

ہشیں ایسی ڈما ڈم ڈم

کہ ہر خواہش ڈما ڈم ڈم

پہ دم نکلے ڈما ڈم ڈم

اب اسی ڈما ڈم ڈم کو
مفاعیلن مفاعیلن مفاعلین مفاعیلن​

سے تبدیل کردیں تو اردو شاعری کی ایک اور بحر تیار ہے۔


گویا اب تک ہم نے جن پانچ بحروں کا مطالعہ کیا ہے وہ درج ذیل ہیں

1) مفعول فاعلاتُن، مفعول فاعلاتُن

2) فعولن، فعولن فعولن فعو

اسی بحر میں مندرجہ ذیل غزلوں، نظموں کا مطالعہ اور تقطیع کیجیے؛

سویرے جو کل آنکھ میری کھلی
عجب تھی بہار اور عجب سیر تھی​

(محمد حسین آزاد)

میں سوئی جو اِک شب تو دیکھا یه خواب
بڑھا اور جس سے مرا اضطراب​

(ماں کا خواب از علامہ اقبال)


3) فعولن فعولن فعولن فعولن

اسی بحر میں مندرجہ ذیل غزلوں کا مطالعہ اور تقطیع کیجیے؛

جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں

(مرزا غالب)​

نہ آتے ہمیں اِس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی

(علامہ اقبال)

محبت میں یه کیا مقام آرہے ہیں
کہ منزل پہ ہیں اور چلے جارہے ہیں

(جگر مرادآبادی)​

سراپا حقیقت، مجسم فسانہ
محبت کا عالم، جنوں کا فسانہ

(جگر مراد آبادی)​

ترے عشق کی انتہاء چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

(علامہ اقبال)

گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں

(علامہ اقبال)​


4) فعلن فعلن فعلن فعلن

اسی بحر میں مندرجہ ذیل غزلوں، نظموں کا مطالعہ اور تقطیع کیجیے؛

کوئی یه کہہ دے گلشن گلشن
لاکھ بلائیں ایک نشیمن

( جگر مراد آبادی)

ڈھلکے ڈھلکے آنسو ڈھلکے
چھلکے چھلکے ساغر چھلکے

( ادا جعفری)​



5) مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن

اسی بحر میں مندرجہ ذیل غزلوں، نظموں کا مطالعہ اور تقطیع کیجیے؛

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

(مرزا غالب)

چمک تیری عیاں بجلی میں، آتش میں شرارے میں
جھلک تیری ہویداچاند میں، سورج میں، تارے میں

(علامہ اقبال)​


مرزا غالب نے جن معروف بحروں کو اپنی غزلوں میں استعمال کیا ان کی فہرست اردو محفل پر موجود ہے۔ نیز کسی بھی معروف و مستند شاعر کی غزل کی بحر معلوم کرنی ہو تو اس فہرست سے دیکھ لیں یا علم عروض کی کسی کتاب یا اس علم کے کسی بھی ویب صفحے پر موجود معروف بحور کی فہرست کے ساتھ موازنہ کرکے معلوم کی جاسکتی ہے۔ ممکن ہو تو عروض ڈاٹ کام سے بحر معلوم کی جاسکتی ہے۔


غزل کے تمام اشعار ایک ہی بحر میں ہوتے ہیں۔ پہلے شعر میں شاعر قافیہ اور ردیف کا تعین کرتا ہے۔ ردیف پہلے شعر کے دونوں مصرعوں میں دہرائے جانے والے ایک سے حرف، لفظ یا الفاظ کے مجموعے کو کہا جاتا ہے جبکہ ردیف سے فوراً پہلے ہم آواز الفاظ کو قافیہ کہا جاتا ہے۔ اس پہلے شعر کو غزل کا مطلع کہتے ہیں۔ کسی بھی غزل میں کم از کم ایک مطلع ضرور ہوتا ہے۔


بعد کے اشعار میں یه تکلف برتا جاتا ہے کہ پہلا مصرع اسی بحر کا ہوتا ہے جس میں ردیف و قافیہ کی پابندی نہیں کی جاتی البتہ ہر دوسرے مصرع میں ردیف و قافیہ کی پابندی لازمی ہوتی ہے۔ آخری شعر جس میں شاعر عموماً اپنا تخلص استعمال کرتا ہے اسے مقطع کہتے ہیں۔


پہلے بھی بیان کیا جاچکا ہے کہ غزل میں عام طور پر ہر شعر میں شاعر ایک مکمل مضمون بیان کرتا ہے۔ البتہ اگر کوئی مضمون دو اشعار میں مکمل کوریا ہوتو اسے قطع بند کرنے کے لیے شاعر ان دونوں اشعار سے پہلے "ق" لکھ دیتا ہے۔


امید ہے اس مختصر بیانیے سے قارئین شاعری کے چیدہ چیدہ اہم نکات سے آگاہ ہوچکے ہوں گے۔ ان باتوں کی تفصیل درکار ہو تو ذیل میں علم عَروض کی چند اہم کتابوں اور ویب سائیٹ کے نام دئیے جارہے ہیں جن سے خاطر خواہ استفادہ کیا جاسکتا ہے۔


۱۔ شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ
۲۔ غالب کی استعمال کردہ مانوس بحریں از محمد ریحان قریشی | اردو محفل فورم (urduweb.org)
۳۔ عروضی اصطلاحات | اردو محفل فورم (urduweb.org)
۴۔ علم عروض اور شعری اصطلاحات سے متعلقہ لڑیاں | اردو محفل فورم (urduweb.org)
۵۔ اصلاح کے متمنی اس لڑی کا مطالعہ ضرور کریں | اردو محفل فورم (urduweb.org)
۶۔ شعریت، تغزل، مصرعہ سازی سے متعلق معلومات | اردو محفل فورم (urduweb.org)

۷۔ تقطیع، شاعری اور بلاگ - عروض (aruuz.com)
۸۔ (2) اساسیاتِ اُردُو | Facebook
۹۔ صریرِ خامۂ وارث (muhammad-waris.blogspot.com)
۱۰۔ آؤ شاعری سیکھیں از محمد اسامہ سرسری || Australian Islamic Library : Free Download, Borrow, and Streaming : Internet Archive

ٹیگ:
السلام علیکم خلیل بھائی
حسب روایت بہترین تحریر۔ ایک سوال تھا کہ کیا کوئی ایسا طریقہ ہے کہ خوف بخود شعر کہا اور لکھا جائے۔ آخر شاعری کا اسلوب اتنا قدیم ہے کوئی نہ کوئی طریقہ تو ہو گا۔ کیا معلوم کوئی poetry for dummies جیسی کتاب لکھی گئی ہو۔
 

اکمل زیدی

محفلین
السلام علیکم خلیل بھائی
حسب روایت بہترین تحریر۔ ایک سوال تھا کہ کیا کوئی ایسا طریقہ ہے کہ خوف بخود شعر کہا اور لکھا جائے۔ آخر شاعری کا اسلوب اتنا قدیم ہے کوئی نہ کوئی طریقہ تو ہو گا۔ کیا معلوم کوئی poetry for dummies جیسی کتاب لکھی گئی ہو۔
اگر زیادہ جلدی ہے تو ایک شارٹ کٹ کا لنک دے رہا ہوں یہاں سے آپ کی خواہش پوری ہونے کے چانسز پکے ہو سکتے ہیں۔۔۔۔
طبع زاد اشعار کی بیت بازی
 
کیا کہنے جناب
بہت آسان اور دلچسپ انداز میں اسرار و رموز سے آگاہ کیا
امید ہے کہ شاعری سیکھنے والے اس سے ضرور استفادہ کریں گے
سلامت رہیں
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اگر زیادہ جلدی ہے تو ایک شارٹ کٹ کا لنک دے رہا ہوں یہاں سے آپ کی خواہش پوری ہونے کے چانسز پکے ہو سکتے ہیں۔۔۔۔
طبع زاد اشعار کی بیت بازی
بہت شکریہ اکمل بھائی۔ دلچسپ سلسلہ ہے۔ پڑھتی رہوں گی لیکن اس میں بھی تو خود سے شعر بنانا ہے یا کم از کم مصرعہ ٹانکنا ہے اور یہی کام تو آتا نہیں۔ آخر شاعر حضرات کوئی مشین کیوں نہیں ایجاد کرتے جو خود بخود شعر کہہ سکے۔
 
خلیل بھائی آپ کی جنگل بک والی لڑی کا ربط نہیں مل رہا۔ میں نے وہاں تبصرہ لکھنا ہے۔
حاضر ہے۔ ہم نے پی ڈی ایف فائل بنارکھی ہے اسی میں ترامیم کررہے ہیں۔

’’جنگل بک‘‘ کی اس فائل کو دیکھ کر اپنی قیمتی رائے دیجئے

اس میں تمام تصاویر فرزندِ ارجمند محمد عثمان خلیل نے بنائی ہیں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
حاضر ہے۔ ہم نے پی ڈی ایف فائل بنارکھی ہے اسی میں ترامیم کررہے ہیں۔

’’جنگل بک‘‘ کی اس فائل کو دیکھ کر اپنی قیمتی رائے دیجئے

اس میں تمام تصاویر فرزندِ ارجمند محمد عثمان خلیل نے بنائی ہیں۔
بہت شکریہ خلیل بھائی۔ یہ میں نے کب سے ڈاونلوڈ کر لی تھی لیکن اس پر تبصرہ نہیں کر پائی تھی۔ اب کرتی ہوں۔
 

اکمل زیدی

محفلین
بہت شکریہ اکمل بھائی۔ دلچسپ سلسلہ ہے۔ پڑھتی رہوں گی لیکن اس میں بھی تو خود سے شعر بنانا ہے یا کم از کم مصرعہ ٹانکنا ہے اور یہی کام تو آتا نہیں۔ آخر شاعر حضرات کوئی مشین کیوں نہیں ایجاد کرتے جو خود بخود شعر کہہ سکے۔
شعر بنانا یا ٹانکنا کمال نہیں بات تو تب ہے جب شعر دیکھتے ہی آہ یا واہ نکلے۔۔۔باقی رہی مشین کی بات تو اگر ہوتی بھی تواس میی سے بھی معرض وجود میں آنے والے شاعر ایسے ہی ہوتے جیسے چائینیز انڈے بناتے ہیں مشین سے ۔۔۔۔ دیکھنے میں انڈے ہی لگتے ہیں مگر ہوتے نہیں۔۔۔:LOL:
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب خلیل بھائی!

بہت آسان کر دیا آپ نے تو ۔ اگر بحروں کے افاعیل ہمیں بھی اتنے ہی دلچسپ ملے ہوتے تو بہت جلدی شاعری سیکھ لیتے۔ :) :) :)

ہم تو یہی سمجھ کر آئے تھے کہ شاعری اور شاعروں پر ہنسنے کا موقع ملے گا لیکن آپ نے تو باتوں باتوں میں کئی ایک باتیں سکھا دیں۔ :) :) :)
 
السلام علیکم خلیل بھائی
حسب روایت بہترین تحریر۔ ایک سوال تھا کہ کیا کوئی ایسا طریقہ ہے کہ خوف بخود شعر کہا اور لکھا جائے۔ آخر شاعری کا اسلوب اتنا قدیم ہے کوئی نہ کوئی طریقہ تو ہو گا۔ کیا معلوم کوئی poetry for dummies جیسی کتاب لکھی گئی ہو۔

جی ہاں بہنا! خیال یہی تھا کہ poetry for dummies جیسی ہی کوئی تحریر لکھی جائے۔ اب بھی ہمارا یہی خیال ہے کہ ان دونوں حصوں کو ملاکر پڑھنے سے آپ کے دل سے نہ صرف عروض کی دقیق بحثوں کا خوف نکل جاتا ہے بلکہ آپ کو بحر اور اوزان سے خاطر خواہ واقفیت ہوجاتی ہے۔

شاعری کرنے کے لیے سب سے پہلا تقاضا تو شعر کی موسیقیت یا اس کے آہنگ کو سمجھا جائے ، پھر شاعری کا خوب مطالعہ کیا جائے۔ اگر آپ نے اچھے شعراء کا کلام کا مطالعہ نہیں کیا اور خود شعر کہنا چاہتے ہیں تب تو خاصی مایوسی ہوسکتی ہے۔

چند اشخاص میں تو یہ صلاحیت خداداد ہوتی ہے لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں مطالعے سے یہ صلاحیت جلا پاتی ہے۔
 
اچھی شاعری کا مطالعہ
شعر بنانا یا ٹانکنا کمال نہیں بات تو تب ہے جب شعر دیکھتے ہی آہ یا واہ نکلے۔۔۔باقی رہی مشین کی بات تو اگر ہوتی بھی تواس میی سے بھی معرض وجود میں آنے والے شاعر ایسے ہی ہوتے جیسے چائینیز انڈے بناتے ہیں مشین سے ۔۔۔۔ دیکھنے میں انڈے ہی لگتے ہیں مگر ہوتے نہیں۔۔۔:LOL:
اچھی شاعری کا مطالعہ ضروری ہے
 

سیما علی

لائبریرین
بھیا اتنے اچھے طریقے سے سمجھایا ہے آپ نے ۔۔۔لیکن بھیا ہمارا ماننا ہے کہ یہ ایک خداداد صلاحیت ہے نکھار تو آسکتا ہے مگر یہ ہر ایک کے بس کی نہیں ماشاء اللّہ آپ پہ بر محل و بر موقعہ آمد ہو تی ہے یہ عطیہٓ خداوندی ہے ۔سلامت رہیے ڈھیر ساری دعائیں۔
 
بہت خوب خلیل بھائی!

بہت آسان کر دیا آپ نے تو ۔ اگر بحروں کے افاعیل ہمیں بھی اتنے ہی دلچسپ ملے ہوتے تو بہت جلدی شاعری سیکھ لیتے۔ :) :) :)

ہم تو یہی سمجھ کر آئے تھے کہ شاعری اور شاعروں پر ہنسنے کا موقع ملے گا لیکن آپ نے تو باتوں باتوں میں کئی ایک باتیں سکھا دیں۔ :) :) :)
آپ جیسے خوبصورت اور صاحبِ طرز شاعر کی جانب سے یہ الفاظ ہمارا دل بڑھاتے ہیں۔ قاعدے کی خوبیوں کو مبتدی نہیں جان سکتے ۔ ان بنیادی باتوں کو آپ جیسے ایکسپرٹ ہی جان سکتے ہیں کہ مبتدیوں کو سکھانے کی کوششوں میں کس قدر کامیابی ہوئی ۔جزاک اللہ
 
Top