شاخ سے توڑ لیا میں نے ارادہ اس کا - غزل اصلاح کے لئے

ایک غزل اصلاح کے لئے پیش کر رہا ہوں ۔
بحر رمل مثمن مخبون محذوف
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
استاد محترم جناب الف عین سر سے اصلاح کی درخواست ہے دیگر احباب کے مشوروں اور تبصروں کا بھی منتظر ہوں۔
اس غزل میں شاید آپ کو اذیت پسندی کا رحجان نظر آئے لیکن اسے میری بے رحم طبیعت پر محمول نہ کیا جائے ۔:)
*******............********............********
کہکشاں بن کے کلی کھلنے ہی والی تھی تبھی
شاخ سے توڑ لیا میں نے ارادہ اس کا

بے خیالی میں کھِلے پھول میں انگلی ڈالی
چاک تن ہو گیا کچھ اور کشادہ اس کا

پتّی پتّی کو کسی نام پہ نوچا میں نے
فال سے جاننا چاہوں تھا ارادہ اس کا

فیصلہ مل کے جدائی کا کیا تھا جس میں
کچھ تو میرا تھا مگر کافی زیادہ اس کا

کھیل کھیلا گیا دل سے تو نتیجہ یہ ہوا
اک یقیں میرا پِٹا اور ارادہ اُس کا

ایک جذبات کا کشکول ہے، کچھ ایسا لگا
نرم لہجے میں جو اظہار تھا سادہ اس کا

میں نے نقصان میں دو طرفہ اذیّت پائی
بے یقینی تھی مری، وصل کا وعدہ اس کا

کیا یہ انصاف ہے مالک، تُو بتا تَو مجھ کو
ہجر سب مجھ کو ملا جب کہ تھا آدھا اس کا

سر پہ دستار مگر آنکھ میں سفاکی تھی
تھوڑا پےچیدہ تھا قائد پہ لبادہ اس کا

کیا پتا "کُن" کسی پتھر میں لہو دوڑائے
ہو خلا کے کسی حصّے میں ارادہ اُس کا

جو قسم اس کی توجہ نے بھلا دی کاشف
کل صبح پھر سے کرونگا میں اعادہ اس کا
*******............********............*******
 

الف عین

لائبریرین
وب، ویسے اصلاح کی خاص ضرورت نہیں، سوائے یہ کہ یہ شعر واضح نہیں۔
سر پہ دستار مگر آنکھ میں سفاکی تھی
تھوڑا پےچیدہ تھا قائد پہ لبادہ اس کا
اور یہ ٹائپو ہے شاید
فال سے جاننا چاہوں تھا ارادہ اس کا
 
وب، ویسے اصلاح کی خاص ضرورت نہیں، سوائے یہ کہ یہ شعر واضح نہیں۔
سر پہ دستار مگر آنکھ میں سفاکی تھی
تھوڑا پےچیدہ تھا قائد پہ لبادہ اس کا
اور یہ ٹائپو ہے شاید
فال سے جاننا چاہوں تھا ارادہ اس کا
استاد محترم
دستار والے شعر میں بات صاف نہیں ہے سو فی الحال اسے غزل سے خارج کر رہا ہوں۔
مصرع یوں ہی تھا "فال سے جاننا چاہتا تھا ارادہ اس کا"
پتا نہیں کب میں "چاہوں" آ گیا۔
اور پہلا شعر میں بھی تھوڑی تبدیلی کی ہے:
بن کے گلزار کلی کھلنے ہی والی تھی تبھی
شاخ سے نوچ لیاتم نے ارادہ اس کا

جزاک اللہ
 
Top