سی آئی اے تیس برس سے ڈینگی کو بطور ہتھیار استعمال کررہی ہے۔ تحقیقی رپورٹ

LAST MODIFIED MAY 9, 2012 11:15


dangi%20cia.jpg

رپورٹ: سعید احمد عباسی
پاکستان اپنی تاریخ میں پہلی بار ڈینگی مچھر کے شدید حملے کی زد میںہے اور پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں صورتحال قابو سے باہردکھائی دیتی ہے۔ ڈینگی مچھر کی نشوونما کے لئے پاکستان کی آب و ہوا سازگار تو ہے مگر اچانک بڑے پیمانے پر اس مچھر کا پھیل جانا حیران کن ہے کہ پہلے کبھی یہ مچھر اس قدر بڑی تعداد میں، لاہور میں سامنے نہیں آیا۔اگر ڈینگی بخار کی تاریخ کو دیکھا جائے تو ہمیں لاہور میں ڈینگی کے اچانک اور شدید حملے کا جواب آسانی سے مل جاتا ہے۔ امریکی خفیہ ادارہ، سی آئی اے اس بخار کو گذشتہ تیس برس سے، ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے، یہاں تک کہ سی آئی اے کے خلاف ایک در خواست اقوام متحدہ میں اس حوالے سے موجود ہے کہ اس نے ڈینگی کے مچھروں کو بطور ہتھیار استعمال کر کے ایک پوری قوم کو دہشت زدہ کیا، اقوام متحدہ میں کیوبا کی حکومت کی طرف سے1997 میں دائر کی جانے والی اس درخواست کے ساتھ ناقابل تردید شواہد بھی پیش کئے گئے تھے۔ گذشتہ تیس برس میں کم از کم تین ایسے ممالک سامنے آئے ہیں، جن کی حکومتوںنے باقاعدہ طورپر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ سی آئی اے نے بطور ہتھیار، ڈینگی کے مچھر کو ان کے ملک میں پھیلا کر افرا تفری پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ان حکومتوں میں، کیوبا، افغانستان اور فلپائن شامل ہیں۔ ایسی کئی ریسرچ رپورٹس، عالمی میڈیا اور ریسرچ جرنلز میں شائع ہو چکی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ صرف ڈینگی ہی نہیں بلکہ امریکی ادارے، کئی بیماریوں، بخار کی اقسام، طاعون، جانوروں اور فصلوں کو تباہ کرنے والے وائرس کو حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں اور برسوں تک تو یہ سب کچھ قانونی اجازت کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے۔ مختلف قسم کے حیاتیاتی ہتھیار استعمال کرنے کی وجوہات، سائسندانوں کی طرف سے یہ بیان کی جاتی ہیں کہ دنیا کے مختلف خطوں کا موسم مختلف بیماریوں کے وائرس کے لئے سازگار ہوتا ہے، اسی مطابقت سے امریکی ادارے، اس خطے میں حیاتیاتی ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ حیاتیاتی ہتھیار سے ایٹمی یا کیمیائی ہتھیاروں کی طرح بڑے پیمانے پر ہلاکتیں تو نہیں ہوتیں مگر بڑے پیمانے پر افراتفری ضرور پھیل جاتی ہے، جس طرح لاہور میں اب تک ہلاکتوں کی کل تعداد200 سے بھی کم ہے مگر خوف و ہراس نے ہر طرف اپنے پنجے گاڑ لئے ہیں۔ افغانستان اور دیگر جنگ زدہ خطوں میں امریکی ادارے، اپنے ان ہتھیاروں کو محض ٹیسٹ کرنے کے لئے بھی استعمال کررہے ہیں۔ حیاتیاتی ہتھیاروں کے یہ ٹیسٹ سب سے زیادہ افغانستان میں کئے جا رہے ہیں جن کا نتیجہ وہاں عجیب اقسام کی بیماریوں کی صورت سامنے آیا ہے۔ زیر نظر رپورٹ میں ہم نے امریکی اداروں کی انہیں سرگرمیوں کا جائزہ لیا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اٹھائیس اپریل1997 کو اقوام متحدہ میں کیوبا کے مستقل نمائندے نے سیکریٹری جنرل کو ایک درخواست دی، اس کے ساتھ کئی سو صفحات پر مشتمل شواہد اور اعترافی بیانات بھی تھے۔ اس رپورٹ میں تفصیل سے بتایا گیا تھا کہ کس طرح امریکہ نے کیوبا میں حیاتیاتی ہتھیار استعمال کرتے ہوئے ڈینگی بخار اور طاعون پھیلایا۔ دراصل ہوا یہ تھا کہ21 اکتوبر1996 کو دن دس بجے کیوبن ائیر لائن کے ایک مسافر بردار جہاز نے کنٹرول ٹاور کو اطلاع دی کہ اس نے دوران پرواز ایک چھوٹے جہاز کو دیکھا ہے جو نچلی پرواز کررہا ہے اور جہاز سے زمین پر عجیب سا چھڑکائو کیا جا رہا ہے۔ کیوبن ایئر لائن کا یہ جہاز اپنی مقررہ پرواز پر متن زاس صوبے کے شہر ویراڈیرو کی طرف جا رہا تھا اور راستے میں اسے کسی دوسرے جہاز کی کوئی اطلاع نہیں تھی، جب اس نے چھوٹے جہاز سے دھواں سا نکلتا دیکھا تو دوسرے پائلٹ سے رابطہ کر کے اس کی شناخت پوچھی اور فوری طور پر کنٹرول ٹاور کو بھی بتایا، تفتیش کے دوران پتہ چلا کہ یہ امریکہ میں رجسٹرڈ جہاز ہے جس کا نمبر

ہے اور اسے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ استعمال کرتا ہے۔N3093M,
اس جہاز کے پائلٹ نے بتایا کہ اس نے امریکی ریاست فلوریڈا کے فوجی ائیر پورٹ، پیٹرک سے پرواز بھری ہے اور وہ کیوبا میں امریکی فوجی اڈے پر اترے گا۔ جہاز سے خارج ہونے والے مواد کے بارے میں امریکی پائلٹ نے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ شاید بادل کے کسی ٹکڑے کو وہ جہاز سے خارج ہونے والا مواد سمجھ رہے ہیں، یہ تمام گفتگو ریکارڈ ہو رہی تھی اور ریڈار نے امریکی جہاز کی پرواز کا پورا ریکارڈ محفوظ کر لیا تھا۔ امریکی جہاز اپنی منزل پر اتر گیا اور سب اسے معمول کی کارروائی سمجھ کر بھول گئے۔ تقریبا دو ماہ بعد18 دسمبر1996 کو کیوبا کے متن زاس صوبے میں ڈینگی کا پہلا کیس سامنے آیا، اس کے ساتھ ہی یہ اشارے بھی ملے کہ طاعون کی وبا پھیل رہی ہے۔ کیوبا، دنیا کے اس خطے میں واقع ہے جہاں ڈینگی کے مچھر کی افزائش بڑی تیزی سے ہوتی ہے مگر یہاں1981 تک کبھی ڈینگی نے شدت اختیار نہیں کی تھی۔1981 کے بڑے حملے کے بعد بھی کیوبا نے اپنی ریسرچ اور لیبارٹریز کے ذریعے ڈینگی کا تقریبا خاتمہ کردیا تھا اور دوبارہ ڈینگی کو کبھی کوئی خطرہ نہیں بننے دیا تھا۔ دسمبر1996 کے آخر تک، کیوبا کے متن زاس صوبے میں طاعون اور ڈینگی نے اس قدر تیزی سے اپنے پنجے گاڑے کہ ہر طرف افراتفری پھیل گئی۔ کیوبن سائنسدانوں نے اپنی حکومت کو واضح طور پر بتایا کہ ڈینگی اور طاعون کا وائرس مقامی نہیں ہے بلکہ اسے باہر سے انجیکٹ کیا گیا ہے، اس رپورٹ کے ساتھ ہی کیوبا کو دو ماہ قبل والا امریکی جہاز یاد آگیا، جس سے عجیب طرح کی چھڑکائو کیا جا رہا تھا۔ آخر کار کیوبن وزارت خارجہ نے26 دسمبر1996 کو امریکی دفتر برائے ہوانا کو ایک خط لکھا کہ وہ بتائے،21 اکتوبر کو جو امریکی سرکاری جہاز، کیوبا پر سے گزرا تھا اور اس سے کس چیز کا چھڑکائو کیا گیا تھا، وہ کیا تھا؟۔ تقریبا ڈیڑھ ماہ بعد امریکہ نے سرکاری طور پر اس خط کا جواب دیا، امریکہ کا کہنا تھا کہ معاہدے کے تحت امریکی جہازوں کو گورین ائیر کوریڈور استعمال کرنے کا حق ہے، اوراس جہاز نے یہی فضائی راستہ استعمال کیا تھا۔ کیوبا نے جو ویڈیو پیش کی ہے، جس میں امریکی جہاز سے دھواں سا نکلتا دکھائی دیتا ہے، یہ دراصل ایک سگنل تھا جو امریکی جہاز نے اپنی حفاظت کے لئے کیوبا کے جہاز کو دیا تھا، دوران پرواز امریکہ کے چھوٹے جہاز نے دیکھا کہ کیوبا کا ایک بڑا کمرشل جہاز بھی اس کوریڈور پر سفر کررہا ہے تو اس نے اپنی موجودگی ظاہر کرنے کے لئے دھواں خارج کرنے والا جنریٹر اسٹارٹ کردیا تاکہ کہیںدونوں جہاز ٹکرا نہ جائیں۔14 فروری1997 کو کیوبن نیشنل لیبارٹری نے اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کی جس میں تفصیل سے بتایاگیا تھا کہ اس بار ڈینگی اور طاعون کے لئے جو وائرس سرگرم ہے، اس کا تعلق جمیکا اور ہیٹی سے ہے، اس سے قبل یہ وائرس وہاں دیکھا جا چکا ہے اور کیوبن سائنسدانوں نے اب تک جوریسرچ کی ہے، وہ اس سے نبٹنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ اسی رپورٹ کے ساتھ ہی کیوبن حکومت نے ایک درخواست مارچ کے آخر میں اقوام متحدہ کے شعبہ برائے انسداد حیاتیاتی ہتھیار، کو بھیجی کہ وہ اس وائرس سے نبٹنے میں اس کی مدد کرئے۔ اس کے ٹھیک ایک ماہ بعد کیوبا نے اپنی وہ شکایت امریکہ کے خلاف اقوام متحدہ میں جمع کرادی، جو، اب تک حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال پر امریکہ کے خلاف پہلی درخواست ہے۔ یہ ایک دلچسپ درخواست تھی جس میں خود امریکی دستاویزات سے ہی اس کے خلاف ثبوت مل گئے تھے، دراصل جس جہاز کے بارے میں امریکہ نے کہا تھا کہ اس نے صرف سگنل دینے کے لئے اسموک جنریٹر چلایا تھا، امریکہ کے شعبہ سول ہوا بازی میں اس جہاز کا ریکارڈ آسانی سے دستیاب تھا، اس جہاز کو
SAR aircraft, register
N3093M
کے نام سے رجسٹرڈ کیا گیا تھا اور جہاز کی تفصیلات میں واضح طور پر درج تھا کہ اس میں کوئی اسموک جنریٹر نصب نہیں ہے اور اس جہاز کو خاص طور پر ادویات کے چھڑکائو کے لئے تیار کیا گیا ہے، جہاز میں دو قسم کے نظام نصب تھے، ایک کے ذریعے لیکویڈ قسم کی ادویات یا اجزاء زمین پر چھڑکے جا سکتے تھے اور دوسرے کے ذریعے ٹھوس قسم کے اجزاء زمین پر چھڑکے جا سکتے تھے۔ کیوبا نے اس امریکی حملے کے خلاف اقوام متحدہ میں جو درخواست دی تھی اس کا ریفرنس نمبر
LA GUERRA BIOLÓGICA DE EE.UU. CONTRA CUBA (I), AIN, 7/02 ہے۔

اس درخواست میں امریکہ کے چھ سابق، کیوبن ایجنٹوں کے اعترافات کے علاوہ دو کتابوں کے حوالے بھی دئے گئے تھے، یہ کتابیں سی آئی اے کے ساتھ کام کرنے والوں نے لکھی تھیں اور ان میں واضح طور پر حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال کے طریقہ کار کو بے نقاب کیا گیا تھا۔ اس بارے میں مزید تفصیل کے لئے دیکھیں امریکہ سے2000 میں شائع ہونے والی کتاب:
Levy, Barry S. and Sidel, Victor W. War and Public Health, American Public Health Association, 2000, pp. 110-15, (ISBN 0875530230).
کیوبا کے اس اقدام پر اقوام متحدہ نے تو کوئی ایکشن نہیں لیا مگر کیوبا کو یہ فائدہ ہوا کہ امریکہ کی طرف سے اس پر دوبارہ اس قسم کا کوئی حملہ نہیں کیا گیا۔ کیوبا پر امریکی حیاتیاتی ہتھیاروں کے حملوں کا آغاز بظاہر1960 کی دہائی میں ہی ہو گیا تھا مگر ان میں دو حملے بہت شدید قسم کے تھے، ان میں سے ایک1981 میں کیاگیا اور اس پر خود کیوبا کے صدر کو سامنے آ کر امریکہ سے احتجاج کرنا پڑا اور دوسرا حملہ1996 کا تھا، جس کے بعد کیوبا اقوام متحدہ تک جا پہنچا، اس کے بعد سے اب تک کیوبا محفوظ ہے۔1981 کا امریکہ ڈینگی حملہ اس لحاظ سے بڑا دلچسپ تھا کہ امریکی سی آئی اے نے کیوبا میں جن افراد کو اپنا ایجنٹ بنایا تھا، وہ سب محکمہ صحت سے تعلق رکھتے تھے، بلکل اسی طرح جس طرح اسامہ کی تلاش میں جعلی ویکسینیشن مہم چلانے کے لئے سی آئی اے نے خیبر پختون کے محکمہ صحت سے اپنے ایجنٹ بھرتی کئے۔ کیوبا میں جب امریکیوں نے اپنے ایجنٹ بھرتی کرنا شروع کئے تو کیوبا کے سرکاری ملازم ڈبل ایجنٹ بن گئے، بعد میں ان کیوبن شہریوں کو قومی ہیرو کا درجہ دیا گیا کیونکہ انہوںنے میڈیا کے سامنے آ کر سی آئی اے کے لئے کام کرنے کا اعتراف کر لیا تھا۔ سی آئی اے کے اس آپریشن کا تعلق 1981 کے کیوبن ڈینگی حملے سے ہے۔ اس حملے کی کہانی،1978 سے شروع ہوتی ہے، اس وقت کیوبا کا ایک ڈاکٹر ساگارو گونزیلا، ایک خصوصی میڈیکل کورس کے لئے میکسیکو میںموجود تھا، جہاں اس سے سی آئی اے نے رابطہ کیا اور امریکہ کے لئے چھوٹے موٹے کام کرنے کی پیشکش کی، سی آئی اے کا کہنا تھا کہ وہ اس سے کیوبا کے خلاف کوئی کام نہیں لیں گے اگر وہ کوئی کام، اپنے ملک کے خلاف تصور کرے تو بے شک اسے کرنے سے انکار کردے، اس طرح ڈاکٹر ساگارو سی آئی اے کا ایجنٹ بن گیا۔1979 میں ڈاکٹر ساگارو کو کہا گیا کہ وہ موزمبیق پہنچ جائے، جہاں اس سے کوئی رابطہ کرے گا، موزمبیق میں ڈاکٹر ساگارو سے جیمز اسمتھ نامی سی آئی اے ایجنٹ ملا اور اسے ہدایت دی کہ وہ کیوبا جا کر خاموشی سے یہ معلومات حاصل کرئے کہ کیوبا میں اگر ڈینگی بخار پھیل جاتا ہے تو اس سے نبٹنے کے لئے کیا تیاریاں کی گئی ہیں۔ کیوبن ڈاکٹر کو بتایا گیا تھا کہ دراصل کیوبا ڈینگی مچھر کی افزائش کے لئے انتہائی سازگار ملک ہے، گو کہ وہاں ابھی تک ڈینگی نہیں پھیلا ہے مگر اس کا خطرہ تو ہے، کیوبا میں ہی امریکہ فوجی بھی بڑی تعداد میںموجود ہیں، اس لئے ان کی حفاظت کے لئے سی آئی اے یہ جاننا چاہتی ہے کہ کیوبا میں مچھروں سے بچائو کے لئے کیا کیا جا رہا ہے، کس قسم کی ادویات استعمال کی جا رہی ہیں اور کیا کسی کو یہ علم بھی ہے کہ اگر وہاں ڈینگی پھیلا تو اس سے کیسے نبٹا جائے گا؟ کیا اس لئے کچھ تیاریاں کی گئی ہیں؟ ظاہر ہے کہ یہ بے ضرر سی معلومات تھیں جو ڈاکٹر ساگاروں نے جمع کرنے پر آمادگی ظاہر کردی اور کیوبا روانہ ہو گیا۔ اسی طرح سی آئی اے کا دوسرا کیوبن ایجنٹ ایک، ایگرونومنسٹ، لوپاز نونیز تھا۔ اسے سی آئی اے کا ایجنٹ، ڈیواڈسن، کیوبا کے اندر ہی ہینڈل کر رہا تھا اور اس کے ذمہ یہ کام تھا کہ وہ ملک کے مختلف حصوں سے زمین کے نمونوں کی رپورٹس لا کر دے۔1980 کے جولائی تک سی آئی اے کی یہ مصروفیات جاری رہیں اور وہ کیوبا کے بارے میں اس قسم کی معلومات جمع کرتی رہی۔ سی آئی اے کی تیسری کیوبن ایجنٹ ماریہ سینسیٹیبان نامی ایک ڈاکٹر تھی، یہ تقریبا گیارہ برس سے سی آئی اے کے لئے کام کررہی تھی اور اس نے اپنے شوہر البرٹو آگا کو بھی سی آئی اے کے لئے بھرتی کیا تھا۔ گو کہ یہ سب لوگ امریکہ کے لئے کام کرتے رہے مگر حقیقت یہ تھی کہ سب ڈبل ایجنٹ تھے اور کیوبن انٹیلی جنس سے بھی رابطے میں تھے۔1980 کے اختتام پر اچانک یہ اطلاعات ملیں کہ امریکہ کے زیر انتظام کیوبن حصوں میں امریکی فوجیوںکو ڈینگی سے بچائو کی ویکسئین دی جا رہی ہے اور پھر 1981 شروع ہوتے ہی کیوبا میں ڈینگی کا انتہائی شدید حملہ ہو گیا۔ اس حملے میں تین لاکھ کیوبن نشانہ بنے اور دو سو کے قریب ہلاک ہو گئے جن میں سے 101 پندرہ برس سے کم عمر کے بچے تھے۔ کیوبا پر ڈینگی کا حملہ ہوتے ہی سی آئی اے کے کیوبن ایجنٹس نے فورا اپنی وفاداریاں بدل دیں اور منظر عام پر آ کر سب کچھ قبول کرلیا۔26 جولائی1981 کو کیوبا کے صدر کاسترو میڈیا پر نمودار ہوئے اور انہوں نے تمام کہانی دنیا کو سنا دی اور ساتھ ہی امریکہ سے سخت احتجاج بھی کیا۔ اگلے دن ہی امریکہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اس کا جواب دیااور بتایا کہ اس کی تمام تر کوششیں تو کیوبا کو ڈینگی سے بچانے کے لئے تھیں اور آئندہ بھی امریکہ کیوبا کو ڈینگی سے بچانے کے لئے مدد دینے کو تیار ہے۔ اس حوالے سے مزید تفصیلات جاننے کے لئے دیکھیں اس وقت کے امریکی اخبارات:
http://www.nytimes.com/1981/07/28/
world/us-denies
-it-caused-dengue-fever-in-cuba.html
1981 کیوبا کے لئے وہ پہلا سال تھا، جس اس پر ڈینگی کا بڑا حملہ ہوا تھا اور فوری طور پر کیوبا اورامریکہ کی طرف سے لفظی جنگ ہی سامنے آئی تھی، کیوبا نے سی آئی اے کے سابق کیوبن ایجنٹوں کو بھی پیش کیا تھا، جنہوں نے ڈینگی پروجیکٹ پر کام کیا تھا، مگر کسی غیر جانبدار ذریعے سے ایسی معلومات سامنے نہیں آئی تھیں۔ پھر 1989 میں ایسی دو کتابیں سا منے آئیں، جنہیں لکھنے والے غیر جانب دار تھے، اور انہوں نے سی آئی اے کے ساتھ کافی عرصہ کام کیا تھا، ان میں سے ایک برطانیہ کے معروف صحافی رون ریڈنر تھے، انہوں نے ایک کتاب’’ بیک فائر‘‘ لکھی جس میں واضح طور پر لکھا کہ کس طرح امریکہ سی آئی اے نے کیوبا میں ڈینگی پھیلانے کے لئے مخصوص مچھروں کو وائرس سے آلودہ کیا اور پھر انہیں کیوبا میں چھوڑ دیا گیا۔ دوسری کتاب کا نام’’ سی آئی اے وار اگینسٹ کیوبا‘‘ تھی، یہ کتاب دراصل ان کیوبن ڈبل ایجنٹوں کی زندگی کی کہانی تھی جو سی آئی اے کے لئے کام کرتے رہے تھے۔ اس کتاب کو نیشنل انفارمیشن سروس نامی ادارے نے شائع کیا تھا۔ کیوبا میں سی آئی اے کے ڈینگی آپریشن کا چوتھا ثبوت، خود امریکہ کے معروف دانشور نوم چومسکی نے دیا تھا۔2000 میں امریکن پبلک ہیلتھ ایسوسی ایشن نے ایک کتاب،’’ جنگ اور صحت‘‘ شائع کی تھی، اس میں مختلف دانشوروںسے مضامین لکھوائے گئے تھے، ایک مضمون نوم چومسکی نے بھی لکھا اور اس میں کہا کہ اس بات کے پختہ ثبوت موجود ہیں کہ امریکہ حیاتیاتی ہھتیاروں کو اپنے مخالف ممالک میں استمعال کررہا ہے، اس کا سب سے بڑا ثبوت کیوبا ہے جہاں دیگر حیاتیاتی ہھتیاروں کے ساتھ ساتھ امریکہ نے ڈینگی کا وائرس بھی پھیلایا۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیں مذکورہ کتاب

Levy, Barry S. and Sidel, Victor
W. War and Public Health,
(Google Books), American Public HealthAssociation, 2000, p
p. 110-11, (ISBN 0875530230).


سی آئی اے کے ڈینگی آپریشن کی زدمیں آنے والے مزید دو ممالک، افغانستان اور فلپائن ہیں اور تیسرا پاکستان ہے جو،اس حملے کا سامنا کررہا ہے۔ ان پر مزید بات کرنے سے قبل ہم، یہ بتاتے چلیں کہ1970 تک امریکہ میں حیاتیاتی ہتھیار بنانے کی اجازت تھی اور تقریبا مختلف ہولناک قسم کی بیماریوں کے وائرس سرکاری طور پر تیار کئے جا رہے تھے،1970 میں امریکہ نے باقاعدہ اعلان کیا تھا کہ وہ اپنا بائیولوجیکل وار فئیر پروگرام بند کررہا ہے۔’’کیمیکل اینڈ بائیو لوجیکل وار فئیر‘‘ کے نام سے دوامریکی صحافیوں نے ایک کتاب2002
میں لکھی تھی، یہ صحافی
Croddy, Eric C اورPerez-Armendariz J.
تھے۔2009 میں اس کتاب کا نیا ایڈیشن شائع ہوا جس میں مزید کچھ تفصیلات بھی شامل کی گئی ہیں۔ اس کتاب میں تفصیل سے لکھا ہے کہ امریکہ نے جب1970 میں اپنا بائیولوجیکل وار فئیر پروگرام سرکاری طور پر بند کرنے کا اعلان کیا تو اس وقت تک امریکی اسلحہ خانے میں26 ایسے مختلف اقسام کے وائرس تیار حالت میںموجود تھے جنہیں کسی بھی وقت استعمال کیا جا سکتا تھا، یہ وائرس مختلف صورتوں میں محفوظ تھے اور ان پر مزید ریسرچ بھی جاری تھی۔ ان وائرسز کو نا صرف انسانوں کے خلاف استعمال کیا جاسکتا تھا بلکہ فصلوں اور جانوروںکو نشانہ بنانے والے بھی وائرس بھی شامل تھے۔ انسانوں کے لئے جو معروف وائرس تھے، ان میں صرف بخار ہی کی چار خطرناک اقسام تھیں، ان میں پیلا بخار، کیو بخار، ڈینگی بخار اور ملیریا کے وائرس شامل تھے جب کہ انتھریکس، طاعون کے وائرس اور دیگر خطرناک وائرس بھی شامل تھے۔ جانوروں کے لئے برڈ فلو، سوائن فلو، منہ اور کھر کی بیماری کے وائرس تیار تھے۔ مختلف اقسام کی وائرس تیار کرنے کی وجوہات یہی تھیں کہ جس قسم کے وائرس کو جہاں کا موسم سپورٹ فراہم کرے، اسے وہاں پر استعمال کیا جائے۔ حتی کہ گندم، چاول اور مکئی کی فصل کو تباہ کرنے کے لئے بھی وائرس تیار کئے گئے تھے۔ جانوروں اور انسانوں کے خلاف حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر جو وائرس تیار کئے گئے تھے ان پر ریسرچ اور ذخیرہ، فورٹ ٹیری نامی فوجی اڈے پر کیاجاتا تھا، جب کہ فصلوں کو تباہ کرنے کے لئے جو ریسرچ اور ذخیرہ گاہیں تھیں، وہ فورٹ ڈیٹرک نامی فوجی اڈے پر قائم تھیں۔ حوالے کے لئے دیکھیں:


Chemical and Biological Weapons: Possession and Programs Past and Present", James Martin Center for Nonproliferation Studies, Middlebury College, April 9, 2002. Retrieved January 3, 2009.

ان وائرسز کو ہدف تک پہنچانے کے لئے بھی انتہائی دلچسپ طریقے ایجاد کئے گئے تھے، مثلا امریکہ نے 1966 میں
M33 cluster bomb
کے نام سے کلسٹر بم کا ایک خصوصی ورژن تیار کیا، اس بم میں ایک خصوصی ہول بنایا گیا تھا جہاں کسی بھی قسم کے وائرس کو ایک کنٹینر میں رکھ کر ہدف کے قریب گرایا جا سکتا تھا، یہ خاص طور پر جنگ زدہ علاقے کے لئے تھا جہاںبمباری کی جاسکتی ہو۔ پھر اسی بم کو مزید بہتر بنا کرE77 balloon bomb کا نام دیا گیا، یہ دراصل ایک بڑا غبارہ تھا، جس میں ایک چھوٹا سا ڈیو نیٹر لگایا گیا تھا، اس غبارے میں وائرس بھر کر اسے دشمن کے علاقے میں اڑا دیا جاتا اور مخصوص وقت کے بعد ڈیونیٹر غبارے کوپھاڑ دیتا اور وائرس مطلوبہ ہدف تک پہنچ جاتے۔ حوالے کے لئے دیکھیں

Countermeasures, Chapter 6
- An Overview of Emerging Missile State Countermeasures, p. 14. Retrieved January 5, 2009

( جاری ہے)
بحوالہ:
http://www.ahwaal.com/index.php?opt...atid=28:2011-06-09-11-20-04&Itemid=33&lang=ur
 

فرخ منظور

لائبریرین
آپ بھی (یعنی مسلمان) اس میدان میں کسی چیز کو بطورِ ہتھیار استعمال کر لیں۔ کم از کم پروپیگنڈہ سے ہی مدد لے لیں۔
 
Top