سیماب اکبرآبادی -- اب کیا بتائیں عمرِ وفا کیوں خراب کی

طارق شاہ

محفلین
غزل
سیماب اکبرآبادی
اب کیا بتائیں عمرِ وفا کیوں خراب کی
نوحہ ہے زندگی کا کہانی شباب کی
تم نے خبر نہ لی مِرے حالِ خراب کی
کالی ہوئیں فراق میں راتیں شباب کی
تھی الوداعِ ہوشِ تجلّئِ مختصر
میرا تو کام کرگئی جنْبش نقاب کی
وہ میرے ساتھ ساتھ مُجسّم تِرا خیال
وہ جنگلوں میں سیر شبِ ماہتاب کی
ممنُون ہوں تِری نگۂِ بے نیاز کا
رُسوائیاں تو ہیں مِرے حالِ خراب کی
میں اپنی جلوہ گاہِ تصوّر سجاؤں گا
تصویرکھینچ دے کوئی اُن کے شباب کی
دیدو غبارِ دل میں ذرا سی جگہ ہمیں
تربت بنائیں گے دلِ خانہ خراب کی
گھبرا کے جس سے چیخ اُٹھا عالَمِ وجُود
وہ چیز دل نے میرے لئے اِنتخاب کی
چمکیں تو خوفناک، گِرَیں تو حیات سوز
ساون کی بجلیاں ہیں نگاہیں عتاب کی
سیماب زندگی کی ہے تاریخ ہرغزل
ہرشعرمیں ہے ایک کہانی شباب کی
علامہ سیماب اکبرآبادی
 
Top