ٹائپنگ مکمل سیر ظلمات

لاريب اخلاص

لائبریرین
149
سے سن کر جوانا کو لیونارڈ کے حالات دریافت کرنے کی اور زیادہ آرزو ہوئی اور اس نے دل میں کہا کہ اگر موقع ملے تو خود لیونارڈ ہی سے اس کے حالات دریافت کرنے چاہیں۔
یہ موقع جوانا کو سفر کے ختم ہونے سے ایک تمدن پہلے ملا۔ دریا کی منزلیں کشتی میں طے کرتے ہوئے وہ بخیر و خوبی برباد شدہ نو آبادی کے قریب پہنچ گئے تھے اور سفر اگلی صبح ختم ہونے کو تھا۔ اب تک لیونارڈ اور جوانا میں بہت کم بات چیت ہوئی تھی کیوں کہ رستہ میں انہیں ایک دوسرے سے ملنے کا بہت کم اتفاق ہوا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ لیونارڈ اور آٹر ایک کشتی میں آگے آگے سفر کرتے تھے اور جوانا اور پادری فرانسسکو دوسری کشتی میں ان کے پیچھے پیچھے۔ فرانسسکو کی طبیعت میں کسی قدر زنانہ پن تھا اور اس کے اوصناع و اطوار عورتوں کے سے تھے۔ شکل و شباہت میں وہ جوانا سے ملتا جلتا تھا اور ان میں باہمی مشابہت اس قدر جو تھی کہ شام کے وقت اگر فرانسسکو کو عورتوں کا لباس پہنا کر جوانا کے برابر کھڑا کر دیا جاتا تو بمشکل دونوں میں امتیاز ہو سکتا۔ جوانا اور فرانسسکو کا اتحاد و ارتباط بتدریج بڑھتا چلا اور جوانا نے اسے اس لیے جائز رکھا کہ فرانسسکو پادری تھا اگر اس کا پیشہ رہبانیت نہ ہوتا تو شاید جوانا اس سے اس قدر زیادہ ملنے سے احتراز کرتی مگر اس کے نزدیک فرانسسکو ایک لحاظ سے گویا عورت تھا اگر اسے زیادہ تجربہ ہوتا تو وہ یہ سمجھتی کہ رہبانیت کی۔۔۔(غیر واضح لفظ) کے تلے ایسا دل چھپا ہوا رہ سکتا ہے جس میں۔۔۔(غیر واضح لفظ) کے جذبات موجزن ہوں۔۔۔(غیر واضح لفظ) کے کرشموں سے مسحور ہونے کی استعداد رکھتا ہو۔ مگر افسوس کہ وہ یہ نہ سمجھی اور سمجھی بھی تو۔۔۔(غیر واضح لفظ) وقت تک سمجھتی جب کہ اس کے حسن و خوبی ناز و ادا اور سلیقہ و۔۔۔(غیر واضح لفظ) جادو کی برچھیوں سے بیچارے پادری کے دل کو چھلنی کر ڈالا تھا۔ غرضکہ ان میں خوب۔۔۔(غیر واضح لفظ) تھی اور جوانا لیونارڈ کو جلانے کی غرض سے فرانسسکو کے ساتھ مزے مزے کی باتیں کرتی تھی تاکہ لیونارڈ کو یہ معلوم ہو کہ وہ۔۔۔(غیر واضح لفظ) کج خلق نہیں ہے اور جب چاہے خوش خلق بن سکتی ہے۔
۔۔۔(غیر واضح لفظ) جس کی اگلی صبح کو۔۔۔(غیر واضح لفظ) ختم ہونے والا تھا بخلاف قاعدہ۔۔۔(غیر واضح لفظ) لیونارڈ اور جوانا ایک کشتی میں بیٹھے نظر آئے کچھ دیر تک خاموش رہے۔ لیونارڈ کے دل میں جوانا کی طرف سے ملال تھا جوانا اور فرانسسکو کی صحبت روز گرم ہوتے دیکھ کر وہ خون کے گھونٹ پی پی کر رہ جاتا تھا اور اب وہ اپنے دل میں کہنے لگا کہ یہ ”یہاں کیوں آئی ہے؟ شاید پادری سے اس کی طبیعت اکتا گئی ہے جو یہاں چلی آئی جاتی کیوں نہیں یہاں سے؟“ لیکن اگر وہ چلی جاتی تو اس میں شک نہیں کہ لیونارڈ کو بے حد افسوس ہوتا۔
جوانا کی آرزو تھی کہ لیونارڈ اس مہر خاموشی کو توڑے مگر حیران تھی کہ ”کیا بات ایسی کروں جس سے لیونارڈ
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
150
کچھ بات چیت کرے۔“ دفعتًہ ایک تجویز اسے سوجھی اور کشتی کے دنبالہ سے تکیہ لگا کر وہ گانے لگی۔ آواز اس کی نہایت سریلی اور مست کرنے والی تھی۔ لیونارڈ جس نے مدت سے گانا اور پھر اچھا گانا نہ سنا تھا محو و از خود دفتہ ہو گیا۔ کچھ دیر کے بعد وہ رک گئی اور کہنے لگی ”مسٹر اوٹرم شاید میں آپ کو بیزار کر رہی ہوں۔ غالباً آپ گانا سننے کے شائق نہیں۔“
لیونارڈ۔ ”میں گانا سننے کا نہایت مشتاق ہوں۔ آپ کا گلا نہایت اچھا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے فن موسیقی میں باقاعدہ طور پر تعلیم پائی ہے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ نے اتنے امور میں دست گاہ کیسے حاصل کر لی۔ مثلاً فن موسیقی میں ہی۔“
جوانا۔ ”مسٹر اوٹرم آپ شاید خیال کرتے ہوں گے کہ چونکہ یہ ملک میرا زاد بُوم ہے اور میں اسی میں پل کر اتنی بڑی ہوئی ہوں اس لیے ایک طرح کا مجھے وحشی ہونا چاہیے تھا لیکن اصل میں ایسا نہیں۔ تہذیب اور شائستگی حاصل کرنے کے جو موقع مجھے ملے انہیں میں نے ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ میرے والد ایک اچھے تعلیم یافتہ شخص ہیں میں نے ان سے تعلیم پائی علاوہ اس کے دو سال تک میں شہر ڈربن واقع ملک ناٹال کے مدرسہ میں پڑھتی رہی لیکن اس اجاڑ ملک میں زندگی بسر کرنا مجھے اب خوش نہیں آتا جی چاہتا ہے کہ یورپ چلی جاؤں اور دیکھوں کہ تمدن کا سایہ بنی نوع انسان پر وہاں کس انداز سے پڑا ہے مگر خدا جانے وہاں جانا قسمت میں لکھا بھی ہے یا نہیں (آہ بھر کر) لیکن پہلے میں ابا جان سے تو مل لوں۔ خبر نہیں وہ اس وقت کہاں ہوں گے؟ اور مسٹر اوٹرم آپ کو اس ملک میں رہنا کیوں کر بھاتا ہے؟“
لیونارڈ (تلخی سے) ”مس راڈ میں بھی آپ کی طرح قسمت کے۔۔۔(غیر واضح لفظ) کا آماجگاہ بن رہا ہوں۔ میں اس سے پہلے آپ کو بتا چکا ہوں کہ میں ایک مفلس اور قلاش شخص ہوں اور دولت کی جستجو میں میں نے یہ دشت۔۔۔(غیر واضح لفظ) اور۔۔۔(غیر واضح لفظ) اختیار کی ہے۔ انگلستان میں شاید پیٹ بھر روٹی میں کما کھاؤں مگر یہ میرا مقصد نہیں۔ میں تو دولت کمانا چاہتا ہوں اور دولت بھی بہت سی۔“
جوانا۔ ”اس سے کیا حاصل؟ عمر بھر دولت کی تلاش میں آوارہ گردی سے کیا فائدہ؟“
لیونارڈ۔ ”میں دولت ایک مقصد کے لیے حاصل کرنا چاہتا ہوں اور میں نے قسم کھائی ہے کہ اس مقصد کو پورا کروں گا۔ سنیے وہ مقصد یہ ہے۔ میں اور میرا بھائی جو چند ہفتہ ہوئے کہ بخار سے مر گیا ایک قدیم معزز خاندان سے علاقہ رکھتے تھے۔ جب ہم پیدا ہوئے تو دولت عزت ثروت ہمارے گھر کی غلام تھی مگر ہمارے
 

سیما علی

لائبریرین
جوانا” خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے”۔
مگر سوا کہاں ہے ۔ میرا خیال تاکہ اُسنے اپنے آپکو ہمارے پتھر پر گرانے کی کوشش کی تھی۔
لیونارڈ۔سوا تو مر گئی ۔کھائی میں گرپڑی اور قریب تھا کہ ہم کو کھینچ کر اپنے ساتھ لے جائے سب باتین میں تمھیں بعد میں سناؤں گا تھے۔ تم ابھی تک اس قابل نہیں کہ اس قصہ جانفرسا قصہ سن سکو۔ آؤ اس منحوس جگہ سے روانہ ہون جوانا لڑکھڑ ا کر اُٹھی تینوں نے آہستہ آہستہ برف کے میدانوں کو اورطے کرنا
شروع کیا ۔دن بھر وہ چلتے رہے ضعف کرد
اور خستگی سے جو حالت تھی وہ تحریر ا ناممکن ہے۔
لیونارڈ کو
تعجب ہوتا تھا کہ کہلانال
جن جسمانی الام اورمصائب کا انہیں سامناکرناپڑا اس سے قطع نظر بھی
کی جائے تو بھی وہ پچھلے اڑتالیس و
گھنٹون کے روحانی آلام در جسمانی تکان اورخستگی کو برداشت کر کے کس طرح یزندہ رہے۔جب ر
آفتاب غروب ہونے لگا تو جوانا نے کہا میں اس سے آگے نہیں جاسکتی۔ ابمجھ سےایک قدمبھی نہیں چلا جاتالیونارڈ نے مایوسی کے ساتھ آٹر پر نگاہ ڈالی اور آٹر جواب میںکہا۔
میان سامنے ایک درخت ہے اس کے پاس ہی پانی بھی ہے اور ہو ابھی زیادہ معتدل ہے۔
چلیے اُسکے نیچے چل کر بسیرا کرتے ہں سردی تو نہ ستائے گی
گذشتہ رات مصیبت مین کٹی تھی وہ جوں تون کر کےدرخت کے تنے تک پہنچےاور جوانا اسکے تنے کےساتھ لگ کر مدہوشی کی حالتمین لیٹ گئی لیونارو نے بمشکل تھوڑا گوشت اور کچھشراب اُسے کھلائی اور پلائی اور اس کیآنکھ لگ گئی”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
327
*چالیسواں باب*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مخلصی
رات اس مصیبت میں کٹی کہ لیونارڈ کہا کرتا ہے کہ ایسے عذاب کی رات میں نے کبھی نہیں گذاری
با وجود یہ کہ خستگی کی وجہ سے اسکا جسم پر چور ہورہا تھا لیکن وہ ایک منٹ کو نہ سو سکا۔ ایک سنسان بیابان جہاں چاروں طرف وحشت چھا رہی تھی جہاں سوائے جهان سوائے آسمان کی چھت گر انکے سر پر کوئی سایہ تھا
تو ایک درخت کا تھاا جن کے پتوں میں سے برفبار ہوا ہوتی ہوئی ۔ اس کے مغز استخوان تک کو منجمد کر رہی تھی
جهان جنگلی درندوں کے چیخنے چنگھاڑنے کی خوفناک آوازیں چاروں طرف سے آرہی تھیں تعین اور ان کے پاس ڈرانے کے لئے ایک دیاسلائی بھی موجود نہ تھی اگرسوتا تو اسکی نیند وہی ہوسکتی تھی جا سے وہ
کبھی نہ جاگے۔
آخرکار یہ رات جسے ایشیا کے شاعروں کا تصور غير ممکن الا اختتام سے تعبیر کرتا جون تون
کر کے رات کٹی اور لیونارڈ کی شب بیدار آنکھوں کو صبح صادق کی ضیا نے منور کیا۔ اسمین ا تنی سکت نہ تھی کہ اُٹھ کر چل سکے۔اسلئے وہ رینگتاہوا جوانا کے پاس جو کچھ دور بکری کی پوستین میں لپٹی ہوئی ابھی تک سورہی
تھی جاکر بیٹھ گیا۔ وہ بہت دن چڑھے اُٹھی کئی اور لیونارڈ کی طرف مہبوت نگاہوں سے دیکھنے لگی اور پھر جین پیج کا نام لیکر بہکی بہکی باتیں کرنے کگی۔ لیونارڈ کا ماتھا ٹھنکا اور وہ سمجھا جوانا کا دماغ چل گیا ہے۔
مگر اس اُجاڑ بیابان میں کیا ہو سکتا ہے ایک لق و دق بیابان صحرا میں ایک ہذیان زدہ عورت کا علاج علوی اسکے پاس سوائےاس کے پاس بیٹھ کر مو ت کے آنے کا انتظار کریں
لیونارڈ اور آٹر کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے آخر کار یونا جسکی حالت ان چاروں میں اچھی تھی ۔برچھا لیکر اُٹھا اور کہنے لگا ۔ ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں اگر کوئی ہرن مل گیا تو مار کر لاتا ہوں ۔۔یہ کہہ کر وہ ایک طرف کو چلا گیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
328
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
329
دوپہر ڈہل چکی تھی اور لیونارڈ ابھی تک یاس
کے عالم میں جوانا کے سرہانے بیٹھا تھا
جو بخار کے عالم ہذیان سرا تھی اسوقت اتفاق سے جو اس نے نظر اُٹھائی سے تو دیکھا کہ یوبا لڑ کھڑاتا ہو ا اسکی طرف چلا آرہا ہے۔ یونے کو بھی بھوک نے ناتوان کردیا اور اسکی حالت اس وقت ناگفتہ ہی اسکا منہ اسکی چھاتی پر جھکا
پڑتا تھا۔ اسکا پیٹ اندر کو ہچخ گیا تھا اس کی بد نما پسلیاں جلد میں ہر طرف نکلی ہوئی معلوم ہوتیں تھیں ۔۔۔
غرض کہ اسکی صورت اسو قت ایسی مضحکہ خیز تھی کہ باوجود اس کے آقا کے دماغ پر ضعف نے غلبہ حاصل کرلیا تھا وہ بے اختیار ہنس پڑا
آٹر میان ہنسو مت ۔ یا تو مجھے جنون ہوگیا ہے کہ جو کچھ میں کہتا ہوں اسکی مجھے خبر نہیں یقین ا
مخلصی ہوگئے یا
لیونارڈ واقعی میں تم پاگل ہو گئے ہو مخلصی پانے کے یہاں کیا معنی ؟ آخر کہو تو کیا ہے ؟
آٹر میان ایکُ طرف ایک گورا آدمی آرہا ہے اسکے ساتھ اُسکے سو سے زیادہ خادم ہین
لیونارڈ سے اب تو مجھے یقین نہ کیا تو پاگل ہے اسطرف گورے آد میوں کا کیا کام !یہ حماقت بیشارے فرانسیسکو سے ہی سرزد ہوئی تھی یہ سن کے اسنے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور اُنگھنے لگا۔
آلٹرنے اپنے آقا کو بغیر جواب دیے بغر جدھر سے آیا ادھر ہی واپس چلا گیا اور کچھ دیر نہ گذری
تھی کہ لیونارڈ کو بہت سے قدموں کی آہٹ سنائی دی کھیرا کر اس نے آنکھیں کھولیں اور لڑکھڑاتا ہوا اُٹھا اور دیکھا ایک
انگلش جنٹلمین
ادھیٹر عمر جسکے چہرہ پر رحم و شفقت کے آثار نمایاں تھے افق کے عنوان تھے اور جسکی۔ آنکھیں سیاہ تھیں ترحم آمیز نگاہوں سے اُسکو اور جوانا کو دیکھ رہا تھا۔جب لیونارڈ آنکھیں کھول کر کڑکھڑتا ہوا کھڑا ہوا تو نووارد اجنبی ان سے خوش آئیند آواز میں یوں خطاب کیا۔
جناب آپکا مزاج کیسا ہے؟ آپ کی نوکرانی کی زبانی جو حالات میں نے سنے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے آپ اسوقت گرداب و تشویش میں مبتلا ہیں ۔۔۔
لیونارڈ شکرہے”۔
اجنبی اپنے عرب نوکر کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے “احمد لپک کر جاؤ اور سامان میں سے ایک بوتل شمپین اور کچھ روٹیاں لے آؤ ۔انھیں اسکی ضرورت ہے اور حمالوں کو کہو خیمہ لا کر اس چشمے کے کنار ے گاڑ دیں ۔ جلدی کرو”۔
329
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
صفحہ 156

”پیل سفید اس کو کہوں یا کوہ شجاعت و زور“
”کھینچ کے برچھا ماروں اسے ہو اس سے جسے انکار“
”کام کیے ہیں میرے میان نے ایسے کہ جن کی نظیر“
”جگ سب ڈھونڈ پھیرو تم تب بھی ملنی ہے دشوار“
”یکہ و تنہا قلعہ میں جا کر اس نے رات کے وقت“
”مارا نہتے ان پر چھاپہ باندھے تھے جو ہتیھار“
”اس کو مدد پہنچانے والا کوئی نہ تھا موجود“
”تھا تو فقط اک کالا بندر یا اک زال نزار“
”ا اوّل میٹھی باتوں سے اس نے دے دیا سب کو دم“
”بعد میں کھینچی مار نعرہ فولادی تلوار“
”پیلے بھتنے کے حرص و طمع کی جس دم بھڑکی آگ“
”اس نے بجھائی خوب ہی سونے کے پانی کے چھینٹے مار“
”پادری نے پھر میرے میان سے بجایا راعیہ کو“
”ایک نے مثل بلبل لیکن کھایا خار“
”سب سے بہادر اور تناور تھا یہی ان میں ایک“
”لڑنے کو نکلا میرے میان سے شیخی اپنی بگھار“
”تان کے گھونسا میرے میان نے ایسا جمایا ایک“
”سر کا نکل گیا اس کے کچومر اور ہوا وہ فی النار“
”جنگ ہوئی مغلوب اب اور سارے بردہ فروش“
”چاروں طرف سے لگ گئے کرنے اس پر وار پہ وار“
”بندر اچھلا اور لپک کر کھیلا بیسوں داؤں“
”بڑھیا جھپٹی اور گرج چھوٹی توپ ایک بار“
”آگ کے شعلے پیچھے سے بھڑکے اور گئے سب کو جھلس“
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
158

”گولیاں برسیں سامنے سے اور ہو گئیں سب کے پار“
”اُڑ گئے کٹ گئے بھن گئے جل گئے مر گئے مٹ گئے سب“
”بردہ فروشوں کی راکھ کا باقی رہ گیا اک انبار“
”میرے میان کی مدح کو گاؤ مل کر تم سب لوگ“
”شکر بجا لاؤ تم اس کا لوگو سو سو بار“
”پیلے بھتنے کی قید سے اس نے چھڑایا راعیہ کو“
”اور تمہیں بھی زندگی اس نے بخشی دوسری بار“
”اس کی مدح کے گاؤ ترانے اس کی طفیل کبھی“
”اب نہ غلامی سے تم کو ہو گا یارو کچھ سروکار“
”جے جے اس کی پکارو لوگو پوجا س کی کرو“
”ہے وہ تمہارا نجات دہندہ ہے وہ بڑی سرکا“
جوانا نے بھی جو پاس کھڑی تھی کہا ”وہ قابل ستائش ہے۔ اسے میرے باپ کی رعایا! اس کی تعریف کے راگ گاؤ کیوں کہ اگر وہ نہ ہوتا تو آج ہم زندہ نہ ہوتے۔“
اس وقت لیونارڈ بھی موقع پر آن پہنچا اور نو آبادی کے تمام لوگ اور سینکڑوں اور دیسی لوگ جو دور دور سے آئے ہوئے تھے اس کی طرف یوں چلاتے ہوئے بڑھے ”جے راعیہ کے راعی کی! جے نجات دہندہ کی۔“
لیونارڈ نے غصہ می آ کر آٹر کو جھنجھوڑا اور کہا ”اگر تو نے اور کوئی بات کی تو تیری گردن توڑ ڈالوں گا۔“
اس پر ہنگامہ برپا ہو گیا لیکن اس دن سے لیونارڈ دیسیوں میں نجات دہندہ کے نام سے پکارا جانے لگا۔
شام کے وقت لیونارڈ جوانا اور پادری فرانسسکو ایک جھونپڑی میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ اور مسٹر راڈ کی باتیں ہو رہی تھیں کہ ناگہا آٹر بھاگتا ہوا اندر آیا اور کہنے لگا ”ماووم آ گئے۔“
یہ سن کر خوشی خوشی تینوں اٹھ کر باہر کی طرف بھاگے دیکھا تو کچھ آدمی کندھوں پر ایک چارپائی اٹھائے چلے آ رہے ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے ایک بڑا ہجوم ہے۔
جوانا نے جو یہ حالت دیکھی تو کلیجہ تھام کر رہ گئی اور یاس نا اُمیدی کے لہجہ میں کہنے لگی ”ہائے ابا جان
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
159

چل بسے“ مگر چارپائی پر سے ایک دھیمی آواز ”جوانا تم ہو! جوانا تم ہو“ کہتی سنائی دی جسے سن کر جوانا جلدی سے آگے بڑھی اور پکاری کہ ”ابا جان! ابا جان۔“
آخر کار چارپائی مکان کے اندر لا کر نیچے رکھ دی۔ لیونارڈ نے اپنے سامنے ایک وجیہ و دراز قامت شخص کو لیے ہوئے دیکھا جس کی عمر قریب پچاس سال کے ہو گی اور جس کے چہرہ پر واقعی اس وقت مردنی چھا رہی تھی یہ شخص جوانا کو دیکھ کو دیکھ کر یکا یک بول اٹھا۔ ”بیٹی جوانا تو سچ آئی خدا کا ہزار ہزار شکر ہے۔ اب مجھے اپنے مرنے کا کوئی افسوس نہیں۔“
جوانا۔ اور اس کے باپ میں جو گفتگو ہوئی اور جس کو وہی آپس میں سمجھ سکتے تھے اس کے یہاں بالتفصیل ذکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں مگر لیونارڈ پر رفتہ رفتہ سب حقیقت روشن ہو گئی بات یوں تھی کہ مسٹر راڈ بہت سا ہاتھی دانت خریدنے کے واسطے روانہ ہوا تھا۔ اس میں اس کو ناکامیابی ہوئی اور چونکہ خالی ہاتھ واپس آنا بدنما تھا اس لیے اس نے کہا کہ ”چلو دور آگے چلیں“ مگر آگے جانا بھی بے سود ثابت ہوا واپس ہونے کو ہی تھا کہ وہ قاصد جو سوا نے روانہ کیے تھے اسے ملے اور انہوں نے جوانا کی گرفتاری اور نو آبادی کی تباہی کا سب حال اسے بتایا۔ ماووم کو اس ماجرے کے سننے سے جو صدمہ ہوا وہ محتاج بیان نہیں لیکن اپنی عادت کے موافق غم غلط کرنے کے لیے اسے شراب کی بوتل کھولی اور چڑھا گیا گو رات سخت تاریک تھی مگر ماووم نشہ میں چور تھا کہنے لگا کہ ”نہیں راتوں رات سفر کرنا چاہیے۔“ نوکروں اور ملاحوں نے بتہیرا سمجھایا بجھایا مگر اس نے ان کی ایک نہ مانی۔ کشتی پر سوار ہو کر خود آگے آگے ہو لیا پیچھے پیچھے دوسری کشتیوں پر اس کے ہمراہی تھے رستہ ناہموار تھا۔ ندی میں کہیں گنجان درختوں کے جھنڈ کہیں سرکنڈوں کے جھاڑ کھڑے تھے اور کہیں چٹانیں تھیں جن کی نکیلی چوٹیاں خوفناک طور پر سطح آب سے باہر نکلی ہوئی تھیں اور یہاں چھپے دشمن کی طرح پانی کی سطح کے نیچے کمین لگائے ہوئے تھیں۔ اس لیے کبھی ان کو درختوں اور جھاڑوں میں سے اور کبھی ان چٹانوں کے پاس سے ہو کر گزرنا پڑا لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی۔ انہیں تاریکی میں سفر کرتے دو گھنٹے نہ ہوئے تھے کہ مسٹر راڈ کے ملازموں نے اپنے آقا کے چیخنے کی آواز سنی اور ساتھ ہی ٹکر لگنے کی آواز آئی انہوں نے ادھر ادھر دیکھا تو ماووم کو نہ پایا۔ کشتیاں انہوں نے کنارہ پر لگا کر رات جوں توں کر کے کاٹی صبح ہوئی تو دیکھا کہ ماووم کی کشتی ایک چٹان کے نیچے چلی گئی ہے جس کا سرا پانی کی سطح کے ساتھ۔۔۔( غیر واضح لفظ) تھا وہ بناتا ہوا باہر نکلا ہوا ہے۔ جب چٹان کے نیچے سے کشتی کو نکالا تو ماووم کو کشتی میں بے ہوش پڑا پایا
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
160

اس کی تین پسلیاں ٹوٹ گئیں اور دائیں گھٹنے میں بھی ضرب آئی تھی کچھ دن انہوں نے وہیں قیام کیا۔ آخر کار یہ ٹھہری کہ ایک چارپائی پر اس کو گھر لے چلیں نظر براں اگرچہ وہ مارے درد کے بیتاب تھا لیکن وہ تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر ٹھہرتے ہوئے نو آبادی میں لے آئے۔
جب صبح ہوئی تو ماووم نے لیونارڈ کو بلایا۔ جوانا اپنے باپ کے سرہانے بیٹھی ہوئی تھی اور پادری فرانسسکو مرنے والے کے لیے دعائے مغفرت مانگ رہا تھا ماووم کو اس وقت کوئی درد محسوس نہیں تھا۔ نزع کا وقت قریب تھا اور اس کا دل دنیاوی خواہشات کی آلائشوں سے پاک تھا لیونارڈ سے مخاطب ہو کر وہ کہنے لگا کہ ”مسٹر اوٹرم میں نے سب سرگزشت سنی بردہ فروشوں کے خیمہ گاہ میں جا کر آپ نے میری پیاری بیٹی کو چھڑایا یہ ایک نہایت جرات اور مردانگی کا کام تھا۔ کاش کہ میں آپ کے ساتھ ہوتا اور آپ کو مدد دیتا۔“
لیونارڈ اس کا ذکر آپ جانے دیجیے آپ جانتے ہیں کہ میں نے تمام تکالیف خاص غرض کے لیے برداشت کی ہیں۔
ماووم۔ ”ہاں مجھے معلوم ہے مگر اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں اگر اس وقت بڑھیا سوا نے مجھے بتایا ہوتا تو میں خود ان جواہرات کی تلاش میں جاتا اور مجھے امید ہے کہ میرے بعد آپ اس گنج کی جستجو ضرور کریں گے۔“
میری دعا ہے کہ یہ جواہرات آپ کو مل جائیں افسوس کہ میں اس بارے میں آپ سے زیادہ گفتگو نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ میری موت جو میرے اعمال بد کا نتیجہ ہے قریب ہے۔ مسٹر اوٹرم اگر آپ کو شراب پینے کی عادت ہے تو فوراً چھوڑ دیجیے مگر آپ کے چہرہ سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ آپ پیتے ہیں۔
”اب میں آپ سے ایک بات کہنی چاہتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ مجھ کو اس وقت اس بات کی فکر ہے کہ اس لڑکی کا کیا حشر ہو گا میرے پاس ایک کوٹی نہیں کمبخت بردہ فروشوں نے میرا تمام اندوختہ لوٹ لیا اس لڑکی کا کوئی والی وارث بھی نہیں اور ہوتا کیوں کر جب کہ مجھے انگلستان سے یہاں آئے تیس برس گزر گئے ہیں۔“
”اب مجھ کو یہی صورت نظر آتی ہے کہ آپ اس کے ولی بنیں۔ اگرچہ اس میں آپ کو کوئی دشواری ہو گی مگر یقین ہے کہ اس کے حق میں آپ جو کچھ کریں گے اس کا اجر آپ کو بارگاہ الٰہی سے ملے گا۔ سنا ہے کہ آپ دونوں کے درمیان پیلے
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
161

بھتنے کے قلعہ میں شادی کی رسم ادا ہوئی تھی۔ میں نہیں جانتا کہ آپ کے یا جوانا کے دل میں اس رسم کی کوئی وقعت ہے یا نہیں اور میرے مرنے کے بعد آپ دونوں کو اس کا کہاں تک خیال رہے گا مگر جو کچھ بھی ہو مجھے یقین ہے کہ اگر آپ میں اس فیاضی اور نیک نیتی کا ایک شمہ بھی ہے جو ایک شریف النفس انگریز میں ہونی چاہیے تو آپ اس رسم کو پہلی دولت۔۔۔(غیر واضح لفظ) میں پہنچتے ہی دوبارہ بجا لائیں گے اور اگر آپ کی یہ خواہش نہ ہو کہ جوانا آپ کے عقد میں آئے تو جیسا اور عورتیں کیا کرتی ہیں جوانا بھی صبر کرے کوئی وقت ایسا آئے گا کہ خود اس کا حسن اس کے لیے کوئی نہ کوئی ہمدم ہمساز پیدا کر دے گا۔ لیکن اتنا میں کہے دیتا ہوں کہ اگرچہ ان کو ترکہ میں ایک۔۔۔(غیر واضح لفظ) بھی نہیں ملا تاہم وہ ہر ایک لحاظ سے خود ایک گنج بے بہا ہے خاندانی نجابت میں وہ آپ سے کم نہ ہو گی۔ لنکن شائر میں خاندان راڈ قدامت اور اعزاز کی وجہ سے ممتاز ہے۔ خوبصورتی اور سلیقہ شعاری میں بھی وہ اپنی ہم عمر لڑکیوں سے کسی طرح کم نہیں۔ ہاں تو آپ اس کے ولی بننے کی حامی بھرتے ہیں؟“
لیونارڈ۔ ”مجھ کو اس میں کچھ عذر نہ ہوتا لیکن بات یہ ہے کہ میں جواہرات کی تلاش میں جاتا ہوں۔ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ پادری فرانسسکو آپ کی صاحبزادی کو ساحل کی طرف لے جائیں۔ میرے پاس کچھ روپیہ ہے جو میں بڑی خوشی سے انہیں دینے کو تیار ہوں۔“
مسٹر راڈ۔ ”ایسا نہ ہو گا تمہارے سوا میں اسے اور کسی کے سپرد نہیں کر سکتا اگر تم لعل ڈھونڈنے جاتے ہو اور مجھے امید نہیں کہ تم ایسی نادانی کرو کہ ان کی تلاش میں نہ جاؤ تو وہ تمہارے ہمراہ جائے گی۔ میں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ تم اس کی مخالفت کرو گے اور اگر ایسی ہی مصیبت آئی تو اس کے پاس ایک دوا ہے۔
جسے کھا کر وہ اپنے آپ کو بچا سکتی ہے۔ اب بولو۔“
لیونارڈ کچھ دیر تک سوچ میں پڑا رہا اور پھر بولا ”بڑی اہم ذمہ داری ہے اور صورت حالات اس اور بھی پیچیدہ کیے دیتی ہے مگر میں اسے منظور کرتا ہوں۔ میں آپ کی صاحبزادی کی ایسی ہی خبر گیری کروں گا گویا کہ وہ میری بیوی ہے یا۔ ۔ ۔ بیٹی۔“
مسٹر راڈ۔ ”خدا آپ کو اس کا اجر دے۔ مجھے آپ پر پورا بھروسہ ہے۔ رشتہ کا تصفیہ خود ہو جائے گا۔
کاش کہ میری ملاقات آپ سے پہلے ہوئی ہوتی۔“ یہ کہہ کر مسٹر راڈ نے اپنا ہاتھ بمشکل تمام لیونارڈ سے ملانے کو اٹھایا۔ لیونارڈ نے ہاتھ کو ہاتھ میں لیا اور جب اسے چھوڑا تو اس طرح سے گر پڑا جیسے کسی مردے کا ہاتھ۔
اسی شام کو مسٹر راڈ نے وفات پائی اور دوسرے دن انہوں نے اسے دفن کر دیا۔ تجہیز وتکفین کی رسمیں
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
162

فرانسسکو نے ادا کیں۔ اس واقعہ کو تین دن گزر گئے اور اسی اثناء میں لیونارڈ کی جوانا سے کوئی بات نہ ہوئی باپ کے مرنے سے جو صدمہ کہ اس کی روح کو پہنچا اس کا اثر اس پر صاف ظاہر تھا۔ اس کے چہرے پر زردی چھائی ہوئی تھی اور خاموشی کا عالم اس پر طاری تھا۔ اس حالت میں اس سے کوئی ہمکلام نہ ہوتا اگر وہ خود پہلے بات نہ چھیڑتی۔ لیونارڈ سے اس نے کہا۔
”مسٹر اوٹرم۔ آپ ظلمات کی جانب کب روانہ ہوں گے؟“
لیونارڈ۔ ”مجھے تو کچھ معلوم نہیں خدا جانے میں یہ سفر اختیار کر بھی سکتا ہوں یا نہیں۔ دارومدار اس سفر کا آپ پر ہے۔ یہ آپ جانتی ہیں کہ میں آپ کی سلامتی کا ذمہ وار ہوں اور یہ مجھ سے ہو نہیں سکتا کہ آپ کو ایسے سفر میں جس کی منزل مقصود موہوم ہے اپنے ہمراہ لے چلوں۔“
جوانا۔ ”مہربانی فرما کر ایسی باتیں نہ کیجیے۔ میں نے چلنے کا مصمم قصد کر لیا ہے۔“
لیونارڈ۔ (مسکرا کر) ”جب تک میں نہ جاؤں آپ کیسے جا سکتی ہیں۔“
جوانا۔ ”میرے نہ جا سکنے کی بھی آپ نے ایک ہی کہی۔ میں جا سکتی ہوں اور ضرور جاؤں گی اور سوا میری بدرقہ ہو گی میں جا نہیں سکتی تو آپ بھی میرے بغیر جا نہیں سکتے۔“
لیونارڈ۔ ”اچھا میں فرانسسکو سے اس بارے میں مشورہ کرتا ہوں۔“ کچھ عرصہ سے لیونارڈ اور فرانسسکو کے باہمی تعلقات روبہ اصلاح ہو چلے تھے گو ابھی تک لیونارڈ کو اس پر پورا بھروسہ نہ تھا۔ اتنا البتہ وہ اب جان گیا تھا کہ فرانسسکو ایک صاف دل صاف باطن شخص ہے۔ جب اس پچیدہ مسلہ میں اس نے اس کی رائے پوچھیں تو فرانسسکو نے کل قصہ جس کا اکثر حصہ اسے پیشتر سے معلوم تھا سنا اور جواب دیا ”مسٹر اوٹرم میری رائے میں آپ کو ضرور جانا چاہیے۔ خاتون جوانا کی طبیعت کا حال جہاں تک مجھے معلوم ہے اس سے میں اندازہ لگا سکتا ہوں کہ ایک دفعہ ارادہ کر کے وہ اس سے پھرنے والی نہیں اور خزانہ کا قصہ جو ہے وہ اگرچہ حیرت انگیز ہے لیکن اس کی سچائی کا بھی احتمال ہو سکتا ہے اور کامیابی کا امکان کوشش پر منحصر ہے۔“
لیونارڈ۔ ”یہ معاملہ تو طے ہو گیا۔ اب آپ بتائیے کہ آپ کا کیا قصد ہے؟“
فرانسسکو۔ ”میرا قصد سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ اگر آپ کی اجازت ہو تو آپ کے ہمراہ چلوں“ (مسکرا کر) ”اور مجھ سے کچھ نہیں ہو سکے گا تو رائے مشورہ تو دوں ہی گا۔“
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
163

لیونارڈ۔ ”آپ ایسے موہوم معاملہ میں کیوں پڑتے ہیں۔ زندگی کی شاہراہ آپ کے سامنے کھلی پڑی ہے۔ ابھی آپ نو عمر ہیں اور دنیا میں آپ نام پیدا کر سکتے ہیں۔ اس سفر سے آپ کو کچھ فائدہ نہ ہو گا بلکہ اور الٹا یہ شاید یہ منجر بہ ہلاکت ہو یا ( ایک پرمعنی لہجہ میں) ایسا داغ حسرت آپ کے دل پر رہ جائے جو مٹ نہیں سکتا۔
فرانسسکو ”حیات و ممات خدا کے ہاتھ میں ہے وہی پیدا کرتا ہے۔ اور وہی مارے گا۔

موت کا ایک دن معین ہے۔
اور داغ حسرت کا جو آپ نے ذکر کیا۔ کیا معلوم کہ اس کی آگ میرے دل کو پہلے ہی جھلس چکی ہو یہ کہہ کر اس نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا اور اوپر دیکھا۔“
دونوں کی نگاہیں لڑ گئیں اور ایک کو دوسرے کے دل کی کیفیت معلوم ہو گئی۔
لیونارڈ۔ ”تم کیوں چلے نہیں جاتے اور کیوں یہ کوشش نہیں کرتے کہ اسے بھول جاؤ۔“
لیونارڈ نے یہ فقرہ کھلم کھلا کہہ دیا مگر فرانسسکو نے برا نہ مانا۔ اس نے جواب دیا ”میں اس لیے نہیں جاتا کہ میرا جانا لاحاصل ہے۔ مجھے اس کی محبت کا تیر لگ چکا ہے مگر اس کی طرف سے تم مطمئن رہو۔ میرے قیام سے ممکن ہے کہ میں۔۔۔(غیر واضح لفظ) و ناتوانی اس کی کوئی خدمت انجام دے سکوں میں ایک گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا ہوں مگر اسے اس کی خبر نہیں اور جب تک کہ میں زندہ ہوں اس کی اس کو خبر نہ ہونے پائے گی کیوں کہ آپ کی شرافت اس امر کی مقتضی نہ ہو گی کہ آپ اسے بتائیں اور وہ اپنی آنکھوں سے دیکھنے سے رہی۔ میں اس کے لیے کیا ہوں؟ پادری ہوں مرد نہیں۔ میں ایک عورت کی طرح ہوں اور وہ سہیلی کی طرح مجھے چاہتی ہے افسوس میں نے خدا کا گناہ کیا اپنا گناہ کیا اس کا گناہ کیا اور آپ کا گناہ کیا۔ لیکن میں کیا کر سکتا تھا دل پر قابو کسے ہے۔“
لیونارڈ۔ ”فرانسسکو تم نے یہ کیوں کہا کہ میرا گناہ تم نے کیا۔“
فرانسسکو۔ ”میں تمہیں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ میرے یقین میں تم میاں بیوی ہو۔ مجھے اس بات کا ابھی تک یقین ہے اور اس لیے کیا میں نے دوہرا گناہ نہیں کیا کہ اس عورت کی محبت کو اپنے دل میں جگہ دی جس کی شادی ہو چکی تھی۔ پھر بھی میری دعا ہے کہ خدا اور کلیسا کی نظروں میں جو تمہارا رشتہ ہے وہی تعلق تمہارے دلوں میں بھی پیدا ہو جائے اور جب یہ تعلق پیدا ہو جائے جیسا کہ مجھے خیال ہے کہ ہو جائے گا تو اوٹرم تم اس کی پرستش کرو کیوں کہ دنیا میں اور کوئی ایسی عورت نہیں ہے۔“
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
164

لیونارڈ نے فرانسسکو کی یہ باتیں سنیں اور ہاتھ بڑھا کر پادری کے نازک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور کہا ”تم ایک نہایت پاک باطن اور سچے دل والے شخص ہو۔ میں کیا احمق ہوں۔ اس کی کیفیت کس قدر مجھ کو معلوم تھی اور میں تم پر ناحق شبہ کرتا تھا۔ شادی کے جواز اور حقیقت کی نسبت جو تمہارا خیال ہے۔
مجھے اس سے اتفاق نہیں۔ اس نکاح کو میں باطل سمجھے ہوئے ہوں۔ علاوہ اس کے اس خاتون کو میری کچھ پرواہ بھی نہیں بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ اور الٹی اسے مجھ سے نفرت ہے اور اس میں تعجب کی بھی کوئی بات نہیں۔ اور کوئی عورت ہوتی تو ایسی صورت میں وہ بھی ایسا ہی کرتی۔ لیکن خواہ کچھ بھی ہو میں تمہاری عزت کرتا ہوں اور ہمیشہ تمہاری عزت کرتا رہوں گا۔ اس سفر کا اختیار کرنا مجھے ضرور ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سفر میرے مقدر میں لکھا ہے اور وہ بھی جانے پر مقر ہے۔ تم بھی چلتے ہو خوب ہوا۔ ہم دونوں اس کی محافظت میں اپنی طرف سے کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھیں گے غیب کا حال خدا جانے۔“
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
165

اٹھارہواں باب

سوا کی دھمکی
جوانا۔ کو سفر ظلمات میں لیونارڈ کے ہمراہ چلنے کا مصمم ارادہ کیے ہوئے تین مہینے گزر چکے تھے۔ شام کا وقت تھا۔
لیونارڈ ۔ جوانا ۔ فرانسسکو ۔ آٹر ۔ سوا اور پیٹر اور نو آبادی کے پندرہ اور آدمی جو بردہ فروشوں کی قید سے رہا ہوئے تھے ایک دریا کے کنارے جو ویران اور وسیع میدانوں میں سے ہو کر گزرتا تھا خیمہ زن تھے۔ کھانا کھا کر وہ کشتیوں میں سوار ہوئے۔ سوا ان کی رہنما تھی تین مہینے تک وہ برابر دریا کا سفر کرتے رہے لیکن آخر کار ان کو مجبوراً اپنی کشتیاں ایک ندی کے منبع کے قریب جس کا نام ماوی تھا چھوڑ کر خشکی کا سفر اختیار کرنا ہڑا۔ جنگلوں اور میدانوں میں سے پاپیادہ ہوتے ایک مدت کے بعد وہ ایک سلسلہ کوہ کے دامن میں پہنچے جس کا نام منگنی تھا یہاں انہوں نے دو دن قیام کیا اور پھر روانہ ہو کر ایک ہفتہ کے بعد اس خطہ زمین میں پہنچے جس کا نام۔۔۔(غیر واضح لفظ) ہے. اس لق و دق مقام میں اس سے پہلے کبھی کسی انسان کا گزر نہیں ہوا ہو گا۔ البتہ ہرن اِدھر اُدھر چوکڑیاں بھرتے نظر آتے تھے۔ موسم اب بتدریج بدلتا چلا اور آب و ہوا رفتہ رفتہ سرد ہونے لگی۔ مناظر قدرت بھی تغیر پذیر ہونے لگے۔ پہلے جہاں تک ان کی نگاہ کام کرتی تھی چٹیل اور ہموار میدان جن میں روئیدگی نام کو نہ تھی دکھائی دیتے تھے اب سبزہ بھی نظر آنے لگا اور افق میں رفیع الشان پہاڑوں کی چوٹیاں اٹھتی ہوئی معلوم ہونے لگیں رستہ میں جو جو تکالیف ان کو پیش آئیں ان کو تفصیلاً بیان کرنا چنداں ضروری نہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ وہ تین تین دن بھوکے رہے۔
ایک دفعہ چند وحشیوں نے ان کو زہر کے۔۔۔(غیر واضح لفظ) ہوئے تیر مارے اور ان کے دو آدمی ہلاک ہوئے۔ آخرکار وہ ان کی بندوقوں سے ڈر کر بھاگ گئے۔ کیوں کہ انہوں نے سمجھا کہ ان میں جادو ہے۔ دو ہفتہ کے بعد وہ ظلمات کے ملک کی سرحد پر پہنچے اور ایک سہانے اور خوش آیند مقام پر ٹھہرے۔ یہاں سے کوئی ایک میل کے فاصلہ پر ایک بڑا پہاڑ دیوار کی طرح سامنے کھڑا تھا اور اس کے دامن میں ایک شاندار دریا بہتا ہوا نظر آتا تھا۔
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
166

جب شام کا کھانا کھا چکے تو اتنے میں چاند نکل آیا۔ انہوں نے اس پہاڑ کی طرف نگاہ کی جوانا لیونارڈ اور فرانسسکو یاس اور تعجب کے عالم میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے کیوں کہ ایک تو دریا کو عبور کرنا اور پھر پہاڑ پر سے ہو کر دوسری طرف جانا بہت مشکل نظر آتا تھا اور دوسرا یہ معلوم نہیں تھا کہ پہاڑ کی دوسری جانب کن کن خطرات کا سامنا ہو گا۔ سفر کی تکان نے انھیں اس قدر خستہ اور ماندہ کر دیا تھا کہ سب کے سب خاموش بیٹھے ہوئے دل میں کہہ رہے تھے کہ وہ کون سی کمبخت گھڑی تھی جب ہم نے یہ سفر اختیار کیا تھا۔
لیونارڈ کے دائیں طرف پچاس قدم کے فاصلہ پر نو آبادی کے آدمی آگ کے گرد جمع ہو رہے تھے۔ سوا وہاں سے اٹھ کر لیونارڈ کی طرف آئی۔ آٹر بھی اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ دونوں آ کر لیونارڈ کے قریب بیٹھ گئے۔
لیونارڈ۔ ”کیا ہے سوا کوئی وحشت ناک خبر نہ سنانا۔“
سوا۔ ”نہیں مجھے اور ہی کچھ کہنا ہے۔ تمہیں یاد ہو گا کچھ مہینے کا عرصہ ہوا کہ میں نے تم سے وعدہ کیا تھا اور وہ وعدہ تحریری تھا کہ اگر تم میری مالکہ راعیہ کو بند غلامی سے چھڑاؤ گے تو میں تمہیں ایک ایسے ملک میں لے چلوں گی جہاں بیش قیمت جواہرات کثرت سے ملتے ہیں اور اس قسم کا ایک لعل میں نے تمہیں دیا تھا۔ اب میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اگر وہ وعدہ صرف میری طرف سے ہوتا تو میں کبھی اسے پورا نہ کرتی کیوں کہ میرا مطلب تمہیں فریب دینا تھا مگر میری مالکہ راعیہ نے مجھ سے کہا کہ سوا ایسا ہرگز نہ ہو گا میری طرف سے جو وعدہ تم نے کیا ہے وہ ضرور پورا ہونا چاہیے۔ اگر تم کو اس وعدہ کے پورا کرنے میں عذر ہے تو جاؤ اب سے میرا تمہارا قطع تعلق“ اپنی پیاری مالکہ سے جس کو میں نے بچپن سے پالا ہے جدا ہونا مجھ کو ہرگز گوارا نہیں اور اس لیے میں تمہارے پاس پوچھنے آئی ہوں کہ اب تم میرے وطن کی سرحد پر بیٹھے ہوئے ہو تمہارا آگے چلنے کا ارادہ ہے یا نہیں؟“
لیونارڈ۔ ”ارادہ نہ ہوتا تو میں یہاں تک کس لیے آتا۔“
سوا۔ ”خیر میں یہ نہیں جانتی۔ تم اپنے دل کی ایک خواہش پوری کرنے آئے ہو مگر تم نے حماقت کی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جو داستان میں نے تم سے بیان کی تھی وہ سچی ہے مگر میں نے کل حقیقت تم پر ظاہر نہیں کی اس سامنے کے پہاڑ کے دوسری طرف بڑے تند خو اور قد آور لوگ رہتے ہیں ان کا قاعدہ ہے کہ جو کوئی اجنبی ان میں جا پھنستا ہے وہ اس کو اپنے دیوتا کے سامنے بھینٹ
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
167

چڑھا دیتے ہیں۔ تمہارا بھی یہی حال ہو گا۔“
لیونارڈ۔ ”اچھا تو پھر تمہاری کیا مرضی ہے۔“
سوا۔ ”میں کہتی ہو کہ اگر تم اپنی یا جوانا کی خیر منایا چاہتے ہو تو جہاں سے آئے ہو وہیں واپس چلے جاؤ۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ وہاں جواہرات موجود ہیں مگر ان کے لیے جو کوئی کوشش کرے گا وہ موت کا دم بھرے گا۔“
لیونارڈ۔ ”سوا کیا تم میں وعدہ توڑنے اور مکر جانے کی بھی عادت ہے۔“
سوا۔ ”میں تو بار بار کہہ رہی ہوں کہ جو کچھ میں کہہ رہی ہوں وہ سچ ہے۔“
لیونارڈ۔ ”اچھا تو اب چونکہ میں نے تمہاری روایت کی تصدیق کے لیے سینکڑوں میل طے کیے ہیں یہ نہیں چاہتا کہ خالی ہاتھ واپس چلا جاؤں اور جگ ہنسائی کراؤں۔“
جوانا۔ مسٹر اوٹرم آپ نے بالکل درست کہا ہے مجھے آپ سے پورا اتفاق ہے اور میری جو پوچھو تو مجھے مرنا قبول ہے مگر میں اس جگہ سے بغیر آگے گئے نہیں لوٹوں گی۔ سوا یہ باتیں چھوڑ اور ہمیں ٹھیک ٹھیک بتا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ تو میرے ساتھ ہی فریب کرنے لگی تجھے یہ ہرگز زیب نہیں دیتا کہ اپنی مالکہ کو باتوں میں اڑائے اس مہم میں جو مسٹر اوٹرم کا حال سو میرا حال۔ میرا اٹھنا بیٹھنا مرنا جینا ان کے ساتھ ہے ایسی حالت میں اگر تو نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہمارے ساتھ کوئی فریب کھیل کر ہمیں نرغہ میں پھنسا دیا تو تیری خیر نہیں۔
سوا۔ ”راعیہ آپ خفا کیوں ہوتی ہیں؟ بھلا کہیں میں آپ سے سرتابی کر سکتی ہوں جو آپ کی صلاح وہی میری صلاح۔ دنیا میں مجھے اگر کسی سے محبت ہے تو آپ سے۔ باقی سب کو میں نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہوں۔“
یہ کہہ کر اس نے لیونارڈ کی طرف نگاہ کی اور کہنے لگی ”میرا باپ میری ماں میری بیٹی سب کچھ آپ ہیں اس لیے عمر بھر اور مرنے کے بعد بھی میں آپ کا دامن پکڑے ہوں گی اچھا جو ہونا ہے سو ہو رہے گا چلیے ان لوگوں میں چلیں گو ہم ذلیل ہو کر مریں گے مگر چلیے نجات دہندہ کا پیٹ تو دولت سے بھر جائے۔“
”اب میں آپ کو ایک بات بتاتی ہوں۔ سنیے میری قوم کے لوگوں کا ایک پیشن گوئی پر یقین ہے اور وہ یہ ہے کہ پشت ہا پشت کے بعد ایکا۔۔۔(غیر واضح لفظ) اور اس کا بیٹا جال دیوتا اس سر زمین میں جہاں انہوں نے پہلے حکومت کی تھی انسان کا اوتار لے کر آئیں گے۔ ایکا کی شکل بعینہ ایسی ہو گی کہ آپ کی اور جال کی شکل ہوبہو
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
168

اس کالے بونے کی طرح۔ ان کے ظاہر ہونے پر موجودہ بادشاہوں کی بادشاہت چھن جائے گی اور ماں بیٹے مل کر حکومت کی باگ اپنے ہاتھ میں لیں گے۔ اور ہر طرف امن نظر آئے گا۔“
”راعیہ آپ میرے ملک کی زبان تو جانتی ہیں کیوں کہ میں نے ان کو بچپن میں سکھا دی تھی۔ آپ کو وہ مقدس گیت بھی اتا ہے جو ایکا اپنے مبعوث ہونے پر گائے گی.“
جب میرا جوانی کا عالم تھا تو میرے ہم وطنوں نے میرے حسن کی وجہ سے مجھے سانپ کی دلہن بننے کے لیے منتخب کیا تھا کیوں کہ جو دوشیزہ لڑکی سب سے زیادہ صاحب جمال ہوتی ہے اسے یہ لوگ سانپ کی بھینٹ چڑھاتے ہیں مگر قبل اس کے کہ میں بھینٹ چڑھائی جاؤں میں اپنے باپ کی مدد سے جو ملک ظلمات کا سردار کاہن بھاگ آئی۔ اس مقدس گیت کو میں نے اپنے باپ سے لڑکپن میں سیکھا تھا۔ اس گیت کے علاوہ مجھے اور بھی کئی اسرار معلوم ہیں۔ اچھا راعیہ آپ اور بونا یہاں آئے ہیں آپ کو ابھی سے بتا دیتی ہوں کہ ساکنان ظلمات کی فوجوں سے کیوں کر آپ کو مقابلہ کرنا ہو گا۔
جوانا اور آٹر ( جو منہ سے بڑبڑا رہا تھا کیوں کہ جتنی بڑھیا کو اس سے نفرت تھی اس سے زیادہ اس کو بڑھیا سے تھی) سوا کے کہنے پر اٹھے مگر پیشتر اس کے کہ وہ سوا کے ساتھ جائیں لیونارڈ سوا سے یوں مخاطب ہوا۔
”سوا جو کچھ تو نے کہا ہے میں نے سب سنا یہ جو تو باتیں بتا رہی ہے مجھے ہرگز پسند نہیں۔ تو بڑی مکار اور دغا باز ہے۔ تجھ کو راعیہ سے محبت تو ہے مگر تیری نیت بد ہے۔ سوا یقین مان آگ تو نے ہمیں دھوکا دیا تو ہمارا تو جو حال ہو گا وہ ہو ہی گا مگر تیری جان کی پھر خیر نہیں اچھا جا بات کر لے۔“
سوا (چین۔۔۔(غیر واضح لفظ) ہو کر) ”یہ دھمکیاں کیوں دیتے ہو میں تم کو دھوکا نہیں دوں گی کیوں کہ تم سے یا راعیہ سے دھوکا کرنا میرے نزدیک کوئی بڑی بات نہیں گو اے نجات دہندہ تم نے یہ کیا حماقت کی بات کی ہے کہ اگر تم سے دھوکا کروں تو میری جان کی خیر نہیں۔ اگر میں چاہتی تو کل ایک لفظ میرے منہ سے نکلا ہوا تم سب کو عذاب درد ناک دینے کے لیے کافی ہوتا۔ مگر یہی دعا کرو کہ وہ گھڑی نہ آئے جب تم ذلت اور رسوائی سے بچنے کے لیے بھی گولی کھا کر مر جانا پسند کرو جس کی دھمکی ابھی تم نے مجھ کو دی ہے۔“ اور یہ کہہ کر وہ ایک طرف چلی گئی۔“
لیونارڈ ( فرانسسکو سے) ”میں ڈرپوک تو نہیں ہوں مگر اس چڑیل نے میرے دل میں ہول ڈال دیا ہے۔ اگر جوانا نہ ہوتی تو ہم تو کبھی کے راہی عدم ہو گئے ہوتے۔ میرا خیال ہے کہ اگر اس کو جوانا کی
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
169

سلامتی کی طرف سے اطمینان ہو جائے تو میرے ساتھ یہ چڑیل کوئی کسر باقی نہ رکھے گی۔“
فرانسسکو ( وثوق سے) ”بھئی تم نے سچ کہا ہے یہ بڑھیا واقعی چڑیل ہے“ ۔۔۔(غیر واضح لفظ) میں چڑیلوں کا ذکر آیا ہے۔ گزشتہ رات میں نے اسے دعا مانگتے ہوئے دیکھا اس کو معلوم نہ تھا کہ میں اس کے قریب کھڑا ہوں جگہ اجاڑ تھی سچ کہتا ہوں ایسا خوفناک نظارہ میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ مسٹر اوٹرم میں آپ کو بتاؤں یہ عورت ہم سب کو کیوں حقارت سے دیکھتی ہے اس لیے کہ جوانا ہم لوگوں کے ساتھ مل جل گئی ہے اور اس لیے وہ خبث باطن کی وجہ سے ہم سے جلتی ہے مگر اس عورت میں ایک خوبی بھی ہے وہ یہ کہ اپنی مالکہ راعیہ کے حق میں پوری پوری وفادار ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ نہ اس کا خاوند تھا نہ کوئی بال بچہ۔ مسٹر راڈ نے اس کو اپنی بیٹی کے لیے دایہ مقرر کیا۔ اب اگر وہ اس سے جس کو اس نے بچپن سے کھلایا اور پالا ہے محبت نہ کرے تو کیا کرے۔“
لیونارڈ۔ ”مسٹر راڈ نے بڑی دور اندیشی سے کام لیا اگر سوا نہ ہوتی تو جوانا یا تو کسی امیر کی کنیزوں میں ہوتی یا قبر میں۔“
فرانسسکو۔ ”یہ تو ٹھیک ہے مگر ہم نے کیا حماقت کی کہ اپنی جان کو ایک ایسی مکارہ ملعونہ کے ہاتھوں میں دے دیا۔ اب آگے چلنا تو ہرگز مناسب نہیں۔“
لیونارڈ۔ ”میں ہرگز واپس نہیں جا سکتا۔ یہ تو خیال کیجیے ہم نے کس قدر سفر کیا ہے۔ اب ہم کیسے واپس جا سکتے ہیں۔ کیا لوگ ہم کو دیکھ کر ہنسیں گے نہیں؟ اس کے علاوہ ہمارے پاس اثاثہ بھی کچھ نہیں جس پر گزر کریں۔ جس قدر سونا میرے پاس تھا اس کا اکثر حصہ میں نے پیٹر اور اس کے ہمراہیوں کو اپنے ساتھ لاتے وقت دے ڈالا یہ حرص نہ ہوتی تو وہ ہرگز ہمارے ہمراہ نہ آتے۔ اگر ہم لوٹ جائیں گے تو یقیناً مار جائیں گے۔ مگر مجھے اپنی موت کا ڈر نہیں۔ البتہ جونا کی طرف سے مجھے اندیشہ ہے کہ اس کو ایسی خوفناک سر زمین میں ہمراہ لے چلنا چاہیے یا نہیں۔ لیکن واپس لوٹ جانے میں بھی تو خطرہ ہے ممکن ہے کہ زہر کے بجھے ہوئے تیر والے وحشیوں کا ڈر بندوقوں کی طرف سے جاتا رہا ہو اور وہ ہم پر پھر آ پڑیں۔“
فرانسسکو۔ ”میری بھی یہی رائے ہے کہ جب ہم یہاں تک آئے ہیں تو ہم کو قدم بڑھائے جانا چاہیے۔ علی الخصوص ایسی حالت میں جب کہ خاتون جوانا آگے جانے پر تُلی ہوئی ہے اور وہ ایسی عورتوں میں سے نہیں جو اپنے ارادہ سے ہٹیں۔ ہماری جانیں جان آفریں کے ہاتھ میں ہیں اور میں تو تقدیر
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
170

کا قائل ہوں اگر ہمیں مرنا ہو گا تو یورپ کے مہذب اور متمدن شہروں میں بھی مر جائیں گے اور جینا ہو گا تو ان وحشیوں میں بھی جن کا نام اہل ظلمات ہے، خدا ہمارا یار و ناصر ہو گا۔ اچھا اب خدا حافظ میں تو سوتا ہوں۔“
دوسرے دن علی الصباح لیونارڈ کچھ شور و غل سن کر بیدار ہوا۔ کمبل سے باہر سر نکال کر کیا دیکھتا ہے کہ نو آبادی کے لوگ دو وحشیوں کو جو درخت کی چھال سے صرف اپنا ستر چھپائے ہوئے تھے اور جن کے ہاتھ میں برچھے تھے پکڑے کھڑے ہیں اور وہ دونوں خوف کے مارے چیختے اور چلاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ کچھ لوگ صبح کے وقت دریا کے کنارہ پانی لانے گئے تھے وہاں انہیں یہ دو وحشی مچھلیاں برچھے سے مارتے ملے اور وہ انھیں پکڑ لائے ل۔ لیونارڈ نے کچھ مونگے کے دانے اور کچھ پیتل کے خالی کارتوس دے کر ان وحشیوں کا خوف رفع کیا اور جب ان کے حواس درست ہوئے تو آٹر نے نو آبادی کے ایک آدمی کی وساطت سے جس کی زبان ان وحشیوں کی بولی سے ملتی جلتی تھی ان سے پوچھا کہ اس سامنے کے پہاڑ کی دوسری طرف کون سا ملک واقع ہے“ انہوں نے جواب دیا ” کہ ہمیں خود تو معلوم نہیں لیکن دوسروں کی زبانی ہم نے اتنا سنا ہے کہ اس پہاڑ کی پرلی طرف ایک ملک ہے جہاں سردی بہت پڑتی ہے اور دھند اور بادل ہر وقت چھایا رہتا ہے اور دھند اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ کئی کئی دن لوگ ایک دوسرے کا منہ نہیں دیکھ سکتے۔ وہاں بڑے قد آور لوگ رہتے ہیں جن کے جسم پر بال ہی بال ہیں اور وہ اجنبیوں کو ایک سانپ کی جو انکا معبود ہے بھینٹ چڑھاتے ہیں اور ان کی قوم میں جو لڑکیاں سب سے زیادہ خوبصورت ہوتی ہیں ان کی شادی ایک دیوتا سے کرتے ہیں۔ اور زیادہ حالات وہاں کے ہمیں معلوم نہیں کیوں کہ جو وہاں گیا ہے وہ پھر لوٹ کر نہیں آیا۔“
لیونارڈ نے یہ سن کر انھیں چھوڑ دیا اور وہ چھوٹتے ہی یہ سمجھ کر کہ جان بچی لاکھوں پائے۔ ہوا ہو گئے لیکن اب یک تازہ مشکل پیش آئی اور وہ یہ کہ نو آبادی کا یہ شخص ترجمان بنا ہوا تھا اس نے سب باتیں جا کر اپنے ساتھیوں سے کہہ دیں اس کے سننے سے جو اثر کہ ان سب پر پڑا وہ محتاج بیان نہیں کیوں کہ۔۔۔(غیر واضح لفظ) کو جو روز مرہ سامان اٹھا کر لے چلے تھے کہا گیا کہ خیموں کو باندھ کر پیٹھ پر لے چلو اور دوسرا سامان بھی لے کر جلد آگے روانہ ہو تو بجائے اس کے کہ وہ اس کی تعمیل کرتے انہوں نے جمع ہو کر آپس میں جلدی سے کچھ مشورہ کیا اور لیونارڈ کی طرف بڑھے۔
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
171

لیونارڈ۔ ”کہو پیٹر کیا معاملہ ہے؟“
پیٹر۔ ”نجات دہندے ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ ہم آپ کے اور راعیہ کے ہمراہ تین مہینے سے ہیں۔ اور اس عرصہ میں سخت سخت تکلیفیں اٹھا کر ہم نے نہایت وفاداری اور نمک حلالی سے آپ کی خدمت کی ہے مگر ہم نے سنا ہے کہ اس پہاڑ کے دوسری جو ملک ہے، وہاں شدت کی سردی ہے اور ہر وقت اندھیرا رہتا ہے اور اس میں بھتنے رہتے ہیں جو سانپ کو پوجتے ہیں۔ نجات دہندے! ہم کوئی بزدل نہیں ہیں لیکن اس ملک میں جاتے ہوئے ہمیں ڈر لگتا ہے۔“
لیونارڈ۔ ”پھر تمہاری کیا مرضی ہے۔“
پیٹر۔ ”نجات دہندے! ہم چاہتے ہیں کہ جہاں سے آئے ہیں وہیں واپس چلے جائیں۔“
لیونارڈ۔ ”پیٹر! اگر تم لوٹ کے جاؤ گے تو راستہ دور کا ہے اور خطروں کا سامنا ہے اگر میں تمہارے ساتھ نہ ہوا تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم سب گھروں کو زندہ پہنچ جاؤ گے۔ اگر تم چاہتے ہو تو میرا ساتھ چھوڑ دو میں اس ملک میں اکیلا جاؤں گا یا صرف آٹر کو ساتھ لے جاؤں گا۔ بردہ فروشوں کے قلعہ کو بھی میں نے اکیلے سر کیا اکیلا ہی میں اہل ظلمات کے پاس بھی جاؤں گا۔“
پیٹر۔ ”نجات دہندے! آپ کی ہر بات صحیح ہے۔ لیکن اگر ہم اس پہاڑ کے دوسری طرف گئے تو ہم سب مارے جائیں گے اور بھتنے ہم سب کو سانپ کی بھینٹ چڑھائیں گے۔“
لیونارڈ (کچھ دیر سوچ کر) ”اچھا پیٹر میں اور کیا کہہ سکتا ہوں جاؤ خدا حافظ۔“
اس پر پیٹر سلام کر کے چلنے کو تھا کہ جوانا نے اس طرح پر اس سے خطاب کیا۔
پیٹر۔ ”جب تم اور تمہارے ساتھی پیلے بھتنے کی قید میں تھے اور غلامی میں بکنے کو تھے تو اس وقت کون تھا جس نے تمہیں چھڑایا۔“
پیٹر ”راعیہ! ہمیں نجات دہندے نے چھڑایا۔“
جوانا۔ ”ہاں! لیکن اگر میرے کانوں نے غلط نہیں سنا تو میں تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو جنہیں نجات دہندے نے مصیبت اور ذلت سے چھڑایا یہ کیا کہتے ہوئے سنتی ہوں کہ تم اپنے محسن کو خطرہ کے وقت جواب دیے جاتے ہو۔“
پیٹر ”(سر جھکا کر) ”راعیہ آپ نے ٹھیک سنا۔“
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
172

جوانا۔ ”اچھا پیٹر جاؤ۔ اے میرے باپ ماووم کی رعایا جو مجھے پریشان حالی میں چھوڑ کر جا سکتے ہو سب جاؤ۔ پیٹر یاد رکھ کہ جہاں تو مرد ہو کر جاتے ہوئے ڈرتا ہے وہاں میں ایک عورت نجات دہندے کے ساتھ اکیلی جاؤں گی لیکن اتنا تجھے یاد رہے کہ پیشن گوئی میری درست نکلا کرتی ہے۔
میں نے پیلے بھتنے کے برے انجام کی پیشن گوئی کی تھی اور وہ صحیح نکلی اب میں تم سے یہ کہے دیتی ہوں کہ تم میں سے بہت کم ایسے ہوں گے کہ جو زندہ اپنے گھروں کی صورت دیکھیں گے اور جو اپنے گھروں کو صحیح سلامت پہنچیں گے بھی ان میں تم نہ ہوں گے اور جو لوگ گھروں کو پہنچیں گے ان کا نام لے لے کر لوگ ہنسیں گے اور ان پر چاروں طرف سے پھٹکار برسے گی۔ عورتیں انھیں ٹھٹھے سے کہیں گی کہ یہ وہ بزدل نامرد ہیں جنہوں نے خطرہ میں ایک عورت کا ساتھ چھوڑا اور مرد ان پر یہ آواز کسیں گے کہ یہ وہی نابکار ہیں جنہوں نے محسن کشی کی اور جس شخص نے انہیں چھڑایا تھا اسے مصیبت میں چھوڑ کر چلے آئے۔ اچھا اب میری آنکھوں سے دور ہو جاؤ“ یہ کہہ کر جوانا نے نفرت اور حقارت سے منہ پھیر لیا پیٹر کچھ دیر خاموش رہا اور بولا ”بھائیوں کیا ہماری حمیت اس بات کو گوارہ کر سکتی ہے کہ راعیہ ہمیں ایسے طعنے دے اور ذلت و شرم کے اس طرح کے۔۔۔(غیر واضح لفظ) ہماری گردن میں ڈالے۔“
اس کے ساتھیوں نے یک زبان ہو کر کہا ”نہیں ہم ان باتوں کو نہیں سن سکتے“ اس کے بعد انہوں نے پھر کچھ مشورہ کیا اور پیٹر نے آ کر لیونارڈ سے کہا کہ ”نجات دہندے! ہم آپ کے اور راعیہ کی ہمراہ ان بھوتوں کے ملک میں جانے کو آمادہ ہیں۔ ہم برابر آپ کا ساتھ دیں گے اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ ہم موت کے منہ میں جا رہیں لیکن راعیہ کے تلخ و تند طعنوں کا داغ سینہ پر رکھ کر جینے سے مرنا ہزار درجہ بہتر ہے۔
لیونارڈ۔ ”اچھا سامان اٹھا لو اور روانہ ہو۔“
آٹر (حقارت کے لہجہ میں) ”پیٹر تو نے خوب کیا کہ وقت پر سیدھے راستہ پر آ گیا ورنہ یاد رکھ کہ تیرے یہاں سے پلٹنے کے قبل ہی راعیہ کی پیشن گوئی پوری ہو جاتی کیوں کہ تیرے اور تیرے دو تین ساتھیوں کو میں صفایا کر ڈالتا عقل زیادہ مجھ میں نہ ہو نہ سہی مگر لڑتا میں خوب ہوں۔“
لیونارڈ بونے کے غیظ و غضب کو دیکھ کر مسکرایا مگر دل اس کا پامال اندوہ تھا وہ جانتا تھا کہ جو کچھ نو آبادی کے کے لوگوں نے کہا ہے وہ سوچ سمجھ کر کہا ہے اور اور احتمال اس کا تھا کہ مبادا ان بیچاروں کی جانیں اس کی اس جسارت پر نثار ہوں۔
 
Top