ٹائپنگ مکمل سیر ظلمات

لاريب اخلاص

لائبریرین
110
سمائیں بھاگ جائیں۔ مگر سوال یہ درپیش ہے کہ ایسے آدمی ان میں ہوں گے بھی یا نہیں۔“
سوا نے آگے بڑھ کر ان میں سے چار کو منتخب کیا مگر ان میں پیٹر نہ تھا کیوں کہ اس کو توپ کا کام بھی آتا تھا۔
سوا ۔ ”سنو۔ اس کالے آدمی نے جو کچھ کہا ہے اسے تم نے سن لیا ہے۔ اب اس کے حکم کی تعمیل کرو اور اگر ذرا بھی خلاف ورزی کرو گے تو خدا کرے کہ تم پر ۔۔۔۔۔“ اور یہ کہہ کر اس نے ان کو ایک ایسی بد دعا دی کہ لیونارڈ حیران رہ گیا۔
اثر ۔ ”اور اگر میں زندہ رہا تو تم سب کے گلے کاٹ ڈالوں گا۔“
ایک ۔”یہ دھمکیاں کیوں دیتے ہو ہم اپنے لیے تمہارے لیے اور راعیہ کے لیے جو کچھ ہم سے ہو گا کریں گے ہم نے سب بات سمجھ لی ہے مگر آگ لگانے کے لیے ہم دیا سلائی کہاں سے لیں گے۔“
آٹر ۔ ”یہ لو دیا سلائی بھی ہے اب جاؤ۔ جو کام تمہارے سپرد کیا گیا ہے اگر اس کے انجام دینے سے تم قاصر رہے تو دعا کرو کہ آٹر کا منہ دیکھنے سے پہلے تمہاری جان نکل جائے۔“
دس منٹ کے بعد یہ چاروں آدمی کھائی میں سے جلدی جلدی تیرنے لگے کیوں کہ ان کو۔۔۔(غیر واضح لفظ) کا خوف تھا۔
لیونارڈ ۔ ”آٹر چلو پل لگاؤ ہمیں جانا ہے۔“
آٹر نے پل نیچے گرایا اور اس کی ترکیب سوا نے پیٹر اور۔۔۔(غیر واضح لفظ) کے باقی آدمیوں کو۔۔۔(غیر واضح لفظ) طور پر بتائی.
لیونارڈ ۔ (سوا سے مخاطب ہو کر) اے نیک بخت اب میں جاتا ہوں جتنے قیدی رہا ہو سکیں رہا کر دو مگر یاد رکھو اگر تمہاری مالکہ پل کی طرف آئیں تو پل کو ضرور اس وقت گرا دینا اگر ہم دن چڑھے تک نہ آئے تو تم بھی جیسا ہو سکے نمٹ لینا کیوں کہ یا ہم مر گئے ہوں گے اور یا بردہ فروشوں نے ہم کو قید کر لیا ہو گا۔ سنا؟“
سوا ۔ میں نے آپ کی بات کو گوش دل سے سنا ہے اور دعویٰ سے کہتی ہوں کہ آپ بڑے بہادر اور من چلے آدمی ہیں۔ اب آپ کی قسمت میں خواہ جیت ہو یا ہار وہ یاقوت رمانی جو میں نے آپ کو پیشگی دیا تھا اب آپ کا ہو چکا۔“
ایک لمحہ کے بعد لیونارڈ اور آٹر رخصت ہوئے اور پل پر سے ہو کر جس کو انہوں نے بعد میں فوراً اٹھا دیا پہلے کی طرح رینگتے رینگتے کھائی کے پھاٹک کے پاس پہنچے وہاں سے نکل کر چند گز کے فاصلہ تک دوڑے اور پھر پچاس قدم دبے پاؤں چلے حتیٰ کہ وہ اس مقام پر پہنچ گئے جہاں غلاموں کے فروخت کرنے کے لیے ایک۔۔۔(غیر واضح لفظ) کا مکان بنا ہوا تھا۔
اس مکان میں تو کوئی نہ تھا مگر اس کے ستونوں میں سے جب انہوں نے سامنے نگاہ کی تو دیکھا کہ قلعہ کے
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
صفحہ 111
برآمدے کے سامنے ایک بڑا جشن برپا ہے۔
لیونارڈ ۔ ”آٹر آؤ اس جلسہ میں چلیں تم مجھ کو خوب دیکھتے رہو۔ اور جیسا میں کروں ویسا ہی تم بھی کرو۔ اپنے ہتھیاروں کو تیار رکھو اور اگر گھونسوں تک نوبت پہنچے توپوں کی طرح میرے ساتھ ہو کر لڑنا۔ مگر سب سے مقدم یہ ہے کہ ایسی کوشش کرو کہ بردہ فروش تمہیں گرفتار نہ کر سکیں۔“
لیونارڈ نے یہ کہہ کر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ دی۔ اس وقت حضرت دانیال کی طرح جب وہ شیر کے غار کے اندر گھسے تھے اس نے بھی دل میں کہا کہ ”یا الٰہی بغیر تیری مدد کے کچھ نہیں ہو سکتا اگر تو چاہے تو زندہ رکھے اور اگر چاہے تو ایک آن میں مار ڈالے۔“
۔۔۔(غیر واضح لفظ) کی جھونپڑی کے سامنے پرتگیزوں عربوں دوغلوں اور قسم قسم ایسے بدمعاشوں کو ہجوم تھا جن سے لیونارڈ کا عمر بھر سابقہ نہیں پڑا تھا۔ دغا بازی اور طمع کے سفلی جذبات ہر ایک کے چہرہ سے عیاں تھے۔ آدمیوں کا مجمع کیا تھا بہت سے بھتنے اکٹھے ہو گئے تھے یہ کمبخت جن میں سے اکثر شراب کثرت سے پی کر مدہوش ہو رہے تھے اور بعض پی رہے تھے قلعہ کے برآمدے کی طرف اشتیاق سے دیکھ رہے تھے۔ برآمدہ کی سیڑھیوں پر ایک شخص مقطع صورت کھڑا تھا اور اس کے گرد بہت سے خوش لباس آدمی کھڑے تھے۔ آٹر نے آہستہ سے لیونارڈ کے کان میں کہا کہ دیکھو پیلا بھتنا کھڑا ہے مگر لیونارڈ نے پہلے سے پہچان لیا تھا کہ یہی شخص ڈام پریرا ہے۔
اس مشہور شخص کے متعلق جو اس رات بڑی شان و شوکت کے ساتھ وہاں کھڑا تھا مگر نہیں جانتا تھا کہ اب میرا کاسہ عمر لبریز ہونے والا ہے تھوڑا سا ذکر کرنا بے جا نہ ہو گا ۔
یہ ایک سال خوردہ شخص تھا۔ عمر ستر سال کے قریب ہو گی توند نکلی ہوئی تھی بال سفید تھے چہرہ رعب دار تھا اس کی سیاہ آنکھیں چھوٹی چھوٹی تھی مگر افعی کی آنکھوں کی سی چمک ان میں موجود تھی اور اس کی سرد مہری اور مکاری پر دلالت کرتی تھیں۔ اس کی خصوصیات مخصوصہ میں سے ایک بات یہ تھی کہ جب کبھی وہ کسی شخص سے گفتگو کرتا تو اس کے چہرہ پر کبھی نظر نہ ڈالتا۔ بلکہ اس کے باقی کے جسم پر اوپر نیچے نگاہ دوڑاتا رہتا۔
پریرا کا رنگ زرد تھا اور اس کے گالوں پر جھریاں پڑی تھیں اس کا منہ چوڑا اور ہونٹ موٹے تھے اور وہ ہر وقت مٹھی کھولتا اور بند کرتا رہتا تھا گویا اس کی یہ خواہش تھی کہ اس کی مٹھی میں روپیہ آ جائے لباس اس کا پرتکلف تھا اور اپنے ہمجولیوں کی طرح نشہ میں چور رہتا تھا۔
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
112
بارہواں باب

ایک اچھا مال
جب لیونارڈ اور آٹر جلسہ میں داخل ہوئے تو اس وقت پیلا بھتنا تقریر کرنے کے لیے تیار تھا۔اور سب سامعین کی آنکھیں اس کی طرف لگی ہوئی تھیں۔
لیونارڈ ۔ ( بآواز بلند پرتگالی زبان میں) ”صاحبو ذرا مہربانی کر کے رستہ دینا۔ میں آپ کے سردار پریرا کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے آیا ہوں اور مجھے ان سے کچھ کام ہے۔“
جب لیونارڈ نے یہ کہا تو سب اسے گھورنے لگے اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ یہ صاحب کون ہیں؟
اتنے میں پیلے بھتنے نے درخت آواز سے کہا ”کون شخص ہے؟ اس کو ہمارے سامنے لاؤ۔“
جب لیونارڈ سامنے لایا گیا تو اس نے پیلے بھتنے کو جھک کر مؤدبانہ سلام کیا۔
پیلا بھتنا ۔ ”ایسی تیسی تیرے سلام کی۔ ابے پہلے اپنا نام تو بتا۔“
لیونارڈ ۔ ”جناب مجھے آپ کے معزز پیشہ کے اراکین میں سے ایک ادنیٰ اور ناچیز رکن ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور آپ کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہوا ہوں مجھ کو حضور سے ایک ضروری کام ہے۔“
پیلا بھتنا ۔ ”تمہارے چہرہ سے تمہارے الفاظ کی تصدیق نہیں ہوتی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم انگریز ہو۔
اور یہ بونا کون ہے؟ مجھے تم مخبر معلوم ہوتے ہو اور اگر یہ درست ہے تو جان لو کہ تمہارے حق میں مجھ سے برا کوئی نہیں۔“
لیونارڈ ۔ ”مخبر ہونے کی آپ نے ایک ہی کہی۔ اگر آپ کو مجھ پر یقین نہیں تو یہاں ایک صاحب مسٹر زاویر نام آئے ہوئے ہیں ان سے پوچھ لیجیے کہ آیا انہوں نے مدغاسکر کے کسی شخص کو کیپٹن پی آر نامی کو یہاں آنے کے لیے کہا تھا یا نہیں وہی پی آر اب آپ کے سامنے کھڑا ہے اور اس کی کشتیاں پاس کے بندر گاہ میں لنگر ڈالے ہوئے ہیں۔“
زاویر ۔ (ایک بلند قامت اور جسم پرتگیز جس کی رگوں میں حبش کے خون کی آمیزش تھی اور جس کے چہرے
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
113
سے خباثت کے آثار نمایاں تھے) ”جی حضور یہ درست کہہ رہے ہیں۔ میں نے آپ سے ان کی نسبت ذکر بھی کیا تھا۔“
پریرا ۔ ”ہم تمہارے ایسے دوستوں سے باز آئے اس شخص کے چہرے سے ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ کسی انگریزی جہاز کا کپتان ہے اور بردہ فروشوں کا بھیس بدل کر یہاں ان پہنچا ہے۔“
جب پریرا نے ”انگریزی جنگی جہاز“ کا نام لیا تو سب کے کان کھڑے ہو گئے۔ لیونارڈ سمجھا کہ اب کام بگڑا۔
اس لیے اس نے فوراً تیوری چڑھا کر اور تصنع آمیز غیظ و غضب میں آ کر کہا ”عجیب خبطی اور شکی لوگ ہیں“ کہہ رہا ہوں کہ میری کشتیاں قلعہ کے باہر موجود ہیں مگر مانتے نہیں۔ سنو مسٹر پریرا! میرا باپ البتہ انگریز تھا مگر میری ماں فرانس کی رہنے والی تھی اور اگر تم کو یا سامعین میں سے کسی کو میرے قول پر شبہ ہو تو
ہمیں میدان ہمیں چوکان ہمیں گوئے
وہ میرے سامنے آئے اگر میں نے اسی خنجر سے اس کی افترا پرواز زبان کا خاتمہ نہ کر دیا تو یہی کہنا۔”شیطان کی مار تم ملعونوں پر“ یہ کہہ کر لیونارڈ نے تلوار کے قبضہ پر ہاتھ رکھا اور قہر آلود نگاہ کے ساتھ آگے بڑھا۔
پریرا ۔ ”بس بس میں نے دیکھ لیا تم سچے ہو میں فقط تمہیں آزمانا چاہتا تھا اب آؤ مصافحہ کر لیں۔“ یہ کہہ اس نے ہاتھ بڑھایا اور لیونارڈ سے ہاتھ ملا کر بولا ”میرا دل تمہاری طرف سے صاف ہو گیا۔“
مگر حاضرین جلسہ میں سے کچھ لوگوں کو ابھی تک اطمینان نہ ہوا اور لگے سرگوشیاں کرنے۔ پریرا نے ”خاموش“ کہہ کر ان سرگوشیوں کو روکا اور پر حکم دیا کہ ایک جاریہ لیونارڈ کو اپنے ہاتھ سے شراب پلائے۔
جب لیونارڈ شراب پی چکا تو پریرا نے سب حاضرین کی طرف مخاطب ہو کر اپنی تقریر شروع کی
”اے میرے پیارے بچو! اے میرے سچے رفیقو“ مجھ کو نہایت افسوس ہے کہ میں جو تمہارا سرکردہ تھا آج تم کو الوداع کہنے کو ہوں۔ افسوس کہ میرے اعضاء اب کمزور ہو گئے ہیں اور مجھ میں اب کام کرنے کی طاقت نہیں رہی کل مجھے تم سے جدا ہونا پڑے گا اور تمہیں کسی اور کو کپتان بنانا پڑے گا۔ مجھ کو بردہ فروشی کرتے ہوئے پچاس برس گزر گئے ہیں مجھے امید ہے کہ اس گرد نواح کے رہنے والے مجھ کو نیکی سے یاد کریں گے۔ کیوں کہ میں نے اندازاً بیس ہزار آدمیوں کو قعر جہالت سے نکال کر مہربان اور شفیق آقاؤں کے سپرد کیا ہے تاکہ وہ ان کے گھروں میں جا کر تہذیب کی بلندی پر جا پہنچیں۔ جن مہموں ہر ہم وقتاً فوقتاً جاتے رہے ان کے دوران میں گاہ بہ گاہ خونریزیاں بھی ہوئی ہیں اور مجھ کو ان کا افسوس ہے۔ مگر میں آپ صاحبوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو بردہ فروشی کا چلنا محال تھا۔ یہ انگریز لوگ ایسے عقل کے اندھے اور کورے ہیں کہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہمارے ظل حمایت میں آنا غلاموں کے لیے
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
114
بے انتہا مفید ہے۔ اس لیے اگر وہ اپنی نادانی سے ہماری مستحسن کاروائیوں میں۔۔۔(غیر واضح لفظ) ہوں تو پھر ہم لوگ لڑیں نہیں تو اور کیا کریں۔ عزیزو یاد رکھو کہ اپنی مہمات میں استقلال اور الوالعزمی کو ہاتھ سے دینا کامیابی کو خیر باد کہنا ہے اب میں اپنی مشقت کی زندگی سے کنارہ کش ہوتا ہوں تاکہ گوشہ گزین ہو کر اپنے آخری عمر کا حصہ یاد خدا میں آرام سے بسر کروں۔
”ایک بات مجھے اور کہنی ہے وہ یہ کہ ہم کو اپنی پچھلی مہم میں ایک ملعون انگریز کی بیٹی ہاتھ آئی تھی میں اس کو یہاں لے آیا اور چونکہ میں اس کا مُربی ہوں لہذا میں نے تم کو آج کی رات یہاں جمع ہوں کے لیے کہا تاکہ میں اس کے لیے تم میں سے کوئی شوہر منتخب کروں اور جاتے جاتے اپنے سر سے یہ فرض اتار جاؤں میں اپنے حبالہ عقد میں تو اس کو لا نہیں سکتا کیوں کہ۔۔۔(غیر واضح لفظ) کے لوگ جہاں میں جانے والا ہوں مجھ پر عجیب عجیب اعتراضات کریں گے اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تمہی میں کوئی اس کا مالک بنے۔“
”مگر یہ۔۔۔(غیر واضح لفظ) اور مہہ پارہ لڑکی جس کے آگے لعل و جواہرات ماند ہیں کس کو دوں تم میں سے ہر ایک نوجوان دولت و ثروت، شوکت و وجاہت ، اور۔۔۔(غیر واضح لفظ) و شجاعت کے لحاظ سے ایک دوسرے کی نظیر ہے ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دے سکتا اور یہ نہیں کہہ سکتا کہ سب سے زیادہ مستحق کون ہے اس لیے جو شخص میرے آگے سب سے زیادہ نذرانہ پیش کرے گا وہی اس کا مستحق ہو گا اور اس پر۔۔۔(غیر واضح لفظ) کا جام وصال نوش کرے گا آپ لوگ یاد رکھیں کہ میں نذرانہ طلب کر رہا ہوں نہ کہ قیمت۔ یہ بھی آپ صاحبوں پر پوشیدہ نہ رہے کہ حسب معمول آپ لوگ اپنی اپنی بولی سونے کے اونسوں میں بولیں۔“
”ایک شرط اور ہے اور اس میں کوئی بات خلاف ضابطہ نہیں۔ شرط یہ ہے کہ اس معاملہ میں پادری صاحب کا ضرور دخل ہو گا۔ وہ ہم سب کے رو برو اس شخص کا نکاح جو منتخب ہو گا اس لڑکی سے پڑھیں گے۔ کیا یہ شرم کی بات نہیں کہ ہمارے پاس ایک پادری صاحب موجود ہوں اور بیوی میاں کی نکاح خوانی میں ان کو کوئی حصہ نہ لینے دیا جائے۔ میرے عزیزو وقت گزرتا جاتا ہے اب چاہیے کہ ہم اپنے کام میں مصروف ہوں۔ کوئی ہے؟ اچھا ( ایک شخص کی طرف اشارہ کر کے) تم اس انگریز لڑکی کو لے آؤ۔“
جب پیلا بھتنا اپنی تقریر ختم کر چکا تو سب خاموش ہو کر جوانا کے آنے کے منتظر بیٹھ گئے۔
چند لمحوں کے بعد ایک حسینہ وجمیلہ نوجوان عورت۔۔۔(غیر واضح لفظ) کا سفید لباس پہنے اسلحہ خانہ کی طرف سے نمودار ہوئی اور برآمدہ کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی یہ پہلی بار تھی کہ لیونارڈ نے جوانا راڈ کو دیکھا چاندنی رات میں
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
115
اس کے چہرے کے خد و خال صاف نظر آ رہے تھے مگر جب لیونارڈ کی نگاہ اس کی تاب دار آنکھوں کی رعنائی پر پڑی تو اس کو ایک خدا کی قدرت نظر آئی۔ یہ وقت تو خیر رات کا تھا اگر دن بھی ہوتا تو اس کی آنکھوں کی رنگت پہچاننا بہت مشکل تھا کیوں کہ مختلف۔۔۔(غیر واضح لفظ) پڑنے سے وہ کبھی بھوری تو کبھی نیل گوں نظر آتی تھیں۔
جب وہ برآمدہ میں آ کر کھڑی ہوئی تو اس نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی اور پھر تھوڑی دیر کے بعد اپنے شیریں لہجہ میں یوں کہنے لگی۔
”ڈام۔۔۔(غیر واضح لفظ) پریرا تم مجھے کیا کہتے ہو۔“
پریرا (درشت آواز اور تمسخر سے) ”میری جان تو اس اپنے غلام پر کیوں خفا ہوتی ہے میری پیاری میں نے تجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میں تیرے لیے ایک شوہر تلاش کروں گا اب دیکھ یہ تمام معزز لوگ تیرے حسن و جمال کے خریدار بیٹھے ہیں اور تیرے دلہن بننے کا وقت نزدیک ہے۔“
جوانا ۔ ”ڈام۔۔۔(غیر واضح لفظ) پریرا میں آخر وقت تم سے التجا کرتی ہوں کہ مجھ بیکس نے تم کو کوئی ضرر نہیں پہنچایا مجھ کو چھوڑ دو۔ کیوں مجھے ایذا پہنچا رہے ہو؟“
پریرا ۔ ”پہنچانے کی ایک ہی کہی میری پیاری تجھ کو ایذا پہنچانے کی کس کو مجال ہے۔ میں تو تیرے شوہر کی فکر میں ہوں۔“
جوانا ۔ ”میں کبھی اس شخص کے پاس نہیں جاؤں گی جس کو تم میرا شوہر بناؤ میں تم لوگوں سے متعلق نہیں ڈرتی خدا میری مدد کرے گا تقدیر اپنی کمیںن گاہ سے تمہارے اس ظلم و ستم کو دیکھ رہی ہے۔۔۔(غیر واضح لفظ) کا فتویٰ تم پر آسمان سے نازل ہونے والا ہے۔ اے بے رحموں خبردار! انتقام بھی کچھ چیز ہے۔“
جوانا کی آواز بلند نہ تھی مگر اس نے یہ الفاظ اس وثوق اور جوش سے کہے کہ خبیث سے خبیث بردہ فروش کے دل پر بھی خوف طاری ہو گیا۔ تقریر کے اختتام پر اس کی نگاہ لیونارڈ پر پڑی جس کا چہرہ اس وقت گو درشت تھا مگر مردم شناس جوانا کو اس کی پیشانی پر شرافت اور فیاضی کے الفاظ جلی قلم سے لکھے ہوئے نظر آئے اس کو اب معلوم ہو گیا کہ میں ان لوگوں میں جو وحشیوں سے بدتر ہیں تن تنک نہیں ہوں بلکہ ایک ایسا شخص بھی یہاں موجود ہے جس کو مجھے اپنا رفیق کہنا چاہیے۔
لیونارڈ کے چہرہ پر اس نے ایک تجسس بھری نگاہ ڈالی اور پھر فوراً اپنی آنکھوں کو نیچے کر لیا کیوں کہ اسے خوف تھا کہ مبادا لوگوں کو شبہ ہو اس کے بعد ایک خاموشی کا عالم طاری ہوا کیوں کہ لوگوں کے دلوں میں تشویش پیدا ہو گئی
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
116
تھی۔ جوانا کے فقروں نے ان کے نور ایمان کی چنگاری کو جو مدتوں سے خاکستر شقاوت میں دبی پڑی تھی۔ سلگا دیا تھا۔ سب پر کچھ نہ کچھ اثر پڑا۔ لیکن پیلے بھتنے پر جو اوہام پرستی میں بھی ان کا سردار تھا سب سے زیادہ خوف طاری ہوا خوف کے مارے وہ کانپنے لگا۔
یہ نظارہ ایسا تھا کہ لیونارڈ اسے عمر بھر نہ بھولا آسمان پر چاند نور کا لباس پہنے جلوہ افروز تھا۔ اس کے سامنے اشر الناس لوگوں کا ایک۔۔(غیر واضح لفظ) جن میں سے ہر ایک کے چہرہ پر شرر بار جذبات ہویدا تھے موجود تھا۔اور ان سب کے بیچ میں وہ حسینہ و جمیلہ لڑکی کھڑی تھی جو اس رسوائی میں بھی فخر و ناز کے زیور سے۔۔۔(غیر واضح لفظ) تھی اور جو ان دشمنوں سے جو اس کی تباہی کا تہیّہ کیے ہوئے تھے خائف و ہراساں نہ تھی۔
چاروں طرف ایسی خاموشی چھائی ہوئی تھی کہ لیونارڈ نے ایک بلی کے بچہ کی میاؤں میاؤں کی آواز بھی سن لی جو آ کر جوانا کے پاؤں سے اپنا منہ ملنے لگا تھا۔ جوانا نے بھی بلی کے بچہ کی آواز سنی اور اٹھا کر اسے اپنی چھاتی سے لگا لیا۔
اتنے میں ہجوم میں سے ایک آواز آئی کہ”اس عورت کو چھوڑ دو یہ چڑیل ہے ہم پر ضرور کوئی نہ کوئی آفت لائے گی اس آواز کو سن کر پیلا بھتنا رفتًہ چونک اٹھا اور فحش بکتا اور جہلاتا کرسی سے اٹھ کر جوانا کی طرف جھپٹا اور اس سے یوں مخاطب ہوا۔
”اری قحبہ ملعونہ! کیا تو اپنی دھمکیوں سے مجھے خائف کرنا چاہتی ہے۔ لے آ۔ اپنے خدا کو۔ دیکھیں وہ تیری کیسی مدد کرتا ہے یہاں کا خدا تو پیلا بھتنا ہے۔مجھے تجھ پر ایسا ہی قابو ہے جیسا کہ اس بلی کے بچہ پر یہ کہہ کر اس نے بلی کے بچہ کو اس کے ہاتھوں سے چھین لیا اور اسے زمین پر دے ٹپکا اور پھر سلسلہ تقریر کو یوں شروع کیا۔
”تو نے دیکھا اس بلی کے بچے کی خدا نے مدد نہیں کی اسی طرح وہ تیری مدد نہیں کرے گا۔ لوگو جو مال تمہیں خریدنا ہے اسے اچھی طرح پرکھ لو یہ کہہ کر اس نے جوانا کے سفید لباس کو چھاتی پر سے پکڑ کر پھاڑ ڈالا جوانا نے اپنے پھٹے ہوئے لباس کو ایک ہاتھ سے سنبھالا اور دوسرے ہاتھ سے اپنے بالوں میں کچھ ڈھونڈنے لگی۔ لیونارڈ پر بلا کا خوف طاری ہوا اسے اس زہر کا قصہ معلوم تھا جو جوانا کے پاس ہر وقت موجود رہتا تھا اور اسے ڈر تھا کہ اب وہ اسے استعمال کرے گی۔ ان دونوں کی آنکھیں ایک بار اور دو چار ہوئیں اور لیونارڈ کی نگاہیں یہ کہہ رہی تھیں کہ خبردار خبردار“
اور اس کا مطلب سمجھ گئی اور اس نے اپنا ہاتھ روک لیا۔
اب پیلا بھتنا برآمدے کی جانب پلٹا اور اپنی کرسی کے قریب کھڑا ہو کر نیلام کے لیے تیار ہوا اور اس طرح
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
117
تقریر کرنے لگا۔
”صاحبو میں تمہارے سامنے ایک نہایت اچھا مال پیش کرتا ہوں یہ مال ایک گورے رنگ کی لڑکی ہے جس کی رگوں میں آدھا انگلستان اور آدھا پرتگال کا خون موجزن ہے۔ اچھی تعلیم یافتہ ہے اور باعصمت اور پارسا ہے اس کے حسن کے متعلق بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیوں کہ آپ سب لوگ اسے دیکھ رہے ہیں۔ اس کا جوبن اس کے بال اس کی آنکھیں سب آپ کی پیش نظر ہیں۔ ایسا حسن کبھی تم نے دیکھا ہے؟ یہ مال تم میں سے اس شخص کو ہاتھ آئے گا جو سب سے بڑھ کر بولی دے گا۔ لیکن شرط اس کے ساتھ یہ ہے کہ جس شخص کو یہ لڑکی ہاتھ آئے اس کے ساتھ پادری فرانسسکو فوراً ہی اس کی شادی کر دیں گے“ یہ کہہ کر اس نے ایک پست قامت شخص کی طرف جس کے چہرہ سے افسردگی کے آثار عیاں تھے جس کے خد و خال زنانہ تھے اور جس کی آنکھیں نیلگوں تھیں اشارہ کیا۔ یہ شخص ایک ایک پادری کا پھٹا پرانا جبہ پہنے سب کے پیچھے کھڑا تھا۔
پھر پریرا نے یہ کہہ کر نیلام شروع کیا ”اس گورے رنگ والی لڑکی کے لیے سونے کے تیس اونس۔“
ایک چنچ سا بڈھا (جس کے لیے بستر عروسی سے تختہ تابوت زیادہ موزوں معلوم ہوتا تھا) ”پینتیس اونس۔“
دوسرا ۔ (جو ایک خالص عرب تھا اور خوش وضعی میں آوروں میں ممتاز تھا) ”چالیس اونس۔“
چنچ ۔ ”پینتالیس“
عرب ۔ ”پچاس“
اب ان دونوں میں مقابلہ شروع ہوا اور معلوم ایسا ہوتا تھا کہ یہی دونوں مد مقابل رہیں گے جب بولی ستر اونس تک پہنچ گئی تو عرب رہ گیا۔
چنچ ۔ ”لڑکی اب میری ہو چکی لاؤ اسے میرے حوالہ کرو اور یہ لو اپنا سونا۔“
زاویر (وہی قوی الجثہ پرتگالی جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے) ننھے میاں ذرا ٹھہر جائیے اب میری باری آئی ہے اور یہ کہہ کر بولا ”پچھتر اونس
چنچ ۔ ”اسی“
زاویر ۔ ”پچاسی“
چنچ ۔ (چلا کر) ”نوے“
زاویر ۔ ”پچانوے“
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
118
چنچ ۔ (چیخ کر اور انگلیاں چٹخا کر) ”ایک سو
زاویر ۔ (موچھوں پر تاؤ دے کر) ”ایک سو پانچ
یہاں پہنچ کر چنچ بھی رہ گیا اور ہجوم نے یہ سمجھ کر کہ زاویر بازی لے گیا چلانا شروع کیا اور زاویر یہ سمجھ کر کہ اب مال میرا ہو چکا بولا ”پریرا لاؤ اسے میرے حوالہ کرو
لیونارڈ ۔ (پہلی دفعہ بول کر) ”حضرت ذرا سستائیے۔ اب میری باری آئی۔ ایک سو دس“
لوگوں نے پھر نعرے مارنے شروع کیے کیوں کہ معاملہ نہایت بڑھ چلا تھا۔ زاویر نے لیونارڈ کی طرف خون آلود نگاہ سے دیکھا کیوں کہ جو بولی اس نے دی تھی اس سے بڑھ کر اس کے لیے قریب قریب ناممکن تھی۔
پیلا بھتنا (خوشی کے مارے ہونٹوں کو چوس کر) ”دوست زاویر دیکھو اجنبی کپتان پی آر اس حسن و جمال کہ کان کو لیے جاتا ہے۔ ابھی تو بولی کچھ ہوئی ہی نہیں۔ یہ لڑکی۔۔۔(غیر واضح لفظ).“

قیمت خود ہر دو عالم گفتئہ نرخ بالا کُن کہ ارزانی ہنوز

انمول ہے۔ ذرا اس کی طرف دیکھو اور بولی بڑھاؤ لیکن یہ یاد رکھو۔
کہ نو نقد اچھا نہ تیرہ ادھار
یہاں نقد کا معاملہ ہے ادھار۔۔۔(غیر واضح لفظ) ایک اونس کا بھی نہیں کرتے۔“
زاویر ( ایک ایسے آدمی کی وضع میں جو بازی کے لیے آخری مرتبہ پانسہ پھینکتا ہے) ”ایک سو پندرہ“
لیونارڈ ( دلجمعی سے) ”ایک سو بیس“
لیونارڈ نے جو بولی بولی تھی اس سے زیادہ ایک ماشہ بھر سونا اس کے پاس موجود نہ تھا اور اگر زاویر بڑھتا تو اسے ہارنا پڑتا ہاں اگر سوا والے لعل کو بھی وہ دے ڈالتا تو دوسری بات تھی لیکن یہ لعل اسے دینا منظور نہ تھا اور اگر وہ دیتا بھی تو باور کس کو آتا کہ اتنا بڑا جواہر سچا ہے۔ لیکن لیونارڈ نے اپنے چہرہ پر ان خیالات کو ظاہر نہ ہونے دیا بلکہ ایک جاریہ کی طرف نہایت متانت اور دلجمعی سے متوجہ ہو کر کہا کہ ”شراب لاؤ“ اور جب وہ شراب لائی تو اپنا پیالہ بھرنے میں مصروف ہوا تشویش اس نے ذرا سی بھی ظاہر نہیں کی کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ اس کا حریف موقعہ تاک رہا ہے اور اگر اس کو اس کی حالت کا پتہ لگ گیا تو بازی ہاتھ سے جاتی رہے گی۔
ادھر پیلا بھتنا زاویر کو اکسا رہا تھا کہ اپنی بولی بڑھائے۔ کچھ دیر تک پرتگالی بردہ فروش متامل رہا اور جوانا کو جو زرد اور خاموش اپنا سر جھکائے کھڑی تھی دیکھتا رہا۔ لیونارڈ نے جس کے ہاتھ میں ابھی تک شراب کا ساغر
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
119
تھا اس وقت اس کی طرف پلٹ کر کہا ”کیوں صاحب آپ بڑھیے“
زاویر ۔ ”لعنت ہو تم پر جاؤ لے جاؤ اسے“ میں تو ایک بھی کسی عورت کے لیے اب نہ بڑھوں گا۔
لیونارڈ ۔ یہ سن کر صرف مسکرا دیا اور پیلے بھتنے کی طرف دیکھنے لگا۔
پیلا بھتنا ۔ گورے رنگ کی لڑکی جوانا اجنبی کپتان پی آر کے ایک سو بیس اونس سونے میں جا رہی ہے۔ زاویر دیکھو موقعہ تمہارے ہاتھ سے نکلا جاتا ہے۔ ایک سو بیس اونس سونے کے اس گوری لڑکی جوانا کے لیے ایک سو بیس اونس ایک۔ ایک سو بیس اونس دو۔ جاتی ہے ایک سو بیس اونس کو ایک سو بیس اونس ایک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک سو بیس اونس دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سو ۔۔۔۔۔ بیس اونس۔۔۔۔۔
اس کے منہ سے ”تین“ نکلنے کو تھا کہ زاویر ایک قدم آگے بڑھا اور کچھ بولنے کے لیے اپنی زبان کھولی۔
لیونارڈ پر ایک سکتے کا عالم طاری ہو گیا لیکن پرتگالی بردہ فروش نے معاً اپنا ارادہ بدل دیا اور پلٹ گیا۔
اتنے میں ”تین“ کا لفظ پیلے بھتنے کے منہ سے نکلا اور لیونارڈ کی جان میں جان آئی۔
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
120
تیرہواں باب

عقد نیم شبی
جب آخری بولی ہو چکی تو پیلے بھتنے نے لیونارڈ سے کہا ”لیجیے صاحب یہ لڑکی اب آپ کا مال ہے اور اب میں تم دونوں کا بیاہ رچایا ہوں“ یہ کہہ کر وہ پادری فرانسسکو کی جانب متوجہ ہوا اور اس سے بولا ”پادری صاحب اب آپ اپنی خدمت انجام دیجیے۔“
پادری فرانسسکو آگے بڑھا اس کے چہرہ پر زردی چھائی ہوئی تھی اور وہ خائف معلوم ہوتا تھا۔ لیونارڈ نے اس کی طرف نگاہ بھر کر دیکھا اور تعجب کیا کہ یہ شخص ان بدمعاشوں میں کیوں کر آن ملا کیوں کہ اس کے بشرے سے نہ صرف سعادت بلکہ تہذیب اور شائستگی نمایاں تھی۔ باریک زنانہ آواز میں اس نے پیلے بھتنے کو یوں جواب دیا۔
”ڈام اینٹونیو میں اس کے بالکل خلاف ہوں مجھے قسمت تم لوگوں میں لائی اور میں نے بہت سی بدیاں اور گناہ ہوتے دیکھے لیکن شکر ہے کہ میں کسی بدی میں مبتلا نہیں ہوا۔ میں نے مرتے آدمیوں کی روح کا تزکیہ کیا۔ میں نے بیماروں کی تیمارداری کی۔ میں نے مظلوموں کو تشفی دی لیکن خون کے مول میں میں نے کوئی حصہ نہیں لیا۔ میں مقدس کلیسا کا ایک پادری ہوں اگر میں ان دونوں کا نکاح لوگوں کے سامنے پڑھ دوں تو یہ نکاح مرتے دم تک قائم رہے گا اور مجھے کلیسا کی برکت کی مہر ایک نفرین آلود کاروائی پر ثبت کرنی پڑے گی اور یہ مجھ سے ہرگز نہ ہو گا۔“
یہ سنتے ہی پیلے بھتنے کی آتش غیظ و غضب بھڑک اٹھی اور لال پیلا ہو کر وہ بولا۔
”ابے پاپی کیوں تیری شامت آئی ہے کیا تو بھی اپنے بھائی کے پیچھے پیچھے جانا چاہتا ہے۔ دیکھ یا تو میرا کہا مان اور ان دونوں کا نکاح پڑھ یا ابھی تیری کھال کھینچ کر اس میں بھس بھرائے ڈالتا ہوں“ یہ کہہ کر اس نے نوکروں کو حکم دیا کہ ”تازیانہ لاؤ۔“
فرانسسکو کے نازک چہرہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں اور اس دھمکی سے وہ لرز کر کہنے لگا۔ ”ڈام اینٹونیو میں تمہارے حکم کی تعمیل کرتا ہوں خدا میرا گناہ بخشے۔ پی آر اور جوانا میں تم کو زن و شوہر کے رشتہ سے مربوط کرنے والا ہوں اور پی آر تم سے میری یہ نصیحت ہے کہ اپنے خبث سے باز آ جاؤ۔ اور اس عورت سے محبت رکھو تاکہ خدا کا عذاب
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
صفحہ 121
تم پر نازل نہ ہو۔ تم سے جوانا میری یہ استدعا ہے کہ اس خدا پر جو یتیموں اور مظلوموں کا خدا ہے اور جو تمہارا انتقام لے گا توکل کرو۔ اور مجھے بخشو۔ کوئی آدمی پانی لائے کہ میں اسے پاک کروں اور ایک انگشتری بھی ہونی چاہیے۔“
تھوڑی دیر میں انگشتری اور پانی آن پہنچا اور پادری نے اس پر کچھ پڑھ کر اسے پاک کیا۔ پھر اس نے لیونارڈ سے کہا کہ ”لڑکی کے پاس کھڑے ہو جاؤ“ اور لوگوں سے پیچھے ہٹ جانے کا اشارہ کیا۔ لیونارڈ جوانا کے چہرہ کی طرف دیکھ رہا تھا جوانا کے منہ سے ایک لفظ تک نہ نکلا تھا اور اس کے چہرہ سے بظاہر اطمینان عیاں تھا لیکن اس کی آنکھوں میں خوف اور تذبذب کی بیقراری لیونارڈ کو صاف نظر آ رہی تھی۔ ایک یا دو مرتبہ جوانا نے اپنا ہاتھ بالوں کی طرف لے جا کر منہ کی جانب بڑھایا مگر پھر پیچھے ہٹا لیا۔ لیونارڈ کو خوف تھا کہ وہ زہر کھانا چاہتی ہے اب اسے ضرور معلوم ہوا کہ جوانا سے ایک دو بات کر لے۔ پادری نے تو اسے ہدایت کی ہی تھی کہ لڑکی کے پاس کھڑا ہو جائے چنانچہ وہ اس ہدایت کی تعمیل میں بظاہر خنداں پیشانی جوانا کی طرف بڑھا اور اس کے بالوں کو ہاتھ میں لے لیا اور نیچے کی طرف جھکا گویا کہ دیکھنے والوں کو یہ معلوم ہوا کہ یہ اس سے اٹھکیلیاں کر رہا ہے اور اس کا بوسہ لینا چاہتا ہے۔
تب چپکے سے اس نے انگریزی زبان میں بسرعت تمام یہ لفظ کہے ”میں تمہیں چھڑانے آیا ہوں اس نقلی نکاح خوانی کو ہو جانے دو یہ بالکل بے معنی ہے پھر اگر میں تم سے کہوں تو میخانے کی پل کی طرف دوڑ کر غلاموں کے خیمہ گاہ میں جانے کی کوشش کرو۔“
ان فقروں کو سنتے ہی جوانا کے چہرہ پر طمانیت کے آثار نمایاں ہو گئے اور اس نے اپنا ہاتھ جو منہ کی طرف پھر گیا تھا نیچے کر لیا۔
پیلے بھتنے کے دل میں ان دونوں کا اس وضع میں دیکھ کر شبہ پیدا ہوا اور وہ بولا ”دوست پی آر یہ کیا کر رہے ہو۔ یہ سرگوشیاں تم کیا کر رہے تھے۔“ لیونارڈ نے بے پروائی سے جواب دیا کہ ”میں اپنی دلہن سے کہہ رہا تھا کہ” تم بڑی خوبصورت ہو۔“
جوانا ۔ نے نفرت اور حقارت کی ایک بناوٹی نگاہ لیونارڈ پر ڈالی۔ جس سے پیلے بھتنے کا شبہ جاتا رہا۔ اس کے بعد نکاح کا خطبہ شروع ہوا اور پادری فرانسسکو نے خطبہ پڑھ کر ان دونوں کے ہاتھ ملائے اور جوانا کی انگلی میں انگشتری پہنا کر ان دونوں کو برکت دی۔
نکاح خوانی کے اثنا میں لیونارڈ پر ایک عالم محویت طاری ہو رہا تھا اور دل اس کا گواہی دیتا تھا کہ یہ نکاح نقلی نہیں بلکہ حقیقی ہے۔ جب پادری جوانا کو انگشتری پہنا کر ان دونوں کو برکت دے چکا تو لیونارڈ اس
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
122
محویت کی نیند سے جاگا کیوں کہ ابھی اس کو ایک مصیبت کا سامنا کرنا ہے۔ اس لیے اس نے خیال کیا کہ بس اب یہاں سے چلنا چاہیے اور پیلے بھتنے سے یوں مخاطب ہوا ”ڈام اینٹونیو اب جو کچھ ہونا تھا ہو لیا۔ چوں کی مجھے نہایت ضروری کام ہے اس لیے بہتر ہو گا کہ میں اپنی بی بی کو لے کر یہاں سے رخصت ہوں میری کشتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
پریرا ۔ ”تم بھی عجیب بیوقوف ہو۔ آج رات یہیں کیوں نہیں ٹھہرتے۔“
لیونارڈ ۔ ”آپ کی عنایت مگر میں آج رات نہیں ٹھہر سکتا ممکن ہے کہ کل مجھے یہاں کسی کام کی انجام دہی کے لیے پھر آنا پڑے کیوں کہ اگر میں عمدہ مال معقول قیمت پر خریدوں یا فروخت کروں تو مجھ کو پچاس فیصد کی کمیشن ملتی ہے۔“
لیونارڈ ۔ یہ کہہ ہی چکا تھا کہ اس نے مشرق کی جانب بہت دور ہوا میں غبار کی مانند اٹھتا ہوا دھواں دیکھا۔ اس نے خیال کیا کہ۔۔۔(غیر واضح لفظ) کے آدمیوں نے سر کنڈوں میں آگ لگا دی ہے اب یہاں ٹھہرنا اپنے ہاتھ سے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنا ہے۔“
پریرا ۔ ”اچھا اگر تمہیں ایسی جلدی ہے تو جاؤ۔“
اور یہ کہہ کر اس کے چہرے پر طمانیت کے آثار نمایاں ہوئے جس کی وجہ یہ تھی کہ جوانا نے اسے ایک بار پہلے کہا تھا کہ جو شخص مجھے خریدے گا وہ مر جائے گا اور چوں کہ وہ اوہام پرست تھا اس لیے اس نے خیال کیا کہ ممکن ہے یہ شخص پی آر (یعنی لیونارڈ) سچ مچ رات کو مر جائے اور لوگوں کو یہ گمان ہو کہ میں نے اسے روپیہ اور عورت دونوں سنبھال لینے کے لیے مار ڈالا ہے چنانچہ اسی وہم کی بنا پر اس نے لیونارڈ کو الوداع کہا اور لیونارڈ جوانا کا ہاتھ پکڑے ہوئے رخصت ہوا۔
آٹر پیچھے پیچھے تھا۔
مگر وہ کچھ دور نہ گئے تھے کہ۔۔۔(غیر واضح لفظ) پرتگیز زاویر آگے بڑھا اور یہ کہہ کر کہ ”اتنی تکلیف اٹھائی ہے ایک بوسہ تو لے لوں جوانا کے گلے لپٹ گیا۔
اس وقت لیونارڈ کی غیرت و حمیت اس کے حزم و احتیاط پر غالب آ گئی اور اس نے طیش میں آ کر زاویر کی کنپٹی پر اس زور سے گھونسا جمایا کہ وہ زمین پر سر نگوں گر پڑا مگر فوراً اٹھ کر اس نے اپنی تلوار کھینچ لی اور کہنے لگا کہ ”ہمت ہے تو آ لڑ“ مگر لیونارڈ نے مناسب سمجھا کہ ایسی حالت میں یہاں سے فرار ہو جانا چاہیے اور اس خیال سے جوانا اور آٹر سے یہ کہہ کر کہ میرے ساتھ آؤ اس نے دوڑنا شروع کیا۔
یہ دیکھ کر سب لوگ قہقہہ لگانے لگے اور کہنے لگے ”واہ رے بہادر فرانسیسی! کہاں گئے وہ تیرے شروع کے دم خم، بے خبر کسی کو مارنا اور لڑنے سے ڈرنا تیرا ہی کام ہے۔ لیجیو پکڑیو۔ جانے نہ پائے۔“
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
123
لیونارڈ ۔ ابھی سو گز نہ گیا ہو گا کہ اس کو قریب بارہ بردہ فروش ملے جن میں سے بعض کے ہاتھ میں چھرے تھے۔ انہوں نے پرتگالی اور عربی زبان میں چیخنا شروع کیا ”او بزدل ٹھہر جا کہاں جاتا ہے۔ ہمت ہے تو آ لڑ۔“
لیونارڈ ۔ ”ہاں ہاں لڑوں گا“ اور یہ کہہ کر اس نے ادھر ادھر دیکھا میخانے کی پل جنبش میں تھا اور یہ دیکھ کر اس نے جوانا سے کہا ”جوانا اگر ہو سکتا ہے تو اس پل تک پہنچ جاؤ۔سوا اور تمہارے آدمی وہیں ہیں۔“
لیونارڈ جوانا کو یہ کہہ رہا تھا کہ اتنے میں زاویر ایک طرف سے آن پہنچا اور لیونارڈ کی طرف جھپٹ کر اس نے اس زور سے اس کو گھونسا لگایا کہ اگر لیونارڈ پھرتی سے وار خالی نہ دے جاتا تو اس کا کام تمام ہو گیا ہوتا۔ زاویر نے اسی طرح اور دو بار حملہ کیا۔ لیونارڈ کو ضرب بھی پہنچی مگر وہ ہر بار وار خالی دیتا ہوا میخانے کے پل کی طرف جو اب بیس گز سے زیادہ فاصلہ پر نہ ہو گا بڑھتا گیا۔ پرتگالی نے پھر چوتھی بار حملہ کیا اور چوں کہ لیونارڈ کو پیچھے کی طرف سے ہجوم نے گھیر لیا تھا اس لیے اب پل کی سمت میں حرکت کرنا محال تھا۔ زاویر نے موقعہ پا کر اپنی تلوار نکالی اور لیونارڈ کی طرف جھپٹا۔
لیونارڈ نے چاندنی میں اس کی تلوار کی چمک دیکھ لی اور اس نے بھی بچاؤ کے لیے اپنا خنجر نکالا اور کہا کہ آؤ یہ کہہ کر اس نے اپنا خنجر بلند کیا اور اپنے حریف پر ایک تلا ہوا ہاتھ لگایا مگر خنجر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر گر پڑا۔ اس وقت آٹر چلایا ”لڑے جاؤ میان لڑے جاؤ۔ دونوں تلواریں ٹوٹ گئی ہیں۔“ لیونارڈ نے دیکھا تو واقعی اس کے حریف کی تلوار ٹوٹ کر نیچے گر پڑی تھی پرتگالی نے اپنا چھرا نکالا۔ لیونارڈ کے پاس کوئی چھرا نہیں تھا اور اس وقت اسے اپنے ریوالور کا خیال نہیں آیا مگر تلوار کا قبضہ ابھی تک اس کے ہاتھ سے نہیں چھوٹا تھا اس لیے وہ اپنی ٹوٹی ہوئی تلوار سے زاویر پر جا پڑا اور زاویر بھی اس پر جھپٹا۔ لیونارڈ نے اس کے دہنے ہاتھ کی کلائی پر جس میں وہ چھرا لیے وار کرنے کو تھا۔
چالاکی سے اپنی ٹوٹی ہوئی تلوار کے قبضہ کے سامنے کے حصہ کو اس زور سے مارا کہ زاویر کے ہاتھ سے چھرا پانچ گز کے فاصلہ پر جا گرا۔ اب وہ آپس میں گتھ گئے اور بغیر کسی ہتھیار کے صرف جسمانی طاقت سے لڑنے لگے دو دفعہ قوی ہیکل پرتگالی نے لیونارڈ کو زمین پر سے اٹھا لیا۔ اور اٹھا کر چاہا کہ زمین پر دے مارے ہجوم نے نعرے بلند کیے مگر دونوں دفعہ وہ اس کوشش میں ناکام رہا۔ لیونارڈ نے لڑکپن میں کشتی کے داؤ پیچ ایسے ہی نہیں سیکھے تھے اور سالہا سال کی محنت شاقہ سے اپنے عضلات کو فولاد کی طرح بے فائدہ نہیں سخت کیا تھا۔ زاویر کا وزن دو من تیس سیر ہوگا۔ حالانکہ لیونارڈ دو من دس سیر بھی نہیں تھا۔ مگر اس کے بازو سخت تھے اور وہ جان عزیز کے لیے جد و جہد کر رہا تھا۔
کچھ دیر تک لیونارڈ نے ذرا زور نہ کیا اور پرتگالی اسے زمین پر پٹخنے کی جو کوششیں کر رہا تھا ان میں اسے
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
124
اپنی قوت کو ضائع کرنے دیا۔ پھر پھر دفعتًہ پرتگالی کو اپنی گرفت میں جکڑ کر لیونارڈ نےاپنا تمام زور لگایا یہ تو اسے معلوم تھا کہ میں پرتگالی کو زمین سے اٹھا نہیں سکتا مگر اس کا نیچے گرا دینا ممکن تھا۔ تب اس نے دفعتًہ پھرتی کے ساتھ قوی الجثہ زاویر کو۔۔۔(غیر واضح لفظ) پر لا کر اپنی پوری طاقت سے اس کو جھٹکا دیا۔ زاویر لڑکھڑایا ذرا سنبھلا مگر پھر لڑکھڑایا اور چاہا کہ اپنی ٹانگ کو چھڑا لے لیکن لیونارڈ نے سخت کوشش سے اسے روکا اور زاویر دھم سے زمین پر گرا اور لیونارڈ اس کے سینے پر آ رہا کچھ دیر تک اس کا حریف بے حس و حرکت رہا اور اس کے ہانپنے کی آواز آتی رہی۔ اب لیونارڈ نے اپنے چاروں طرف دیکھا۔ آٹھ فٹ کے فاصلہ پر چھرا پڑا تھا اور ان دونوں میں سے جس کے ہاتھ میں یہ آتا وہی یہ مہلک بازی لے جاتا۔ لیکن اب چھرا کیسے ہاتھ میں آئے۔ زاویر جس کی طاقت و توانائی پھر عود کر رہی تھی ابھی تک لیونارڈ کو شکنجے میں جکڑے ہوئے تھا۔ اس نے بھی چھرے کو دیکھا اور چاہا کہ پہلے میں اسے لوں۔ لیونارڈ کی عقل حیوانی نے اسے ایک تجویز سجھائی۔ اس نے کہا کہ چھرا مجھے صرف اسی صورت میں مل سکتا ہے جب کہ میں لڑھک کر اس تک پہنچ جاؤں۔ پہلے لڑھکنے میں میں نیچے آ جاؤں گا۔ مگر چھرا زاویر سے پھر بھی دور ہی رہے گا۔ پھر اگر میں ایک دفعہ زاویر کی زمین سے پیٹھ پھر لگا سکا اور اپنا ہاتھ چھڑا سکا تو غالباً مجھے مل جائے گا۔ تھا اس میں جان پر کھیلنے کا کام مگر سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہ تھا۔
کچھ دیر تک اس نے حرکت نہ کی تاکہ کسی قدر تازہ دم ہو جائے اور پھر اس نے حریف کو اوپر آنے کا موقع دیا۔ دونوں لڑھک گئے اور زاویر لیونارڈ کے سینہ پر سوار نظر آیا۔ لوگوں نے اپنے رفیق کو غالب دیکھ کر چیختا اور نعرے مارنا شروع کیا کیوں کہ انہیں خیال ہوا کہ اجنبی کی توانائی اسے جواب دے چکی ہے۔
زاویر ۔ ”چھرا چھرا!“ کہہ کر چلایا اور اس کا ایک خادم چھرا اس کے ہاتھ میں دینے کے لیے آگے کو جھپٹا لیکن آٹر دیکھ رہا تھا اور وہ جم غفیر میں سے ننگی تلوار ہاتھ میں لیے نکلا اس کے تند درشت چہرہ پر جوش و برانگیختگی سے چین پڑے ہوئے تھے اس کی سیاہ آنکھیں دہکتے انگاروں کی طرح چمک رہی تھیں اور اس کے عریض شانے مست ہاتھی کی طرح جھول رہے تھے جوانا کی نظروں میں جیسے اس خوفناک کشمکش کے سحر نے محو۔۔(غیر واضح لفظ) خود دفتہ کر رکھا تھا۔ بونا کسی کالے چھلاوے کی طرح یا کسی فوق القدرت ہستی کی طرح جو نصف مینڈک تھی۔ اور نصف انسان نظر آتا تھا۔ آٹر نے تلوار کو سر سے بلند کر کے گھمایا اور ٹوٹی پھوٹی عربی زبان میں گلا پھاڑ کر کہا ”چھرے کو جو کوئی ہاتھ لگائے گا وہ جان سے مارا جائے گا۔ یارو ان حریفوں کو آپس میں نمٹ لینے دو۔“
یہ سن کر جو آدمی آگے کو بڑھا تھا وہ پیچھے کو دبک گیا کیوں کہ وہ بھی آٹر کو چھلاوا سمجھ کر اس سے ڈرتا تھا اور دوسرے
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
125
لوگوں میں سے بھی کسی نے دست اندازی نہیں کی۔
اب وہ وقت آ گیا کہ فریقین میں سے ایک نہ ایک مرے یا جیے چونکہ زاویر کا ہاتھ چھرے تک نہ پہنچ سکا اس لیے اس نے جھٹکے سے اپنے داہنے ہاتھ کو چھڑا کر لیونارڈ کو حلق سے پکڑ لیا مگر پکڑنے کے ساتھ ہی لیونارڈ کی چھاتی پر سے دباؤ کم ہو گیا۔ زاویر نے اس کا گلا اس زور سے دبایا کہ اس کا دم گھٹنے لگا اور وہ سمجھا کہ میرا آخری وقت اب آن پہنچا جان توڑ کر اس نے ایک انتہائی کوشش میں اپنی تمام طاقت صرف کر دی۔ دو دفعہ سانپ کی طرح پیچ و تاب کھا کر اس نے دائیں طرف لڑھکنی کھائی اور اس بلا کا زور کیا کہ ایک کشمکشِ عظیم کے بعد زاویر لکڑی کے لٹھے کی طرح الٹ کر نیچے اور لیونارڈ اس کے اوپر آ گیا۔
جب لیونارڈ زاویر کی چھاتی پر سوار ہو گیا تو اس نے دیکھا کہ چھرا اس کے دائیں ہاتھ کی رسائی کے اندر ہے۔
مگر دیو ہیکل پرتگالی کی گرفت شکنجہ کی طرح تھی۔ حلق کو اس نے ابھی تک نہیں چھوڑا تھا۔ لیونارڈ کی آنکھوں سے خون ٹپکا پڑتا تھا اور اس کے حواس اس کو جواب دے رہے تھے مگر ایسی بے وقت موت سے بیکس جوانا پر جو مصیبت نازل ہوئی وہ اس کے دل پر پہلے سے کالنقش فی الحجر تھی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے تاریکی کا ایک پردہ حائل ہو گیا تھا اور اسے چھرا نظر نہ آتا تھا۔ اس کے تصور کی آنکھوں کے سامنے کہ وہ بھی دھندلی ہوئی جاتی تھیں جوانا کی تصویر پھر رہی تھی۔
لوگ یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ اب لیونارڈ میں کچھ سکت نہیں رہی کیوں کہ اس کا سر نیچے کی طرف جھکا پڑتا تھا۔
مگر یکایک اس نے سر اٹھا کر اپنا ہاتھ بلند کیا اور اس زناٹے سے زاویر کی پیشانی پر مکا لگایا کہ زاویر کا ہاتھ ڈھیلا پڑ گیا اور جب لیونارڈ نے دوسری دفعہ کھینچ کر ایک اور گھونسا اسے مارا تو بالکل چھوٹ گیا اب لیونارڈ کے پھیپھڑوں میں ہوا داخل ہوئی اور وہ سانس لینے لگا۔ چھرا جو اس کو پہلے نظر نہیں آتا تھا اب نظر آنے لگا۔ مگر اس کے استعمال کی اب چند ضرورت نہ رہی تھی۔ جیم پرتگالی اس کے نیچے چاروں شانے چت پڑا تھا اور سسکیاں لے رہا تھا۔
جس وقت لوگ لیونارڈ اور اس کے حریف کی جنگ کو حیرت سے دیکھ رہے تھے جوانا اپنے رہا کرنے والے کی حکم کی تعمیل میں با دل نا شاد میخانے کی پل کی طرف بھاگ گئی مگر اسے کسی نے نہیں روکا۔ اب آٹر نے لپک کر لیونارڈ کو اکھاڑے سے کھینچا اور بآواز بلند کہنے لگا ”واہ واہ کیا اچھی کشتی ہوئی اور مکے بھی کیا ہی کاری لگے۔ میان اس پر بھی اگر آپ کا حریف نہیں مرا تو یوں کہیے کہ مجھ کو ماں نے نہیں جنا۔ ہتیھار کا نام نہیں کس
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
126
بہادری سے آپ نے اسے۔۔۔(غیر واضح لفظ) مارا۔ اٹھیے میان اٹھیے گو شیر مارا گیا ہے مگر ابھی جنگلی سور باقی ہیں۔“
لیونارڈ نے آٹر کے الفاظ کچھ ایسے ہی سنے مگر وہ مطلب سمجھ گیا اور اس نے اٹھ کر آٹر کے کندھے پر ہاتھ رکھ لیا اب وہ تازہ دم ہو گیا اور اس کو ہوش آ گیا اس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی اور جوانا کو پل کے قریب کھڑے دیکھا گویا کہ وہ اس شبہ میں تھی کہ بھاگے یا ٹھہرے۔
تب لیونارڈ نے ہانپتے ہوئے کہا ”یارو لڑائی ہو چکی اور فتح میں نے پائی ہے اب مجھے اپنی زرخرید عورت لے کر بغیر مزید تعرض کے چلا جانے دو کیا زاویر زندہ ہے؟“
زاویر کے گرد بہت سے آدمی اکٹھے ہو گئے تھے اور ان کے درمیان پادری فرانسسکو گھٹنے ٹیکے بیٹھا تھا۔ جب لیونارڈ نے پوچھا ”کیا زاویر زندہ ہے“ تو اس نے اٹھ کر کہا کہ ”زاویر۔۔۔(غیر واضح لفظ) ہو چکا اس کے منہ میں پانی۔۔۔(غیر واضح لفظ) لا حاصل ہے۔“
بردہ فروشوں نے لیونارڈ کو خوف و تحیر کی نگاہ سے دیکھا کسی کو خیال نہ تھا کہ وہ شیر۔۔۔(غیر واضح لفظ) شجاعت جس کی ہمت اور دلاوری کا نقارہ ایک عالم میں بج چکا تھا ایک نہتے آدمی کے مکے سے مر جائے گا۔
مگر کچھ دیر میں ان کے آتش غصہ نے بھڑک کر ان کی چشم تحیر کو چندھیا دیا۔ زاویر ان کا رفیق تھا اور وہ یہ نہ چاہتے تھے کہ ہم اس کے مارنے والے کو بغیر بدلہ لیے چھوڑیں اس لیے انہوں نے لیونارڈ کو گھیر لیا اور لگے چیخنے اور اس کو لعنت ملامت کرنے۔
لیونارڈ ۔ ”ہٹو پیچھے مجھے جانے دو۔ میں تمہارے رفیق سے کھلے میدان میں بغیر کسی ناجائز فائدہ اٹھانے کے لڑا ہوں اگر میں چاہتا تو کیا میں اس کو استعمال نہیں کر سکتا تھا“ اور یہ کہہ کر اس نے اپنا پستول نکالا جو اس کو اب پہلی مرتبہ یاد آیا۔ اس پستول کو دیکھ کر سب کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا اور لیونارڈ کو رستہ دینے کے لیے ہٹ گئے۔ پھر لیونارڈ نے پادری فرانسسکو سے مخاطب ہو کر کہا کہ ”مہربانی کر کے مجھے چلنے میں مدد دیجیے میں بہت کمزور ہو رہا ہوں۔“
فرانسسکو نے لیونارڈ کو تھاما اور اب وہ دونوں جوانا کی طرف چلے آٹر ان کے پیچھے تلوار لیے آ رہا تھا۔
ابھی دس گز نہیں چلے ہوں گے کہ پریرا اپنے ایک کپتان سے جلدی مشورہ کر کے ان کے پیچھے آن پہنچا اور گلا پھاڑ کر کہنے لگا ”اس آدمی کو پکڑ لو اس نے ہمارے ایک بہادر اور معزز رفیق ڈام زاویر کو مار ڈالا ہے۔ نہ صرف ڈام زاویر کی اس نے ہتک کی بلکہ وہ بے انصافی سے بھی مارا گیا اور اس ملعون (لیونارڈ) کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔“
یہ دیکھنا تھا کہ بارہ بدمعاش آگے بڑھے مگر وہ آٹر کی تلوار اور پستول سے ان کو ہلاک کرنے کے لیے
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
127
کافی تھے ڈرتے تھے۔
لیونارڈ ۔ نے سمجھا کہ حالت بہت نازک ہو گئی ہے اور دفعتًہ ایک بات اس کے ذہن میں آئی اس نے بسرعت تمام پادری سے پوچھا ”پادری صاحب کیا آپ اس مقام سے فرار ہونا چاہتے ہیں۔“
فرانسسکو ۔ ”بدل و جان یہ جگہ تو جہنم ہے۔“
لیونارڈ ۔”تو جس قدر تیز آپ سے ہو سکے مجھے اس پل کی طرف لے چلیے مجھے چوٹ آ گئی ہے اور صنف بھی ہے پل کے دوسری طرف۔۔۔(غیر واضح لفظ) موجود ہے“ یہ بات اس کے منہ سے نکلی ہی تھی کہ میخانے کی پل جو اب دس گز دور بھی نہ تھا پھٹ سے گر پڑا لیونارڈ نے انگریزی زبان میں چلا کر کہا ”جوانا۔۔۔(غیر واضح لفظ) پل کی طرف دوڑ جاؤ“ وہ کچھ رکی مگر پھر اس نے اس حکم کی تعمیل کی لیونارڈ کو اس کی نگاہ سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ کہہ رہی ہے کہ ”میں تمہیں یہاں چھوڑ کر کیسے چلی جاؤں۔“
پھر لیونارڈ نے کہا ”پادری صاحب اب آپ بھی پل کی طرف لپکیے اور پادری کے کندھے کے سہارے وہ گرتا پڑتا پل کی جانب بڑھا مگر وہ کبھی وہاں نہ پہنچتا اگر آٹر کی مدد نہ ہوتی۔ اتنے میں پریرا چلایا ”دغا۔ دغا۔ روک لو اسے جانے نہ پائے۔ پل کس نے گرایا؟“
ایک نوجوان شخص حملہ کرنے کے لیے بڑھا اس کے ہاتھ میں چھرا تھا اور وہ اسے بلند کر کے لیونارڈ کی پشت پر وار کرنے کو ہی تھا کہ آٹر کی تلوار چمکی اور یہ شخص دو ٹکڑے ہو کر زمین کے برابر ہو گیا۔
پریرا پھر بے تحاشا چلایا۔ پل کو پکڑ لو اور تھامے رہو۔
اس کے جواب میں آٹر نے جو تلوار اور پستول سے ہجوم کو روکے ہوئے تھا چیخ کر کہا ”گھمائے جاؤ پل کی چرخی گھمائے جاؤ“ کھائی کے دوسری طرف جو لوگ تھے انہوں نے اس پھرتی سے چرخی کو گھمایا کہ پل جلد جلد اٹھنے لگا۔
اور لیونارڈ اور پادری پل کے ڈھلوان تختوں پر سے لڑھک پڑے۔
اب لیونارڈ کو آٹر کا خیال آیا اور وہ مضطرب اور سراسیمہ ہو کر بچارہ ”ہائے آٹر مارا جائے گا اس کے جواب میں آٹر نے اپنی شش ضربی پستول کی آخری نالی کو۔۔۔(غیر واضح لفظ) پر خالی کیا اور قبل اس کے کہ اس کے حریف اس تک پہنچیں۔
ایک نعرہ مار کر جنگلی بلی کی طرح سیدھا پل کی آہنی زنجیروں کی طرف اچھلا جن سے پل کو ضرورت کے وقت مستحکم کیا جاتا تھا۔
اس وقت وہ اس کے سر سے چار فٹ یا اس سے زیادہ بلند نہیں مگر آٹر نے ان کو پکڑ لیا اور سوا سے چلا کر کہا
کہ ”پل کو جلد اوپر کھینچ“ ایک آدمی نے چاہا کہ اس کی ٹانگیں پکڑ لے۔ مگر آٹر نے اس زور کی اس کے منہ پر لات جمائی کہ وہ پانی میں گر پڑا ایک لمحہ کے بعد وہ ان کی رسائی سے باہر ہو گیا اور جلد جلد ہوا میں بلند ہونے لگا کچھ لوگوں
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
128
نے اس کی طرف چھرے پھینکے اور بعض نے اس پر پستول فائر کیے مگر ایک بھی اسے نہ لگا۔
بونے نے ہوا پر سے چلا کر کہا ”ابے پیلے بھتنے ذرا پیچھے تو مڑ کر دیکھ ایک اور بھتنا تجھ سے بھی پیلا اور تجھ سے بھی زیادہ خونخوار تجھے دبوچنے کے لیے آ رہا ہے۔“
پریرا نے مڑ کر دیکھا اور تمام اس کے۔۔۔(غیر واضح لفظ) نے بھی پلٹ کر پیچھے کو نگاہ ڈالی اور اسی وقت آگ کا ایک عظیم الشان شعلہ برق جہندہ کی طرح دلدل کی طرف سے بڑھا۔ آخر کار سرکنڈوں میں لگ کر بھڑکنے لگی تھی اور تند و تیز ہوا اس کے شعلہ ہائے جوالا کو افعی کی زبانوں کی طرح ان تک آنے لگی تھی۔
 
Top