اسکین دستیاب سیر ظلمات

نور وجدان

لائبریرین
صفحہ نمبر ۲۷


ظاہر تھا اس مہمان کی آمد جین کو کسی طرح پسند نہ تھی پھر مسٹر بیچ نے ایسے لہجے میں جس سے ہمدردی چمکتی تھی لیکن لیونارڈو کو سخت ناگوار ہوا. لیونارڈو سے مخاطب ہو کے کہا: ہاں! لیونارڈو یہ اک سخت افسوسناک معاملہ ہے لیکن تم بیٹھ کیوں نہیں جاتے؟ "

لیونارڈو: بیٹھتا تو اسی وقت جب مجھ سے کوئ بیٹھنے کو کہتا

مسٹر بیچ: میں یقین کرتا ہوں کہ مسٹر کوہن تمھارا دوست ہوگا، ہے نا؟

لیونارڈو: ان سے مری جان پہچان ہے، دوستی نہیں ہے!

مسٹر بیچ: یہ کہو! میرا تو یہ خیال تھا کہ تم ہم مکتب ہو

لیونارڈو: ہاں، مگر میری اس سے بنتی نہیں ہے

مسٹر بیچ: میرے پیارے لڑکے یہ محض تعصب ہے اس میں شک نہیں ہے کہ یہ ایک صغیرہ گناہ ہےلیکن اسکو تمکی اصلاح کرنی چاہیے . یہ بھی قدرت کا تقاضا ہے کہ ایک دن جو شخص اوٹرم کا مالک بننے والا ہو اس سے تمھاری نہ بنے. مجھے تمھاری حالت پر نہایت افسوس ہے مگر کم از کم اس خیال سے تم کو ایک گونہِ تسلی ہونی چاہیے کہ جب تمام امور کا تصفیہ ہوجائے گا تو تمھارے ناشاد باپ کی قرض ادائی کے لیے کافی رقم پس انداز رہے گی.ہاں، اب یہ بتاؤ میں تمھاری یا تمھارے بھائی کی کوئی خدمت کر سکتا ہوں.

لیونارڈ نے اپنے دل میں سوچا کہ میرے باپ کے افعال خواہ کتنے ہی قبیح اور مذموم ہوں لیکن پادری جیمز بیج کے لیے یہ ہر گز نہیں ہوسکتا کہ وہ اسکے برے افعال کا اعادہ کرے کیونکہ دنیاوی جاہ و ثروت سے اس پادری کو جو کچھ حاصل ہے وہ سب میرے باپ کا طفیل ہے لیکن اس وقت وہ اپنے باپ کی حمایت کا اعلان نہیں کرسکتا تھا اور ایسا کرنا خارج از امکان تھا .اس لیے اس نے سوچا کہ مجھے اپنا مطلب کسی نہ کسی طرح نکالنا چاہیے. اس خیال سے وہ بولا "مسٹر بیچ البتہ آپ مجھے مدد دے سکتے ہیں. آپ جانتے ہیں ہم دونوں بہن بھائیوں پر مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے اور یہ عذاب کوئی ہمارے اپنے قصور سے ہم پر نازل نہیں ہوا ہے. ہمارا قدیمی گھر بک گیا ہے.مال و دولت جواب دے چکے ہیں اور ہمارے ذی عزت نام کو دھبہ لگ گیا ہے. اسوقت میرے پاس سوا دو سو پونڈ کے جو میں نے اک ذاتی مقصد کے لیے اپنے جیب خرچ میں سے جمع کئے تھے اور کچھ نہیں.نہ میرا کوئی پیشہ ہے اور نہ میں کوئ کالج ڈگری حاصل کرسکتا ہوں کیونکہ میرے پاس اس قدر روپے نہیں ہے جو کالج کے مصارف
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
صفحہ 81
ممکن تھا کہ وہ بھی اپنے بھائی کی طرح عدم کو سدھارے اور دشت غربت میں بے کسی کی موت اسے نصیب ہو۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ممکن تھا کہ اس کو جین کے وصال کی لازوال نعمت اور دولت و غربت کے حصول میں کامیابی ہو غرض کہ واقعات آیندہ پر مطلع ہونے کے لیے وہ صبر و تحمل کے ساتھ آمادہ تھا۔ وہ خوب جانتا تھا کہ مرد کو چاہیے کہ ہمت کا قدم بڑھاتا جائے۔ آگے صلہ دینا یا نہ دینا خدا کا کام ہے۔
لیونارڈ کے دل میں یہ الوالعزمی کے خیالات ممکن تھے اور واقعی میں جو شخص کسی مہم کا بیڑا اٹھائے اسے ایسا ہی عالی ارادہ ہونا چاہیے۔ جو شخص زندگی کے نشیب و فراز میں ایسا ایسا ہی صبر و تحمل اختیار کرتا ہے اور دل کو صاف اور ہاتھوں کو گناہ کی آلائش سے پاک رکھتا ہے وہ پہاڑ اور جنگل اور دریا اور دلدل کو طے کرنے کے بعد بھی اطمینان اور راحت کی نیند سوتا ہے انجام کار وہ کنز مخفی جو قدیم الایام سے مدفون ہے جس پر انسان کی نظر نہیں پڑی اور جس کو اس کے علم نے احاطہ نہیں کیا اس کو مل جاتا ہے۔
اس طرح لیونارڈ نے بھی پائے ہمت کو آگے بڑھایا۔ اس کے ارادے بلند تھے مگر ان کی تکمیل ایک نہ ہونے والی بات معلوم ہوتی تھی۔ یہاں اس امر کا اظہار لازم ہے کہ ابھی تک لیونارڈ کے دماغ میں وہم پرستی کا مادہ موجود تھا۔ مگر بحالت موجودہ وہ اپنی وہم پرستی میں کسی قدر حق بجانب تھا۔ کیا اس کے بھائی نے اس سے یہ نہیں کہا تھا کہ اس کو ایک عورت کے وسیلہ سے دولت ملے گی۔ پھر کیا یہ عورت اس کے پاس ہاتھ میں یاقوت رتانی لے کر نہیں آئی جو خالص ہونے کی صورت میں خود ایک گنج بے بہا تھا اور پھر کیا اس عورت نے وعدہ نہیں کیا کہ وہ ایک عورت کی مدد سے اس کو ایک ایسے خط زمین میں لے جانے گی جہاں بہت سے اور جواہرات مل سکتے ہیں بے شک یہ تمام باتیں سچی تھیں اور مسلہ تعمیر سے اگر قطع نظر کی جائے تاہم اگر لیونارڈ کو اس وقت سے یہ خیال بھی پیدا ہو گیا کہ جیسا میں شروع میں تھا ویسا ہی پھر بن جاؤں گا اور جس مہم پر میں چلا ہوں اس میں مجھے کامیابی ہو گی اور دولت ملے گی تو اس کو کس قدر حق بجانب سمجھنا چاہیے
یہ ضروری نہیں کہ ہم لیونارڈ اوٹرم اور اس کے ہمراہیوں کے سفر کے روزمرہ کے حالات قلمبند کریں۔
ایک ہفتہ تک وہ پاپیادہ چلتے رہے اور جیسی انہوں نے پہلے سے صلاح کر لی تھی وہ اکثر رات کے وقت سفرکرتے تھے۔ کبھی وہ پہاڑوں پر چڑھے اور کبھی دلدلوں میں سے ہو کر نکلے کبھی انہوں نے دریا کو عبور کیا اور کبھی جنگلوں کو۔۔۔(غیر واضح لفظ)۔ ایک دفعہ وہ ایک ندی کے بھنور میں گِھرگئے اگر اس وقت آٹر اپنی جسمانی طاقت اور شناوری سے جو گویا قدرت نے خاص طور پر اس میں ودیعت کی تھی کام نہ لیتا تو ان کا دریا کو عبور کرنا ناممکن تھا اس نے چھ دفعہ منجدھار کا مقابلہ کیا اور سطح آب کے اوپر اوپر اسباب اور بندوق کو ایک ہاتھ سے پکڑ کر لے گیا۔ ساتویں دفعہ اس کو
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
82
پہلے سے زیادہ بوجھ اٹھانا پڑا کیونکہ اب کی بار اسے سوا کو بھی لانا پڑا جو تیرنا نہیں جانتی تھی مگر آٹر کی طاقت کا ٹھیک اندازہ اس وقت معلوم ہوا جب وہ ایک زور کی رو کے مقابل میں تیرتا ہوا چلا گیا اس کی پست قامتی اس وقت اس کے کام آ گئی کیوں کہ جسم کی سطح کے کم ہو جانے سے پانی کی مزاحمت بھی کم ہو گئی۔
یہاں سے وہ آگے بڑھے کبھی وہ فاقہ کرتے ور کبھی گوشت اور دودھ اور اناج تک ان کو میسر ہو جاتا کیوں کہ کبھی کبھی کوئی جھونپڑی یا مکان ان کے رستہ میں آ جاتا تو وہ وہاں کے رہنے والوں سے پیتل کے خالی کارتوسوں کے بدلے اشیائے خوردنی لے لیتے اوّل اوّل لیونارڈ کو اندیشہ تھا کہ شاید سوا تھک جائے مگر باوجود کہ وہ ایک سال خوردہ عورت تھی جس کو مصائب اور تکالیف نے گھلا دیا تھا تاہم اس کی طرف سے اس قدر حیرت انگیز برداشت اور استقلال ظاہر ہوا کہ لیونارڈ کو یقین ہو گیا کہ اس کی ہمت اور الوالعزمی اور اپنی مالک راعیہ کو بند غلامی سے چھڑانے کی سچی خواہش اس کے انحطاط اور ضعف جسم کا ردعمل کر رہی ہے اس کی خواہ کوئی وجہ قرار دی جائے مگر وہ لیونارڈ اور آٹر کے ساتھ ساتھ برابر چلتی رہی اور منہ سے کبھی کبھی ہمت بڑھانے والے کلمات بھی نکالتی رہی۔
سفر کی آٹھویں رات کو انہوں نے ایک بلند پہاڑ کی چوٹی پر قیام کیا چاند غروب ہو گیا تھا اور وہ بھی تھکے ماندے تھےاس لیے آگے نہ جا سکے ہوا ٹھنڈی چل رہی تھی ایسی حالت میں اپنا اپنا کمبل اوڑھ کر وہ۔۔۔(غیر واضح لفظ) کے نیچے سو رہے۔ صبح کو آفتاب نے مشرق سے سر نکالا آٹر کی آنکھ سب سے پہلے کھلی اور اس نے اپنے ہمراہیوں کو بھی جو ابھی سو رہے تھے جگایا۔ اپنے مالک سے مخاطب ہو کر بولا کہ ش”دیکھو میاں ہم سیدھی منزل مقصود کی طرف آئے ہیں وہ دیکھو بڑا دریا نیچے بہہ رہا ہے اور آپ کے دائیں طرف بہت فاصلہ پر سمندر موجیں مار رہا ہے۔“
آٹر سے یہ بات سن کر لیونارڈ اور سوا نے اس طرف نگاہ ڈالی دیکھتے کیا ہیں کہ چند میلوں تک میدان ہی میدان چلا گیا ہے جس پر مختلف قسم کی جھاڑیوں اُگی ہوئی ہیں۔ یہ میدان ایک دلدل میں جا ملتا تھا اور اس دلدل کے دوسری طرف دریائے زمبزی کی وہ شاخ بہہ رہی تھی جہاں ان کو پہچنا تھا۔ افسوس کہ وہ قدرت کے اس عجیب نظارہ کو صاف طور پر نہ دیکھ سکے کیوں کہ دریا کی سطح پر بادل کی طرح دھندلے کہر کی ایک موٹی چادر پڑی ہوئی تھی جس کے نیچے وہ کروٹیں لے رہا تھا مشرق کی جانب سے آفتاب کی نورانی شعاعیں سمندر کی بلورین سطح پر سے منعکس ہو کر آتی تھیں جس پر موجوں کے شکن پڑ رہی تھی اور آفتاب کی عظمت و شان کا دوبالا کر رہی تھی جب ان کی نگاہ اس دلفریب نظارہ کو دیکھ کر سیر ہو چکی تو آٹر نے کہا کہ”دیکھیے میاں سامنے یہاں سے پانچ گھنٹے کی مسافت پر پہاڑوں کی ڈھلوانیں دریا کے کنارے آ لگتی ہیں۔ وہاں سے ہم کو گزرنا پڑے گا کیوں کہ ان پہاڑوں کی دوسری طرف ایک بڑی
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
83
دلدل میں پیلے بھتنے کا گھونسلا ہے میں اس جگہ سے خوب واقف ہوں مجھے دوبارہ وہاں سے گزرنے کا اتفاق ہوا ہے۔

یہاں وہ دوپہر تک ہے اور پھر روانہ ہو کر رات کو چاند کے طلوع ہونے سے پیشتر دریا کے کنارے کے قریب دامن کوہ میں پہنچ گئے اتنے میں چاند نکل آیا۔ چاندنی میں ایک ایسا دلکش اور حیرت انگیز نظارہ انہیں دیکھائی دیا کہ کچھ دیر کے لیے وہ اس کی دید میں محو ہو گئے پہاڑوں کا سلسلہ موج کی طرح بل کھا کر جانب جنوب نکل گیا تھا اور بلندی میں بتدریج کم ہو کر افق کے ساتھ مل گیا تھا اس سلسلہ کوہ نے نصف محیط دائرہ کی شکل پیدا کی تھی جس میں ایک دریا بہہ رہا تھا جس کی سطح پر قدرت نے چھوٹے چھوٹے جزیرے چن دیے تھے دریا اور دامن کوہ کے درمیان ایک مہیب اور وسیع دلدل تھی جس میں کہیں کہیں پانی کھڑا ہوا تھا اور کائی جم جانے کی وجہ سے اس میں سے ایسی عفونت آئی تھی کہ گویا وہ پانی صد ہا سال سے سڑ رہا ہے۔
اس جگہ کسی انسان کا گزر نہ تھا اور وحشت اور ویرانی نے ایک ایسی شکل پیدا کر دی تھی کہ وہاں چلتے ہوئے خوف آتا تھا مگر پھر بھی قدرت اس ویرانہ میں زندگی کی روح پھونکنا نہیں بھولی تھی۔ آبی جانور سمندر کی سطح پر سے اڑ کر دریا کے کنارے پر چرنے چگنے آتے تھے بگلوں اور دریائی گھوڑوں کے تیرنے سے پانی میں ایک خوفناک جنبشِ ہوتی تھی اور چھینٹے اڑتی تھی بگلوں نے اپنی کمیںن گاہ سر کنڈوں میں بنائی تھی اور۔۔۔(غیر واضح لفظ) اور کیچڑ والی جگہ سے ہزاروں مینڈک اپنی بولیاں بول رہے تھے۔
ایک پہاڑ کے دامن کی طرف انگلی اٹھا کر آٹر نے کہا کہ اس سامنے کی سڑک سے بردہ فروش جایا کرتے ہیں یا یوں کہنا چاہیے کہ جایا کرتے تھے۔
لیونارڈ آؤ چلو دیکھیں کہ سڑک ہم کو پیلے بھتنے کے خیمہ گاہ کی طرف لے جاتی ہے یا نہیں۔
یہ کہہ کر وہ چل پڑے اور جب پہاڑی کے بالکل نیچے اتر گئے تو آٹر شکاری کتے کی طرح جھاڑیوں میں چلنے لگا پھر اس نے اپنا ہاتھ اٹھا کر سیٹی بجائی جب لیونارڈ اور سوا قریب پہنچے تو اس نے کہا کہ ”میرا پہلے سے خیال تھا کہ ہم پرانے رستہ پر چل رہے ہیں دیکھ لیجیے میان“
جب وہ یہ کہہ چکا تو اس نے ایک جھاڑی کی شاخوں پر ایسی لات ماری کہ شاخیں ٹوٹ گئیں۔ ان شاخوں کے درمیان ایک عورت اور اس کے بچے کا بوسیدہ ۔۔۔(غیر واضح لفظ) پڑا ہوا تھا۔
آٹر۔۔۔(غیر واضح لفظ) بہت مدت کا نہیں شاید دو ہفتے ہوئے ہوں گے پیلے بھتنے نے اچھا کیا کہ ایک ایسی نشانی
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
84
رستہ میں چھوڑی جس کو دیکھ کر ہر شخص رستہ ڈھونڈ لے“ سوا نے چہک کر ہڈیوں کو دیکھا کہنے لگی۔۔۔(غیر واضح لفظ)کوئی خادمہ ہو گی گھٹنے کی ہڈی سےتو ایسا ہی ظاہر ہوتا ہے۔
پھر وہ دو گھنٹے تک چلتے رہے آخر کار اس جگہ آ کر ٹھہر گئے جہاں پہاڑوں کا سلسلہ دریا کے کنارے پر ختم ہوتا تھا۔
لیونارڈ آٹر اب بتاؤ کدھر چلیں۔“
آٹر میان اس جگہ سے غلام کشتیوں پر سوار کیے جاتے ہیں۔ کشتیاں وہاں ہو گی۔ ”یہ کہہ کر اس نے اپنی انگلی سے کچھ گنجان درختوں کی طرف اشارہ کیا پھر کہنے لگا“ وہاں جا کر بھی وہ کانٹ چھانٹ کرتے ہیں اور جو غلام کمزور ہوتے ہیں ان کو قتل کر ڈالتے ہیں تاکہ بوجھ ہلکا ہو جائے چلو چل کر دیکھیں۔“
آٹر آگے آگے ہو لیا اور یہ دونوں پیچھے پیچھے چلے یکایک وہ ٹھہر گیا اور کہنے لگا کہ ”کشتیاں تو چلی گئی ہیں صرف ایک۔۔۔(غیر واضح لفظ) پڑا ہوا ہے مگر مقتولوں کی لاشوں کے ڈھیر جیسا کہ میں پہلے دیکھا کرتا تھا اب بھی وہاں موجود ہیں۔
آٹر سچا تھا ایک چھوٹی سی کھلی جگہ میں مردوں عورتوں اور بچوں کی قریب تیس کے تازہ لاشیں پڑی تھیں۔
پاس کے دوسرے مقامات میں بھی اسی قسم کے ڈھیر لگے ہوئے تھے مگر صرف ہڈیوں کے تھے جن پر چاند کی روشنی پڑ رہی تھی اور پہلی خونریزیوں کی یادگار میں لگائے گئے تھے اوّل الذکر ڈھیر کے قریب ہی کشتیاں رکھنے کی ایک جگہ بنی ہوئی جہاں کم از کم ایک درجن چوڑے پیندے والی کشتیوں کے نشان ریت میں نظر آتے تھے صاف ظاہر تھا کہ۔۔۔(غیر واضح لفظ) جو ان کو ملا بڑی کشتیوں کے لادنے اور دریا میں ڈالنے کے لیے رکھا گیا تھا۔
صفائی اور خونریزی کے ان آثار کو دیکھ کر سب دم بخود رہ گئے اس قتل اور خونریزی پر رائے لگانا بے سود تھا مگر لیونارڈ کے دل میں سخت جوش پیدا ہوا اور اس کی رگ حمیت پھڑک اٹھی اور وہ کہنے لگا کہ یہ پیلا بھتنا جس نے اتنے بندگان خدا کا خون پیا ہے اور ان کی جان کو عذاب پہنچا پہنچا کر اپنے آپ کو دولتمند بنایا ہے جو ہو سو ہو میں اس سے مقابلہ کروں گا اور ہو سکا تو اس سے انتقام لوں گا۔ پھر تھوڑی دیر کے سکوت کے بعد وہ بولا کہ چاندنی تو اب رہی نہیں اس لیے صبح تک ہمیں یہیں قیام کرنا پڑے گا۔
اس عالم برزخ میں جہاں مردوں کی روحیں پریشان و مضطرب الحال بھٹک رہی تھیں اور ہڈیوں کے ڈھیر انتقام کے لیے آسمان کے آگے فریاد کر رہے تھے لیونارڈ اور اس کے۔۔۔(غیر واضح لفظ) ہوئے۔ رات کی ہوا بڑے بڑے درختوں کی شاخوں میں کچھ سرگوشیاں کر رہی تھی سمندر کی طرف آہستہ آہستہ جانے والے دریا کی ۔۔۔(غیر واضح لفظ) سطح پر پانی
 
آخری تدوین:

لاريب اخلاص

لائبریرین
85
میں مترنم بہتیں وقتاً فوقتاً مینڈک ایک ساتھ مل کر پکارنا شروع کر دیتے تھے اور پھر چپ ہو جاتے تھے۔ کبھی حواصل۔۔۔(غیر واضح لفظ) سے چلاَّ اٹھتا تھا گویا کسی نہنگ یا دریائی گھوڑے نے اس کے آرام میں خلل اندازی کی ہے۔ کبھی۔۔۔(غیر واضح لفظ) ہوا پر سمندر کی طرف جانے والے طائرانہ صحرائی کے اڑنے کی آواز کان میں آتی تھی۔ مگر لیونارڈ کا یہ خیال تھا کہ قدرت کی یہ تمام مختلف صدائیں ایک بڑی آواز بن کر ان ہڈیوں کے ڈھیروں سے آ رہی ہیں جن پر بھول بھلیاں کھیلنے والے چاند کی مدھم شعاعیں پڑ رہی تھیں اور وہ بڑی آواز یہ تھی کہ اے خدا بے انصافی کا روئے زمین پر کب تک بول بالا رہے گا۔ اے باری تعالیٰ یہ کاروائیاں جو تیری مرضی کے خلاف ہیں کب تک جاری رہیں گی۔
رات کی تاریکی زائل ہو گئی اور آفتاب چمکتا ہوا پھر نکل آیا لیونارڈ اور اس کے ساتھی بھی اٹھے اور اپنے بالوں کو جن کو شبنم نے تر کر دیا تھا صاف کر کے جو کچھ ان کے پاس موجود تھا تھوڑا تھوڑا کھایا پھر وہ۔۔۔(غیر واضح لفظ) کی طرف گئے اور اس کو اپنی جگہ سے اٹھا کر دریا میں ڈالا۔ لیونارڈ اور آٹر دونوں چپووں پر بیٹھ کر ناؤ کو کھینچنے لگے۔
آٹر کی قوت حافظہ بہت تیز تھی جو اس وقت خوب کام آئی۔ اس کے بغیر وہ ۔۔۔(غیر واضح لفظ) تک نہ جا سکتے کیونکہ ان کے راستہ میں بے شمار جھیلیں اور قدرت اور دریا کی کاٹی ہوئی نہریں تھیں مزید برآں ان کو گھنے جھاڑوں اور سرکنڈوں میں سے گزرنا تھا ان قدرتی نہروں کو ایک دوسرے سے شناخت کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی ذریعہ نہ تھا کیونکہ وہ سب مل کر دریا کا دہانہ بتاتی تھیں رہنمائی کے لیے کوئی نشان نہ تھا۔ ہر طرف دلدل کا سمندر پھیلا ہوا تھا۔ جس میں قدرت کی روئیدگی کا لباس پہنے ہوئے کئی ایک ایسے جزائر تھے کہ ایک انجان شخص ان میں ہرگز امتیاز نہ کر سکتا اس پگڈنڈی پر اثر بغیر کسی شک و شبہ کے ان کی رہنمائی کرتا گیا۔ اس جگہ سے گزرے اس کو دس برس ہو گئے تھے مگر وہ کہیں جھجکا تک نہیں۔
اس پانی کے رستہ پر وہ اپنی کشتی کو دن بھر چلاتے رہے حتیٰ کہ وہ ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں سوا نے جس کی تیز نگاہ سطح آب پر ہر طرف دوڑ رہی تھی سرکنڈوں کے ایک بلند پہاڑ کی طرف جو چالیس گز کے فاصلہ پر ہو گا انگلی اٹھا کر کہا کہ وہ کیا چیز ہے؟
لیونارڈ ”شاید کسی چیز کے پر ہوں گے لیکن چل کر دیکھنا چاہیے“ وہاں پہنچ کر آٹر نے دبی آواز سے کہا کہ یہ تو کاغذ ہے۔ سر کنڈے کے اوپر لگا ہوا ہے۔
لیونارڈ نے بھی آہستہ سے جواب دیا ”بااحتیاط اوتار لو“
آٹر نے کاغذ کو سر کنڈے سے جدا کر کے لیونارڈ کے سامنے کشتی میں رکھ دیا سوا اور وہ مل کر اُسے
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
صفحہ 96
نہ میں نے کبھی منہ پھیرا ہے اور نہ اب پھیرتا ہوں اکرچہ یہ بھی خوب جانتا ہوں کہ میری موت قریب ہے۔“
آٹر ”جو کچھ ہونا ہے ہو کر رہے گا۔ اب تو کوئی نہ کوئی تدبیر سوچنی چاہیے کیونکہ رات گزرتی جاتی ہے بہتر ہوگا کہ ہم سامنے والے گھنے جھنڈ میں جو بلند ترین درخت ہے۔ اس پر چڑھ کر خیمہ گاہ کو دیکھیں۔“
لیونارڈ ۔اس رائے سے اتفاق کیا اور دونوں بآسانی درخت پر چڑھ کر پتوں میں سے جھانکنے لگے سارا خیمہ گاہ ان کو اس طرح نظر آ رہا تھا جیسے ایک پرندہ اوج ہوا سے نیچے کی چیزوں کو دیکھے آٹر بندر کی طرح ایک شاخ پر ہو بیٹھا اور لیونارڈ کو اس جگہ کے مفصل حالات بتانے لگا کیونکہ یہاں کی قید وہ بھگت چکا تھا اور قیدیوں کا حافظہ تیز ہوا کرتا ہے۔
خیمہ گاہ میں مختلف لاقوام اور مختلف اللباس کثیر التعداد بردہ فروش رہتے تھے شاید یہ لوگ تعداد میں سو سے متجاوز نہ ہوں گے ان میں سے کچھ آدمی مل کر ادھر ادھر مٹر گشت کر رہے تھے اور چرٹ پیتے اور باتیں کرتے جاتے تھے چند اشخاص جن کے پرتکلف لباس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ کپتان ہیں سلاح خانہ کے پاس کھڑے ہوئے ایک دوسرے کے کندھے پر چڑھ کر ایک کھڑکی کے سوراخ میں کسی شے کو یکے بعد دیگرے جھانک کر دیکھ رہے تھے یہ دل لگی کچھ دیر تک رہی اتنے میں ایک بڈھے سے آدمی نے جو باوصف پیرانہ سالی جسمانی ترکیب کے لحاظ سے مظبوط معلوم ہوتا تھا آ کر ان کو وہاں سے ہٹا دیا اور وہ ہنسے اور قہقہہ لگاتے ادھر ادھر منتشر ہو گئے۔
آٹر اسی شخص کا نام پیلا بھتنا ہے اور وہ آدمی اس عورت کو جس کا لقب راعیہ ہے دیکھ رہے تھے۔ نیلام کے وقت تک وہ ایک کمرے میں بند رہے گی اور یہ لوگ بولی بولیں گے۔“
لیونارڈ ۔نے اثر کی اس بات کا کچھ جواب نہ دیا بلکہ خاموش پیلے بھتنے کی مسکن ہیت کو بغور معائنہ کرتا رہا تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ ایک ڈھول بجا اور کچھ آدمی نکلے ان کے ہاتھ میں ٹین کے برتن تھے اور برتنوں میں سے بھاپ نکل رہی تھی۔
آٹر ۔”یہ غلاموں کے لیے کھانا جا رہا ہے۔“
ان آدمیوں کے ساتھ کچھ آفسر ہاتھوں میں چرمی تازیانے لیے جا رہے تھے۔ خیمہ گاہ کے سامنے ایک کھلا میدان تھا۔ اس کو طے کر کے وہ اس کھائی تک پہنچے جو خیمہ گاہ کو پیلے بھتنے کے مکان سے جسے بعض جگہ۔۔۔(غیر واضح لفظ) قلعہ کے لحاظ سے تعبیر کیا ہے علیحدہ کرتی تھی یہاں انہوں نے سنتری کو کھائی پر پل کا تختہ گرا دینے کے لیے آواز دی جب پل قائم ہو گیا تو وہ پار ہوئے ہر شخص کے ہاتھ میں ایک گہرا برتن تھا اور اس کے پیچھے کے آدمی کے ہاتھ میں ایک چمچہ تھا ایک اور شخص ان دونوں کے پیچھے پیچھے ایک بڑا سا تونبا لیے آ رہا تھا۔ جب وہ خس پوش جھونپڑیوں
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
97
کی قطار کے پہلے جھونپڑے میں پہنچے جہاں کہ غلام رہتے تھے تو انہوں نے کھانا بانٹنا شروع کیا چمچہ والا آدمی برتن میں سے کھانا نکال نکال کر ہر ایک غلام کے آگے کتے کی طرح ڈالتا اور تونبے والا آدمی کاٹھ کے پیالوں میں پانی انڈیلتا جاتا تھا۔
کچھ دیر کے بعد وہ ٹھہر گئے اور آفسر لوگ کسی معاملہ پر بحث کرنے لگے۔
آٹر ۔” کوئی غلام بیمار معلوم ہوتا ہے۔“
تھوڑی دیر کے بعد سب آفسر پیچھے ہٹ گئے اور ایک معمر سفیدیش آدمی نے دریائی گھوڑے کے چمڑے کے تازیانہ سے زمین پر ایک بے حس وحرکت کالی رنگت والی چیز کو مارنا شروع کیا۔
جب تازیانہ۔۔۔(غیر واضح لفظ) ہو چکی تو بڈھے نے بآواز بلند…(غیر واضح لفظ) کو بلا کر کہا کہ پل کے پاس جا کر چوکی۔۔۔(غیر واضح لفظ) میں سے اوزار لے آؤ تاکہ اس قیدی کے ہاتھ پاؤں میں سے بیڑیاں کھول دی جائیں۔“ یہ غلام ایک عورت معلوم ہوتی تھی۔
اس ستم رسیدہ کو بعد میں ایک احاطہ کے اندر جو اونچی جگہ واقع تھا گھسیٹ کر لے گئے اور وہاں سے گھسیٹ کر ایک لکڑی کے تختہ پر رکھ دیا جو ایک چھوٹے سے زینہ کے اوپر لگا ہوا تھا اور جس کے نیچے گہری کھائی تھی۔
آٹر ۔”یہ وہ طریقہ ہے جس سے پیلا بھتنا مردوں کو گاڑھتا اور بیماروں کا علاج کرتا ہے۔“
لیونارڈ۔ بس۔۔۔(غیر واضح لفظ) قلعہ کو اب کافی طور پر دیکھ لیا۔“ یہ کہہ کر وہ درخت سے جلدی جلدی نیچے اترنے لگا۔ چوں کہ اٹر اس قلعہ میں کسی زمانہ میں ری چکا تھا اس لیے اس۔۔۔(غیر واضح لفظ) واقعہ کو دیکھ کر اس کے دل پر وہ کیفیت طاری ہوئی جیسی لیونارڈ پر جس نے ایسا ظلم عظیم پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ جب لیونارڈ درخت سے نیچے اتر آیا تو آٹر نے اس سے کہا“ واہ میاں آپ بھی بڑے
رقیق القلب معلوم ہوتے ہیں۔ آپ سے تو وہی بہتر ہیں جو بردہ فروشوں کے خیمہ گاہ میں رہ چکے ہیں ہمت سے کام لیجیے اگر ہم سے کچھ نہ ہو سکا تو بردہ فروشوں کی کشتیوں سے مچھلی کا پیٹ تو پھر بھی بہتر ہے اگر آپ ہی ہمت ہار گئے تو اس کام کو اور کون شخص انجام دے گا۔وہ انگریز لوگ بھی تو آپ ہی کے بھائی ہیں جو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر بہادر آدمیوں کے لیے دعا مغفرت مانگتے ہیں اور خود بھی قدم بڑھائے چلے جاتے ہیں۔“
لیونارڈ ۔”بس چپ۔ اس وقت مجھے تھوڑی سی برانڈی چاہیے۔“
آٹر ۔ نے لیونارڈ کو برانڈی دی اور جب وہ پی چکا تو کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا آخر کار وہ سوا سے یوں کہنے لگا کہ ”اے نیک بخت تیرے کہے پر ہم یہاں آئے ہیں تو بھی کوئی مشورہ دے کہ تیری مالکہ کو ہم اس خیمہ گاہ سے کیوں کر نکالیں۔“
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
98
سوا نے جلدی سے جواب دیا کہ” غلاموں کو رہا کر کے انہی سے ان کے آقاؤں کو قتل کراؤ۔“
لیونارڈ ”مجھے ڈر ہے کہ ایسے غلام بہت کم نکلیں گے جن میں اتنی سکت باقی ہو کہ وہ اس کام کو انجام دے سکیں۔“
سوا یہ پچاس تو۔۔۔(غیر واضح لفظ) ہی کے آدمی ہوں گے اور اگر ان کے پاس ہتیھار ہیں تو بردہ فروشوں سے یقیناً لڑیں گے۔
پھر لیونارڈ نے اثر کی طرف دیکھا کہ شاید وہ بھی کچھ کہے۔
آٹر۔ ”میری تو یہ رائے ہے کہ جہاں اپنی جمیعت کم ہو اور دشمن زیادہ ہوں وہاں آگ سے خوب کام نکل سکتا ہے سامنے کے سر کنڈے اس وقت سوکھے پڑے ہیں۔ آدھی رات سے پہلے سمندر کی طرف سے ہوا بھی خوب تیز چلتی ہے مزید برآں ان تمام مکانات پر پھونس کے۔۔۔(غیر واضح لفظ) پڑے ہوئے ہیں چوں کہ ہوا میں آگ خوب بھڑکتی ہے اس لیے جل کر خاک سیاہ ہو جائیں گے میان ایک فوج کے دو جرنیل نہیں ہو سکتے آپ ہمارے کپتان ہیں آپ کے حکم کی تعمیل ہم پر فرض ہے چوں کہ اس بڑھیا کی رائے بھی معقول ہے اس لیے آپ خود فیصلہ کر لیں کہ کون سی رائے صائب ہے۔“
لیونارڈ ”بہت اچھا میں اچھی فیصلہ کرتا ہوں میں اس قدر اور رائے دیتا ہوں کہ اندھیرے اندھیرے چاند نکلنے سے پہلے ہم قلعہ کے اندر کسی طرح داخل ہو جائیں۔ وہ خفیہ لفظ”بھتنا“ تو ہم کو معلوم ہی ہے اور چوں کہ ہم نے لباس بھی بدل لیا ہے اس لیے شاید سنتری ہم کو بے روک اندر جانے کی اجازت دے دے گا اور اگر اس نے ہم کو اجازت نہ بھی دی تو ہم اس کو چپکے سے مار ڈالیں گے۔“
آٹر۔ ” میان کی رائے نہایت درست ہے مگر اس بڑھیا کا کیا ہو گا۔“
لیونارڈ۔ ” ہم اس کو جھاڑی میں چھوڑ جائیں گے کیوں کہ خیمہ گاہ میں ہم کو اس سے کوئی مدد نہیں مل سکتی بلکہ اس کی وجہ سے ممکن ہے کہ ہم کو ایک گونہ رکاوٹ ہو۔“
سوا (قطع کلام کر کے) ” نہیں گورے آدمی جہاں تم جاؤ گے میں بھی وہاں جاؤں گی علاوہ ازیں میں تم کو اپنی مالکہ کے پہچاننے میں مدد دوں گی۔“
لیونارڈ ”اچھا جیسی تمہاری مرضی (پھر اثر کی طرف مخاطب ہو کر) ہم کو اس پست دیوار تک جو خندق کے گرد کھینچی ہوئی ہے اور پیلے بھتنے کے قلعہ کو خیمہ گاہ سے جدا کرتی ہے پہنچنا چاہیے۔ اگر میخانے کے پل کا تختہ گرا ہوا نہ ہو گا اور دوسرا رستہ کوئی نہ ملے گا تو ہم کھائی میں سے تیر کر سامنے جو سنتری ہو گا اس سے یا تو اجازات لے لیں گے یا اس کو مار ڈالیں گے اور خیمہ گاہ میں پہنچ جائیں گے پھر ہم کچھ غلاموں کو رہا کریں گے اور ان کو کہیں گے کہ جب ہوا تیز چلے تو باغ کے بیچوں بیچ جا کر سر کنڈوں کو آگ لگا دیں جب وہ آگ لگا رہے ہوں گے تو میں خیمہ گاہ میں بے دھڑک چلایا جاؤں گا اور
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
99
پریرا کو سلام کر کے کہوں گا کہ”میں بردہ فروش ہوں میری کشتی دریا کے دہانہ میں پڑی ہے اور میں غلام خریدنے کے لیے آیا ہوں خصوصاً اس میم کو جو نیلام ہونے والی ہے“ اچھا ہوا ہمارے پاس سونا بھی بہت سا ہے میں نے تو یہ تدبیر سوچیں ہے باقی اللہ کے حوالے۔ اگر راعیہ کو میں خرید سکا تو خرید لوں گا ورنہ کسی اور طریقہ سے اس کی رہائی کے لیے کوشش کروں گا۔“
آٹر۔ بس یہی رہنے دیجیے میان۔ اب آئیے کچھ کھانا کھا لیں کیوں کہ رات ہم کو اپنے زور بازو سے پوری پوری مدد لینا پڑے گی۔ کھانا کھانے کے بعد ہم اس گھاٹ پر جائیں گے جہاں کھائی سے پار ہونے کے لیے کشتیاں بندھی ہیں اور قسمت آزمائی کریں گے۔ غرض کہ جو کچھ ان کے پاس موجود تھا انہوں نے کھایا اور ان بردہ فروشوں کی برانڈی میں سے جنہیں وہ جزیرہ میں چیختا چلاتا ہوا چھوڑ آئے تھے تھوڑی تھوڑی پی۔ اثنائے طعام میں بات چیت انہوں نے بہت کم کی کیوں کہ ان کو ہر وقت فکر دامن گیر تھی کہ خدا جانے کیا ہوگا۔ بیچارہ آٹر بھی جو مسئلہ تقدیر کا قائل تھا سر نیچے کیے بیٹھا تھا جس کی وجہ یا تو یہ تھی کہ اس جگہ کو دیکھ کر اس کے دل میں پرانے رنجیدہ خیالات کا ہجوم تھا اور یا اس کو یہ خیال تھا کہ ہم کیسی بڑی مہم پر یہاں آئے ہوئے ہیں کہ جس کی نظیر اب تک نہ آنکھوں نے دیکھی نہ کانوں نے سنی۔ حیرت کا مقام ہے کہ دو آدمی اور ایک عورت مسلح خیمہ گاہ پر حملہ کرتے ہیں۔
اس وقت رات بہت تاریک تھی جیسا کہ آٹر نے کہا تھا ہوا اب تیز تیز چلنے لگی اور رفتہ رفتہ سر کنڈوں اور۔۔۔(غیر واضح لفظ) میں سے اپنی غمناک راگنیاں گانے لگی۔
اسی طرح پر وقت گزرتا گیا حتیٰ کہ پہنچ گئے۔
لیونارڈ ۔ ” اب ہمیں گھاٹ کی طرف جانا چاہیے تھوڑی دیر میں ہمارے مطلب کے لیے کافی چاندنی ہو جائے گی۔“
آٹر۔ آگے آگے ہو لیا اور دبے پاؤں وہ ایک پھاٹک کے قریب پہنچے جس کے دوسری طرف ایک چھوٹا سا گھاٹ تھا۔ یہاں کشتیوں اور۔۔۔(غیر واضح لفظ) کے باندھنے کے لیے جگہ بنی ہوئی تھی تاکہ خیمہ گاہ سے آنے اور وہاں جانے کے لیے کھائی کے عبور کرنے میں۔۔۔(غیر واضح لفظ) بردہ فروشوں کو ایک مخفی بندرگاہ کی طرف جانے میں سہولیت ہو جو وہاں سے چھ میل کے فاصلہ پر تھی اور جہاں سے وہ اپنے زر خرید غلاموں کو سوار کر کے کشتیوں پر لے جاتے تھے۔
ابھی کچھ دیر گزری تھی کہ قلعہ میں سے صدائے جشن و جوش بلند ہوئی اور غلاموں کے خیمہ گاہ کی طرف سے نالہ و بکا کی آوازیں آئیں کبھی کبھی کسی ایسے ستم رسیدہ کی فریاد سنائی دیتی تھی جو جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا اور زمین پر مرغ بسمل کی طرح تڑپ رہا تھا۔ آخر کار چاند نے ایک طرف سر نکالا اور آسمان کی تاریکی کسی قدر زائل ہو گئی۔
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
100
لیونارڈ ۔ ”بہتر ہو گا کہ اب ہم یہاں سے پار ہونے کی کوشش کریں یہ کشتی جو یہاں پڑی ہوئی ہے خاطر خواہ کام دے جائے گی۔“
ابھی یہ جملہ ختم نہ ہوا تھا کہ انہوں نے ایک کشتی کے۔۔۔(غیر واضح لفظ) کی آواز سنی جو یکا یک ان کے پاس سے گزر کر پھاٹک سے بیس گز کے فاصلہ پر ٹھہر گئی۔
سنتری (پرتگالی زبان میں) ”کون ہے؟ جلدی بولو ورنہ میں ابھی فائر کرتا ہوں۔“
ایک شخص (درست آواز میں) ”ٹھہرو ٹھہرو فائر کیوں کرتے ہوں میں دوستوں میں سے ہوں۔ زاویر میرا نام ہےاور ساحل پر کی نو آبادی سے جہاں میری زراعت ہے تمہارے لیے اچھی اچھی خبریں لایا ہوں۔“
سنتری۔ ”معاف کیجیے گا صاحب اگرچہ آپ کے قد و قامت بڑا ہے مگر میں اندھیرے میں کیوں کر پچان سکتا تھا۔ کہیے کیا خبر ہے ل۔ کیا بردہ فروشوں کی کشتیاں اتنی قریب آ گئی ہیں کہ یہاں سے نظر آ سکیں۔“
زاویر ۔ ”ذرا نیچے آ کر اس کشتی کے باندھنے میں تو مدد دو پھر میں تمہیں سب حالات بتاؤں گا تم کو کشتیوں کے باندھنے کی جگہ بھی معلوم ہو گی۔“
سنتری نے پھرتی سے نیچے اتر کر زاویر کو مدد دی اور پھر زاویر کہنے لگا۔ ”ہاں بردہ فروشوں کی کشتیاں تو آ گئی ہیں مگر شاید وہ آج رات یہاں نہ پہنچ سکیں گی۔ کیوں کہ ہوا تیز چل رہی ہے ا س لیے امید ہے کہ کل تمام دن خوب مصروفیت میں گزرے گا اور حبشیوں کی خرید و فروخت خوب ہو گی۔ مگر سنو تو ایک چھوٹی سی کشتی مدغاسکر سے آئی ہوئی ہے اس کا کپتان ایک اجنبی شخص ہے یا تو وہ فرانس کا مشہور تاجر پی آر ہو گا یا ممکن ہے کوئی انگریز ہو۔میں نے اس سے دور سے صاحب سلامت تو کی تھی مگر اس کو شناخت نہیں کر سکا میں نے اس کو نیلام کی خبر بھی دے دی تھی واللہ اعلم آئے یا نہ آئے۔“
سنتری ۔ ”کیا وہ یہاں آ رہا ہے میں جناب سے اس لیے پوچھتا ہوں کہ کیا میں اس کا انتظار کرتا ہوں۔“
زاویر۔”مجھے معلوم نہیں اس نے کہا تھا کہ اگر ہو سکا تو میں آؤں گا ہاں یہ تو بتاؤ کہ اس انگریز لڑکی کا کیا حال ہے آج رات اس کا نیلام ہو گا۔ ہے نا؟“
سنتری ۔ ” ہاں جناب بارہ بجے جب چاند سر پر آ جائے گا اور جب وہ فروخت ہو چکے گی تو پادری فرانسسکو اسی وقت اور اسی جگہ اس خوش قسمت آدمی سے جس کے وہ ہاتھ لگے گی اس کی شادی کر دیں گے۔ پادری صاحب کو اس بارہ میں نہایت اصرار ہے وہ کہتے ہیں کہ شادی مذہبی رسوم کے ساتھ ضرور بضرور ہونی چاہیے۔“
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
صفحہ 101
زاویر ۔ ”اچھا یہ بات ہے! پادری صاحب کو شاید خبط ہو گیا ہے خیر ہم اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ اس ملک میں طلاق کا بھی تو بہت اچھا رواج ہے اس نوجوان انگلش جاریہ کے خریداروں میں سے ایک میں ہوں اگر ایک سو اونس میں مل گئی تو میں خرید لوں گا۔میرے پاس بھی سونا ہے۔“
سنتری۔ ” ایک باندی کے سو اونس! مگر ہاں آپ بھی کچھ کم امیر نہیں۔ آپ کا حال ہم غریبوں کا سا تھوڑا ہی ہے کہ اپنی جان کو ہر قسم کے خطرہ میں ڈالتے ہیں لیکن اگر چاہیں کہ ہمیں کچھ نفع ہو تو بس اللہ اللہ خیر سلا۔“
جب زاویر اور سنتری کشتی کو باندھ کر اس میں سے سامان نکال چکے تو زاویر دو ملاحوں کو ہمراہ لے کر گھاٹ کی سیڑھیوں کے اوپر چڑھ گیا اور پھاٹک بند کر دیا۔
لیونارڈ ۔ (آٹر کے کان میں) ”خیر ایک اچھی بات بھی معلوم ہو گئی۔ آٹر لو اب میں پی آر بنتا ہوں جو مدغاسکر کا ایک فرانسیسی بردہ فروش ہے اور تم اپنے آپ کو میرا نوکر سمجھو۔ سوا اپنے آپ کو ہماری بدرقہ یا ترجمان یا جو کچھ وہ چاہے خیال کرے۔“
” ب میں چاہتا ہوں کہ پھاٹک کے اندر چلے جائیں مگر اصلی پی آر کبھی قلعہ کے اندر نہ گھسنے ہائے اور اس کا اور اس کا علاج یہی ہے کہ دروازہ پر کوئی سنتری نہ ہو۔ آٹر اس سے تم نمٹ لو گے یا میں ہی اس کام کو انجام دوں؟“
آٹر ۔ ”میان میں تو یہ تجویز سوچ رکھی ہے کہ جب آپ پھاٹک کے اندر داخل ہو جائیں گے میں اس بہانہ سے کہ میں ایک چیز کشتی سے لانا بھول گیا ہوں واپس آؤں گا اور سنتری سے کہوں گا کہ ابھی مجھے مدد دینا باقی معاملہ مو میں اپنی چالاکی اور مضبوطی سے بے شور و شغب طے کر لوں گا۔“
لیونارڈ ۔ ”ہاں چالاکی اور مضبوطی اور خاموشی تینوں ضروری ہیں اگر شور ہوا تو کام ہی تمام ہوا۔“
پھر لیونارڈ اور آٹر اس کشتی پر جو ان کی منتخب کی ہوئی تھی جا کر سوار ہوئے آٹر….(غیر واضح لفظ) پر بیٹھ گیا۔ پہلے اس نے کشتی کو نہر کے کنارے کنارے بہاؤ کی طرف جانے دیا حتی کہ وہ پھاٹک سے پچاس گز کے فاصلہ پر پہنچ گئے۔
لیونارڈ ۔ ( بآواز بلند) ”کہا احمق کشتی کو کدھر لیے جا رہا ہے کنارے کے اندر گھس جائے گا۔ اس ہوا اور تاریکی نے ہم کو آ لیا ہے ۔ خبردار ہوشیار ہو کر چل (سوا سے مخاطب ہو کر) پھاٹک وہ ہو گا۔“
پھاٹک کی کھڑکی کے کھلنے کی آواز آئی اور سنتری نے آواز دی کہ ”کون ہے؟“
لیونارڈ ۔ (پرتگالی زبان میں) ”میں ہوں ایک اجنبی شخص تمہارے دوستوں میں سے تمہارے سردار ڈام۔۔۔۔(غیر واضح لفظ) پریرا کے پاس ایک کام کے لیے آیا ہوں۔“
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
102
سنتری (شبہ سے) تمہارا نام کیا ہے؟“
لیونارڈ ۔”میرا نام پی آر اور اس بونے کا نام۔۔۔غیر واضح لفظ) ہے اور میرا نوکر ہے اس بڑھیا عورت کو جو تم چاہو سمجھ لو۔“
سنتری” …(غیر واضح لفظ) کیا ہے بغیر اس کے بتائے کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں۔“
لیونارڈ۔ (آٹر کی طرف مخاطب ہو کر) ” ڈام زاویر نے اپنے خط میں مجھ کو کیا بتایا تھا ؟ دوست؟ نہیں نہیں مجھے یاد آ گیا۔ بھتنا۔“
سنتری۔ ”اور آ کہاں سے رہے ہو؟“
لیونارڈ ۔ مدغاسکر سے آ رہے ہیں وہاں ان اشیاء کی جو یہاں سے روانہ ہوتی ہیں سخت۔۔۔( غیر واضح لفظ؟ ہے۔ اب ہمیں اندر جانے دو ہم یہ نہیں چاہتے کہ تمام رات یہاں بیٹھے رہیں اور تماشا دیکھنے سے محروم رہیں۔
سنتری دروازہ کھولنے لگا مگر اس کے دل میں ایک نیا شبہ پیدا ہوا اور وہ رک گیا ( لیونارڈ سے مخاطب ہو کر)
تم بردہ فروشوں میں سے نہیں معلوم ہوتے کیوں کہ تمہارے لہجہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ملعون انگریز پرتگالی بول رہا ہے۔
لیونارڈ ۔ ”بالکل غلط کہتے ہو۔ باپ میرا البتہ انگلستان کا ایک امیر تھا مگر میری ماں فرانسین تھی میں ۔۔۔(غیر واضح لفظ) میں جو بردہ فروشی کا گھر ہے پیدا ہوا ذرا سنبھل کے بات کرو اگر اب کی مرتبہ تم نے مجھے ملعون کہا تو میں اپنے دوغلے پن ہر آ جاؤں گا اور پھر تمہاری خیر نہ ہو گی۔“
آخر کار سنتری نے بڑبڑاتے ہوئے پھاٹک کا ایک در کھولا اور لیونارڈ سیڑھیوں پر چڑھنے کا۔ آٹر اور سوا اس کے پیچھے پیچھے ہوئے جب پھاٹک کے اندر پہنچ گئے تو لیونارڈ نے یکا یک مڑ کر آٹر کو ایک چانٹا رسید کیا اور خفا ہو کر کہنے لگا
”ابے برانڈی کا خم کشتی میں کس لیے بھول آیا اسے تو میں ڈام پریرا صاحب کے لیے تحفہ لایا تھا۔ جا ابھی جا کر لا۔“
آٹر ۔ ”سرکار معاف کیجیے۔ میں ابھی لاتا ہوں مگر سرکار میرا قد چھوٹا ہے اور مجھ اکیلے سے پیپا نہیں اٹھے گا۔ یہ بڑھیا بھی بہت کمزور ہے اس لیے اگر حضور تکلیف فرما دیں تو“
لیونارڈ۔ ”ابے تو نے کیا مجھے قلی مقرر کیا ہے (سنتری سے مخاطب ہو کر) دوست من اس آدمی کو پیپا اٹھانے میں ذرا مدد دو میں انعام کے علاوہ پینے کے لیے تم کو شراب بھی دوں گا۔“
سنتری ۔” بہت اچھا جناب۔“ یہ کہہ کر وہ آگے آگے ہو لیا اور آٹر اور وہ سیڑھیوں سے نیچے اترے۔ آٹر کا ہاتھ عربی تلوار کے قبضہ پر تھا جو اس کی پیٹی سے لٹک رہی تھی۔ لیونارڈ اور سوا اوپر انتظار کر رہے تھے اور سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر سنتری کے وزنی بوٹوں اور آٹر کے ننگے پاؤں کی آواز سن رہے تھے
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
103
سنتری۔ کہاں ہے پیپا؟ مجھے تو کہیں نظر نہیں آتا۔“
آٹر ۔ ”اور نیچے جھکیے صاحب اور نیچے جھکیے۔ پیپا تو کشتی کے دنبالہ میں پڑا ہے۔“
ابھی ایک لمحہ ہی گزرا ہو گا مگر لیونارڈ اور سوا کو جو اوپر کھڑے انتظار کر رہے تھے یہ لمحہ ایک برس معلوم ہوا۔ اتنے میں پانی میں کسی بوجھل چیز کے گرنے کی آواز آئی۔ لیونارڈ کا دل دھڑکنے لگا اس نے بتہیرا اپنے کان لگائے مگر سوائے اس صدائے گرمی ہنگامہ کے جو خیمہ گاہ سے بلند تھی اور اس نے کچھ سنا۔
تین سیکنڈ گزرے کہ آٹر آن موجود ہوا اور بولا ”میان میں نے مکا ایسی پھرتی سے لگایا اور یسا کاری لگایا کہ سنتری ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا جیسا آپ نے حکم دیا تھا میں نے ویسا ہی اس کو انجام کو پہنچایا۔“
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
104

گیارہواں باب

آٹر کی جوانمردی
کچھ دیر کے بعد لیونارڈ نے پھاٹک کو بند کر کے قفل لگا دیا اور کنجی اپنے جیب میں ڈال لی۔ پھر وہ فصیل کے ساتھ ساتھ چل کر وہاں پہنچے جہاں خیمہ گاہ اور قلعہ کے درمیان ایک دوسری خندق تھی کچھ فاصلے پر بردہ فروشوں کی باتیں شروع ہوتی تھیں۔ رستہ میں ان کو کسی نے نہ دیکھا کتے بھی نہیں تھے کہ بھونکتے۔ چوں کہ یہ غریب جانور وقت بے وقت شور کرتا ہے اس لیے بردہ فروشوں کو اس سے نفرت تھی۔
بارک کا یہ سرا اس تختہ کے متحرک میخانے کی پل سے جو پہلے بھتنے کے رہنے کے مقام سے غلاموں کے مکانات کی طرف جانے کے لیے لگایا گیا تھا آٹھ یا دس قدم کے فاصلہ پر ہو گا۔
آٹر ۔”یہاں مجھے آگے جا کر خبر لے انے دو میری آنکھیں بلی کی سی ہیں۔ مجھے اندھیرے میں خوب نظر آتا ہے کیا معلوم پل لگا ہوا ہے یا نہیں۔“
یہ کہہ کر جواب کے انتظار کیے بغیر وہ گھٹنے ٹیکتا ہوا آہستہ آہستہ چلا اور باوجود کہ اس کے کپڑے سفید تھے پھر بھی اس کو کوئی نہ دیکھ سکا کیوں کہ بارک کے سایہ میں اندھیرا تھا اور علاوہ اس کے خندق کے کنارے کنارے لمبی لمبی گھاس اگی ہوئی تھی۔
پانچ منٹ گزر گئے دس منٹ گزر گئے مگر آٹر پلٹ کر نہ آیا تب تو لیونارڈ بڑا پریشان ہوا اور گھبرا کر اس نے سوا کو کہا کہ آؤ چل کر دیکھیں کیا ہوا ہے۔ یہ کہہ کر لیونارڈ اور سوا بھی ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل بارک کی طرف بڑھے جب بارک میں اور ان میں ایک گز کا فاصلہ رہ گیا تو دیکھا کہ آٹر کے کپڑے اور ہتھیار پڑے ہوئے ہیں مگر آٹر غائب ہے۔
سوا (دبی آواز سے) یہ کیا ”آدمی ہم کو دغا دے گیا۔“
لیونارڈ ۔ ”یہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔“
اس وقت دم بدم تیز ہونے والی ہوا بادلوں کو اڑائے لیے جاتی تھی اور مطلع صاف ہو رہا تھا۔ کہیں کہیں ستارے چمک رہے تھے اور اپنی مدھم روشنی زمین پر ڈال رہے تھے۔ خندق بیس فٹ چوڑی اور نہایت گہری تھی
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
105
بیس فٹ سے اس کا عمق کم نہ ہوگا۔
لیونارڈ ۔ کہ یا الٰہی آٹر کے کپڑے اترنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے یہ تو صاف ظاہر تھا کہ وہ پانی میں اترا ہو گا مگر پھر پانی میں اترنے کے کیا معنی۔ سوائے اس کے کہ اس نے ہمت ہار دی اور سو کے قول کے موافق دغا دی مگر یہ بات بھی کچھ ناممکن سی معلوم ہوتی تھی کیوں کہ لیونارڈ کو خوب یقین تھا کہ بونا اس کا مرتے دم تک ساتھ نہ چھوڑے گا۔
اس لیے لیونارڈ نے بڑے تذبذب اور بے قراری میں خندق کی طرف نگاہ کی۔ دیکھا کہ ایک شخص سامنے کے کنارے سیڑھیوں پر پاؤں لٹکائے بیٹھا ہے اس کے پاؤں پانی سے کچھ ہی اوپر ہیں اور ایک طرف اس کی بندوق پڑی ہے۔
لیونارڈ نے دل میں کہا کہ یہ آدمی سنتری ہو گا۔ ایک لمحہ کے بعد لیونارڈ کیا دیکھتا ہے کہ اس شخص کے پاؤں کے نیچے پانی کی سطح پر ایک لہر پیدا ہوئی اور اس لہر میں ایک چیز فولاد کی مانند چمکی۔ پھر کوئی کالی کالی چیز سنتری کے پاؤں کی طرف بڑھی وہ بیچارہ نیم خوابی کی حالت میں اونگھ رہا تھا کہ یکایک اس کو اس چیز نے نیچے کی طرف کھینچ لیا۔ اور گہرے پانی میں اس کو لے کر اس قدر جلد غائب ہو گئی کہ وہ منہ سے ایک لفظ بھی نہ بولنے پایا کنارے کی گھاس جو اس کی مٹھی میں آئی وہ بھی فوراً چھوٹ گئی۔ قریب ایک منٹ تک پانی کی سطح پر چین و شکن پڑتے رہے اس کے بعد وہ پھر ویسے کا ویسا ہی صاف ہو گیا۔
لیونارڈ کے دل میں خیال گزرا کہ ہو بہو یہ آٹر ہی کا کام ہے کہ پانی کے نیچے نیچے جا کر اس بیچارے سنتری کو جا لیا ہے۔ یہ خیال کر ہی رہا تھا کہ ایک کالی چیز سیڑھیوں کے نیچے نمودار ہوئی اور پانی سے نکل کر آہستہ آہستہ اوپر کی طرف بڑھی۔ نزدیک جو پہنچی تو معلوم ہوا کہ آٹر ہاتھ میں چاقو لیے ہانپتا ہوا سامنے کھڑا ہو ہے مگر آنے کے ساتھ ہی وہ پھاٹک پر سے ہو کر۔۔۔(غیر واضح لفظ) چوکی میں جو فصیل کے اوپر بنی ہوئی تھی گھس گیا ایک لمحہ کے بعد میخانے کی پل کے چکر کے گھومنے کی آواز آنے لگی اور پل قائم ہو گیا۔ اب بردہ فروشوں کے خیمہ گاہ تک پہنچنا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ آٹر پل پر کھڑا ہو گیا۔
لیونارڈ ۔ (آہستہ سے) چلو آٹر کی مردانگی نے سنتری کا کام تمام کر دیا اور پل تیار ہے مگر ہاں یہ اس کے کپڑے اور ہتھیار اٹھا لو۔“
لیونارڈ یہ کہہ ہی چکا تھا آٹر خود آن موجود ہوا اور کہنے لگا ”میان جلدی چلو کہیں یہ نہ معلوم ہو جائے کہ پل گرا ہوا ہے۔ مجھے میرے کپڑے اور ہتھیار دے دو۔“
لیونارڈ ۔ ”اچھا یہ لو۔“
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
107
ایک لمحہ میں وہ پل سے پار ہو کر بردہ فروشوں کے خیمہ گاہ کے پاس جا کھڑے ہوئے۔
آٹر ۔ ”اب کوئی خدشہ نہیں اور میں اپنے کپڑے پہن لیتا ہوں میان آپ مجھ کریہ منظر کو معاف فرمائیں کہ میں آپ کے سامنے ننگا پھرتا رہا۔“
لیونارڈ ۔ ”ہم کو تم یہ بتاؤ کہ تم کہاں چلے گئے تھے اور کیا کچھ کر آئے۔“
آٹر ۔ (اپنا جبہ اور دستار پہن کر) ”میان جب میں آپ سے جدا ہوا تو جا کر کچھ دیر کھائی کے کنارے بیٹھا رہا یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ بلی کی طرح میں اندھیرے میں دیکھ سکتا ہوں۔تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ چوکیدار سیڑھیوں سے نیچے اترا اور پانی کے کناروں کے نزدیک مزے سے بیٹھ کر کاغذ کاچرٹ بنانے لگا اس کو نیند نے آ لیا تھا اور جمائیوں سے اس کا منہ پھٹا جاتا تھا تھوڑی دیر میں چرٹ بہہ گیا اور دیا سلائی اس کے پاس تھی نہیں۔ سستی اس پر اس قدر غالب آ گئی تھی کہ اس نے اس چوکی کی طرف (انگلی سے اشارہ کر کے) نگاہ کی مگر دیا سلائی نہ لا سکا۔ میں نے سمجھا کہ اکیلا ہے ورنہ ضرور کسی اور کو کہتا۔ نیند کا شمار اس کو زیادہ چڑھتا گیا میں نے دل میں کہا۔”اے آٹر کوئی ایسی تدبیر سوچنی چاہیے کہ اس آدمی کا صفایا ہو جائے اور کانوں کان آواز نہ پہنچے۔ بندوق چلانی تو مناسب نہیں۔ اگر چاقو یا بہالا دور سے پھینکا تو شاید نہ لگے اور لگے بھی تو اس کو صرف خفیف زخم پہنچے۔ جب میں یہ سوچ رہا تھا تو فوراً مجھ کو ایک بات سوجھی میں نے اپنے دل سے کہا ”آٹر غوطہ لگا اور اس کے پاؤں کو پکڑ کر نیچے کیچڑ میں دبا دے خدا نے تجھے مچھلی کی قوت دی ہے کوئی انسان تیرے برابر تیراک نہیں پس جو تجھ سے ہو سکتا ہے فوراً کر۔“
”بس میان میں نے ایسا ہی کیا۔ کیچڑ میں اس کو خوب پاؤں تلے دیا یا جیسے کوئی بیل گھاس کو کھا لیتا ہے۔ امید ہے کہ اب وہ قیامت تک روئے زمین پر نہیں آئے گا۔ اس کے بعد۔۔۔(غیر واضح لفظ) چوکی کی طرف دوڑا بدین خیال کو شاید وہاں اس کا کوئی بھائی بند ہو۔ جس کی مزاج پرسی کرنا میرا فرض تھا۔“
”میان جن دنوں میں یہاں غلام تھا ہمیشہ دو پہرے والے رہا کرتے تھے مگر اس وقت چوکی میں دوسرا کوئی نہ تھا۔ اس لیے میں نے پل کو نیچے گرا دیا مجھے خوب یاد تھا کہ پہیہ کو کس طرح گھمانا چاہیے۔ بس میان میں یہ کچھ کر آیا ہوں۔“
لیونارڈ ۔ ”واقعی آٹر تم نے بہت کچھ کیا ہے مگر ابھی سب کچھ نہیں ہوا چلو غلاموں کی طرف چلیں تم آگے آگے ہو لو اور رستہ دکھاتے جاؤ۔ اب تو ہمیں کسی قسم کا خطرہ نہیں۔“
آٹر ۔ ”میان یہاں ہم بالکل محفوظ ہیں اور کوئی شخص یہاں نہیں پہنچ سکتا۔ ہاں اگر کوئی ناشدنی اور ناگہانی طوفان بپا ہوا تو مگر اس کے لیے ایک علاج ہے وہ یہ کہ سامنے ایک توپ پڑی ہے جس کا رخ ادھر ادھر سب طرف
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
108
بدل سکتا ہے ہم اس کا منہ چل کر خیمہ گاہ کی طرف کر دیں گے تاکہ اگر وقت آ پڑے تو گولہ باری شروع کر دیں۔“
جب وہ فصیل کے اوپر توپ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ وہ پہلے سے ہی بھری ہوئی ہے اور پاس ہی بارود وغیرہ سب سامان ایک کوٹھڑی میں موجود ہے۔توپ کو خیمہ گاہ کی طرف گھما کر لیونارڈ نے اثر کو کہا کہ اب ہمیں غلاموں کی طرف چلنا چاہیے۔“
آٹر ۔ ”میان رستہ تو یہ سامنے کا ہے مگر پہلے ہم چوکی میں سے غلاموں کی کڑیاں کھولنے کے اوزار لے لیں۔“
چنانچہ وہ چوکی میں گئے اور وہاں علاوہ ان اوزاروں کے ایک کنجیوں کا گچھا بھی انہیں ملا۔ دو لالٹین جل رہی تھیں ان میں سے ایک انہوں نے لے لی اور ایک کو وہیں رہنے دیا تاکہ کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ چوکی میں کوئی پہرہ دار موجود نہیں۔ وہاں سے چل کر وہ دو مضبوط پھاٹکوں میں سے گزرے اور پھر آگے ایک سیڑھی سے اتر کر ابھی تھوڑی دور نہیں گئے تھے کہ غلاموں کے۔۔۔(غیر واضح لفظ) والے مکانات کا پہلا کمرہ آ گیا۔ قفل کھول کر وہ اس کمرے میں داخل ہوئے بیچوں بیچ ایک رستہ بنا ہوا تھا اور دو طرفہ لوہے کی سلاخوں کے ساتھ غلام قطاروں میں بندھے ہوئے تھے پہلے کمرے میں تقریباً اڑھائی سو غلام ہوں گے جن کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ گیلی زمین پر عورت مرد لیٹے ہوئے کوششیں کر رہے تھے کہ کہیں آنکھ لگ جائے اور ان کو چند لمحوں کے لیے رنج والم سے رہائی ملے مگر نیند کہاں نالہ و شیون کی آواز اس طرح قطاروں میں سے گزرتی تھی کہ جیسے ہوا کی سائیں سائیں کی آواز درختوں میں۔
جب انہوں نے لیونارڈ اور اس کے ہمراہیوں کو دیکھا تو ان کو بردہ فروش سمجھ کر انہوں نے رونا بند کیا اور بلی کی طرح دبک گئے کہ شاید اب ان کو چابک لگائے جائیں گے۔ ان کی خوف زدہ آنکھوں کو اور گیلے ہوئے جسموں کو روتے دیکھ کر رگ حمیت پھڑک اٹھتی تھی۔
آٹر ۔ آگے آگے تھا اور لالٹین کی روشنی میں سوا غلاموں کے چہروں کو دیکھتی جاتی تھی۔
لیونارڈ ۔ ”۔۔۔(غیر واضح لفظ) کے آدمی بھی کہیں تم کو نظر آتے ہیں یا نہیں؟“
سوا ۔ ”نہیں یہاں تو نہیں دوسرے کمرے میں جا کر دیکھنا چاہیے۔“
لہذا وہ دوسرے کمرے میں گئے قطار کا دوسرا آدمی اپنا سر نیچے کیے ہاتھوں پر رکھ کر سو رہا تھا۔ سوا فوراً رک گئی اور پکارنے لگی ”پیٹر! پیٹر!.“
پیٹر ۔ ”(بھری ہوئی آواز میں) ”۔۔۔(غیر واضح لفظ) کس نے مجھ کو پرانے نام سے پکارا میں نے تو ابھی خواب میں
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
109
پیٹر کو مرتے دیکھا ہے۔“
سوا ۔(دوبارہ) ”پیٹر... (غیر واضح لفظ) کے بیٹے اپنا سر اٹھائیں سوا ہوں اور تیری رہائی کے لیے یہاں آئی ہوں۔“ وہ غریب زور زور سے رونے اور کانپنے لگا مگر دوسرے غلاموں نے اس کے چیخنے چلانے کو غیر معمولی سمجھ کر کچھ پرواہ نہ کی کیوں کہ ان کا یہ خیال تھا کہ اس کو سزا مل رہی ہے۔“
سوا ۔ ”چپ پیٹر چپ۔ نہیں تو کام تمام ہوا جاتا ہے۔ اے کالے آدمی اس کی کڑیاں کھول دے۔ یہ ہماری بستی کا ایک سر کردہ بہادر تھا۔“
جب آٹر نے اس کی کڑیوں کو ایک اوزار سے مروڑ کر توڑ ڈالا تو وہ نہایت اچھلا کودا اور آٹر کے پاؤں پر گر پڑا۔
آٹر ۔ ”ارے پاگل تو نہیں ہو گیا اٹھ اور ہمیں۔۔۔(غیر واضح لفظ) کے دوسرے آدمیوں کا پتہ بتا۔“
پیٹر ۔ ”ان میں سے کوئی چالیس آدمی رہ گئے ہیں جن میں سے ایک راعیہ ہے باقی سب مر گئے۔“
پھر انہوں نے۔۔۔(غیر واضح لفظ) کے آدمیوں کو رہا کیا اور اس اثنا میں سوا نے پیٹر کو کل ماجرے سے آگاہ کیا۔ پیٹر معاملہ فہم آدمی تھا سب کچھ اس کی سمجھ میں آ گیا اور اس نے لیونارڈ کو غلاموں کے رہا کرنے میں ہر طرح سے مدد دی۔
لیونارڈ ۔ ( سوا کی طرف مخاطب ہو کر) ”ابھیبہمیں بہت کچھ کرنا ہے میں جاتا ہوں جو غلام باقی رہ گئے ہیں ان کو تم رہا کراتی جاؤ۔ چاند نکل آیا ہے اور پونے بارہ بج گئے ہیں ہمیں ذرا بھی وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔“ (پھر آٹر سے مخاطب ہو کر) ”آٹر میں جانے سے پیشتر تم سے یہ پوچھ لینا مناسب سمجھتا ہوں کہ سرکنڈوں کو آگ لگانے کے لیے آدمی کدھر سے جائیں۔ باغ میں سے ہو کر؟“
آٹر ۔ نہیں میان مجھے ایک بہتر ترتیب سوجھی ہے وہ یہ ہے کہ اگر یہ آدمی تیر سکتے ہیں تو۔۔۔۔۔“
سوا ۔ (قطع کلام کر کے) ”ہاں تیرنا تو وہ سب جانتے ہیں۔ تیر کیوں نہیں سکیں گے دریا کے کنارے پھر رو رو کر ہی تو وہ اتنے بڑے ہوئے۔“
آٹر ۔ ”تو پھر ان میں سے چار آدمی وہاں سے کھائی کے پار ہو جائیں جہاں میں نے سنتری کو مارا تھا۔“
آگے تھوڑے فاصلے پر سرکنڈوں کے جھاڑ شروع ہو جاتے ہیں۔ سرکنڈوں میں چھپ کر بیٹھ جائیں۔ جب طلوع آفتاب کے وقت ہوا تیز تیز چلنے لگے تو لمبی لمبی خشک جھاڑیوں کو نیچے جھکا کر آگ لگا دیں اور آپ ایک طرف ہٹ کر انتظار کرتے رہیں اگر ہم نے فتح پا لی تو ان کو مل کر ہی رہیں گے ورنہ سمجھ لیں کہ ہم کو شکست ہوئی اور ان کے جہاں سینگ
 
Top