حماد
محفلین
"ملوکیت کے اس ابتدائ دور میں بادشاہ اقتدار اعلی کا مالک ضرور تھا، لیکن مقننہ اور عدلیہ کے اختیارات بدستور پروہت طبقے کے پاس رہے۔پروہت طبقہ مذہبی احکام کے مطابق قانون بناتا اور یہ تصفیہ کرتا کہ مذہب کی روح سے کون سا فعل جائز ہے اور کون سا ناجائز، مذہب نے کون سے فعل کی کیا سزا مقرر کی ہےاور رعایا کے کون کون سے فرائض متعین کیے ہیں۔ اس تقسیم کار کی بدولت بادشاہوں کو ریاست کے نہایت اہم طبقے کا ہی تعاون حاصل نہیں ہوا بلکہ ان کے اقتدار کو مذہبی جواز مل گیا۔
بادشاہوں نے ریاست پر قابض ہونے کے بعد عبادت گاہوں کے وقار پر حرف نہ آنے دیا۔ نہ انکی املاک ضبط کیں بلکہ ان کو مزید انعام و اکرام سے نوازا۔ عبادت گاہ کی مرمت میں شرکت ہر شخص کا مذہبی فرض سمجھا جاتا تھا۔ اس رسم کی ابتدا بادشاہ کرتا تھا چنانچہ بابل، سومیر اور اسور کے قدیم آثار سے ایسی لوحیں برآمد ہوئیں ہیں، جس میں بادشاہ کو سر پر ٹوکری رکھے مرمت کے کام میں مصروف دکھایا گیا ہے۔
پروہتوں نے نئ تقسیم کار کو بخوشی قبول کر لیا۔ انھوں نے بادشاہوں سے پورا پورا تعاون کیا اور ان کو خدا، خدا کا اوتار، خدا کا نائب بنا دیا۔ خدا کی شخصیت کا کو ہالہ ان پروہتوں نے چھ ہزار سال پہلے کھینچا تھا، ملوکیت کے زوال تک مشرق اور مغرب میں تھوڑے تھوڑے فرق سے ہرجگہ بدستور قائم رہا۔ چنانچہ اسلامی دور میں بھی بادشاہوں کو ظل اللہ (خدا کا سایہ) کا لقب ملا۔ قاضی ماوردی نے "احکام السلطانیہ" میں، امام غزالی نے "نصیحت الملوک" میں، نظام الملک نے "سیاست نامے" میں، ابو نصر فارابی نے "الآرامدینۃ الفاضلہ" میں اور ابن خلدون نے "تاریخ" میں اطیعواللہ اطیعوالرسول اور اولی الامر منکم کی غلط اور غیر تاریخی تفسیر کی آڑ میں حاکم وقت کی اطاعت کا جو سبق مسلمانوں کو دیا وہ غیر مسلم مذہبی پیشواؤں کی تلقینوں سے چنداں مختلف نہیں"
(نوید فکر از سید سبط حسن)
(ایک گزارش۔ اگر آپ کو مندرجات سے اختلاف یا اتفاق ہے تو اس کے اظہار کیلئے ریٹنگز کی سہولت سے فائدہ اٹھائیے۔ اس دھاگے کا مقصد صرف اور صرف سید سبط حسن کی کتابوں سے اقتباسات شئر کرنا ہے۔ شکریہ)
بادشاہوں نے ریاست پر قابض ہونے کے بعد عبادت گاہوں کے وقار پر حرف نہ آنے دیا۔ نہ انکی املاک ضبط کیں بلکہ ان کو مزید انعام و اکرام سے نوازا۔ عبادت گاہ کی مرمت میں شرکت ہر شخص کا مذہبی فرض سمجھا جاتا تھا۔ اس رسم کی ابتدا بادشاہ کرتا تھا چنانچہ بابل، سومیر اور اسور کے قدیم آثار سے ایسی لوحیں برآمد ہوئیں ہیں، جس میں بادشاہ کو سر پر ٹوکری رکھے مرمت کے کام میں مصروف دکھایا گیا ہے۔
پروہتوں نے نئ تقسیم کار کو بخوشی قبول کر لیا۔ انھوں نے بادشاہوں سے پورا پورا تعاون کیا اور ان کو خدا، خدا کا اوتار، خدا کا نائب بنا دیا۔ خدا کی شخصیت کا کو ہالہ ان پروہتوں نے چھ ہزار سال پہلے کھینچا تھا، ملوکیت کے زوال تک مشرق اور مغرب میں تھوڑے تھوڑے فرق سے ہرجگہ بدستور قائم رہا۔ چنانچہ اسلامی دور میں بھی بادشاہوں کو ظل اللہ (خدا کا سایہ) کا لقب ملا۔ قاضی ماوردی نے "احکام السلطانیہ" میں، امام غزالی نے "نصیحت الملوک" میں، نظام الملک نے "سیاست نامے" میں، ابو نصر فارابی نے "الآرامدینۃ الفاضلہ" میں اور ابن خلدون نے "تاریخ" میں اطیعواللہ اطیعوالرسول اور اولی الامر منکم کی غلط اور غیر تاریخی تفسیر کی آڑ میں حاکم وقت کی اطاعت کا جو سبق مسلمانوں کو دیا وہ غیر مسلم مذہبی پیشواؤں کی تلقینوں سے چنداں مختلف نہیں"
(نوید فکر از سید سبط حسن)
(ایک گزارش۔ اگر آپ کو مندرجات سے اختلاف یا اتفاق ہے تو اس کے اظہار کیلئے ریٹنگز کی سہولت سے فائدہ اٹھائیے۔ اس دھاگے کا مقصد صرف اور صرف سید سبط حسن کی کتابوں سے اقتباسات شئر کرنا ہے۔ شکریہ)