اقتباسات سید سبط حسن کی کتابوں سے منتخب اقتباسات

حماد

محفلین
"ملوکیت کے اس ابتدائ دور میں بادشاہ اقتدار اعلی کا مالک ضرور تھا، لیکن مقننہ اور عدلیہ کے اختیارات بدستور پروہت طبقے کے پاس رہے۔پروہت طبقہ مذہبی احکام کے مطابق قانون بناتا اور یہ تصفیہ کرتا کہ مذہب کی روح سے کون سا فعل جائز ہے اور کون سا ناجائز، مذہب نے کون سے فعل کی کیا سزا مقرر کی ہےاور رعایا کے کون کون سے فرائض متعین کیے ہیں۔ اس تقسیم کار کی بدولت بادشاہوں کو ریاست کے نہایت اہم طبقے کا ہی تعاون حاصل نہیں ہوا بلکہ ان کے اقتدار کو مذہبی جواز مل گیا۔
بادشاہوں نے ریاست پر قابض ہونے کے بعد عبادت گاہوں کے وقار پر حرف نہ آنے دیا۔ نہ انکی املاک ضبط کیں بلکہ ان کو مزید انعام و اکرام سے نوازا۔ عبادت گاہ کی مرمت میں شرکت ہر شخص کا مذہبی فرض سمجھا جاتا تھا۔ اس رسم کی ابتدا بادشاہ کرتا تھا چنانچہ بابل، سومیر اور اسور کے قدیم آثار سے ایسی لوحیں برآمد ہوئیں ہیں، جس میں بادشاہ کو سر پر ٹوکری رکھے مرمت کے کام میں مصروف دکھایا گیا ہے۔
پروہتوں نے نئ تقسیم کار کو بخوشی قبول کر لیا۔ انھوں نے بادشاہوں سے پورا پورا تعاون کیا اور ان کو خدا، خدا کا اوتار، خدا کا نائب بنا دیا۔ خدا کی شخصیت کا کو ہالہ ان پروہتوں نے چھ ہزار سال پہلے کھینچا تھا، ملوکیت کے زوال تک مشرق اور مغرب میں تھوڑے تھوڑے فرق سے ہرجگہ بدستور قائم رہا۔ چنانچہ اسلامی دور میں بھی بادشاہوں کو ظل اللہ (خدا کا سایہ) کا لقب ملا۔ قاضی ماوردی نے "احکام السلطانیہ" میں، امام غزالی نے "نصیحت الملوک" میں، نظام الملک نے "سیاست نامے" میں، ابو نصر فارابی نے "الآرامدینۃ الفاضلہ" میں اور ابن خلدون نے "تاریخ" میں اطیعواللہ اطیعوالرسول اور اولی الامر منکم کی غلط اور غیر تاریخی تفسیر کی آڑ میں حاکم وقت کی اطاعت کا جو سبق مسلمانوں کو دیا وہ غیر مسلم مذہبی پیشواؤں کی تلقینوں سے چنداں مختلف نہیں"
(نوید فکر از سید سبط حسن)

(ایک گزارش۔ اگر آپ کو مندرجات سے اختلاف یا اتفاق ہے تو اس کے اظہار کیلئے ریٹنگز کی سہولت سے فائدہ اٹھائیے۔ اس دھاگے کا مقصد صرف اور صرف سید سبط حسن کی کتابوں سے اقتباسات شئر کرنا ہے۔ شکریہ)
 

حماد

محفلین
تھیوکریسی میں قانون بھی عالم بالا سے نازل ہوتے تھے اور ان کو مقدس اور واجب تعظیم بنانے کیلئے خدا کا نام بڑی کثرت سے استعمال کیا جاتا تھا۔ مثلاً فرعون اول منیز (3400 ق م) جب بالائ اور زیریں مصر کو ملا کر اپنی سلطنت قائم کی اور پہلا قانون نافذ کیا تو یہی دعوی کیا کہ یہ ضابطہء قانون مجھ کو خداند قمر (توتھ) نے عطا کیا ہے۔ منیز کے جانشینوں نے اس پر اکتفا نہ کی بلکہ خدائ اختیارات خود سنبھال لئے۔ وہ رب عظیم آمون رع (سورج) کے بیٹے بن گئے۔ اس ناتے وہ مصریوں کے مذہبی پیشوا بھی تھے اور ریاست کے سربراہ بھی۔
خدائ قوانین کے نزول کا طریقہ بھی قریب قریب یکساں تھا۔ عالم بالا تک رسائ ممکن نہ تھی لہذا پہاڑ کی بلندی عالم بالا کی علامت ٹھہری اور بادشاہوں کو احکام خداوندی پہاڑ کی چوٹیوں پر عطا ہونے لگے۔ مثلا شہنشاہ حمورابی (1792- 1750 ق م) کے آئین کی جو کندہ شدہ لاٹ پیرس کے عجائب گھروں لوور میں محفوظ ہے اس کے بالائ منظر میں خداوند شمس پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا حمورابی کو آئین کا خریطہ عطا کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ حمورابی کا آئین دنیا کا سب سے پہلا تحریری آئین ہے۔
(نوید فکر)
 

حماد

محفلین
عقیدے کی پرورش ماں کی گود میں اور نشوونما گھریلو روایات اور معاشرتی ماحول میں ہوتی ہے۔اسلامی روایتوں کے ماحول میں پرورش پانے والا بچہ عموماً اسلامی عقائد کا پابند ہوتا ہے، ہندو ماحول کا بچہ ہندو اور یہودی ماحول کا بچہ یہودی ہوتا ہے۔ تعلیم پا کر بھی ہماری یہی کوشش ہوتی ہے کہ علم سے اپنے عقیدوں کا جواز پیدا کریں یا علم اور عقیدے کو ہم آہنگ کرلیں۔ عقائد کی چھاپ ہمارے جذبات و احساسات پر اتنی گہری ہوتی ہے کہ ذرا سی ٹھیس لگ جائے تو ہم مشتعل ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ان عقیدوں کو منقولات سے بڑا سہارا ملتا ہے۔ لیکن جب ہم عقیدے سے عقل کی دنیا میں آتے ہیں تو "کیا"، "کیوں" اور "کیسے" کے بے شمار سوالات ہم کو ستانے لگتے ہیں۔
(نوید فکر)
 

حماد

محفلین
بعض علمائے دین، دولت اور افلاس کی ذمہ داری خدا پر سونپ دیتے ہیں۔ ان کے بقول خدا جس کو چاہتا ہے دولت مند بنا دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے مفلس و محتاج۔ لہذا امیر غریب کی تفریق مشیت ایزدی ہے اور کوئ شخص نوشتہ تقدیر کو نہیں بدل سکتا۔ یہ حضرات قابل معافی ہیں کیونکہ ان کو اقتصادیات کی ابجد کا بھی علم نہیں، مگر ان علمائے اقتصادیات کو کیا کہے جو دولت اور افلاس کی تشریح انسانی فطرت کے حوالے سے کرتے ہیں۔ انکے بقول دنیا میں ابتدا ہی سے دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو محنتی،ہوشیار اور کفایت شعار ہوتے ہیں اور کوڑی کوڑی جوڑ کر سرمایہ دار بن جاتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ جو طبعاً نکمے اور کام چور ہوتے ہیں۔ لہذا ہمیشہ دوسروں کے دست نگر رہتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہر معاشرے میں ہم کو دونوں قسم کے افراد ملتے ہیں لیکن سرمائے کے ارتکاز کی تاریخ جو نقشہ پیش کرتی ہے اس میں دولت کے سفینے محنت کشوں کے خون سے رواں نظر آتے ہیں اور سرمائے کے پور پور سے مظلوموں کا لہو ٹپکتا دکھائ دیتا ہے۔
(موسی سے مارکس تک)
 

حماد

محفلین
یہ دعوی کہ اسلام مذہب اور سیاست کا ہم آہنگ ہے جدید تصور ہے۔ اسلام کی تاریخ میں اسکا سراغ نہیں ملتا۔ اسلامی تاریخ میں "اسلامی ریاست" کی اصطلاح بیسویں صدی سے پہلےکبھی استعمال نہیں ہوئ۔ ہماری نام نہاد اسلامی جماعتیں قرآن و حدیث سے اپنے مطلب کے ریاستی نظریے ہی اخذ نہیں کرتیں بلکہ قرآن کی بعض آیتوں کو سیاق و سباق سے الگ کر کے ان سے حاکم وقت کی اطاعت کا جواز بھی تلاش کرتی ہیں۔ آیات قرآنی کا یہ بیجا استعمال بنی امیہّ اور دور عباس کے دور ملوکیت میں شروع ہوا اور ہنوز جاری ہے۔ چنانچہ فقہائے اسلام اپنی اطاعت گزار فہم و فراست کے ایسے ایسے نادر شاہکار چھوڑ گئے ہیں کہ مسلمانوں نے اگر انکی ہدایتوں پر عمل کیا ہوتا تو ترکی ، مصر، ایران، عراق وغیرہ میں آج بھی ملوکیت ہوتی۔ پاکستان وجود میں نہ آتا اور الجزائر، لیبیا، شام، ہندوستان، ملائشیا اور انڈونیشیا بدستور مغربی سامراج کے قبضے میں ہوتے۔
نظام الملک طوسی تو خیر سلجوقیوں کا وزیر تھا لہذا اس کی تصنیف "سیاست نامہ" پر حرف زنی فضول ہے لیکن امام غزالی(1158ء- 1111ء) کا سا عالم دین جب آیات قرآنی کے ساتھ یہی انصاف کرتا ہے تو حیرت ہوتی ہے۔"نصیحت الملوک" انکی آخری تصانیف میں شمار ہوتی ہے۔ کتاب کے حصہءدوم میں امام صاحب مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
"تم کو جاننا چاہئے کہ اللہ تعالی نے اولاد آدم میں میں سے دو طبقے منتخب کیے اور ان کو بقیہ بندوں پر فوقیت عطا کی۔ اول انبیاء، دوم سلاطین، اپنے بندوں کو معبود کی طرف رجوع کرنے کی غرض سے انبیاء بھیجے اور بندوں کی حفاظت کیلئے سلاطین بھیجے۔۔۔۔۔ سلطان زمین پر خدا کا سایہ ہے، لہذا یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ یہ سلطانی اور فرایزدی سلطانوں کو خدا نے مرحمت کی ہے، لہذا ان کی اطاعت کرنی چاہئے، ان سے محبت کرنی چاہئے اور ان کا حکم ماننا چاہئے۔ سلاطین سے جھگڑا کرنا درست نہیں اور ان سے نفرت کرنا غلط ہے، کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اطیعواللہ و اطیعو الرسول و الولی لامرمنکم"
(نوید فکر)
 

حماد

محفلین
آگ کا استعمال اگرچہ گرم ملکوں کی دریافت ہے مگر آگ سے پیار قدرتی بات ہے کہ سرد ملکوں کے رہنے والوں نے ہی کیا۔ افریقہ اور مصر یا عرب، شام وعراق کے جلتے تپتے صحرا کے باشندوں کے فکرو احساس پر آگ کے تخریبی خصائل ہی نے اپنا اثر جمایا۔ ان کے نزدیک آگ کی نمایاں خصوصیت بس یہی تھی کہ وہ جلاتی اور اذیت پہنچاتی ہے۔ جہاں سال میں آٹھ مہینے قیامت کی گرمی پڑتی ہو اور آگ کے قریب جانا عذاب سے کم نہ ہو، وہاں آگ کے تخلیقی اور فیض بخش پہلوؤں پر کون غور کر سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ گرم ملکوں میں نمودار ہونے والے مذاہب نے بھی آگ کا بڑا بھیانک نقشہ پیش کیا ہے۔ آخر جہنم میں آگ ہی کے شعلے تو بھڑکیں گے۔ البتہ ریگستانی علاقوں میں آگ کے بجائے پانی اور درختوں کی بڑی اہمیت ہے اور وہاں کے لوگ ان چیزوں کو عزیز رکھتے ہیں، لہذا جنت میں آگ کا گذر نہیں بلکہ وہاں میووں سے لدے درخت ہونگے، ان کے نیچے بہتی نہریں ہونگی اور کوثروتسنیم کا شفاف پانی ہوگا۔
(نوید فکر)
 

حماد

محفلین
بابلی تہذیب کو فنا ہوئے دو ہزار برس سے زیادہ مدت گزر چکی ہے لیکن سچائ کی آنکھوں سے دیکھو تو صاف نظر آتا ہے کہ اہل مشرق ہوں یا اہل مغرب، یہودی ہوں یا عیسائ، پارسی ہوں یا مسلمان سب کے سب عقیدوں اور رسم و رواج کا رشتہ بابلی تہذیب ہی سے ملتا ہے۔
(ماضی کے مزار)
 

حماد

محفلین
تہذیب عبارت ہوتی ہے معاشرے کی طرز زندگی سے۔ اس طرز زندگی کی اساس سماجی اعمال و افکار پر ہوتی ہے، اس میں لوگوں کا رہن سہن، رسم و رواج، زبان اور مذہب، رقص اور موسیقی آلات و اوزار، دولت آفرینی کے طریقے، پیداوار کی تقسیم کے ضابطے اور نظم و نسق کے قوانین سبھی شامل ہوتے ہیں۔ درحقیقت تہذیب سماجی اقدار اورتخلیقات کا عطر ہوتی ہے۔ معاشرے کے اعمال و تخلیقات اور افکار و عقائد میں جب تک اجتہادی قوت اور ردو قبول کی صلاحیت باقی رہتی ہے، تہذیب کا پودا بھی پھولتا رہتا ہے لیکن جب معاشرہ روایتوں کا یکسر غلام ہو جاتا ہے اور امر و نواہی کی بندشوں میں اپنے کو جکڑ لیتا ہے اور نئے خیالات اور تجربات سے گریز اختیار کرتا ہے تو پھر معاشرہ اور اس کی تہذیب دونوں جمود کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان میں ترقی کی یا دوسری تہذیبوں سے مقابلے کی طاقت نہیں رہ جاتی۔
(ماضی کے مزار)
 

حماد

محفلین
مسلمانان ہند کی تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے بیشتر علماءدین اور مفتیان شرع متین تخت و تاج سے ہمیشہ سائے کی طرح چمٹے رہے۔ ان کا مسلک زرپرستی تھا نہ کہ خدا پرستی۔ وہ تحفظ اسلام کی آڑ میں سدا اپنے ذاتی اقتدار کو بڑھانے کی فکر کرتے تھے۔ اپنی ہوسناکیوں پر شریعت کا پردہ ڈالتے تھے اور مطالبہ کرتے تھے کہ سلطنت کو شریعت کے تابع یعنی ہماری مرضی کے ماتحت ہونا چاہئے۔ حالانکہ ہندوستان کے حالات اس امر کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ التتمش، علاؤالدین خلجی اور محمد تغلق نے علماء دہلی کو سلطنت کے معاملات میں کبھی دخل انداز نہ ہونے دیا اور نہ سلطنت کے سیاسی مفاد کو علماء کے ذاتی مفاد کے تابع کیا۔
(پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء)
 

حماد

محفلین
"جب ہم عقیدے کی دنیا سے عقل کی دنیا میں آتے ہیں تو "کیا"،" کیوں" اور "کیسے" کے بے شمار سوالات ہم کو ستانے لگتے ہیں۔ بقول غالب
شکن زلف عنبریں کیوں ہے
نگہ چشم سرمہ سا کیا ہے؟
سبزہء وگل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے؟
عقیدے کے پاس ان سوالوں کا جواب نہیں ہے۔ کیوں کہ عقیدہ نام ہے تسلیم و رضا کا، اقرارو تقلید کا، روایتوں کے احترام کا۔ اس میں "کیوں"، "کیسے" کی گنجائش نہیں۔ وہ ہم کو "مان لینے" کی تلقین کرتا ہے اور بحث، شک اور انکار سے منع کرتا ہے کیونکہ یہ رجحان اس کے حق میں مفید نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس عقل کا دارومدار شعور و آگہی پر ہے۔ شعور و آگہی کی اساس عملی تجربے اور مشاہدے ہوتے ہیں۔ انہیں کی مدد سے انسانی عقل نے بڑے بڑے کارنامے سر انجام دئیے ہیں۔ نئ نئ دریافتیں اور ایجادیں کی ہیں، وہ چیزیں بنائ ہیں جو کائنات میں موجود نہ تھیں بلکہ قدرتی اشیاء ہی سے ایک عظیم الشان مصنوعی دنیا تعمیر کر لی"۔
(نوید فکر)
 

حماد

محفلین
جبری زبان بندی کے نتائج بھی معاشرے کے حق میں بڑے مہلک ثابت ہوتے ہیں۔ ملک کی فضا میں گھٹن کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، قوم کی کمر جھک جاتی ہے اور اس کے سجدے بقول اقبال طویل ہو جاتے ہیں، خوف اتنا بڑھ جاتا ہے کہ شاخ گل کا سایہ بھی سانپ بن کر ڈرانے لگتا ہے، لوگ اقتدار کی خوشنودی ہی کو زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں اور سوچنا، سوال کرنا، شک کرنا یا انکار کرنا (جو علم و معرفت کی پہلی شرط ہے) ترک کر دیتے ہیں۔ خوف سے بزدلی، بزدلی سے تابعداری اور تابعداری سے غلامانہ ذہنیت جنم لیتی ہے۔ جرات و بے باکی کا نام و نشان باقی نہیں رہتا، تلاش و جستجو اور تحقیق و تفتیش کا جذبہ کا جذبہ ماند پڑ جاتا ہے۔ تجربے کے بازو شل اور مشاہدے کی آنکھیں کور ہو جاتی ہیں، ایجاد و تخلیق کے سوتے سوکھ جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ ایسی نسل وجود میں آتی ہے جو ذہنی طور پر مفلوج اور عملی طور پر اپاہج ہوتی ہے۔ بھیڑوں کا یہ گلہ جو نہ خود بین ہو، نہ جہاں بیں، بقاوترقی کی جدو جہد میں ان قوموں کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہےجو اپنی تخلیقی قوتوں میں اضافے کی مسلسل کوشش کرتی رہتی ہیں اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہیں۔
(نوید فکر)
 

حماد

محفلین
تقدیر یا قسمت ابتدا میں ایک نہایت مفید سماجی عمل، ایک نہایت اہم معاشرتی منصب تھا۔ زرعی دور میں اس منصب نے انسان کی مادی مجبوریوں کے باعث ایک نہایت جابر، ایک نہایت مہلک عقیدے کی شکل اختیار کرلی۔ صاحب اقتدار طبقوں نے جن میں مطلق العنان بادشاہ اور ان کے امراء اور روحانی پیشوا بھی شامل تھے اس عقیدے کی خوب حوصلہ افزائ کی اور عقیدت مند عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے رہے کہ تمھاری مصیبتوں اور فلاکتوں کا ذمے دار معاشرے کا سیاسی اور معاشی نظام نہیں ہے بلکہ یہ ساری تکلیفیں تو ازل سے تمھاری قسمت میں لکھ دی گئ ہیں اور اب کوئ طاقت اس نوشتے کو بدل نہیں سکتی لہذا صبر کرو اور قناعت کی زندگی اختیار کرو کیونکہ حالات کو بدلنے کی کوشش کرنا نوشتہء تقدیر اور مشّیتِ ایزدی سے انحراف ہو گا۔
(ماضی کے مزار)
 

حماد

محفلین
سرمد ایران کا رہنے والا تھا۔ تجارت کے سلسلے میں ٹھٹھہ آیا اور یہاں ایک برہمن زادے کی الفت میں ایسا دیوانہ ہوا کہ ترک لباس کر کے جوگی بن گیا۔ اس عالمِ جذب و مستی میں اپنے محبوب "ابھے چند" کے ہمراہ حیدرآباد دکن کا سفر اختیار کیا اور وہاں سے دہلی چلا گیا۔ دہلی میں داراشکوہ نے اس کی بڑی آؤ بھگت کی مگر سرمد کو نہ مال ودولت کی ہوس تھی نہ احکام شریعت کی پروا۔ وہ گلی کوچوں میں میں گھومتا پھرتا اور اپنی صوفیانہ رباعیوں سے سننے والوں کے دلوں میں معرفت اور محبت کی جوت جگاتا۔ رفتہ رفتہ بہت سے لوگ اس مجذوب شاعر کے گرویدہ ہو گئے۔ البتہ جب اورنگزیب تخت پر بیٹھا تو سرمد کو داراشکوہ کی دوستی اور عوام کی ارادت کا خمیازہ اٹھانا پڑا۔ وہ احکام شریعت کی پابندی نہ کرنے کے الزام میں گرفتار ہوا، اورنگزیب کے دربار میں لایا گیا تو مولویوں نے پوچھا کہ سنتے ہیں تم کلمہ طیبہ میں فقط لاالہ‌‌‌‬٘"""" کہتے ہو۔ حالانکہ یہ نفی کا کلمہ ہے لیکن الااللہ نہیں کہتے جو اثبات کا کلمہ ہے۔ سرمد نے جواب دیا کہ تم نے سچ سنا ہے۔ میں ابھی نفی کی منزل ہی تک پہنچا ہوں اسلئے فقط لاالہ کہتا ہوں۔ جس دن اثبات کی منزل پر پہنچوں گا تو الااللہ بھی کہنے لگوں گا۔ جب بادشاہ کے حکم سے جلاد اس کا سرقلم کرنے لگا تو اس نے ہنس کر یہ شعر پڑھا
؎ شورے شد و از خوابِ عدم دیدہ کشودیم
دیدیم کہ باقی ست شبِ فتنہ، غنودیم
( میں نے شور سن کر خوابِ عدم سے آنکھیں کھولیں مگر جب دیکھا کہ فتنے کی رات ابھی باقی ہے تو پھر سو گیا)
(پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء)
 

حماد

محفلین
سیکولرازم کو معاشرتی نظام کیلئے درست سمجھنے سے دین دار بے دین اور خدا پرست دہریہ نہیں ہوجاتا لہذا سیکولرازم سے اسلام کو کوئ خطرہ نہیں ہے اور نہ اس سے پاکستان کی بقا اور سلامتی پر کوئ ضرب پڑتی ہے بلکہ ہمارا خیال یہ ہے کہ سیکولر اصولوں پر ہی چل کر پاکستان ایک روشن خیال، ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بن سکتا ہے۔ سیکولرازم کا مقصد معاشرے کی صحت مند سماجی اور اخلاقی قدروں کو پامال کرنا نہیں ہے بلکہ سیکولرازم ایک ایسا فلسفہء حیات ہے جو خرد مندی اور شخصی آزادی کی تعلیم دیتا ہے،تقلید و روایت پرستی کے بجائے عقل و علم کی اجتہادی قوتوں کی حوصلہ افزائ کرتا ہے۔ چنانچہ سیکولرازم کی تبلیغ کرنے والوں کی برابر یہی کوشش رہی ہے کہ انسان کے عمل و فکر کو توہمات کے جال سے نکالا جائے۔ یہ کوئ انوکھا فلسفہ نہیں ہے۔ ہمارے صوفیاءکرام بھی یہی کہتے تھے کہ سچائ کو خود تلاش کرو، خود پہچانو اور جو رشتہ بھی قائم کرو خواہ وہ خالق سے ہو یا مخلوق سے معرفت حق پر مبنی ہو نہ کہ انعام کے لالچ میں اور سزا کے خوف پر۔
جو لوگ عقل و اجتہاد کی جگہ تقلیدو اطاعت پر زور دیتے ہیں وہ خود مذہب کی تاریخ سے ناواقف ہیں۔ ذرا سوچئے کہ اگر حضرت ابراہیم۠٘ نے روایت پرستی کا شیوہ اختیار کیا ہوتا، اپنے آبائ مذہب پر قائم رہتے اور اس کو عقلی دلائل سے رد نہ کرتے تو دین ابراہیمی کہاں ہوتا۔ غالب نے اسی نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے
بامن میاویز اے پدر! فرزندِ آزر رانگر
ہر کس کہ شد صاحب نظر، دینِ بزرگاں خوش نہ کرد
غالب تو خضر کے سے راہبر کی پیروی کو بھی لازم نہیں سمجھتا بلکہ ان کو اپنا ہم سفر خیال کرتا ہے۔
(نوید فکر)
 

حماد

محفلین
ہر عہد کا فن روحِ عصر کا ترجمان یا نمائندہ ہوتا ہے۔ اس میں معاشرے کے اجتماعی اور انفرادی ہیجانات و اضطراب کی جھلک پائ جاتی ہے۔ وہ معاشرے کی کلفتوں اور اذیتوں، آرزؤوں اور امنگوں کا اظہار کرتا ہے، اس کی خوشیوں اور کامرانیوں کے گیت گاتا ہے اس کی قدروں کی پاسداری کرتا ہے اور اس کے مروّجہ عقائد و تصورات کی خدمت کرتا ہے۔ چنانچہ قدیم مصری آرٹ کا محور اور محرک مردہ پرستی ہے کیونکہ مصر کے فرعونوں اور پروہتوں نے بڑی چالاکی سے پوری قوم کو حیات بعد الموت کے جال میں پھنسا رکھا تھا۔ خود نہایت عیش و آرام کی زندگی گزارتے تھے اور عام رعایا کو دوسری دنیا کا سبز باغ دکھاتے تھے۔ وہ بھی اس شرط پر کہ رعایا فرعون اور دوسرے برگزیدہ بندوں کی بے چون چرا خدمت کرتی رہے۔ اس طرح یونان اور ہندوستان کے فنون کی بنیاد صنم پرستی پر ہے اور قرونِ وسطی کے مغربی فن کی مسیحی عقائد کی ترویج و اشاعت پر۔
فن اور معاشرے کا یہ تعلق فقط مقصد اور ماہئت تک محدود نہیں ہے بلکہ فن کی ہیئت اور طرزِ ادا میں بھی روحِ عصر کا پرتو صاف نظر آتا ہے۔ مثلاً زراعت کی ایجاد کے بعد ہر ملک کا فن اقلیدسی اصول کا پابند ہوگیا۔ چنانچہ مصر اور بابل کے تمام مجسمے،تصویریں اور عمارتیں دراصل ایک مثلث ہیں۔ اس کے برعکس جسمِ انسانی سے لذت لینے والے یونانیوں اور ہندوستانیوں کا تمام آرٹ جسمِ انسانی کی بنیادی ساخت کے تابع ہے۔ایک خطِ مستقیم ہے جو ریڑھ کی ہڈی کی مانندپوری تصویر کا بوجھ برداشت کرتا ہے اور جسطرح جسم انسانی میں تناسب موجود ہے یعنی ریڑھ کی ہڈی کے ایک سمت ایک ہاتھ ہوتا ہے اور دوسری سمت دوسرا ہاتھ یا دو آنکھیں اور دو پاؤں ہوتے ہیں۔ اسی طرح ان ملکوں کی تصویروں میں بھی تناسب پایا جاتا ہے۔
(نوید فکر)
 

حماد

محفلین
کسی تہذیب کے عروج و زوال کا انحصار اسی بات پر ہوتا ہے کہ تہذیب کو برتنے والوں نے اپنی جسمانی اور ذہنی توانائ سے کس حد کام لیا ہے۔ اس توانائ میں اپنی توانائ آفرین تخلیقات سے کتنا اضافہ کیا ہے۔ اس کو کتنا نکھارا اور چمکایا ہے۔ اگر کوئ معاشرہ افراد کے ذوقِ نمود کو آسودہ نہیں کر سکتا یا ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے سے گریز کرتا ہے، اگر کوئ معاشرہ ان آلات و اوزار کو جو معاشرے کی بڑھتی ہوئ ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتے، استعمال کرنے پر اصرار کرتا ہے اور نئے آلات و اوزار کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے، اگر کوئ معاشرہ روحِ عصر کی پکار نہیں سنتا بلکہ پرانی ڈگر پر چلتا رہتا ہے۔ اگر نئے تجربوں، تحقیقوں اور جستجوؤں کی راہیں مسدود کر دی جاتی ہیں تو تہذیب کا پودا بھی ٹھٹھر جاتا ہے۔ اس کی افزائش رک جاتی ہے اورپھر وہ سوکھ جاتا ہے۔ یونان اور روما، ایران اور عرب، ہندوستان اور چین کی قدیم تہذیبوں کی زوال کی تاریخ دراصل ان کے آلات و اوزار اور معاشرتی رشتوں کے جمود کی تاریخ ہے۔ یہ عظیم تہذیبیں معاشرے کی بڑھتی ہوئ ضرورتوں کا ساتھ نہ دے سکیں اور انجام کار فنا ہو گئیں۔ دارائے ایران کو سکندر اعظیم نے شکست نہیں دی تھی بلکہ ایک زوال پزیر معاشرے نے ایک ترقی پسند معاشرے کے ہاتھوں زِک اٹھائ تھی اور وادئ سندھ کی تہذیب پر آریہ اس وجہ سے غالب آئے تھے کہ ان میں توانائ کی مقدار جس کا مظہر ان کے آلات و اوزار تھے، یہاں کے قدیم باشندوں سے زیادہ تھی۔ ہندوستان پر انگریزوں کے تسلط اور پھر 1857ء کے ہنگامے میں ہندوستانیوں کی شکست کے اسباب بھی اہل مغرب کے بہتر آلات و اوزار اور ترقی یافتہ معاشرتی نظام میں پوشیدہ ہیں۔
(پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء)
 

حماد

محفلین
معاشرہ اپنی سماجی قدروں کی پاسبانی اس وجہ سے کرتا ہے کہ سماج کی بقاء کا دارومدار بڑی حد تک انہیں قدروں کے تحفظ پر ہوتا ہے۔ اگر ان قدروں کی طرف سے غفلت برتی جائے تو معاشرے کا شیرازہ ہی بکھر جائے اور اس کی انفرادیت باقی نہ رہے۔ مثلاً عربوں میں ظہور اسلام سے پیشتر ذی الحجہ کے مہینے میں خونریزی قطعاً ممنوع تھی۔ وجہ یہ تھی کہ حج کے موقعے پر مکہ میں بہت بڑا تجارتی میلہ لگتا تھا۔ اس میلے میں سوداگروں کے قافلے دور دراز مقامات سے آکر شریک ہوتے تھے اور ہفتوں خریدو فروخت کا بازار گرم رہتا تھا۔ اہلیانِ مکہ کی روزی کا انحصار اسی میلہ اور زائرین حج کے اجتماع پر تھا۔ (یہ صورتحال ہنوز باقی ہے) اب اگر قبائلی جنگیں حج کے زمانے میں بھی جاری رہتیں تو ظاہر ہے کہ عربوں کے معیشت کا سارا نظام درہم برہم ہو جاتا۔
(پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء)
 

حماد

محفلین
مذہب کو ریاست سے دور رکھنے میں علاؤالدین خلجی (1296ء-1316ء) بلبن پر بھی سبقت لے گیا۔ وہ مذہبی عالموں اور قاضیوں کے بارے میں کہا کرتا تھا کہ ان میں رموزِ مملکت کی بالکل سمجھ نہیں۔ سلطنت کیلئے قواعد و ضوابط بنانا بادشاہ کا کام ہے۔ شرع اور اہلِ شرع کو اس سے کوئ تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ اس عہد کے مولویوں کی ذہنیت کا اندازہ علاؤالدین خلجی اور قاضی مغیث الدین بیانوی کی گفتگو سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک بار بادشاہ نے قاضی صاحب سے پوچھا کہ ہندوؤں کے ساتھ ہمارا سلوک کیسا ہونا چاہئے۔ قاضی صاحب نے جواب دیا کہ اگر سرکاری ملازم کسی ہندو سے چاندی طلب کرے تو اس کا فرض ہو کہ پوری عاجزی اور تعظیم کے ساتھ سونا پیش کرے اور اگر سرکاری ملازم اس کے منہ میں تھوکے تو وہ بغیر کراہت اپنا منہ کھول دے۔ بادشاہ کو چاہئے کہ ہندوؤں کے مال اسباب پر قبضہ کر لے اور ان کو غلام بنا لے۔
اگر سلاطینِ دہلی مولویوں کے کہنے پر چلتے تو انکی سلطنت 333 برس کیا 333 دن بھی سلامت نہ رہتی کیونکہ جابر سے جابر بادشاہ بھی اپنی رعایا کے منہ میں تھوک کر زیادہ دن حکومت نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ ہندوؤں کی صلاحیتوں سے کام لئے بغیر ملک کا نظم و نسق چل بھی نہیں سکتا تھا۔ کاشتکاروں سے لگان کون وصول کرتا۔ فصلوں کا تخمینہ کون لگاتا۔مال گزاری کا حساب کتاب کون رکھتا؟ غرض کہ بیسیوں کام ایسے تھے کہ جن کیلئے مقامی باشندوں کا تعاون ناگزیر تھا۔
نفرت اور انسان دشمنی کے ان بتوں کا موازنہ صوفیاء کے حسنِ اخلاق و محبت سے کرو تو پتہ چلتا ہے کہ صوفیاء نے اسلام کو مقبول بنانے اور مولویوں نے اسلام کو مطعون کرنے میں کیسی کیسی گراں بہار خدمات سر انجام دی ہیں۔
(پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء)
 

حماد

محفلین
رقص اور موسیقی کو علمائے دین نے حرام قرار دے دیا تھا۔ مسلمان گھروں میں سازوں کا داخلہ ممنوع تھا اور سازوں کی مدد سے ناچنے گانے کی اجازت نہ تھی مگر رقص و موسیقی کا جادو مولویوں کے فتوؤں سے بھی ٹوٹ نہ سکا۔ مسلمان امراء اور رؤسااپنے گھروں میں تو ناچ گانا رائج نہ کر سکے البتہ انھوں نے اپنے شوقِ تماشا کے تسکین کیلئے شہر کے چکلوں کی سر پرستی شروع کر دی۔ یہ چکلے پیشہ ور گانے اور ناچنے والی عورتوں کے اڈّے بھی ہوتے تھے اور بدن کا سودا کرنے والی عورتوں کی خواب گاہیں بھی۔ اہل دولت کے اکھاڑوں میں اِنھیں پیشہ ور پتریوں سے صحبت کا لطف اٹھایا جاتا تھا۔ اس طرح رقص و موسیقی کا مقدس فن شہروں میں پیٹ بھروں کی تفریح اور ہوس کی آسودگی کا وسیلہ بن گیا۔ رفتہ رفتہ چکلوں کی آبادی اور رونق اتنی بڑھی کہ حکومت کو ان کی نگرانی کیلئے جدا محکمہ قائم کرنا پڑا۔ تاریخِ فرشتہ میں لکھا ہے کہ جب سلطان علاءالدین خلجی تمام اجناس بازاری کے نرخ مقرر کر چکا تو ایک منہ چڑھے مصاحب نے عرض کی کہ جہاں پناہ نے سب چیزوں کے بھاؤ تو مقرر کر دیے لیکن جس کی مانگ بازار میں سب سے زیادہ ہے مقرر نہیں کیا۔ بادشاہ نے حیران ہو کر پوچھا کہ بتاؤ وہ کیا شے ہے؟ تِس پر مصاحب نے جواب دیا کہ چکلے کی کسبیاں۔ علاؤالدین مسکرایا اور تب کسبیوں کے نرخ بھی مقرر ہو گئے۔ اکبر بادشاہ چکلوں کی یورش سے اتنا تنگ آیا کہ اس نے کسبیوں کیلئے شہر سے باہر ایک الگ بستی بنوا دی۔ اس اسکا نام "شیطان پورہ" رکھا۔ شیطان پورہ کے انتظام کیلئے باقاعدہ سرکاری عملہ متعین ہوا اور شب باشی کے رجسٹر کھولے گئے۔ لیکن یہ قاعدے قانون زیادہ دن نہیں چلے اور کچھ عرصے بعد چکلے شہر کا جز بن گئے۔ غلام عباس کی "آنندی" فرضی افسانہ ہی تو نہیں ہے۔
(پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء)
 

حماد

محفلین
مغربی مورخین قرونِ وسطی ٰ کو عہدِ تاریک سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک پانچویں صدی اور پندرھویں صدی عیسوی کا درمیانی زمانہ معاشرتی اور تہذیبی سرگرمیوں کے لحاظ سے انتہائ پستی کا زمانہ تھا لیکن معاشرتی ادوار کا سن و سال متعین نہیں کیا جا سکتا ، معاشرتی دور کوئ تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ارتقائ عمل ہے جس کی ابتداء یا انتہاکی نشاندہی ممکن نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرونِ وسطیٰ کی شام آہستہ آہستہ ہوئ اور نئ زندگی کی پو آہستہ آہستہ پھٹی۔ چنانچہ یورپ میں سیکولر اداروں اور فکروں کی نشوونما تیرھویں صدی عیسوی میں شروع ہو گئ تھی۔ یہ بڑی تاریخ ساز صدی تھی ۔ اس صدی میں اٹلی میں ابھرتے ہوئے سرمایہ داری نظام نے طاقت پکڑی اور سیکولر افکار مسلم اسپین اور سسلی کی راہ سے یورپ میں داخل ہوئے مگر تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے کہ جس مذہب کے عظیم دانشوروں ، الکندی، ابوبکر رازی، بوعلی سینا، ابن ہیشم، خوارزمی، البیرونی اور ابنِ رشد نے مغرب کو سیکولر خیالات اور نظریات کی تعلیم دی اسی مذہب کے نام لیوا آج سیکولرازم پر اسلام دشمنی کی تہمت لگا رہے ہیں۔
(نویدِ فکر)​
 
Top