سید زبیر ؛افسانہ : دلبر۔۔۔۔داشتہ

سید زبیر

محفلین
دلبر۔۔داشتہ

" سر عام بوس و کنار کرتا ہوا جوڑا گرفتا ر ” اخبار کے اندرونی صفحے پر اس ایک کالمی خبر نے دلبر کو ہلا کر رکھ دیا ۔ آج ایک اور دلبر ' داشتہ بننے جا رہی ہے ۔ وہ بڑ بڑانے لگی کوئی یہ نہیں سوچتا … ان موئے پو لیس والوں سے کمیٹی کے نلکے چرانے والے ، مسجد سے جوتیاں چوری کرنے والے بر سر عام موبائل فون چھیننے والے تو پکڑا نہیں جاتایہ سر عام بوس و کنار کرنے والے بے وقوف کیسےپکڑے گئے ۔ اور یہ کیسا جوڑا تھا جو دن دیہاڑے جب پولیس کا سپاہی چند گز کے فاصلے پر موجود تھا اور یقیناً لوگ بھی موجود ہوں گے تبھی تو اخبار والوں نے سر عام کا لفظ استعمال کیا اس سرگرمی میں مصروف تھے خبر میں لاہور کے گھوڑے شاہ کے علاقے سے پنجاب پولیس کے مستعد سپاہی نے اس جوڑے کو جن کا نام بھی لکھا تھا گرفتار کرلیا ۔ دلبر خانم کو 1975 کے ستمبر کا وہ منحوس دن یا د آگیا جہاں سے اُس کی بربادی کی داستان شروع ہوئی ۔

دلبر خانم کے والدین1960 میں شادی کے بعد مستونگ بلوچستان سے کراچی آئے تھے ۔ محنت کش لوگ تھے جو تین وقت کی روٹی کی بجائے ایک وقت کی مگر عزت اور حلال کمائی ہوئی کو ترجیح دیتے تھے والد عبدالصبور خان نے ماڈل کالونی ، ملیر میں اپنے دوست رشید خان کے ساتھ مل کر ایک سبزی کی دکان کھول لی ۔ مذہبی گھرانہ تھا مسجد میں پانچوں وقت جایا کرتے جلد ہی محلے میں عزت کی نگا ہ سے دیکھے جانے لگے ۔ محنت کی وجہ سے کاروبار بھی خوب چل نکلا دلبر خانم پانچ بہن بھائی تھے ایک بھائی بڑا ، ایک بھائی اور دو بہنیں چھوٹی تھیں ۔ بڑا بھائی عبدالسیفور خان تین سال تک میٹرک میں فیل ہونے کے بعد اپنے والد کے ساتھ دکان میں ہاتھ بٹایا کرتا ۔ دلبر خانم تعلیم میں اچھی تھی اور والد بھی اُس کی حوصلہ افزائی کرتے ۔ دلبر خان ماڈل کالونی کے ریلوےاسٹیشن سے آگے ڈیری فارم کے قریب ایک سرکاری سکول میں نویں جماعت کی طالبہ تھی اس کی عمر پندرہ برس تھی دلبر خانم انتہائی خوبصورت وحسین لڑکی تھی مگر مذ ہبی گھرانے کا اثر تھا اور کچھ والدین کی تربیت تھی کہ وہ ایک سنجیدہ خاموش طبع لڑکی بن گئی تھی، اسکول نزدیک ہی تھا صبح وہ اکیلی ہی سکول چلی جایا کرتی تھی۔کچھ دنوں سے وہ محسوس کررہی تھی کہ ایک پولیس کا سپاہی اُس کے راستے میں کہیں نہ کہیں مل جاتا تھا ، وہ نظرا انداز کرتی رہی ، مگر ایک دن جب اُس نے قریب آکر الٹے سیدھے جملے کسے تو دلبر نے اچھی خاصی بے عزتی کر ڈالی ، اُس دن وہ بہت غصے میں تھی اس نے کئی دفعہ سوچا کہ اپنے والد یا والدہ کو بتا دوں مگر اسے نتائج کا احساس تھا کہ اس کے والد ایک طرف تو دلبر کی تعلیم پر پابندی لگا دیں گے اور دوسری طرف اس پولیس والے سے جھگڑا کریں گے اور بات بڑھ بھی سکتی تھی یہ سوچ کر اس نے گھر میں تذکرہ نہیں کیا اگلے دن وہ پولیس والا پھر راستے میں کھڑا تھا اور جب وہ سکول کے قریب کھلے میدان سے گزر رہی تھی تو اس نے دلبر کو خطرناک نتائج کی دھمکی دی دلبر گو کہ کچھ کچھ خوفزدہ ضرور ہو گئی تھی مگر پولیس کے سپاہی کی بات بھی کسی صورت میں نہیں مانی جاسکتی تھی ۔ ایک ہفتہ گزر گیا پولیس والا کہیں نظر نہ آیا دلبر سمجھی کہ خطرہ ٹل گیا مگر ایک دن جب وہ صبح سکول جارہی تھی تو میدان سے گزرتے ہوئے اچانک پیچھے سے ایک پولیس موبائل آئی اور لمحوں میں اسے اٹھا کر تیزی سے نکل گئی ۔ دلبر اس اچانک حملے سے سنبھلنے بھی نہیں پائی تھی کہ موبائل گاڑی ماڈل کالونی کے تھانے میں داخل ہو گئی ۔ گاڑی کے اندر وہی پولیس والا اور ایک انیس سالہ لڑکا بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے گالیاں دیتے ہوئے دلبر کو نیچے اتارا اور تھانے دار کے سامنے پیش کردیا ۔ تھانے دار نے انتہائی غلیظ نگاہوں سے دلبر کو دیکھا اور پولیس کے سپاہی جس کانام اسد تھا کے حسن انتخاب کی تعریف کی ۔ دلبر رو رو کر فریاد کررہی تھی مگر ان وقت کے فرعونوں پر کچھ اثر نہ ہوااب پولیس نے اس کے خلاف پرچہ کاٹ دیا کہ وہ اس دوسرے لڑکے جس کا نام جاوید تھا کے ساتھ سر عام بوس و کنار میں مصروف تھی ۔ ایک اخبار کا نمائندہ بھی کہیں سے آگیا اس نے خبر لی ، اور تھانیدار صاحب کے ساتھ فحش گفتگو میں مصروف ہوگیا ۔ دلبر کی صورت میں انہیں ایک تفریح میسر آگئی تھی ۔ د لبر کا رو رو کر برا حال تھا ۔ وہ بار بار اپنی بے گناہی کا یقین دلا رہی تھی ۔ تھانےدار ، اخبار کے نمائندے سب کو یقین تھا کہ وہ بے گناہ ہے ۔ مگر وہ خوش تھے کہ ان ےجال میں آ ج ایک اور خوبصورت مچھلی پھنس گئی ۔ان کی نظر میں وہ صرف ایک کھلونا تھی ۔ دلبر کی کتابیں نہ جانے کہاں تھیں ۔ دلبر اور جاوید کو حوالات میں بند کردیا ۔ اور دلبر کے گھر اطلاع کردی گئی کہ ان کی بیٹی اس طرح کی فحش حرکات کرتی ہوئی پکڑی گئی ۔ والدین پر یہ خبر بجلی بن کر گری ۔ دلبر کا باپ اور بھائی دلبر اور اس کی ماں کو برا بھلا کہنے لگے ۔ غیرت ان کے سر پر چڑھ کر بول رہی تھی ۔ انہوں نے اپنی عزت اور غیرت کو بچانے کے لئے فیصلہ کیا کہ کوئی تھانے جا کر اس کی ضمانت نہیں کرائے گا اور اس کو وہیں حوالات اور جیل کی ہوا کھانے کے لئے چھوڑ دیا ۔ اپنی غیرت اور عزت کی خاطر اپنی معصوم اور بے گناہ دلبر کو قربان کردیا ۔ اس سے بے خبر کہ اس طرح ان کی عزت سے کون کون کہاں کہاں کھیلے گا ۔ جب شام تک تھانے کوئی نہ آیا تو د لبرت سمجھ گئی کہ والدین نے اسے چھوڑ دیا اب وہ کمکمل طور پر تھانے دار کے قبضہ میں تھی تھانے دار جو ایس ایچ او مغل چنگیزی کے نام پہچانا جاتا تھا ۔ اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا ۔ بہر حال عدالت میں پیشی تک کیا تھانے دار ، کیا ایس پی ، کیا مجسٹریٹ اور کیا جج سب نے اس کے خون سے اپنے آپ کو پاک کرکے مقدس بنایا۔ نہ جانے کتنے درندوں نے اس کی بوٹیوں کو نوچا ۔ دلبر جب بے حال ہو جاتی تو اسے شرا ب پلائی جاتی غرض دو تین دنوں میں ہی دلبر کو ادھ موا کر کے عالی وقار جج کی عدالت میں پیش کیا گیا ۔ عدالت کی عالی شان کرسی پر بیٹھا جج دلبر سے آنکھیں نہیں ملا پا رہا تھا ۔ اور دلبر کی نظریں دو جہانوں کے منصف سے اپنی فریاد کر رہی تھی ۔ جج نے دلبر اور جاوید کو ایک ایک ہزار کی ضمانت پر رہا کرنے عدم ادئیگی جرمانے کی صورت میں چھے ماہ کی جیل کی سزا سنا دی اسد کی ضمانت تو اسی وقت ہوگئی مگر دلبر خانم کی ضمانت دینے والا کوئی نہ تھا ۔ ایچ او مغل چنگیزی نے تھانے واپس آکر دلبر خانم کو سمجھایا کہ جو کچھ ہوا وہ اب ہو چکا اب تیری مرضی تو جیل جانا چاہتی ہے یا تیری ضمانت کا بندو بست کروں اس کے سامنے ایک ٹیکسی ڈرائیور رفیق بیٹھا تھا مغل چنگیزی نے بتایا کہ رفیق یہاں اکیلا رہتا ہے تیرے ساتھ شادی کرلے گا اس طرح در بدر کی ٹھوکریں کھانے سے بچ جائے گی تیرے گھر سے تو تجھے لینے نہ کوئی آیا نہ آئے گا ۔ اس ناگہانی حادثات اور ظلم و ستم کے بعد کم سن دلبر کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بالکل ختم ہو چکی تھی وہ ایک زندہ لاش تھی ۔ جب اس کی ضمانت لینے والا کوئی نہ تھا وہ کسی سے کیسے ضمانت مانگتی ، جیل کے تصور ہی سے وہ خوفزدہ تھی اس نے ہاں کردی اور رفیق ڈرائیور نے پانچ ہزار ایس او مغل کو دئیے ۔ کاغذی کاروائی ہوئی اور ضمانت لے کر دلبر خانم جو ابھی نویں جماعت کی طالبہ تھی رفیق کے ساتھ اس کے کوارٹر میں آگئی ۔ یہ کوارٹر ملیر کینٹ میں کیکر کی جھاڑیوں میں چھپا ہو ایک نیم پختہ بوسیدا سا کوارٹر تھا جو غالباً انگریزوں کے دور کا بنا ہوا تھا اور فوج کے درجہ چہارم کے ملازمین کا تھا ۔ یہ کوارٹر ڈرائیور رفیق نے اپنے کسی فوجی رشتہ دار کی معرفت لیا ہوا تھا اور گزشتہ دس سالوں سے رہ رہاتھا ۔ یہاں اس کے ساتھ اس کا ایک دوست سلیم بھی رہتا تھا ۔ سلیم ملیر ہالٹ کے بس سٹاپ پر ہاکر تھا اور بسوں ویگنوں میں سواریاں بھرنے کے لیے آوازیں دیا کرتا اور ہر بس ویگن سے کمیشن لیا کرتا تھا ۔ یہ دونوں دوست اندرون سندھ سے یہاں روزگار کے لئے آئے تھے اب ان دوستوں کو ایک عورت دلبر کی صورت میں مل گئی ۔ پانچ ہزار میں ڈرائیور رفیق نے مہنگا سودا نہیں کیا تھا ۔ گھر آکر اس نے دلبر پر واضح کردیا کہ کہ شادی وادی کوئی نہیں کرنی ۔ اس گھر میں تو رہے گی ہم دونوں کے تمام کام کرے گی ، کپڑے وغیرہ دھوئے گی کھانا پکائے گی اور ان کی ہر جائز نا جائزخواہش پوری کرے گی ورنہ کسی بھی وقت تیری ضمانت کینسل کرا کے تجھے جیل بھجوادیں گے ۔ دلبر کے پر کٹ چکے تھے وہ ایک بغیر روح کے ایک لاش کی مانند تھی ۔ وہ کیسی گھر والی تھی جس کی نہ رخصتی ہوئی نہ ڈھولک بجی نہ بابل کی دعائیں ملیں ۔ پندرہ سال کی عمر کی لڑکیاں تو دوسروں کی شادی میں ڈھولک بجاتی ہیں اور گیت گاتی ہیں اور یہاں ایک قید خانہ تھا نہ بال کا گھر نہ پیا کا گھر ۔ دلبر ان دونوں سے مار بھی کھایا کرتی ، ننگی ننگی گالیاں بھی سنتی اور ہرظلم بھی سہتی ۔ دلبر نے خود کو وقت کے ظالم دھارے کےحوالے کردیا تھا ۔ رفیق کے کہنے پر دلبر نے دو گھر بھی پکڑ لئے تھے جہاں وہ کام کرنے جاتی ۔ اور اس مکان کا آدھا کرایہ رفیق ڈرائیور کو دیتی ۔ان مشکل حالات میں اس کے دماغ میں ملانی جی کا سبق گونجتا تھا کہ اللہ نے قران میں فرمایا کہ اس کے نیک بندے جب مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو نماز اور صبر کا سہارا لیتے ہیں ۔ اس نے نماز کا سہارا لینا شروع کیا اور جو سورتیں بچپن میں یاد کی تھیں ان کو دہراتی رہتی ۔ اس دوران دلبر نے ایک بیٹے کو جنم دیا ۔سترہ سالہ بن بیاہی ماں ۔ یہ کیسی بد نصیبی تھی کہ دلبر کو بھی اس کے باپ کا نام معلوم نہ تھا ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ روز محشر ستا ر العیوب انسان کو اس کی ماں کے نام سے پکارے گا ۔ مگر دنیا میں شناخت کے لئے باپ کا نام ہونا ضروری ہے ۔ بیٹے کانام اس نے غیور رکھا تو ڈرائیور رفیق اور سلیم قہقہہ مار کر ہنسنے لگے ۔ یہاں دلبر کو پانچ سال ہو گئے تھے ۔ غیور بھی تین سال کا ہو گیا تھا ۔ صحن میں بھاگتا دوڑتا پھرتا تھا ۔ اب ڈرائیور رفیق اور سلیم کا دل بھی دلبر سے بھر گیا تھا اور وہ اس سے جان چھڑانے کی سوچنے لگے ۔ دلبر ابھی بیس کے لگ بھگ تھی ڈرائیور رفیق کے دل میں اسے آگے بیچنے کا بھی خیال دل میں آیا مگر سلیم کے کہنے سے اس نے یہ خیال دل سے نکال دیا اور دلبر سے کہا کہ کراچی کے حالات روزبروز خراب ہو رہے ہیں اور چھاونی کی حدود میں اب رہنا ٹھیک نہیں ہم دونوں تو گاؤں جا رہے ہیں بہتر ہے تو بھی اپنا کوئی بندوبست کرلے ۔ دلبر دو گھروں کا کام تو پہلے بھی کرتی تھی اب اسے نئے گھروں کی تلاش تھی اور خاص طور پر ایسے گھر کی جہاں اسے اور اس کے بیٹے کوسر چھپانے کی جگہ بھی مل جائے ۔ وہ روزانہ نئے گھروں کا دروازہ کھٹکھٹاتی مگر کوئی کام نہ ملا ۔ قسمت کی کیسی ستم ظریفی تھی کہ ملیر کینٹ سے تھوڑے ہی فاصلے پر ماڈل کالونی میں دلبر کے باپ، بھائی ، بہنیں اور ماں رہتے تھے ۔ دلبر انہیں یاد کر کے گھنٹوں ہچکیوں سے روتی تھی ۔مگر جانے کی ہمت نہ کرتی کہ کہیں میرے والدین کی عزت خاک میں نہ مل جائے ۔ ایک دن اسی طرح کینٹ بازاری کی آبادی میں کام ڈھونڈنے کے لئے ایک دروازہ کھٹکھٹایا دروازہ کھلتے ہی وہ سکتہ میں آگئی اس کے پاؤں گویا زمین میں دھنس گئے نہ آگے جانے کی رہی اور نہ پیچھے جانے کی ۔ سامنے اس کی کلاس فیلو اور عزیز سہیلی سارہ کھڑی تھی ۔ سارہ نے دلبر کے ساتھ اس کا تین سالہ بیٹا دیکھا تو حیران ہوئی اور اندر بلا لیا ۔ دلبر کے آنسو ایسے بہے گویا رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ۔ سارہ نے اسے تسلی دی بہت حوصلہ دیا ۔ دلبر نے جذبات میں بہتے ہوئے اپنی ساری بپتا کہہ ڈالی ۔ سارہ اس گھر میں شادی کے بعد آئی تھی اور دونوں میاں بیوی رہتے تھے ایک بچی تھی گود میں ۔ دلبر نے جب اپنا سارا بوجھ اتار دیا تو سارہ کو اللہ اور رسولﷺ کے واسطے دئیے کہ اس بات کو راز ہی رہنے دینا نہ تو کبھی میرے بیٹے کو خبر ہو نہ میرے والدین کو ۔ دلبر نے اپنے آنے کا مقصد بتایا کہ مجھے ایسی جگہ چاہئیے جہاں میں اپنے بیٹے کے ساتھ سر چھپا سکوں ۔ سارہ دلبر کے کردار سے بخوبی واقف تھی ۔ دلبر نے سارہ سے یہ بھی کہا کہ اگر سستا سا ایک کمرہ بھی مل جائے تو وہ کرائے پر لے لے گی ۔لوگوں کے گھر وں میں کام کر کے وہ رہ لے گی دلبر کھانا پکانے ، سینے پرونے میں اچھی تھی ۔ چھوٹے بچوں کو سکول کا کا م اور قران شریف پڑھا سکتی تھی ۔سارہ نے اسے کھانا کھلایا ۔ سارہ کا شوہر ارشد بنک میں ملازمت کرتا تھا اور شام کو پانچ چھے بجے کے بعد آتا تھا ۔ سارہ قریب ہی ایک سکول میں ملازمت کرتی تھی ۔ بچی ایک بے بی کئیر میں چھوڑتی تھی ۔سارہ نے کچھ سوچتے ہوئے اسے دوسرے دن آنے کا کہا ۔ دلبر کے سینے سے ایک بوجھ اتر گیا تھا وہ خود کو ہلکا محسوس کرنے لگی ۔ مگر ساتھ ہی ساتھ یہ خوف بھی کھائے جا رہا تھا کہ اگر سارہ نے یہ سب باتیں اپنے میاں کو بتائیں اور اس نے کبھی اس کے بھائی باپ یا اپنے کسی دوست سے ذکر کیا تو کیا ہوگا ؟ یہ سوچتے ہی اس کا دماغ سُن ہو جاتا ۔

رات بھر وہ اللہ سے اچھے سبب کی دعائیں مانگتی رہی ۔ اے اللہ میاں تو میرے گناہوں اور نیتوں کو مجھ سے بہتر جانتا ہے ۔ مجھ پر رحم کر ۔ مجھے سیدھا راستہ دکھا ، اگلے دن شام کو وہ سارہ کے گھر گئی ۔ تو سارہ نے اسے خوشخبری سنائی کہ جتنے پیسے میں بے بی کئیر والو ں کو یعنی ڈیڑھ ہزار وہ میں تمہیں دوں گی ۔ مکان کی چھت پر ایک چھوٹا کمرہ اور ایک واش روم ہے وہ تم استعمال کروگی ۔ بہنوں کی طرح رہوگی ۔ میری بچی کا خیال رکھوگی ، کچن اور صفائی وغیرہ کروگی کھانا جو ہم کھائیں گے وہی تم بھی کھانا۔ سارہ تو خوشی سے پاگل ہوگئی واپس گھر گئی اور اپنے تین جوڑے کپڑے اور اپنے بیٹے غیور کے چند کپڑوں کے علاوہ اس کے پاس کیا تھا کچھ بھی تو نہیں ، وہ لے کر ڈرائیور رفیق کو بتا کر نکل آئی ۔ ڈرائیور رفیق نے بہت پوچھنے کی کوشش کی کہ کہاں جارہی ہے مگر دلبر اسے ٹرخا گئی ۔ اب وہ سارہ کے گھر منتقل ہو گئی تھی ۔ صبح فجر کی نماز کے بعد سے شام عصر کینماز تک وہ نیچے رہتی ، باورچی خانے کا سارا کام اس نے سنبھال لیا تھا ، کپڑے دھونا ، صفائی کرنا استری کرنا سب کام وہی کرتی تھی ۔ عصر کے بعد سارہ کے شوہر کے آنے سے پہلے ہی وہ اپنے لئے رات کا کھانا لے کر اوپر اپنے کمرے میں آجاتی ۔تاکہ ان میاں بیوی کی آزادی میں دخل نہ پڑے جب دونوں میاں بیوی کہیں شام کو جاتے تو یہ گھر کا خیال کرتی ۔ سارہ اور اس کے شوہر کو بہت آرام ہے اور وہ دلبر کو اپنے گھر کھ کر بہت خوش ہیں دلبر نے بھی محلے سے سلائی کا کام لینا شروع کردیا شام سے رات گئے تک وہ کپڑے سیتی ہے ۔ اہل محلہ کو ایک بیوہ کی حیثیت سے متعارف کرایا گیا ۔پچھلے سال ہی اُس نے دونوں ظالموں کا انجام دیکھ لیا تھا جب مغل چنگیزی جا ایس پی بن چکا تھا کی یوی نے اُس کی اربوں کی جائداد اپنے نام کرنے کے بعد اس کی سپاری ٹارگٹ کلر کو دے دی اور وہ مارا گیا ۔ اور کانسٹیبل اسد جس نے افسران بالا کی بے مثال خدمت کی ترقی کرتا ہوا ڈی ایس پی بن گیا تو اس کے جواں سال بیٹے کو اس کی بیٹی کے آشنا نے قتل کردیا ۔بے شک اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے مگرآج جب دلبر نے یہ خبر پڑھی تو اس گزرے ہوئے پانچ سالوں کا ایک ایک لمحہ اُس کے سامنے گھومنے لگا۔پانچ سال پہلے اس کی عمر پندرہ برس تھی آج اس کی عمر بیس کے قریب ہوگئی ان پانچ سالوں میں کیا سے کیا ہوگیا ۔نہ وہ شادی شدہ ہے نہ کنواری ، نہ بیوہ نہ مطلقہ ۔ اس کلی کو کس نے مسل دیا ؟ اور اب ۔۔۔۔۔ لاہور میں ایک اور دلبر ' داشتہ بننے جا رہی ہے ۔ ایک اور ایس ایچ او مغل چنگیزی اور کانسٹیبل اسد ترقی کے مزید زینے چڑھیں گے ۔ آج پھر کوئی صبور خان اپنی عزت کی خاطر اپنی لاڈلی بیٹی کی قربانی دے گا ۔ اور بیٹی اپنے خاندان کی عزت کے لئے عمر بھر اپنی عزت کی بھینٹ چڑھاتی رہے گی ۔کاش کوئی اس دلبر کی ضمانت کرادے ۔ورنہ وہ دلبرداشتہ ہو کر کہیں اس دنیا سے اپنا یقین کھو دے


پس تحریر : یہ ایک فرضی افسانہ ہے ۔ ان افسانوی کرداروں کی کسی سے مماثلت محض اتفاق ہوگا
 

ابن رضا

لائبریرین
یہ افسانہ ہمارے ظالم ترین معاشرے کی منہ بولتی تصویر ہے پڑھ کر روح کانپ اٹھی ۔ اللہ کریم سب کی عزتوں کو اپنی امان میں رکھے۔آمین

پس تحریر: موضوع کی نزاکت کے پیشَ نظر کوئی درجہ بندی دینا سمجھ سے بالا ہے۔(یہاں افسوسناک کی درجہ بندی کی کمی محسوس ہو رہی ہے)
 
دلبر۔۔داشتہ

" سر عام بوس و کنار کرتا ہوا جوڑا گرفتا ر ” اخبار کے اندرونی صفحے پر اس ایک کالمی خبر نے دلبر کو ہلا کر رکھ دیا ۔ آج ایک اور دلبر ' داشتہ بننے جا رہی ہے ۔ وہ بڑ بڑانے لگی کوئی یہ نہیں سوچتا … ان موئے پو لیس والوں سے کمیٹی کے نلکے چرانے والے ، مسجد سے جوتیاں چوری کرنے والے بر سر عام موبائل فون چھیننے والے تو پکڑا نہیں جاتایہ سر عام بوس و کنار کرنے والے بے وقوف کیسےپکڑے گئے ۔ اور یہ کیسا جوڑا تھا جو دن دیہاڑے جب پولیس کا سپاہی چند گز کے فاصلے پر موجود تھا اور یقیناً لوگ بھی موجود ہوں گے تبھی تو اخبار والوں نے سر عام کا لفظ استعمال کیا اس سرگرمی میں مصروف تھے خبر میں لاہور کے گھوڑے شاہ کے علاقے سے پنجاب پولیس کے مستعد سپاہی نے اس جوڑے کو جن کا نام بھی لکھا تھا گرفتار کرلیا ۔ دلبر خانم کو 1975 کے ستمبر کا وہ منحوس دن یا د آگیا جہاں سے اُس کی بربادی کی داستان شروع ہوئی ۔

دلبر خانم کے والدین1960 میں شادی کے بعد مستونگ بلوچستان سے کراچی آئے تھے ۔ محنت کش لوگ تھے جو تین وقت کی روٹی کی بجائے ایک وقت کی مگر عزت اور حلال کمائی ہوئی کو ترجیح دیتے تھے والد عبدالصبور خان نے ماڈل کالونی ، ملیر میں اپنے دوست رشید خان کے ساتھ مل کر ایک سبزی کی دکان کھول لی ۔ مذہبی گھرانہ تھا مسجد میں پانچوں وقت جایا کرتے جلد ہی محلے میں عزت کی نگا ہ سے دیکھے جانے لگے ۔ محنت کی وجہ سے کاروبار بھی خوب چل نکلا دلبر خانم پانچ بہن بھائی تھے ایک بھائی بڑا ، ایک بھائی اور دو بہنیں چھوٹی تھیں ۔ بڑا بھائی عبدالسیفور خان تین سال تک میٹرک میں فیل ہونے کے بعد اپنے والد کے ساتھ دکان میں ہاتھ بٹایا کرتا ۔ دلبر خانم تعلیم میں اچھی تھی اور والد بھی اُس کی حوصلہ افزائی کرتے ۔ دلبر خان ماڈل کالونی کے ریلوےاسٹیشن سے آگے ڈیری فارم کے قریب ایک سرکاری سکول میں نویں جماعت کی طالبہ تھی اس کی عمر پندرہ برس تھی دلبر خانم انتہائی خوبصورت وحسین لڑکی تھی مگر مذ ہبی گھرانے کا اثر تھا اور کچھ والدین کی تربیت تھی کہ وہ ایک سنجیدہ خاموش طبع لڑکی بن گئی تھی، اسکول نزدیک ہی تھا صبح وہ اکیلی ہی سکول چلی جایا کرتی تھی۔کچھ دنوں سے وہ محسوس کررہی تھی کہ ایک پولیس کا سپاہی اُس کے راستے میں کہیں نہ کہیں مل جاتا تھا ، وہ نظرا انداز کرتی رہی ، مگر ایک دن جب اُس نے قریب آکر الٹے سیدھے جملے کسے تو دلبر نے اچھی خاصی بے عزتی کر ڈالی ، اُس دن وہ بہت غصے میں تھی اس نے کئی دفعہ سوچا کہ اپنے والد یا والدہ کو بتا دوں مگر اسے نتائج کا احساس تھا کہ اس کے والد ایک طرف تو دلبر کی تعلیم پر پابندی لگا دیں گے اور دوسری طرف اس پولیس والے سے جھگڑا کریں گے اور بات بڑھ بھی سکتی تھی یہ سوچ کر اس نے گھر میں تذکرہ نہیں کیا اگلے دن وہ پولیس والا پھر راستے میں کھڑا تھا اور جب وہ سکول کے قریب کھلے میدان سے گزر رہی تھی تو اس نے دلبر کو خطرناک نتائج کی دھمکی دی دلبر گو کہ کچھ کچھ خوفزدہ ضرور ہو گئی تھی مگر پولیس کے سپاہی کی بات بھی کسی صورت میں نہیں مانی جاسکتی تھی ۔ ایک ہفتہ گزر گیا پولیس والا کہیں نظر نہ آیا دلبر سمجھی کہ خطرہ ٹل گیا مگر ایک دن جب وہ صبح سکول جارہی تھی تو میدان سے گزرتے ہوئے اچانک پیچھے سے ایک پولیس موبائل آئی اور لمحوں میں اسے اٹھا کر تیزی سے نکل گئی ۔ دلبر اس اچانک حملے سے سنبھلنے بھی نہیں پائی تھی کہ موبائل گاڑی ماڈل کالونی کے تھانے میں داخل ہو گئی ۔ گاڑی کے اندر وہی پولیس والا اور ایک انیس سالہ لڑکا بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے گالیاں دیتے ہوئے دلبر کو نیچے اتارا اور تھانے دار کے سامنے پیش کردیا ۔ تھانے دار نے انتہائی غلیظ نگاہوں سے دلبر کو دیکھا اور پولیس کے سپاہی جس کانام اسد تھا کے حسن انتخاب کی تعریف کی ۔ دلبر رو رو کر فریاد کررہی تھی مگر ان وقت کے فرعونوں پر کچھ اثر نہ ہوااب پولیس نے اس کے خلاف پرچہ کاٹ دیا کہ وہ اس دوسرے لڑکے جس کا نام جاوید تھا کے ساتھ سر عام بوس و کنار میں مصروف تھی ۔ ایک اخبار کا نمائندہ بھی کہیں سے آگیا اس نے خبر لی ، اور تھانیدار صاحب کے ساتھ فحش گفتگو میں مصروف ہوگیا ۔ دلبر کی صورت میں انہیں ایک تفریح میسر آگئی تھی ۔ د لبر کا رو رو کر برا حال تھا ۔ وہ بار بار اپنی بے گناہی کا یقین دلا رہی تھی ۔ تھانےدار ، اخبار کے نمائندے سب کو یقین تھا کہ وہ بے گناہ ہے ۔ مگر وہ خوش تھے کہ ان ےجال میں آ ج ایک اور خوبصورت مچھلی پھنس گئی ۔ان کی نظر میں وہ صرف ایک کھلونا تھی ۔ دلبر کی کتابیں نہ جانے کہاں تھیں ۔ دلبر اور جاوید کو حوالات میں بند کردیا ۔ اور دلبر کے گھر اطلاع کردی گئی کہ ان کی بیٹی اس طرح کی فحش حرکات کرتی ہوئی پکڑی گئی ۔ والدین پر یہ خبر بجلی بن کر گری ۔ دلبر کا باپ اور بھائی دلبر اور اس کی ماں کو برا بھلا کہنے لگے ۔ غیرت ان کے سر پر چڑھ کر بول رہی تھی ۔ انہوں نے اپنی عزت اور غیرت کو بچانے کے لئے فیصلہ کیا کہ کوئی تھانے جا کر اس کی ضمانت نہیں کرائے گا اور اس کو وہیں حوالات اور جیل کی ہوا کھانے کے لئے چھوڑ دیا ۔ اپنی غیرت اور عزت کی خاطر اپنی معصوم اور بے گناہ دلبر کو قربان کردیا ۔ اس سے بے خبر کہ اس طرح ان کی عزت سے کون کون کہاں کہاں کھیلے گا ۔ جب شام تک تھانے کوئی نہ آیا تو د لبرت سمجھ گئی کہ والدین نے اسے چھوڑ دیا اب وہ کمکمل طور پر تھانے دار کے قبضہ میں تھی تھانے دار جو ایس ایچ او مغل چنگیزی کے نام پہچانا جاتا تھا ۔ اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا ۔ بہر حال عدالت میں پیشی تک کیا تھانے دار ، کیا ایس پی ، کیا مجسٹریٹ اور کیا جج سب نے اس کے خون سے اپنے آپ کو پاک کرکے مقدس بنایا۔ نہ جانے کتنے درندوں نے اس کی بوٹیوں کو نوچا ۔ دلبر جب بے حال ہو جاتی تو اسے شرا ب پلائی جاتی غرض دو تین دنوں میں ہی دلبر کو ادھ موا کر کے عالی وقار جج کی عدالت میں پیش کیا گیا ۔ عدالت کی عالی شان کرسی پر بیٹھا جج دلبر سے آنکھیں نہیں ملا پا رہا تھا ۔ اور دلبر کی نظریں دو جہانوں کے منصف سے اپنی فریاد کر رہی تھی ۔ جج نے دلبر اور جاوید کو ایک ایک ہزار کی ضمانت پر رہا کرنے عدم ادئیگی جرمانے کی صورت میں چھے ماہ کی جیل کی سزا سنا دی اسد کی ضمانت تو اسی وقت ہوگئی مگر دلبر خانم کی ضمانت دینے والا کوئی نہ تھا ۔ ایچ او مغل چنگیزی نے تھانے واپس آکر دلبر خانم کو سمجھایا کہ جو کچھ ہوا وہ اب ہو چکا اب تیری مرضی تو جیل جانا چاہتی ہے یا تیری ضمانت کا بندو بست کروں اس کے سامنے ایک ٹیکسی ڈرائیور رفیق بیٹھا تھا مغل چنگیزی نے بتایا کہ رفیق یہاں اکیلا رہتا ہے تیرے ساتھ شادی کرلے گا اس طرح در بدر کی ٹھوکریں کھانے سے بچ جائے گی تیرے گھر سے تو تجھے لینے نہ کوئی آیا نہ آئے گا ۔ اس ناگہانی حادثات اور ظلم و ستم کے بعد کم سن دلبر کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بالکل ختم ہو چکی تھی وہ ایک زندہ لاش تھی ۔ جب اس کی ضمانت لینے والا کوئی نہ تھا وہ کسی سے کیسے ضمانت مانگتی ، جیل کے تصور ہی سے وہ خوفزدہ تھی اس نے ہاں کردی اور رفیق ڈرائیور نے پانچ ہزار ایس او مغل کو دئیے ۔ کاغذی کاروائی ہوئی اور ضمانت لے کر دلبر خانم جو ابھی نویں جماعت کی طالبہ تھی رفیق کے ساتھ اس کے کوارٹر میں آگئی ۔ یہ کوارٹر ملیر کینٹ میں کیکر کی جھاڑیوں میں چھپا ہو ایک نیم پختہ بوسیدا سا کوارٹر تھا جو غالباً انگریزوں کے دور کا بنا ہوا تھا اور فوج کے درجہ چہارم کے ملازمین کا تھا ۔ یہ کوارٹر ڈرائیور رفیق نے اپنے کسی فوجی رشتہ دار کی معرفت لیا ہوا تھا اور گزشتہ دس سالوں سے رہ رہاتھا ۔ یہاں اس کے ساتھ اس کا ایک دوست سلیم بھی رہتا تھا ۔ سلیم ملیر ہالٹ کے بس سٹاپ پر ہاکر تھا اور بسوں ویگنوں میں سواریاں بھرنے کے لیے آوازیں دیا کرتا اور ہر بس ویگن سے کمیشن لیا کرتا تھا ۔ یہ دونوں دوست اندرون سندھ سے یہاں روزگار کے لئے آئے تھے اب ان دوستوں کو ایک عورت دلبر کی صورت میں مل گئی ۔ پانچ ہزار میں ڈرائیور رفیق نے مہنگا سودا نہیں کیا تھا ۔ گھر آکر اس نے دلبر پر واضح کردیا کہ کہ شادی وادی کوئی نہیں کرنی ۔ اس گھر میں تو رہے گی ہم دونوں کے تمام کام کرے گی ، کپڑے وغیرہ دھوئے گی کھانا پکائے گی اور ان کی ہر جائز نا جائزخواہش پوری کرے گی ورنہ کسی بھی وقت تیری ضمانت کینسل کرا کے تجھے جیل بھجوادیں گے ۔ دلبر کے پر کٹ چکے تھے وہ ایک بغیر روح کے ایک لاش کی مانند تھی ۔ وہ کیسی گھر والی تھی جس کی نہ رخصتی ہوئی نہ ڈھولک بجی نہ بابل کی دعائیں ملیں ۔ پندرہ سال کی عمر کی لڑکیاں تو دوسروں کی شادی میں ڈھولک بجاتی ہیں اور گیت گاتی ہیں اور یہاں ایک قید خانہ تھا نہ بال کا گھر نہ پیا کا گھر ۔ دلبر ان دونوں سے مار بھی کھایا کرتی ، ننگی ننگی گالیاں بھی سنتی اور ہرظلم بھی سہتی ۔ دلبر نے خود کو وقت کے ظالم دھارے کےحوالے کردیا تھا ۔ رفیق کے کہنے پر دلبر نے دو گھر بھی پکڑ لئے تھے جہاں وہ کام کرنے جاتی ۔ اور اس مکان کا آدھا کرایہ رفیق ڈرائیور کو دیتی ۔ان مشکل حالات میں اس کے دماغ میں ملانی جی کا سبق گونجتا تھا کہ اللہ نے قران میں فرمایا کہ اس کے نیک بندے جب مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو نماز اور صبر کا سہارا لیتے ہیں ۔ اس نے نماز کا سہارا لینا شروع کیا اور جو سورتیں بچپن میں یاد کی تھیں ان کو دہراتی رہتی ۔ اس دوران دلبر نے ایک بیٹے کو جنم دیا ۔سترہ سالہ بن بیاہی ماں ۔ یہ کیسی بد نصیبی تھی کہ دلبر کو بھی اس کے باپ کا نام معلوم نہ تھا ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ روز محشر ستا ر العیوب انسان کو اس کی ماں کے نام سے پکارے گا ۔ مگر دنیا میں شناخت کے لئے باپ کا نام ہونا ضروری ہے ۔ بیٹے کانام اس نے غیور رکھا تو ڈرائیور رفیق اور سلیم قہقہہ مار کر ہنسنے لگے ۔ یہاں دلبر کو پانچ سال ہو گئے تھے ۔ غیور بھی تین سال کا ہو گیا تھا ۔ صحن میں بھاگتا دوڑتا پھرتا تھا ۔ اب ڈرائیور رفیق اور سلیم کا دل بھی دلبر سے بھر گیا تھا اور وہ اس سے جان چھڑانے کی سوچنے لگے ۔ دلبر ابھی بیس کے لگ بھگ تھی ڈرائیور رفیق کے دل میں اسے آگے بیچنے کا بھی خیال دل میں آیا مگر سلیم کے کہنے سے اس نے یہ خیال دل سے نکال دیا اور دلبر سے کہا کہ کراچی کے حالات روزبروز خراب ہو رہے ہیں اور چھاونی کی حدود میں اب رہنا ٹھیک نہیں ہم دونوں تو گاؤں جا رہے ہیں بہتر ہے تو بھی اپنا کوئی بندوبست کرلے ۔ دلبر دو گھروں کا کام تو پہلے بھی کرتی تھی اب اسے نئے گھروں کی تلاش تھی اور خاص طور پر ایسے گھر کی جہاں اسے اور اس کے بیٹے کوسر چھپانے کی جگہ بھی مل جائے ۔ وہ روزانہ نئے گھروں کا دروازہ کھٹکھٹاتی مگر کوئی کام نہ ملا ۔ قسمت کی کیسی ستم ظریفی تھی کہ ملیر کینٹ سے تھوڑے ہی فاصلے پر ماڈل کالونی میں دلبر کے باپ، بھائی ، بہنیں اور ماں رہتے تھے ۔ دلبر انہیں یاد کر کے گھنٹوں ہچکیوں سے روتی تھی ۔مگر جانے کی ہمت نہ کرتی کہ کہیں میرے والدین کی عزت خاک میں نہ مل جائے ۔ ایک دن اسی طرح کینٹ بازاری کی آبادی میں کام ڈھونڈنے کے لئے ایک دروازہ کھٹکھٹایا دروازہ کھلتے ہی وہ سکتہ میں آگئی اس کے پاؤں گویا زمین میں دھنس گئے نہ آگے جانے کی رہی اور نہ پیچھے جانے کی ۔ سامنے اس کی کلاس فیلو اور عزیز سہیلی سارہ کھڑی تھی ۔ سارہ نے دلبر کے ساتھ اس کا تین سالہ بیٹا دیکھا تو حیران ہوئی اور اندر بلا لیا ۔ دلبر کے آنسو ایسے بہے گویا رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ۔ سارہ نے اسے تسلی دی بہت حوصلہ دیا ۔ دلبر نے جذبات میں بہتے ہوئے اپنی ساری بپتا کہہ ڈالی ۔ سارہ اس گھر میں شادی کے بعد آئی تھی اور دونوں میاں بیوی رہتے تھے ایک بچی تھی گود میں ۔ دلبر نے جب اپنا سارا بوجھ اتار دیا تو سارہ کو اللہ اور رسولﷺ کے واسطے دئیے کہ اس بات کو راز ہی رہنے دینا نہ تو کبھی میرے بیٹے کو خبر ہو نہ میرے والدین کو ۔ دلبر نے اپنے آنے کا مقصد بتایا کہ مجھے ایسی جگہ چاہئیے جہاں میں اپنے بیٹے کے ساتھ سر چھپا سکوں ۔ سارہ دلبر کے کردار سے بخوبی واقف تھی ۔ دلبر نے سارہ سے یہ بھی کہا کہ اگر سستا سا ایک کمرہ بھی مل جائے تو وہ کرائے پر لے لے گی ۔لوگوں کے گھر وں میں کام کر کے وہ رہ لے گی دلبر کھانا پکانے ، سینے پرونے میں اچھی تھی ۔ چھوٹے بچوں کو سکول کا کا م اور قران شریف پڑھا سکتی تھی ۔سارہ نے اسے کھانا کھلایا ۔ سارہ کا شوہر ارشد بنک میں ملازمت کرتا تھا اور شام کو پانچ چھے بجے کے بعد آتا تھا ۔ سارہ قریب ہی ایک سکول میں ملازمت کرتی تھی ۔ بچی ایک بے بی کئیر میں چھوڑتی تھی ۔سارہ نے کچھ سوچتے ہوئے اسے دوسرے دن آنے کا کہا ۔ دلبر کے سینے سے ایک بوجھ اتر گیا تھا وہ خود کو ہلکا محسوس کرنے لگی ۔ مگر ساتھ ہی ساتھ یہ خوف بھی کھائے جا رہا تھا کہ اگر سارہ نے یہ سب باتیں اپنے میاں کو بتائیں اور اس نے کبھی اس کے بھائی باپ یا اپنے کسی دوست سے ذکر کیا تو کیا ہوگا ؟ یہ سوچتے ہی اس کا دماغ سُن ہو جاتا ۔

رات بھر وہ اللہ سے اچھے سبب کی دعائیں مانگتی رہی ۔ اے اللہ میاں تو میرے گناہوں اور نیتوں کو مجھ سے بہتر جانتا ہے ۔ مجھ پر رحم کر ۔ مجھے سیدھا راستہ دکھا ، اگلے دن شام کو وہ سارہ کے گھر گئی ۔ تو سارہ نے اسے خوشخبری سنائی کہ جتنے پیسے میں بے بی کئیر والو ں کو یعنی ڈیڑھ ہزار وہ میں تمہیں دوں گی ۔ مکان کی چھت پر ایک چھوٹا کمرہ اور ایک واش روم ہے وہ تم استعمال کروگی ۔ بہنوں کی طرح رہوگی ۔ میری بچی کا خیال رکھوگی ، کچن اور صفائی وغیرہ کروگی کھانا جو ہم کھائیں گے وہی تم بھی کھانا۔ سارہ تو خوشی سے پاگل ہوگئی واپس گھر گئی اور اپنے تین جوڑے کپڑے اور اپنے بیٹے غیور کے چند کپڑوں کے علاوہ اس کے پاس کیا تھا کچھ بھی تو نہیں ، وہ لے کر ڈرائیور رفیق کو بتا کر نکل آئی ۔ ڈرائیور رفیق نے بہت پوچھنے کی کوشش کی کہ کہاں جارہی ہے مگر دلبر اسے ٹرخا گئی ۔ اب وہ سارہ کے گھر منتقل ہو گئی تھی ۔ صبح فجر کی نماز کے بعد سے شام عصر کینماز تک وہ نیچے رہتی ، باورچی خانے کا سارا کام اس نے سنبھال لیا تھا ، کپڑے دھونا ، صفائی کرنا استری کرنا سب کام وہی کرتی تھی ۔ عصر کے بعد سارہ کے شوہر کے آنے سے پہلے ہی وہ اپنے لئے رات کا کھانا لے کر اوپر اپنے کمرے میں آجاتی ۔تاکہ ان میاں بیوی کی آزادی میں دخل نہ پڑے جب دونوں میاں بیوی کہیں شام کو جاتے تو یہ گھر کا خیال کرتی ۔ سارہ اور اس کے شوہر کو بہت آرام ہے اور وہ دلبر کو اپنے گھر کھ کر بہت خوش ہیں دلبر نے بھی محلے سے سلائی کا کام لینا شروع کردیا شام سے رات گئے تک وہ کپڑے سیتی ہے ۔ اہل محلہ کو ایک بیوہ کی حیثیت سے متعارف کرایا گیا ۔پچھلے سال ہی اُس نے دونوں ظالموں کا انجام دیکھ لیا تھا جب مغل چنگیزی جا ایس پی بن چکا تھا کی یوی نے اُس کی اربوں کی جائداد اپنے نام کرنے کے بعد اس کی سپاری ٹارگٹ کلر کو دے دی اور وہ مارا گیا ۔ اور کانسٹیبل اسد جس نے افسران بالا کی بے مثال خدمت کی ترقی کرتا ہوا ڈی ایس پی بن گیا تو اس کے جواں سال بیٹے کو اس کی بیٹی کے آشنا نے قتل کردیا ۔بے شک اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے مگرآج جب دلبر نے یہ خبر پڑھی تو اس گزرے ہوئے پانچ سالوں کا ایک ایک لمحہ اُس کے سامنے گھومنے لگا۔پانچ سال پہلے اس کی عمر پندرہ برس تھی آج اس کی عمر بیس کے قریب ہوگئی ان پانچ سالوں میں کیا سے کیا ہوگیا ۔نہ وہ شادی شدہ ہے نہ کنواری ، نہ بیوہ نہ مطلقہ ۔ اس کلی کو کس نے مسل دیا ؟ اور اب ۔۔۔۔۔ لاہور میں ایک اور دلبر ' داشتہ بننے جا رہی ہے ۔ ایک اور ایس ایچ او مغل چنگیزی اور کانسٹیبل اسد ترقی کے مزید زینے چڑھیں گے ۔ آج پھر کوئی صبور خان اپنی عزت کی خاطر اپنی لاڈلی بیٹی کی قربانی دے گا ۔ اور بیٹی اپنے خاندان کی عزت کے لئے عمر بھر اپنی عزت کی بھینٹ چڑھاتی رہے گی ۔کاش کوئی اس دلبر کی ضمانت کرادے ۔ورنہ وہ دلبرداشتہ ہو کر کہیں اس دنیا سے اپنا یقین کھو دے


پس تحریر : یہ ایک فرضی افسانہ ہے ۔ ان افسانوی کرداروں کی کسی سے مماثلت محض اتفاق ہوگا
بہت عمدہ، فرضی ہونے کے باوجود حقیقت کے انتہائی قریب، یہاں تک کہ ملیر کینٹ کے ساتھ کے میدان والے کیکروں میں بنے گھر تک۔ اور ماڈل کالونی کے ساتھ ڈیری فارمز تک :)

بہت خوش رہیں۔ بڑے عرصے بعد اتنا سارا پڑھا اور بہت اچھا لگا۔ :)
 
دلبر۔۔داشتہ

" سر عام بوس و کنار کرتا ہوا جوڑا گرفتا ر ” اخبار کے اندرونی صفحے پر اس ایک کالمی خبر نے دلبر کو ہلا کر رکھ دیا ۔ آج ایک اور دلبر ' داشتہ بننے جا رہی ہے ۔ وہ بڑ بڑانے لگی کوئی یہ نہیں سوچتا … ان موئے پو لیس والوں سے کمیٹی کے نلکے چرانے والے ، مسجد سے جوتیاں چوری کرنے والے بر سر عام موبائل فون چھیننے والے تو پکڑا نہیں جاتایہ سر عام بوس و کنار کرنے والے بے وقوف کیسےپکڑے گئے ۔ اور یہ کیسا جوڑا تھا جو دن دیہاڑے جب پولیس کا سپاہی چند گز کے فاصلے پر موجود تھا اور یقیناً لوگ بھی موجود ہوں گے تبھی تو اخبار والوں نے سر عام کا لفظ استعمال کیا اس سرگرمی میں مصروف تھے خبر میں لاہور کے گھوڑے شاہ کے علاقے سے پنجاب پولیس کے مستعد سپاہی نے اس جوڑے کو جن کا نام بھی لکھا تھا گرفتار کرلیا ۔ دلبر خانم کو 1975 کے ستمبر کا وہ منحوس دن یا د آگیا جہاں سے اُس کی بربادی کی داستان شروع ہوئی ۔

دلبر خانم کے والدین1960 میں شادی کے بعد مستونگ بلوچستان سے کراچی آئے تھے ۔ محنت کش لوگ تھے جو تین وقت کی روٹی کی بجائے ایک وقت کی مگر عزت اور حلال کمائی ہوئی کو ترجیح دیتے تھے والد عبدالصبور خان نے ماڈل کالونی ، ملیر میں اپنے دوست رشید خان کے ساتھ مل کر ایک سبزی کی دکان کھول لی ۔ مذہبی گھرانہ تھا مسجد میں پانچوں وقت جایا کرتے جلد ہی محلے میں عزت کی نگا ہ سے دیکھے جانے لگے ۔ محنت کی وجہ سے کاروبار بھی خوب چل نکلا دلبر خانم پانچ بہن بھائی تھے ایک بھائی بڑا ، ایک بھائی اور دو بہنیں چھوٹی تھیں ۔ بڑا بھائی عبدالسیفور خان تین سال تک میٹرک میں فیل ہونے کے بعد اپنے والد کے ساتھ دکان میں ہاتھ بٹایا کرتا ۔ دلبر خانم تعلیم میں اچھی تھی اور والد بھی اُس کی حوصلہ افزائی کرتے ۔ دلبر خان ماڈل کالونی کے ریلوےاسٹیشن سے آگے ڈیری فارم کے قریب ایک سرکاری سکول میں نویں جماعت کی طالبہ تھی اس کی عمر پندرہ برس تھی دلبر خانم انتہائی خوبصورت وحسین لڑکی تھی مگر مذ ہبی گھرانے کا اثر تھا اور کچھ والدین کی تربیت تھی کہ وہ ایک سنجیدہ خاموش طبع لڑکی بن گئی تھی، اسکول نزدیک ہی تھا صبح وہ اکیلی ہی سکول چلی جایا کرتی تھی۔کچھ دنوں سے وہ محسوس کررہی تھی کہ ایک پولیس کا سپاہی اُس کے راستے میں کہیں نہ کہیں مل جاتا تھا ، وہ نظرا انداز کرتی رہی ، مگر ایک دن جب اُس نے قریب آکر الٹے سیدھے جملے کسے تو دلبر نے اچھی خاصی بے عزتی کر ڈالی ، اُس دن وہ بہت غصے میں تھی اس نے کئی دفعہ سوچا کہ اپنے والد یا والدہ کو بتا دوں مگر اسے نتائج کا احساس تھا کہ اس کے والد ایک طرف تو دلبر کی تعلیم پر پابندی لگا دیں گے اور دوسری طرف اس پولیس والے سے جھگڑا کریں گے اور بات بڑھ بھی سکتی تھی یہ سوچ کر اس نے گھر میں تذکرہ نہیں کیا اگلے دن وہ پولیس والا پھر راستے میں کھڑا تھا اور جب وہ سکول کے قریب کھلے میدان سے گزر رہی تھی تو اس نے دلبر کو خطرناک نتائج کی دھمکی دی دلبر گو کہ کچھ کچھ خوفزدہ ضرور ہو گئی تھی مگر پولیس کے سپاہی کی بات بھی کسی صورت میں نہیں مانی جاسکتی تھی ۔ ایک ہفتہ گزر گیا پولیس والا کہیں نظر نہ آیا دلبر سمجھی کہ خطرہ ٹل گیا مگر ایک دن جب وہ صبح سکول جارہی تھی تو میدان سے گزرتے ہوئے اچانک پیچھے سے ایک پولیس موبائل آئی اور لمحوں میں اسے اٹھا کر تیزی سے نکل گئی ۔ دلبر اس اچانک حملے سے سنبھلنے بھی نہیں پائی تھی کہ موبائل گاڑی ماڈل کالونی کے تھانے میں داخل ہو گئی ۔ گاڑی کے اندر وہی پولیس والا اور ایک انیس سالہ لڑکا بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے گالیاں دیتے ہوئے دلبر کو نیچے اتارا اور تھانے دار کے سامنے پیش کردیا ۔ تھانے دار نے انتہائی غلیظ نگاہوں سے دلبر کو دیکھا اور پولیس کے سپاہی جس کانام اسد تھا کے حسن انتخاب کی تعریف کی ۔ دلبر رو رو کر فریاد کررہی تھی مگر ان وقت کے فرعونوں پر کچھ اثر نہ ہوااب پولیس نے اس کے خلاف پرچہ کاٹ دیا کہ وہ اس دوسرے لڑکے جس کا نام جاوید تھا کے ساتھ سر عام بوس و کنار میں مصروف تھی ۔ ایک اخبار کا نمائندہ بھی کہیں سے آگیا اس نے خبر لی ، اور تھانیدار صاحب کے ساتھ فحش گفتگو میں مصروف ہوگیا ۔ دلبر کی صورت میں انہیں ایک تفریح میسر آگئی تھی ۔ د لبر کا رو رو کر برا حال تھا ۔ وہ بار بار اپنی بے گناہی کا یقین دلا رہی تھی ۔ تھانےدار ، اخبار کے نمائندے سب کو یقین تھا کہ وہ بے گناہ ہے ۔ مگر وہ خوش تھے کہ ان ےجال میں آ ج ایک اور خوبصورت مچھلی پھنس گئی ۔ان کی نظر میں وہ صرف ایک کھلونا تھی ۔ دلبر کی کتابیں نہ جانے کہاں تھیں ۔ دلبر اور جاوید کو حوالات میں بند کردیا ۔ اور دلبر کے گھر اطلاع کردی گئی کہ ان کی بیٹی اس طرح کی فحش حرکات کرتی ہوئی پکڑی گئی ۔ والدین پر یہ خبر بجلی بن کر گری ۔ دلبر کا باپ اور بھائی دلبر اور اس کی ماں کو برا بھلا کہنے لگے ۔ غیرت ان کے سر پر چڑھ کر بول رہی تھی ۔ انہوں نے اپنی عزت اور غیرت کو بچانے کے لئے فیصلہ کیا کہ کوئی تھانے جا کر اس کی ضمانت نہیں کرائے گا اور اس کو وہیں حوالات اور جیل کی ہوا کھانے کے لئے چھوڑ دیا ۔ اپنی غیرت اور عزت کی خاطر اپنی معصوم اور بے گناہ دلبر کو قربان کردیا ۔ اس سے بے خبر کہ اس طرح ان کی عزت سے کون کون کہاں کہاں کھیلے گا ۔ جب شام تک تھانے کوئی نہ آیا تو د لبرت سمجھ گئی کہ والدین نے اسے چھوڑ دیا اب وہ کمکمل طور پر تھانے دار کے قبضہ میں تھی تھانے دار جو ایس ایچ او مغل چنگیزی کے نام پہچانا جاتا تھا ۔ اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا ۔ بہر حال عدالت میں پیشی تک کیا تھانے دار ، کیا ایس پی ، کیا مجسٹریٹ اور کیا جج سب نے اس کے خون سے اپنے آپ کو پاک کرکے مقدس بنایا۔ نہ جانے کتنے درندوں نے اس کی بوٹیوں کو نوچا ۔ دلبر جب بے حال ہو جاتی تو اسے شرا ب پلائی جاتی غرض دو تین دنوں میں ہی دلبر کو ادھ موا کر کے عالی وقار جج کی عدالت میں پیش کیا گیا ۔ عدالت کی عالی شان کرسی پر بیٹھا جج دلبر سے آنکھیں نہیں ملا پا رہا تھا ۔ اور دلبر کی نظریں دو جہانوں کے منصف سے اپنی فریاد کر رہی تھی ۔ جج نے دلبر اور جاوید کو ایک ایک ہزار کی ضمانت پر رہا کرنے عدم ادئیگی جرمانے کی صورت میں چھے ماہ کی جیل کی سزا سنا دی اسد کی ضمانت تو اسی وقت ہوگئی مگر دلبر خانم کی ضمانت دینے والا کوئی نہ تھا ۔ ایچ او مغل چنگیزی نے تھانے واپس آکر دلبر خانم کو سمجھایا کہ جو کچھ ہوا وہ اب ہو چکا اب تیری مرضی تو جیل جانا چاہتی ہے یا تیری ضمانت کا بندو بست کروں اس کے سامنے ایک ٹیکسی ڈرائیور رفیق بیٹھا تھا مغل چنگیزی نے بتایا کہ رفیق یہاں اکیلا رہتا ہے تیرے ساتھ شادی کرلے گا اس طرح در بدر کی ٹھوکریں کھانے سے بچ جائے گی تیرے گھر سے تو تجھے لینے نہ کوئی آیا نہ آئے گا ۔ اس ناگہانی حادثات اور ظلم و ستم کے بعد کم سن دلبر کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بالکل ختم ہو چکی تھی وہ ایک زندہ لاش تھی ۔ جب اس کی ضمانت لینے والا کوئی نہ تھا وہ کسی سے کیسے ضمانت مانگتی ، جیل کے تصور ہی سے وہ خوفزدہ تھی اس نے ہاں کردی اور رفیق ڈرائیور نے پانچ ہزار ایس او مغل کو دئیے ۔ کاغذی کاروائی ہوئی اور ضمانت لے کر دلبر خانم جو ابھی نویں جماعت کی طالبہ تھی رفیق کے ساتھ اس کے کوارٹر میں آگئی ۔ یہ کوارٹر ملیر کینٹ میں کیکر کی جھاڑیوں میں چھپا ہو ایک نیم پختہ بوسیدا سا کوارٹر تھا جو غالباً انگریزوں کے دور کا بنا ہوا تھا اور فوج کے درجہ چہارم کے ملازمین کا تھا ۔ یہ کوارٹر ڈرائیور رفیق نے اپنے کسی فوجی رشتہ دار کی معرفت لیا ہوا تھا اور گزشتہ دس سالوں سے رہ رہاتھا ۔ یہاں اس کے ساتھ اس کا ایک دوست سلیم بھی رہتا تھا ۔ سلیم ملیر ہالٹ کے بس سٹاپ پر ہاکر تھا اور بسوں ویگنوں میں سواریاں بھرنے کے لیے آوازیں دیا کرتا اور ہر بس ویگن سے کمیشن لیا کرتا تھا ۔ یہ دونوں دوست اندرون سندھ سے یہاں روزگار کے لئے آئے تھے اب ان دوستوں کو ایک عورت دلبر کی صورت میں مل گئی ۔ پانچ ہزار میں ڈرائیور رفیق نے مہنگا سودا نہیں کیا تھا ۔ گھر آکر اس نے دلبر پر واضح کردیا کہ کہ شادی وادی کوئی نہیں کرنی ۔ اس گھر میں تو رہے گی ہم دونوں کے تمام کام کرے گی ، کپڑے وغیرہ دھوئے گی کھانا پکائے گی اور ان کی ہر جائز نا جائزخواہش پوری کرے گی ورنہ کسی بھی وقت تیری ضمانت کینسل کرا کے تجھے جیل بھجوادیں گے ۔ دلبر کے پر کٹ چکے تھے وہ ایک بغیر روح کے ایک لاش کی مانند تھی ۔ وہ کیسی گھر والی تھی جس کی نہ رخصتی ہوئی نہ ڈھولک بجی نہ بابل کی دعائیں ملیں ۔ پندرہ سال کی عمر کی لڑکیاں تو دوسروں کی شادی میں ڈھولک بجاتی ہیں اور گیت گاتی ہیں اور یہاں ایک قید خانہ تھا نہ بال کا گھر نہ پیا کا گھر ۔ دلبر ان دونوں سے مار بھی کھایا کرتی ، ننگی ننگی گالیاں بھی سنتی اور ہرظلم بھی سہتی ۔ دلبر نے خود کو وقت کے ظالم دھارے کےحوالے کردیا تھا ۔ رفیق کے کہنے پر دلبر نے دو گھر بھی پکڑ لئے تھے جہاں وہ کام کرنے جاتی ۔ اور اس مکان کا آدھا کرایہ رفیق ڈرائیور کو دیتی ۔ان مشکل حالات میں اس کے دماغ میں ملانی جی کا سبق گونجتا تھا کہ اللہ نے قران میں فرمایا کہ اس کے نیک بندے جب مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو نماز اور صبر کا سہارا لیتے ہیں ۔ اس نے نماز کا سہارا لینا شروع کیا اور جو سورتیں بچپن میں یاد کی تھیں ان کو دہراتی رہتی ۔ اس دوران دلبر نے ایک بیٹے کو جنم دیا ۔سترہ سالہ بن بیاہی ماں ۔ یہ کیسی بد نصیبی تھی کہ دلبر کو بھی اس کے باپ کا نام معلوم نہ تھا ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ روز محشر ستا ر العیوب انسان کو اس کی ماں کے نام سے پکارے گا ۔ مگر دنیا میں شناخت کے لئے باپ کا نام ہونا ضروری ہے ۔ بیٹے کانام اس نے غیور رکھا تو ڈرائیور رفیق اور سلیم قہقہہ مار کر ہنسنے لگے ۔ یہاں دلبر کو پانچ سال ہو گئے تھے ۔ غیور بھی تین سال کا ہو گیا تھا ۔ صحن میں بھاگتا دوڑتا پھرتا تھا ۔ اب ڈرائیور رفیق اور سلیم کا دل بھی دلبر سے بھر گیا تھا اور وہ اس سے جان چھڑانے کی سوچنے لگے ۔ دلبر ابھی بیس کے لگ بھگ تھی ڈرائیور رفیق کے دل میں اسے آگے بیچنے کا بھی خیال دل میں آیا مگر سلیم کے کہنے سے اس نے یہ خیال دل سے نکال دیا اور دلبر سے کہا کہ کراچی کے حالات روزبروز خراب ہو رہے ہیں اور چھاونی کی حدود میں اب رہنا ٹھیک نہیں ہم دونوں تو گاؤں جا رہے ہیں بہتر ہے تو بھی اپنا کوئی بندوبست کرلے ۔ دلبر دو گھروں کا کام تو پہلے بھی کرتی تھی اب اسے نئے گھروں کی تلاش تھی اور خاص طور پر ایسے گھر کی جہاں اسے اور اس کے بیٹے کوسر چھپانے کی جگہ بھی مل جائے ۔ وہ روزانہ نئے گھروں کا دروازہ کھٹکھٹاتی مگر کوئی کام نہ ملا ۔ قسمت کی کیسی ستم ظریفی تھی کہ ملیر کینٹ سے تھوڑے ہی فاصلے پر ماڈل کالونی میں دلبر کے باپ، بھائی ، بہنیں اور ماں رہتے تھے ۔ دلبر انہیں یاد کر کے گھنٹوں ہچکیوں سے روتی تھی ۔مگر جانے کی ہمت نہ کرتی کہ کہیں میرے والدین کی عزت خاک میں نہ مل جائے ۔ ایک دن اسی طرح کینٹ بازاری کی آبادی میں کام ڈھونڈنے کے لئے ایک دروازہ کھٹکھٹایا دروازہ کھلتے ہی وہ سکتہ میں آگئی اس کے پاؤں گویا زمین میں دھنس گئے نہ آگے جانے کی رہی اور نہ پیچھے جانے کی ۔ سامنے اس کی کلاس فیلو اور عزیز سہیلی سارہ کھڑی تھی ۔ سارہ نے دلبر کے ساتھ اس کا تین سالہ بیٹا دیکھا تو حیران ہوئی اور اندر بلا لیا ۔ دلبر کے آنسو ایسے بہے گویا رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ۔ سارہ نے اسے تسلی دی بہت حوصلہ دیا ۔ دلبر نے جذبات میں بہتے ہوئے اپنی ساری بپتا کہہ ڈالی ۔ سارہ اس گھر میں شادی کے بعد آئی تھی اور دونوں میاں بیوی رہتے تھے ایک بچی تھی گود میں ۔ دلبر نے جب اپنا سارا بوجھ اتار دیا تو سارہ کو اللہ اور رسولﷺ کے واسطے دئیے کہ اس بات کو راز ہی رہنے دینا نہ تو کبھی میرے بیٹے کو خبر ہو نہ میرے والدین کو ۔ دلبر نے اپنے آنے کا مقصد بتایا کہ مجھے ایسی جگہ چاہئیے جہاں میں اپنے بیٹے کے ساتھ سر چھپا سکوں ۔ سارہ دلبر کے کردار سے بخوبی واقف تھی ۔ دلبر نے سارہ سے یہ بھی کہا کہ اگر سستا سا ایک کمرہ بھی مل جائے تو وہ کرائے پر لے لے گی ۔لوگوں کے گھر وں میں کام کر کے وہ رہ لے گی دلبر کھانا پکانے ، سینے پرونے میں اچھی تھی ۔ چھوٹے بچوں کو سکول کا کا م اور قران شریف پڑھا سکتی تھی ۔سارہ نے اسے کھانا کھلایا ۔ سارہ کا شوہر ارشد بنک میں ملازمت کرتا تھا اور شام کو پانچ چھے بجے کے بعد آتا تھا ۔ سارہ قریب ہی ایک سکول میں ملازمت کرتی تھی ۔ بچی ایک بے بی کئیر میں چھوڑتی تھی ۔سارہ نے کچھ سوچتے ہوئے اسے دوسرے دن آنے کا کہا ۔ دلبر کے سینے سے ایک بوجھ اتر گیا تھا وہ خود کو ہلکا محسوس کرنے لگی ۔ مگر ساتھ ہی ساتھ یہ خوف بھی کھائے جا رہا تھا کہ اگر سارہ نے یہ سب باتیں اپنے میاں کو بتائیں اور اس نے کبھی اس کے بھائی باپ یا اپنے کسی دوست سے ذکر کیا تو کیا ہوگا ؟ یہ سوچتے ہی اس کا دماغ سُن ہو جاتا ۔

رات بھر وہ اللہ سے اچھے سبب کی دعائیں مانگتی رہی ۔ اے اللہ میاں تو میرے گناہوں اور نیتوں کو مجھ سے بہتر جانتا ہے ۔ مجھ پر رحم کر ۔ مجھے سیدھا راستہ دکھا ، اگلے دن شام کو وہ سارہ کے گھر گئی ۔ تو سارہ نے اسے خوشخبری سنائی کہ جتنے پیسے میں بے بی کئیر والو ں کو یعنی ڈیڑھ ہزار وہ میں تمہیں دوں گی ۔ مکان کی چھت پر ایک چھوٹا کمرہ اور ایک واش روم ہے وہ تم استعمال کروگی ۔ بہنوں کی طرح رہوگی ۔ میری بچی کا خیال رکھوگی ، کچن اور صفائی وغیرہ کروگی کھانا جو ہم کھائیں گے وہی تم بھی کھانا۔ سارہ تو خوشی سے پاگل ہوگئی واپس گھر گئی اور اپنے تین جوڑے کپڑے اور اپنے بیٹے غیور کے چند کپڑوں کے علاوہ اس کے پاس کیا تھا کچھ بھی تو نہیں ، وہ لے کر ڈرائیور رفیق کو بتا کر نکل آئی ۔ ڈرائیور رفیق نے بہت پوچھنے کی کوشش کی کہ کہاں جارہی ہے مگر دلبر اسے ٹرخا گئی ۔ اب وہ سارہ کے گھر منتقل ہو گئی تھی ۔ صبح فجر کی نماز کے بعد سے شام عصر کینماز تک وہ نیچے رہتی ، باورچی خانے کا سارا کام اس نے سنبھال لیا تھا ، کپڑے دھونا ، صفائی کرنا استری کرنا سب کام وہی کرتی تھی ۔ عصر کے بعد سارہ کے شوہر کے آنے سے پہلے ہی وہ اپنے لئے رات کا کھانا لے کر اوپر اپنے کمرے میں آجاتی ۔تاکہ ان میاں بیوی کی آزادی میں دخل نہ پڑے جب دونوں میاں بیوی کہیں شام کو جاتے تو یہ گھر کا خیال کرتی ۔ سارہ اور اس کے شوہر کو بہت آرام ہے اور وہ دلبر کو اپنے گھر کھ کر بہت خوش ہیں دلبر نے بھی محلے سے سلائی کا کام لینا شروع کردیا شام سے رات گئے تک وہ کپڑے سیتی ہے ۔ اہل محلہ کو ایک بیوہ کی حیثیت سے متعارف کرایا گیا ۔پچھلے سال ہی اُس نے دونوں ظالموں کا انجام دیکھ لیا تھا جب مغل چنگیزی جا ایس پی بن چکا تھا کی یوی نے اُس کی اربوں کی جائداد اپنے نام کرنے کے بعد اس کی سپاری ٹارگٹ کلر کو دے دی اور وہ مارا گیا ۔ اور کانسٹیبل اسد جس نے افسران بالا کی بے مثال خدمت کی ترقی کرتا ہوا ڈی ایس پی بن گیا تو اس کے جواں سال بیٹے کو اس کی بیٹی کے آشنا نے قتل کردیا ۔بے شک اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے مگرآج جب دلبر نے یہ خبر پڑھی تو اس گزرے ہوئے پانچ سالوں کا ایک ایک لمحہ اُس کے سامنے گھومنے لگا۔پانچ سال پہلے اس کی عمر پندرہ برس تھی آج اس کی عمر بیس کے قریب ہوگئی ان پانچ سالوں میں کیا سے کیا ہوگیا ۔نہ وہ شادی شدہ ہے نہ کنواری ، نہ بیوہ نہ مطلقہ ۔ اس کلی کو کس نے مسل دیا ؟ اور اب ۔۔۔۔۔ لاہور میں ایک اور دلبر ' داشتہ بننے جا رہی ہے ۔ ایک اور ایس ایچ او مغل چنگیزی اور کانسٹیبل اسد ترقی کے مزید زینے چڑھیں گے ۔ آج پھر کوئی صبور خان اپنی عزت کی خاطر اپنی لاڈلی بیٹی کی قربانی دے گا ۔ اور بیٹی اپنے خاندان کی عزت کے لئے عمر بھر اپنی عزت کی بھینٹ چڑھاتی رہے گی ۔کاش کوئی اس دلبر کی ضمانت کرادے ۔ورنہ وہ دلبرداشتہ ہو کر کہیں اس دنیا سے اپنا یقین کھو دے


پس تحریر : یہ ایک فرضی افسانہ ہے ۔ ان افسانوی کرداروں کی کسی سے مماثلت محض اتفاق ہوگا
بہت عمدہ، فرضی ہونے کے باوجود حقیقت کے انتہائی قریب، یہاں تک کہ ملیر کینٹ کے ساتھ کے میدان والے کیکروں میں بنے گھر تک۔ اور ماڈل کالونی کے ساتھ ڈیری فارمز تک :)

بہت خوش رہیں۔ بڑے عرصے بعد اتنا سارا پڑھا اور بہت اچھا لگا۔ :)
 

تلمیذ

لائبریرین
معاشرے میں جاری ظلم و استحصال کے پول کھولتی ہوئی ایک بہت اعلی تحریر۔
اگر کہانی کے آخر میں لکھے ہوئے Disclaimer کو نظر انداز کر دیا جائے تو اس میں ایک سچی کہانی کے تمام لوازم موجود ہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
افسوسنا ک
پاکستانی معاشرہ پولیس عدالت میڈیا کتنے کرپٹ ہے کہ یہ افسانہ بالکل سچی حقیقت لگ رہا ہے ۔۔
بہت دعائیں محترم سید بھائی
 

یوسف-2

محفلین
افسانہ پر تو احباب نے تبصرہ کر ہی دیا ہے کہ خوب ہی نہیں بلکہ بہت خوب ہے۔ میں افسانہ سے ہٹ کر لفظ دلبرداشتہ“ کے املا کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ میں بھی ایک عرصہ سے اس لفظ کو اسی طرح پڑھتا اور لکھتا چلا آرہا ہوں۔ لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ اس لفظ کا یہ املا ”غلط العوام“ ہے (غلط العام نہیں)۔ صحیح املا یوں ہے: ”دل برداشتہ

دِل بَرْداشْتَہ {دِل + بَر + داش + تَہ} (فارسی)
فارسی زبان سے اسم جامد دل کے ساتھ فارسی مصدر برداشتن سے حالیہ تمام برداشتہ لگا کرمرکب بنایا گیا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے 1802ء کو "باغ و بہار" میں مستعمل ملتا ہے۔ ۔ اس لفظ کا مطلب تو سب ہی جانتے ہیں کہ: وہ جس کا دل کسی امر یا شے سے اچاٹ ہو جائے، اکتایا ہوا، بے زار۔ جیسے "برصغیر کے سارے مسلمانوں کو زبان کے مسئلے نے دل برداشتہ کر دیا۔"، [ 1977ء، ہندی اردو تنازع، 231 ]
مآخذ
 
قدرت اللہ شہاب کا افسانہ یا خدا یاد آ گیا :(
جس معاشرے سے انصاف اٹھ جائے اس معاشرے میں اخلاقی قدریں زوال پزیر ہو جاتی ہیں
بہت زبردست شراکت
اللہ ہمیشہ اپنی امان میں رکھے آمین
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
آپ نے تبصرے کا کہا تھا ! تاخیر ہو گئی! کہ بہت سی الجھنیں گھیرے ہوئے تھیں ، ۔۔۔۔۔ اب آیا ، تحریر پڑھی اور سوچنے لگا کہ صاحب اس پر تبصرہ کیا کروں ؟ ۔۔۔۔۔ افسانہ کیا ہے ، ہمارے معاشرے کی ایک برہنہ تصویر ہے گویا !! ۔۔۔۔۔۔ خدا قلم سلامت رکھے صاحب !!
 
Top