سید جمال الدین افغانی ۔ دوسرا رخ

ابن عادل

محفلین
سید جمال الدین افغانی نوآبادیاتی طاقتوں سے آزادی کی مسلم جدوجہد میں ایک اہم نام ہیں ۔ برصغیر پاک وہند میں انہیں ایک مصلح اور مفکر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے ۔ ہمارے سامنے ان کا یہی پہلو ہے ۔ پچھلے دنوں معاصر ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل میں مولانا غلام رسول مہر کا افغانی صاحب کی سیرت اور کارناموں پر ایک مضمون تاریخ کے اوراق سے نکال کر شایع کیا گیا تو محمد تنزیل الصدیقی الحسینی صاحب کی تحقیق آئندہ ہفتے شایع ہوئی میرے لیے افغانی صاحب کا یہ پہلو اجنبی تھا ۔ مولانا غلام رسول مہر صاحب کے مضمون کو یہاں پیش کرنے کی حاجت نہیں کہ ان کے کارناموں سے عمومی واقفیت پائی جاتی ہے ان کی شخصیت کا دوسرا رخ یہاں پیش خدمت ہے ۔ امید ہے کہ احباب اس حوالے سے اپنی معلومات اور تحقیق سے آگاہ فرمائیں گے ۔ راقم کے خیال میں اردو میں اس حوالے سے معلومات کی انتہائی قلت ہے ۔​
(فرائیڈے اسپیشل کے گزشتہ سے پیوستہ شمارے (9 تا 15 مارچ 2012ئ) میں عالمِ اسلام میں بیداری کی تحریک کے اہم رہنما سید جمال الدین افغانی کے بارے میں مورّخ اسلام مولانا غلام رسول مہر مرحوم کا مضمون شائع کیا گیا تھا۔ اس مضمون کی تحریر کے بعد جمال الدین افغانی کی شخصیت اور حالاتِ زندگی کے بارے میں کئی تحقیقات شائع ہوچکی ہیں۔ نوجوان اہل قلم تنزیل الصدیقی الحسینی نے نئی تحقیقات کے حوالے سے جمال الدین افغانی کی شخصیت پر نئے زاویے سے روشنی ڈالی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔ (ادارہ) ٭٭٭٭
جمال الدین افغانی ( ۱۸۳۸ء -۱۸۹۷ء ) اسلامی تاریخ کے انتہائی غیر معمولی اور متاثر کن شخصیت کے حامل رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے دور کے تقریباً ہر بڑے اسلامی خطے میں اپنی جگہ بنائی اور وہاں کی سیاست و معاشرت پر اثرا نداز ہوئے۔ جس سے ان کی عبقریانہ صلاحیتوں کا بَر ملا اظہار ہوتا ہے۔ انہوں نے ایران، افغانستان، ہندوستان، مصر اور خلافتِ عثمانیہ میں اپنا وقت گزارا۔ ہندوستان میں ان کا عرصۂ قیام بہت کم رہا۔ یہی وجہ رہی کہ یہاں کہ اہلِ علم ان کی شخصیت کے ہَمہ گیر پہلوئوں سے اس قدر واقف نہیں۔ اسلامی ممالک میں صرف خطۂ حجاز ہی ان کے اثر و نفوذ سے محروم رہا۔ اسلامی خطوں کے علاوہ جمال الدین افغانی نے یورپ اور روس میں بھی کچھ عرصہ گزارا۔ وہ ایک متحرک شخصیت کے حامل تھے جہاں بھی گئے تحریک برپا کرتے گئے۔ان کی شخصیت بڑی انقلابی تھی جس نے ایک بہت بڑے حلقے کو متاثر کیا۔ انہیں جدید اتحاد عالم اسلامی کے نظریے کا بانی بھی قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی شخصیت ہَمہ گیر بھی تھی اور اس کے پہلو ہَمہ جہت بھی۔ برصغیر پاک وہند کے مسلمان عام طور پر انہیں ایک مصلح و مجدد کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ اس کے بَر عکس عالم عرب خصوصاً مصر کے راسخ العقیدہ علماء ان کے شدید مخالف ہیں کیونکہ جمال الدین افغانی کی زندگی کا بیشتر عملی حصہ بھی مصر ہی میں گزرا ہے۔ اسی طرح جو جدید تحقیقات خود جمال الدین افغانی کے خطوط اور نوشتوں کی صورت میں منظرِ شہود پر آئی ہیں اس سے بھی ان کی شخصیت کے کئی اہم مگر پوشیدہ اور گمشدہ پہلو نمایاں ہوئے ہیں۔ گو ان کی ’’ پُر اسرار شخصیت ‘‘ کے ’’ اسرار ‘‘ اب برصغیر کے اہلِ علم میں بھی کھلتے جارہے ہیں۔ مولانا سیّد ابو الحسن علی ندوی ( م ۱۹۹۹ء ) نے بھی اپنی کتاب ’’ مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش ‘‘ میں جمال الدین افغانی کی شخصیت کے اس دوسرے پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جدید تحقیقات کے نتیجے میں کئی چشم کشا انکشافات ہوئے ہیں۔ ذیل کے مضمون میں تصویر کے اسی دوسرے رُخ کوقارئین کے سامنے پیش کرنا مقصود ہے۔
جمال الدین افغانی کے ایک تذکرہ نگار شیخ علی الوردیٰ نے اپنی کتاب ’’ لمحات اجتماعیۃ فی تاریخ العراق الحدیث ‘‘ ( ۳ /۳۱۳) میں لکھا ہے :
’’ افغانی کا لقب ایک مقام سے دوسرے مقام میں منتقل ہونے کے ساتھ بدلتا رہا۔ ہم نے انہیں مصر و ترکی میں افغانی کا لاحقہ استعمال کرتے دیکھا۔ ایران میں وہ حسینی تھے۔ بعض اوراق جو ضائع ہونے سے بچ گئے ان سے ان کے دوسرے لاحقات بھی واضح ہوتے ہیں۔ مثلاً استنبولی، کابلی، روسی،طوسی اور اسد آبادی۔ لقب کی طرح ان کا لباس و حلیہ بھی اپنے مقام کی نوعیت کے اعتبار سے بدلتا رہا۔‘‘ پاک و ہند میں جمال الدین افغانی یا جمال الدین اسد آبادی کے نام سے معروف ہوئے۔’’ العروۃ الوثقیٰ ‘‘ میں مدیر السیاسۃ کی حیثیت سے ان کا نام جمال الدین الحسینی الافغانی مرقوم ہوتا تھا۔
خیر الدین زرکلی ( ۱۸۹۳ء -۱۹۷۶ء ) نے ’’ الاعلام ‘‘ (۶/ ۱۶۹) میں لکھا ہے :
’’ ان کے ایک ] نصرانی[ مرید ادیب اسحاق کے زیر ادارت نکلنے والے جریدے ’’ مصر ‘‘ میں جمال الدین کی تحریریں مظہر بن وضاح کے نام سے شائع ہوتی تھیں۔‘‘
اس کے علاوہ جمال الدین افغانی جن لاحقوں سے معروف ہوئے ان میں جمال الدین استنبولی اور جمال الدین حسینی عبد اللہ بن عبد اللہ بھی ہے ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ’’ جمال الدین الافغانی ‘‘ از ڈاکٹر علی عبد الحلیم محمود )۔ ۔
 

ابن عادل

محفلین
(گزشتہ سے پیوستہ)
محمد مبارک نے اپنے مقالے ’’ الفرسان الثلاثۃ ‘‘ میں ان کا اصل نام آیت اللہ مازندرانی لکھا ہے۔ جمال الدین افغانی کی سوانح کا پہلا مرحلہ ان کی وطنیت اور خاندان کے حوالے سے متضاد بیانات کا حامل ہے۔ موصوف کے ایک عقیدت مند سوانح نگار قاضی عبد الغفار بھی اس امر کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ان کے خاندان، مقام ولادت اور قومیت کے متعلق بہت الجھی ہوئی بحث ہمارے سامنے ہے، بہت سے متضاد بیانات ہیں۔ نفی اور اثبات کی ایک صبر آزما آویزش ہے جس سے بچ کر نکلنا بہت ہی مشکل نظر آتا ہے۔ ‘‘ ( آثار جمال الدین افغانی : ۱ )
جمال الدین افغانی نے اپنی جائے ولادت ’’ اسد آباد ‘‘ بتائی ہے اور یہاں یہ امر خالی از دلچسپی نہیں کہ ’’اسد آباد ‘‘ ایران، افغانستان اور آذر بائیجان کے ۳۳ مقامات کا نام ہے۔ موصوف کے ایرانی الاصل ہونے کے سب سے بڑے مدعی مرزا لطف اللہ خاں ہیں جو خود کو جمال الدین افغانی کا بھانجا بتاتے ہیں۔ تاہم اس قضیے کے بارے میں دلیپ ہیرو نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے، وہ نہایت معنی خیز ہے۔ ملاحظہ ہو :
’’ جمال الدین افغانی مختلف صلاحیتوں کی حامل ایک مذہبی شخصیت تھی، ایک محقق، فلسفی، مدرس، صحافی اور سیاستدان۔ وہ مغربی ایران میں ہمدان کے اطراف میں اسد آباد کے مقام پر ایک شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ تاہم انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کا مقام ولادت مشرقی افغانستان میں کنڑ کے قریب اسدآباد کا مقام ہے‘ و نیز ان کے والدین سنی تھے۔ انہوں نے سنی پسِ منظر کا دعویٰ اس لیے کیا تاکہ اسے مخاطبین کا وسیع حلقہ مل سکے۔ ‘‘( Islamic Fundamentalism:49 )
عمر رضا کحالہ نے اپنی مشہور کتاب ’’ معجم المولفین ‘‘ ( ۳ /۱۵۵) میں ’’ أعلام الشیعۃ ‘‘ کے حوالے سے جمال الدین کا جائے ولادت اسدآباد ہمدان تحریر کیا ہے۔ اب آخر میں رابرٹ ڈریفس کا بیان ملاحظہ کیجیے :
’’ ۱۸۳۸ء میں غالباً فارس میں جنم لینے والے جمال الدین نے خود کو افغانستان نژاد ظاہر کر نے کے لیے الافغانی کا لقب اپنایا۔ افغانی الاصل ہونے کا دعویٰ کرنے کے ذریعے وہ فارسی اور شیعہ ہونے کی دونوں شناختوں کو چھپانے کے قابل ہوئے تاکہ سنی اکثریتی مسلم دنیا میں وسیع تر پیمانے پر مقبولیت پاسکے۔ افغانی کی جائے پیدائش کے قریب اس کا پہلا بھیس موجود تھا۔ ممتاز برطانوی مستشرق ایلی کدوری ( Eli Kedourie ) کے مطابق افغانی کے پیروکاروں ( بشمول رشید رضا اورعبدہٗ ) نے ’’ سچائی کی کفایت ‘‘ سے کام لیا۔ افغانی زندگی بھر بھیس بدلتے رہے۔ اگرچہ اسے بجا طور پر ساری اسلامی دنیا پر محیط پین اسلامی سیاسی و سماجی تحریک کی نظری بنیادیں مہیا کرنے والا سمجھا جاتا ہے، لیکن وہ ایک غیر راسخ العقیدہ مفکر تھا جو ایک فری میسن، صوفی، سیاسی کارکن اور سب سے بڑھ کرایک ایسا شخص بھی تھا جو بقول کدوری ’’ مذہب کے سماجی استحصال ‘‘ پر یقین رکھتا تھا۔ ‘‘ (اسلامی بنیاد پرستی کی تاریخ : ۱۴ مترجمہ یاسر جواد )
یہاں یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ ہم نے موصوف کے ساتھ ’’ افغانی ‘‘ کا لا حقہ بربنائے شہرت لگایا ہے نہ کہ بربنائے تحقیق۔ اسی طرح یہاں یہ ذکر بھی بے محل نہیں کہ اکثر مستشرقین نے افغانی کے شیعہ و سنی ہونے کے بحث کو طول دیتے ہوئے اسے شیعہ قرار دیا ہے۔ سنی مورخین اسے سنی اور شیعہ مورخین اسے شیعہ قرار دیتے رہے ہیں۔ جبکہ علی عبد الحلیم محمود ( ۱۹۱۰ء -۱۹۷۸ء ) نے ’’ جمال الدین الافغانی ‘‘ ( صفحہ ۶۸ )، مصطفیٰ فوزی غزال نے ’’ دعوۃ جمال الدین الافغانی فی میزان الاسلام ‘‘ ( ص ۸۰) اور محمد مبارک نے اپنے مقالے ’’ الفرسان الثلاثۃ ‘‘ میں قرائن سے اسے بابی ثابت کیا ہے۔ جبکہ یہ بات تو مشرق و مغرب کے اہلِ علم میں یکساں معروف ہے کہ وہ فری میسن تھے، اس کے بعد ان کے مسلکی انتساب کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ جاتی۔ بایں ہَمہ ان کی شخصیت مسلکی حدود سے بالاتر تھی۔ افغانی کی وطنیت اور خاندان کی طرح ان کی تعلیم و تربیت کا معاملہ بھی سوانح نگاروں کے لیے متنازع بیانات کا حامل ہے۔ کتنی عجیب سی بات ہے کہ ایک ایسا شخص جس نے مشرق و مغرب میں یکساں مقبولیت پائی۔ تین براعظموں میں جس کے فکری و نظری اثرات مرتب ہوئے ہوں اس کے حالات کے اس قدر اہم پہلو بھی آج تشنۂ تحقیق ہیں۔ افغانی کے سوانح نگاروں کی حیرت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب وہ ملاحظہ کرتے ہیں کہ اپنے شخصی حالات کے بیان میں خود افغانی کے ہی اقوال میں تضاد پایا جاتا ہے اور افغانی کے اہم ترین پیروکار بھی بقول ایلی کدوری ’’ سچائی کی کفایت ‘‘ سے کام لیتے ہیں۔ افغانی نے ۱۹ برس کی عمر میں ۱۸۵۶ء میں ہندوستان کا سفر کیا۔ یہ ہندوستان کی تاریخ کا انتہائی پُرآشوب عہد تھا۔ اس سفر میں ۱۹ برس کے اس نوجوان کے لیے یقینا حصولِ علم کی غرض بھی شامل رہی ہوگی۔ کیا برصغیر کا کوئی مؤرخ ہے جو افغانی کے ہندوستان میں قیام کی مدت اور اس کی تفصیلات سے آگاہ کرسکے ؟ کیا یہ انتہائی حیرت انگیز امر نہیں کہ ایسا عہد جس میں برصغیر میں نوابغ و نادرئہ روزگار شخصیات کی کثرت رہی ہو، ہمیں افغانی کے کسی ہندی استاد کا علم نہیں ہوتا ؟کس کا خزینۂ علم تھا جس کی کشش اس انتہائی پُرآشوب عہد میں بھی ایک ۱۹ سالہ نوجوان کو افغانستان سے ہندوستان کھینچ لائی ؟ اس کا جواب ہمیں افغانی کے ایک شاگردسلیم عنحوری ( ۱۸۵۶ء - ۱۹۳۳ء ) سے ملتا ہے۔ سیّد رشید رضا مصری ( ۱۸۶۵ء -۱۹۳۵ء ) نے اپنی مشہور کتاب ’’ تاریخ الاستاذ الامام ‘‘میں افغانی کے حالات کے ضمن میں سلیم عنحوری کا مضمون بھی شامل اشاعت کیا ہے۔ سلیم عنحوری نے ’’ شرح دیوان سحر ھاروت ‘‘ میں لکھا ہے :
’’ افغانی نے یہاں کے علمائے براہمن و اسلام سے علوم شرقیہ اور تاریخ اخذ کی اور سنسکرت زبان میں تبحر حاصل کیا۔ ‘‘( تاریخ الاستاذ الامام :۱/۴۳)
علمائے براہمن کے ساتھ اسلام کا لاحقہ برائے وزن بیت ہی معلوم ہوتا ہے۔ یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ افغانی کو مختلف زبانوں کے سیکھنے کا خاص شوق تھا بقول خیر الدین الزرکلی :
’’ افغانی کو عربی، افغانی، فارسی، سنسکرت، ترکی زبانوں پر مہارت تھی جبکہ فرانسیسی، انگریزی اور روسی بھی جانتے تھے۔ فصاحت کے ساتھ عربی زبان میں تکلم کا سلیقہ انہیں حاصل تھا۔ ‘‘ ( الاعلام :۶/۱۶۹)
۔۔۔۔۔بقیہ
 

ابن عادل

محفلین
(گزشتہ سے پیوستہ)
افغانی کا فری میسن ہونا اب محتاج ثبوت نہیں رہا۔ ان کے عقیدتمندوں نے بھی اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ وہ فری میسن تھے۔ ۱۸۷۶ء کے لگ بھگ وہ اطالوی لاج Luce De Orient کے ممبر بنے۔ ۱۸۷۷ء تا ۱۸۹۷ء انہوں نے مصر کی ماسونی تنظیموں (فری میسن) سے روابط استوار کیے۔ بعض دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ افغانی نیل لاج قاہرہ کے بھی ممبر تھے جو نیشنل گرینڈ لاج مصر کے ماتحت چل رہی تھی۔ اس بات کا بھی ثبوت ملتا ہے کہ افغانی کوکب شرق لاج کے بھی ممبر بنے، یہ لاج برطانوی گرینڈ لاج کی منظوری سے قائم ہوئی تھی۔ مشہور مصری دانشور محمد صابری کے بقول افغانی نے برطانوی قونصل مقیم قاہرہ رافیل بورگ کے ایماء پر کوکب شرق لاج کی رکنیت اختیار کی تھی۔ اس بات کا بھی ثبوت ملتا ہے کہ افغانی نے ۲۴ جنوری ۱۸۷۷ء کو اس لاج کے ایک غیر معمولی اجلاس میں شرکت کی اور اگلے سال جنوری ۱۸۷۸ء میں انہیں اس لاج کا صدر منتخب کیا گیا۔ اس سے خفیہ برطانوی اداروں سے ان کے روابط بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ ۳ فروری ۱۸۷۹ء کو گرینڈ لاج انگلینڈ کے تحت قائم گریشیالاج کے ممبر بنے۔ افغانی چونکہ کئی فری میسن لاجوں کے ممبربنے اس لیے ان کی سیاسی سر گرمیوں کا مکمل علم نہیں ہوتا۔ ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو بشیر احمد کی کتاب ’’ فری میسنری ‘‘: ۲۳۴-۲۳۹)
افغانی کا فری میسزی سے تعلق اس قدر گہرا اور نمایاں ہے کہ اس سے انکار ممکن نہیں تاہم افغانی کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں نے یہ عذر پیش کیا ہے کہ افغانی اصلاحی و تعمیری مقاصد کے لیے فری میسن بنے تھے اور وہ فری میسنری کو استعمال کرنا چاہتے تھے۔ لیکن خیال رہے کہ فری میسنز اتنے بے وقوف نہیں ہوتے کہ کوئی انہیں استعمال کرلے۔ اس کے بَرعکس وہ بڑی آسانی سے بڑی بڑی شخصیات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ بشیر احمد بھی افغانی کے ایسے ہی ہمدردوں میں سے ہیں مگر انہوں نے اپنی کتاب ’’ فری میسنری ‘‘ میں افغانی کے خلاف ثبوت زیادہ مہیا کیے ہیں اور اس کا دفاع انتہائی کمزور لہجے میں کیا ہے۔ وہ بھی یہ لکھنے پر مجبور ہوئے کہ :
’’ وہ ایک اعلیٰ درجے کے مستعد فری میسن تھے اور مصر کی فری میسنری سے ان کے قریبی روابط تھے۔ ‘‘ ( ص ۲۳۵ )
سلطان عبد الحمید ( ۱۸۴۲ء -۱۹۱۸ء ) جن کی بے گناہی تاریخ نے ثابت کردی ہے۔ استعمار کی بات نہ ماننے ہی کی بنا پر انہیں مسندِ خلافت سے دستبردار ہونا پڑا۔ جنہوں نے فلسطین کی ایک مشتِ خاک بھی یہودیوں کے حوالے کرنے سے صاف انکار کردیا تھا۔وہ بھی افغانی سے نالاں تھے۔ سلطان عبد الحمید کی ذاتی ڈائری شائع ہوچکی ہے۔ اس سے بھی افغانی کی زندگی پر غیر معمولی روشنی پڑتی ہے اور بعض اہم حقائق ظاہر ہوتے ہیں۔ بشیر احمد نے اپنی کتاب ’’ فری میسنری ‘‘ میں سلطان عبد الحمید کی ڈائری کا ایک اقتباس نقل کیا ہے ملاحظہ ہو :
’’ ان کے ہاتھ ایک منصوبہ لگا جو برطانوی وزارت خارجہ کے دفتر میں تیار ہوا تھا اس منصوبے میں دو آدمی بنیادی کردار کی حیثیت رکھتے تھے ایک جمال الدین افغانی اور ایک انگریز جو اپنا نام بلنٹ Blunt بتاتا تھا۔ منصوبے میں کہا گیا تھا کہ ترکوں سے خلافت کی قبا لے لی جائے اور مکہ کے شریف حسین کو مسلمانوں کا خلیفہ بنانے کا اعلان کیا جائے۔ ‘‘( ص ۲۳۹)
سلطان عبد الحمید لکھتے ہیں :
’’ میں جمال الدین افغانی کو قریب سے جانتاتھا جب وہ ۱۸۷۹ء میں مصر میں تھے۔ وہ بہت خطرناک آدمی تھے مہدی ہونے کا دعویٰ کرتے تھے ایک بار انہوں نے میرے سامنے تجویز رکھی کہ وہ وسطِ ایشیا کے مسلمانوں کو روس کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرسکتے ہیں مجھے خوب علم تھا کہ افغانی ایسا کرنے پر قادر نہیں وہ انگریز کے آدمی تھے اور اس بات کا قوی امکان تھا کہ انہیں انگریز نے میری جاسوسی کے لیے تیار کیا تھا میں نے فوراً انکار کردیا میں نے ابو الہدیٰ الاصیادی الجلی کے ذریعے انہیں استنبول آنے کی دعوت دی اور پھر انہیں نکلنے نہ دیا اور یہیں ان کی وفات ہوئی۔ ‘‘
افغانی کی زندگی کا یہ پہلو نمایاں ہوتا جارہا ہے۔ سیّد رشید رضا مصری کی کتاب ’’ تاریخ الاستاذ الامام ‘‘ میں بھی افغانی کی زندگی کے کئی اہم پہلو مذکور ہیں۔ راسخ العقیدہ علما نے اس کی سخت مخالفت کی ہے۔ علمائے ازہر نے افغانی کے الحاد پر متفقہ فتویٰ بھی دیا ہے۔ مفتیانِ کرام میں شیخ محمد بن احمد علیش مالکی ( ۱۸۰۲ء -۱۸۸۲ء ) اور شیخ فہد الرومی نمایاں ہیں۔ موخر الذکر نے ’’منھج المدرسۃ العقلیۃ فی التفسیر ‘‘ میں افغانی دبستانِ فکر کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ شیخ مصطفیٰ صبری( ۱۸۶۹ء -۱۹۵۴ء ) نے ’’ موقف العقل و العلم و العالم من ربّ العالمین ‘‘ اور شیخ خلیل فوزی الفلیباوی نے ’’ السیوف القواطع ‘‘ میں افغانی پر سخت تنقید کی ہے۔ اس کے علاوہ اس کے معاصر مخالف علماء میں مفتی حنفیہ مصر شیخ محمد بخیت ( ۱۸۵۴ء -۱۹۳۵ء ) اور شیخ حسن فہمی کا نام بھی ملتا ہے۔ زمانۂ حال کے ایک عرب عالم شیخ مقبل بن ہادی الوداعی (۱۳۵۱ھ -۱۴۲۲ھ ) نے اپنے فتاویٰ ’’ تحفۃ المجیب علی اسئلۃ الحاضر و الغریب ‘‘ میں افغانی کوائمہ ضلال میں شمار کیا ہے۔ دوسری طرف جو تحقیقی ذخیرہ سامنے آیا اس سے بھی شکوک و شبہات بڑھتے چلے گئے۔ اس سلسلے میں ایرج افشار اور ڈاکٹر اصغر مہدوی کی مساعی سے ’’ مجموعہ اسناد و مدارک چاپ نشدئہ سید جمال الدین افغانی ‘‘ (باقی صفحہ 41 پر) تہران سے ۱۹۶۳ء میں شائع ہوئی۔ اس میں افغانی کی وہ یادداشتیں ہیں جو قیام تہران کے دوران الحاج محمد حسین امین دارالضرب کے گھر رہ گئی تھیں۔ صاحبِ خانہ افغانی کے خاص احباب میں سے تھے۔ اس کے علاوہ پروفیسر نکی کیڈی Nikki Keddie استاد ادبیات ایران کیلی فورنیا یونیورسٹی امریکا کی ایک اہم کتاب "Sayyid Jamal al-din al-Afghani: A Political Biography"یونیورسٹی آف کیلیفورنیا پریس سے ۱۹۷۲ء میں منظر شہود پر آئی۔ اس میں بھی افغانی کے حوالے سے بعض اہم شواہد پیش کیے گئے ہیں۔ اسی طرح افغانی کے بعض مذہبی و فلسفیانہ افکار و نظریات بھی انتہائی سخت ملحدانہ اندازِ فکر کے حامل ہیں۔ اسی بنیاد پر راسخ العقیدہ علما نے افغانی کی مخالفت کی۔ طوالت کے خوف سے الحاد و دہریت کی ان مثالوں کو ترک کیا جارہا ہے۔ جمال الدین افغانی ۱۸۳۸ء میں پیدا ہوئے اور ان کا انتقال ۹ مارچ ۱۸۹۷ء میں ہوا۔ یہ پورا عہد جدید اسلامی تاریخ کا اہم ترین عہد تھا اور افغانی اس عہد کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ برصغیر میں ایک طویل عرصے تک افغانی مسلم ہیرو کی حیثیت ہی سے متعارف رہے ہیں۔ مولانا ابو الکلام آزاد (۱۸۸۸ء -۱۹۵۸ء ) اور علامہ اقبال ( ۱۸۷۷ء -۱۹۳۸ء ) جیسے عالم و مفکر بھی افغانی کے مداح رہے۔ لیکن جب حقائق واضح ہوئے تو مولانا سیّد ابو الحسن علی ندوی جیسے صاحبِ علم کو بھی افغانی کے لیے اپنا زاویۂ فکر تبدیل کرنا پڑا۔ یہ حقائق ممکن ہے کہ بہتوں کے لیے تکلیف دہ ثابت ہوں مگر مومن کے لیے اس کی اصل عقیدت اسلام سے ہے نہ کہ شخصیات سے۔ وہ شخصیات کو اسلام کے تناظر میں دیکھتا ہے نہ کہ اسلام کو شخصیات کے تناظر میں۔
 

سید زبیر

محفلین

اس سے تو یہ ظاہر ہوتا کہ پیرو مرشد علامہ اقبال کو بھی ان کے بارے میں محدود معلومات تھیں اور انہیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ موصوف فری میسن کے ایجنٹ تھے
 

محمد امین

لائبریرین
تب تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ علامہ اقبال بھی فری میسن ہوں۔۔۔۔کیا پتا آنے والے دنوں میں کوئی تحقیق منظرِ عام پر آجائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
تب تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ علامہ اقبال بھی فری میسن ہوں۔۔۔ ۔کیا پتا آنے والے دنوں میں کوئی تحقیق منظرِ عام پر آجائے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
معاف کیجئے گا آپ کی بات انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ اقبال کی پوری زندگی ایک کھلی کتاب ہے جبکہ افغانی کی جائے پیدائش میں بھی متضاد آراء ہیں ۔ ان کے خاندان کے متعلق بھی مختلف روایات ہیں۔ وہ ایک فری میسن تھے ، اس کا ثبوت عرب دنیا میں کب کا منظر عام پر آچکا ہے۔
"مصری دانشور محمد صابری کے بقول افغانی نے برطانوی قونصل مقیم قاہرہ رافیل بورگ کے ایماء پر کوکب شرق لاج کی رکنیت اختیار کی تھی۔ اس بات کا بھی ثبوت ملتا ہے کہ افغانی نے ۲۴ جنوری ۱۸۷۷ء کو اس لاج کے ایک غیر معمولی اجلاس میں شرکت کی اور اگلے سال جنوری ۱۸۷۸ء میں انہیں اس لاج کا صدر منتخب کیا گیا"۔ یہ رہا افغانی کا ذکر کردہ لاج کے صدر بننے کا "نوٹیفیکیشن" ! (یہ عربی میں ہے)
 
Top