سید انصر (یہ بد قماش جو اہل عطا بنے ہوئے ہیں)

یہ بد قماش جو اہل عطا بنے ہوئے ہیں

یہ بد قماش جو اہل عطا بنے ہوئے ہیں
بشر تو بن نہیں سکتے خدا بنے ہوئے ہیں

میں جانتا ہوں کچھ ایسے عظیم لوگوں کو
جو ظلم سہہ کے سراپا دعا بنے ہوئے ہیں

وہ مجھ سے ہاتھ چھڑا لے تو کچھ عجب بھی نہیں
اسے خبر ہے کہ حالات کیا بنے ہوئے ہیں

لڑھکتا جاؤں کہاں تک میں ساتھ ساتھ ان کے
مرے شریک سفر تو ہوا بنے ہوئے ہیں

تو خلوتوں میں انہیں دیکھ لے تو ڈر جائے
یہ جتنے لوگ یہاں پارسا بنے ہوئے ہیں

کبھی کبھار تو ایسا گماں گزرتا ہے
ہمارے ہاتھ کے ارض و سما بنے ہوئے ہیں

ہمیں سے ہو کے پہنچنا ہے تم کو منزل تک
گزر بھی جانا کہ ہم راستا بنے ہوئے ہیں

ہزاروں لوگ بچھڑتے رہے ہیں مل مل کر
سو زندگی میں بہت سے خلا بنے ہوئے ہیں

کسی سے مل کے بنے تھے جو زرد لمحوں میں
وہ سبز خواب مرا آسرا بنے ہوئے ہیں

سید انصر​
 
لگتا ہے کوئی جلوہ نما ہے چراغ میں


لگتا ہے کوئی جلوہ نما ہے چراغ میں
اک رنگ روشنی سے جدا ہے چراغ میں

لو تھرتھرائی تھی کہ میں سجدے میں گر پڑا
اک وہم سا ہوا تھا خدا ہے چراغ میں

سینے میں جگمگاتا ہے دل دل میں تیرا عشق
گویا کوئی چراغ رکھا ہے چراغ میں

ڈٹ تو گیا ہے تیز ہواؤں کے سامنے
اب دیکھنا ہے کتنی انا ہے چراغ میں

شعلے کی ہر لپک میں جھلک ہے جمال کی
یہ کون آ کے بیٹھ گیا ہے چراغ میں

کھنچتے ہیں شام ہی سے دل و دیدہ اس طرف
اعجاز ہے کرشمہ ہے کیا ہے چراغ میں

انصرؔ کچھ اس طرح سے لپکتی ہیں آندھیاں
جیسے کوئی خزانہ چھپا ہے چراغ میں

سید انصر
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
واہ واہ عامر بھائی، بہت اچھا کلام ہے۔
لیکن بہتر یہ ہے کہ ایک لڑی میں ایک ہی غزل پوسٹ کریں۔ دوسری غزل کے لیے دوسری لڑی بنائیں۔
 
Top