سیاسی ڈرامے...صبح بخیر۔۔۔۔۔ڈاکٹر صفدر محمود

ہمارے ملک میں سیاست کا دوسرا نام ڈرامہ ہے۔ جو جتنا اچھا ڈرامہ ’’برپا‘‘ کرسکے اور جتنی اچھی ڈگڈگی بجالے وہ اتنا ہی بڑا سیاستدان ہوتا ہے۔ میڈیا کے آزاد اور طاقتور ہونے کے بہت سے فائدے ہوئے ہیں لیکن اس کا سب سے بڑا فائدہ ڈرامے بازوں کو ہوا ہے کہ وہ گھنٹوں اور دنوں میں شہرت کے کندھوں پر سوار ہو جاتےہیں اور شہرت کی عزت کماتے ہیں۔ میں تقریباً نصف صدی سے ان ڈراموں کا عینی شاہد ہوں۔ کبھی اس کی دھنیں بلند تو کبھی آہستہ ہو جاتی ہیں۔ گزشتہ چند دنوں سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سیاسی ڈرامے کی ادائیں، دھنیں اور اداکاریاں قدرے تیز اور بلند آہنگ ہوگئی ہیں۔ اس تیزی کے عمل کا آغاز جنرل پرویز مشرف کے مقدمے سے ہوا اور اب تو دو اور سیاسی کردار یا سیاسی ’’سلطان راہی‘‘ بھی میدان میں کود پڑے ہیں جس سے شور شرابے، ہوائی خدشات اور الزامات کا بلند آہنگ میوزک مسائل تلے دبے عوام کے کانوں کے پردوں سے ٹکرا رہا ہے۔ یقین رکھیے یہ سب کچھ ڈرامہ ہے اور ڈرامے کی کل عمر چند دن ہی ہوا کرتی ہے۔ سیاسی سٹیج پر جب سیاسی سلطان راہی بڑھکیں مارتا ہے تو سننے والے تالیاں بجاتے اور داد دیتے ہیں اور پھر تماشہ دیکھ کر گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ پاکستان کا سابق آمر پرویز مشرف یہ سوچ کر آیا تھا کہ اسے کوئی مائی کا لال ہاتھ نہیں لگائے گا۔ کیونکہ اس سے قبل ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ اس کی آنکھیں کھلیں تو منظر بدل چکا تھا۔ اس کی بڑھکوں کی جھاگ بیٹھی تو آئین کے سیکشن چھ کی زنجیر اس کی گردن دبوچ چکی تھی۔ کہنا آسان کہ ’’میں مقدمات کا سامنا کروں گا‘‘ لیکن عملی طور پر بھگتنا نہایت مشکل کام ہوتا ہے۔ جنرل صاحب کو اپنی بہادری پر بڑا ناز تھا لیکن وہ بھول گئے کہ وہ بہادری وردی کی دین تھی۔ چنانچہ پرویز مشرف نے ڈرامہ رچایا اور عدالت کی بجائے فوج کے امراض قلب ہسپتال میں پہنچ گیا۔ دوسروں کو گرفتار کرنا، ہتھکڑیاںپہنانا، نیب کے ذریعے ذلیل کرنا، حوالاتوں میں بچھو دکھانا اور سزائے موت کی دھمکیاں دینا نہایت آسان ہوتا ہے لیکن جب اعمال کے نتائج اپنے گھر کا رخ کر لیں تو سامنا کرنے کے لئے بڑے دل گردے کی ضرورت ہوتی ہے جو ریٹائرڈ افسران اور جرنیلوں کا اثاثہ بہرحال نہیں ہے۔ یہ اعزاز صرف سیاستدانوں کو حاصل ہے اور وہ بھی سب کو نہیں۔ کچھ بھیگی بلی بن کر معافی مانگ لیتے ہیں۔ کچھ سمجھوتہ کر لیتے ہیں، کچھ آمر کے ہاتھ پہ بیعت کر لیتے ہیں، کچھ اس کی لاٹھیاں بن جاتے ہیں اور کچھ معاہدہ کر کے ملک سے بھاگ جاتے ہیں۔ ہماری گزشتہ 66 سالہ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔
پرویز مشرف کے اس ڈرامے کو اچھالنے اور حقیقت کا رنگ دینے کی ڈرامہ بازی میں میرے عزیز دوست احمد رضا قصوری پیش پیش ہیں۔ ویسے مزے کی بات ہے کہ اب جب پرویز مشرف قانون کی ’’کڑکی‘‘ میں پھنسا ہے تو اس کی حمایت میں چار وکلاء بیانگ دہل نکلے ہیں جن میں تین پنجابی ہیں۔ اول میرا کالج فیلو اور گورنمنٹ کالج لاہور میں مجھ سے ایک سال جونیئر خالد رانجھا، دوم رانا اعجاز اور سوم کالج میں مجھ سے کئی سال سینئر احمد رضا قصوری۔ پرویز مشرف کی کابینہ اور پارلیمنٹ کے بہت سے اراکین جو اس کے دوراقتدار میں ’’پرویزی‘‘ مشہور تھے اوراس کی قربت کے مزے اڑاتے تھے اب یا تو میاں صاحبان کے ہاتھ پر بیعت کر چکے یا پھر خاموش تماشائی بنے ڈرامہ دیکھ رہے ہیں۔ میاں محمد نوازشریف نے جلاوطنی سے واپسی کے بعد جب نئی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تو اصولی سیاست کا نعرہ بلند کیا تھا۔ ہم اصول کی سیاست کے حق میں لکھتے لکھتے اپنی انگلیاں فگار کر بیٹھے اور انہوں نے الفاظ کی سیاہی خشک ہونے سے قبل ہی بے اصولی کا وہ غدر برپا کیا کہ اصول کی گردن شرم سے جھک گئی۔ انہوں نے ایک بار پھر لوٹے، چمچے اور کڑچھے اکٹھے کر لیے اور اب یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ جب وہ قدم بڑھائیں گے تو یہ ابن الوقت ان کا ساتھ بھی دیں گے۔ مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا۔ پرویز مشرف کا وہ جلسہ یاد کرو جسے پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ نے مینار پاکستان کے سایے تلے سجایا تھا اور جس میں اس نے پرویز مشرف کو کئی بار صدر منتخب کروانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ اس عزم کے اظہار کے موقعہ پر اسٹیج نے چند لوگوں کا بوجھ اٹھایا ہوا تھا جو پرویز مشرف کا ہاتھ پکڑے اور بلند کیے زنجیر بنائے کھڑے تھے جن میں خود اس وقت کے وزیراعلیٰ اور لاہور کے ناظم اعلیٰ نمایاں تھے۔ میاں صاحب کا اصول سابق وزیراعلیٰ سے تو ہاتھ ملانے کی اجازت نہیں دیتا لیکن ناظم اعلیٰ کے گھر وہ بمعہ بیگم صاحبہ تشریف لے جاتےہیں اور باورچی پسند آجائے تو اسے ساتھ بھی لے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ پرویزی عہد میں ڈبل گیم کھیل رہے تھے۔ وہ بظاہر جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں شریک تھے لیکن چوری چھپے جدہ میں مقیم میاں برادران کو بھی محبت کے تحفے بھجواتے رہتے تھے اور ان کے مفادات کا بھی خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ میاں نوازشریف کو گلہ ہے کہ لوگوں نے کہا ’’قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘ میں نے قدم بڑھا کر پیچھے دیکھا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ آج مشرف کے ساتھ بھی وہی ہورہا ہے۔ میاں صاحبان سے جن لوگوں نے اخلاص کا تعلق نبھایا ان سے جدہ اور لندن میں رابطہ رکھا اور ان کی وجہ سے پرویزی حکومت کی سزا برداشت کی ان میں سے اکثر کو میاں صاحبان کی سردمہری سے شکایت ہے اور اپنی غربت سے گلہ ہے کہ ہماری سیاست میں رشتے دولت، خوشامد، دربار داری اور چاپلوسی سے استوار ہوتے اور قائم رہتے ہیں۔ آج پرویز مشرف کو جن تین وکلاء کی کھلی حمایت حاصل ہے وہ اتفاقاً پنجاب سے ہیں۔ اب پنجاب کو بےوفائی کا طعنہ نہ دو اگرچہ پرویز مشرف سے فیض یاب ہونے کے بعد میاں صاحبان کے ہاتھ پر سیاسی بیعت کرنے والے چاروں صوبوں کے موقعہ پرستوں میں سے اکثریت پھر پنجاب سے ہے۔ پاکستان کی تاریخ و سیاست کا مطالعہ مجھے اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ دراصل پاکستان کی سیاست کا سب سے بڑا المیہ منافقت اور ابن الوقتی ہے جس کی جڑیں پاکستان کی تاریخ میں پیوست ہیں۔ اگر آپ اپنی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو محسوس کریں گے کہ پاکستان میں جمہوریت کی نشوونما، قانون و آئین کی حکمرانی اور جمہوری اقدار کے پھلنے پھولنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی سیاست منافقت اور ابن الوقتی رہی ہے اور جب تک پاکستان میں اصولی سیاست پروان نہیں چڑھتی، قدرآور قیادت نہیں ابھرتی اور سیاسی جماعتیں اصولی سیاست کو فروغ نہیں دیتیں، یہ کاروبار ِسیاست اسی طرح منافقت، ابن الوقتی اور بے اصولی کے شکنجے میں جکڑا رہے گا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سیاسی منافقت اور ابن الوقتی ہمارے فیوڈل کلچر کا شاخسانہ ہیں لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اب اس کی آکاس بیل فیوڈل ازم سے نکل کر ہمارے سارے سیاسی کلچر پر چھا گئی ہے اور اس کا مظاہرہ صرف فیوڈل کلاسز ہی نہیں دوسرے طبقے بھی کررہے ہیں۔
ہماری موجودہ سیاست کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ کچھ سیاسی لیڈران صرف اقتدار میں رہنے یا شریک ہونے کے لئے سیاست کرتے ہیں اور اگر انہیں بوجوہ اقتدار کے کیک کاحصہ نہ ملے یا ان کی سیاست کی گاڑی کو ڈیزل مہیا نہ ہو تو وہ اپنے صوبوں کی علیحدگی کی دھمکیاں دینے لگتے ہیں۔ جب تک وہ اقتدار میں شامل ہوں ملک کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا لیکن اگر انہیں اقتدار سے باہر کچھ عرصہ انتظار کرنا پڑے تو وہ برسراقتدار قیادت پردبائو ڈالنے کے لئے علیحدگی یا ملک توڑنے کا راگ الاپنے لگتے ہیں۔ یقین رکھیئے یہ سب سیاسی ڈرامہ ہے۔ نہ ان میں علیحدگی کی صلاحیت ہے اور نہ ان کے حمایتی یا ووٹرز یہ چاہتے ہیں۔ پاکستانی عوام شیخ مجیب الرحمٰن کے ڈسے ہوئے ہیں اس لئے اندیشوں اور وسوسوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں یہ محض سیاسی ڈرامہ ہے اقتدار سے حصہ لینے کے لیے الطاف حسین نے سندھ کی علیحدگی کی دھمکی دی تو مولانا فضل الرحمٰن بھی دیکھا دیکھی کود پڑے۔ دونوں کو صوبوں میں اقتدار سے محرومی نے بخار میں مبتلا کر دیا ہے۔ آج ان کو وفاق کے اقتدار میں شامل کر لیں تو کل ان کی دھمکیاں جھاگ کی مانند بیٹھ جائیں گی۔ مختصر یہ کہ آج کل پاکستان کے سیاسی اسٹیج پر بیک وقت کئی ڈرامے چل رہے ہیں اور گزشتہ کچھ دنوں سے ان میں تیزی آگئی ہے۔ اس تیزی کا مقصد میاں نوازشریف کے اعصاب کا امتحان لینا ہے۔ اگر میاں صاحب نے مضبوط اعصاب اور بصیرت مندی کا مظاہرہ کیا تو یہ سیاسی پرندے اپنی اپنی بولیاں بول کر خاموش ہو جائیں گے۔ بہت کچھ رہ گیا انشاء اللہ پھر کبھی۔ فی الحال آپ ڈرامے دیکھتے جائیں اور گھبرانے کی بجائے ان سے محظوظ ہوں۔ یہاں تو لکھ چکا ہوں تو ایک صاحب نظر بزرگ کا فون آگیا ہے میں ان کا متعقد ہوں۔ وہ کہہ ہیں کہ پرویز مشرف کے بارے میں لکھنے کی ضرورت نہیں۔ اس کا مکافات عمل شروع ہو چکا ہے اور ہاں میاں صاحب کو بھی ایک مہلت ملی ہے۔ اگر انہوں نے مسائل حل نہ کئے، وعدے پورے نہ کیے تو ان کا انجام بھی اچھا نہیں ہوگا۔ اب میں کیا کروں۔ میں تو کالم لکھ چکا ہوں اور تاخیر کا متحمل نہیںہوسکتا۔ اس لئے معذرت۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=161489
 
  • کمانڈو مشرف میں دل گردہ ’نہیں‘رہا.....سابق صدرپرویز مشرف کی میڈیکل ٹیسٹ رپورٹ تیارکرلی گئی ،رپورٹوں میں ان کے دل اور گردے ناقص قرار دیئے گئے ہیں۔طبی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پرویزمشرف کے دل کی تین شریانیں بند ہیں جبکہ ان کو گردوں کی تکلیف بھی لاحق ہے۔خصوصی عدالت نے ان کی میڈیکل رپورٹ آج پیش کرنے کا کہا تھا۔
  • تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا کہ 11 مئی کے انتخابات میں ملکی تاریخ کی سب سے بڑی دھاندلی ہوئی، اگر بلدیاتی انتخابات میں ایسی دھاندلی ہوئی تو سڑکوں پر انتشار ہو گا، جب تمام مظلوم اکٹھے ہوں گے تو ظلم ختم ہو جائے گا.
  • پاکستان مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ آرمی چیف غدار نہیں ہو سکتا، غدار کے بجائے آئین شکن کا لفظ استعمال کر لیا جائے تو کافی ہو گا، غدار وہ ہوتا ہے جو دشمن ملک سے مل جائے۔
  • پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ الطاف حسین، آپ کے لوگ آپ سے جھوٹ بول رہے ہیں۔
  • اسامہ بن لادن کو 11 مئی کی امریکی ریڈ میں مارا نہیں گیا بلکہ اسے امریکہ نے اغواءکر لیا ہے اور وہ اس وقت امریکہ کی تحویل میں ہے جبکہ امریکہ نے دنیا سے جھوٹ بولا کہ اسامہ بن لادن مارا گیا ہے۔ یہ دعویٰ ہے کویت کے مشہور تجزیہ کار عبداللہ النفیسی کا۔:beating:
 
ویسے ایک بات تو ماننی پڑے گی کہ الیکٹرانک میڈیا نے شیخ رشید جیسوں کو سیاسی آئٹم نمبر بننے میں مدد دی۔
 
Top