سیاسی منظر نامہ

آصف اثر

معطل
پنجاب حکومت کے دفاع کیلئے پورا دستہ تیار، 38 ترجمان مقرر
200422_1329554_updates.JPG

فائل فوٹو: عثمان بزدار
لاہور: پنجاب حکومت نے اپنے 38 ترجمان مقرر کردیے جس کا نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔

وزیر اطلاعات پنجاب صمصام بخاری نے پنجاب حکومت کے ترجمانوں کی تعیناتی کا نوٹی فیکیشن جاری کیا۔

ترجمانوں کی فہرست

200422_3762818_updates.JPG

پنجاب حکومت کے نوٹی فکیشن کا عکس: جیونیوز

نوٹی فکیشن کے مطابق سابق وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان کو بھی صوبائی حکومت کا ترجمان مقرر کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ احمد چھٹہ، شوکت بسرا، فیصل حیات، اعجاز چوہدری، عمر سرفراز، سلمان شاہ، ہاشم ڈوگر، عثمان سعید بسرا، ڈاکٹر زرقا اور عائشہ چوہدری بھی ترجمانوں میں شامل ہیں۔

ترجمانوں کی فہرست

200422_9871193_updates.jpg

پنجاب حکومت کے نوٹی فکیشن کا عکس: جیونیوز

وزیر اطلاعات پنجاب صمصام بخاری کا کہنا ہےکہ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے احکامات پر ترجمان مقرر کیے گئے ہیں۔
فواد چوہدری کو ان کی تنخواہوں کا حساب لگا کر کوئی فارمولا ایجاد کرنا پڑےگا تاکہ خزانے کی لوٹ مار کا سدباب ہوسکے۔
 

جاسم محمد

محفلین
احتساب صرف سیاستدانوں کا ہی کیوں ہوتا ہے ججز اورجرنیلوں کا کیوں نہیں
یہ جملہ ہم بار بارسنتےآئےہیں
آج جب جرنیلوں کوسزاہوئی اورکرپٹ ججز کے خلاف ریفرنس دائر ہوا تو وہی لوگ آج شور مچارہے ہیں اور ان کی حمایت میں کھڑے ہوگئے ہیں
کیا یہ کھلا تضاد نہیں
جان جاؤ پاکستانیو اپنےدشمنوں کو
 

جاسم محمد

محفلین
انجوائے نہیں کرنا تو بڑے بڑے مگرمچھوں کو ٹیکس نیٹ میں لے آئیں۔ :)

لگتا ہے ملک کی بنیادیں ہلانے والے جیت رہے ہیں
31/05/2019 رؤف کلاسرا n/b Views


لگتا ہے وہی جیت رہے ہیں جنہوں نے اس ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں اور سب کچھ لوٹ کر باہر لے گئے ہیں۔ وہی منیر نیازی والی بات کہ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے کہ کوئی ایک کام بھی سیدھا نہیں ہوتا۔ زرداری صاحب نے کھل کر بات کر دی ہے کہ اس ملک میں نیب اور اکانومی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہ بات تاجروں، چیئرمین نیب اور وزیراعظم کو بھی سمجھا دی ہے۔ مطلب ہم لوٹتے رہیں گے اور آپ لٹتے رہیں گے، اگر اس ملک میں سانسیں لینی ہیں ورنہ ہم آپ کا جینا حرام کردیں گے۔

یہ دباؤ ایسا کام کر گیا ہے کہ نیب چیئر مین نے کچھ دن پہلے ایک طویل پریس کانفرنس میں تفصیل سے بتایا تھاکہ اب کاروباری حضرات پریشان نہ ہوں انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ وہ اربوں روپے عوام سے فون کارڈز پر ٹیکس اکٹھا کرنے کے بعد جمع نہ کرائیں تو بھی انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ ریسٹورنٹس مالکان کھانے کے بل پر جی ایس ٹی عوام سے لے کر خود کھا جائیں، ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔ چیئر مین ایف بی آر شبر زیدی پہلے ہی اس طرح کے اقدامات کرچکے ہیں جن کے بعد ان کا خیال ہے سب تاجر انہیں گھر بیٹھے ٹیکس دیں گے۔ یہ سب باتیں سن کر ہنسی ضرور آتی ہے۔

اسلام آباد میں 1998 ء سے صحافت کررہا ہوں اور ان اکیس برسوں میں یہی باتیں سنتا آیا ہوں۔ جنرل مشرف نے بھی کہا تھا کہ وہ تاجروں کو سیلز ٹیکس کے دائرے میں لائیں گے اورنیب کے ذریعے سب لوگوں کو لگام دیں گے، مگر دو تین ماہ بعد ہی عقل ٹھکانے پر آگئی۔ تاجروں نے ہڑتال کر دی۔ بڑے بڑے تاجر جنرل مشرف اور شوکت عزیز سے ملے اور یہی تسلی کرائی کہ جناب آپ گھر بیٹھیں، ہم آپ کو ٹیکس دیں گے اور پھر نت نئے طریقے ڈھونڈ نکالے گئے ٹیکس چوری کے۔

ایف بی آر اور تاجر ساتھ مل گئے اور ٹیکس فراڈ کی نئی کہانیوں نے جنم لیا۔ جنرل مشرف کو پتہ چل گیا کہ اقتدار کی طوالت چاہتے ہیں تو کرپٹ اور کرپشن کو برداشت کرنا ہوگا۔ انہوں نے چیئر مین نیب جنرل امجد کو پہلے کہا سیاستدانوں کو ٹائٹ کرو اور پھر انہیں ہٹا کر جنرل خالد مقبول کو لگا دیا کہ اب ذرا ہلکا کرو۔ پھر سب کو ڈیلیں ملنا شروع ہوگئیں۔ ایک ملزم نے نیب کے دو چیئر مینوں کو اپنے کاروبار میں حصہ دار بنا لیا اور پلی بارگین لے لی۔

جو افسران پلی بارگین کے شعبے میں کام کررہے تھے انہوں نے بھی اپنا حصہ وصول کیا۔ وہ کاروباری کنگ بعد میں جنرل مشرف کا رائٹ ہینڈ بن گیا۔ وہ جانتا تھا کہ ہر بندے کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ ایک اہم ادارے کے سابق سربراہ ایک ایسے کاروباری سیاستدان کی ہاؤسنگ سوسائٹی میں ملازم ہو گئے تھے جس کے خلاف نیب میں کرپشن کے مقدمات درج تھے۔

اس ملک میں جو بھی چیئر مین نیب لگا ہے وہ انصاف کرنے کے لیے نہیں بلکہ حکمرانوں کی مدد کرنے کے لیے لگا ہے۔ کرپٹ کو اس لیے نہیں پکڑا گیا کہ اسے سزا دلوانی تھی بلکہ اس لیے پکڑا گیا کہ حکمران اس سے سیاسی فائدہ لے سکیں۔ جنرل مشرف نے درجنوں کرپٹ سیاستدانوں کو پکڑا لیکن آخر میں پنجاب انہی کے حوالے کیا جو پنجاب کے بڑے ڈاکو کہلوائے۔ بچ جانے والوں کو وفاق میں جمالی اور شوکت عزیز کے ساتھ کابینہ میں بٹھا دیا۔

اس کے بعد سیاستدانوں کی باری لگی تو انہوں نے ایسا چیئر مین بھرتی کیا جو سپریم کورٹ میں ان کے خلاف مقدمات لڑنے کی بجائے زرداری کے مقدمات کا دفاع کرتا تھا۔ نیب کا ایک پراسیکیوٹر، جس کا کام تھا کہ وہ مقدمے میں سزا دلواتا، وہ زرداری کا کھیل کھیل رہا تھا، اسے بعد میں سندھ میں جج لگوادیا گیا۔ نواز شریف بدقسمت رہے کہ ان کا پانامہ سکینڈل آگیا ورنہ انہوں نے بھی ہر جگہ اپنا بندوبست پورا کررکھا تھا۔ اس دفعہ تقدیر کو خود ہی مداخلت کرنا پڑی ورنہ اس سسٹم میں نواز شریف کو سزائیں دلوانا عام انسان کے بس کی بات نہ تھی۔

اگر کسی نے اس ملک میں سب کو اپنی جیب میں ڈالا ہوا تھا تو وہ شریف خاندان ہے۔ ابھی بھی انہیں اپنی دولت اور ذہانت پر بھروسا ہے کہ وہ اس مشکل سے نکل کر پھر سر پر تاج سجائیں گے۔ سرکاری ادارے لاکھ پروپیگنڈا کریں کہ آئندہ شریف خاندان اقتدار میں نہیں آسکے گا، لیکن میں ماننے کو تیار نہیں ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ زرداری اور بینظیر بھٹو کو اگر جنرل مشرف کی طرف سے این آر او مل گیا تھا کہ جو کچھ تم نے لوٹا وہ تمہارا بس ہمارے ساتھ پاور شیئر کرو۔ کچھ لے لو اور کچھ دے دو۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کی جنرل کیانی کے ساتھ کی گئی درجنوں خفیہ ملاقاتوں نے نواز شریف کے وزیراعظم بننے کی راہ ہموار کی تھی۔

یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ عمران خان بھی اقتدار میں آنے کے لیے انہیں راستوں پر چلتے رہے تھے، جس کا اعتراف بعد میں کیا گیا۔ سیاستدانوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ وہ بغیر مدد کے اقتدار میں نہیں آسکتے۔ کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو تعاون کے بغیر پاور میں آیا ہو، لہٰذا اگر کسی کے دل میں انسانوں پر حکومت کرنے کا جنون سوار ہورہا ہو تو اسے پہلے خفیہ ملاقاتیں کرنا پڑتی ہیں۔

اب عمران خان کو اسی صورتحال کا سامنا ہے۔ ان کی کمزوری کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ سب اخلاقی جواز کھو چکے ہیں جن کو بنیاد بنا کر وہ پاپولر ہوئے تھے اور سب سمجھ بیٹھے تھے کہ عمران خان مختلف ہیں۔ عمران زرداری اور شریف خاندان جیسی سیاست نہیں کرتے۔ اب پتہ چلا ہے کہ عمران خان کی بھی وہی حیثیت ہے جو جنرل مشرف دور میں ظفراللہ جمالی، شوکت عزیز یا زرداری دور میں گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی تھی یا پھر نواز شریف دور میں شاہد خاقان عباسی کی تھی۔

عمران خان بھی اس طرح کے وزیراعظم کے طور پر یاد رکھے جائیں گے جیسے جمالی، شوکت عزیز، گیلانی راجہ پرویز اشرف اور شاہد خاقان عباسی کو یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے سوشل میڈیا پر حامی لاکھ انہیں دنیا کا بہترین حکمران بنا کر پیش کرتے رہیں بات نہیں بنے گی۔ چکوال کے تھانوں کا چکر لگاتے دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عمران خان بھی آخرکار شہباز شریف ماڈل پر چل نکلے ہیں اور بھلا کیسے ممکن ہے کہ انجام بھی وہی نہ ہو۔ پولیس ریفارمز عمران خان کا سب سے بڑا نعرہ تھا اور جب پنجاب ہی انہوں نے ان کو سونپ دیا جنہیں وہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے تو اس کے بعد ان کے حامیوں کا ان سے اصلاحات یا تبدیلیوں کی توقع رکھنا فضول ہے۔

اب یہ بھی سن لیں، اس ملک کے مفادات کا کیسے تحفظ کیا جاتا ہے؟ جب آئی ایم ایف کے ساتھ نئے وزیر خزانہ نے مذاکرات شروع کیے تو سیکرٹری نے ایک مرحلے پر محسوس کیا کہ نئے وزیرخزانہ ایسی شرائط بھی مان رہے تھے جن سے اسد عمر کے دورمیں آئی ایم ایف خود پیچھے ہٹ گئی تھی۔ سیکرٹری خزانہ نے مذاکرات میں اس پر اعتراض کیا اور آئی ایم ایف کو یاد کرایا گیا کہ یہ شرائط شامل نہیں تھیں۔ وزیرخزانہ کو وہ شرائط مانتے دیکھ کر یونس ڈھاگا وزیراعظم ہاؤس گئے اور ایک طاقتور بیوروکریٹ کو بتایا گیا کہ اگر یہ شرائط مان لی گئیں تو ہمارا بہت برا حال ہوگا۔ یہ شرائط ملک اور لوگوں کے مفاد میں نہیں ہیں۔ الٹا انہی کو برطرف کرا دیا گیا۔

زرداری کی کرپشن پر اعتراض کریں تو جواب ملتا ہے : کھایا ہے تو گیارہ برس جیل بھی کاٹی ہے۔ شریف خاندان کے حامی فرماتے ہیں کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں جبکہ عمران خان کے حامی یہ کہہ کر منہ بند کرادیتے ہیں کہ جانے دیں جی ہمارا وزیراعظم تو ہینڈسم اور سمارٹ ہی بہت ہے!
بشکریہ دنیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
سلیکٹڈ وزیراعظم؟
راؤ منظر حیات ہفتہ 1 جون 2019
1687815-RaoManzarHayat-1559327357-534-640x480.JPG

raomanzar@hotmail.com

جنرل ضیاء الحق ملک کے بلاشرکت غیرے مالک تھے۔ان کے لیے کسی قسم کاکوئی بڑاسیاسی مسئلہ موجودنہیں تھا۔ ہرطرف انکاطوطی بولتاتھا۔پاکستان سترکی دہائی سے نکل کر اَسی کی دہائی میں آچکاتھا۔جنرل صاحب لاہورآئے ہوئے تھے۔پہلے گاف کھیلی اوراسکے بعداپنے ایک دوست کے پاس گلبرگ چلے گئے۔انکادوست جسے احتراماًخان صاحب کہاجاتاتھا،حددرجہ ذہین اوربہت بڑاکاروباری انسان تھا۔ افریقہ میں انتہائی غربت کی حالت میں گیااوروہاں بیس پچیس برس محنت کرنے کے بعدایک تعمیراتی کمپنی بنائی۔

اس کمپنی کانام بھی خان اینڈکمپنی تھا۔خان صاحب نے پورے افریقہ میں بہت بڑے بڑے تعمیراتی کام کیے۔اکثرملکوں کے صدور،وزراء اعظم اوراہم لوگ ان کے ذاتی دوست بن چکے تھے۔خان کنسٹرکشن کمپنی نے بے مثال ترقی کی اوروہ امیر سے امیرترہوتے چلے گئے۔آج سے پچاس ساٹھ برس پہلے پرائیویٹ جہازاستعمال کرتے تھے۔ معاملہ فہمی اس شخص پرختم تھی۔ پاکستان آئے،توضیاء الحق سے ان کے ذاتی تعلقات بن گئے۔شفیقہ ضیاء الحق،جوکہ خاتون اول تھی،ان کی بہنوں کی طرح تھیں۔جنرل ضیاء الحق سے انکاادب و احترام کارشتہ تھا۔صدرصاحب،خان صاحب کی باتوں کوبڑے غورسے سنتے تھے۔

ان سے مشورہ کرتے رہتے تھے۔ اس لیے بھی کہ خان صاحب،جنرل ضیاء سے کچھ بھی مانگتے نہیں تھے۔ ضیاء الحق ان پربے حداعتمادکرتے تھے۔خان صاحب نے کبھی ان کے اعتمادکودھوکا نہیں دیاتھا۔جنرل صاحب کی ذاتی خوبیوں سے انحراف نہیں کیاجاسکتا۔وہ متین،بامروت اورذاتی زندگی میں سادہ انسان تھے۔خان صاحب،ان کی ذاتی زندگی کے قابل اعتماددوست تھے۔ویسے کبھی کبھی صدرصاحب انھیں کہتے تھے کہ آپ کو سیاست میں لے آتاہوں۔عہدہ مانگو،دے دیتا ہوں۔ مگر خان صاحب کو دوستی کرنے اوراسے برقراررکھنے کانایاب فن آتاتھا۔انھوں نے کبھی بھی جنرل صاحب سے کوئی فائدہ نہیں لیا۔ان کے صاحبزادے ضرورسیاست میں آئے اور نوازشریف کی وزارت اعلیٰ کے دورمیں وزیر رہے۔ بعد میں،پرویزمشرف کے دورمیں صحت کے مرکزی وزیررہے۔

بات جنرل صاحب کی ہورہی تھی۔ گلبرگ میں خان صاحب کے وسیع وعریض ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ گورنر جیلانی بھی شریک ِ محفل تھے۔حددرجہ بے تکلفی کاماحول تھا۔خان صاحب نے موقعہ غنیمت جان کرجنرل صاحب کو کہاکہ ایک نوجوان وزیرملناچاہتاہے۔آپکو وزارت اعلیٰ کا فیصلہ کرناہے۔بہترہے آپ اس سے مل لیں۔جنرل صاحب نے انکارکردیاکہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کافیصلہ کرچکاہوں۔ ایک زمیندار گھرانے کے پختہ عمرکے منجھے ہوئے سیاستدان کودی جائے گی۔جنرل جیلانی،مکمل طورپرخاموش تھے۔

ان کی ہمت نہیں تھی کہ صدرکے موڈکے خلاف کوئی بات کر سکیں۔خان صاحب نے صدرکوکہاکہ ملنے میں کیاحرج ہے۔ وہ نوجوان کافی دیرسے برآمدے میں انتظار کر رہا ہے۔ صدر صاحب نے کہاکہ چلیے بلالیں۔ملازم، نوجوان کوڈرائنگ روم میں لے کرآیا۔وہ خاموشی اورادب سے کونے میںبیٹھ گیا۔ خان صاحب نے کہاکہ آپ، نوجوان اوران کے خاندان کو بخوبی جانتے ہیں۔مشورہ ہے کہ انکووزیراعلیٰ بنادیا جائے۔جنرل صاحب مکمل طورپرخاموش رہے۔یہ نوجوان، نواز شریف تھا۔باتیں ہونے لگیں۔نوازشریف نے خان صاحب کو کہا کہ میراچھوٹابھائی کافی دیرسے برآمدے میں بیٹھا ہے۔ اسکوبھی اندربلالیں۔چنانچہ ان کوبھی اندرطلب کرلیاگیا۔یہ شہبازشریف تھا۔جنرل صاحب،کافی دیرتک دونوں سے بات کرتے رہے۔آدھے پون گھنٹے کی ملاقات کے بعد خان صاحب نے دونوں بھائیوں کوواپس جانے کااشارہ کر دیا۔دونوں بھائی گاڑی میں بیٹھ کرواپس چلے گئے۔اب ڈرائنگ روم میں بحث شروع ہوگئی کہ وزارت اعلیٰ کس کوملنی چاہیے۔

جنرل صاحب،اپناذہن،ایک بزرگ سیاستدان کے متعلق بناچکے تھے۔فیصلہ تبدیل کرنا نہیں چاہتے تھے۔ مگرخان صاحب،بڑے تدبرسے نوازشریف کی وزارت اعلیٰ کامقدمہ لڑرہے تھے۔جنرل ضیاء نے،جیلانی صاحب کی طرف رخ کیااورمشورہ مانگاکہ کیاکرناچاہیے۔جنرل جیلانی ایک زیرک انسان تھے۔کہنے لگے بہت بڑے کاروباری باپ کابیٹاہے۔روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں۔اس شخص کاسب سے بڑامیرٹ یہ ہوگاکہ دولت اس کے لیے بے معنی ہے، لہٰذایہ کسی قسم کی مالی بددیانتی کامرتکب نہیں ہوگا۔اسے دولت کی کوئی ہوس نہیں ہوگی۔وزیراعلیٰ بناناآپ نے ہے۔قرائن یہ ہیں کہ یہ نوجوان بچپن سے امیرہے،لہٰذاایمانداری سے کام کرے گا۔خان صاحب نے بھی اس کی تائیدکردی۔ضیاء الحق نے سوچناشروع کردیا۔خان صاحب اورجنرل جیلانی دلیل پربات کررہے تھے۔

جنرل ضیاء نے ایک انتہائی عجیب بات کی۔کہ یہ دوسرابھائی جواندرآیاتھا،اسکاکیانام ہے۔ بتایا گیاکہ یہ چھوٹابھائی ہے اورنام شہبازشریف ہے۔ جنرل ضیاء مکمل طورپرخاموش ہوگئے۔سارے کمرے میں سکوت تھا۔جنرل ضیاء نے شائستگی سے کہاکہ اس کو پنجاب میں کسی قسم کاعہدہ نہیں ملناچاہیے۔میں نے اس کی آنکھوں میں بہت کچھ پڑھ لیاہے۔جنرل صاحب نے مزیدمنفی جملے کہے، جو میں یہاں درج نہیں کرسکتا۔بہرحال نوازشریف کی قسمت کا فیصلہ ہوگیا۔اوربھی بہت سے عوامل ہونگے، لابیز ہوں گی مگر خان صاحب اورجنرل جیلانی کی رائے سب پرمقدم تھی۔ خان صاحب کاپورانام اسلم خان تھااوروہ وفاقی وزیرنصیرخان کے والدمحترم تھے۔یہ حقیقت ہے کہ جنرل جیلانی اوراسلم خان کی گارنٹی پرنوازشریف کووزارت اعلیٰ دی گئی۔جنرل ضیاء کویہ دلیل بھاگئی کہ یہ نوجوان امیرخاندان سے تعلق رکھتا ہے۔لہٰذاکسی قسم کی مالیاتی کرپشن میں ملوث نہیں ہوگا۔اس واقعہ نے پنجاب بلکہ پاکستان کی سیاسی تقدیربدل کررکھ دی۔

نوازشریف نے وزیراعلیٰ بننے کے بعدسرکاری ملازمین میں اپنی مضبوط لابی بنائی۔ نوازشریف کی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے بیوروکریسی میں قابل اوراہل لوگوں کواپنے نزدیک کر لیا۔اس عادت نے انھیں حددرجہ فائدہ پہنچایااورنقصان بھی۔اسکاذکرمیں پھرکبھی کرونگا۔ویسے شہبازشریف کے متعلق جنرل ضیاء الحق نے جوکہاتھا،وقت نے وہ سوفیصد درست ثابت کیا۔متعددبار،پنجاب کے وزیراعلیٰ رہنے کے باوجودانکاکوئی سیاسی گروہ نہیں ہے۔اصل ووٹ اورسیاسی طاقت نوازشریف ہی ہے۔باخبرلوگ بھی جانتے ہیں اور ادارے بھی۔جہاں تک عوام کاتعلق ہے،انھیں سیکڑوں برس سے سچ نہیںبتایاجاتاہے۔مگران تمام واقعات میں ایک سقم رہ گیا۔ دولت کی ریل پیل کے باوجود،مزیددولت حاصل کرنے کی عملی خواہش نے اَل شریف کوایک ایسے عذاب میں مبتلا کر دیا جسکی حدت سے اس وقت وہ تمام گزررہے ہیں۔ نواز شریف ایمانداری کے اس معیار پرپورا نہیں اُترسکا،جسکی توقع ان کے سیاسی معماروں نے کی تھی۔بہرحال مقدرکا اپنا دھارا ہے اس کوکوئی بھی تبدیل نہیں کرسکتا۔

آج کل سیاسی جلسوں اورجلوسوں میں سلیکٹڈ وزیراعظم کی لفظی ترکیب استعمال کی جارہی ہے۔ سیاستدانوں کاکام ہے کہ اپنااُلوسیدھاکرنے کے لیے سیاسی حریف کوہمیشہ آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔عوام میں کوئی بھی ایساتاثرپیش کرتے ہیں جس سے انھیں فائدہ ہواوران کے سیاسی مخالفین گھبرائے رہیں۔ اس وقت دیکھاجائے توپیپلزپارٹی اورن لیگ، کاہرجید رہنما، عمران خان کوسلیکٹڈوزیراعظم ہونے کاطعنہ دے رہا ہے۔ لوگوں کوکہاجارہاہے کہ موجودہ وزیراعظم کوریاستی اداروں نے سلیکٹ کیاہے۔اسے کٹھ پتلی وزیراعظم بتایاجارہا ہے۔ میرا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی لینادینا نہیں۔اس سے بھی غرض نہیں کہ کون وزیراعظم بنے۔بہت زیادہ دورکی بات نہیں کرنا چاہتا۔گزشتہ پنتیس چالیس برس میں ایک وزیراعظم بتا دیجیے جومقتدر اداروں کی مرضی کے بغیرآیاہو۔ جونیجو صاحب انتہائی محترم اورایمانداروزیراعظم تھے۔

آج تک آنے والے وزراء اعظم سے انتہائی بلند۔مگرکیاوہ واقعی پارلیمنٹ کے ذریعے سے وزیراعظم بنے تھے۔کیا جنرل ضیاء نے انھیں پیرصاحب پگاڑاکی سفارش پرمسنداعلیٰ پرفائزنہیں کیاتھا۔کیاتمام صوبوں کے وزراء اعلیٰ،صدرضیاء کی آشیربادسے تخت پرنہیں بیٹھے تھے۔کیاپیپلزپارٹی،اس اَمرسے انحراف کرسکتی ہے کہ بینظیر بھٹوکومقتدراداروں نے تمام شرائط منواکروزیراعظم بننے کی اجازت دی تھی۔کیاہم بھول چکے ہیں کہ وزیراعظم بینظیر کو ایٹمی اثاثوں کی طرف جانے کی اجازت نہیں تھی۔خارجہ پالیسی پربھی انکاکوئی کنٹرول نہیں تھا۔کیابینظیر،کہوٹہ تشریف لے جاسکتی تھیں۔صاحبان،قطعاًنہیں۔کیاکوئی اس اَمرسے اختلاف کرسکتاہے کہ جنرل ضیاء کے مرنے کے بعد اداروں نے براہِ راست نوازشریف کی ہرطریقے سے سرپرستی اور معاونت نہیں کی تھی۔کیاآئی جی آئی کی ٹکٹوں کی تقسیم میں جنرل حمیدگُل بذاتِ خود تمام فیصلے نہیں کرتے تھے۔ کیا بینظیر کو ہرطریقے سے ایذاپہنچانے کی ذمے داری نوازشریف کونہیں دی گئی تھی۔آپ اسکوبھی جانے دیجیے۔ کیا 1990کے الیکشن کاتاج نوازشریف کے سرپرنہیں سجایاگیاتھا۔

یہ سب کچھ مقتدراداروں کی مرضی کے بغیرہوا تھا۔ دوبار بینظیر اور تین بارنوازشریف،وزیراعظم خود بخود بن گئے تھے۔کیا وہ صرف ووٹ کی طاقت سے اقتدارمیں آئے تھے۔ 1999سے لے کراگلے دس سال جنرل پرویزمشرف کی مرضی کے بغیر کوئی شخص وزیراعظم یاوزیراعلیٰ نہیں بن سکتا تھا۔ کیا 2008 میںشہبازشریف کووزارتِ اعلیٰ پنجاب،کسی کی آشیربادکے بغیرحاصل ہوئی تھی۔

کیا واقعی جنرل پرویزمشرف نے بارہا یہ نہیں کہا کہ ان کے جانشین نے الیکشن میں انھیں دھوکا دیا اوراَل شریف کو نوازا۔اس جانشین نے کیاپیپلزپارٹی کے آصف زرداری کوصدربنانے کی راہ ہموارنہیں کی۔کیاتیس پنتیس برس میں ایک بھی اہم عہدہ،ریاستی اداروں کی مرضی کے بغیردیاگیاہے۔یہ وہ سوالات ہیں جنکا جواب ہرایک کو معلوم ہے۔بلکہ اَزبرہے۔مگردکھ اس بات کاہے کہ ان سیاسی اکابرین نے ہمارے ملک میں بددیانتی کاوہ کلچرقائم کردیا،جس سے باہرنکلناقطعاًممکن نہیں ہے۔کوئی بھی اس بدعنوانی پرمبنی سوشل انجینئرنگ کودرست نہیں کرسکتا۔گزارش صرف ایک ہے۔کم ازکم سیاسی تاریخ کومسخ نہ کریں۔اس پرجھوٹ نہ بولیں۔یہاں توسب کچھ ہی سلیکشن پرہے۔ہاں،اب اس میں بین الاقوامی طاقتیں بھی فریق بن چکی ہیں! کیاآج اَل شریف اور زرداری سلیکٹ ہونے کی بھرپورکوشش نہیں کر رہے؟
 

آصف اثر

معطل

جاسم محمد

محفلین
ریفرنس پر صدر علوی کے دستخط کا علم نہیں شائد آپ کو۔ لنک بھی اسی حوالے سے تھا۔
ایف بی آر کے پاس ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی اتھارٹی نہیں ہے۔ انہوں نے معزز جج کے بیرون ملک اثاثہ جات سامنے آنے پر ریفرنس تیار کیا تھا جو وزاعت قانون سے ہوتا ہوا صدر پاکستان کے پاس پہنچا۔ اور پھر انہوں نے اسے آگے سپریم جوڈیشل کونسل بھجوایا دیا ہے۔
اگر معزز جج اس ریفرنس میں باعزت بری ہو گئے تو صدر کیا پوری حکومت گھر جائے گی۔ البتہ تحقیقات رکوانے کیلئے اپوزیشن، بار اور میڈیا کا شور شرابہ حکومت کو بلیک میل کرنے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔
 

آصف اثر

معطل
ایف بی آر کے پاس ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی اتھارٹی نہیں ہے۔ انہوں نے معزز جج کے بیرون ملک اثاثہ جات سامنے آنے پر ریفرنس تیار کیا تھا جو وزاعت قانون سے ہوتا ہوا صدر پاکستان کے پاس پہنچا۔ اور پھر انہوں نے اسے آگے سپریم جوڈیشل کونسل بھجوایا دیا ہے۔
اگر معزز جج اس ریفرنس میں باعزت بری ہو گئے تو صدر کیا پوری حکومت گھر جائے گی۔ البتہ تحقیقات رکوانے کیلئے اپوزیشن، بار اور میڈیا کا شور شرابہ حکومت کو بلیک میل کرنے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔
یہ عسکری اداروں میں موجود چند پالیسی سازوں کا عدلیہ کو ماتحتی میں لانے کا حربہ ہے اور کچھ نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ عسکری اداروں میں موجود چند پالیسی سازوں کا عدلیہ کو ماتحتی میں لانے کا حربہ ہے اور کچھ نہیں۔
معزز ججز شریف خاندان کا احتساب کریں تو فوج بری
شریف خاندان کو ریلیف دینے والے ججز کا احتساب ہو تو فوج بری
یعنی اصل مسئلہ عدلیہ کی آزادی نہیں بلکہ شریف خاندان اور ان کو تحفظ دینے والے ججز کو احتساب سے بچانا ہے
 

آصف اثر

معطل
معزز ججز شریف خاندان کا احتساب کریں تو فوج بری
شریف خاندان کو ریلیف دینے والے ججز کا احتساب ہو تو فوج بری
یعنی اصل مسئلہ عدلیہ کی آزادی نہیں بلکہ شریف خاندان اور ان کو تحفظ دینے والے ججز کو احتساب سے بچانا ہے
غیرمتفق۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ احتساب سب کا۔ محتسب پاک باز۔
 

جاسم محمد

محفلین
عزم کے پہاڑ نواز شریف کو سلام!
جتنی مرضی سیاست کر لیں۔ کوئی این آر او نہیں ملے گا۔
یہ جو پٹواری مشرف کے بارہ میں کہہ رہا ہے کہ شاید اس کے بچے بھی اس سے ملنے نہ آتے ہوں۔ کیا اسے معلوم نہیں کہ نواز شریف کے اپنے بچے بھی اس سے ملنے نہیں آتے؟
 

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف کو باہر جانے دیا تو پی ٹی آئی کی سیاست ختم ہو جائے گی: فواد چوہدری
200600_2370817_updates.jpg

کیا پارٹی ان لوگوں کے حوالے کر دیں جو کونسلر بھی نہیں رہے: فواد چوہدری۔ فوٹو: فائل

وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے شکوہ کیا ہے کہ اہم فیصلے ہو جاتے ہیں لیکن پتہ ہی نہیں چلتا۔

فواد چوہدری نے اپنے ایک بیان میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کی سابقہ وزارت میں غیر منتخب افراد نے مداخلت کی، ایک وقت میں 5 لوگ کام کریں تو وہی ہو گاجو ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فیصلے منتخب لوگوں کو کرنے چاہئیں ناکہ غیر منتخب افراد کو، وزارتیں غیر منتخب لوگوں کی وجہ سے تبدیل ہوئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ غیر منتخب افراد پر کافی اعتراضات ہیں، کیا پارٹی ان لوگوں کے حوالے کر دیں جو کونسلر بھی نہیں رہے۔

فواد چوہدری نے اعتراف کیا کہ ہمارے فیصلوں میں بڑی سیاسی کمزوریاں ہیں، فیصلہ سازی میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے شکوہ بھی کیا کہا کہ اہم فیصلے ہوجاتے ہیں پتہ ہی نہیں چلتا، ہمارے درمیان منتخب اور غیر منتخب افراد کی سرد جنگ جاری ہے۔

نواز شریف کو ہابر جانے دیا تو پی ٹی آئی سیاست ٹھپ ہو جائے گی: فواد چوہدری
وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے کہا میں نے کہا تھا کہ شہباز شریف کو پی اے سی کا چیئرمین نہ بنائیں لیکن انہیں بنا دیا گیا، میں نے کہا شہباز شریف کو باہر نہیں جانے دینا چاہیے ہم پر الزام آئے گا لیکن کسی نے شہباز شریف کا نام ای سی ایل پر نہیں ڈالا اور وہ باہر چلے گئے، ان ساری چیزوں کا ہم پر اثر ہوتا ہے۔

سابق وزیر نواز شریف کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس مرحلے پر اگر نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دی گئی تو آپ کی سیاست بالکل ٹھپ ہوجائے گی۔

سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ اس وقت سول ملٹری تعلقات بہترین ہیں۔

فواد چوہدری کے نکتہ نظر سے اتفاق نہیں کرتی، فردوس عاشق اعوان
200600_7715328_updates.jpg

فردوس عاشق اعوان— فائل فوٹو

وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ فواد چوہدری کا اپنا نکتہ نظر ہے جس سے وہ اتفاق نہیں کرتیں۔

اپنے ردعمل میں انہوں ںے کہا کہ پارٹی کیلئے جنہوں نے 22، 22 سال کام کیا، کیا انہیں نظر انداز کردیں۔

فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ کوئی عقل کُل نہیں ہوتا، اگر اسے پارٹی سے کوئی مشورہ دے تو وہ مداخلت نہیں ہوتی، یہ سوچ چھوٹی ہے جبکہ تحریک انصاف کا مشن بہت بڑا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری کے تحفظات ہیں تو انہیں پارٹی قیادت سے بات کرنی چاہیے، پارٹی کے معاملات کو میڈیا پر نہیں لانا چاہیےتھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
میں نے کہا شہباز شریف کو باہر نہیں جانے دینا چاہیے ہم پر الزام آئے گا لیکن کسی نے شہباز شریف کا نام ای سی ایل پر نہیں ڈالا اور وہ باہر چلے گئے
وزیر سائنس کی یاداشت کمزور ہے۔ شہباز شریف کا نام لوہار کورٹ نے ای سی ایل سے نکالا تھا۔
LHC orders removal of Shahbaz's name from ECL - Pakistan - DAWN.COM
 
Top