سیاست کے تماشے

ساجد

محفلین
عجب تماشے ہیں سیاست کے اور عجب ہیں وہ لوگ ایسے تماشے کرنے والوں کی ڈُگڈگی پر ناچتے ہیں ۔ جس بندے کا گزرے کل جو مؤقف تھا وہ آج نہیں ہے اور آج کے مؤقف کا ٹھکانہ نہیں ہے کہ کل ہو نہ ہو ۔
ایسا کیوں ہوتا ہے ؟؟؟
اس لئے کہ اب ہم اپنی سوچ میں سطحیت کے مقام پر آ چکے ہیں ۔ دور اندیشی اور رواداری کو تو ہم کب کے خیر باد کہہ چکے تھے اب تو ابن الوقتی کے مسافر ہیں ۔ واقعہ لال مسجد کا ہو یا ماڈل ٹاؤن کا دونوں میں مماثلت تلاش کیجئے اور عوام کے قتل عام کے ذمہ داروں کا ادراک کیجئے ۔ ہمارے سیاست دان اور خود کو عالم کہلوانے والے جس ہٹ دھرمی اور سفاکیت سے ہمیں استعمال کر رہے ہیں اگر آج ہم نے اس کا احساس کرتے ہوئے ان دونوں طبقوں کے خلاف بھرپور مزاحمت نہ کی تو پاکستان کو عراق یا شام بننے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے واقعات کے بعد ہر کوئی اپنے مسلک اور مشرب یا پھر سیاسی وفاداری کے پس منظر میں لکھتا ، بولتا اور بھاشن دیتا ہے ۔ ایسی غفلت کی مثال شاید ہی کہیں ملے گی کہ کسی قوم کے ایسے لوگ جو خود کو بیدار مغز کہلواتے ہوں اتنے کوڑھ مغز نکلیں کہ عوام کو مسائل کے اسباب اور ان کے ممکنہ حل کی طرف لانے کی بجائے انہیں جذباتی کرنے اور ایک دوسرے پر دشنام طرازی کو ترجیح دیں اور پھر یہ توقع بھی رکھیں کہ اب معاشرے میں امن قائم ہو جائے گا ۔
 

سید زبیر

محفلین
ساجد بھائی ، امت مسلمہ اور اس کے رہزن نما سیاسی و مذہبی رہبر وں نے جس طرح اور جس خود غرضی سے مذہب ، ملت کو استعمال کیا اور ذات رنگ نسل مسلک ، فقہ فرقہ میں تقسیم کر کے رکھ دیا ۔یہ نسل اب اپنے منطقی انجام کی طرف جا رہی ہے ۔بلا شبہ دین اسلام ہی غالب ہوگا ، اور اس میں بھی شک نہیں کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئیے لیکن یہ کون خوش نصیب ہوں گے ، بلند کردار ، قوت ایمانی کے حامل ، ضروری نہیں کہ وہ اسی خطے سے ہوں ۔ اللہ یہ کام مغرب کے نو مسلموں سے بھی لے سکتا ہے ۔ورنہ آج کل کے مسلمانوں سے تو ہنود و یہود بھی شرمائیں ۔ کونسا طبقہ منافرت و منافقت کا شکار نہیں ؟ اللہ اس امت اور خصوصاً پاکستان پر رحم فرمائے ۔ (آمین)
 
Top