حسیب نذیر گِل
محفلین
سیاحت از جاوید چودھری
برج اسٹریٹ لندن کے علاقے ویسٹ منسٹر کی قدیم شاہراہ ہے‘ یہ سڑک 1750ء میں بنی اور یہ آج تک قائم ہے‘ یہ سڑک برطانوی پارلیمنٹ اور کنٹری ہال کو آپس میں ملاتی ہے لیکن اس سڑک کا پروفائل صرف یہاں تک محدودنہیں بلکہ اس کا ایک اور کمال بھی ہے جس نے اسے رہتی دنیا تک امر کر دیا‘ اس سڑک پر دنیا کا پہلا زیبرا کراس بنا تھا اور یہ وہ کراس تھا جس نے دنیا میں پیدل چلنے والے عام لوگوں کے حقوق کی بنیاد رکھی.
برج اسٹریٹ میں دنیا کا پہلا زیبرا کراس 1868ء میں بنا‘ اس کا آئیڈیا ریلوے کے ایک انجینئر جان پیک نائٹ نے دیا تھا‘ اس نے زیبرا کراس بنوایا اور لندن کی ایک کمپنی نے اس کے دونوں کناروں پر سبز اور سرخ لائٹ لگا دی‘ سرخ اور سبز رنگ کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ یہ دونوں رنگ دھند اور رات کے اندھیرے میں دور سے نظر آ جاتے ہیں‘ سرخ اور سبز لائٹ جلانے کے لیے گیس کی مدد لی جاتی تھی‘ گیس جلانے اور لائیٹس آن اور آف کرنے کے لیے پولیس کے کانسٹیبل دو شفٹوں میں کراس پر تعینات کر دیے گئے۔
یہ کانسٹیبل آگے چل کر ٹریفک پولیس کا محکمہ بن گئے‘ یہ تجربہ کامیاب ہو گیا مگر بدقسمتی سے 1869ء میں ٹریفک سگنل کی گیس لیک کر گئی‘ پول کو آگ لگ گئی اور کانسٹیبل اس آگ کی زد میں آگیا‘ اس حادثے کے نتیجے میں لندن میونسپل کمیٹی نے سگنل فوری طور پر بند کر دیا اور یوں تاریخ کا پہلا باقاعدہ زیبرا کراس ختم ہو گیا یہاں تک کہ 1911ء میں لندن کے ایک عام شخص نے ٹائم اخبار کو خط لکھا اور ایڈیٹر کو بتایا لندن میں گاڑیوں میں اضافہ ہو گیا ہے جن کی وجہ سے حادثے ہو رہے ہیں اور ان حادثوں میں روزانہ درجنوں لوگ زخمی یا فوت ہو جاتے ہیں‘ اس مسئلے کا کوئی فوری اور مستقل حل ہونا چاہیے‘ ایڈیٹر کو یہ خط ’’ کلک‘‘ کر گیا اور یوں ٹائمز نے ٹریفک سگنلز اور زیبرا کراسنگ کو اپنا صحافتی فرض بنا لیا‘ حکومت میڈیا کے دبائو میں آئی اور 1949ء میں لندن میں ایک بار پھر زیبرا کراسنگ شروع ہوگئی‘ لندن کی دیکھا دیکھی پوری دنیا میں زیبرا کراسنگ بنی اور آج یہ سولائزیشن کی ایک بڑی علامت ہے۔
مجھے برج اسٹریٹ کا پہلا زیبرا کراسنگ دیکھنے کا شوق تھا مگر ہر بار کوئی نہ کوئی مصروفیت آڑے آ جاتی تھی لیکن اس سال میں پکا پروگرام بنا کر لندن پہنچا‘ ہم 14 جولائی کو لندن پہنچے اور 19 جولائی تک لندن رہے‘ میرے دوست میاں گلزار مجھے ایبے روڈ کے زیبرا کراسنگ پر لے گئے‘ ان کا خیال تھا یہ دنیا کا پہلا زیبرا کراسنگ ہے‘ ان کا خیال ایک لحاظ سے ٹھیک بھی تھا کیونکہ لندن آنے والے زیادہ تر لوگ اسی زیبرا کراسنگ پر کھڑے ہو کر تصویر بنواتے ہیں اور فٹ پاتھ کی بائونڈری وال پر اپنا نام اور پیغام لکھتے ہیں مگر یہ غلط ہے‘ دنیا کا پہلا زیبرا کراسنگ برج اسٹریٹ ہی پر بنایا گیا‘ ایبے روڈ پر لارڈز کرکٹ گرائونڈ کے قریب موجود سگنل کی مقبولیت کی وجہ دنیا کا مشہور بینڈ بیٹلز(Beatles) تھا‘ یہ بینڈ 1969ء میں اس زیبرا کراسنگ سے گزرا تھا اور اس نے اس کے بعد اپنے مشہور البم کا نام ایبے روڈ رکھ دیا‘ یہ زیبرا کراسنگ اس البم کی یاد گار ہے‘ میوزک کے شیدائی شروع شروع میں اس جگہ اس البم کی یاد منانے کے لیے آتے تھے اور یوں یہ کراسنگ آہستہ آہستہ دنیا کا پہلا زیبرا کراسنگ مشہور ہوگیا‘ میں دونوں زیبرا کراسنگ پر گیا اور چند لمحوں کے لیے خوش ہوگیا۔
یہ یادگاریں یہ سیلی بریشنز علامتی ہوتی ہیں‘ یہ آپ کی زندگی میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کرتیں‘ یہ آپ کو اچھی جاب لے کرنہیں دیتیں‘ یہ آپ کو دو کلو گرام چینی نہیں دیتیں اور یہ آپ کے خاندانی تعلقات پر بھی اچھے اثرات مرتب نہیں کرتیں لیکن اس کے باوجود یہ بہت اہم ہوتی ہیں کیونکہ یہ ایک آدھ لمحے کے لیے آپ کو خوشی دیتی ہیں‘ یہ آپ کو انسان کی اس تاریخ سے روشناس کرا دیتی ہیں جن پر ننگے پائوں چل کر یہ آج کے جدید دور تک پہنچا مگر ہم بدقسمتی سے ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم ہیں‘ ہم انھیں فضول اور وقت کا زیاں سمجھتے ہیں‘ ہمیں سمجھنا بھی چاہیے کیونکہ جس ملک کے دارالحکومت اسلام آباد کے سو سے زائد ٹریفک سگنل دو برسوں سے خراب چلے آ رہے ہوں اور ان سگنلز پر روزانہ دس پندرہ ایکسیڈنٹ ہو جاتے ہوں اور ان حادثوں میں درجنوں لوگ زندگی اور اعضاء سے محروم ہو جاتے ہوں مگر کسی شخص کے کانوں پر جوں تک نہ رینگتی ہو اس ملک میں قدیم زیبرا کراسنگ تلاش کرنا اور اس کراسنگ پر کھڑے ہو کر تصویر کھینچوانے کے لیے لمبا سفر کرنا واقعی عجیب اور فضول کام لگے گا‘ چوہدری نثار علی اس وقت پاکستان کے وزیر داخلہ ہیں‘ یہ اچھے اور بھلے انسان ہیں‘ میری ان سے درخواست ہے یہ چیئرمین سی ڈی اے‘ آئی جی اسلام آباد اور ایس ایس پی ٹریفک کو بلا کر ہدایت کریں یہ لوگ اسلام آباد کے تمام ٹریفک سگنل فوری طور پر ٹھیک کرا دیں‘ مجھے یقین ہے چوہدری صاحب کے ایک حکم پر جوہری ملک کے جوہری دارالحکومت کے سگنل درست ہو جائیں گے اور یوں درجنوں بلکہ سیکڑوں لوگوں کی جانیں بچ جائیں گی۔
ہم اس ملک میں چھوٹی چھوٹی سیلی بریشنز کا بندوبست بھی کر سکتے ہیں مثلاً آبپارہ اسلام آباد کا قدیم ترین اور مشہور علاقہ ہے‘ اس علاقے کو آبپارہ کیوں کہا جاتا ہے‘ یہ کہانی بذات خود بہت دلچسپ ہے‘ ساٹھ کی دہائی میں جب اسلام آباد کی بنیاد رکھی جا رہی تھی تو حکومت نے چھوٹے ملازمین کی رہائش کے لیے جی تھری اور جی فور میں سرکاری کوارٹرز بنوائے‘ یہ کوارٹرز مختلف خاندانوں کو الاٹ کر دیے گئے‘ آباد کاری کے چند دن بعد ان کوارٹرز میں ایک بچی پیدا ہوئی‘ یہ بچی وفاقی دارالحکومت میں پیدا ہونے والی پہلی بچی تھی‘ اس بچی کا نام آبپارہ تھا چنانچہ سی ڈی اے نے اس بچی کے نام پر اس علاقے کا نام آبپارہ رکھ دیا‘ حکومت اس بچی اور اس مکان کو تلاش کر سکتی ہے اور اس گھر کو میوزیم کا درجہ دے کر‘ اس میں اس بچی (جو اس وقت بزرگ ہو چکی ہو گی) کی تصویریں اور اسلام آباد کے ابتدائی دنوں کی پینٹنگز لگا کر شہر اور بیرون شہر کے لوگوں کے لیے دلچسپی کا سامان پیدا کر سکتی ہے‘ اس طرح اسلام آباد کا نام عارف والا کے ایک ہیڈ ماسٹرعبدالرحمن نے تجویز کیا تھا’ ہم اسلام آباد کی کوئی عمارت ان کے نام سے منسوب کر سکتے ہیں اور اس عمارت کو بھی اسلام آباد کی تاریخ اور ہیڈ ماسٹر عبدالرحمن کی تصویروں کی یاد گار بنا سکتے ہیں۔
اسی طرح اسلام آباد میں مہاتما بدھ کے دور کا برگد درخت بھی موجود ہے‘ ہم اس درخت کو بھی سیاحت کا مرکز بنا سکتے ہیں‘ مارگلہ روڈ پر ایف ٹین اور ایف الیون کے درمیان عین سڑک پر چار پانچ سو سال پرانا درخت ہے‘ ہم اس درخت کو بھی تصویر کھینچوانے کا ذریعہ بنا سکتے ہیں‘ ہم اسی طرح کراچی کی ایمپریس روڈ‘ لاہور کے تین سو سال پرانے حمام‘ انارکلی کے مقبرے‘ قطب الدین ایبک کے مزار‘ سرگنگا رام کی حویلی‘ بھنگیوں کی توپ سے وابستہ یادوں‘ ٹھٹھہ میں محمد بن قاسم کی تعمیر کردہ مسجد‘ راجہ داہر کے قلعے‘ پشاور کے قصہ خوانی بازار‘ ٹلہ جوگیاں اور راج کٹاس کو بھی سیاحت کا مرکز اور تصویریں بنوانے کی جگہ بنا سکتے ہیں‘ گورے اگر دنیا کے پہلے زیبرا کراسنگ اور ایبے روڈ کے ٹریفک سگنل کو تفریح کا ذریعہ بنا سکتے ہیں تو ہم سیاحت کے ان عظیم خزانوں کو خوشیوں کا مرکز کیوں نہیں بنا سکتے۔
ہم بیرونی دنیا اور پاکستان کے متجسس لوگوں کی توجہ ان مقامات کی طرف مبذول کیوں نہیں کرا سکتے اور اس کام کے لیے سرمایہ بھی نہیں چاہیے‘ بس معمولی سی توجہ اور تھوڑی سی کوشش کی دیر ہے اور ہم اور ہمارے لوگ تھوڑی تھوڑی خوشیاں جمع کرلیں گے لیکن سوال یہ ہے جو قوم کے ٹو جیسے پہاڑ اور نانگا پربت جیسی چوٹیوں کو نہیں بیچ سکی اور جو موہن جو داڑو‘ ہڑپہ‘ ٹیکسلا اور کٹاس ویلی کے ذریعے دنیا کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکی وہ قوم آبپارہ یا قصہ خوانی بازار سے کیا کمال کر لے گی‘ دنیا رابن ہڈ اور ہیری پورٹر کے فرضی کرداروں کو بیچ رہی ہے‘ دیوار پر ایک چھوٹی سی بالکونی بنا کر اسے جولیٹ کے نام منسوب کر کے ہر سال تیس لاکھ سیاح اکھٹے کر لیتی ہے۔
کوپن ہیگن کے سمندر کے کنارے جل پری کے چھوٹے سے مجسمے کے گرد پچاس لاکھ لوگ اکٹھے کر لیتی ہے‘ روم کے تریوی فواروں کے گرد ایک کروڑ لوگوں کو جمع کر لیتی ہے اور ڈیلفی اور اولمپک کے پتھروں کو سیاحت کا ویٹی کن سٹی بنا دیتی ہے مگر ہم آج تک سسی کے بھنبھور‘ سوہنی کے گجرات اور رانجھے کے مڈھ کو پاکستانیوں کی توجہ کا مرکز نہیں بنا سکے‘ ہم آج تک دنیا کے قدیم ترین شہر موہن جو داڑو کو سیاحت کا ’’ ویو کارڈ‘‘ نہیں بنا سکے‘ دنیا پرانی مٹی کو سونے کے بھائو بیچ رہی ہے جب کہ ہم سیاحت کے سونے کو تاریخ کی گلیوں میں روند رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں بھوکے مر رہے ہیں‘ سیاحت دنیا کی تیسری بڑی انڈسٹری ہے مگر ہم یہ انڈسٹری جیب میں ڈال کر پریشان پھر رہے ہیں‘ ہم اسے پاکستان اور دنیا دونوں کی مارکیٹوں میں فروخت نہیں کر پا رہے اور یہ میرے اس سفر کا حاصل تھا۔
بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس
برج اسٹریٹ لندن کے علاقے ویسٹ منسٹر کی قدیم شاہراہ ہے‘ یہ سڑک 1750ء میں بنی اور یہ آج تک قائم ہے‘ یہ سڑک برطانوی پارلیمنٹ اور کنٹری ہال کو آپس میں ملاتی ہے لیکن اس سڑک کا پروفائل صرف یہاں تک محدودنہیں بلکہ اس کا ایک اور کمال بھی ہے جس نے اسے رہتی دنیا تک امر کر دیا‘ اس سڑک پر دنیا کا پہلا زیبرا کراس بنا تھا اور یہ وہ کراس تھا جس نے دنیا میں پیدل چلنے والے عام لوگوں کے حقوق کی بنیاد رکھی.
برج اسٹریٹ میں دنیا کا پہلا زیبرا کراس 1868ء میں بنا‘ اس کا آئیڈیا ریلوے کے ایک انجینئر جان پیک نائٹ نے دیا تھا‘ اس نے زیبرا کراس بنوایا اور لندن کی ایک کمپنی نے اس کے دونوں کناروں پر سبز اور سرخ لائٹ لگا دی‘ سرخ اور سبز رنگ کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ یہ دونوں رنگ دھند اور رات کے اندھیرے میں دور سے نظر آ جاتے ہیں‘ سرخ اور سبز لائٹ جلانے کے لیے گیس کی مدد لی جاتی تھی‘ گیس جلانے اور لائیٹس آن اور آف کرنے کے لیے پولیس کے کانسٹیبل دو شفٹوں میں کراس پر تعینات کر دیے گئے۔
یہ کانسٹیبل آگے چل کر ٹریفک پولیس کا محکمہ بن گئے‘ یہ تجربہ کامیاب ہو گیا مگر بدقسمتی سے 1869ء میں ٹریفک سگنل کی گیس لیک کر گئی‘ پول کو آگ لگ گئی اور کانسٹیبل اس آگ کی زد میں آگیا‘ اس حادثے کے نتیجے میں لندن میونسپل کمیٹی نے سگنل فوری طور پر بند کر دیا اور یوں تاریخ کا پہلا باقاعدہ زیبرا کراس ختم ہو گیا یہاں تک کہ 1911ء میں لندن کے ایک عام شخص نے ٹائم اخبار کو خط لکھا اور ایڈیٹر کو بتایا لندن میں گاڑیوں میں اضافہ ہو گیا ہے جن کی وجہ سے حادثے ہو رہے ہیں اور ان حادثوں میں روزانہ درجنوں لوگ زخمی یا فوت ہو جاتے ہیں‘ اس مسئلے کا کوئی فوری اور مستقل حل ہونا چاہیے‘ ایڈیٹر کو یہ خط ’’ کلک‘‘ کر گیا اور یوں ٹائمز نے ٹریفک سگنلز اور زیبرا کراسنگ کو اپنا صحافتی فرض بنا لیا‘ حکومت میڈیا کے دبائو میں آئی اور 1949ء میں لندن میں ایک بار پھر زیبرا کراسنگ شروع ہوگئی‘ لندن کی دیکھا دیکھی پوری دنیا میں زیبرا کراسنگ بنی اور آج یہ سولائزیشن کی ایک بڑی علامت ہے۔
مجھے برج اسٹریٹ کا پہلا زیبرا کراسنگ دیکھنے کا شوق تھا مگر ہر بار کوئی نہ کوئی مصروفیت آڑے آ جاتی تھی لیکن اس سال میں پکا پروگرام بنا کر لندن پہنچا‘ ہم 14 جولائی کو لندن پہنچے اور 19 جولائی تک لندن رہے‘ میرے دوست میاں گلزار مجھے ایبے روڈ کے زیبرا کراسنگ پر لے گئے‘ ان کا خیال تھا یہ دنیا کا پہلا زیبرا کراسنگ ہے‘ ان کا خیال ایک لحاظ سے ٹھیک بھی تھا کیونکہ لندن آنے والے زیادہ تر لوگ اسی زیبرا کراسنگ پر کھڑے ہو کر تصویر بنواتے ہیں اور فٹ پاتھ کی بائونڈری وال پر اپنا نام اور پیغام لکھتے ہیں مگر یہ غلط ہے‘ دنیا کا پہلا زیبرا کراسنگ برج اسٹریٹ ہی پر بنایا گیا‘ ایبے روڈ پر لارڈز کرکٹ گرائونڈ کے قریب موجود سگنل کی مقبولیت کی وجہ دنیا کا مشہور بینڈ بیٹلز(Beatles) تھا‘ یہ بینڈ 1969ء میں اس زیبرا کراسنگ سے گزرا تھا اور اس نے اس کے بعد اپنے مشہور البم کا نام ایبے روڈ رکھ دیا‘ یہ زیبرا کراسنگ اس البم کی یاد گار ہے‘ میوزک کے شیدائی شروع شروع میں اس جگہ اس البم کی یاد منانے کے لیے آتے تھے اور یوں یہ کراسنگ آہستہ آہستہ دنیا کا پہلا زیبرا کراسنگ مشہور ہوگیا‘ میں دونوں زیبرا کراسنگ پر گیا اور چند لمحوں کے لیے خوش ہوگیا۔
یہ یادگاریں یہ سیلی بریشنز علامتی ہوتی ہیں‘ یہ آپ کی زندگی میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کرتیں‘ یہ آپ کو اچھی جاب لے کرنہیں دیتیں‘ یہ آپ کو دو کلو گرام چینی نہیں دیتیں اور یہ آپ کے خاندانی تعلقات پر بھی اچھے اثرات مرتب نہیں کرتیں لیکن اس کے باوجود یہ بہت اہم ہوتی ہیں کیونکہ یہ ایک آدھ لمحے کے لیے آپ کو خوشی دیتی ہیں‘ یہ آپ کو انسان کی اس تاریخ سے روشناس کرا دیتی ہیں جن پر ننگے پائوں چل کر یہ آج کے جدید دور تک پہنچا مگر ہم بدقسمتی سے ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم ہیں‘ ہم انھیں فضول اور وقت کا زیاں سمجھتے ہیں‘ ہمیں سمجھنا بھی چاہیے کیونکہ جس ملک کے دارالحکومت اسلام آباد کے سو سے زائد ٹریفک سگنل دو برسوں سے خراب چلے آ رہے ہوں اور ان سگنلز پر روزانہ دس پندرہ ایکسیڈنٹ ہو جاتے ہوں اور ان حادثوں میں درجنوں لوگ زندگی اور اعضاء سے محروم ہو جاتے ہوں مگر کسی شخص کے کانوں پر جوں تک نہ رینگتی ہو اس ملک میں قدیم زیبرا کراسنگ تلاش کرنا اور اس کراسنگ پر کھڑے ہو کر تصویر کھینچوانے کے لیے لمبا سفر کرنا واقعی عجیب اور فضول کام لگے گا‘ چوہدری نثار علی اس وقت پاکستان کے وزیر داخلہ ہیں‘ یہ اچھے اور بھلے انسان ہیں‘ میری ان سے درخواست ہے یہ چیئرمین سی ڈی اے‘ آئی جی اسلام آباد اور ایس ایس پی ٹریفک کو بلا کر ہدایت کریں یہ لوگ اسلام آباد کے تمام ٹریفک سگنل فوری طور پر ٹھیک کرا دیں‘ مجھے یقین ہے چوہدری صاحب کے ایک حکم پر جوہری ملک کے جوہری دارالحکومت کے سگنل درست ہو جائیں گے اور یوں درجنوں بلکہ سیکڑوں لوگوں کی جانیں بچ جائیں گی۔
ہم اس ملک میں چھوٹی چھوٹی سیلی بریشنز کا بندوبست بھی کر سکتے ہیں مثلاً آبپارہ اسلام آباد کا قدیم ترین اور مشہور علاقہ ہے‘ اس علاقے کو آبپارہ کیوں کہا جاتا ہے‘ یہ کہانی بذات خود بہت دلچسپ ہے‘ ساٹھ کی دہائی میں جب اسلام آباد کی بنیاد رکھی جا رہی تھی تو حکومت نے چھوٹے ملازمین کی رہائش کے لیے جی تھری اور جی فور میں سرکاری کوارٹرز بنوائے‘ یہ کوارٹرز مختلف خاندانوں کو الاٹ کر دیے گئے‘ آباد کاری کے چند دن بعد ان کوارٹرز میں ایک بچی پیدا ہوئی‘ یہ بچی وفاقی دارالحکومت میں پیدا ہونے والی پہلی بچی تھی‘ اس بچی کا نام آبپارہ تھا چنانچہ سی ڈی اے نے اس بچی کے نام پر اس علاقے کا نام آبپارہ رکھ دیا‘ حکومت اس بچی اور اس مکان کو تلاش کر سکتی ہے اور اس گھر کو میوزیم کا درجہ دے کر‘ اس میں اس بچی (جو اس وقت بزرگ ہو چکی ہو گی) کی تصویریں اور اسلام آباد کے ابتدائی دنوں کی پینٹنگز لگا کر شہر اور بیرون شہر کے لوگوں کے لیے دلچسپی کا سامان پیدا کر سکتی ہے‘ اس طرح اسلام آباد کا نام عارف والا کے ایک ہیڈ ماسٹرعبدالرحمن نے تجویز کیا تھا’ ہم اسلام آباد کی کوئی عمارت ان کے نام سے منسوب کر سکتے ہیں اور اس عمارت کو بھی اسلام آباد کی تاریخ اور ہیڈ ماسٹر عبدالرحمن کی تصویروں کی یاد گار بنا سکتے ہیں۔
اسی طرح اسلام آباد میں مہاتما بدھ کے دور کا برگد درخت بھی موجود ہے‘ ہم اس درخت کو بھی سیاحت کا مرکز بنا سکتے ہیں‘ مارگلہ روڈ پر ایف ٹین اور ایف الیون کے درمیان عین سڑک پر چار پانچ سو سال پرانا درخت ہے‘ ہم اس درخت کو بھی تصویر کھینچوانے کا ذریعہ بنا سکتے ہیں‘ ہم اسی طرح کراچی کی ایمپریس روڈ‘ لاہور کے تین سو سال پرانے حمام‘ انارکلی کے مقبرے‘ قطب الدین ایبک کے مزار‘ سرگنگا رام کی حویلی‘ بھنگیوں کی توپ سے وابستہ یادوں‘ ٹھٹھہ میں محمد بن قاسم کی تعمیر کردہ مسجد‘ راجہ داہر کے قلعے‘ پشاور کے قصہ خوانی بازار‘ ٹلہ جوگیاں اور راج کٹاس کو بھی سیاحت کا مرکز اور تصویریں بنوانے کی جگہ بنا سکتے ہیں‘ گورے اگر دنیا کے پہلے زیبرا کراسنگ اور ایبے روڈ کے ٹریفک سگنل کو تفریح کا ذریعہ بنا سکتے ہیں تو ہم سیاحت کے ان عظیم خزانوں کو خوشیوں کا مرکز کیوں نہیں بنا سکتے۔
ہم بیرونی دنیا اور پاکستان کے متجسس لوگوں کی توجہ ان مقامات کی طرف مبذول کیوں نہیں کرا سکتے اور اس کام کے لیے سرمایہ بھی نہیں چاہیے‘ بس معمولی سی توجہ اور تھوڑی سی کوشش کی دیر ہے اور ہم اور ہمارے لوگ تھوڑی تھوڑی خوشیاں جمع کرلیں گے لیکن سوال یہ ہے جو قوم کے ٹو جیسے پہاڑ اور نانگا پربت جیسی چوٹیوں کو نہیں بیچ سکی اور جو موہن جو داڑو‘ ہڑپہ‘ ٹیکسلا اور کٹاس ویلی کے ذریعے دنیا کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکی وہ قوم آبپارہ یا قصہ خوانی بازار سے کیا کمال کر لے گی‘ دنیا رابن ہڈ اور ہیری پورٹر کے فرضی کرداروں کو بیچ رہی ہے‘ دیوار پر ایک چھوٹی سی بالکونی بنا کر اسے جولیٹ کے نام منسوب کر کے ہر سال تیس لاکھ سیاح اکھٹے کر لیتی ہے۔
کوپن ہیگن کے سمندر کے کنارے جل پری کے چھوٹے سے مجسمے کے گرد پچاس لاکھ لوگ اکٹھے کر لیتی ہے‘ روم کے تریوی فواروں کے گرد ایک کروڑ لوگوں کو جمع کر لیتی ہے اور ڈیلفی اور اولمپک کے پتھروں کو سیاحت کا ویٹی کن سٹی بنا دیتی ہے مگر ہم آج تک سسی کے بھنبھور‘ سوہنی کے گجرات اور رانجھے کے مڈھ کو پاکستانیوں کی توجہ کا مرکز نہیں بنا سکے‘ ہم آج تک دنیا کے قدیم ترین شہر موہن جو داڑو کو سیاحت کا ’’ ویو کارڈ‘‘ نہیں بنا سکے‘ دنیا پرانی مٹی کو سونے کے بھائو بیچ رہی ہے جب کہ ہم سیاحت کے سونے کو تاریخ کی گلیوں میں روند رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں بھوکے مر رہے ہیں‘ سیاحت دنیا کی تیسری بڑی انڈسٹری ہے مگر ہم یہ انڈسٹری جیب میں ڈال کر پریشان پھر رہے ہیں‘ ہم اسے پاکستان اور دنیا دونوں کی مارکیٹوں میں فروخت نہیں کر پا رہے اور یہ میرے اس سفر کا حاصل تھا۔
بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس