سچ اور جھوٹ کا مکالمہ...نعمان یاور

ہانیہ

محفلین
سچ اور جھوٹ کا مکالمہ
03/02/2021 نعمان یاور



جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں، میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں،
بات سچ کہیے مگر یوں کہ حقیقت نہ لگے، جھوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے،
میں جو ہے، جیسے ہے، جہاں ہے، اسے بیان کرتا ہوں، اسی لئے سچ کہلاتا ہوں،

زندگی میں سچ اورجھوٹ کا جواز اور منطق موجود رہتی ہے، دوسرے تک حقیقت بیان کرنا اور درست واقعہ بیان کرنا، ابلاغ کی ذمہ داری ہے، سوال یہ ہے کہ جھوٹ اور سچ کی نفسیاتی جہت میں بنیادی فرق کیا ہے؟

سچ :جھوٹ ایک پیچیدہ اور پراگندہ ذہنی صورت حال کاعکاس ہوتاہے۔ اس کے برعکس میں واضح اور صاف ذہنی کیفیات کا مظہرہوں۔

سچ :انسان کو ایک جھوٹ بول کر ہزار جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ یعنی انسانی ذہن تہ در تہ الجھنون کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔

جھوٹ:مجھے ایک جواز فراہم کرنے کے لیے دوسرا جھوٹ گھڑنا ہوتا ہے۔ دوسرے کو ثابت کرنے کے لیے تیسراجھوٹ ایجاد کرنا پڑتا ہے اس سفر میں ہر قدم پر انجام ہی انجام ہے آغاز کہیں نہیں۔

سچ :جھوٹ بولنے کادوسرا سبب ذمہ داری سے بچناہے۔ یہ رجحان بھی پست اخلاقی حالت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

کتابوں میں مصنف اپنی دلیل میں ایک تلخ مثال دیتے ہیں پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا کوئی اس کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں اس کے ذمہ دار بھٹو صاحب ہیں،

بھٹو صاحب کہتے ہیں کہ وہ نہیں۔ اس کی ذمہ دار عوامی لیگ ہے،
عوامی لیگ کو مغربی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے سے مسلسل شکایتیں تھیں۔ کوئی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔

اس صورتحال پر سخت الفاظ میں تبصرہ کرتے ہوئے راوی لکھتے ہیں جب قوم کے با اثر اورحکمران طبقہ جھوٹ بولنے لگے تو قومیں بڑے بڑے سانحات سے دوچار ہوتی ہیں مگر عظیم سانحے بھی حکمرانوں کو سچ بولنے پر مجبور نہیں کر سکتے حکمرانوں کو اتنا تاسف بھی نہیں ہے بقول مصنف قوم جھوٹی ہے اور اس کے حکمران جھوٹوں کے سردار۔

مذہبی تناظر میں کہتے ہیں ہمارے معاشرے میں کوئی حقیقی مذہبی صورت حال موجود نہیں ہے۔ نعرے بازی اور حماقت کی حدود کو چھوتی ہوئی سادہ لوحی کی بات اور ہے۔ ورنہ درحقیقت ہمارا معاشرہ مذہب سے بے نیاز دکھائی دیتا ہے۔

جو دوسروں کے بلند سماجی مرتبے دیکھ کر اپنا مرتبہ بلند کرنے کے لیے کمر کس کے میدان عمل میں کودتے ہیں۔ مگرلوگ کسی متقی پرہیزگار آدمی کو دیکھ کر اپنے روحانی مرتبے کی بلندی کے لیے کوشاں نہیں ہوتے۔ دوسروں کی بہتر معاشی حالت اور بلند سماجی مرتبے انسانوں کو ان کے ناکافی ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ مگر کسی روحانی ترقی کو دیکھ کر انہیں ایک لمحے کے لیے بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ اس میدان میں کتنے پیچھے ہیں اور انہیں اس شخص کی طرح اس میدان میں آگے بڑھنا چاہیے۔

بزرگوں کا کہنا کہ ہمارے کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ معاشرے میں سچے مذہبی لوگ نہیں ہیں۔ میرا یقین ہے کہ ایسے لوگ موجود ہیں اور یہ معاشرہ انہی کے اعمال کی برکتوں سے ابھی تک سالم اور قائم ہے۔ مگر یہ لوگ تعداد میں اتنے ہیں کہ اگر کسی بہت بڑے دروغ گو یا جھوٹے شخص سے بھی دروغ گوئی کی جائے تو وہ اس پر شدید برہمی کا اظہار کرے گا اور مطالبہ کرے گا کہ اس سے سچ بولا جائے۔ بڑوں کا کہنا ہے انسان جب تک دوسروں سے جھوٹ بولتا ہے مگر خود سے جھوٹ نہیں بولتا تو معاملہ ایک حد میں رہتاہے۔ مگر انسان اپنے آپ سے بھی جھوٹ بولنے لگے تو اس کے معنی ہوتے ہیں کہ انسان اپنے ضمیر کے پست ترین درجے سے بھی محروم ہو گیا ہے۔

سچ اور جھوٹ کا مکالمہ - ہم سب
 
Top