سپاٹ فکسنگ کیس: پاکستانی کرکٹر بے قصور تھے‘ غلط سزائیں دی گئیں: برطانوی صحافی

سپاٹ فکسنگ کیس: پاکستانی کرکٹر بے قصور تھے‘ غلط سزائیں دی گئیں: برطانوی صحافی

news-1352767405-1515.jpg

لندن (آئی اےن پی) سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں برطانوی صحافی نے پاکستانی کرکٹرز کو بے قصور قرار دے دیا۔ برطانوی صحافی ایڈ ہاکنز نے اپنی کتاب بکی گیملر فکسر سپائے کے اقتباسات مےں انکشاف کےا کہ سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر بے قصور ہیں، تینوں پاکستانی کھلاڑیوں کو غلط سزائیں دی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی سی سی نے سپاٹ فکسنگ کیس شفاف طریقے سے نہیں چلایا۔ پاکستانی کرکٹرز پر سپاٹ فکسنگ کا کیس بنتا ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت سپاٹ فکسنگ کا گڑھ ہے۔ نو بال کو سپاٹ فکسنگ میں شامل ہی نہیں کیا جاتا ہے۔ بھارت دنیا بھر میں فکسرز کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے تاہم وہاں نو بالز پر فکسنگ نہیں ہوتی اس طرح پاکستانی کھلاڑیوں پر سپاٹ فکسنگ کا چارج نہیں بنتا۔ برطانوی صحافی نے اپنی کتاب میں لکھا کہ انہوں نے بھارت کی تقریباً تمام بک میکنگ فرمز سے بات کی جنہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ نوبال کی ٹائمنگ پر فکسنگ ممکن نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ محمد آصف، سلمان بٹ اور محمد عامر کو بلاوجہ جیل بھیجا گیا کیوں کہ اس میچ میں سپاٹ فکسنگ سرے سے ہوئی ہی نہیں تھی۔ جسٹس کک کا پاکستانی کرکٹرز کے متعلق فیصلہ غلط تھا۔ انکشافات پر ردعمل میں سلمان بٹ نے کہا کہ وہ سزا ملنے کے باوجود اپنی بےگناہی کے م¶قف پر قائم ہیں اور وہ آئندہ سال انصاف کی عالمی عدالت سے سزا کم کرانے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنے وکیل سے رابطہ کر لیا ہے اور مشاورت کے بعد سزا کو دوبارہ چیلنج کرنے کا فیصلہ کریں گے۔ محمد آصف نے کہا کہ آئی سی سی جیوری کو دباﺅ میں لا کر ہمیں سزا دلوائی اور ہم پر پابندیاں لگائی گئی ہیں، میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ مزید چیزیں سامنے آئیں گی۔ محمد عامر نے کہا کہ وہ بے گناہ ہےں، اےک دن آئے گا کہ سب کچھ دنےا پر واضح ہو جائے گا کہ ےہ اےک بےن الاقوامی سازش تھی جس کا مقصد پاکستان اور پاکستان کرکٹ کو بدنام کرنا تھا۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/national/13-Nov-2012/143925
 

ساجد

محفلین
قادری بھائی ، بندہ اس صحا فی سے پوچھے کہ جب مقدمہ چل رہا تھا تب کیوں نہیں بولا۔ اب سزا بھی مکمل ہو چکی ہے تو اسے اپنی ویلیو بنانے کا موقع ہاتھ آ گیا۔
ویسے یہ خبر ایک ہفتہ سے زائد پرانی ہے نوائے وقت کے ہاتھ شاید 13 نومبر کو لگی۔ اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اس سے زیادہ تفصیلات تو میرے پاس ہیں اس بارے۔
 
قادری بھائی ، بندہ اس صحا فی سے پوچھے کہ جب مقدمہ چل رہا تھا تب کیوں نہیں بولا۔ اب سزا بھی مکمل ہو چکی ہے تو اسے اپنی ویلیو بنانے کا موقع ہاتھ آ گیا۔
ویسے یہ خبر ایک ہفتہ سے زائد پرانی ہے نوائے وقت کے ہاتھ شاید 13 نومبر کو لگی۔ اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اس سے زیادہ تفصیلات تو میرے پاس ہیں اس بارے۔
کھیلوں میں مجھے بہت کم دلچسپی ہے۔ ویسے اس الزام یا فیصلے پر مجھے دکھ تھا۔ جبکہ اس دن پاکستانی عوام بڑی گرم سرد ہو رہی تھی کھلاڑیوں پر۔ جوشیلے کہیں کے۔ پل میں تولہ پل میں ماشہ۔
آپ نے درست سوال اٹھایا۔
وہ بھی شئیر کر دیں۔ حالانکہ سب مایہ ہے
 

باباجی

محفلین
دُکھ کی بات تو یہ ہے کہ پی سی بی والے
تو بالکل ہی بکری بن گئے تھے
اگر چاہتے تو آئی سی سی سے بات کرکے کوئی جرمانہ بھی لگا سکتے تھے
لعنت ہے پی سی بی پر
 
قادری صاحب
انڈین کرکٹر پر بھی یہ الزام لگا تھا
لیکن انڈین کرکٹ بورڈ نے آئی سی سی والوں سے کہا کہ ہم جانیں اور کرکٹر جانے
یےس، آئی مین، یس۔ میں بھی اُن دنوں یہی کہتا پھرتا جو اب آپ نے کہا۔ جن دنوں الزامات کا ابھی آغاز ہوا تھا۔ حالانکہ مجھے کرکٹر اور کرکٹ کے کھیل سے حد درجہ تک بیزاری ہے 1999 سے۔ پھر بھی پاکستان پر حرف آنا واقعی پی۔سی۔بی کی بے حمیتی تھی۔
 
Top