طارق شاہ
محفلین
غزلِ
سیمؔاب اکبر آبادی
افسانے اُن کے محفلِ اِمکاں میں رہ گئے
کچھ روز، وہ بھی پردۂ اِنساں میں رہ گئے
سو بار ہاتھ اُلجھ کے گریباں میں رہ گئے
اب کتنے دِن قدومِ بہاراں میں رہ گئے ؟
کافُور سے بھی عِشق کی ٹھنڈی ہُوئی نہ آگ
پھائے لگے ہُوئے دلِ سوزاں میں رہ گئے
جتنے نِشاں جُنوں کے تھے لوٹ آئے میرے ساتھ
ہاں! وہ نقوشِ پا، جو بیاباں میں رہ گئے
آزادئ وطن کی جُنوں کاریاں نہ پُوچھ
کچھ دِن کو اہلِ ہوش بھی زنداں میں رہ گئے
کوئی مِرا فسانۂ غمگیں نہ پڑھ سکا
سب ہو کے محو، عبرتِ عنواں میں رہ گئے
تھے دَورِ اِنقلاب میں، ایسے بھی کچھ طیور !
صحرا سے اُڑ کے آئے، گُلستاں میں رہ گئے
دِل میں، جو چند عارضی جذبے خوشی کے تھے
وہ بھی دبے ہُوئے غمِ پنہاں میں رہ گئے
لتھڑی ہُوئی ہے خُون میں آزادئ وطن
اچھّے رہے وہ لوگ، جو زنداں میں رہ گئے
کچھ ااُن کے اِلتفات نے زحمت نہ کی قبول
کُچھ نقص میرے حالِ پریشاں میں رہ گئے
فِطرت کبھی نہ لالہ وگُل کی بدل سکی
آ آ کے انقلاب گُلِستاں میں رہ گئے
اے صُورِ حشر! دے نہ ہمیں دعوتِ خِرام
اب رہ گئے تو کُوچۂ جاناں میں رہ گئے
توفیق روز ہوتی ہے کِس کو گُناہ کی !
خالی ورق بھی دفترِ عصیاں میں رہ گئے
یا رب! کُچھ اور دے مُجھے کونین کے سِوا
یہ تو سما کے گوشۂ داماں میں رہ گئے
پھیلے تو یُوں، کہ چھا گئے کُل کائنات پر !
سمٹے تو اِس قدر کہ رگِ جاں میں رہ گئے
سیمؔاب جن سے تھا مِرے مشرب کو اختلاف
کچھ ایسے شعر بھی مِرے دِیواں میں رہ گئے
سیمابؔ اکبر آبادی