سوچ کا سفر

نور وجدان

لائبریرین
اللہ تعالیٰ نے قسمیں کیوں کھائیں

جب پہلے نائب لائے تشریف
مالک کائنات کی تھے حدیث
ُاس کی سلطنت کا نشان
قبلہ اول مسجد الاقصی
جس سے نکلے ہر انسان
ہوجائے کنزالایمان
اللہ کا گھر بنایا حجاز کی سرزمین پر
آدمؑ کو خانہ کعبہ کی تعمیر پر
ملا خطاب صفی اللہ کا
لاالہ الا اللہ آدم صفی اللہ
کوئی معبود نہیں اللہ کے سوا
اور آدمؑ اللہ کی برگزیدہ ہستی ہیں ۔
اترا آسمانی صحیفہ ان پر
ہوئے برگزیدہ اللہ کے پیغمبر
تمام نفوس کے باپ ہوئے آدمؑ
اللہ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے کیا ؟
وہ لوگ جو مقامِ رضا کے اعلی درجے پر فائز
ان کی اتباع میں قربانی کے سبھی فرائض
مناتے ہیں مسلمان تہوار کی صورت
ان کی اعمال میں چھپی ان کی سیرت
جب کہا مالک نے قربانی کا ابراہیمؑ سے
کردیا ذبیح رضا سے اسماعیلؑ کو
بھاگئی مالک کو ادائے خلیل اللہ
رکھ دیا نام اسماعیل کا ذبیح اللہ
لا الہ الا اللہ اسماعیل ذبیح اللہ
ہوئے دوست ابراہیم اللہ کے
لاالہ الا اللہ ابراہیم خلیل اللہ
کیا تعمیر اللہ کے گھروں کو
ایک قبلہ اول :مسجد الاقصیٰ
دوسرا قبلہ دوم: خانہ کعبہ
اترا آسمانی صحیفہ ان پر
مقرر ہوئے جدِ امجد سبھی نبیوں کے
ہوئے اسحقؑ جدِ امجد بنی اسرائیل کے
ہوئے اسماعیلؑ جدِ امجد بنو عدنان کے
اللہ اپنے مقرب بندوں کی قسم نہ کھائے کیا؟
خاک ہوئی نمردو کی خدائی
عشق کی چلی جہاں پر حکمرانی
خلیفتہ الارض لائے تشریف
جن وانس ہوئے ان کے تابع
حدی خوانِ جنت کو علم ملا نافع
اتری الہامی کتاب بصورت زبور ان پر
لا الہ الا اللہ داؤد خلیفہ الارض
مٹی ہوئی فرعون کی بادشاہی
عشق کی چلی جہاں پر حکمرانی
موسیّ گھر کے لیے آگ لینے ہوئے روانہ
تجلی حق اور صدائے حق سے نوازے گئے
پھر خواہش ہوئی کہ مولا میں تجھے دیکھنا چاہتاہوں
فرمایا : لن ترانی ، تو مجھے نہیں دیکھا سکتا
اللہ سے کلام کرتے رہے تھے موسیّ
لا الہ الا اللہ موسی ّ کلیم اللہ
اتری الہامی کتاب بصورت توریت
اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے کیا ؟
کلمہ ہوئے عیسی علیہ سلام
کلمہ: قم با اذن اللہ کی عطا سے
کرتے رہے مردوں کی زندہ
مسیحائی بندوں کی کرنے والے
مریمّ کے بیٹے ، یحییّ کے بھائی
لا الہ الا اللہ عیسی روح اللہ
اتری الہامی کتاب بصورت انجیل
اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے کیا؟
وہ مکہ و مدینہ کی سرزمین
جس پر رہے ہیں نبی ﷺ مکیں
سردار الانبیاء ، خاتم الانبیاء
نور کی سرزمین پر نور کی جبین
شمع رسالت کے ہوا جو قرین
تابندہ ہوئی سب کی زندگیاں
عملِ بندگی سے مٹی تاریکیاں
معراج کی رات قاب و قوسین کی رفعتوں پر مکیں
نبی آخرالزماں ،شافعی دو جہاں، رحمت اللعالمین
فقر و عفو سے کی سربراہی
دولت ایمان ہم نے پائی
اتری الہامی کتاب ، حکمتوں کا گنجینہ
مرے نبی ہوئے نبیوں کا نگینہ
احمد کو محمدﷺ کے رتبے پر کیا فائز
درود بھیجنا ہم پر ہے کیا عائد
صلی اللہ علیہ والہ وسلم
ان کی صفت میں گم ہے خدائی
ملتی رہے گی ان سے رہنمائی
مسخر ہوئی ان پر سبھی خلائق
تسبیح ان کی کرتے ہیں ملائک
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللہ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے؟
اللہ نے اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم کیوں کھائی ؟

سورہ التین میرے سامنے کھلی پڑی ہے ۔میں نے اس کی پہلی آیت پڑھی ۔ کچھ توقف کے بعد سوچ نے مجبور کیا ہے کہ اللہ قسم پھل کی کھارہے ہیں ۔

وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ

|وَطُوْرِسِيْنِيْنَ|وَهٰذَاالْبَلَدالْاَمِيْنِ |
انجیر اور زیتون کی قسم ہے۔اور طور سینا کی۔اور اس شہر (مکہ) کی جو امن والا ہے۔​

اللہ نے دو پھلوں کی قسم کھائی ہے اور میں سوچ پر مجبور کہ ان دو پھلوں کی قسم کیوں کھائی گئی ہے ۔ بے شمار پھلوں میں دو پھل اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں تو گویا یہ جنت کے پھل ہیں ۔ اگر جنت کے پھل ہیں تو زمین پر سب سے پہلے کس مقام پر ان کو اُگایا گیا ۔ تلاش و فکر کے بعد معلوم ہوا کہ سرزمین فلسطین و شام میں ان کو اگایا گیا ہے ۔ وہ زمین جہاں مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے اس قبلے کو دو مقرب ہستیاں تعمیر کرچکیں تھیں جو کہ حضرت آدم علیہ سلام اور حضرت ابراہیم علیہ سلام ہیں ۔ بنی نوع انسان کے باپ اور نبیوں کے جد امجد پر اللہ تعالیٰ کے صحائف بھی اترے ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ سلام کی نسل سے تمام نبی و رسول مبعوث ہوئے ہیں جن میں کچھ زیادہ مقرب و برگزیدہ ہوئے ہیں اور انہی پر اللہ تعالیٰ نے آسمانی صحائف اتارے ہیں ۔ وہ دو پھل جن سے نبیوں کا سلسلہ چلتا رہے گا کہ یہ پھل سدا بہار ہیں جن پر ہمیشہ سبزہ رہتا ہے ۔ ان سدابہار پھلوں میں مقرب کون ہیں جن پر الہامی کتابیں اتریں ۔ حضرت داؤد علیہ سلام اور حضرت سلیمان علیہ سلام نے قبلہ اول کو از سر نو تعمیر کیا گویا کہ نئے سرے سے دین کی بنیاد رکھی کہ اللہ تعالیٰ کے گھر جب جب از سر نو تعمیر کیے گئے گویا دین میں کچھ ترامیم اور تبدیلیاں ہوئیں ۔حضرت عیسی علیہ سلام کی مشابہت حضرت آدم علیہ سلام سے ہے کہ دونوں بن باپ کے پیدا ہوئے تھے ۔ وہ پھل جس کی بنیاد حضرت آدم علیہ سلام نے بنیاد رکھی اور وہ پھل جس کی بنیاد جناب سیدنا ابراہیم علیہ سلام نے رکھی وہ سدا بہار پھل ہیں ۔ اس مقام کی قسم جو کہ اللہ کی نشانی ہے ، ان کتابوں کی جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہیں اور تمام انبیاء کے سرداروں کی قسم جو اللہ پر شاہد ہیں اور اللہ ان پر شاہد ہے ۔ اللہ نے ان کی قسم کھائی ہے ۔

حضرت موسی علیہ سلام لاڈلے نبی تھے ۔ اللہ تعالیٰ سے کلام کیا کرتے تھے ۔ ان کو معجزات عطا ہوئے کہ ان کا ہاتھ سورج کی طرح روشن ہوجاتا تھا اور ان کا عصا سانپ کی شکل اختیار کرلیا کرتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو کتاب سے کوہِ طور پر نوازا گیا ۔ یہی طور کا پہاڑ جنت کے پہاڑوں میں سے ایک ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب ، اپنے نبی اور اس مقام کی قسم کھائی ہے ۔ تیسری آیت مبارکہ میں امن والے شہر کی قسم کھائی ہے وہ شہر حجاز جس کی تعمیر سیدنا آدم علیہ سلام اور سیدنا حضرت ابراہیم علیہ سلام نے کی ۔۔ یعنی جس دین کی ابتدا و ارتقاء ان مبارک و برگزیدہ ہستیوں نے کی تھی ، اس کی منتہیٰ سیدنا جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ہوئی جن کے کمال کی کوئی حد نہیں ہے ۔ حضرت موسی علیہ سلام تو پہاڑ پر اللہ سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے گئے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو خود اپنے پاس بلا لیا ۔اس شہر امان کی از سر نو تعمیر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے ہوئی تھی ۔

دین کی ابتدا ہوئی آدم علیہ سلام سے
دین کی منتہی ہوئی محمد صلی علیہ والہ وسلم سے
نبیوں کے جد امجد ہوئے ابراہیم علیہ سلام
نبیوں میں مقرب ہوئے موسی علیہ سلام
نبیوں میں خلیفہ ہوئے داؤد علیہ سلام
نبیوں میں کلمہ ہوئے عیسی علیہ سلام
فلسطین کی سرزمین ہو یا طور کا مقام
سرزمین ِ حجاز کا ہو یا مقام
جنت کے یہ سبھی ہیں مقام
جن پر ہوا رسولوں کا قیام
زبور کی بات ہو یا توریت کی
انجیل کی بات ہو یا قران کی
یہ سبھی الہامی ہیں پیغام
جن میں اللہ نے بندوں سے کیا کلام
پڑھیں گے جو اس کو ملے گا انعام
آیات کا مفہوم اترے گا بصورت الہام
اللہ کے پیغام کو کیا رسولوں نے عام
ان سب پر واجب ہے مرا تو سلام
جب بات محمدﷺ کی کسی بھی زبان سے ہوگی
درود ہوگا جاری اور الہام کی بارش ہوگی
ان کی قسمیں کھائی ہیں مالک نے
بندوں کی اقسام بتائیں خالق نے
احسن التقویم پر پیدا ہوئے سب
نور کے چراغ کے حامل ہوئے سب
اس نور کو نسبت ہے محمدﷺ سے
جو بڑھے گا اس نور کی جانب بھی
سینہ روشن ہوگا نور کی جانب سے
دور جو ہوئے تھے نور کے چراغ سے
شداد ، فرعون ، قارون ، ابو جہل ہو یا ابو لہب
مقام اسفل کے ہوئے سبھی تھے حامل
قفل ان کے روحوں پر لگ گیا کامل



اس سورہ اور ان آیات کا موضوع ہے جزا و سزا کا اثبات۔ اس غرض کے لیے سب سے پہلے جلیل القدر انبیاء کے مقامات ظہور کی قسم کھا کر فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے۔ اگرچہ اس حقیقت کو دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً کہیں فرمایا کہ انسان کو خدا نے زمین میں اپنا خلیفہ بنایا اور فرشتوں کو اس کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ ۔ کہیں فرمایا کہ انسان اُس امانتِ الٰہی کا حامل ہوا ہے جسے اٹھانے کی طاقت زمین و آسمان اور پہاڑوںمیں بھی نہ تھی ۔ کہیں فرمایا کہ ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا کی ۔ لیکن یہاں خاص طور پر انبیاء کے مقاماتِ ظہور کی قسم کھا کر یہ فرمانا کہ انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا گیا ہے، یہ معنی رکھتا ہے کہ نوع انسانی کو اِتنی بہتر ساخت عطا کی گئی کہ اس کے اندر نبوت جیسے بلند ترین منصب کے حامل لوگ پیدا ہوئے جس سے اونچا منصب خدا کی کسی دوسری مخلوق کو نصیب نہیں ہوا۔

اس امر واقعی سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ جب انسانوں میں یہ دو الگ الگ اور ایک دوسرے سے قطعی مختلف قسمیں پائی جاتی ہیں تو پھر جزائے اعمال کا کیسے انکار کیا جا سکتا ہے۔ اگر پستی میں گرنے والوں کو کوئی سزا اور بلندی پر چڑھنے والوں کو کوئی اجر نہ ملے، اور انجامِ کار دونوں کا یکساں ہو، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کی خدائی میں کوئی انصاف نہیں ہے۔ حالانکہ انسانی فطرت اور انسان کی عقلِ عام یہ تقاضا کرتی ہے کہ جو شخص بھی حاکم ہو وہ انصاف کرے۔ پھر یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ اللہ، جو سب حاکموں سے بڑا حاکم، ہے، وہ انصاف نہیں کرے گا۔

اس کے بعد یہ بتایا گیا کہ انسان میں دو قسمیں پائی جاتی ہیں، ایک وہ جو اس بہترین ساخت پر پیدا ہونے کے بعد برائی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اخلاقی پستی میں گرتے گرتے اُس انتہاء کو پہنچ جاتے ہیں جہاں ان سے زیادہ نیچ کوئی دوسری مخلوق نہیں ہوتی، دوسرے وہ جو ایمان و عمل صالح کا راستہ اختیار کر کے اس گراوٹ سے بچ جاتے ہیں اور اُس مقامِ بلند پر قائم رہتے ہیں جو اُن کے بہترین ساخت پر پیدا ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔ نوع انسانی میں اِن دو قسموں کے لوگوں کا پایا جانا ایک ایسا امر واقعی ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس کا مشاہدہ انسانی معاشرے میں ہر جگہ ہر وقت ہو رہا ہے۔


نوٹ: اس تحریر میں خالصتا میری اپنی سوچ ہے ۔ کسی کو اعتراض ہو یا کچھ بتانا مقصود ہو وہ اس لڑی سے متتصل سے تبصرہ جات کی لڑی میں تبصرہ کرتے مجھے آگاہ کردے
تبصرہ جات کی لڑی
 
مدیر کی آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
متلاشی روح کا سفر


زندگی میں سچائی کی جستجو میں متلاشی روح کا سفر ازل سے ابد تک محیط ہوتا ہے . لامکاں کی بُلندی سے مکاں کی پستی کے درمیان ارواح اپنے سفر میں آزمائشوں سے کامیابیوں کی جانب رواں دواں ہوتی ہیں جیسے پرندوں کی ٹولیاں غول در غول خود میں مگن رفعتوں کی جانب پرواز کیے ہوتی ہیں تو کہیں کچھ پرندے پہلی پرواز میں انجانے اندیشے میں مبتلا ہوتے ہیں مگر اس کے ساتھ خُوشی کا خُمار سُرور کی منزلیں طے کرائے دیتا ہے . آسمان کی بُلندیوں سے پرے رنگ و نور کا جہاں ہے . اس میں کھُو جانا سالک کا کام نہیں ہے بلکہ ان سے سبق حاصل کرنا ہی عین زندگی ہے . محؒل کے پار ایک وادی ہے جس میں دہکتے ہوئے انگارے ہیں جو اپنی ہیئت میں سرخ نارنجی رنگت لیے ہوئے ہیں ان سے نکلنی والی چنگاریاں خوف کی کیفیت طاری کردیتی ہیں اور محل کی خوبصورتی اس وادی کو دیکھ کے اور بڑھ جاتی ہے . محل کی ابتدا میں یاقوت کی سیڑھیاں ہیں . ان سیڑھیوں پر قدم زائر احتیاط سے رکھ کہ پرواز بلندی تک ہونی چاہیے .راستے کبھی بھول بھلیوں میں گم ہونے سے نظر نہیں آتے بلکہ یقین کے راستے پر سفر کرنے سے حاصل ہوتے ہے ...

''اے خاک نشین !
''تیرا یقین تیری سواری بن چکا ہے'' .''اب منزل تک پہنچ تاکہ عین الیقین سے ہوتے تجھے وہ نظارے دیکھنے کو ملیں کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیاں جاتی ہیں .'اب اُس کا انتظار ختم ہوا جس کے لیے برسوں تو نے انتظار کیا ہے . اب رخت سفر باندھ ''!

اٹھ خاک نشین !
قدموں کی لڑکھڑاہٹ کی پروا نہ کر ! اپنے اندر جھانک اور نور کے نظارے میں گُم رہ اور اعتماد کے ساتھ میری طرف آ ! میرا پیار تجھے بُلاتا ہے ! میری رحمت کی آغوش میں آجا ! محبت لے جا اور عشق بانٹ دے .

محبت کی میراث لے جا مگر یاد رکھیں !

''آزمائشوں کا سمندر پار کرنا پڑے گا مجھ سے دوبارہ ملنے کے لیے مخلوق سے عشق کرنا پڑے گا . تیرے اشک جو میری یاد میں بہتے ہیں مجھے محبوب ہیں مگر اس زیادہ محبوب تر کام یہی ہے کہ مخلوق کا ہو کے عین الرضا کے مقام کو پہنچ تاکہ عدم کی مٹی تجھے نصیب ہو تبھی تیری خواہش کو قرار آئے گا اور تجھے وصل کی ٹھنڈی چھاؤں نصیب ہوگی .

محبت والے عشق کا سمندر پار کر گئے
عقل والے بے عقلوں سے بڑھ گئے
آجا ! عشق کی بازی کھیل لے
اپنا دامن ابدی مسرت سے بکھیر لے
مقصد ء حیات پورا کرلے

محل نور کا کس کو ملتا ہے ؟ وہ جو محبوب پر شاہد ہوتے ہیں . اپنے خون سے لوح و قلم پر لکھا عمل میں لاتے گواہی دیتے ہیں کہ رب یکتا و واحد ہے . اس کا کوئی شریک نہیں ہے . وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا. جب کچھ نہ تھا تب بھی وہ تھا اور جب کچھ نہ ہوگا تب بھی وہی ہوگا . اسی ذات کو قرار ہے جو یہ کائنات رواں دواں کیے ہوئے ہے . وہ چاہے تو آسمان کی رفعتیں نواز دے اور وہ چاہے تو پستیوں میں گرادے . وہ چاہے تو شیطان کو ولی بنا دے وہ چاہے تو ولی کو شیطان بنا دے. وہ چاہے تو نفس پرست کو عامل کامل بنا دے اور وہ چاہے تو عامل کامل کو نفس پرست بنادے وہ چاہے تو دنیا میں کوئی صدیق ہی نہ رہے اور وہ چاہے تو دنیا صدیقین سے بھر جائے . وہ چاہے تو دنیا سے سرداری اٹھ جائے اور وہ چاہے تو دنیا میں نائب کا عمل دخل ہو جائے . وہ چاہے تو کیا نہیں ہوسکتا ہے. و چاہے تو نائب کو سردار بنادے اور سردار سے محبوب بنادے . وہ چاہے تو پستی میں گرادے جس کی انتہا کوئی نہیں ہو مگر وہ اپنے محبوب کو گرنے نہیں دیتا . محبت شے ہی ایسی ہے کہ اس کا امر اپنے بندوں کو کشش کیے رکھتا ہے اور وہ اصل کی طرف لوٹ جاتے ہیں .​
 

نور وجدان

لائبریرین
لم یاتی نظیر .... کوئی ثانی نہیں تمھارا؟
اس بات کو ماننے میں حرج کہاں مگر اے نور لطیف!
جو کثافتیں دھو ڈالے
دلوں میں الوہیت کے چراغ روشن کرے.
اے لاثانی!
وہ آسمان پر ....!
اور نور لطیف زمیں پر ...
تم سے کتنے آئینے نکلے​
تمھارے آئینے سے نکلا "نور " اور آسمانی "نور " ایک جیسا ہے. اس سلسلے میں مرکز "تم " اور مرشد بھی تم اور قبلہ نما بھی تم، میرا قطب نما بھی تم.میرے دل کی دھڑکن سے پیدا ہونے والی آواز بھی تم ہو اور موت کی آخری ساعت کا انتظار بھی تم ہو ۔اس کےباوجود ۔۔۔اے دو جہانوں کے سردار !​
اے ذی وقار !
اے آئینہ دو جہاں​
اے شیش نگر ۔۔۔ محل بنانے والے میرے زباں پر اک سوال آیا ہے ۔ ہمت کرکے محفل مقدس میں پوچھنا چاہتی ہوں ۔ مجھے امید ہے لاچار کی آواز پر اعتراض نہ ہوگا۔ ایک گناہ گار ہوں ۔ کہے دنیا سیاہ کار ہوں​
ایک سوال کرنا ہے؟
''کرو، شوق سے کرو، اجازت ہے.۔۔۔۔۔!!!​
میں کسی آئینے میں "یہ " عکس پاتی. میرا شوق بڑھتا ہے کہ میں تمھارا آئینہ ہوتی اور ہر سو مجھ میں "یہ " دیکھتی. مگر میں ہوتی تو۔......؟ مجھے آئینہ ہونے کی خواہش ہے.میرے پاس وضو کے لیے پانی نہیں، بنجر زمین ہے، ہرہالی کا نام و نشان نہیں ہے۔
""یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تم میں چھپا ہے۔.ہر روح آئینہ ہے جس کا وعدہ "قالو بلیٰ " کی صورت میں ملا. اس عہد کی ہر ذی نفس کو ضرورت کو تجدید کی ضرورت ہے کیا ہر بچہ دین فطرت پر پیدا نہیں کیا گیا ۔ ؟ جب تم من میں جھانکتے نہیں تو سوال تو اٹھیں گے. خود کے سمندر میں ڈوب کر دیکھو.من میں غوطہ زن ہو کر غوطہ خور بن جاؤ اور اس گیان کے ساتھ جہاں کی دید کرو ۔ سارے سوالات ختم ہوجائیں گے۔​
مرشدی!
سیدی!
''میری روح نے یہ وعدہ خاکی بستر میں آنے سے پہلے کیا اور جیسے ہی لطافت کے اوپر گرد چڑھی . کچھ نظر نہیں آیا. مجھ میں بصیرت ہے نہ بصارت!!! کیا کروں ... ؟ تجدید کی ہی طلب گار ہوں ۔۔۔ !​
میری حالت تو ایسی ہے کہ مجھے خود پر یہ گمان ہوتا کہ :
صم بکم عمی فہم لا یر جعون.۔۔
اندھے، بہرے ،گونگے جن کے دل طلاق کھا چکے. تالے کھلتے نہیں ہیں . ہائے! کون کھولے گا یہ تالے؟ ۔دکھ دکھ دکھ، ان کو کھول دیں ..آزادی میں حیاتی ہے. مجھے میری اسفلیت سے نکال دیں. اسفل سافلین سے بچا لیں.
"سنو "
''سفل .... لفظ۔۔۔۔۔ ''
خاک کو زیب نہیں کہ وہ سفل کا مقام خود دے. یہ وہ مقام جو "عین " سے دور ہوجانے والے کو ملا یہ اس کے حواریوں کو۔ یہ مقام ابلیس کا ہے ۔ یہ مقام فرعون کا ہے اور اسی مقام پر نمرود و شداد نے اپنی زندگیاں گزاریں اور قارون ہو یا ابو لہب ۔ ۔۔ یہ مقام انہوں نے اپنے لیے خود چنا ہے ۔​
''خاکی۔۔۔''
تجدید کی کنجی توحید ہے ۔ ''احد '' کو اپنے دل میں بسا لے اور صنم خانہ مٹادے ۔ تیرے صنم خانے میں جب ایک ہی قسم کی شراب کی نہر جاری ہوگی تب تجدید کے سوال و جواب کی ضرورت نہیں رہے گی
تم اپنا مقام خود چننا چاہو گے تو رسوا ہوجاؤ گے انہی کی طرح ۔۔۔ !!

تم نے اپنا مقام عقل و شعور کے دائرے سے اخذ کرنا ہے نہ کہ اس طرح کے گمان پال کر ۔خود کو سفل کہ کر اپنا مقام مت گرا. تیرے اندر بسا نور ہے. اس نور کا تقاضہ اس بات کے مانع ہے ........۔جب اس گمان سے نکل کر شہادتوِں کو دیکھ کر شاہد بنو تو واحد کو پہچانو گے اور اس معرفت میں جو شہادت تمھارے من سے ابھرے گی وہ تیری پہچان بن جائے گا. جتنا شاہد انسان بنتا جاتا ہے آئینہ پر عکس منعکس ہو جاتا ہے جتنی شہادتیں شدت سے نکل کر تیرے وجود سے منقسم ہوں گی اور تیرا قطرہ قطرہ شہود کا عکس ہوگا، تب تیرا دل آئینہ ہوگا. تم کو تب مانگنے کے بجائے دینا ہوگا.​
 
مدیر کی آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
کون جانے محبت کا درد


پیشِ حق مژدہ شفاعت کا سناتے جائیں گے
آپ روتے جائیں گے ، ہم کو ہنساتے جائیں گے

حضور ﷺ پرنورﷺ اس دنیا کی رحمت ہیں . اس رحمت کو دو عالم لیے مقیم کر دیا گیا ہے . اس جہاں میں بھی ''وہ'' رحمت اور روزِ محشر بھی رحمت کے سبب عالم کو فیض ملا کرے گا. کیسا روحانی فیض ہوگا وہ جس کے لیے ''حق'' نے قرانِ پاک میں ہمیں خود آگاہ کر دیا. ہمیں نشانیاں کھول کھول کر بتائیں تاکہ ہم اپنی راہیں متعین کرلیں . ہم اس محبت کو حق کیسے ادا کریں گے ؟ بھلا کس محبت کا....َ؟


اس محبت کا ، جو ہمارے آنے سے پہلے ، ہماری پیدائش سے پہلے ، ہمارے مسلمان و کافر ہونے سے پہلے ، ہماری سنی اور شیعہ ہونے سے پہلے ہی ودیعت ہوگئی . اس محبت کو نعم البدل تو ''ہم'' انکار کرکے کر رہیں .. اور کوئی انتہا درجے کی توہمات میں مبتلا ہوکر... جب محبت کا انکار کر دیا جاتا ہے ، تو 'محب'' کو بڑی تکلیف ہوتی ہے ...!!

وہ پاک ذات ﷺ جو اللہ تعالیٰ کی محبوب ہے ، اس جہاں کو یکساں محبوب رکھتی ہے . کیسے ...! بابا بلھے شاہ رح کو ان کے استادِ گرامی نے مسجد میں بوقت جمعہ مٹھائی کی تقسیم کا کہا. آپ نے پوچھا..

اے محترم ! کس طرز پر تقسیم کروں : اللہ تعالیٰ کی طرز پر یا حضرت محمدﷺ کی طرز پر.... یہ سوال استادِ گرامی سمجھ نا پائے اور کہ دیا اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر .. .! اور آپ نے تقسیم میں ''تضاد'' رکھا..! استاد محترم نے ''تضاد'' کی وجہ ٌوچھی تو کہا اللہ کی تقسیم تضاد پر چلتی ہے اور نبی کی تقسیمﷺ مساوات پر.....! اللہ تعالیٰ کے دینے اور نہ دینے میں حکمت پوشیدہ ہے اور شکوہ مناسب لگتا ہی نہیں جبکہ نبیﷺ کی تقسیم میں میں مساوات ہے .. جو آئے گا ، جس طریق کا پیروکار ہوگا اس کو جناب نبی پاکﷺ سے مساوات کی بنیاد پر ملے گا اور اس مساوات سے دنیا میں محبت کا رنگ ایسا نکھرنا ہے ، ایسا نکھرنا ہے کہ سب کا طریق ہی ایک ہوجانا ہے .. سب کا قبلہ ہی ایک ہوجانا ہے ... سب نے راستہ سیدھا کر لینا .... یہ محبت کو تقاضہ ہے اور اس تقاضے کو ہم بھلا بیٹھے ہیں .. یہ تقاضا کیا محبت کی جہاں میں ترغیب نہیں دیتا ؟ دیتا ہے...! کوئی سمجھے تو سہی ...! کوئی مانے تو سہی ...! کوئی تو سمجھے ...! سمجھنا بالکل اسی طرح جس طرح '' جاننا اور نہ جاننا'' برابر نہیں ہوسکتا ہے َ؟

جو آپﷺ کی محبت کا دم بھرے گا اس کو ایک نعمت سے نواز گیا .. وہ جامِ لبالب یونہی نہیں ملے گا... اس کے لیے سمت کو درست کرنا لکھ دیا گیا.. جو حوضِ کوثر پی لے گا وہ انعام کا مستحق ہوگا....! کسی کے یہ '''انعام '' جنت ہوگا اور کوئی شافع کے درجے کو پہنچ جائے گا.. انعامات کیا کیا ہیں یہ تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے سوا کوئی نہیں جانتا مگر جو جان گیا اس کو واپس پھرنا یا لوٹنا اچھا نہیں ہوگا اور وہی دین کے مرتد ہیں اور ایسے لوگوں کے لیے اللہ پاک نے قرانِ پاک میں سورت التوبہ ' میں''براءت کا اظہار کیا ہے .. براءٹ کا معانی ہے 'بیزاری '' ... اللہ بھی بندوں سے بیزار ہوا کبھی ... کیسے نہ ہو... دیکھئے ذرا... ! جب شب ِ براءت آتی ہے تو کون گناہوں سے بیزار ہوتا ہے اور کون اس کو '' شادی '' کا عندیہ سمجھتا ہے .. سوچیے ..! قرانِ پاک میں سوچنے والوں کے لیے جگہ جگہ نشانیاں ہیں اور جو سوچ نہیں سکتے ان کے دل ''طلاق'' کھا چکے ہیں .. طلاق کے بعد '' رجوع '' کیسا... اس لیے اللہ تعالیٰ بندوں سے بیزار ہوا.. اور ان کا داخلہ خانہ کعبہ میں ممنوع کردیا کہ یہ منافقت کرتے .. ایک طرف حاجیوں کو پانی دیتے ہیں اور دوسری طرف آنحضرت رسالت مآب کی شان میں باتیں کرتے ہوئے گستاخ بن جاتے ہیں ... سوچنا تو یہ ہے کہ گستاخ کے ساتھ سلوک کیسا ہوگا آپ کا...

ہمارے پیاری نبیﷺ گستاخ کو بھی حبیب رکھتے ہیں کہ ایک دن ، ایک دن اس نے رجوع کرنا ، اس نے لوٹنا ہے ، اس کے دل پر ابھی ''مہر' نہیں لگی اور جب وہ رجوع کریں گے تو ان سے اچھا کوئی نہ ہوگا.. اپنی امت سے یہ محبت ''تمثیلی '' ہے کہ اس محبت کا ثانی کوئی نہیں ہے .. محبت میں بڑا درد چھپا ہوتا ہے مگر کون اس درد کو سمجھتا ہے .. رسول پاکﷺ کو ایک حبیب جناب سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رض کی صورت میں ملا .. جو ''ثانی الثنین '' کا لقب پایا گیا.. کہ ''دو بندے'' ہی غارِ ثور میں تھے اور دوجا کوئی نہ تھا.. معراج کے وقت جب دوذخ و جنت کی سیر کرائی گئی تو اللہ تعالیٰ نے جناب حضرت ابو بکر صدیق رض کی شکل کا فرشتہ بھیجا اور اس کی رفاقت میں رسول پاکﷺ نے دوذخ کی سختیوں کو دیکھا.... کون جانے گا محبت کا درد .. کوئی نہیں جان سکتا اور جو جان لیتا ہے وہ رجوع ہی کرتا ہے وہ کبھی واپس نہیں لوٹتا اور نہ ہی وہ مرتد ہوتا ہے !​
 

نور وجدان

لائبریرین
خودی کا مشاہدہ
اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پیدا کیا ہے اور اس پیدا کرنے کا مقصد کیا ہے ۔ اس سوچ میں گُم میری ذات اکثر اوقات باطن کا مشاہدہ کرتی ہے ۔میرا وجدان مجھے بسیطِ روحانی کے پاس لا کھڑا کرتا ہے ۔ میں یہاں پر کھڑی سوچتی رہتی ہوں کہ اس سے آگے کیا ہوگا ؟ جیسے پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا شخص اگلی بڑی چوٹی کا متلاشی ہوتا ہے ۔عشق کی مثال بھی ایسی ہے ، یہ تن من سلگاتی ہے ۔ تن کے سُلگنا مٹی کو روشن کر دیتا ہے ۔ تن ----مٹی ----مٹی کا کام کیا ہے ؟ مٹی کا کام مٹی ہونا ہے ۔جس نے سورج بننا ہے اس نے روشنی دینی ہے اور جس نے چاند بننا ہے اُس نے روشنی لینی ہے ۔ سورج قطب نما ہے ہے جو سمت بتاتا ہے ۔ چاند کا کام کیا ہے ؟ سمت لینا ہے ۔ روح اللہ کا نور ہے اور اس کا جزو ضمیر ہے ۔ ضمیر سورج ہے جو سمت دیتا ہے جبکہ نفس چاند کی سی مشابہت رکھتا ہے جس کا کام سمت لینا ہے ۔

ایک عالم مجھ میں بسا ہے
میں خود میں ایک عالم ہوں

آگہی کے در مجھ میں وا ہوتے جا رہے ہیں ۔ کائنات کا سب سے بڑا دُکھ آگہی ہے جس جس کو ملتی ہے وہ روشنی پاتا ہے مگر اس کی روح بے قرار ہوجاتی ہے ۔ روح جو ہجرت میں ہوتی ہے وصال کے لیے تڑپنے لگتی ہے ۔ اس کی آرزو ہوتی ہے کسی طرح وصال ہو جائے ۔ یار کے روبرو ہوتے دیدار ہوجائے ۔ ہر نفس آئینہ ہے یعنی کہ ہر نفس خود میں آفتاب ہے مگر کون جانے اس حقیقت کو اور جو جان لے محبت کا احساس کیا ہے وہ کبھی ہجرت پر آمادہ نہیں ہوتا مگر اس کی اساس ہجرت ٹھیری ۔۔۔! درد کی ٹیس کیا ہوتی ہے ۔۔! دل نکلے تو مزہ آتا ہے مگر کچھ بھی تو اختیار میں نہیں ہوتا اور اگر اختیار میں ہوتا بھی تو کیا ہوتا ۔۔ انسان کا نام جھک جانے کا اور مٹ جانے کا۔۔۔!مٹنا چاہیں تو کیسے ۔۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈ کر مٹ ہی جائیں تو اچھا ہے ۔۔

وصلِ سوزِ موج نے دیوانہ کیا
آشیانہ شہرِ دل کا ویرانہ کیا
قطرہ قطرہ زہر کا قلزم بن گیا
درد نے اب حال سے بیگانہ کیا
نور ؔ نے شیشہ محل کرچی کر دیا
اُلجھنوں نے بے طرح دیوانہ کیا
رتبہ محشر میں شہادت کا پاؤں گی
اب اجل نے دار پر مستانہ کیا
مے کدے میں جلوہِ حق کو دیکھ کر
سات پھیروں نے مجھے پروانہ کیا
شرم ساری ختم کیسے ہو عصیاں کی
رب! گلہ تجھ سے جو گستاخانہ کیا
صبح نو کی اک جھلک دکھلا دیجئے
ان غموں نے ذات سے بیگانہ کیا​

میرے گمان کی سرحدیں عہد الست کے عشق کے ڈوبی سازِ ہستی کی تجدید کا نغمہ چھیڑنے کی خواہش میں بھٹک رہی ہیں ۔ وہ سرمدی نغمہ جو تن کو میٹھے سُروں سے سراب کرتا الوہی شراب میں مست کرتا ہے ۔

لمحہ لمحہ ملا ہے درد صدیوں کا
ایک پل میں سہا ہے درد صدیوں کا
ساز کی لے پہ سر دھنتی رہی دنیا
تار نے جو سہا ہے درد صدیوں کا
چھیڑ ! اب پھر سے ،اے مطرب! وہی دھن تُو۔۔۔!
اب کہ نغمہ بنا ہے درد صدیوں کا
گیت میرے سنیں گے لوگ صدیوں تک
شاعری نے جیا ہے درد صدیوں کا
ہوش کر ساز کا قوال تو اپنے۔۔!
ہر کسی کو دیا ہے درد صدیوں کا۔۔۔!
میرا نغمہ ، مرا سُر ، ساز بھی اپنا
آئنہ سا بنا ہے درد صدیوں کا
میری ہی دُھن پہ محوِ رقص ہے کوئی ۔۔؟
ساز کس کا بنا ہے درد صدیوں کا ؟​

عہد تجدید کو یاد کرنے سے میری آنکھیں نم ہیں اور دل میں ہجرت کے غم میں گرفتار ہیں ۔ جی چاہتا ہے کہ اپنے دل میں موجود سبھی صنم خانوں کو پاش پاش کردوں ۔ میں نے جب ان کو ختم کیا ہے تب مجھے عشق الہی کی طرف جانے کا زینہ میسر ہوا ۔ میرے سارے درد نشاطِ کیف میں بدل گئے ۔ حق کی سمجھ آگئی کہ نور تو دل میں بسا ہے ۔ میرے دل کیا خود کو طواف شروع کردوں کہ کعبہ تو میرے دل میں ہے ۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ سجدہ ِ حق کیسے ادا کروں ۔ میری خواہش ہوئی کہ روح جسم سے نکلے اور باطن میں موجود کعبے کا سجدہ کرے کہ اصل سجدہ تو وہ ہے ۔ اس طرح کی خالی نمازیں پڑھنے سے کیا ملتا ہے ۔۔۔


روح کی حقیقت ہے لا الہ الا اللہ
نفس کی قناعت ہے لا الہ الا اللہ
شمس کی دَرخشانی پر ،قمر کی تابش پر
یہ رقم شہادت ہے لا الہ الا اللہ
آسمان کی عظمت پر زمیں کی پستی پر
نقش یہ علامت ہے لا الہ الا اللہ
قلب کی وجودِ فانی پہ گر ہو تسخیری
کرتی یہ دلالت ہے لا الہ الا اللہ
خالقِ جہاں کا بس نور ہے گیا مجھ میں
زیست کی صداقت ہے لا الہ الا اللہ
تار تار سازِ جسم کا ثنا میں ہے مصروف
تن کی بھی عبارت ہے لا الہ الا اللہ
اسمِ ''لا'' سے اثباتِ حق کی ضرب پر میرے
دل نے دی شہادت ہے لا الہ الا اللہ
روزِ حشر نفسا نفسی کے شور و غوغے میں
عفو کی سفارت ہے لا الہ الا اللہ
خون کی روانی میں نقش ''لا ''عبارت ہے
عبد کی عبادت ہے لا الہ الا اللہ



جب میں نے سورۃ الشمس کا مطالعہ کیا ہے تو ادراک کی راہیں مجھ پر کھلیں کہ قران پاک کی آیات ہر انسان کے لیے کھلی نشانیاں ہیں اور وہ ان میں اللہ کو خود سے کلام پاتا ہے یہیں پر انسان کا اپنی ذات سے مشاہدہ ہوتے ہے اور وہ خود میں اپنے اللہ کا جلوہ پا لیتا ہے ۔ واقعی سمجھنے والوں کے لیے اس میں کھول کھول کے نشانیاں بتائیں گئیں ۔

سورہ الشمس کی آیات میرے سامنے کھلی ہوئی ہوں اور میں سوچ رہی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے قسمیں کھائیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔سورہ—- الشمس—- کا موضوع قانون جزا و سزا کے حوالے سے قریش کے سرداروں کو طغیان اور سرکشی کے اُس رویے پر تنبیہ ہے جو دعوت حق کے مقابلے میں وہ اختیار کیے ہوئے تھے۔

سورج کی قسم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ پوری تابانی سے روشن ہو
چاند کی قسم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ سورج کے گرد مداروی حرکت میں ہو
اور پھر۔۔۔۔قسم نفس کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کو الہام کی قوت دی تاکہ اچھائی اور برائی میں فرق کرسکے

سورج ، چاند ، دن اور رات میں ہر چیز کی ہیئت اور ان کی بناوٹ ، مزاج اور اس کائنات پر ان کے اثرات میں بڑا فرق ہے ۔ جس کے سبب دنیا میں اضداد ایک رزم گاہ معلوم ہوتی ہے لیکن مدبر کائنات نے اسی تضاد کو اس طرح سے عالمِ دو جہاں میں فٹ کیا ہے کہ مجال نہیں کہ کوئی شے دائرے سے نکل ہائے ۔ نہ سورج چاند کی حدود میں نہ چاند سورج کی حدود میں مداخلت کرتا ہے نہ دن کی مجال یہ کہ وہ وقت سے پہلے نکلے اور نا رات اپنے وقت معین سے پہلے ظاہر ہوسکتی ہے ۔ کائنات کے یہ سبھی مظاہر اپنے فرائض بخوبی انجام دے رہے ہیں ۔
’لَا الشَّمْسُ یَنبَغِیْ لَہَا أَن تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ‘ (یٰسٓ ۳۶: ۴۰)
(نہ سورج کے لیے روا کہ وہ چاند کو جا لے اور نہ رات ہی دن سے سبقت کرنے والی بن سکتی)۔


ان اضداد کی یہ باہمی سازگاری ہی ہے جس پر اس کائنات کے بقاء کا انحصار ہے۔ اگر اس سازگاری و فرماں برداری کے بجائے ان کے اندر طغیان و سرکشی پیدا ہو جائے تو یہ عالم چشم زدن میں درہم برہم ہو جائے۔ اس وجہ سے خالق کائنات نے ان کو ان کے حدود کا پابند کر رکھا ہے اور یہ اپنے وجود سے زمین پر بسنے والوں کو یہ درس دیتے ہیں کہ وہ بھی خدا کے مقرر کیے ہوئے حدود کی پابندی کریں۔ اگر وہ اس کی خلاف ورزی کریں گے تو زمین میں فساد برپا کریں گے اور زمین کا خداوند ان لوگوں کو گوارا نہیں کرے گا جو اس کے ملک میں فساد برپا کریں گے۔ ان سب کا ایک مدار میں حرکت کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس زمین کا مالک و خدا ایک ہے کہ اگر اس کائنات کے دو خدا ہوتے تو کائنات کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ جب بھی قسمیں کھاتے ہیں ان قسموں میں دیے گئے احکامات کو حکمت و استدالال سے سمجھاتے ہیں ۔

ان سب کی قسمیں کھانے کے بعد آخری قسم جو کھائی ہے وہ انسانی نفس کی جس کو ضمیر کی طاقت دی یا نفس دینِ فطرت پر پیدا ہوا ۔ اگر وہ ان نشانیوں پر غور کرتے ، ضمیر کے بتائے گئے راستے پر چلتے خود کو اچھا رکھے تو اس کے لیے اجر مگر وہ اپنی نفسانی خواہشات میں پڑا رہے تو اس کا حال بھی وہی جو قومِ ثمود کے ساتھ اللہ نے معاملہ کیا جب اونٹنی کے بارے میں اللہ کے پیامبر کا پیغام جھٹلا دیا گیا ۔ ایسے لوگوں کو عبرت کے لیے قصے سنائے گئے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے ساری قسمیں اشرف مخلوق کو سمجھانے کے لیے کھائیں ۔ ان قسموں میں تضاد ایک پہلو ہے اور درحقیقت تضاد ہی کائنات کا حسن ہے ۔ اس سورہ کا نام شمس ہے جس میں روشنی کا منبع یا کائنات کو چلانے والی ہستی سورج ہے ۔ اس استدالال کو استعمال کرتے ہوئے انسانی روح کی مثال بھی بصورت سورج ہے اور انسان خود میں کائنات ہے ۔ انسانی جسم کی نمود زمیں سے جبکہ اس کی روح کا امر آسمانوں پر کیا گیا ہے ۔ روح امر ربی ہے اور اس نور کا کام چمکنا ہے ۔

﴿ اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾

روح کو جب جسم فانی میں داخل کیا تو اس کو ضمیر کی قوت بخشی تاکہ وہ اچھے اور برے میں فرق جان سکے ۔انسانی روح کی مثال سورج کی سی ہے اور ضمیر اس کا جزو ہے ۔ روح نور کی تجلی لیے ہوئے ہے اور جب جسد خاکی میں ڈالی گئی تو لطافت پر کثافت نے اس کو دھندالا دیا ۔۔اس کو روشن انسانی ضمیر کرسکتا ہے جو عقلی استدالا ل سے اچھے اور بُرے کی تمیز سکھاتا ہے ۔انسانی نفس شر و خیر کا آمیزہ ہے اور روح کی مثال سورج کی سی ہے اور ضمیر اس کا جزو ہے جو روح کو روشن کرتا ہے اس ضمیر کے گرد اگر انسانی نفس مداروی حرکت میں رہے تو اس کی ہستی سورج کی سی ہوجاتی ہے جو دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بن جاتی ہے ۔ نفس اور ضمیر کی آپس میں کشمکس رہتی ہے اور جو لوگ نفس کی تسخیری میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ خود میں سورج ہوتے ہیں ۔ میرے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مثال سورج کی سی ہے جس سے پوری کائنات منور ہے ۔ ان کے بعد اصحاب و اولیاء جن کی ہستیاں سورج کی مانند باقی کائنات کو منور کرتی رہیں ۔ وہ رہنما ہوئے اور لوگ ان کی پیروی کرتے رہے جیسے تمام اجرام فلکی سورج کے گرد گھوم رہے ہیں ۔ ہر نفس انسانی خود میں سورج ہے اگر وہ خودی میں جھانکتے ہوئے اپنی نفی کرتے ہوئے اللہ کی رضا پر چلتے لوگوں کی رہنمائی کرے ۔ میں نے اللہ کی روشن آیت سے حکم کو پالیا ہے اور اگر اس پر عمل کروں تو گویا میں نے طاعتِ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی یعنی کے اللہ کی اطاعت کی ۔ اپنی خودی میں مجھے اپنا رب ، اپنے رب کی ربانیت کا مشاہدہ ہوا ۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
میرا عشق گستاخانہ


میرا عشق گستاخانہ
میرا جسم ضوخانہ
میرا دل ہے میخانہ
جل کر بھسم ہوتا
آگ سے تن سلگانہ
میری آنکھ میں وضو
مل گیا ہدایت نامہ
کروں شکوہ ملحدانہ
تری نظر ہے کریمانہ
منظور جل کے مرجانا
اے میرے کبریاء جاناں
اب تو بنادے دل میخانہ
شروع ہوا ہےمسیحانہ
نظر ِ کرم ہو ہو تجلیانہ
اے جان !میری جانِ جاناں

عشق سے گستاخی ہوگئی اور شرم سے سر جھک گیا۔ عشق نے ہجر سے وصل کی خاطر تن میں آگ جلا لی ۔ آگ ایسی جلی کہ پورے بدن کو جلا کر راکھ کر دیا۔ اور عشق سے توقع کیا ہو؟ جیسے لکڑی کی راکھ بچے ، کچھ عشق کی بربادی نے کچھ نہ چھوڑا۔ سب کچھ ختم ہوگیا۔ عشق کو حجاب نہ آیا اور گستاخ عشق نے نین سے نین ملا کر رقص کی بازی شروع کردی ۔ عشق بھڑکا کہ شعلہ کوندھا ۔ سب کچھ بھسم کر کے لے گیا ۔

سوال یہ عشق گستاخ کیوں ہوتا ہے ؟ کچھ ایسا درجہ عشق کو محب کی نگاہ میں حاصل ہو جاتا ہے کہ سب بے حجاب ہوجاتا ہے ، سارے نقاب اتر جانے کے بعد عشق کو خود پر قابو نہیں رہتا اور وہ رقص کرنا شروع کر دیتا ہے ۔

ایک دن میں نے عشق سے پوچھا۔:
اے عشق ! اتنا تو بے قابو کر دیا ہے ۔
اب ہوش میں کیوں رکھتے ہو۔۔؟
میخانہ کو پیمانہ میں کیوں بدلتے ہو۔
عشق ہوتا ہے نا گستاخ ۔۔۔
کر دی گستاخی ۔۔۔!
عشق بولا۔۔۔۔۔
میخانہ ہی پیمانہ اور پیمانہ میخانہ
فرق نہ جان تو دیوانے کا دیوانہ
مان جا تو اب تیرا دل یے اب فقیرانہ
پی ، پی کر بھی ترا دل ہے کیا ویرانہ ۔۔!!

اس کی مستی کے آگے جواب کیا ۔۔۔؟ عشق تو وہ انتہا ہے ، جس کی انتہا ہی نہیں ۔ یہ وہ جگہ ہے جس کو کوئی پہنچ جائے تو مقام اس کا کبھی گرتا نہیں ہے ، اب مسئلہ یہ ہے محبت عشق کا درجہ حاصل کیسے کرے ، محبت کی قربانی اسے عشق کے درجے تک پہنچا دیتی ہے ۔ دل تو سوچ میں پڑ گیا کہ عشق کے درجہ تک کیسے پہنچا جائے ۔

دل نے ٹھان لی ہے کہ اب تو آگے جانا ہے کہ اب پیچھے رہنا نہیں ہے ، بہت وقت کھو چکا ہے ،
محبت ، اے محبت ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
وجود کی نفی کر دے
اے محبت! سب کچھ ختم کردے
مٹادے! وجود کی خاک سے
سب نقش مادیت کے!
مگر مادیت کو رہنے دے۔
اس طرح کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔،
دل اور روح اس مادے کے اندر
یکجا رہیں
جیسے پارہ اندر پیمانہ کے ۔۔!

ہستی جل رہی ہے کاغذ کی کالک سیاہی بن کر اڑ جائے گی ، اس سیاہی میں چھپی "ضو" جگہ جگہ پہنچے گی ۔ دل کا مادہ جتنا پگھل پگھل کر پیمانے میں پارہ کی طرح ٹوٹ کر بکھرا گا ۔ اسکی گرمائش سے جہاں کے سرد خانوں کو روشن و گرم ، تازہ کر دے گا۔
محبت جب یہ کام کر چکے گی تو عشق کا '' عین'' پالے گی ۔ ہر بڑا کام قربانی مانگتا ہے ۔

دل سے تاریکی کے سارے پردے اٹھتے جا رہے ہیں ، جب عشق کی داستان اور قربانی کی بات سن لی تو سوچا۔۔۔

دنیا میں سب سچا ہے
دنیا میں یہ وجود مایا
اس مایا نے کیا پانا
اگر جاں دے نہ نذرانہ
اور چھلکے نہ میخانہ ۔


میخانہ چھلکنے کو بے تاب ہے مگر وہ مقام پہنچا کہاں کہ چھلکے جام اور بکھر کر بھی بکھرے نا۔!!! حقایت عشق و محبت کو بیان کرنے کے لئے لفظ تھوڑے پڑ جاتے ہیں۔ بس کچھ یاد رہتا ہے تو ۔۔۔۔۔

والیل ترے سایہ گیسو کا تراشا
والعصر تری نیم نگاہی کی ادا ہے

سورج کی دن سے رخصتی بھی محبت میں ہوتی ہے اور رات کو حجاب عشق کے سارے نقاب ، بے نقاب ہو کر بھی پوشیدگی میں رہتے ہیں ۔ محبت و عشق میں دنیا باندھی و لونڈی ہوتی ہے ۔ اس کو اشارہ کرو ، یہ کبھی پاس بھی نہ پھٹکے گی ۔۔۔۔ ! اشاروں اور کنایوں کی گفتگو سورج و چاند ، دن اور رات سمجھنے لگتے ہیں ۔۔ تب محبوب کے لیے تشبیہات و استعارے شروع ہوجاتے ہیں ، اس کی گھنیری زلفوں کی شان رات کا حسن تھوڑا پڑ جاتا ہے ، اس کی نیم وا مست نگاہی مدہوش کرنے کا اختیار رکھتی ہے ، جیسے دنیا میں روشنی کا احساس باقی ہو ، عشق کا نشاط باقی ہو ، درد کا خمار باقی ہو اور باقی اگر کچھ ہو نہ ہو تو وہ اپنی ذات نہ باقی ہو،۔۔۔!!


اس سفر کی جستجو ہے
بلبل بھی تو خوش گلو ہے
جس سفر میں وہ روبرو ہے
اس کی دید کی طلب میں
اکھیاں میری باوضو ہیں ۔
اب تو جنون کی حقایت میں
پھلنی چار سو یہ خوشبو ہے
اس طرح سے مجھے پھونک دے
اے میرے عشق !
گل گل کو ملے میری خوشبو
رنگ رنگ نکھرے اس ضو سے
پراوانے کو بس شمع کی آرزو​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
کبھی کبھی لکھتے ہوئے آنکھ نم ہوجاتی ہے اور آنسو دل میں گرتے ہیں ۔ یہ آنسو جو باطن میں گرتے ہیں ایک آگہی رکھتے ہیں ۔ اس آگہی کو کوئی نام نہیں دیا جاسکتا ہے ۔ اپنے اندر انسان جب جھانکنا شروع کرتا ہے تو اس پر راز عیاں ہوتے ہیں ۔ ایسے راز جو اس کے باطن کو دھندلا کیے ہوتے ہیں ۔ اس کے گناہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے گناہوں سے بھرپور باطن اور دنیا کا پرنور چہرہ مجھے کائنات کی پہچان کرا گیا ہے ۔ ایک کائنات انسان کے باطن میں ہوتی ہے اور ایک کائنات انسان کے باطن سے پرے ہوتی ہے ۔ اندر کی دنیا بھی تب بنتی ہے جب باہر کی دنیا کی آیتوں سے آیتیں ملاتے نشانیاں حاصل کرتے ہیں ۔


بچپن کی بات ہے جب تین چار سال کی تھی تو سوچا کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ تین گناہوں سے پہلے معاف کر دیتا ہے ۔ابھی میں نے گناہ نہیں کیا ہے اور کبھی گنتی کہ ایک گناہ کیا ہے اور اس گناہ کی معافی مانگ کے سوچا کرتی کہ میرا تو اب کوئی گناہ ہی نہیں ہے ۔۔۔ ایسی سوچ ۔۔۔ایسی امید---ایسی توقع میں نے مالک سے اب کیوں نہ رکھی ! دوستو ! ہم اللہ کو اتنے قریب سے بچپن میں دیکھتے ہیں اور جوانی میں بھُول جاتے ہیں ۔ جب کچھ ماہ گزرے تو سوچا کرتی کہ دو بہن بھائی جو میرے اسکول میں پڑھا کرتے تھے یہ اللہ کے قریب ہیں کیونکہ ان کے چہرے میں معصومیت ہیں جیسے کہ انہوں نے کوئی گناہ کبھی نہیں کیا ۔ تین سال اور گزرے تو قرانِ پاک ختم کرنے کے مراحل میں تھا ۔ تب میں سوچا کرتی تھی کہ اللہ میرے قران مجید پڑھانی والی ''بی بی'' میں ہیں ۔ ان کے چہرے کا نور سوچنے پر مجبور کردیتا تھا کہ اللہ ان کے چہرے سے جھلکتا ہے اور پھر سوچتی کہ ان کی تو ساری زندگی قران پاک پڑھانے میں صرف ہوئی جو کہ ترجمہ ء تفسیر کے ساتھ قران پاک پڑھایا کرتی تھیں ۔ ان کا کھانا پینا ، ان کا چلنا اٹھنا ، بیٹھنا سب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرانی آیات کے ورد اور سمجھانے میں گزر جاتا اور میں سوچا کرتی کہ اگر انہوں نے کوئی گناہ کیے بھی ہوں گے تو ان کے اچھے اعمال کی سبب دُھل گئے ہوں گے ۔۔۔ ہائے ! ایسے لوگ محبت والے ! جن کے چہروں پر نور جھلکتا ہے کیونکہ وہ خود میں نور کا خزینہ لیے ہوئے ہوتے ہیں ۔


اپنے گناہ کا خیال تب آیا جب مجھے سورہ العصر سمجھ آئی ہے ۔ ایسی دل پر لگی کے سب پڑھنا چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔۔جو اس کا مفہوم سمجھ جائے وہ کبھی گناہ نہ کرے اور مجھ جیسے خطا کار سیہ کار۔۔۔۔۔۔۔۔جن کے اعمال نامے گناہوں کے پلڑے سے بھاری ہیں تو احساسِ زیاں ہوتا ہے کہ ہائے! ہائے ! میں اگر بچپن میں قران پاک کو ٹھیک سے سمجھتی تو جوانی میں احساس زیاں یوں نہ رُلاتا اور نا ہی میں کوئی گناہ کرتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سورہ میں تو محبت کا ذکر ہے لوگ اس کو سزا سے تعبیر کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔افسوس ! صد افسوس ! میں ناکامی میں ہوں کہ میں نے لوگوں سے محبت نہیں کی اگر کی ہوتی تو ان کی فکر ہوتی ۔۔۔۔۔۔ میرا عمل ---صرف میری تقدیر نہیں بنائے گا بلکہ میرے اردگرد لوگوں کی آدھی تقدیر کو پلٹ دے گا ۔اگر میں اپنے اچھے عمل سے ، قربانی ایثار سے اور صبر سے دوسروں کے بھلے کا سوچوں ! مگر میں سوچوں تو ۔۔۔۔۔-مجھے اپنی فکر رہی کہ میں نے اپنا اچھا کرنا ہے اس سبب میں نے دوسروں کے لیے گڑھا کھود دیا یا میری مثال ایسی ہے جس میں میرے اپنے میرے پاؤں کی زنجیر ہیں جیسے ایک ماں کے لیے اس کی اولاد پاؤں کی بیٹری بن جاتی ہے اور وہ اس کی خاطر قربانی در قربانی دیے چلی جاتی کہ اگر وہ نہیں ہوگی تو اس کے بچوں کا کیا ہوگا ۔۔۔۔۔۔اس کے بچے تو رل جائیں گے ۔میں نے ایسا نہیں سوچا کہ میں اپنے بہن بھائی ، پڑوسیوں اور رشتہ داروں کی زنجیر رکھتی ہوں ۔۔


ایک تو میں نے کبھی اپنوں کے لیے قربانی کا سوچا نہیں اور سوچا تو احسان جتایا ۔۔۔چلیے اس کو چھوڑیے ! میں تو خود بھی سوئی رہی ہوں جیسے ایک بندہ بیزار ہوتے بستر سے نہیں نکلتا کہ اجالا اس کے لیے آگہی ہے اور یہ اذیت ہے ۔۔۔مجھے آگہی ملتی رہی اور میں اس پر آنکھیں بند کیے سوئی رہی ۔۔۔۔۔۔گھر میں کبھی حادثہ ہوا ۔۔۔۔۔میری عدم جذباتیت ----کوئی شادی ہو--------عدم جذباتیت ----یہ نہیں کہ جذبات نہیں تھے مگر اندر کی دنیا بھری پڑی تھی جذبوں سے اور باہر کے لوگوں کے لیے ایک پتھر تھی ۔۔سب کہتے تھے میں بہت بے حس ہوں اور اندر اندر کڑھتی رہتی تھی کہ میرے اپنے مجھے بے حس کہتے جبکہ ان کے لیے رات کی تنہائی میں آنسو بہاتی ہوں یا آنسو دل پر گرتے ہیں ۔۔۔روح محسوس کرے اور عمل نہ کرے تو بندے کیا کرے ۔۔دل تو کرتا ہوں بہت ملامت کروں خود کو -----مگر کیا ہے کہ میں نے اگر خود کو ملعون کہا تو میرے خالق کو برا لگے گا کہ اس نے مجھے بنایا ہے ۔


اسی سوچ پر میرے اندر آنسو گر رہے ہیں کہ اگر میں سوئی نہ ہوتی تو میں بہت کچھ اچھا کرسکتی تھی یا اچھے کو اور اچھا کرسکتی تھی مگر میں تو سوئی رہی اور اس خواب کی حالت میں سمندر کی گہری لہریں مجھے خود میں سمونے لگیں ۔ ایسا نہ ہو کہ یہ لہریں مجھے غرقابی کی طرف لے جائیں میرے خالق نے مجھے توفیق دی کہ میں جاگ جاؤں ۔ جب میں جاگ گئی تو احساس ہوا میرے اپنے میرے عمل سے بندھے ہوئے اگر ان کے لیے اچھا کروں گی تو تقدیر میری اچھی ہونی ہے ۔ درحقیقت ایک بچہ باپ اور بچی ماں پیدا ہوتی ہے ۔۔۔اس حقیقت کا احساس مجھے اب ہوا ہے کہ میں نے کچھ نہیں کیا ۔


اس ملامت کے احساس کے ساتھ مجھے سورہ العصر یاد آرہی ہے کہ انسان خسارے میں ہے ۔۔۔۔۔۔کیسے ؟؟؟ کبھی کپڑے کو نچوڑو تو اس کا سارا پانی نکل جاتا ہے اور اس کے پاس خشکی رہ جاتی اور ساری ''تری '' نکل جاتی ہے ۔۔اس طرح جیسے ایک درخت کے سارے پتے اور پھول جھڑ جاتے ہیں اور اس کے لیے خزاں کا موسم ابدی ہوجاتا ہے اور اس وقت اگر میں بچپن کی طرح سوچنے لگوں ۔۔۔ خالق دو جہاں --- کردے نا کرم اور مجھے اپنی جناب میں لے لے ! تیری بندی ! تیری حکمت سے جاگتے تیرے احکام بجالانا چاہتی ہے اور خدمت کا جو سبق سورہ العصر میں دیا اس کا مجھے موقع دے دے مالک ! مالک سن لے ! موقع دے دے ! تاکہ میں اپنے اندر کی کائنات جو گناہوں سے آلود ہے ، جو خسارے سے کی حامل ہے ۔۔۔مولا اس کو سدھار لوں ۔۔مجھے احساس ہوگیا ہے گناہوں نے میری روح کی لطافت نچوڑ لی ہے مگر پھر بھی مجھ بے کس و بے بس پر ترا رحم ابر رحمت کی طرح برسا ہے اور مجھے اپنا آپ بھیگتا محسوس ہوتا ہے ۔ مولا کریم ! مجھے بارش طوفان کی طرح لگتی تھی ۔ مجھے بارش سے ڈر لگتا تھا مگر آج ترے کرم کی بارش میں بھیگتے ہوئے میرے سارے اندیشے مٹی مٹی ہوگئے ۔۔۔۔۔۔ مجھے بخش دے اور مجھے عمل کی توفیق دے ۔۔۔۔۔۔میں تیری گناہ گار بندی ہوں ۔۔


پھر احساس ہوا کہ اصل کائنات تو ماں جس نے ساری عمر میرے لیے قربانی دے اور اس طرح جس طرح مالکِ کائنات دیتا ہے ۔مشاہدات ، سوچ اور گمان سے انسانوں میں خدا کو تلاشتے میری سوئی اب اپنی ماں پر اٹکی ہے اور میں نے ان کو بچپن سے بہت چاہا ہے مگر کبھی احساس نہیں کرپائی کہ وہ خالق کا روپ ہیں اور جب مجھے کانٹا چبھا تو مرہم بن گئی میں نافرمان ۔۔۔۔۔ان کی نافرمانی کرتی تو اس طرح خاموشی اختیار کرتی کہ جیسا خالق کرتا ہے اور وہ ہمارا مشاہدہ کرتا ہے کہ ہم کب بدلیں اور ماں بھی یہی مشاہدہ کرتے کرتے تھک جاتی ہے مگرامید نہیں ہارتی کہ اولاد کب بدلے ۔ جناب یعقوب علیہ سلام کو جو مامتا عطا ہوئی اس سبب ان کی بینائی چھن گئی ۔محبت کا وہ احساس اپنی ماں سے عشق میں بدل گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ماں ہی اصل کائنات ہے
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین

اللہ سائیں کی قدرت ہے کہ وہ شہد کی مکھی کو شاہد بنادیتا ہے تو کبھی چیونٹی جناب سلیمان علیہ سلام پر ناقد ہوجاتی ہے ۔ باپ بیٹے کی جدائی میں بینائی کھو دیتا ہے اور کوئی جزام کا شکار ہوتے ہوئے حالت سکون میں رہتا ہے ۔ اللہ سائیں کی مرضی ہے کہ زرخیز زمیں کو بنجر اور بنجر کو زرخیز کردے ۔ ایک انسان جس کے لفظ ٹوٹے پھوٹے ہوں اس کو لکھنے میں مگن کردیں اور اس کے دل کی دنیا خیالات سے بھرپور کرتے کائنات بنادے ۔ اللہ سائیں کی حکمت اللہ جانے ! میں بھی نا جانوں اور نا آپ جانوں ۔۔۔۔۔۔۔ رازء کائنات جاننے والا حکیم ہے اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا ہے۔


میری بڑی خواہش تھی کہ میں خود کو پہچانو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ عبد۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے کبھی اپنے اندر جھانکنا گنوار نہیں کیا کہ اللہ نے اسے کیسے بنا کے بھیجا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے مجھے حسین بنایا مگر میں بے نیاز رہی یہ بُھول گئی کہ بے نیازی تو اللہ کو جچتی ہے ۔ پھر اس کی سزا ملی جب ایک دن میں خُود کے رو برو ہوئی ۔ میں نے اپنا آئینہ خود میں پایا۔۔۔یہ چٹخ گیا تھا ۔ارے ! چوٹ ایسی لگی کہ وہ مضبوط و توانا آئینہ چٹخا ۔ میں پھر بے نیاز ہوئی اور درد کو چھپانے کے لیے مصنوعی سہارا لینا شُروع کردیا ۔۔۔۔۔۔۔ یعنی میں نے اپنے باطن کے اندر باوجود چٹخنے کے بھی نہیں جھانکا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ عرصے بعد آئینہِ دل پر پے در پے ایسی ضرب لگی کہ میرے دو وجود بن گئے اور ان دو وجودادت سے مزید وجود نکلنا شروع ہوگئے ۔ اس دن میں نے اپنے اندر جھانکا اور دیکھا میرے تو کافی حصے ہوگئے ۔ میں کس کرچی کو اٹھاؤں اور کس کو نہ اُٹھاؤں ۔۔۔۔۔۔۔ میرے اندر سے آواز اُبھری

اے آدم !
کیا تو نے کبھی اس جہاں پر غور کیا ؟
اس زمین کو دیکھا جو فلک سے دور ہے ؟
اس سورج کو دیکھا جو قمر کی جستجو رکھتا ہے
رات کو دیکھا جو دن کی جستجو رکھتی ہے
پہاڑ کو دیکھا کتنے بُلند ہیں مگر سمندر سے دور ہیں ۔۔۔
جب تو نے ان کو غور سے دیکھا تو کیا غور نہ کیا ؟
کائنات کے کتنے ٹکرے ہیں ؟


جب یہ آواز ابھری تو میری ''میں '' ختم ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے اپنے اندر جھانکنا شُروع کردیا میرے اندر کس کا جلوہ ہے ۔۔۔۔ ایک سورج بصورت نور اوپر فلک پر ہے تو ایک نور میری روح میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔مٹی ہوں ۔۔۔۔۔۔مادہ تو روح بھی ہوں یعنی غیر مادہ ۔۔۔۔۔۔۔ جذبات رکھتی ہوں ، خواہشات رکھتی ہوں مگر پوری نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔ جو پوری نہ ہو اس میں اللہ نہیں ہے اور جو پوری ہو اس میں اللہ ہے ۔ میرا دل جب دھڑکتا ہے تو اس کی صدا 'رب ' رب'' ہے اور اس رب کی قسم یہ دل بھی میرا نہیں اس کا مالک تو اوپر فلک پر بیٹھا مجھے دیکھ رہا ہے ۔۔۔میرا دماغ -------جو میرے پورے وجود کو چلاتا ہے اس کو عقل کس نے عطا کی ------ وہ جو اوپر فلک پر مقیم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دل کی صدا سے عقل کھلتی ہے میرے دل میں رب کا بسیرا ہے تو عقل تو اللہ کی جستجو کرے گی ۔اندر کی کائنات تب بنتی ہے جب وجود کی نفی ہوتی ہے جب وجود کی نفی ہو تو انسان کا سفر شُروع ہوجاتا ہے۔

محبت !
سفر اختتام ہوا۔
تجھ پر اکرام ہوا
ملے گا تجھے انعام
ہوگا تجھ پر فیض عام
عشق کی ابتدا ہے
جستجو کا انتہا ہے



اس صدا کے بعد اندر کی ''میں '' مرگئی اور جب اندر موت ہوجائے تو انسان کا لاشعور بیدار ہوجاتا ہے جس کا خالق سے رابطہ گہرا ہوتا ہے تب انسان شاکر ہوجاتا ہے جو کہ صبر کے آگے کا مرحلہ ہے ۔۔۔۔۔۔ عشق والے ۔۔۔۔۔۔۔ یقین والے ہوتے ہیں اور ان کا سفر دلیلوں اور قیل و قال کی بحث میں نہیں پڑھتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کافر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مسلمان
سنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شیعہ
قادیانی ۔۔۔۔۔۔۔۔احمدی
عیسائی ۔۔۔۔۔ یہودی
امیر ۔۔۔۔۔۔۔ غریب
وزیر ۔۔۔۔۔۔۔۔ نوکر

ان کے دل اس تضاد کے تفریق میں نہیں پڑتے اس سے نفرت نہیں پیدا کرتے بلکہ ان تضادات کو کائنات کا حسن جانتے محبت کی شمعیں روشن کر جاتے ہیں اگر کائنات کا سب سے بڑا دکھ آگہی ہے تو سب سے بڑا سُکھ محبت ہے اس دکھ اور سکھ کے تضاد میں بھی اللہ ہے اس کافر اور مسلمان میں بھی اللہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ادھر ادھر اللہ تو شور شرابہ کاہے کا؟ بس ہم سمجھیں تو سمجھتے ہی نہیں کہ دلوں میں محبت اور اخلاص کی جگہ اضداد کے علم سے محبت کے بجائے نفرت پھیلانے پر زور دیا ہے ۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
''میں '' سے ''میں '' تک کا سفر-- 2

انسان کی پہچان اس کی نفس سے شروع ہوتی ہے اور جب وہ خود کو پہچان لیتا ہے تب رب تعالیٰ کی پہچان کا سفر شُروع ہوتا ہے ۔ سوال یہ ہوتا ہے پہچان کیسے کی جائے ؟ اس پہچان کا سفر '' لا الہ سے اثبات حق --- یعنی الا اللہ --- کی طرف لے جاتا ہے تب سمجھ آتی ہے کہ انسان نے تو اتنے صنم خانے بنارکھے ہیں اور اللہ کو پُکارتا ہے ۔۔۔اللہ سائیں اپنی پُکار کی لاج رکھتے نواز تو دیتا ہے مگر امید رکھتا ہے اس کی خلق اس کو ضرور پہچانے گی ۔ مجھ سیہ کار کے ساتھ کچھ ایسا معاملہ درپیش ہوا ہے کہ میں نے خُدا سے سوال کیے اور سوال بھی مشرکانہ ---- بھلا یہ بھی کوئی سوال تھا کہ ''اے خدا کہاں ہے تو ؟ '' میں نے اللہ سے پوچھا تو دل کے صنم خانے سے آواز نکلی ۔۔۔

''نور ۔۔۔۔۔۔۔ زبانی کلمہ لا الہ الا اللہ کا ہر کوئی پڑھتا ہے --- کبھی اس کا ذکر کیا ہے ؟ کبھی اس پر فکر کی ہے ؟ اگر فکر کرتی تو سوچتی ہی نا کہ اللہ کدھر ہے۔۔۔ اللہ جدھر تو دیکھے وہ تو وہاں ہے ۔۔۔''

اللہ سے سوال کرنے کی عادت بڑی رہی ہے حالانکہ سوال نہ کی حکمت ''شکوہ اور سوال '' کی صورت سمجھائی ہے مگر میں نے پھر بھی اس سے سوال کیا اور پھر پوچھا کہ '' اے خدا کہاں ہے تو '' اب سوچوں تو سمجھ آتی ہے کہ جستجو کرنا بھی انسان کے خمیر میں لکھا ہے اور وہ سوال نہ کرے تو رب کو پہچانے کیسے اور جب پہچان لے تو سوال نہ کرے بلکہ ہر چیز کو اس کی حکمتوں سے تعبیر کیا کرے ۔

جب میں نے اللہ کی صدا سنی تو بڑی شرم آئی تو سوچا اس کلمہ کی روح کیا ہوگی ۔۔۔۔۔ '' لا '' ہے کیا ۔۔۔ بس ایک ڈرامہ یا د آگیا جس میں عشق کی مسافر ذات و نسب کی تفریق کا کلمہ پڑھتی ہے ۔۔۔

لا حسب ۔۔۔لا نسب
لا تکبر ۔۔۔ لا غرور
لا---------------لا

میں نے اس ڈرامے پر کبھی غور نہیں کیا تھا مگر یہ کلمہ دل میں جڑ گیا ہے اب سوچا میں نے کتنے بت بنائے ہیں – کچھ بُت معاشرے سے مستعار لیے ہیں تو کچھ بُت میں نے اپنی انا کے ہاتھوں بنائے ہیں اور میں پھر بھی سوچتی ہوں کہ میں نے لا الہ الا اللہ پڑھا --- اللہ نے کہا ہے کہ کلمہ عفو کی سفارت بنے گا مگر کیسے بنے گا کسی نے سوچا ہی نہیں نا!

سید----علوی ---- گیلانی --- شیخ ---آرائیں ---- جٹ –
چشتی ---قادری ---صابری ---- نقش بندی ---- سہروردی
کافر ---مسلمان ---عیسائی --- یہودی ---ہندو
امیری ---دولت --- طاقت --- اولاد--- عورت
میں ---میری ذات ---انا---خود پسندی ۔۔۔ برتری ---علمیت—ذہانت ۔۔۔ لیاقیت

اب میرے پاس خداؤں کی لسٹ ہے جن کو میں شمار کرتی جاؤں تو لسٹ لا محدود ہوجائے گی اور پھر اتنے صنم خانوں کے ہوتے ہوئے بھی میں سوچوں میں نے لا الہ الا اللہ کا کلمہ پڑھ لیا ----دوستو ! کیا میں نے واقعی ہی اللہ کو الہ مانا ہے ؟ کیا میں نے واقعی ہی اس کی پرستش کی ہے ؟

میرے ایک سر ہوتے تھے فزکس کے ان کا نام خادم حسین سیال تھا ----ان کی باتیں بڑی مدبرانہ ہوتی تھیں --- نماز کی بات چلی تو میں نے تنگ نظری سے کہ دیا کہ وہ مسلمان نہیں جس نے نماز نہیں پڑھی تو کہا کہ ہم جو نماز پڑھتے ہیں وہ تو ''ٹکر '' ہوتی ہے اور وہ مالک دیکھو ہماری ''ٹکریں'' بھی قبول فرماتا ہے۔ تب مجھے سمجھ نہیں آئی تھی کہ میرے استاد نے نماز کو ٹکر کیوں کہا---میری نظر میں حجاب مجھے تنگ نظر اور عدم برداشت بناتا گیا ہے اور آج جب حجاب نہیں ہے تو میں پوچھتی ہوں میں کون ہوں ؟

میں عشق ہوں جس کا کام انسان سے محبت کرنا ہے
میں شعلہ ہوں جس کا کام روشنی دینا ہے
میں صبا کا نرم جھونکا ہے جس کا کام لطافت دینا ہے
میں سورج کی مانند چمکتی ہوں تاکہ اجالا پھیلے
میں سمندر کی مانند گہری ہوں تاکہ عیاں کو نہاں کردوں
میں زمین ہوں جس نے اشجار کی آبیاری کرنی ہے
میں چاند ہوں جس نے چاندنی کی ملاہت سے فرحت دینی ہے

مگر ------------------

اس سب میں ''میں '' تو نہیں ہوں میں نے تو کہا لا الہ ----------------جب میں نے اپنی نفی کردی تو میں مجھ میں سچی ذات کا بسیرا ہوگیا ----------یہی سچ کا سفر ہے اور یہی حقیقت ہے کہ اس سے بڑی حقیقت کائنات میں کوئی نہیں ۔

نعرہ حق کا لگاتی رہوں گی
نفیِ ذات سے تن سجاتی رہوں گی

 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
میرا عشق وفا


نور کی تجلی کمال کی تجلی ہوتی ہے. جس تن لاگے اس تن جانے کے مصداق "نور " پھیل رہا ہے.عضو کا ریشہ تیشہ ایک

صدا دے رہا ہے

میرا عشق وفا
مرا عشق جنوں
میرا عشق وی توں
میرے اندر توں
میرے باہر وی توں
تو ہی تو ہے چار سو
دل، روح تو بھی سن
قصہ جنوں سنایا جائے
اس سے پردہ اٹھایا جائے
من کو مہکایا جائے
من جب مہکے گا
تو تن بہکے گا
تن کا من سے رشتہ،
درد سے سہکے گا!
باوضو رکھ دل اے نورٓ
ترا تن سجایا جائے گا
تو اب آزمایا جائے گا.
تجھ پہ سنگ اٹھایا جائے گا.
سنگ سے سنگ ملا کر
تجھ کو اپنایا جائے گا

پاک دل کے اندر رب سچے کا حجرا ہے، اس کا روم روم مہکایا جانا ہے، حتنا و ضو ہوگا، جگہ پاک ہوتی رہے گی، اتنا تجھ پر نور چھاتا جائے گا.ترا کچھ نہ ریے گا باقی ماسوا نور کے. بھلا اس سے اچھا ربط کس سے ہوتا ہے. خوش نصیب ہوتے ہیں جن پر کرم ہوتا ہے. یہ نعمت عام نہیں ہے. رب کی عطا جس کو وہ چاہے جیسے نوازے اور بندے کو چاہیے ہر حال میں رب کا شکر ادا کرے، حجاب بس حجاب رہتا یے یہ نقاب میں ریتا ہے. نقاب اس کی رضا، اس کی حفاظت بڑی ذمہ داری کا کام ہے. جو کام سونپا گیا اس میں میرے محبوب کی سفارش تھی اور رب کا محبوب رحمت اللعالمین ہے. اس گمان میں مت رینا کہ یہ جھوٹ یے، جھوٹا شیطان ہے، بے شک شیطان کو رسوا ہونا ہے. شیطان کے ساتھی واصل جہنم ہوں گے اور جس کو جو اس راہ سے روکے گا اچھائی کی طرف لائے گا اس کے لیے انعام ہے بشرطیکہ کہ جو لوح قلم پر لکھا کلام اس پر عبور حاصل ہو
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو سب سے پہلا لفظ ''ماں '' کا ادا ہوتا ہے ۔ روزِ ازل سے یہ بات عیاں ہے کہ ماں کا لفظ بچہ کسی لغت سے نہیں لیتا ، دنیا کی کسی کتاب سے نہیں پاتا بلکہ محسوس کرکے پاتا ہے۔۔۔۔۔۔ مٹی کے خمیر کی خاصیت محبت ہے یہ محبت کا احساس جب پاتی ہے تو محبت کرنا شُروع کردیتی ہے ۔ ماں کی شخصیت کو خود سے مختلف پاتی ہے تو سوچتی یہی ''مٹی '' ہے کہ کیا ایسا ہو کہ جس کی تبدیلی سے اس میں اپنی ماں کا نقشہ آجائے ۔ تضاد ۔۔۔۔ کائنات کا حسن تضاد ہے کہ جب انسان فرق محسوس کرتا ہے تو ترقی کرتا ہے ۔ وہ فرق جو اسے تمیز سکھاتے تعمیر کی جانب رواں رکھتا ہے ۔


حضور پرنور صلی علیہ والہ وسلم جب غارِ حرا میں گئے تو کائنات کا سبق پڑھ کے گئے اور جب غار میں فکر کرتے رہے تو ایک نشان پاتے رہے کہ کوئی تو ہے جو یہ نظام ہستی چلا رہا ہے ۔ انتہائے غور فکر پر ابتدائے وحی شُروع ہوئی اور آپ صلی وعلیہ والہ وسلم سے کہاگیا '' پڑھو '' ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پڑھنے کی بات سے مولانا جلال دین رومی کی بات یاد آتی ہے جو علم دوست تھے اور نازاں رہا کرتے کہ ان جیسا صاحب علم کوئی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ایک فقیر آیا ان کے پاس ------ان کو ایک لفظ کہا اور مولانا رومی کے دل کی دنیا بدل گئی ۔۔۔۔۔۔۔
کتابیں جلتی رہیں اور مولانا رومی'' پڑھتے'' رہے ۔ کتاب کے پڑھے سے کیا علم حاصل ہوگا جو علم صاحب نگاہ کے پاس ہوتا ہے جس سے روح منور ہوجاتی ہے وہ علم کتاب نہیں دیتی ۔ابراہیم بن ادھم کی پڑھنا یاد آگیا جب اس بندہ ء خدا نے دنیا کی بادشاہی پر لات مار دی اور درویشی اختیار کرلی ۔۔۔۔۔کیا ایسا ہے جو کتاب سے دور دل میں ملا ؟ اس کا جواب اللہ نے قران ء پاک میں رکھا ہے

جب آنحضرت صلی علیہ والہ وسلم غار ء حرا میں تھے تو پڑھے لکھے نہیں تھے ۔ ان کو پڑھنے کا کہا گیا تو انکار کردیا ۔۔۔۔۔۔ حضرت جبرائیل علیہ سلام نے ان کو ہلایا تو گویا ان پر زمانے کھُل گئے ۔۔۔ماضی ۔۔۔۔ حال ۔۔۔۔۔۔۔مستقبل ۔۔۔۔۔۔ یہ تو وہ تعلیم جو رب باری تعالیٰ نے بندے کو دی اور سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ کب اور کس وقت ملی ؟ جب سرور دو جہاں ، شاہء کونین نے دنیا پر غور کرلیا ۔۔۔۔۔۔اللہ کی بنائی دنیا سے اللہ ملتا ہے مگر جب انسان مالک سے انجان ہو تو کیا کرے جیسے حضرت ابراہیم علیہ سلام نے غور کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی کہا سورج میرا خُدا ہے تو کبھی چاند کو مانا۔۔۔۔۔۔۔بالاخر کائنات کے جزو سے کُل تک کا سفر شروع ہوا اور یہی بات آنحضرت صلی علیہ والہ وسلم نے کی اور اپنے خالق کی تلاش میں محو گوشہ نشینی اختیار کرتے اپنے اندر کی کائنات سے مالک دو جہاں کو پہچاننے کی تگ و دو میں رہے ۔ جب خالق کو پہچان لیا تو ان پر وحی اتری کہ اس کائنات میں موجود ہر چیز میرا جلوہ لیے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو آیت ان پر نازل ہوئی اور جو زمانے ان پر کھُلے ---مکاں سے لا مکاں کا سفر۔۔۔۔۔۔۔ یہ سفر روح الامین کے ساتھ پہلی ملاقات میں ہی ہوگیا ہے ۔۔۔۔


قران پاک کی نشانیوں کا ذکر کسی تفسیر ، کسی کتاب کا محتاج نہیں ہے ۔بندہ ء خدا کا اور مالک دو جہاں کا ربط انہی آیات سے تو کھُلتا ہے ۔ جب وہ اقراء پڑھتا ہے تو بس پڑھا مگر کیسے پڑھا ؟ اپنے رب کے نام سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غور و فکر کر اپنے رب کے نام سے۔۔۔۔۔۔۔۔پڑھنا ہے کتابوں کو بھی پڑھیے ، مشاہدات بھی کیجئے ۔۔۔۔۔۔۔سب اچھا ہے مگر ہر چیز میں مالک کی حکمت کی آیات کو تلاشیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ نوازش نہیں ہے کہ اللہ ہر بندے سے کلام کرتا ہے اور اس با عظمت کتاب سے جس کو ہم نے طاقوں میں سجا رکھا ہے اور جس کی تلاوت ہمارے لیے جنت کا زینہ ہے باوجود اس کے ہمارے دل سکون سے خالی ہوتے ہیں ؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے قران کی روح کو اپنی روح میں اتارا نہیں جب کلام اترا ہی نہیں تو کیا پڑھا ؟ ایسا قران پڑھنا بھی نماز جیسی ٹکر ہوگئی ۔


اس سورہ کو مزید پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک انسان جو نماز پڑھتا ہے یعنی اللہ سے ملاقات کرتا ہے تب اس کے لوگ خوش نہیں ہوتے کیونکہ وہ ان لوگوں سے علیحدہ ہوتے اپنی راہ بالاخر منوا ہی لیتا ہے ---حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم سے لے کر راہ حق کے تمام مسافروں نے ایسے ہی سفر کیا ۔۔۔۔۔ حضرت بلال رض ہوں یا عمار بن یاسر رض ۔۔۔۔۔۔۔۔تکالیف برداشت کیں اور مظالم سہے اور تلاش ءحق کی کیا عمدہ مثال ہے کہ مجوسیوں سے ایک بندہ خدا تلاش حق میں نبی آخرالزماں کے پاس پہنچا ۔جن کا نام حضرت سلمان تھا تو کوئی ابوذر رض عنہ تھے ۔جن کے قبیلے کے تمام لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ اسلام کی ایسی تڑپ پیدا ہوئی کہ خانہ کعبہ میں با بلند آواز میں کلمہ حق کہا ------کیا خوب کہنے! جناب حضرت علی رض جنہوں نے ایسے اپنے رب کو پہچانا !جیسے حضرت محمد صلی علیہ وسلم نے ---یا یار غار سیدنا ابوبکر رض کی مثال ۔۔۔۔۔۔۔-مثالیں تو ہماری تاریخ میں بھری ہوئی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔-یہ وہ لوگ ہیں جن کی زندگی پُل صراط بنادی گئی اس پر کامیابی سے چلتے رہے اور عشق نے ان کی روح کو وہ جلا بخشی کہ جنت و دوذخ کا فرق بھُلاتے اپنے رب کے عشق میں جلتے رہے ۔ ان کے دلوں کے سوز سے باقی عالم نے جلا پائی ۔۔۔۔۔۔۔سبحان اللہ !

قران پاک کی پہلی سورہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔معرفت حق کی سیڑھی ہے-------تجدید کی کنجی ہے۔۔۔۔۔۔وہ وعدہ جو روح نے خاکی بستر میں آنے سے پہلے کیا تھا اس کو کثیف لباس کے لبادے نے دھندلادیا اور جب دل میں تڑپ پیدا ہو جائے تو سمجھ لیجئے روح جاگ رہی ہے۔ اس سوز کی انتہا عشق کی ابتدا ہے جبکہ عشق کی کوئی انتہا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔قران پاک کی پہلی سورہ ہمیں خالق سے عشق اور معرفت کا سبق دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔اپنی ذات کی نفی انسان کرتا ہے تو اللہ کو پالیتا ہے اور جب اللہ کو پالیتا ہے تب وہ مخلوق سے تفریق نہیں کرتا ۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین

انسان کی زندگی میں لا تعداد واقعات ایسے آتے ہیں جو اس کو موت سے قبل موت کی حقیقت سے درکنار کرتے ہیں ۔ بالکل اسی طرح زندگی ایسے مراحل کی آمد گاہ ہے جو ہمیں مرگ کی کیفیت میں زندگی بخش دیتے ہیں ۔ ہماری زندگی کبھی خواب بن جاتی ہے اور کبھی خواب سے نکل جاتی ہے ۔ کبھی جاگتے ہوئے ہم کسی اور دنیا میں پہنچ جاتے ہیں جس کا زمان و مکان سے تعلق نہیں ہوتا اور کبھی زمانے ہماری سوچ میں قید ہوجاتے ہیں ۔ انسان کے پیٹ میں مچھلی جاتی ہے مگر کبھی مچھلی کے پیٹ میں انسان بھی ہوتا ہے ۔ درختوں کو انسان چیرتا ہے اور کبھی درخت انسان کو اپنے اندر سمولیتا ہے ۔ انسان کو موت آتی ہے تو کبھی عدم سے زندگی وجود لانے والا بھی انسان ہوتا ہے ۔ پہاڑ پر چڑھتے ہوئے انسان کو موت آلیتی ہے تو کبھی نور کی ایک تجلی پہاڑ کو سرمہ کردیتی ہے ۔ سب انسان خالق کا آئینہ ہوتے ہیں مگر آئینہ کے آئینے کی پرواہ کون کرتے ہیں ۔ کثرت سے وحدت کی طرف جانا مشکل ہے اس لیے لوگ وحدت کا نعرہ لگاتے ہیں ۔ آئینہ سب میں خدا ہے کا مگر ہم سب کے دل میں اپنے بُت تراش دیتے ہیں ۔ جوں جوں انسان بت تراشی ختم کرجاتا ہے اس پر نور کی حقیقت کھلتی جاتی ہے ۔علم کی حقیقت لفظوں سے کھلتی ہے یعنی لفظ علم کی کنجی ہیں مگر ان کا ابلاغ ہر کسی پر مکمل نہیں ہوتا ۔ سورج کو کسی کی طلب نہیں ہوتی مگر سورج کی سب طلب کرتے ہیں ۔ اس لیے سورج کی محبتیں پھیکیں ہوتی ہے جبکہ چاند سورج کی روشنی کا محتاج ہے اور اس کی محبت کی قسمیں کھائی جاتی ہیں ۔ مستعار لیا ہوا حسن کس نے دیا ہے کبھی کسی نے پروا نہیں کی مگر حسن کس جگہ مکمل نظر آرہا ہے سب کو اسی کی پرواہ ہوتی ۔

یہی کائنات کی اصل حقیقت ہے کہ موت کے روبرو ہے ۔ جنازہ پڑا ہوا اور لوگوں کا ہجوم رو رہا ہے ۔ اللہ اکبر کی تکبیریں پڑھی جارہی ہیں ۔ ایسے چیخیں ماری جارہی ہیں جیسے جانے والا بہت عزیز ہے اور تھوڑی دیر بعد ہم انسان کی صفات بتانے میں محو ہوجاتے ہیں ۔ مرنے والے چلے جاتے ہیں ۔ ان کے نشان دل میں بس جاتے ہیں ۔ ان کے نشانات سے مشک و کافور کی سی خوشبو ہوتی ہے جن کی قبروں کی گیلی مٹی بھی وجود کو فنا نہیں کرتی اور نا ہی ان سے سرانڈ کی بُو اٹھتی ہے ۔ موت کی حقیقت محسوس کرو تو روح کانپ اٹھتی ہے اور خوشی کی انتہا پر جاؤ تو وہ بھی موت ہے ۔ انسان خیال میں گم ہوتا ہے تو کئی جہانوں کی سیر کرتا ہے اور بعض اوقات ایک جگہ رہتے ہوئے اس کے بارے میں لا علم ہوتا ہے ۔ لاعلمی ہی علم کی اساس ہے جس نے سمجھا اس نے علم حاصل کرلیا ہے اس نے گویا علم پر مہر لگادی ۔

لوگ حج کو ترستے ہیں تو کوئی مدینے کو ترستا ہے ۔ کوئی اپنے خیال کی وایوں میں ان جگہوں سے ہوتا جانے کہاں کہاں پرواز کرتا ہے ۔۔ کبھی حال اس پر آشکارا ہوتا ہے تو کبھی ماضی قدیم اس کے سامنے آجاتا ہے جس طرح لفظ قدیم ہے اسی طرح ابوالبشر بھی قدیم ہیں۔ ہر انسان جب اس دنیا میں آیا تھا یا آیا ہے وہ قدیم ہے ۔ بچہ اس دنیا میں بن ماں باپ کے بھی دنیا کی پہچان کرلیتا ہے کیونکہ وہ قدیم ہے ۔ اسی طرح کبھی قدیم کی طرف جاتے مسجد الاقصی پر نظر پڑ جاتی ہیں جہاں پر نمازیوں کی امام جناب رسول اکرم صلی علیہ والہ وسلم ہوتے تو کبھی بیت اللہ کا ہجوم نظروں میں گھومتا ہے تو کبھی نور کی شعاعیں آسمان کی جانب جاتیں محسوس ہوتی ہیں ۔۔ کبھی ملائک کا نور پر گمان ہوتا ہے تو کبھی نور ملائک کی صورت جھلکتا ہے ۔ کبھی حقیقت خواب کے ذریعے کھلتی ہے تو کبھی حقیقت ایک خواب بن جاتی ہیں ۔ مستقبل کے لیے بنائے ارادے مٹی کی طرح ڈھیر ہوجاتے ہیں تو کبھی تقدیر انسان سے اس کی مرضی پوچھتی ہے ۔ کبھی آنحضرت صلی علیہ والہ وسلم سے روح قبض کرنے کی اجازت چاہی جاتی ہے تو کبھی شداد کو لمحہ بھر بھی نہیں دیا جاتا ہے ۔

انسان انسان سے محبت کا دعوی کرتا ہے اور کبھی محبت کی حقیقت نفرت میں بدل جاتی ہے ۔ کبھی اولاد ماں باپ کی نافرنبردار ہوجاتی ہے تو کبھی ماں باپ اولاد سے لا پرواہی برتتے ہیں ۔ کائنات کا ازل سے اصول اختلاف ۔۔۔ میں حسن کا منبع ہے ۔ ایک انسان کو معراج کا تحفہ ملتا ہے تو ایک انسان کو اسفل سافلین کا مقام ملتا ہے ۔ ہر انسان اپنے عمل لیے دنیا میں آتا ہے اور اپنے عمل کے ساتھ اپنی آخرت کو دائمی کردیتا ہے ۔ اسی تضاد میں اللہ کی چھپی نشانیاں ہیں ۔ اس کو ڈھونڈنا اللہ کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ کہتے کہ بے شک اس کے ذکر سے قلوب میں سکون آجاتا ہے ۔ جب قلب سکون پاتا ہے تو اللہ کی نشانیاں ڈھونڈنے کی طلب کرتے قربت کا درجہ پاتا ہے ۔ انسانیت کی بقاء انہی پہیلیوں میں رکھ دی گئی ہے جس نے ان پہلیوں کا امتحان پاس کرلیا تو گویا اس نے اللہ کا قرب حاصل کرلیا ہے ۔ راضی بہ رضا ایک درجہ ہے جو ہر شاکر وصابر کرتا ہے مگر محبوب ہونا اس سے بھی بڑا درجہ ہے ۔ نبی صلی علیہ والہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ہمیں اللہ کی رضا میں رضا ، اس کی ناراضی سے پناہ اور دوستی بھی اسی کے لیے رکھنی چاہیے ۔۔ جب ہم اس کو راضی رکھتے ہیں تو وہ بھی راضی ہوجاتا ہے ۔ نبی کریم صلی علیہ والہ وسلم کا امتی ہونا اس لیے فضیلیت کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ میرے نبی کریم ﷺ تمام انبیاء اور رُسل سے اللہ کی رضا حاصل کرنے میں سبقت لے گئے اور جب انسان بازی لے جاتا ہے اس کی روح کی پرواز بُلند ہوجاتی ہے ۔ وہ کہیں اقبال کا شاہین بن جاتا ہے تو کہیں وارث کی ہیر ۔۔۔ کہیں اناالحق کا نعرہ بُلند ہوجاتا ہے تو کہیں انسان خود کو کعبہ کہنے کا درجہ دے دیتا ہے ۔


رضا کا درجہ حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا ہے ۔ یہ خاص الخاص قلب کو میسر ہوتا ہے جب دل خالص ہوجاتا ہے تب انسان کہتا ہے
''ھو احدا''
'' ھو الصمد''
انسانی قلب جب یہ کلمہ پڑھتا ہے تو اس کا اخلاص کامل ہوچکا ہوتا ہے جو اللہ کی قربت کی نشانی ہے ۔ اس کا دل 'احد ' احد ' کی صدائیں لگاتا ہے اور جب وہ اپنے رب کو واحد و یکتا مانتا ہے تو تب رب ء کائنات بھی اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ اس کا ارشاد ہے میری طرف ایک قدم بڑھاؤ تو میں عنایات کی بارش کردوں گا۔ انسان کا رب کا محب ہوجانا ہی انسانیت کی معراج ہے​
 

نور وجدان

لائبریرین

ازل کی جستجو ابد تک قائم ہے ۔ انسان بھی ازل کی حقیقت کا شکار ہے مگر اس کا احساس وہ کر نہیں پاتا ۔ دنیا میں آنے کا ایک دروازہ ہے اور جانے کا بھی دروازہ ہے ۔ زائر جس طرح دنیا کی سیر کرتا ہے ۔ انسان بھی اس دنیا کی سیر کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے کہ اللہ دیکھ کہاں کہاں ہے ؟ کیا موجوادت ِ عالم اس کی تشبیہ پیش کرتی ہیں ۔ ایک پتھر کو انسان سے تشبیہ دی جاتی ہے کیا انسان پتھر ہوتا ہے اور کسی کے دل کو کانچ کی کرچیوں سے دی جاتی ہے ۔ ہر حساس روح نشانیاں ڈھونڈتی ہے اور کچھ اس سے حقیقت پالیتے ہیں جبکہ کچھ مجاز تک رہتے ہیں ۔ سب سے برے تو وہ ہوتے ہیں جن کو نظر آتا ہے مگر آنکھیں بند کرلیتے ہیں جس طرح کبوتر خوف سے آنکھیں بند کرلیتا ہے ۔ اسی بات کا ذکر ہے جب انسان پڑھتا ہے : عمہ یتساءلوں '' کس چیز کا سوال کرتے ہیں ، وہ بے یقین ہیں ، ان کے دلوں میں خوف ہیں کہ حقیقت ان تک آپہنچی ہیں اس مخمصے میں ہیں کہ اس کو مانیں یا نہ مانیں ۔۔عذاب تو وہ چکھ کر رہیں گے ۔۔۔اللہ کا استدالال بھی تضاد سے شروع ہوتا ہے ۔ دوستو ! بے یقین لوگوں کے سامنے یقین سے اپنے دلائل رکھتا ہے ۔

کائنات کی بناوٹ دیکھو تو معلوم ہوتا ہے کہ زمین ہمارا بچھونا ہے جس پر سیدھا لیٹ کے ہم آرام کرتے ہیں ، اسی زمین سے پھل اور سزیاں اگتی ہیں اور یہی زمین ہمیں جڑی بوٹیاں دیتی ہے اور عورت کی مثال بھی زمین کی سی جبکہ آسمان کی مثال فلک سی ہے جو زمین کو گھیرے ہوئے ہوئے ۔ جب ہوائیں تیز چلتی ہیں تو بادل بنتے بارش برستی ہے اور زمیں ہریالی ہوجاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ ہمیں بتایا ہے کہ یہ میرا نظام ہے اس کو غور سے دیکھو اور اس میں مجھے تلاشو! اور جب تلاش چکو تو میرے قریب ہوچکے ہوگے ۔ اگر زندگی دی تو موت رکھی ہے ۔

میں نے کبھی موت کی اصل محسوس نہیں کی تھی مگر ایک دن نانا ابو کی لاش کے سامنے کھڑی ان کے بے جان گرم وجود کو ہاتھ لگاتی تھی کہ یہ زندہ ہیں یا جاچکے ہیں ۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی کہ گئے بھی بڑی تکلیف سی تھے ۔ میری روح کانپ اٹھی کہ پہلی دفعہ زندگی میں موت دیکھی اور میں نے مشاہدہ کیا ۔ ناجانے کیوں مجھے سب اردگرد ماموں اور خالائیں تماشائی لگے ۔ میں نے سوچا اگر یہ رو رہے تو کردار نبھاررہے تھے ۔ ان کی لاش باہر رکھی گئ اور اللہ کی رحمت برستی رہی اور نعش کو ڈھانپ دیا گیا جس بے جان وجود میں سوائے ہڈیوں کے کچھ نہیں ملتا تھا ۔ مجھے بار بار محسوس ہوتا تھا وہ زندہ ہیں ۔۔۔میں نے قران پاک پڑھنا شروع کیا مجھے نہیں معلوم میں کب سوئی مگر اتنا یاد کہ میری رات قران پاک پڑھتے گزری ۔ اگلی صبح مجھے یقین آیا ان کی موت ہوچکی ہے اور سب دھاڑیں مار کے رو رہے ہیں جبکہ میں خاموش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے کبھی رونا نہیں آیا تھا مگر روح کانپ اٹھی تب میں نے بنا کسی طرز و طریق کے نعت پڑھی اور بلند و بالا درود پڑھا کہ میری اندر کا طوفان تھم سکے ۔۔۔۔ موت نے مجھے پکارا تھا اور جب موت مجھے آلے گی تو کیا ہوگا --------وہ تو خوش قسمت تھے کہ ان کی مٹی بارش کی وجہ سے گیلی ہوچکی تھی ۔ گورکن نے بلایا کہ قبر خراب ہوچکی ہے ۔ قبر درست کروائی تو دس دن بعد بھی ان کی نعش سے مشک و کافور کی خوشبو اٹھ رہی تھی اور ان کے جسم میں کہیں کوئی رد و بدل اور تبدیلی نہیں ہوئی تھی ۔۔۔۔۔مسلسل تین سال تک اتنی اذیت تو سہی تھی کہ جاتے جاتے اپنے گناہ بخشواتے گئے ۔۔دنیا سے جاتے اذیتوں کا پہاڑ سہتے ان کے جسم استخوانی ہوگیا!

میں کبھی اپنے نانا ابو کے قریب نہیں رہی ہوں مگر وہ جنازے کا منظر ---اللہ اکبر کی تکبیریں ---نعت خوانی اور قران خوانی پھر اس کے بعد ''اللہ ھو'' کا ذکر جو کے سب مرد حضرات نے کیا ---اس ذکر کی ہیبت مجھے آج تک یاد ہے کہ پورے گھر میں ''اللہ ھو'' کی صدا اتنے زور سے گونج رہی تھی کہ جسم کا رواں رواں کانپ رہا تھا جیسے یہ ذکر کرنے والے بھی انسان نہیں ہیں یا ان کے غم اس موت سے اس قدر افسردہ ہیں کہ اپنا غم اس میں غلط کرنے کی دل کے ہر تار کو اس ذکر سے جوڑ رہے تھے ۔۔ کیسے بھول جاؤں موت کا وہ منظر جس نے میرے ذہن میں نانا ابو کی تصویر نقش کردی ۔۔۔۔۔۔۔۔ موت سے پہلے ایک دن ان کے پاس گئی ۔میں اور میری بہن ان کے پاس بیٹھے -------انہوں نے غالب کے شعر دکھ بھرے انداز میں پڑھنا شروع کردیے ۔میں نے نانا ابو سے پوچھا : نانا ابو ! آپ تو پڑھے لکھے نہیں پھر آپ کس شعر کیسے آتے ؟ کہتے میں تجھ سے زیادہ پڑھا لکھا ہوں ۔۔۔وہ واقعی بڑے جگر والے تھے کہ بیماری سے پہلے وہ تہجد کے وقت اٹھا کرتے تھے اور ذکر یار میں اپنا وقت صرف کیا کرتے تھے ۔

جب قران کی سورہ نبا پڑھو یا القارعہ ۔۔۔۔اندر سے کوئی جھنجوڑتا ہے اور یہ وہی جھنجھوڑنا ہے جس سے ہمیں قیامت یاد آتی ہے ہمیں بیدار کیا جاتا ہے اللہ کے بندو ! دنیا کو تعمیر میں نے کیا ہے اس کا معمار میں ہوں تو میں ہی اس بات پر قادر ہوں کہ اس کو اکھاڑ سکوں ۔ میں نے پہاڑ بنائے جو کہ اتنے مضبوط ہیں کہ کسی انسان میں ہمت نہیں کہ ان کا اپنی جگہ سے ہٹاسکے مگر روز محشر یہی پہاڑ سیر کرتے چلتے پھر رہے ہوں گے یعنی جو ساکت ہیں وہ حرکت میں ہوں گے۔۔ زمین جس کو بچھونا بنایا وہی زمین زلزلے سے بھرپور تباہی لائے گی ۔۔ جو سورج سمت دیتا ہے وہ کہیں ڈوب جائے گا اس کا نشان نہیں رہے گا ۔ آسمان جو فلک سے بالا تر مخلوقات کا حجاب ہے وہ اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا ۔یہ ہے مالک کا استدالال جو سورہ نباء میں کیا گیا ہے کہ تم بے یقین ہو تو میں تمھیں یقین والے عذاب کی وعید سناتا ہے ۔میں نے اس دنیا کو تعمیر کیا ہے تو اس دنیا کو تمھارے لیے عذاب کی جاء بنادوں گا ۔
 

نور وجدان

لائبریرین

''اے میرے ہم شناس ! تجھے اپنی مٹی کی قسم ! تجھے اپنی ہجرت کی قسم ! تجھے اپنی بینائی کی قسم ! تجھے اپنی بصیرت کی قسم !''

''میں تجھے تجھ سے بڑھ کے چاہتا ہوں ۔تیری تکلیف تجھے بصارت دے رہی ہے ۔ انسان اضطرابِ مسلسل سے سیکھتا ہے ۔ مجھے اپنی غفاری کی قسم ! میں انسان کو اس کی حد سے زیادہ نہیں آزماتا ۔''

''میرے دلنشیں ! سن ! میری عطاؤں کی حد کی انتہا نہیں ہے ۔ میں نوازنے پر آؤں تو دوں زمانہ ! میری قدرت سے کچھ نہیں بعید نہیں ! کبھی سورہ القلم کو غور سے پڑھا ہے ؟ اگر پڑھا ہوتا تو میرے در پر سوال لانے کے بجائے حکمت کو سمجھتے سجدہ شکر ادا کرتی ۔۔''

''میں اس جہاں کو خالق ہوں ۔میں نے یہ جہاں سیر و تفریح کے لیے پیدا کیا کیا ؟قسم اس نور کی جس کو روح کی صورت امر کیا ہے اور قسم مجھے اپنے قلم جس کی سبب میں نے تقدیر کو رقم کیا اور قسم اس قلم کی جس کی سبب انسان کو لکھنا سکھایا ۔۔انسان نہیں جانتا ہے مگر اس کے اندر میرا نور چھُپا ہے ۔ وہ جو مشاہدات کرتا ہے اور اس کی زندگی جن تجربات سے سے گزرتی ہے اگر اس میں مجھے پاتا ہے تو میں بھی اس کو پاتا ہے ۔ آئنے کا آنئے سے کیا حجاب ؟ سوچنے والے سوچتے ہیں ! میں چھپا ہوا خزانہ ہوں کسی صورت مل جاتا ہے مگر میرے جلوے کے بغیر عبدیت کا حق ادا نہیں ہوسکتا ہے ۔۔۔''

''اے نور ازل !
آپ سے کتنے آئنے نکلے !
ایک آئنہ نور علی نور کی مثال
ترا جلوہ لیے ہوئے ۔۔۔
میرے نصیب کی محفلیں ؟
اے مولا کریم !
وہ محفلیں ! بڑی یاد آتی ہیں
میری قدامت مجھے رلاتی ہے''

سُن خاکی !
سن ذرا غور سے !
کیا میں نے نہیں کہا ہے کہ میں نے قلم سے علم سکھایا!
سب کچھ تیرے اندر ہے
کبھی غور تو کر !
سوال نہ کر اور حجاب نہ کر !
تو میرا اور میں تیرا ہوں


''مولا کریم ! آنکھوں کی اشک بیانی ! یہ سمندر کی طولانی ! یہ مقام تحیر ! یہ عبرت کدہ ہائے دنیا ! یہ رنجشوں کی بیانی ! ہائے مولا !
وقت ضائع کردیا ! میں اپنے جلوے میں مگن ہوں اور مجھے اس سے دوری تڑپاتی ہے ! اپنے حسن میں مست ہوں ! اپنی بصیرت کی کمی رلاتی ہے ! میں تیری آواز سنتی ہوں مگر آواز کی دوستی نہیں ہوتی مجھ سے ! ہائے یہ دوریاں ! ہائے یہ مجبوریاں ! کب یہ بیٹریاں دور ہوں گی !

سن خاکی !

لوح و قلم پر جو لکھا ہے وہ پورا ہوکے رہتا ہے ! اس میں ایک سیکنڈ کی دیر نہیں لگنی ! تیرے باغ میں مسرت کے پھول کھلیں ! کتنی دیر لگے گی ؟ وقت کی گردش دائرے میں مقید ہے اور سب پرانا تجھے بمع سود مل رہا ہے ! کیا یہ اکرام کم ہے ؟ تجھ پر انعام کم ہے کیا ؟ صبر و حوصلے ! ان کے ساتھ میرے راستے پر چل ! میں تجھے وہ سب دوں گا جو تیری چاہت ہے کہ تو نے پورا کرنا ہے جو میری چاہت ہے ۔۔۔۔ جتنا فرق مٹتا جائے گا ! خاکی تو میرے قریب ہوتا جائے گا ! پھر عالمِ حیرت میں داخل ہوتے تجھ پر وہ راز منکشف ہوں گے کہ تو بھی انگشت بہ دنداں ہو جائے گا ! سنبھل سنبھل کے چل اے زائر !

انسان جب اس دنیا میں داخل ہوتا ہے تو اس کی معصومیت مجھ سے قریب کیے ہوئے ہوتی ہے ۔جنت و دوذخ کا قریب سے مشاہدہ کرتا ہے ۔ وہ مجھے سوچتا ہے کہ اس کا خالق کون ہے ؟ یہ سوال اس کے دل میں ''ہم '' ڈالتے ہیں ۔ اس طرح کسی کو کچھ دینا ہو تو اس کی ''خواہش '' بھی ہم ہی پیدا کرتے ہونا ہے ۔ میری مملکت کے دائرے میرے قاعدے و اصول کے مطابق چلتے ہیں مگر اگر سب انسانوں کو ایک ہی اصول پر چلا دوں تو میری عطا ! میری جزا ! میری غفاری ! میری ستاری ! میری کریمی ! کون جان پائے گا ؟
کسی کو میں عفو سے ملتا ہوں کسی کی عیب پوشی سے تو کسی کو عطا سے ۔۔۔! میرا قانون کسی اٹل دائرے میں نہیں چلتا ہے بلکہ اس میں ''کمی و بیشی '' سے فرق پیدا کرنا کائنات کا اصول ازل ہے ! میں مالک ہوں تو عبد ! سب سے بڑا فرق تو یہی ہے ! پر دیکھ میں تجھے ستر ماؤں سے بڑھ کے چاہتا ہوں ! تو مجھے اسی طرح چاہے تو کیا حجاب رہے گا ؟ کیا نقاب رہے گا ؟ فراقِ یار بھی وصال ہے اگر تو مجھ سے محبت میں ہے اور وصال یار بھی فراق ہے اگر تو مجھےسے دور ہے ۔



 

نور وجدان

لائبریرین
کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک پل میں شمع جل کر راکھ ہوگئ ہے ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ دل پر بوجھ سا پڑجاتا ہے کہ اب کچھ کرنا ہے اور کچھ قرض ہے ۔ اس ادراک کی افہام سے دل میں زلزلے آجاتے ہیں ۔ سیلاب اور زلزے اور پھر بھی خاموشی ۔۔۔۔
یہ آگہی کا عذاب بڑا عجیب ہوتا ہے مگر جب بھی ملتا ہے وہ خوش نصییب ہوتا ہے ۔

آگہی ایک عرفان آگہی تو پہچان! اس سے ہو ایقان !یہ ذات کا وجدان دل کہتا کہ اب محبوب کی نہ ٹال۔۔۔!


بس اس کے آگے زبان کو تالے لگ جاتے ہیں ، انسان جو مست خرامی ۔۔۔۔ خراماں خراماں باد صبا کی طرح مہک رہا ہوتا ہے اس کا دل جل اٹھتا ہے ، خوشبو بن کر جلنا کیسا ہوتا ہے َ


خوشبو بھی ، روشنی بھی جستجو میں مدہوشی بھی اس آڑ میں اک بے بسی بھی پھیل کر رہے گی روشنی بھی''

تن کو چھوڑ دو۔۔۔ من بڑا اداس ہوگیا ہے ، سارا سمندر آنکھ کے بند میں بندھ گیا ہے ۔ ہائے ! بند کیسے کھلے گا، ہچکیاں کب لگیں گی ، روئی بدن کا ذرہ کب اڑے گا۔ اور ذرہ کب ، کہاں کہاں اڑے گا۔ اس کی بساط ، مگر اڑے گا اور مہک کر روشنی دے گا۔ اس میں تن کا جلنا شرط ہے تو شرط سہی ، ہم کو تو یہ شرط بھی ماننی ہے کہ تن ، من کا جلا ایک دروازے سے کھڑا اس کو کھول چکا ہے اور دروازے کھلنے پر ایک لق و دق صحرا ہے ، مگر یہ صحرا دروازے پر کھڑے رہنے سے اچھا ہے ، صحرا کے طویل مسافت کے بعد ایک اور دروازہ اور آگہی و عرفان کے در کھلتے جائیں گے ۔ درد کا راستہ و سفر شروع ہے ۔ ساری شوخی و مستی ہیچ ہوگئی ہے ۔ اب بے بسی میں مزہ ہے اور اس میں اک نشہ ہے ، شراب کا نشہ کون چھوڑے گاَ؟ اس کی لت جس کو لگ جائے تو بس چھوٹتی نہیں ۔ قطرہ قطرہ قلزہ لگتا ہے اور اس قطرے میں ڈوب جانے کو من بھی کرتا ہے جبکہ ذات رل جاتی ہے اور رل بھی جائے تو اس کو رل جانے دو۔۔۔۔ یہ سفر بھی ایک اعجاز ہے اور رب کا شکریہ اس نے کسی ذرے کو روشنی دی ۔ ورنہ ذرہ کیا حیثت رکھے
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین

زندگی میں سلاخیں بدن میں گڑھ جاتی ہیں اور زندگی محدود ہوجاتی ہے. قیدی کا کام کیا؟ اس کو دو حکم ملتے: ایک مالک سے اور دوسرا نائب سے. وہ کس کا کہنے مانے؟ بدن کے اندر دھنسا مادہ التجا کرتا ہے اور کبھی خاموشی کی چادر اوڑھ کر سمندر کو شوریدہ کرتا ہے ۔

''مکانی قیدی''کی بات قوقیت رکھتی کیونکہ ظاہری طور پر زندگی اس کی غلام ہےمگر پسِ پردہ' یہ 'زمانی ''مالک کی تابع ہوتی ہے.انسان کی جنگ جو اس کے من کے اندر چلتی ہے وہ اسی زمانی و مکانی نسبت کا شاخسانہ ہے. تم ایک وقت ایسا پاؤ کہ جب مکان کی وقعت کھو دو تو ''تمہارا '' اور'' زمانی'' کا رابطہ ایک ہوجائے،تب صرف اور صرف راستے کی رکاوٹ میں شامل تمہارا نفس ہے. اس راستے میں عقل بطور پل صراط بن کر تمہارا راستے کا پل بن جاتی ہے اور یہ پل تمہاری آزمائش اور پہچان کی طرف کا راستہ بھی ہے۔


بدنی پانچ حسیات اور وجدان ایک دوسرے کی ضد ہیں. لاشعور زمانی اور حسیات مکانی ہیں.کبھی نفس تمھیں آنکھ سے بھٹکائے گا تو کبھی خوشبو راستہ روکے گی تو یہ کبھی نغمہ ساز بن کر بھٹکے گی تو کبھی نغمے کی کشش ۔۔۔۔۔ ۔۔! کبھی چھو جانے کا احساس گداز ڈال کر تیرا راستہ روکے گا. ان سے جنگ تیرا جہاد اکبر ہے اور یہی راستہ جنگ عین 'زمانی '' کی طرف لے جائے گا۔


جنگ کے مرحلے تیرے نفس کے مراحل ہیں: جب تو امارہ سے لوامہ سے ملحمہ سے ملکوت سے جبروت سے لاہوت کا سفر طے کرتاہے. ایک درجے سے دوجے درجے جانے کا امتحان ہوتا ہے. ایک دروازہ ایک پل پار کرنے کے بعد کھلتا ہے ۔اس پل کو تم' پل صراط' کہ لو کہ جہاں ساری حسیات کو یکجا کرکے تم چل سکے تو چلے ۔۔۔۔ اور ان میں سے ایک حس نے بھی تمھارا توازن خراب کر دیا تو سمجھو تم برباد ہوگئے ۔ اس بربادی سے بچنے کی دعا مانگنا اور بچ بچ کے چلنا صبر اور تقوٰی سے حاصل ہوتا ہے

زندگی میں جب تجھے آزمائشیں گھیر لیں اور تو گھبرا کر مایوس نہ ہو کہ خالق کا فرمان ہے
لا تقنطو.۔۔۔۔۔۔۔
مایوس مت ہو۔ (اللہ کی رحمت سے )

تیری مایوسی ،تیرا نفس ہے جو تجھ پر حاوی ہونا چاہتا ہے وہ تجھے دس ہزار طاویلیں دے کر راستہ روک دے گا۔. رکنے والے سفر روک دیتے ہیں اور جنگجو سفر جاری رکھتے ہیں. دنیا میں جنگجو کبھی سپاہی ہوتے ہیں تو کبھی جرنیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!

تیرے اندر کی جنگ تیرا مقدر ہے اور تیرا ان پر حاوی یا محکوم ہوجانا تیری تدبیر ہے. اور ایمان دو حدود کے بین بین ہیے. نفسانی خواہشات پر جبر کرنے والے یہ راستہ کھو سکتے ہیں مگر صابر کو میٹھا پھل ملتا ہے اور صابرین کے ساتھ وہ ہستی ہوتی ہے.

صبر و جبر تیرے نفس پر گرہیں ہیں جب تو ان سے خواہشات نفسانی کو مقفل کرتا جائے گا تو تجھ پر انوار منکشف ہوں گے مگر تو اگر نفس کو کھلائے گا تو تیرے دل پر مہر لگنے کا خطرہ ہے جو معطونوں کے لیے ہے.

دنیا میں تیرے صبر کو تقویت دینے والی چیز تقوٰی ہے. یہ تیری نفس کا دست راست ہے. زندگی کی خار راہوں سے موتی چن کر کانٹوں سے بچ بچ کے چلنا زندگی کا عین ہے.

وہ وعدہ جو روح وجود میں آنے سے پہلے کر چکی ہے وہ ہی جو ایک زندگی.گزار چکی ہے جب جب تو موتی چنے یا کانٹے۔۔۔۔!! یا تجھ میں احساس جاگے کہ تو اس بات سے واقف ہے ،تو سمجھ لےکہ تیری روح تجھ میں بیدار ہے اور تیری ذات کو کیل کانٹوں سے نکالنے میں معاون ہوگی .یونہی تیرے نفس کے مدارج طے ہوتے جائیں گے
 

نور وجدان

لائبریرین
متلاشی

'میں نے اپنے ارد گرد جنگیں دیکھیں ہیں ۔ کبھی کبھی ارد گرد بکھرا خون مجھے اپنا سا لگنے لگتا ہے ۔ چند دنوں سے اس جاری جنگ کے احساس نے مجھ میں اتنے خون کر دیے ہیں کہ یوں لگتا ہے باہر کی دنیا شفاف ہے اور اس پر بکھرا خون میرا ہے اور اسکو میرے من نے جذب کرلیا ہے ''

''یہ جنگ کس کے درمیان ہوتی ہے؟ ''میرے قریب بیٹھے سفید پروں والی عجیب الخلقت مخلوق نے سوال کیا ۔

''پتھروں کے درمیان ۔۔۔! ''میں نے اس کے سوال سے بھی مختصر جواب اس کو دیا ۔

'' پتھروں کی لڑائی تم نے کہاں دیکھی ہے ؟ اور کیا پتھروں کا خون تمہارے من نے جذب کر لیا ہے ؟ '' اس نے دھیمے لہجے میں شائستگی سے پوچھا ۔

ہاں ! آج کل پتھروں کی لڑائی ہی ہوتی ہے ۔ کبھی تم نے شفاف ، نیلے، سبز ، سرخ ، ست رنگی پتھر دیکھے ہیں ؟

''کل دو پتھر ایک دوسرے سے تلوار اٹھائے لڑ رہے تھے ۔ ان میں سے ایک زخمی ہو کر زمین کے نیچے چلا گیا اور دسرا زمین کے اوپر ۔۔۔!!
اور پھر جب میں بھی اس کے پیچھے زمین کے نیچے گئی تو وہاں مجھے یاقوت چمکتا ہوا ملا ۔ ''

سفید پروں سے نور کے دھارے میرے چہرے سے ٹکرا کر روشنی بکھیرنے لگے جس نے مجھے مزید کچھ کہنے سے روک دیا اور اس نے پوچھا :

''گویا تم کان کن ہو ۔۔؟

'' نہیں '' !!!
'' میرا نام متلاشی ہے ، مقدر میں سفر لکھا ہے۔۔۔!! ایک دم میری دست شہادت سے سرخ روشنی نکلنے لگی اور اس کی سفیدی سے مل ہلکا نارنجی بنانے لگی ۔


''وہ عجیب الخلقت مخلوق مجھ سے دور ہوگئ اور کہا یہ پتھر تم نے پہن کر سوراخ بھر دیا ۔ سوراخ کو پتھروں سے بھرنے کا ہنر اچھا ہے ، کسی خاکی نے یہ کیا عجب تماشہ کیا ہے مگر چھید بھرنے کا طریقہ اور ہوتا ہے ''


مجھے اس کی باتوں میں پراسراریت محسوس ہوئی اور میں خود بھی اس سے دور ہٹ گئ ۔


'' تم نے یاقوت کو پہن کر اچھا نہیں کیا ، کیا اچھا ہوتا ہے کہ اس کو پگھلا کر چھید بھرتی ۔ پہننے سے صرف روشنی منعکس ہوتی ہے جبکہ اس کو حصہ بنانے سے روشنی وجود سے نکل کر چار سو بکھرتی ہے اور جہاں کے مظاہر اس کو منعکس کرتے ہیں ''


''گھاٹے یا منافع کا سودا کیا ؟
اے نیک صفت !
مجھے تو سوراخ سے مطلب !

میں تمہں ایک ایسے غار میں لے چلتا ہوں جہاں پر تمہاری طلب کی حد ختم ہوجائے گی اور تم شاید اور کی تمنا نہیں کروگی ۔ اس کے ساتھ میں اس غار میں چل دی ۔ غار کا دہانہ کرسٹل کی شکل میں آسمانی رنگ کی شعاعیں بکھیر رہا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی میں نے وہاں ڈھیر سارے نیلے سیفائرز کو پایا جن کی آب وتاب سے تاریک غار روشن تھا ۔ تب عجیب الخلقت مخلوق آگے بڑھی جس کے پروں سے وہی نیلے رنگ کا انعکاس ہونے لگا تھا۔ ان میں سے ایک بڑا پتھر اٹھایا اور اس کو ہاتھ میں پکڑا ۔ جیسے ہی اس نے پتھر پکڑا ، وہ پتھر ریزہ ریزہ ہوگیا ۔پھر میری طرف متوجہ ہوا

'' یہ لو ''
'' ان ٹوٹے ریزہ ریزہ پتھروں کا میں کیا کروں گی ؟ اگر دینا تھا تو آب و تاب سے بھرپور مکمل پتھر دیتے ۔۔!!!''

پہلی بار اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگا جیسے میرے اندر جھانک رہا ہوں اور پھر بولا۔

'' لال جو باہر انگشت شہادت میں پہنا ہوا ہے اس کا اصل تو انگشہت شہادت کے زیریں ہے ۔اس نے '' گرد'' کو خود میں جمع کر لیا ہے اور
تمام کثافتوں کو اپنے اندر مدغم کرلیا ہے ۔۔۔۔ ''

اس نے اشارہ کیا اور اس کے ہاتھ سے نکلے پتھر کے نیلے ریزے جیلی کی شکل اختیار کرتے گئے اور وہ جیلی ایک ہی جھماکے سے اندر کہیں جم گئی ۔''

میرے اندر طمانیت کی لہر اتر گئی اور مجھے محسوس ہوا کہ خاکی ارض پر وجودیت نے نیا روپ دھار لیا ہے مگر کس طرح ہوا ، اس کا اسرار جاننا مشکل تر کام ہے۔

'' تمہارے اندر '' یاقوت '' ہے اور تمہارے خون میں '' سیفائر '' ہے ۔ ہاں ایک بات یاد رکھنا : تمھیں 'زمرد ' کے قابل بن کر ''ہیرے '' کا متلاشی بننا ہے اور ۔۔۔ اگر تم نے '' سونا'' ڈھونڈنا شروع کردیا پھر کچھ بعید نہیں کہ دھوکہ میں رہو اور دھوکہ دو۔ ایک ایسا پتھر ' ہیرا' جس کو '' خالص ہونے کے لیے کڑوڑوں سال کی سورج جیسی تپش اور کشش کے دباؤ نے بنایا اس کو تلاش کرچکنے کے بعد تمہیں میری ضرورت نہیں رہے گی ۔ کڑوڑوں سال کا فاصلہ تم سالوں میں طے کرنا کا موقع مل رہا ہے ۔

میں سوچ رہی تھی کہ '' ست رنگی '' ہوگا تو شفاف بھی ہوگا ۔میں اپنے سفر پر نکلی تھی اور یہ عجیب راہیں بتا رہیں ہیں ۔

اُس نے میری سوچ شاید بھانپ لی : ''ست رنگی تمھی ''زیفرقستان'' میں ملے گا اور امید تیقن کے ساتھ '' ہیرا'' انہی خاردار راہوں میں چھپا ہے ۔انسان کی اصل پہچان ست رنگی سے ہوتی یک رنگی ہوجاتی ہے ''

'' میری سمجھ سے سرخ ، سبز ، نیلا ، ست رنگی اور یک رنگی باہر ہے ، بالکل ایسے جیسے کوئی دوسری زبان ہو ''

'' سفر شروع کرنے سے پہلے سوال کرتے نہیں ، کہ یہ سفر بذات خود ایک 'سوال' ہے اور سوال کے اوپر سوال جچتا نہیں ۔ سفر کے دوران سارے سوال ایک ہی سوال میں ختم ہوجائیں گے بس اس سوال کا جواب منزل تک پہنچا دے گا

اس کے بعد میں نے سوال کرنا چاہا مگر وہ غائب ہوگیا ۔ اس نے ہونا ہی تھا کیونکہ سحر کی آمد آمد تھی ،مرغ بانگ دے رہے تھے ۔ میں نے آسمان پر ستاروں کو دیکھا اور وضو شروع کردیا۔​
 

نور وجدان

لائبریرین
منتشر خیالات
مایوسی ایسا دلدل ہے جس میں آپ نے خود گرنا ہوتا ہے۔اس کے آس پاس لہراتے بازو آپ کو کھینچنے کو کوشش میں رہتے ہیں ۔ جب آپ توازن کھو دیتے ہیں تو دو انتہائیں رہ جاتی ہیں ۔ایک انتہا آپ کو مسٹسزم کی طرف لے جاتی ہے اور دوسری ڈینائیل کی طرف، جب آپ مرتد ہو جاتے ہیں ۔ سوال یہ ہے دو انتہاؤں کے درمیان رہنے والے کیا منافقت کا لبادہ اوڑھے ہیں جسے عام زبان میں انسانیت کہا جاتا ہے ۔​

جب میں چھوٹی بچی تھی تب میں ان انتہاؤں میں نہ ان کے مابین تھی ۔ میں معصوم تھی ۔ اس کی دلیل بھی معصومانہ سی ہے ۔ پانچ سال کی عمر میں یہ خیال کرتی تھی میں نے گناہ دو کیے ہیں یا ابھی ایک کیا ہے جب تک تین گناہ نہیں ہوں گے اللہ تعالیٰ معاف کرتے رہیں گے یا نماز چھوٹ جایا کرتی تھی تو سوچا کرتی سات سال کی عمر میں فرض ہے اگر چھوٹ بھی گئی تو کیا ہے ۔ بڑے ہو کر یہی معصومیت منافقت میں بدل گئی ۔ کیا ہوا میں نماز نہیں پڑھتی میں کلمہ گو ہوں ۔ کوئی مدد کو آئے تو گمان ہو کہ ان کو عادت ہے مانگنے کی سو مانگتے ہیں

اور جب میں میٹرک میں تھی تو مجھے نعتیں ، قرانِ پاک تفاسیر سے بہت لگاؤ تھا سچ بتاؤں تو مزہ بھی بہت آتا تھا÷ پانچ وقت کی نماز پڑھ کر خود کو جنتی سمجھا کرتی تھی ۔ قیامت کا سوچ کر مجھے شاہکارِ کائنات نورِ مجسم ، امامِ انبیاء ، بانی حوضِ کوثر کا خیال آجایا کرتا ۔ اور میں حضرت امام حسین پر اتنی فدا تھی اکثر ان کی بات کرتی رہتی تھی ۔ یہ خیال کیا کرتی میں لباس پیوند زدہ پہن کر سنت پوری کر رہی ہوں ۔ اللہ سے سوال تب بھی کرتی تھی ۔ اللہ مجھے اپنی محبت عطا کر مجھے جنت و دوذخ کے انعام و سزا میں نہ ڈال ۔ یہ بات کہنے کی حد تک تو آسان مگر کرنے کو مشکل تھی ۔

میری عادت ایک تو بڑی گندی ہے میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرتی ہوں ۔ شکوے کرکے ان کے جواب لکھ دیتی ہوں گویا کہ میں اقبال ہوں ۔شکوے کا طرز تو اقبال سے ہی سیکھا تھا ورنہ جواب شکوہ بھی نہ لکھا کرتی ۔آپ لوگ پریشان ہوں گے جوابِ شکوہ کہاں ہے ۔ اسی محفل کی کسی لڑی میں پڑا ہے مگر خدا گواہ ہے جب لکھا تب خود کو معلوم نہ تھا میں کیا لکھ رہی ۔بس اتنا میں لکھ رہی ہوں جس طرح اب لکھ رہی ہوں۔ لکھنے کے لیے غم کی مے دستیاب ہوتی ہے وہ نہ ملے تو بازار کا سٹاک بھرا ہوا ہے ۔ اکثر شعراء کو میں نے دونوں طرز کے مشروبات نوش کرتے پایا ہے (سنا) بے خودی کے عالم میں انسان شاہکار تخلیق کرتا ہے ۔ اب پتا نہیں اس بات میں کتنی صداقت ہے

 

نور وجدان

لائبریرین

''وہ'' اپنے کمرے کے اطراف کا جائزہ لے رہی تھی ۔کمرہ رنگوں کی خوشبو سے مہک ہوا تھا۔ کبھی ایک پینٹنگ کو تنقیدی نظر سے دیکھتی اور کبھی دوسری کو دیکھتی اور یونہی ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے ''میں'' سے مخاطب ہوئی​

''میں'' تم نے یہ پینٹنگ دیکھی ہے ؟ اس میں سارا رنگ اسکیچ سے باہر نکلا ہوا ہے ۔۔۔ پتا نہیں کب رنگ بھرنا سیکھو گی ؟''​

میں نے ''وہ'' کو دیکھا، جس کا انداز مجھے بہت کچھ جتا رہا تھا۔۔۔ میں نے ''وہ'' سے کہا:​
'' جب میں نے رنگ بھرنا شروع کیا تھا۔۔۔ مجھے ایک بنا بنایا سکیچ دیا جاتا تھا۔مجھے اس میں رنگ بھرنا آسان لگتا تھا۔اب میں کبھی اسکیچ کو دیکھتی ہوں تو کبھی رنگ کو ۔۔۔۔۔ اس کشمکش میں رنگ باہر نکل آتا ہے''​

''وہ '' نے ان پینٹنگس سے توجہ ہٹائی اور مجھے دیکھنے لگی ۔۔۔ارے یہ کیا ''میں'' تمہارے چہرے پر قوسِ قزح پھیل کر کپڑوں تک کو خراب کر رہی ہے ۔'' یہ کہ کر ''وہ '' ہنس پڑی​

''میں'' نے اسے جواب دیا کہ شروع میں سب ہی مصور رنگ بھرے کپڑوں کو دیکھ کر مسکراتے ہیں ، ہنستے ہیں ۔۔۔ تمہیں کیا پتا یہی رنگ تو سرمایہ ہے ۔۔۔ یہ دیکھو سبز رنگ ! میرا چہرہ کس قدر حسین لگ رہا ہے ۔۔۔ یہ نیلا ،پیلا رنگ میرے کپڑوں پر لگا ہے۔ انہی رنگوں کی خوشبو سے تو مجھے مزہ آتا ہے ''​

وہ کئی لمحات تک مجھے دیکھ کر مسکراتی رہی اور کہا: اس لیے تم نے ادھورے اسکیچ مکمل نہیں کیے ۔۔۔ جب یہ مکمل کرلوگی تو تم پر رنگ بھی جچیں گے ورنہ سب رنگ تمہاری ذات سے نکل کر بھی مصنوعی تاثر دیں گے ''​

''میں '' دل ہی دل میں ''وہ '' سے قائل تو ہوگئی مگر ہتھیار پھینکنے پر دل آمادہ نہ ہوا اور بولی:​

'' یہ دیکھو ۔۔۔ادھر آؤ۔۔۔ یہ پینٹنگز دیکھو ۔۔۔۔جن کے اوپر سفید چادریں ہیں ۔۔۔ان کو میں نے ان سے کور کیا ہے تاکہ کوئی ان مکمل اسکیچ دیکھ نہ سکے ۔۔۔بس سب سفید ہی نظر آئے ۔۔۔۔''​

''وہ '' نے جب وہ خالی اسکیچ دیکھے تو داد دیے بنا نہ رہ سکی ۔۔۔اور پھر چونک کر کہا ۔۔۔تم نے اتنے سارے اسکیچ ادھورے چھوڑ کر صرف ایک ہی پینٹنگ میں سرخ ، پیلا اور پھر نیلا رنگ بے ہنگم طریقے سے بھرا ہوا ۔۔۔اچھی بھلے خاکے کا ستیا ناس کر دیا ہے ۔۔۔شاید اس لیے اس کو بھی غلاف سے ڈھکا ہوا۔۔۔''​

''میں '' وہ کی چالاکی پر حیران ہونے سے زیادہ پریشان ہورہی تھی ۔۔۔مجھے معلوم نہ ہوسکا وہ اس قدر گھاگ نکلے گی ۔ابھی سوچوں میں گم ہی تھی ۔وہ پھر سے مخاطب ہوئی :​

''تم ایک کام کرو، اپنے سارے رنگ خود سے اتار پھینکو ۔۔۔ !! بلکہ ایسا کرو اس رنگین لباس کو سبز، نیلا ،پیلے ، جامنی، سرخ ، اورنج اور نارنجی سے ملا کر سفید کردو ۔۔۔ تاکہ تمہارے رنگ بھی ان غلافوں کے رنگوں سے مل جائے''​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
زندگی میں قافلہ میرِ کارواں کے بغیر چلتا ہے ۔ ۔ ۔ ؟ اگر ایسا ہوتا تو انسان سالار ہوتا ۔ انسانی کی سالاری دو چیزوں پر منحصر ہے ، ایک اس کی عقل اور دوسرا اس کا وجدان ۔ وجدان کا ردھم زندگی کی روح اور عقل فطرت کا تغیر ہے ۔ دونوں میں کا ساتھ متوازن چلنا مشکل ہے ۔ آسان الفاظ میں جوش و ہوش کو متوازن کرنے سے انسانیت کی تعمیر ہوجاتی ہے ۔ اور ہر دو انتہائیں انسان کی دوسری سالاری کے جزو کو کو مقفل کر دیتی ہیں ۔​

انسان اگر عقل کی انتہا کو لے کر چل پڑے تو اس کے پاس ''شک'' رہ جاتا ہے ، اور یہی ''شک'' اس کو انکار کرنے کی طرف لے جاتا ہے ۔ '' عقل '' کا کام ہر وہ بات رد کرنا ہے جو اس کے اپنے حواسِ خمسہ ماننے سے انکار کردیں گوکہ چیز موجود رہتی ہے مگر فرق عقل والے کو پڑتا ہے کہ اس کی سالاری مفلوج ہوجاتی ہے ۔ ایسا سالار انسانیت کا نائب بن سکتا ہے ؟ اگر بن جائے تو انقلاب شیطان کا ہوگا۔۔۔۔۔۔ ؟ شاید اس کا وعدہ شیطان نے کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!​

افسوس ! انسان کی ''انتہا ''اس کو دھوکے میں مبتلا کر دیتے ہے کہ انتہا کا دوسرا نام'' دھوکہ'' ہے ۔ گو کہ انتہا میں جانے والی بہت ذہین ہوتے ہیں مگر ان کی فطانت ان کے لیے ، ان کا ہی بنا ''جال'' ب ان کے سامنے لا کر ان کو پریشان کر دیتی ہے اور وہ اس جال میں کھو کر کہیں کہ نہیں رہتے۔۔۔۔ ۔!!! دو کشتیوں کے سوار انسان کی زندگی کیسی ہوگی ؟ اور ایک وقت آتا ہے کہ پاسبانِ عقل اپنے اختیارات خود '' شک '' کو پکڑا دیتے ہیں ۔ یہی وہی ''شک ''ہے جس کا ''بیج '' آدم کو جنت سے نکالے جانے کا باعث بنا۔ انسان کی سرشت میں یہ مادہ گوندھ دیا گیا ہے ۔ وہ اس سے کیسے بچ سکتا ہے ؟​

اقبالیات : عقل گو آستاں سے دور نہیں ۔​
اس کی قسمت میں حضور نہیں​

اس وجہ سے اکثر احباب کو میں نے ''اقبالیات'' کا منکر دیکھا ہے یہ وہ انسان تھا کہ جس نے عقل و وجدان کی پاسداری کرتے ہوئے انسان کے نائب ہونے کے فرائض کی کمی پوری کردی ۔ اس انسان کی عقل نے بھی ''شکوہ ، یعنی شک '' کیا ، جو اس کی عاقلیت کا ثبوت ہے مگر اس کی ضرب ِ کلیم نے وجدانی کیف کا حق پورا ادا کی،ان کا لکھا شعر، شاید لاشعوری طور پر ان کی تعبیر ہے ۔​

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے​
بڑی مُشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا​

اس انسان کو بہت سے عاقل '' شرابی '' اور '' ملحد'' کہتے ہیں ۔ اس وقت جب میں لوگوں کے منہ سے یہ باتیں سنا کرتی تھی تو میرے دل میں شبہات جنم لیتے تھے کہ یہ انسان ''شرابی '' ہے کیا ؟ یہ انسان ملحد ہے کیا ۔۔۔۔؟ الحادِ فکر مغرب اور وجدانی شراب پینے والی شخص کی توقیر دنیا کے چند عاقل نہیں کر سکتے ہیں اور آج میرے سامنے دور ِ جدید کا اجتہادی نمونہ اقبال کی صورت میں ہے ، جس نے قران الحکیم کے حکمت کے گنجینہ اور پرا سرار الفاظ کو اپنے کلا م میں بند کر دیا اور پیغام دے دیا کہ لوگو '! ''عقل کے دروازے اور وجدان کے دروازے '' کھلے رکھنے سے پوری انسانیت کو فلاح مل جاتی ہے ۔​

اس کا مطلب یہ نہیں کہ اقبال کی تقلید شروع کر دی جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اقبال کے راستے کی تقلید کی جائے کہ یہ وہی راستہ ہے جو انبیاء کا راستہ ہے ۔ اس راستے میں فکر و غور بھی ہے اور وجدان بھی ہے اور اسی راستے پر ایک اور دور ِ حاضر کی شخصیت بھی چل کر اپنا نمونہ بن گئ، جس کو دنیا قدرت اللہ شہاب کے نام سے جانتی ہے ۔اس لیے یہ سلسلہ​
چلتا رہے گا ، راستہ بھی کھلا رہے گا ۔ مگر کون راستے کے اوپر آتا ہے یہ انسان کی اپنی بساط و مرضی ہے ۔​

دوسری طرف وجدان کی بات کرتے ہوئے مجھے احساس ہوتا ہے کہ یہ وہ انتہا ہے جس میں بقا تو ہے ، جس میں فلاح تو ہے مگر یہ فلاح و بقا صرف اور صرف انسان کی اپنی ذات کی ہے ۔ اس صورت میں غذا کی حق دار صرف اور صرف روح ہوتی ہے ۔ اور یہ وہ سلسلہ ہے جس پر بکھشو و سادھو چلتے ہیں ۔ گوکہ اسلامی تصوف کے بہت سے سلسلے اس راستے پر آئے مگر ایک سلسلہ ایسا بھی ہے جس نے دین و دنیا دونوں کا ساتھ نبھایا ۔ سلسہ سہروردیہ کے برزگ حضرت بہا الدین زکریا ملتانی رح بہت بڑی اراضی کے مالک تھے ، وہ شاہ ِ وقت کی عنایات بھی رکھتے اور امراٰء سے ملنے والوں تحفوں کو وصول بھی کرتے ،اور اس کے ساتھ بادشاہوں کی محافل میں شریک بھی ہوتے مگر دنیا کا لباس پہن کر ، اس لباس کی '' لیروں '' سے دنیا والوں کو دیتے ، اور نوازتے رہے اور ساتھ میں عقل کے تمام اجزا کو مجتمع کرکے اپنے من کے گیان میں کھو کر وجدان سے روح کو لذتوں سے سرشار بھی کرتے رہے ۔ مگر ایسا ہے کہ دنیا میں روح کی انتہا پر چلنے والی مجنون بن کر بار گاہ خد میں مقبول و منظور ہوجاتے ہیں مگر وہ انسانیت کی فلاح کے لیے کم کم کر پاتے ہیں ۔​

اسلام میں اس کی جانب اشارہ ہے کہ شک و شبہ میں نہ پڑو مگر اسلام نے غورو فکر کو سلاسل میں قید نہیں کیا ہے۔ اسلام متوازن سطحوں پرچلتا ہے ۔ اور جو لوگ درمیانی راہوں پر چلتے ہیں ، تاریخ ان کے ناموں کو متوازن شخصیت قرار دے کر دنیا والوں کو راستہ دکھاتی ہے کہ دنیا میں رہ کر فقیری اختیار کر ، دنیا کو دوسروں کے لیے سمجھو ، اپنے لیے نہ سمجھو ۔ اس لیے قرانِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ دین میں میانہ روی یا اعتدال اختیار کرو۔ یہی راستہ بھلائی و بہار کا ہے ، ہر دو انتہائیں زندگی میں خزاں بن کا روپ اختیار کرلیتی ہیں ۔ اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی لے ڈوبتی ہیں ۔ پتا نہیں ! پتا نہیں ۔۔۔ ہم میں سے کتنے ڈوبیں گے اور ساتھ کتنوں کو لے ڈوبیں گے ۔​

افسوس ! آج عقل نے انتہائے عقل کردی ، اور شعور ہی شعور رہ گیا ، اور اللہ کا خلیفہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!! شاید کہیں گم ہے ، شاید وہ موجود ہے ، شاید ہمیں اس کی سمت نہیں مل رہی ہے ، شاید ہمارے ''قطب نما ''نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے ، شاید مرکز سے رشتہ ریختہ ہوگیا ہے ۔اور پھر سب کی نظروں میں عاقل کا چہرہ سما جاتا ہے ۔​
 
Top