سوچ کا سفر

نور وجدان

لائبریرین
ابھی کل پرسوں کی بات ہے کسی ادیب کی تحریر پڑھی ''خدا کہاں ہے '' جس میں یہ لکھا ہوا تھا خدا پاؤں کی ٹھوکر میں ہے . میں نے جھٹ سے نتیجہ اخذ کیا وہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ انسان جب جب گرتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ مل جاتے ہیں . آئینے میں خود کو کھڑا کیا پوچھا کہ خدا کہاں ہے . ٹھک سے جواب آیا نور ہے اور نور دل میں ہوتا ہے ، پھر سوال کیا کیا دل کے پاؤں ہوتے ہیں جو خدا پاؤں میں ملتا ہے '' . پھر ہنسی آگئی ...​

من نے پوچھا کیوں ہنس رہی ہوں . جواب دیا خدا اور اللہ میں بڑا فرق ہے . شکر ہے اس نے لفظی طور پر لکھا تھا ایسے... اس کو خدا اور اللہ لکھنے میں اللہ کی کبریائی کا لائیسنس مل گیا ہوگا ۔۔ مجھے دو باتیں یاد آگئیں جب میں نے کسی ابن آدم کو چندا اکٹھا کرتے دیکھا تاکہ وہ اپنے باپ کی سسکتی زندگی کو بچا لے . .. چندا کل 20 لاکھ کے قریب تھا وہ تو اکٹھا ہو گیا​

اور اس سے پہلے وہ اپنا جگر اپنے باپ کے جگر میں اتارتا اس کے باپ کو اجل نے آ تھاما ... اس نے سوال کیا خدا کہاں ہے ، تم دنیا میں تباہی کے لئے آیے ہو . کسی نے اس کو سمجھایا بجھایا اور توبہ کروالی . کفر کر لیا چل کلمہ بھی پڑھ .... اس نے اللہ کو واحد مانا اس کو وہ مل جائے گا اس کا دل جب تھم جائے گا .. ایک اور قصہ یاد آتا ہے جب کسی دوست نے یہ سٹیٹس شئیر کیا ہوا تھا اے خدا تو کہاں ہے اگر تو نے اس کو دنیا میں ٹھوکروں کے لیے بلایا یا اس دنیا کا کوڑا بنانے کو لیے تو اس کو اٹھا لے ... اس پر بھی کفر کا فتوٰی لگ گیا۔۔۔لگنا بھی تھا ۔۔ خدا سے سوال وہ بھی گستاخانہ ۔۔ ...​


ہمارا معاشرہ فتوٰی دینے میں آگے ہے . مگر دلوں میں نہیں نظر ڈالتا کہتا ہے فلاں ملحد ہے ۔دلوں سے نور کیوں جا رہا ہے .... لوگوں میں ایمان کم ہو گیا ہے ... حمزہ نام رکھنے سے کوئی حمزہ سید الشہدا تو نہیں بن جائے گا .۔ فاروق نام رکھنے سے کوئی فرق کرنا تو نہیں سیکھ سکتا ۔۔ اور فاطمہ نام رکھنے سے کوئی ویسا پاکیزہ ہو سکتا ہے​

میں سوچ رہی ہوں.میں نے خدا تک پہنچنے کا سفر شروع کیا ہوا ہے۔ ۔۔. زادِ راہ نہیں ہے ورنہ جم کر کہتی دیکھو کیا خوب تیاری کی اس ذات سے ملنے کی ...میں نے بھی حسرتوں کا انبار دل میں مدفن کر لیا ہے ، کس منہ اس کے سامنے جاؤں گی ۔۔شرم تو آئے گی مگر ڈھٹائی پر رونا آتا ہے اسکے دینے پر اور اپنے ندیدے پن پر ۔۔​

یہ دنیا تو ٹھکانہ ہے اور عارضی ٹھکانے پر حسرتوں کی قبر بن جاتی ہے ... پھر جب بے شمار قبریں بن جاتی ہیں دل میں اندھیرا چھا جاتا ہے ہم پوچھتے ہیں خدا کہاں ہے ... نور تمہیں ان مردہ نعشوں میں ملے گا کیا...؟ یا اس اندھیرے میں پاؤں مارتے رہو گے تو مل جائے گا ... نور تب ملے گا ان حسرتوں کی قبر نہ بناؤ اگر یہ قبر بن بھی جائیں تو سوگ تین دن کا مناؤ...اور حسرتوں کو حتی الاامکاں مرنے نہ دے .. جب یہ حسرتیں ناسور بن جائے ان زخموں پر پھائے رکھنے والا کوئی نہ ہو تو ہمیں اس کا وجود لایعنی سا لگتا ہے ..​

دل سے ایک صدا آئی ہے ۔۔ مجھے لگا یہ نور کی آواز ہے ۔۔۔ پاک ذات کی جو دل کی میل کو دھو ڈالنا چاہتا ہے مجھ پر ایک سوال داغ ڈالا ۔۔​

''اے خاک تو نے کبھی مجھے دیکھا ہے کیا ؟ کبھی میرا جلوہ کیا ہے ؟ کبھی میرے دیدار کی خواہش کی ہے ... تو دنیا میں خداؤں کے پیچھے بھاگتاہے جب وہ خدا تجھے چھوڑ جاتے ہیں تو میرے پاس آتا ہے پوچھتا ہے میں کہاں ہے ... جب تو نے مجھے اس پاک جگہ سے ہٹا کر کسی اور کوصنم بنایا تھا میں نے پوچھا تھا میں کہاں ہوں؟​
 

نور وجدان

لائبریرین
میں نے انسان کو خدا سے لڑتے پایا ہے ۔ میں نے کل سوشل میڈیا کی سائٹ پر ایک سوال پڑھا تھا جس میں لکھا تھا کہ اللہ اور انسان میں بیشتر چیزیں مشترک ہیں ۔ ہم اللہ کی کونسی صفت تلاش کریں جس سے پتا چلے کہ انسان اور خُدا جدا جدا ہیں ۔ ہم انسان خدائی کے دعویدار بن جاتے ہیں ۔ میں نے سوچا کہ انسان تو اللہ کا آئنہ ہے ، اس کا عکس ہے ۔ صفات میں مقابلہ اس طرح کیا جاسکتا ہے

کہ
وہ لا محدود اور تم محدود
وہ معبود اور تم عبد
وہ حکمران اور تم نائب
وہ رحمان اور رحیم
تم انسان و بشر
کہنے والی نے میری بات سے انکار کردیا اور کہا :'' خدا کو اونگھ نہیں آتی جبکہ بندہ بیدار بھی رہتا ہے اور خواب بھی سجاتا ہے ۔اس لحاظ سے بندہ صفات میں زیادہ ہونے کی وجہ سے خدا سے بر تر ہوا''


میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ وہ تو عرش پر قرار پائے ہوئے ہو ۔ اللہ تعالیٰ کو اونگھ نہ آنا بذات خود افضل ہونے کی دلیل ہے ۔مجھے خیال آیا کہ فرشتے سربستہ احترام میں رہتے ہیں ۔ ان کی بندگی سُوچنے کی صلاحیت صلب کیے ہوئے ہے ۔ انسان کی سُوچنے کی حالت بیداری ہے اور حالت ء خواب میں انسان سوچ نہیں سکتا مگر بہت سی باتیں ذہن کی اسکرین پر چلتی رہتی ہیں ۔ یا تو انسان حالت ء خواب میں بیدار ہے کہ اس طرح اللہ تعالیٰ کے قریب ہو جاتا ہے یا پھر اللہ تعالیٰ سے افضل انسان ہے ؟ اسی کشمکس میں کئی دن گُزار دیے ۔ انسان کو شعور کیوں عطا کیا گیا ؟
شعور شاید انسان کو تلاش و جستجو کے لیے نوازا گیا ہے۔ اگر تلاش مقصود تھی تو سوال بنتا ہے کہ خدا کہاں ہے ؟ میں نے اپنے ارد گرد نظر ڈورائی اور مُشاہدہ شروع کیا ۔ میرے ذہن نے سوال کیا کہ اللہ نے انسان کو دو آنکھیں ، دو کان ، دو ہاتھ اور دو پاؤں عطا کیے ۔ اللہ تعالیٰ نے دِل انسان کو ایک کیوں دِیا ۔ دل کا ایک ہونا کیا خدا کے ہونے کی دلیل نہیں ؟ کیا یہی اصل ''خانہ کعبہ '' نہیں ؟ کیا یہاں اس کا وجود نہیں ؟ بابا بلھے شاہ نے اس لیے کہا تھا کہ اگر میں تمھیں باہر دیکھوں تو تم ہی نظر آتے ہو مگر جب میں اندر کی دنیا میں قدم رکھتا ہوں تو اس کی کشش سے میرا لا شعور ، شعور پر حاوی ہوجاتا ہے اور میں اللہ تعالی محسوس کرتا ہوں ۔ جس کی کشش اتنی ہے کہ دُنیا کی تما قوتیں اندر کی دنیا سے باہر نہیں نکال سکتیں ۔


اس سے میں نے یہ تو نتیجہ اخذ کیا کہ انسان اللہ سے جب دور ہوتا ہے تب جاگتا ہے اور جب سوتا ہے تب وہ اللہ کے قریب ہوتا ہے مگر اُس کی میرے جواب سے تشفی نہیں ہوئی ۔ اُس نے کہا کہ اسے اپنے اندر اللہ محسوس نہیں ہوتا ہے ۔ میں نے بھی اس کے آگے شیخیاں بگھار دیں تھیں مگر میری دلیلیں اُسے اپیل نہ کرسکیں ۔
میری اُس سے دوبارہ بات ہوئی اور اس نے مجھے طعنہ دے ڈالا کہ نور کیسی مسلمان ہو جس کو پتا نہیں ہے کہ اللہ طاقتور ہے یا بندہ !!! اللہ کی صفات کے بارے میں تم نا بلد ہو!!
اس جواب نے مجھےپانی پانی کردیا کہ میں نام کی مسلمان ہوں ۔ جس طرح میرا نام پیدائشی ہے ۔ بالکل اِسی طرح مجھے مذہب پیدائش میں مل گیا ۔ میں نے آیتوں پر غور کرنے کے بجائے ان کو یاد کرنا شُروع کردیا ۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ جس کو فلاں سورۃ یاد ہوگی اس کو قبر کا عذاب نہیں ستائے گا۔ میں نے لفظوں کو رٹا لگایا ہے جس طرح ہماری گُورنمنٹ کے منظور شدہ اسکولز میں لگایا جاتا بجائے کیمبرج اسکولز کے جہاں انسانی حسیات سے مشاہدہ سکھایا جاتا ہے ۔رٹا بھُول جاتا ہے مگر مشاہدہ نہیں ۔


میں نے اس سے کہا '' انسان اللہ کو محسوس کرسکتا ہے جبکہ اللہ بزرگ و برتر کو اس کی حاجت نہیں ہوتی ۔ اگر کچھ دن کے لیے بصارت کھو دو تو کیسے جیو گی ؟ کیسے لکھو گی ؟ [

''اس نے کہا کہ میں اپنی باقی حسیات استعمال کروں گی ۔ چیزوں کو چھُو کے دیکھوں گی کہ یہ ملائم ہیں یا کھُردری ۔ ان کی ہیئت کو محسوس کروں گی ۔ رنگوں کو روشنی کی نرمی گرمی سے محسوس کروں گی ۔ ان کی حرارت سے رنگوں کو جانوں پہچانوں گی ۔''

میں نے اس سے کہا : تم نے میری بڑی مشکل آسان کردی ۔ میں کب سے سوال کی تلاش میں سرگرداں تھی مگر تم نے اپنے جواب سے میرا سوال کو ختم کردیا۔ پُھول خُوشبو کے بغیر ادھورا ہے ۔خوشبو پھیل جاتی ہے اور طمانیت کا احساس دلاتی ہے ۔ دل نور کے بغیر ادھورا اور بے رنگ ہے۔نور ہمارے دلوں میں ہیں اور ہم اس کویہاں وہاں ڈھونڈ رہے ہیں ۔ ہم اسے محسوس کرتے ہیں مگر جھٹلا دیتے ہیں کہ ہم دیکھ نہیں سکتے ۔ نور کی شدت یا روشنی کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ آنکھیں چندھیا جاتی ہیں ۔ آنکھیں بند ہونے کے بعد روشنی کو محسوس کرسکتی ہیں مگر دیکھ نہیں سکتیں
 

نور وجدان

لائبریرین
ہماری سوچ کا محور اکثر دنیا ہو تی ہے ۔ دنیا میں لوگ بہت خوش ہیں اور کیوں خوش ہیں ۔ اسکو میری بد دعا لگی اسکے ساتھ برا ہوا ۔ ہم برا ہونے پر خوش اور کسی کے اچھا ہونے پر نا خوش ہو تے ہیں ۔ ہمارے ہونٹ کی جنبش میں مناجات بھی مطلب کی ہوتی ۔ اللہ سائیں اچھا کرنا ۔ بلکہ اس بندے سے زیادہ دینا۔ مجھے ترقی دینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوال کیا ہوتا ہے ۔۔؟ اک سوال تو معلومات حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے ۔ اک سوال مدد کا ہوتا ۔ مگر مرا مطلب سوال سے شکوہ کے معانی میں ہیں ۔ بندہ رب سے سوال کیوں کرتا ہے ۔ سوال کرنا ہو تو وہ کس حد تک جائز ہے ۔ مجھے حکمت کا جواب اللہ وتبارک وتعالیٰ کی قصے سے ملا اور پتا چلا اللہ جانی نے قصے کیوں کر بتائے ہیں ۔ ان میں کیا حکمتیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!​

سورت کہف شریف میں اسکا ذکر ملتا ہے اور کیا کمال انداز بیاں ہے ۔ میں اس کرم کے کہاں قابل کہ اس بات کو سلیقے سے بتا پاؤں جس قصے سے مجھے سفرِ خضر یاد آتا ہے ۔ روانگی سے قبل انہوں نے منع کیا سوال نہ کرنا اور یہ ساتھ جانے کی شرط تھی ۔ جب حضرت موسیٰ (ع) نے پوچھا مالک کائنات سے کہ اللہ اس دنیا میں مجھ سے زیادہ کسی کے پاس علم نہیں ۔ پروردگار ِ عالم نے کہا۔۔ ایک ایسا بندہ ہے جو تجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ اسے تجھ پر فو قیت ہے ۔ پوچھا کون ہے وہ ؟ جواب ملا کہ وہ خضر (ع) ہیں ۔ موسی ؑ تو نبی تھے لاڈلے ، ملنے کی ضد کی ۔ پروردگار عالم نے کہا مرا بندہ یہاں یہاں ملے گا، یہ وہی خضرؑ ہیں جنہوں نے آبِ حیات پیا ہے ۔۔۔۔!!!​

موسیٰ (ع) سمندر پر آپ کے ساتھ تھے ۔ جس کشتی پر سوار تھتے اسکے کچھ حصوں کو توڑ دیا۔ حضرت موسیٰ ؑ حیران ہوئے سوال کیا ۔ آپ ؑ کو خضر ؑ نے ٹوک دیا ۔ کہ سوال منع کیا تھا ۔اب کہ سوال کیا تو سفر آپ ؑ کے ساتھ نہ ہو گا۔پھر جب آپ ساحل پر آئے تو ایک بچہ کو مار ڈالا۔ اب تو حضرت مو سیٰ حیران ہوئے ۔۔ لب رک نہ سکے کہ سوال ہونٹ پر در آیا۔۔ پوچھا یہ کیا کیا۔ حضرت خضر ؑ نے کہا میں نے منع کیا تھا سوال نہ کرنا۔ مجھے اجازت دیں ۔ اب آپ کی اور میری راہ علیحدہ ۔۔۔ مگر حضرت موسیٰ ؑ نے منت سما جت کی ۔ مجھے آخری موقع دیں ۔اب کہ سوال کیا تو مجھ سے آپ علیحدہ ہوجائیں بے شک ۔۔​

حضرت خضر ؑ مان گئے۔ جہاں پر یہ دونوں ہستیاں تھیں وہ ایک گاؤں تھا وہاں ایک گھر میں رہائش پذیر تھے ۔ خضر ؑ نے اس گھر کی دیوار شکستہ حالت میں تھی ۔۔۔ آپ ؑ نے دیوار تعمیر کر دی ۔ حضرت موسیؑ پھر سوال کرنے پر مجبور ہو گئے ۔ پوچھا یہ کیا آپ نے ۔۔ مکان کی دیوار کی تعمیر پر کچھ اجرت ہی لے لیتے ۔ اور کیا وجہ تعمیر کرنے کی ۔۔ ۔ !!!!​

اب کی بار حضرت خضر ؑ نے کہا کہ اب میرا تمہارا سفر ختم۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ سوال نہ کرنا ۔ جاتے جاتے وہ سوالات کا جواب دے گئے ۔ کہا جس کشتی کو خراب کیا تھا وہ بہت حسیں اور اکمل تھی ۔ ساحل کے پار ایک بادشاہ ہے اسے جو اچھی کشتی لگتی ہے وہ اس پر قابض پو جاتا ہے ۔ اس کشتی میں نقص کی وجہ سے وہ اسے اپنی ملکیت نہیں بنائے گا ۔ اور غریب کا بھلا ہو جائے گا۔ جس بچے کو میں نے قتل کیا اس نے
بڑا ہو کر ماں باپ کے لئے ملامت و تذلیل کا باعث بننا تھا ۔ اسکے بدلے اللہ تعالیٰ ان کو نیک اولاد عطا کرے گا۔ جس مکان کی دیوار کو میں نے تعمیر تھا ۔اسکے نیچے خزانہ دفن ہے جو یتیم بچوں کا ہے اور اب وہ بچے بالغ نہیں ۔ وہ سونا دیوار کے نیچے دفن رہے گا ۔ کیونکہ حریص رشتہ دار ان کا سونا غضب کر لیتے تھے ۔​

حضرت موسی ؑ جو نبی دلال ہیں ، لاڈلے نبی تسلیم کیا کہ خضرؑ کا علم ان سے زیادہ ہے ۔ اور رخصت ہوئے ۔ اس سارے واقعے میں ''سوال '' حکمت ہے ۔ ہم سوال کہیں یا شکوہ کہ لیں ۔۔ مالک سے سوال کرتے اللہ میں کیوں سول سروس میں کامیاب نہیں ہوا۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ اس تم میں کمی ہے بس اللہ کی مرضی اور ہے اور اس پوشیدہ بھلا ہے جو وہ ہی جانتا ہے اسکے سوا کوئی نہیں ۔ اللہ تعالی بندہ کو ڈھیل دیتا ہے کسی حد تک کہ وہ شکوہ یا سوال کرے ۔ جب وہ حدود پار کردے تو اسکے ساتھ چل نہیں سکتا ۔ ہم کیتے ہیں اللہ اس کا بیٹا لائق ہے میرا نالائق یا کہ میرے ہم نوا مجھ سے اچھا پیش کیوں نہیں آتے میں بھلا چاہتا ہوں ۔ نو سال کا بچہ عالمی ریکارڈ بناتا ہے ۔ مگر 20 -22 سال میں وہ ریکارڈ نہیں با سکے ۔ایسا کیوں ۔ عاشق بناتا ہے اللہ خاص خاص کو ،،، اور معشوق تو اس سے بھی زیادہ چنیدہ ہوتے ہیں ۔ ہم فٹ سے کہتے پیں اللہ میں معشوق کیوں نہیں ۔َ کیوں بڑا خطرناک ہوتا ہے ۔ سوال پہ سوال وہ خاموش ، وہ ساتھ نہیں چھوڑتا چاہے ہمارا یار شیطان ہی کیوں نہ ہو۔۔​




کبھی کسی نے اللہ سے کہا اللہ مجھے نبی اکرم ﷺ کا امتی بنایا کسی اور نبی کا بنا دیتے ۔ کوئی نہیں کہے گا ۔ ہم کو اللہ خاص بناتا ہے امتی بنا کر اور آدم کی خصلت ہے کہ وہ خود کو عام نہیں ہونے دیتا ۔خوب سے خوب تر کا جنون ہوتا ہے ۔ ہم بازار جاتے ہیں لینا اک سوٹ یا شرٹ ہوتی ہے یا پرفیوم ۔۔ پورا شہر یا ملک اور کوئی تو باہر کے ممالک بھی چھان مارتے ہیں پھر جا کر انہیں کچھ پسند آتا ہے ۔ اللہ نے ہمیں پسند کیا ہے ہیارے محمد ﷺ مجتبیٰ مرتضیٰ کا امتی ہونا ۔ اللہ نے چھانٹی کی ہے ہماری ۔ساری امتوں میں سے چنا ہے ۔ خاص خاص بندوں کو نبیﷺ کی امت میں ڈالتا گیا۔ پم چنے ہوئے ، گنے ہوئے لوگ ہیں ۔ اللہ کی پسند ہیں ۔ جتنا شکر کرین تو کم ہیں ۔​

موت کے اجل نے کہا کہ نہیں میں نہیں جانتا ۔ فرمایا میں نے سمندر کی موجوں کو کہا اسکو ماں کی مامتا دو لوری دو ، ہوا کو کہا اسکا جھولا بن جاؤ ، سورج کو کہا اسکو روشنی دو ، درختوں کو کہا اسکو سایہ دو ، پھلوں کا کہا اسکو توانا کرو ۔۔۔۔ تم جانتے ہو وہ کون تھا۔۔۔ وہ نمرود تھا جس نے بڑے ہو کر خدائی کا دعوا کیا تھا ۔​

مجھے رہ رہ کر قرانِ پاک کی نشانی /آیت یاد آرہی ہے جسکو سورہ رحمان میں بار بار دیرایا گیا ہے ۔​
فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔ سوال کرنا بھی اسکی نعمت کو جھٹلانا ہے ۔ ہم بہت خاص ہیں اللہ کے۔۔ وہ اپنے لاڈلے بندوں کو ڈھیل دیتا ہے ۔ہم پھر بھی شریک کرتے ہیں اسکو ۔ وہ ہمیں سب کچھ دیتا ہے مگر ایک مطالبہ کرتا ہے کہ مومن ہو جا ، محبت کا مومن بن جا ، محبت سیکھ ۔۔۔ بس تو محبت کرنا سیکھ اسکے بعد وہ جو آسمانوں ہر مقیم کبھی تری دعا رد نہیں کرے گا۔عاشق ایک تو حکمتوں کو جانتا ہے نہ بھی جانے تو ہوتا تو وہ دیوانہ ہے ۔ اسکا ہوش رہتا ہے اسے بس ۔ ذات باری تعالیٰ کے بعد وہ سب بھول جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ جو ''میں'' ہوتی ہے / انا کہ لوں۔۔۔۔۔ اس کو خاک تلے روند دیتا ہے

اک تری چاہت ہے

اک مری چاہت ہے

ہوگا وہی جو مری چاہت ہے

ہاں اگر تو سپرد کردے خود کو

اسکے جو مری چاہت ہے

تو میں تجھ کو وہ دوں گا جو تری چاہت ہے

اور اگر تو نے مخالفت کی اسکے جو مری چاہت ہے

تو میں تھکا دوں گا اس میں جو تری چاہت ہے

پھر ہو گا وہی جو مری چاہت ہے !!!

اختتام سے پہلے دو حکمت سے بھرپور واقعات آپکی نظر کر دوں ۔۔ اک بزرگ نے منت مانی سید سیدی بابا بلھے شاہ رح کے مزار مبارک پر ۔۔۔ روز وہاں جا کر زار و قطار روتا رہتا کہ بات پوری ہو جائے مگر رونا کے سلسلہ بڑھتا جاتا۔۔دل پگھل کر موم ہوتا جا رہا تھا ۔۔ جسم سے سکت جا رہی تھی مگر دعا قبول نہیں ہو رہی تھی ۔ مایوسی کے سائے منڈلا رہے تھے پاس پا س ،۔۔ پر وہ بزرگ مایوس نہیں ہوئے معمول بنا لیا جیسے بندہ نماز پڑھتا اسطرح آکر زاریاں کرنا۔۔۔۔۔اک دن یہ بزرگ زار ع قطار رو رہے تھے ۔۔ تو دیکھا اک نائقہ آیئں ۔۔ منت مانگی ۔۔گھونگھر ؤں کی آواز کانوں میں سنسائی ۔۔ کچھ برا لگا جی کو مگر توجہ ہٹالی ۔​

پھر اگلے دن وہ وہاں پر حاضر تھے ۔۔۔ آج مزار پر بہت چہل پہل تھی ۔۔ جیسے کوئی لنگر سا ہو ۔۔ کھانہ تقسیم ہو رہا ۔۔ پیسے بانٹے جا رہے ۔۔۔ ذرا کھوج لگائی تو معلوم ہوا کہ اس نائقہ کی دعا قبول ہو گئی ہے اور اس خوشی میں لنگر کا اہتمام ہوا۔۔ اب تو یہ صاحب مکمل مایوس ہوگئے مری کوئی اہمیت نہیں ۔ اک دن کے اندر اسکی دعا قبو ل ہو گئی ۔ اور تین دن تک مزار نہ گئے ۔۔۔ تیسری رات آنکھ لگتی ہے تو اک نورانی شخصیت جلوہ گر ہو تی ہے ۔۔۔۔ وہ عالی مقام سید سیدنا بابا بلھے شاہ رح ۔۔۔۔۔ بولے ۔۔۔!! تم اتنے ناراض ہوگیے ۔۔ اس عورت کا آنا مالک کو قبول نہ تھا کہ وہ آئے اور بار بار مانگے سو دعا پوری کردی اور تری زاریاں بہت پسند تھیں اور اس لئے مالک تجھے بار بار بلاتا تھا تو اسکا محبوب ہے ترا رونا قبول ہو جاتا ہے اس لئے تری دعا قبول نہیں ہوتی ۔ پھر اس دن کے بعد سے کبھی مزار جانا نہ چھوڑا۔۔​


بات کروں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی تقسیم پر تو اک اور بات یاد آجاتی ہے ۔۔۔ سیدنا بابا بلھے شاہ اپنے پیرو مرشد کے ساتھ بیٹھے تھے ۔۔مجلس کا سماں تھا ۔ مرشد برحق نے کہا بلھیا۔۔۔!! مٹھائی تقسیم کر ڈالو ۔۔​


بابا بلھے شاہ نے پو چھا سیدی کس طرز پہ ۔۔۔اللہ کی یا محمدﷺ کی طرز پہ۔۔۔۔۔۔!!! آپ کی بات کو نہ سمجھ پائے اشارتًا کہا کہ اللہ کی طرز پہ۔۔۔۔ جنابی عالی مقام نے کسی کو ایک ، کسی کو سات ، کسی کو 3 کسی کو چار اور کسی کو کچھ بھی نہ دیا۔۔ مرشد کامل نے پوچھا یہ کیسی تقسیم تھی ۔۔۔؟ بولے : آپ نے خود ہی تو کہا تھا اللہ کی طرز پہ کرو۔۔۔ اللہ کی تقسیم تو ایسی ہوتی ہے کسی کو بے حد دیتا ہے کسی کو تھوڑا۔۔کسی کو کچھ بھی نہیں ۔۔۔ جبکہ نبی اکرم ﷺ کا طرزِ کار تو یکساں تقسیم کا ہے ۔۔۔!!! آپ سب کو اک سا دیتے ہیں جبکہ اللہ تعالی دے کر بھی اور نہ دے کر بھی آزماتا ہے ۔۔۔ جب دعا قبول نہ ہونے پر سوال کریں کم دینے میں سوال کریں تو کیا جائز ہے ۔۔؟ اللہ کی ہر بات تو اسرار ہے جس میں پوشیدہ بھلا ترا یا مرا ہے ۔۔۔!!!بات اس پہ ختم کرتی ہوں ۔۔۔​
شکوہ محبت میں ہی ہوتا ہے
مگر محبت شکوہ سے بڑھ کر ہوتی ہے ۔۔۔!!!


از نور ؔ​
 

نور وجدان

لائبریرین


بچپن میں جامِ محبت سے آشنائی نہ ہوئی اور نہ ہی کوئی چہرہ محبوب سا لگا۔ اس کے ساتھ ساتھ محبت کے لفظ سے ''چڑ'' تھی ۔ ایک خود ساختہ وعدہ کیا ہوا تھا خود سے کہ محبت میں بربادی ہے اور بربادی کون کرنا چاہے گا۔۔۔۔۔۔۔!

کلاس میں کئ لڑکیاں محبت میں گرفتار تھیں ۔ جس کو محبت ہوتی ، اس سے دوری ہوجاتی ۔ ایک دن کہ بھی دیا :

''یار ! آپ کیسے لوگ ہو ؟ اسکول پڑھنے آتے ہو ، پڑھو اور جاؤ گھر ، یہ کیا جوگ پالے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

اس طرح تعمیر رک جائے گی۔ اور اس '' محبت'' کی نفرت میں سارا دھیان خشک باتوں اور فلسفیانہ باتوں میں الجھا لیا ۔ جس سے دماغ کچھ زیادہ ہی خشک ہوگیا۔ خشک باتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! بس کچھ زیادہ ہی خشکی ہوگئ ۔۔۔۔!


ہر بار ''ٹوکنے'' پر ایک جواب ملتا کہ ''ہم'' ساتھ ساتھ پڑھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔! اس لیے برباد نہیں ہیں ہم ۔۔۔۔! جہاں میں ایسے ایسے آئے ہیں ، جن کا محبت نے کچھ نہ چھوڑا۔۔۔!

تب سے ''ارادہ'' کرلیا کہ '' محبت'' دراصل ایک ''نفرت'' ہے اس ''محبت و نفرت '' کے کھیل میں ''وقت'' بڑا سیانہ ہے ۔ سو ہم منکر اور ہماری '' موحد'' سے نفرت بڑھتی ہی گئی۔۔۔۔ جانے کیوں مسلمان گھرانے کی پیداوار ہونے کے باوجود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
شاید اس لیے کہ ایک انسان کے کئی موحد کیوں ؟؟ اب یہ سوال بڑا تڑپاتا تھا۔۔۔۔ محبت میں ''احد'' کا کلمہ بھی نہیں اور کثرت بھی بڑی ہے ۔ دل نے کہا کہ '' عاشقی بڑی بدنام شے ہے ۔ اس سے دوری ہی بھلی ۔ اقبال کا شعر بڑا یاد آتا ہے اس موقع پر۔۔۔۔۔!

کثرت میں ہوگیا وحدت کا راز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے ۔۔۔۔


ایک ''وقت'' اور سو ''کرب'' ۔۔۔ منظروں سے محبت ، راستوں کے درمیان کھڑے ہو کر ، حسین شاہراہوں کی دلکشی پر غور کرتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! ہرے بھرے درخت ، لہلہاتے کھیت ، ندی کی '' چھن چھن '' کرتی آواز اور میرا سانس۔۔۔۔۔ اکثر تھم سا جاتا ۔۔۔!!! جب بھی پہاڑوں پر جاتی ، کسی پہاڑ سے کھڑے ہوکر نیچے وادی کو دیکھتے ۔۔۔۔! دل کرتا یہیں مرجاؤں مگر اس حسین وادی کی قید سے نہ نکلوں ، پھر ایک اور وادی سے گزر ہوا۔۔۔ وہ اس سے زیادہ حسین ۔۔۔۔۔۔ '' میں'' ۔۔۔!!! میں اب راستوں کے درمیاں نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! بلکہ راستے پر کھڑی ، پل پل کو محسوس کرتی ، سموتی ، ان ''پلوں'' میں مقید ہوتی گئ۔۔۔۔۔!!

وادیاں۔۔۔! یہ کوہسار ، یہ جھرنے ، سبزے پر بیٹھنا، سب کا سب ۔۔۔! سب ہی تعمیر و فطرت کے رخ بنتے رہے اور بارشوں کے بعد آسمان پر قزح کے رنگ امڈنے لگے ۔ ''میں'' ۔۔۔! ''میں ہوں''، اور ہوگئ میں رنگوں کی دیوانی ۔۔۔۔۔۔۔۔! سارے رنگ میرے اپنے ، سارے سپنے اپنے اپنے ۔۔۔۔۔۔۔۔! اکبھی درختوں کے پاس سے گزر کر، ندی کی چٹان کے پر بیٹھ کر ایک درخت سے ٹیک لگا لیتی اور لمحوں خواب میں گزار دیتی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔!

ایک دن غلطی سے شام تک بیٹھی رہی ، شام کے بعد چاند نے مجھے اور میں نے اسے دیکھ لیا۔ ساری حکمتیں ''منکرینِ نفرت '' کی ختم ، محبت سے نفرت کا فلسفہ ختم اور ''احد'' کا تصور دل میں خواب بھرنے لگا ۔۔۔ یوں میرا وقت چاند کو تاکتے تاکتے گزرنے لگا۔۔۔۔! چاند بہت حسین تھا ، چاند تھا اور رات کے وقت ، چاند کا حسن اور نمایاں ہوجاتا ۔۔۔۔۔! میں نے محبت کا کلمہ پڑھ لیا اور مسلمان ہوگئی ۔۔۔۔!

اسلام لانے کے بعد ''مومن '' بننے کا درجہ نہ مل سکا اور ڈگمگا گئی ۔۔ وہ کہتے ہیں نا۔۔۔۔۔ ہاں جی ۔۔۔! وہ کہتے ہیں کہ محبت میں ''شک '' کی منزل ختم کرنی پڑتی ہے ، تب عشق نصیب ہوتا ہے ۔ اور ''میں'' شروع سے ''شکی''' ۔۔۔۔۔۔۔! کبھی یقین نہ کرنے والی ۔۔۔۔! آغاز محبت میں شک نے بیج بو دیا۔۔۔۔۔! اور محبت نے منہ موڑ لیا۔۔۔۔! مگر ہوا یوں کہ ۔۔۔۔کہ ۔۔محبت کو منانے کے چکر میں '' مسافر'' ہی رہی اور منزل نہ ملی ۔۔۔ منزل ''کھو'' گئی جبکہ راستہ بڑا صاف ستھرا تھا۔۔۔۔۔۔ ۔۔!!! اب یہ حال ہے کہ مسافتیں ختم ہی نہیں ہوتی ، دل تیقن کے ساتھ ''کلمہ'' پڑھتا ہے ، مگر ''رخ '' جو مڑ جائے تو واپس کون آئے ۔۔۔؟؟؟

کون واپس آیا؟؟؟؟ عقل والے چلے گئے اور محبت والے آگئے ، دل سے منطقیں اڑا کر ، دیوانہ بنا گئے ۔ اب دیوانہ ، کیا جانے دنیا کا حال ۔۔۔۔۔ کہ یہ دنیا الٹی ہے کہ سیدھی۔۔۔!!! یہ چپٹی ہے یا گول ۔۔۔ ۔۔!!!

ارے ۔۔۔۔!دنیا تو دنیا ہے ، عشق کا پیالہ یا زہر کا ۔۔۔ پینا ہے ، آنکھ بند کی ، ساری حسیات کو مفلوج کرکے ، اس کو کڑوے گھونٹ کی طرح نگلا۔۔۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ اس کا تھوڑا سا حصہ زبان نے چکھ لیا، وہ کڑوا بھی تھا ، مگر ''مے'' بھی ، نشہ تھا یا کیف تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! مست ایک قطرے نے بنا کر ، پیاسا بنا کر صحرا کا عادی بنا دیا۔۔۔۔!!! اب شراب کے سوا کچھ اچھا ہی نہیں لگتا کہ دل کرتا ، شراب ، شراب اور بس شراب ۔۔۔!!

اتنا تو پتا ہے کہ ، منکر نہیں ہوں میں ، ملحد نہیں ہوں میں ۔۔۔۔۔ ! اتنا جانتی ہوں ۔۔۔۔ اس سے آگے کا پتا نہیں چلتا اور بس یہ احساس ہوتا ہے کہ محبت گھونٹ گھونٹ ملے تو نشہ ٹوٹ کر چڑھتا ہے ۔۔۔۔۔۔! اس کے بعد کوئی ''تکثیریت ''کا قائل ہو یا ''احد'' کا ۔۔۔۔۔ دل میں عزت پیدا ہوگی ، ہر نفس کے لیے ۔۔۔ ارے ، اب بھی نہ بدلتے تو پھر کب۔۔۔؟؟

اور پھر جو بھی ملا ، جیسا بھی ، کبھی کسی کے دل کے مندر کو دکھانے کی کوشش نہ کی کہ ڈر لگتا ہے کہ اندر چاہے کتنے بھی شیشے ہوں ، ایک شیشہ ''اُس '' کا بھی ہے ۔۔۔۔۔۔! کہیں ''وہ '' نہ ٹوٹ جائے ۔۔۔۔!! پھر ، پھر سے منکر کا درجہ نہ مل جائے ۔۔۔ احترام، احترام ، بس احترام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

'' وہ'' شیشہ ایک دن اپنا ''شیش محل '' بنا ئے گا۔ مگر جام تو ''تکثیریت'' سے ملے گا، جو جتنا تڑپے گا، اتنا حسن محل کا بڑھے گا۔بس درد کی ''شدت' سے بنتے محل کاایک دن'' در ''وا'' ہونا ہے ، عاشق دروازے پر کھڑا ہے ۔۔۔۔ جانے کب وا ہوجائے ، جانے کبھی خامشی کا سکوت ٹوتے ، جانے کب ، جانے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!! جانے کب میخانہ یہ دل بنے گا۔۔۔ جانے کب۔۔۔۔؟؟؟

 

نور وجدان

لائبریرین

تقلید اندھی نہیں ہوتی ..........!!!
ایک عرصے سے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے مارتے دل کچھ تھک سا گیا ہے کہ تقلید اندھی ہے اور مجھے تقلید نہیں کرنی ہے . دراصل تقلید کے لفظی معانی میں اتنی الجھی ذات میری کہ تقلید کے وسیع معانی کی طرف دھیان ہی نہیں گیا . تقلید ، مقلد ... ان لفظوں کی مارو ...!! اور یہ لفظ ہمیں ماریں ... جواب میں لفظوں کا کچھ نہیں گیا مگر ذات اندھی ہوگئی ہے . اندھے کو ''نور'' ایک دفعہ مل جائے تو رفتہ رفتہ وہ سمجھ جاتا ہے کہ تقلید اندھی نہیں ہوتی بلکہ تقلید کے پیچھے بھی ایک فکر چھپی ہے . مجھے تقلید سے ایک بات یاد آرہی ہے . میں نے کسی جگہ کہیں پڑھا تھا .​

حضرت نظام الدین اولیاء رح کو اپنے دو مرید بہت عزیز تھے یا یہ کہ ان میں سے بھی ایک زیادہ عزیز تھا.حضرت نصرت چراغ دھلوی رح اور دوسرے حضرت امیر خسرو رح .... دونوں لاڈلے مگر زیادہ پیار ان کو'' طوطی ِ ہند '' سے تھا . جب اپنا جانشین مقرر کرنا چاہا تو آپ فیصلہ کرنے میں تامل کرتے رہے کہ کس کو مقرر کروں . دونوں حاضرِ خدمت تھے . دونوں کو کہا: فلاں فلاں جگہ پر جا کر یہ کھیر فلاں شخص کو دے آؤ. دونوں چلے اور اس جگہ پہنچ گئے . جب ادھر پہنچے تو دیکھا کہ کوئی حضرت اینٹ کی ایک بنیاد رکھتے کہ دیوار تعمیر ہو سکے . اسکی بنیاد پر تعمیر کا کام خود ہوتا جاتا . جب ان دونوں کو دیکھا ، تو حضرت نصرت چراغ دہلوی نے کھیر کا برتن ان کو تھما دیا. اور ان حضرت کو کیا جی میں سمائی کہ انہوں نے مٹی کھیر میں ڈال کر دونوں کو دے دی کہ کھا لیں . طوطی ہند نے ذرا تامل کیا جبکہ حضرت نصرت چراغ دہلوی نے بلا تامل کھا لی. اس کے بعد وہ حضرت کام میں مشغول ہوگئے اور یہ دونوں شخصیات واپس حضرت نظام الدین اولیاء کے پاس آئیں . آپ نے نہ چاہتے ہوئے بھی خلعت ِ فاخرہ حضرت نصرت چراغ دہلوی کو مرحمت کر دی .

زندگی میں اسی طرح ہم اندھے ہوکر حقیقت کے پردوں کو سمجھ نہیں پاتے . ہمیں جو نظر آتا ہے وہی حقیقت لگتا ہے . لیکن ...! لیکن ہر کڑوی شے بھی زہر نہیں ہوتی . کبھی کبھی کڑوی شے سے وہ اثر نکلتا ہے جس سے تن من سے میٹھے سرمدی نغمے نکلتے ہیں . یہ نغمے درد سے مخمور ہونے کے باوجود سہارا بن جاتے ہیں . ''تن'' کا فلسفہ ہے کہ تقلید ''اندھی '' ہے جبکہ من کا فلسفہ ہے '' تقلید '' عقل سے گزر جانے کا مرحلہ ہے . یہ مقام عقل سے ملتا ہے مگر عقل پر مستقیم لوگ تقلید پر استوار نہیں ہو پاتے ہیں جبکہ عقل سے گزر جانے والے تقلید پر ایمان لے آتے ہیں . یہ وہ مقام ہوتا ہے کہ جہاں روشنی سے تن و من و لباس سے روشن روشن کرنیں گزرنے والوں کے لیے مشعل ِ راہ بن جاتی ہیں .

ہم چونکہ پیدائشی مسلمان ہیں اس لیے ہمارے لیے تقلید کا مفہوم وہی ہے کہ اندھا رہ ....! جبکہ ایک کافر ، ملحد جب ایمان لاتا ہے اس کی تقلید عقل کے مرحلے سے گزر چکی ہوتی ہے . اس لیے کافر ہم پیدائشی مسلمانوں پر سبقت لے جاتا ہے . بالکل اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد صاحب پیدایشی تقلید کے عادی تھی مگر تھے وہ سچے ، ان کے افکار بھی صوفیانہ تھے مگر لوگ ان کو سُن نہ سکے . لیکن ایک مغرب زدہ انسان جس کے کچھ عقائد باطل تھے کچھ بہت روشن تھے اس سے لوگ متاثر ہوگئے . کیونکہ اس کی ذات میں پیدا ہونے والے باطنی تغیرات میں لوک ذات چھپی تھی . وہ لوگ جو اپنا آئینہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ انسان ہمارے ہی جیسا ہے ، یہ کبھی ہم پر کفر کا فتوٰی نہیں لگا سکتا ہے اور اگر لگائے گا تو اس پر ہم خود بڑھ چڑھ کر الزامات لگا دیں۔۔۔۔۔!!! . وہ شخص اقبال تھے جن کی ذات میں پیدا ہونے والے تغیرات نے ایک مسلمان کو کافر اور پھر کافر سے مومن بنادیا. اقبال عقل سے گرز کے اس مقام پر آگئے جہاں اجتہاد بھی تقلید کا حصہ تھا ، جہاں سنت بھی .۔۔۔۔!. جہاں حدیث بھی اور جہاں فقہ بھی تقلید کا حصہ تھا۔۔۔۔!. ایک مسلمان نے ''شکوہ'' لکھ کر اللہ کی ذات کو للکارا کہ ہم سے صرف وعدہ حور کیا ہے ، دیکھو مسلمانوں کی حالت کتنی دل گرفتہ ہے ،.... کافروں کو نوازنے والے کبھی مسلمانوں کو بھی نواز دے ۔۔۔۔!. اس للکار سے رحمت باری تعالیٰ نے کافر کو اپنے اور قریب کر لیا اور اس نے کہ دیا

پا کر مجھے بے کس تری رحمت یہ پکاری
یہ بندہ بے برگ و نوا صرف ترے لیے ہے

یہ بھی حقیقت ہے کہ جب انسان مومن کا درجہ پالیتا ہے تو وہ 'اسوہ حسنہ '' کا نمونہ بن جاتا ہے . مومن جو حقیقت میں قران پاک کی قرات میں مصروف ہوتے ہیں وہ خود ہئ چلتے پھرتے نمونے بن جاتے ہیں ..۔۔ یہ چلتے پھرتے آئینے ہوتے ہیں اور ان آئینوں میں جھانکوں تو بس ایک ذات نظر آتی ہے ۔ کوئی آئینہ دل کو ظاہر کرکے حلاج بن جاتے ہیں اور کوئی ابو الحسن نوری ، یا بایزید بسطامی ۔۔۔ کچھ پوشیدہ رہتے ہیں ۔ اللہ کی ذات اخفاء رہتی ہے اور اس کو پوشیدگی پسند ہے ۔ اور ظاہر ہو بھی جائیں تو وہ ذات باری تعالی کے داعی ہوتے ہیں۔ ان کے اندر قران مشک کی طرح گھول دیا جاتا ہے ۔ اس کی خوشبو چہار سو پھیل جاتی ہے ۔بس ایک ذرا سے ۔۔۔۔ ایک غوطے کی دیر ہوتی ہے ۔ غریقِ قران ِ کلامِ باری تعالیٰ والے اصحاب دراصل غوطہ ور ہوتے ہوئے بھی دنیا میں رہ کر ''نور'' کو پھیلا رہےہوتے ہیں

قرآن میں غوطہ زن ہو اے مرد مسلماں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اﷲ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
یہ راز کسی کونہیں معلوم کہ مومن۔۔۔۔۔۔۔۔ قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

مجھے یہ لکھتے ہوئے ایک درد کا احساس ہو رہا ہے کہ ذات ہماری کتنی بری ہے ۔ ہم پر سوار ہمارے شیطان نے ملعون شیطان کو خوش کر دیا ہے ۔ ہم اپنے نفس کے حصار سے نکل سکیں ، اپنے حساب و شمار سے نکل سکیں تو بات بھی ہو۔ ہم تو خود میں کھوئے ہوئے ہیں ، اور کھو کر بھی ، غرق ہو کر بھی اگر احساس نہیں ہوتا ہے تو ہمارے ہونے کا فائدہ ۔۔۔؟ کوئی فائدہ نہیں ہے جب تک اندھی تقلید کو عقل کی کسوٹی سے پرکھ کر ، اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیں ۔ ایسا کرنے میں ہماری مٹی سب سے بڑی دشمن ہے ۔ خاکی پتلے کی حقیقت جس طرح بابا فرید نے عیاں کی وہ مٹی کی کشمکش ہے ، اور بالآخر ہم سب کو جانا تو اسی مٹی میں ہے ، جہاں سے ہمارا خمیرا اٹھایا گیا ہے اور اس کے پاس جانا ہے ، جس نے ہم میں روح پھونکی ہے ۔ اس کی ''پھونک '' سے ہم میں غرور پیدا ہوا ہے ، اس غرور و تکبر کو عجز و انکساری کے پیکر میں ڈھلنا ہے

ویکھ فریدا مٹی کھلی
مٹی اتے مٹی ڈلی
مٹی ہنسے مٹی روے
انت مٹی دا مٹی ہوے
نہ کر بندیا میری میری
نہ اے تیری نہ اے میری
چار دن دا میلا دنیا
فیر مٹی دی بن گءی ڈھیری
نہ کر ایتھے ہیرا پھیری
مٹی نال نہ دھوکا کر تو
تو وی مٹی، او وی مٹی
ذات پات دی گل نہ کر تو
ذات وی مٹی، تو وی مٹی
ذات صرف خدا دی چنگی
باقی سب کچھ مٹی مٹی


یہ راز بہت دیر سے جا کر معلوم ہوتا کہ مٹی کی حقیقت صرف ایک دھوکا اور سراب ہے ۔ اس مٹی نے مٹی میں جانا ہے تو کیوں نا! کیوں نا ۔۔!! ہم جاتے کوئی کام ایسا کر جائیں کہ ''انت'' بھی اگر ہو جائے تو چنگی ذات خدا دی ، ساڈے نال نال ہی روے ۔ کیا تفرقے میں الجھ کر خود کو تباہ کرتے جارہے ہیں ۔ اپنے نفس کے جہاد کی تقلید کر لیتے تو معلوم ہوتا کہ تقلید کبھی بھی اندھی نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔!!! نفس سے جہاد کرنے کے بعد انسان چلتا پھرتا قران بن جاتا ہے ، جہاں ظاہر و باطن ، روح و مٹی کے درمیان کی کشمکش ایک ہو کر سارے اختلافات ختم کر دیتی ہے ۔۔ہمیں اپنے اندر کی مٹی کو ختم کرنا پڑے گا ، اس خاک کو جس نے ہم کو حواس کے ذریعے بھٹکا دیا ہے
 

نور وجدان

لائبریرین

محبت کی حقیقت اور معنویت کیا ہے؟ میری زندگی میں نظریات کے تغیر نے محبت کو سمجھنے میں مدد دی ہے۔ نظریہ محبت روحوں کے تعلقات سے منبطق ہے. روح کے کششی سرے قربت اور مخالف سرے مخالفت میں جاتے ہیں. بنیادی طور پر درجہ بندی کشش اور مخالفت کی ہوتی ہے. اِن روحوں سے نکلتی ''نورانی شعاعیں'' ایک سپیکڑیم بناتی ہیں. ارواح کی کشش کا دائرہ بڑا یا چھوٹا ہوسکتا ہے.اور ان کی دوسری درجہ بندی دائروی وسعت کرتی ہے اور یوں انواع و اقسام کی ارواح تغیر کے ساتھ مرکز کے ساتھ مخالفت یا کشش کرتی ہیں. جن کا حلقہِ کشش بڑا ہوتا ہے وہی مرکز سے قریب ہوتی ہیں.​

لوگ کہتے ہیں محبت کا سرچشمہ بدن ہے. انصال سے انتقال ہوتا ہے اور انتقال حواسِ خمسہ کا محتاج ہوتا ہے. اور یہی محبت اصل محبت ہے کہ محبت روپ بدلتی ہے یا کہ لیں لباس بدلتی ہے. محبت پھر خود ملبوس ہے جس کو میں اوڑھ لوں اور زمانے کے رواج کے مطابق اوڑھنی اتار پھینک دوں . دوسری صورت میں انصال کے بعد اتصال اور انتقال میں اس قدر موافقت ہو کہ یہ روح اور خاک دونوں کا ملزوم ٹھہرتی ہیں. محبت ملبوس کی طرح نہیں ہوتی مگر اس میں خاک ایک ملاوٹ کی طرح ہوتی ہے. دل نہ ہو میلا، بدن میلا اور رنگ کچیلا ..۔۔۔​

محبت کی پہلی سیڑھی خاک سے چلتی روح کو بھنگ پلاتی ہے اور افیون کے دھونی میں 'من نشیلا ' تن بھلا ' بیٹھے لوگ ''دائروی رقص'' شروع کرتے نظر آتے ہیں اس رقص میں روح کے ساتھ ساتھ جسم بھی گھومتا ہے ۔اس پہیے (جسم)کو روح تحریک دیتی رہتی ہے یہاں تک کا تن اور من کا ہوش جاتا رہتا ہے. تب ایک روح تقسیم در تقسیم کے بعد تن کی نفی کا کلمہ پڑھ لیتی ہے اور مقام عین پالیتی ہے.​

روحانی انتقال بجسمانی کے فوقیت رکھتا ہے. یہ درجہ آگہی کے دروازے پر لاکھڑا کرتا ہے. آگہی جنون بھی ہے اور عذاب بھی۔۔۔۔. یہ فہم بھی ہے اور ادراک بھی ۔۔۔۔۔ یہ راز بھی ہے اور انکشاف بھی ۔۔۔۔!!!​

دروازے تک پہنچنے کے لیے لمحوں کی تپسا بھی اہمیت رکھتی ہے کہ پل بھر میں صدی بھر کا درد دے دیا جاتا ہے.اور پل پل درد کا انجیکشن ہوش سے ماورا کیے رکھتا ہے اور عاشق عین دروازے پر پہنچا دیا جاتا ہے. ''​

کیا دروازے کھٹکھٹاؤ گے؟ شرم و آداب کے تمام التزامات کو بھول جاؤ گے؟''​

یہاں روح سے موسیقی کے سُر نکلتے ہیں ان کی تال پر رقص جنوں کرتے کرتے دروازہ کھل جاتا ہے.۔۔ موسیقی کی تال پر ناچنے والے ایک دروازے سے دوسرے دروازے تک پہنچا دیے جاتے ہیں کہ اس جہاں میں ہوش و عقل ناکام و نامراد پلٹتے ہیں ۔ یہ سرشاری و مستی ، یہ عالمِ بے خبری انکشاف کے دروازے ہی نہاں کو عیاں کرتی ہے ۔ کہنے کو مد ہوشی بھی ایک نعمت ہے​
 

نور وجدان

لائبریرین

محبت کیا ہے ؟ حقیقت ہے ؟ مجاز ہے ؟وجود ہے ؟ نفس ہے؟ حواس ہیں؟ محبت کے بارے میں میری یہ تیسری تحریر ہے ۔ پہلی تحریر جس میں مجاز کی حقیقت سے انکار کا نام محبت کو دے کر ، دوسری وہ جس میں مجاز سے راستہ نکلتا ہے حقیقت کا ، اور یہ تحریر وہ ہے جو مجاز اور مظاہر سے ہوکر گزرتی حقیقت کو پاتی ہے ، یہ لے جاتی ہے محبت سے عشق کے عین کی طرف۔۔۔! عشق کے راستے میں ناگن کا پہرا ہوتا ہے کہ انسان کو سپیرا بننا پڑتا ہے اور جوگ پال پال کر ، ساز سے کرنا ہوتا رستہ استوار۔۔۔۔! بڑی مشکل راہ ہے محبت سے عشق کی ۔۔۔۔۔! محبت کے کچے رنگوں پر عشق کا رنگ چڑھتا نہیں اس لیے محبت کے درجے ہیں جبکہ عشق کی انتہا کوئی نہیں ہے ۔ یوں کہ لیں کہ ابتدا ہی انتہا ہے اور انتہا بھی ابتدا ہے ۔

محبت ،تصوف اور ادب تینوں کا رشتہ ایک ہی تار میں بندھا ہے . یہ پہچان کا راستہ ہے ، مجاز سے محبت صرف انسان کی اپنی پہچان کا باعث بنتی ہے کہ انسان کی پہچان اس وسیلے سے بنتی ہے ، جس سے اس کو محبت ہوتی ہے۔۔۔! . جبکہ مظاہر جیسے آگ ، پانی ، مٹی ، ہوا .... ان سے گزر کو مزید حقیقت کو پانے کی جستجو لے جاتی ہے اللہ کے قریب۔۔۔۔۔۔ ! اس کائنات کو بنانے والا کون ہے ؟ ایک ہے ؟ بادل چلتے ہیں اور بارش ہوتی ہے ، یہ بارش کئی جگہوں پر طوفان تو کئی جگہوں پر زندگی کا سندیسہ بنتی ہے ۔۔۔!. زرخیز مٹی اور بنجر مٹی کی تفریق بارش سے ہوتی ہے . بارش آسمان سے برستی ہے مگر زمین پر پہنچ کر اس کی تاثیر زمین والی مٹی کے مطابق ہوجاتی ہوجاتی ہے . طوفان بارش لاتی ہے اگر مٹی کی زرخیری بڑھانی ہو ...بصورت سیلاب مٹی کے کٹاؤ سے دریا میں بہ جانی والی مٹی اصل مٹی سے مل کر زرخیز ہوجاتی ہے .


محبت صرف رقص کا نام تو نہیں۔۔! ! ایک باب کا نام تو نہیں اس کے تو کئی دروازے ہیں . ایک باب'' حرم ''ہے اور دوسرا باب ''کرم'' ہے اور ایک باب'' ادب و حیا'' کا ہے ، ایک باب ''مراد'' کا ہے . ان کے درمیاں جانے کتنے ''در'' عشاق پر کھلے ہیں اور کتنے اس کوکھولنے میں کامیاب ہوئے ؟ ہر کوئی روح کے اندر نہیں جاسکتا . مگر روح سے روح تک کا راستہ ، یعنی روح سے اصل تک کا راستہ ہی ''وصل'' کا راستہ ہے .روح سے انصال دو طریق سے ہے ، ایک طریقہ بذریعہ رہنما سے یا دوسرا مجاز کے عشق سے ، جبکہ دوسرا طریقہ براہ راست ہے .

براہ راست طریقہ عدم کی مٹی پر استوار وجودیت کی نفی سے ہوتا وصل کی شراب سے ہمکنار کرتا ہے . اس راستے پر کوئی نہیں چل سکا سوائے'' ایک'' انسان کے ۔۔۔۔۔! اُن کا خمیر خاص ہے . جن کے لیے یہ کائنات بنائی گئی وہ تو اس کائنات کا حسن ہے اور خلیفہ ہیں. ایسے خلیفہ جو باقی پیغمبروں کے امام ہیں مگر ان کے امتی ۔۔۔! اس کے راستے پر چلنے والے ۔۔۔! ان کے خلیفہ ہیں ۔جن کے مراتب ان پیامبروں سے بڑھ کر ہیں . معراج کے راستے پر سب سے بڑا درجہ ''عبد'' کا ہے .کامل درجہ پانے کے بعد ''ورا سے ماوار '' تک کا سفر کیا ہے .'' روح'' سائنس کی رُو سے ''ہوا'' ہے اور ''ہوا'' کو سائنس کی رُو سے دیکھا نہیں محسوس کیا جاسکتا ہے اس لیے آنکھ سے ''ہوا'' کو دیکھنے پر سائنس کچھ نہیں کرسکتی سوائے کچھ ایسے آلات جو شفافیت ختم کرسکیں . روح کو کون دیکھ پایا ؟ مگر اس کا ماورا کہنا ، مادیت کی توہین کہ جو بقاء ہے تو روح کو تو ہے . یہی مادیت کی سب سے ہلکی نشانی ہے ، مائع اور گیس سب نکل جائیں تو باقی ''ہوا '' رہ جاتی ہے . روح کہاں سے ماوار ہے ؟ روح کو محسوس کریں اور روح آپ کو باقی دنیا محسوس کروائے گی .


براہ راست کے بعد وسیلہ حضور پاکﷺ کی ذات ہے .جب مومن ان کا دیدار کرتے ہیں تو گویا حضور پاکﷺ ان کو دیکھ رہے ہیں کہ ان کی آنکھ نورانی ہے ، اس کے ناز و انداز مست و بے خود کرتے ہیں . جب ہم ان کی طرف دیکھیں تو حقیقت میں ہم نے اللہ کو پالیا . اس کی تمثیل اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیؑ کو جواب ہے کہ جب اللہ نے حضرت موسی ؑ جو نبی دلال تھے ، کہا

اے اللہ ! میں تجھ کو دیکھنا چاہتا ہوں!

موسی ! تو مجھے دیکھ نہیں سکتا مگر یہ نہ سمجھنا کہ کوئی بھی نہیں سکتا . ہاں ایک ہے میرا بندہ جس کو'' قاب قوسین ،ثمہ دنا '' کی رفعتیں عطا کروں گا ۔۔۔! اے موسی! تو مجھے نہیں دیکھ سکتا مگر مصطفیٰ کی آنکھوں میں دیکھ لینا ! وہ میرے جلوؤں کا نظارہ لے کر لوٹتا ہوگا ۔ اس کی آنکھوں میں دیکھ لینا ! تجھے رب کا نظارہ ہوجائے گا!

اس لیے سید مہر علی شاہ نے کیا خوب کہا ہے کہ ایسے بندے جن کے رتبے بنی اسرائیل کے پیامبروں سے زیادہ ہوں گے جو صدیق ہوں گے ۔۔۔وہ بندے ایسے الفاظ میں ثناء کا حق ادا کرتے ہیں ۔

''مکھ چن ، بدن شاسانی ہے
متھے چمک دی لاٹ نورانی ہے
کالی زلف تے اکھ مستانی ہے
مخمور اکھی ہن مد بھریاں
اس صورت نوں میں جان آکھاں
جان آکھاں تے جان جہان آکھاں
سچ آکھاں تے رب دی میں شان آکھاں۔۔۔''

محبت روح ہے جو مجاز کی سیڑھی سے حق کی طرف جانے کا ذریعہ ہے . مجاز کی سیڑھی ، رہنما کی سیڑھی ہوتی ہے ، عشق کا ''عین '' اس کے بغیر ملتا نہیں ہے انسان کی پہچان مجاز سے منطبق ہے اگر وہ مظاہر سے جڑ کے خالق سے نہ جڑپائے تو وہ بے چین و بے قرار ہوجاتا ہے . اس کی مثال اس طرح کہ رہنماء دو جہاں نے غور و فکر میں مشغول چالیس سال گزار دیے اور تنہائی میں رہنے لگے ، دنیا سے کنارا کرلیا تب ان پر ایک دن الہام کا سلسلہ واراد ہوا اور ان کی روح کو علم سے نوارا گیا . وحی کا سلسلہ کچھ لمحات پر محیط تھا اس نے سرر طاری کردیا ، چالیس سال کی محنت کے بعد وہ لمحہ پایا ....!اس کے بعد وہ نیک بندے تلاش حق میں مشغول ہوئے کہ کب مزید ان کو عطا ہو .... !کبھی کبھی غم انتہا کو پہنچ جاتا اور پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے اس پر سے نیچے گرنے لگتے کہ انتہائے غم میں یہ حالت ہوجاتی تھی . تب بچانے والی ذات قادر المطلق کی تھی ...! ان پر سلسلہ شروع ہوا اللہ کے کلام کا ...! اللہ کے کلام نے براہ راست جوڑا آپﷺ کو اللہ سے ... یہ کلام ہر انسان کے لیے رہنمائی ہے . کہ اس سے جڑنا یا اس پر غور و فکر کرنا ایسا ہے جیسے آپ کی بات اللہ تعالیٰ سے ہورہی ہے کیونکہ آیات پر غور و فکر کرنا کائنات پر غور کرنا ہے ، یعنی اللہ کی بنائی گئی اشیاء کو پہچاننا کہ ان کو کس مقصد کے لیے بنایا گیا اور اس کے پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے ،اس سفر سے ہوتے ہوئے انسان خود کو پہچانتا کہ اس کے پیدا ہونے میں کیا حکمت ہے ....میں نے فارسی سنی مگر سمجھ نہیں آئی ... اس کی زبان کی چاشنی میں کھو گئی بالکل اسی طرح پہلے قران کی مٹھاس کو روح میں رس گھلتی ہے اور روح خود ترتیل سے کلام الہی کی تلاوت کرنے لگتی ہے اس راستے میں اللہ سے محبت کے تمام راستے اور تمام سرے مل جاتے ہیں . خالق کے کلام کی ہر آیت تجلی لیے ہوئے ہے . جو اس تجلی کو پاگیا اس نے اصل میں قران پاک کی نعمتوں سے مزہ اٹھایا . اس لیے ہر مومن کا راستہ اللہ تعالیٰ سے قران پاک سے جڑتا ہے جبکہ حضور پاکﷺ وسیلہ ہیں . اصل ذات اللہ تعالیٰ کی ہے اور رہنمائی کو حضور پاکﷺ اس دنیا میں تشریف لائے ہیں .

 

نور وجدان

لائبریرین



برگد کے درخت کے پاس ایک اللہ کا بندہ بیٹھا ہوا آہیں بھر رہا تھا۔ بانسری بجائے جارہا تھا اس کی بانسری کی درد سے پُر آواز قافلے والوں نے سُن لی۔جنگل میں رات کے وقت کے بانسری کی آواز نے چار سُو چاندنی بکھیر رکھی تھی ۔سالارِ قافلہ نوجوان تھا اور موسیقی کا دلدادہ تھا۔ اُس کے پاس آلتی پالتی مار کے بیٹھا اور کہا کہ :اُس آواز میں جو درد بھری چاشنی ہے ۔وہ مجھے کسی ساز سے نہ سُنائی دی ۔ اس کا راز کیا ہے ؟

عجب نشاطِ درد و کیف و مستی کے عالم نوجوان کو یک سکت دیکھ کر نگاہ دور پیپل کے درخت پر جمالی : سازندگی میرے تن کے ساز سے ہے اور گھپ اندھیرا من کا سانس روکی رکھے میرا ۔ جب تک سانس رُکے میری تب تک ساز چلتا رہے ۔ سازندگی میرا شیوہ ہے اور میراث بھی ۔

سالارِ قافلہ نے سوچا کہ بندہ سٹھیا گیا مگر باوجود اس کے اس کے پاس بیٹھا آسمان کو تاکتے ہوئے بولا اور کہا آسمان پر سب اچھے ستارے ہیں اور ان کی روشنی سے جہاں رُوشن ہے ۔ کاش ! میں بھی رُوشن ستارہ ہوتا !!!

ستارہ ! اُس نے گول دائرہ بنایا اور بولا کہ اس دائرے میں آجا تاکہ میں سازندگی کی قصہ سُنا سکوں اور جو یہ نغمہ سن لے! وہ یہ کہ '' کاش '' کی 'ک' کو مٹا کر ، ''الف'' کے ساتھ وصل کرکے دنیا میں شفقت کرکے ، آخرت میں شافعی ہوجاتا ہے ۔اس کے چہرہ کی طرف آنے والے سوال کو روک دیا اور کہا کہ دائرے میں آجانے کے بعد تماشا دیکھنے کی اجازت ہے مگر نہ زبان کھولنے کی اور نہ سوال کرنے کی ۔۔۔ قصہ سازندگی کہاں سے شروع اور ختم ہو ؟ یہ میں اے سالار ! تجھ کو بتانے سے قاصر ہوں !!! مگر کچھ بچا کچھا میرے پاس سرمایہ سازندگی کا تجربہ ہے ، اس کو میں سُنائے دیتا ہے ۔

ایک دور خلافت تھا ! جب صاحب گشت گلیوں میں دیوانہ وار پھِرا کرتے تھے ۔زمانہ مے و شراب سے بڑھ کر سازندگی کو جا پہنچا تھا مگر سازندگی اس وقت عام نہیں ہوئی تھی اس لیے اکثر گھرانوں سے شراب کی خوشبو پھیل کرتا تھی جس طرح گُلاب چل کر خود گھر میں معطر ہو رہا ہے یا کہ چراغ جل رہا ہو! یونہی ایک دن صاحب الرائے ، فاروق اعظم نے ماں اور بیٹی کے مکالمہ کا ایک حصہ سُن لیا ۔

بیٹی : شراب دودھ میں ملا !!!
ماں : پانی تو دودھ میں ملا!!!!

وزیرِ شاہجہاں و رحمت اللعالمین واپس آئے اور پوچھا اپنے بیٹوں سے کہ ایک نوید ِ صُبح کو سننے کی لیے ، شراب کا سلسلہ جاری ساری رکھنے کے لیے کون اس سے شادی کرے گا؟ مست وبے خود عبداللہ بن عمررضہ نے حامی بھری اور دادء عمر ِثانی کہلائے ۔ پانچواں نائب سازندگی میں ماہر تھا ۔ شہزادہِ وقت تھا۔ اس لیے عِطر سے لباس کبھی خالی نہ رہا تھا ۔ کئی اونٹ اور گھوڑے سازو سامان کے لیے مختص تھے کہ ایک لباس زیب تن کرکے دوبارہ اس کو پہننا توہین سمجھا کرتے تھے۔سُلیمان بن عبد الملک نے ان کو اپنا ولی عہد مقرر کر دیا۔ اس بندے کو حرصِ اقتدار نہ تھی ۔ اس لیے جب نیابت کا وقت آیا تو بول اٹھے سب کو ، چونکہ بیعت مرضی بغیر کے ہوئی ہے اس لیے تم سب لوگ آزاد ہو ! لوگو نے کہا کہ ہم تو بیعت کرچکے ہیں ! اب واپسی کا سوال نہ تھا اس لیے سازندگی شروع کردی ۔ اس کے نشان ان کی تن پر ثبت ہوتے رہے مگر بادشاہت کو خلافت کی درجہ پر لے آئے کہ لقبِ مجدد الف کا پا گئے۔ اسلام زندہ کرنے والے ساز و شراب کے ساتھ زندگی بسر کیا کرتے تھے ۔ ایک دن بیٹیوں نے کہا کہ عید کے لیے کپڑے چاہیے، ورنہ تماشا دنیا دیکھے گی ۔ وہ بولے : بیٹا اس دنیا کا تماشا تم سہ لو گی مگر وہ جو آخرت کا تماشا ہے ، وہ بڑا ظالم ہے اور بیٹیوں کو صبر کی مے نوش کرادی ۔ بیوی کا نام فاطمہ تھا اور اطوار میں بھی شاہجہاں کی دُلاری ، خاتونِ سیدِہ جنت کے راستے پر تھیں ۔ اس بندہ خُدا کو ختم کرنے کے واسطے ایک زہرِ خاص تیار کی گئی کہ جس کا تریاق نہ ہو مگر کون جانے وہ بندہ پہلے ہی من کے زہر کا تریاق کرچکا تھا۔ مرتے ہوئے غلام نے اعتراف کیا کہ میں نے یہ کام کیا مجھے معاف کیجئے ۔ عفو کی مثال بے مثال قائم کی اور کہا کہ میری موت میں کچھ وقت باقی ہے اس سے پہلے کہ تو مار دیا جایئے تو یہاں سے فرار ہوجا! وگرنہ یہ لوگ سولی تیار کیے ہوئے ہیں ! ایک خواب عمرِ ثانی نے پل صراط کا دیکھا کہ سب سے پہلے عبدالملک بن مرواں بن حکم پُل صراط پر چڑھتا ہے مگر نیچے گر جاتا ہے ، پھر ولید بن عبدالملک چڑھتا ہے اور نیچے جا گرتا ہے ، بعد اس کے سلیمان بن عبدالملک چڑھتا ہے اور سب کی طرح آہ و بکا کرتے ہوئے جہنم میں جا گرتا ہے ، اتنے میں ایک نحیف نزار بندہ بڑا کانپتا ہے کہ اب اسکی باری کہیں وہ گر نہ جائے مگر خشیت الہی کا پیکر ، دل میں شمع محبت سجائے بڑی تیزی سے صراط کو پار کرجاتا ہے ۔

تھیں عظیم ہستیاں مگر خالی کر گئیں بستیاں
نہ آیا جو کہ باقی رہا نہ ساغر رہا نہ ساقی رہا

سالارِ قافلہ بڑی غور سے اُس سازندے کی بات سننے میں محو ہوگیا کہ اتنی اس کی آواز پر اس کو حضرت داؤد علیہ اسلام کی آواز کا گمان ہوا کہ کہیں وہ جنت میں بیٹھا اس شیریں آواز سے قرانِ پاک کی کسی آیت کی ، کسی نشانی کی بابت کچھ پوچھ رہا ہے اور وہ بتائے جا رہے ہیں ۔ سازندہ ِبرگد نے اسے غور سے دیکھا کہ جیسے اس کے خیال کو جان لیا ہو۔ اور بولا کہ بے شک وہ جنت کے حُدی خواں ہوں گے کہ ان جیسا نغمہ سرا اس دنیا میں ماسوا ایک کے کوئی بھی نہیں آیا۔ یہ تو ایک بادشاہ کی بات تھی مگر کچھ سازندے صرف اپنے لیے بجتے ہیں اور کچھ دنیا کے لیے۔۔ مگر جاتے جاتے ہوئے بادشاہِ وقت کو بیٹے روپ میں سبق سکھا جاتے ہیں ۔

آؤ ! اس دائرہ میں ایک اور دائرہ میں نے کھینچا ہے ! تم کو اگلے دائرے میں آنا ہوگا۔ اس طرح سازندگی چلتی رہے گی ورنہ حق کی بات سننے والا کوئی نہ رہے گا اور جب آواز سُریانی نہ ہوگی تو دل کے نور سے جہاں میں کون نور پھیلائے گا؟

ہارون الرشید کا ایک شہزادہ مامون اور امین کی طرف مشہور نہ ہوسکا مگر جاتے جاتے اپنے باپ کی آنکھیں ٹھنڈی کرگیا ۔ ایک دن وزراء نے شکایت کہ آپ کا یہ شہزادہ فقیری حالت میں رہتا ہے جو امراء کے شایانِ شایان نہیں ، بادشاہ نے بیٹے سے باز پُرس کی اور بیٹا محل چھوڑ روانہ ہوا کہ ماں نے ایک انگوٹھی دی کہ اس کو بیچ کر شراب پی لیا کرے ۔ جاتے جاتے نسخہ زندگی قرانِ پاک ہاتھ میں لے کر گیا اور اک انگوٹھی جس کو بحر شراب میں بہا کر سازندگی شروع کی ۔ موت کے قریب جنگل و بیابانوں میں رہا کرتے تھے کہ ایک دن جنگل میں وفات ہوگئ ۔ جب بیٹے کی وفات کی خبر ہارون کو ملی تو جنگل میں آیا اور پاس بیٹے کے وہی انگوٹھی دیکھی اور نسخہِ زندگی دیکھا تو اس کے دل سے چیخیں نکلی کہ وہ بندہ رجعت پر آمادہ ہوگیا ۔


نمے ترسی ازاں روزے کہ درگورت فروآرند
عزیزاں جملہ باز آیند تو تنہا درلحد مانی

ر نوشتہ بر زمین یہ تھے۔
یا صاحبی لا تغرر بتنعمی
فالعمر ینفدو والنعیم یزول
اذا حملت الی القبرل جنازہ
فاعلم بانک بعدھا محمول


اب کے سالارِ قافلہ کی آنکھوں سے اشک رواں تھے اُس نے سازندگی کی ابتدا کی اس وقت سے اور بولا کہ اے برگد نشین! دلنشیں آواز کے مالک!!!! میرا دل ہے کہ جنگل میں برگد کے ساتھ لگ کر پیپل کے درخت کو تاکوں!!! اور دائرہ تیسرہ خود بناؤ !

خاموش ! دائرے کبھی بھی خود کھینچے نہیں جاتے جب تک کہ اجازت نہ ہو ! جتنے کی اجازت تھی تجھ کو وہ مل گیا مگر آج کے بعد اپنی مرضی سے لکیریں کھینچیں تو سمجھیں کہ یہ سازندگی اب تجھ پر ختم ! سب کی چاہتیں ہیں مگر ان چاہتوں کے دریا کو ایک سمندر میں ڈال کر اُس سمندر کا حصہ بن جا ! اس سمندر میں ڈوب کر اپنی ہستی کو فنا نہ کرنا ! مگر غوطہ خوری کرنا۔ پانی بھی زندگی اور خشکی بھی زندگی ہے ۔ خشک و تر دونوں کو ساتھ لے کر چل ! اسی میں بقا ہے ۔ اب اٹھ !

کہاں؟
میخانہ چلیں ! رند ساز بیٹھے ہیں کب کے !!! میں تیرے انتظار میں تھا ۔ جسم دائروں میں رہے۔۔۔!! دو روحیں جسم کو چھوڑ چکی تھیں ۔ جسم پھر بھی زندگی کے حامل تھے ۔ دونوں جنگل سے ہوتے ہوئے ، دریاؤں سے ہوتے ہوئے ، صحرا میں پہنچے ! یہاں رقص بسمل جاری تھا ، ساز کی لے جانے کس مطرب نے چھیڑ رکھی تھی مگر نغمہ سریانی تھا۔ ساقی پیمانے پیمانے پر تقسیم کیے جارہا تھا ، اور جہاں کے رند شراب پی پی کر مست و بے خود رقص کر رہے تھے ۔ ساقی نے شراب میں نشاطِ درد کی افیون ڈال رکھی تھی ۔ برگد نشین تو داخل ہوگیا مگر سالارِ قافلہ وہاں کھڑا برگد نشین کو دیکھ رہا تھا جو باقیوں میں کھو چکا تھا ۔ اچانک اس کو ایک آواز آئی

حیدریم قلندرم مستم
بندہ مرتضی علی ہستم
پیشوائے تمام رندانم
مَنَم محوِ جمالِ اُو،
نمی دانم کُجا رفتم
فنا گشتم فنا گشتم،
نمی دانم کجا رفتم

اس کے بعد سالار اس آواز کی لے پر ایک دھاگے پر چلتا ہوا ساقی کے پاس پہنچا کہ اس کے پاؤں دھاگے نے رنگین کر دیے تھے ۔ ساقی شراب کیا دیتا وہ اس کے جمال میں کھو گیا !!! ایسا کہ پاؤں کے زخم کے احساس نے اس کے دل سے چیخیں نکال دیں ۔ ساز کی لے پر اس نے رقص بسمل شروع کردیا ۔۔ بے خودی میں یہ کہتا رہا کہ ''' پیشوائے تمام رندانم ، منم محو جمالِ او ''' من ! من! من! کرتے ہوئے تمام مست و بے ہوش گرگئے مگر سالار کہتا رہا کہ '''شدم چوں مبتلائے اُو، نہادم سر بہ پائے اُو'''

 

نور وجدان

لائبریرین
تو نوازنے پر آئے تو نواز دے زمانہ


ایک جھونکا باد کا ... اور ایک بازی ہے صیاد کی ...! دنیا بڑی سیانی ہے ...! باد کے جھونکوں سے ، نیلم کے پتھروں سے ، ہیرے کی کانوں سے ، اونچے اونچے گھرانوں سے ، بے وقعت آشیانوں سے ، ایلپ و ہمالیہ کے پہاڑوں سے ہوتی خاکی مقید کو اور خاکی مقید کی قید میں کر دیتی ہے. ایک شے کی بے وقعتی ...! لوگ سمجھتے نہیں شے کی وقعت کو سمجھانا پڑتا ہے..! خاک کو خاکی آئینہ نہ ملے تو خاکی قبر کے ساتھ ساتھ لامکاں کی بلندیوں پر پرواز کرتی روح دھڑام سے نیچے گرتی ہے.....! چھوٹی موج کا شکوہ ہوتا ہے ! کرتی ہے ! مگر آسمان سے گر کے جو معلق ہوجاتے ہیں ان کو ہم کہتے ہیں : نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے!​

اس کی زندگی 'تین اور تیرہ' کا المیہ بن جاتی ہے ...! تین کا کلمہ اکیلا پڑھنا حق کو گوارہ نہیں اور چار والی سرکار عدد تین کے بغیر کچھ نہیں ہے .. کسی نے کہا اور خوب کہا​

یا صاحب الجمال و یا سید البشر​
من وجھک المنیر لقد نو القر​
لقد یمکن الثنا کما کان حق ہو​
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر​

تین بذات خود سہ حرفی ہے کہ وہ یکتا ہے .. ! جب کہ تین اور ایک کو جمع کرلو تو عدد چار بن جاتا ہے ...مخلوق اللہ کی ایک ہے ..باقی سب تین ہے .۔۔۔۔۔۔۔!!!.یہی ایک کا فرق چار والی سرکار کو تین سے جدا کرتا ہے اور بولتے ہیں سعدی صاحب: بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر ..۔۔۔۔۔۔۔۔.!!.! اس تین میں چھپا اک نور ہے۔۔۔۔!!! اور جو مخلوق سے ربط استوار نہیں رکھ سکتے ان کا مقام نہ تین سے ہے اور نہ ہی چار سے ...آسمان اور زمین کے درمیان معلق لوگ ..۔۔۔۔۔۔۔!!!. جو سفل بھی نہیں ہیں مگر وہ مومن بھی نہیں ہیں .۔۔۔.! حق کا کلمہ ان کو معلق کیے ہوئے ہیں ! حق !حق ! کرتے ہیں زندگی بسر کرکے درمیانی زندگی کا تعین ان کی مسافت کو جِلا بخشے گا ...۔۔۔!!!وہ مجہول سوال نہیں کریں گے اور نہ کہیں گے : کہاں جاؤں میں ....!!!​


حقیقت کا پردہ دھیمے دھیمے نغمے پر فاش ہوجاتا ہے اور صاحبِ حقیقت ان دھنوں کے لے پر ناچ کر ، دھمال ڈال کر ، لے کی مستی میں ہوش و خرد سے بیگانہ ہوجائے تو اس کی آگہی کے در کھلنے پر اس کی ذات سے حق کو کیا حاصل ...؟ حق بڑا جلال میں ہے ....۔۔۔...!! اس کی تاب لانے کو حوصلہ چاہیے کہ درد صدیوں کا لمحوں میں دے کر پل پل کی مار ماری جاتی ہے ! یہاں پر جلال حق کو بنتا ہے کہ اس نے بندے پر مان کیا اور اس نے مان کی لاج نہ رکھی ...... اس پر تیرہ کا در ... چار نہ ہوسکا اور جب چاند ٹکرے کرنے والا نظر نہ کرے تو ...؟ تو حق کیا کرے گا ...؟ چاند نگر کا باسی زمین سے ناراض ہوتا کب ہے .. اس کی محبت زمین سے اتنی ہے کہ وہ اس کے گرد گھوم کر اس کی ایک ایک بات کی خبر لے رہا ہے ...!!!​

قران پاک کی ایک آیت ناشکروں کے لیے اتری جو ''افلا یعقلون'' کی مثال پر صادر آتے ہیں ۔۔۔۔۔.!!!. نشانیاں دیکھ کر انکار کرتے ہیں .. جب رب فرماتا ہے : تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ....؟؟؟؟ کھول کھول کر نشانی بتانے کے بعد عقل رکھتے ہوئے یہ لوگ اندھے ہوتے ہیں ....۔۔۔۔۔ ! رب کا جلال ان کو نیچے گرنا نہیں دیتا کہ اس کو گوارہ نہیں کہ وہ پاتال میں گر جائیں اور نہ ہی ان کو قرب دیتا ہے ...!!! ا​


کعبے کو کس منہ سے جاؤ گے ....؟ شرم و نہ حجاب... ! نہ پاس یار کا...! او میرے بندیا !​

شرم کر ...! شرم ! شرم ! اور ڈوب جا اپنے من کے گیانوں میں ...! تیرا گیان ہی تیری پہچان ہے ...!!! غار بھی ہے ! چٹان بھی ہے ! فکر کا راستہ بھی ہے ! عقل سے گزرنے کا راستہ بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔!اتنی جلدی رب سے مایوس ہوجانا...!! میرے پیارے دلدار ...!!! تیری آنکھوں سے گرنے والا پانی اس بات کی پہچان ہے کہ تجھ کو مجھ سے کتنا پیار ہے.۔۔۔۔۔۔۔۔.! کیا میں تیرے پیار کی لاج نہ رکھوں۔۔۔۔۔۔۔..؟ کیا​
میں تیری شرم کا حجاب نہ بن جاؤں...۔۔۔۔۔۔۔؟ رب تیری باتیں تجھ کو کھول کر بتانا چاہتا ہے کہ آنکھ کھول کر زمین کا نظارہ کر.۔۔۔۔۔۔...!!!​

تجھ کو پرواہ ہے درد کی جو تیرے سینہ کھل جانے پر عطا کردہ ہے .۔۔۔۔۔..! ساری زندگی کیا تو اس کی دوڑ میں صرف کردے گا؟ بتا ..!!! تجھ کو اس دنیا میں کچھ کام کرنا ہے ...! جب تک تو وہ کام نہیں کرلیتا ۔۔۔۔!!تجھ کو اپنی محبوبیت سے دور رکھنا ہی میری منشاء ہے. ایک میرا غازی بندہ ! وہ جس نے قرامطییوں کو شکست فاش دے کر براہ راست خود کو عدد ''تین '' پر استوار کرلیا ہے..دنیا میں سب تین ہے ۔۔۔!!!مخلوق بس ''ایک '' ہے.. وہ تین جمع چار ....!!! دونوں تینوں کو عین پر پالیا ..۔۔۔۔۔۔!!!. ایک وہ بندہ جس کو نور الدین زنگی دنیا کہے جس کا باپ عماد الدین بن کے ""دین کا ستون"" نور دنیا کے حوالے کرگیا.۔۔۔!!! صدقہ جاریہ اس کا کام...! وہی جس نے نبیﷺ کی قبر مبارک کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار سے مضبوط کردیا اور خود ایک جانشین صلاح الدین دنیا کو چھوڑ گیا.۔۔.!!! صلاح الدین کا مقصد اللہ نے طے کر رکھا تھا.۔۔۔۔۔!!.​

ایک بار پھر یثرب سے فلسطین آ​
راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصی ترا..​

اقصی ٰ نام کی بات سے یاد آیا.۔۔۔!!!..بندے نام ِکے اقصیٰ والے ہو تم...! نام بدل جانے سے کام بدل نہیں جاتے ...!!!! اپنا نام تو نے بدل ڈالا...مگر نام اقصیٰ والے بڑے کام والے ...! جب کام ملے تو بندے کا کام کرنا چاہیے زندگی کا مقصد سب کی زندگیوں میں جدا جدا ہے مگر اس جدا کام کی شاخ در شاخ مل کر نور کو سرچشمہ ِ درخت سے جڑی فیض یاب ہوجاتی ہے .۔۔۔. !!کوئی شاخ ہے تو کوئی درخت تو کوئی ہرا بھرا باغ ہے ..۔۔۔۔!!!.سب کا مقام اپنا اپنا... ! چل بندیا ! تو نہ کر تیری میری ! تو کر بس ''میری میری'' تیری خواہش کی تیری تیری ... اس کو رب پر چھوڑ دے.۔۔۔۔۔!!!.. نوازنے پر آؤں تو نواز دوں زمانہ........!​
 

نور وجدان

لائبریرین



یونہی ہنس کے نبھا دو زیست کو مسلسل​
محسوس کرو گے تو مسلسل عذاب ہے​

کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ جسم سیال بن کر بہنا شروع کر دیتا ہے. روح کا ذرہ ذرہ کانپتا ہے. اور درد کی سوغات کی گرمائش سے گھبرا کر دل درد کی کمی کی دعا مانگنے لگتا ہے. درد کا کام ہے۔۔۔! کیا ! شعلے کو بڑھکانا! شعلہ بڑھکتا ہے اور روح کو لپک لپک کر بانہوں میں لپیٹ کر وار کرتا ہے.۔۔۔۔۔۔۔!!! درد بذات خود کچھ نہیں، اس کا ماخذ اندر کی تخریب در تخریب کرکے مٹی کی گوڈی کرتا ہے۔۔۔!!! اور مٹی جب تک نرم نہیں ہوتی یہ وار کرتا ہے!!!. اس نرم زمین پر پھول کھلنا ہوتا ہے . اس پھول کی خوشبو کا عالم دیوانہ ہے اور بلبل اس کی پروانہ وار متوفی ہے. جگنو کا رنگ و روشنی اس خوشبو کے آگے ماند پڑجاتا ہے. کون جانے محبت کے درد میں چھپی خوشبو۔۔۔!!! جو! جو جان جائے وہ جھک جائے، وہ مٹ جائے۔۔۔۔۔۔۔!!!​

درد کے ہونے کے احساس کئی سوالات کو جنم دیتا ہے! جب درد وجود بن جاتا ہے تو وجود کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اس سوال کی تلاش اور کھوج میں ایک بات ذہن میں آئی ۔۔۔۔! میں نے ایک کینگرو کے بچے کو زمین پر بھاگتے ہوئے پایامگر اس کے پاؤں زمین پر بھی نہ تھے ۔ مجھے لگا اس کو کوئی اٹھائے ہوئے ہے ۔میں نے غور کیا تو محسوس ہوا کہ اس حجم زمین سے سے پانچ انچ اوپر ہے اور کبھی لگا کہ وہ کسی کی آغوش میں ہے مگر مجھے اس طرح کی آغوش کی سمجھ نہیں آئی جو نظر نہیں آتی ۔ کیا کینگرو جس نے بچے کو اٹھایا ہوا اور اس کو وجود ختم ہوگیا ؟؟؟؟ یا یہ کہ وہ ایک دائرہ لطافت میں داخل ہوگیا ہے۔۔۔! کیا پھر میں یہ مان لوں کہ کینگرو ہی نہیں رہا ِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ اس کا وجود نہیں ہے۔۔۔۔؟؟ مگر اس کے درد کا وجود تو ہے ۔ ہم گزشتہ سے پیوستہ ہیں اور جس رشتے سے پیوست ہیں وہ ایک درد کا اور تخلیق کا رشتہ ہے ۔۔۔۔۔!!! مگر کون جانے اس تخلیق کی اذیت ۔۔؟​


کون جانے گا ؟ کوئی تو ہو جو روک لے ! جب کوئی روکے گا نہیں تو اذیت بڑھتی جائے گی اور لامتناہی ہوگی ۔ اللہ ہم کو نظر نہیں آتا مگر اللہ سے ہمارا رشتہ درد کا ہے! تخلیق کا ہے ! خالق کو مخلوق سے محبت ہے ! مگر ہم کو اس کا احساس جب ہوتا ہے جب ہم درد میں ہوتے ہیں۔سارے رشتے اللہ جی سے درد کے ہیں ! ہم جھکتے اللہ کے آگے درد میں ہے مگر میرا درد اتنا نہیں کہ میں جھکوں ! میں تو دنیاوی سہارے لے کر درد کو سُلا دیتی ہو۔۔۔دل میرا صنم خانہ بن جاتا ہے ! اور کبھی اس میں بُت رکھ دیتی ہوں ! اقبال کو بھی یہی درد محسوس ہوا ہوگا۔۔!!!​


جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی، تو زمیں سے آنے لگی صدا​
تیرا دل تو ہے صنم آشنا ،تجھے کیا ملےگا نماز میں​


دل تو صنم خانہ بنا مانگتا ہے سہارا۔۔۔۔۔۔۔ ! اور ہے یہ بڑا بیچارہ۔۔۔۔ ! روتا ہے۔۔۔ ! رونے دو ۔۔۔! ہنستا ہے۔۔۔ ! ہنس لینے دو۔۔۔ ! کرنے دو اس کو ! ہنسے یہ کھیل کر ۔۔۔۔! کہ ہے تو رونا اس کو ۔۔۔۔۔! تو تھوڑا سا ہنس لے۔۔۔۔۔۔۔ ! مستی کرلے ! مستی کرکے کیا کرے گا ! ہے یہ بڑا بیچارہ ! ناہجاز! دل کی تڑپ اگر تمثیل بن جائے اور غلامی کا تاج پہن لیا جائے تو کیا ہوتا ہے ! وہی ہوتا ہے جو شاعر کہتا ہے​

ہم نے کیا کیا نہ ترے عشق میں محبوب کیا​
صبر ایوب کیا، گریہ یعقوب کیا​

جب دل درد سے معمور ہوجائے تو میخانہ بن جاتا ہے ! میخانہ چھلکتا ہے ! چھلک کر ٹوٹ جاتا ہے ! آواز تک نہیں آتی ! ایسا کیوں ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !کیا ہے دل شکستہ رب کو عزیز بھی بڑا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔!! اللہ دلوں کوتوڑتا ہے اپنے اصل سے جوڑنے کے لیے ۔۔۔۔۔!! مکمل دل میں دنیا اور ٹوٹا ہوئے میں اللہ کا بسیرا ہوتا ہے ! کرچی کرچی ہوتا ہے ! ہونے دو ! توٹتا ہے ! توٹ جانے دو ! مگر کیا ہے احساس ہونے دو کہ درد ہو رہا ہے ۔۔۔۔! لوگ احساس بھی ہونے نہیں دیتے ۔۔ہم نےدرد کے آئینے کو سنبھال کر رکھا۔۔۔۔۔۔ ! غم ہوتا بھی تو انمول ہے نا! جب ہم دکھوں کو انمول کرکے ان کو بے مول ہونے سے بچالیتے ہیں تو اللہ جی ! اللہ جی ! خود کہتے ہیں ۔۔۔۔! کیا کہتے ہیں ؟؟؟ وہی جو ابھی لکھا ہے ! کیا لکھا ہے !​

تو بچا بچا کہ نہ رکھ اسے، تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ​
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں​

یہ لکھا ہم نے تو نہیں ! مگر یاد آیا ہے بڑا ! کہیں ہمارے دل ٹوٹا ہو تو نہیں ! مگر یہ بڑا سالم و قوی ہے ! اس میں بسا دنیا کا درد ہے درد ہے ! ارے !!! اس میں دنیا کی خاطر تو کوئی درد نہیں لیا ہوا۔۔۔۔ہم شروع سے اپنی دھنی اور خوش رہنے والے ! دھن تھی کہ مارکس اچھے ہیں کبھی ٹاپ کرنے کو سوچا نہیں تھا! ہمارے مارکس اچھے آئے ہم تو خوش۔۔۔ ! مگر ہمارے اساتذہ ہم سے خوش نہیں۔۔۔ ! ان بقول ہم کوٹاپ کرنا تھا ! سو ہم نے ان کے دکھ کا سوچا ہی نہیں ! اور کبھی سوچا نہیں انسان کو دوسرے کے دکھ کے لیے پیدا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔!!! درد دل میں پیدا ہوتا تو اپنے ہم عمروں کے لیے ! کہ چلو ۔۔۔۔۔! چلو ۔!!! آئنے سے پیار کا تقاضہ تو نبھ رہا ہے مگر تھی تو کرپشن ! ہم سب سے بڑے نقل خورے ! ہم نقل کروا کے اپنا اصل چھپا لیا کرتے تھے۔۔۔لوگ ہم سے آگے نکل جاتے مگر ہم کو اصل سے زیادہ ان کی پرواہ ہوتی ۔۔۔! اگر میں اور آپ ! سب مل کر آئینوں سے ، سبزے سے ! صحرا سے ! درختوں کی بریدہ شاخوں سے ! خزاں کے زرد پتوں سے ! بہار کی اولین خوشبو سے ! سرمئی آنچل پر بادلوں کے نقاب سے ! زمین پر پھیلے اشجار سے ! اُس کی تخلیق کے ہر روپ میں پنہاں درد کو سمجھنا شروع کردیں گے تب ہمارا شجر تخلیق سے رشتہ اور پیوستہ ہوجائے گا۔۔۔!​
 

نور وجدان

لائبریرین
نیلا چاند، سرخ جام اور سبز لباس...!!!​

شام کے وقت سے صبح کا وقت ، ایک انتظار سے وصال اور وصال سے ہجر کا وقت ہوتا ہے . جانے کتنے دکھ ، اللہ جی ..! جانے کتنے دکھ ... ! آپ نے رات کے پہلو سے دن کی جھولی میں ڈالی ، جانے کتنے درد سورج لیے پھرتا ہے . اللہ جی ..! سورج بڑا ، اداس ہے ... اس کو رات میں دیکھا ہے ، جب میں چاند کو دیکھ رہی تھی .. !​

دل سے صدا تو اُبھری ہے ، دل کہتا ہے ، اللہ جانے نا...! اللہ جانے کہ کس کو کتنا دینا ہے ، جس کو جتنا ظرف ہوتا ہے اتنا اس کو درد ملتا ہے ..!! سورج کی قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی ۔۔۔ پیار بانٹنے والے کے حصے میں دینا لکھا ہے اور درد پی پی کر ، سورج کو قربانی دینے کی عادت سی پڑ گئی ہے ۔۔۔۔ اس کی عادت ، نے رات کی جھولی بھرنی ہوتی ہے اور رات سورج کی تلاش کی عادی ۔۔ انتظار کی ''عادت '' کس کی ۔۔۔؟​
جانے کس کی ، زمین کی یا رات کی ، یا پھر چاند کی ۔۔۔؟​
کون جانے ۔۔۔۔!​
بس جانے تو ، ایک '' عادت'' کی لت پڑجانے کا جانے ۔۔۔!​
اب کہ عادت سی ہوگئی ہے ، عادت ... !​
ہاِں...!​
عادت...!!​
کیسی عادت ...!​
سورج سے، چاند کا رشتہ معلوم کرنے کی عادت ،​
زمین سے اللہ کا رشتہ جاننے کی عادت ..!!​
زمین پر چاند بھی ہے ، اس کے گرد گھومتا ہے اور سورج اس کو روشنی دیتا ہے ...۔۔۔۔!.​
اب پوچھیے !​

زمین کا رشتہ کس سے کتنا گہرا....؟ ہوسکتا ہےچاند سے ہو ، چاند زمین کا طواف کرتا رہتا ہے ، زمین کو سورج سے زیادہ ، چاند اس لیے عزیز ہے .... رات کا چاند سے ملنا ، اللہ جی کی نشانی ہے ... اللہ کے امر میں کون رکاوٹ ڈالے ..؟ بات تو وہی ہے نا...! زمین کے گرد چاند ایک ہے مگر زمیں میں طوفان لاتا ہے ، اس کے سمندر میں شور لا کر لہروں کو بڑا تڑپاتا ہے . یہ بھی پتا نہیں چل رہا کہ چاند زمیں کو کشش کر رہا ہے یا زمین چاند کو ...۔۔۔۔! مگر رات بڑی حسین ہو گئی ہے ...۔۔۔! کرم رات پر ہو ... ۔۔۔۔!کبھی کبھی رات کو وصال میں مزہ آتا ، چاند کے رات سے وصل میں زمین بڑی خوش ہوتی ہے اور اللہ جی کی حکمت! اللہ جی کی ...! چاند کو ایک زمین سے پیار ہے ۔۔۔! سورج کے پیار کئی ہیں ...۔۔۔! اس لیے چاند پہ لوگ مرتے بڑے ہیں .۔۔۔!. قسم لے لو! چاند کی محبتیں ، چندا کے نام سے منسوب ہیں ... سورج کی محبتیں بڑی بے نام ہیں ، خشک ، خشک سی ...!!!​

کبھی زمیں بڑی کشش کرتی ہے ..!​
ارے ! کس کو ؟​
چاند کو ....!​
اچھا.. اس سے کیا ہوتا ہے ؟​
ہوتا تو کچھ نہیں ہے مگر چاند بھی بے تاب ہوجاتا ہے اور اپنا جلوہ سال میں چودہ دفعہ بھی کروا جاتا ہے ، چودھویں کا چاند اور وہ بھی بار بار ابھرے ..!!​
اس کا حسن کیسے ہوگا..؟​
کیا جانے ہم ...؟​
سبز زمین کی گود میں نیلا چاند آجائے اور جام ُُسرخ نہ ہو یہ کیسے ہوسکتا ہے .... ! لبالب جام ہو اور سرخ جام کا مزہ بھی اپنا ہے .اور جام کے بعد کا سماع ۔۔۔ اس کا لطف تو اور ہی ہو۔۔۔ مگر جام کے بعد ہوش کہاں ۔۔۔؟​
کہاں ہوش ، ہوش تو نہیں ہے ۔۔؟​
لگتا ہے کہ پہلی ہی پی رکھی ہے ، جو سرخی کی بات ہورہی ہے ...!!​
کیا فرق پڑتا ہے ...؟ پیے جاؤ اور پی لو ... بس پیمانہ بڑا ہو ..... اور اتنا ڈالو کہ سب کے سب جام پیمانے میں سما جائے ...!!! پیمانے بڑا کرنےسے نہیں ہوتا بس ودیعت کردہ ہوتا اور چھلک بھی جائے تو کیا۔۔۔؟​

لگتا ہے دیوانگی چھا گئی ہے ...؟​

دیوانہ جام کا رنگ کیا جانے .... یہ سرخ جام تو ہوش کی نشانی ہے ، یاقوت کی طرح بدن میں سما کر ، روح کو نیلا نیلا کر دینے والا....! پینے کے بعد کا ہوش کہیں مجھے بہکا نہ دے ...!!! ہوش والے بہکتے نہیں ہیں اور جوش والے سمجھ کہاں رکھتے ہیں ، فرق ہی مٹ جاتے ہیں سارے کے سارے ...!! بس فرق ختم ہوجاتے ہیں ۔۔ تفریق مٹ جانا اچھا ہوتا ہے۔ اس سے تضاد ختم ہوتا ہے ، رنگ اڑ جائے تو تضاد کے بہانے سو۔۔۔!!!​

زمین نیلی ہورہی ہے اور چاند بار بار جھلک دکھلاتا ہے ، چاند کی تاک جھانک سے سمندر میں مدوجزر آگیا .... سیلاب آگیا اور زمیں سبز سے نیلی ہو رہی ہے .... برباد ہو رہی ہے ، تخریب ہو رہی ہے ، مٹی بدل رہی ہے ، ریختگی بڑھے یا زرخیزی .... سیلاب کا کام تو دونوں چیزوں کے سبب پیدا کرنا ہے ...!! اللہ کی حکمت ۔۔ اللہ جی جانے ، وہ جانے ، ہم کیا جانے ۔۔۔؟ ہم تعمیل کے غلام ۔۔۔ غلام ، بس غلام اور کچھ نہیں ۔۔۔! آنے دو سیلاب ۔۔۔! اس کا کرم ، اس کی حکمت اور اس کی حکمت بندہ کیا جانے ۔۔۔ !بندہ جانے وہی ۔۔۔ جو وہ جانے بس۔۔۔!!!​

سیلاب سبب زندگی اور سیلاب سبب موت بھی​
یہ حیات کا عندیہ بھی اور جانے والے کا سندیسہ بھی .... !​

کون جانے کہ کس نے جانا ہے اور کس نے آنا ہے ، مگر زمین نیلی نیلی ہے ، اس کا سبز رنگ ، نیلا ہوتا جارہا ہے ، کبھی کبھی تو گمان ہوتا ہے کہ زمین کہیں پوری ہی نیلی نہ ہوجائے .....!! اور ہوش کھوتا جارہا ہے ...!! زمین نیلی ہر دفعہ ہوتی کہاں ہے ، یہ بھی اس کا حکم ہوتا ہے اور جب حکم ہوتا ہے ، تب جام ملتا ہے ، جام ۔۔۔ جام بس اور جام کے سوا کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔!​
جام پر جام ...!​
کتنا پینا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟​
دل کر رہا ہے ۔۔۔۔!​
بس 'مے و شراب سے کبھی نہ نکلوں ۔۔۔۔!​
بس کبھی بھی نہ ۔۔۔!​
سرخ شراب ، بس سرخ ، سرخ ، اور سرخ.... سب سرخ ہوجائے ...!!!​

بس ، سرخی جام ، نیلا چاند اور سبز زمین کا وصل ہوگیا اور ایک '' نور'' کا ہالہ سا بن گیا...........!!! ایسا ہالہ کب بنتا ہے ، جب بنیاد مل جاتی ہے ، جب سب اجزا مل جاتے ہیں ۔۔۔ جب بکھر کر سب سمٹنے لگتا ہے ۔۔ اور فرق ختم ہوجاتا ہے ۔۔۔!!!​
نہ سرخ رہا..!​
نہ سبز رہا...!​
نہ نیلا رہا...!​
صرف ''نور ' رہا....!!!​
وہ جو ازل سے دل میں مکیں ہیں ، وہ تو یہیں کہیں ہے اور اسکو ڈھونڈتا کوئی بہت حسیں ہے ، اس کی چاہ میں کس کی ہورہی ترکیب ہے ....!!!​

کون جانے ، کون جانے ، کون جانے...!!!​
کوئی نہ جانے ....!!​
بس ''وہ '' جانے ...!!​
 

نور وجدان

لائبریرین




دنیا میں خواہش کا ہونا اللہ کے ہونے کی دلیل ہے اور اس کی حسرت ہونا انسان کے عبد ہونے کی دلیل ہے ۔ کچھ لوگ خواہش کو حسرت بنا لیتے ہیں اور کچھ لوگ خواہش کی تکمیل کے لیے جان لڑا دیتے ہیں اور کچھ امید کا دامن سدا یقین کے سفر پر رواں رہتے ہیں ۔ یونہی ایک دن میں نے بھی خواہش بُنی کہ میں حج کرنا چاہتی ہوں ۔ لوگوں کو حج کرتے دیکھا کرتی اور سوچتی کہ بڑے خُوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اللہ کے گھر جاتے ہیں ۔ عید الضحی پر پچھلے سال افسردہ بیٹھی تھی کہ دل سے ایک صدا اُبھری :​

حاجی کون۔۔۔۔۔!
وہ جو خانہ کعبہ کے گرد طواف کرتے ہیں
وہ جو قربانی کی یاد مناتے ہیں
قربانی جس کی ابتدا حضرت اسماعیلؑ سے ہوئی
قربانی جس کی انتہا حضرت امام حسینؑ سے ہوئی
میں انہی سوچوں میں غلطاں رہتی تھی کہ مجھے کون سی قربانی دینی ہے ۔
کیا ہم سب کو قربانی کی صرف یاد منانی ہے
یا اس کو مقصدِ حیات بنانا ہے ؟
مجھے اچانک ایسا لگا کہ کوئی اندر صدا لگا رہا ہے !
دل سے ایک صدا ابھر رہی ہو
جیسے کہ اچانک کوئی اندر مجھ میں صدا لگا رہا ہے ۔
میرے سامنے تو آؤ۔۔۔!
من مین چھپے لگاتے ہو صدائیں۔۔۔!
بڑی رنگوں کی پکار تم کرچکے
بہت سے رنگ مجھے دکھا دیے !
مجھے رنگوں میں الجھا دیا ہے!
پاؤں میں زنجیر ڈال مجھے مسافر کردیا ہے !
میری پاؤں میں اپنی تلاش کی زنجیر ڈال دی ۔
کس کے پیچھے میں بھاگوں...!
اور کروں تلاش کا سفر ۔۔!
اس نگر سے اس نگر کا سفر،
پاؤں میں ڈال تلاش کی زنجیر
مجھے تو مسافر کردیا ہے .......!
ہائے ! تم نے یہ کیا کر دیا ۔۔!
میرے لیے سب صحرا کر دیا۔۔!
کس سمت جاؤں اور کس کو پکاروں ؟
کہ میں رنگی ہوں تو کیسے ؟
یہ رنگ مجھ پر کیسا ہے ؟

''او رنگی ۔۔!
اپنے اندر جھانکتی کیوں نہیں ہے ؟
من میں جھانک اور پا سراغ ِ زندگی !
مٹا کے ہستی کے سب رنگ
تو کر اب میری بندگی
دیکھ ۔۔۔!
پاس جا'' کالے کپڑے ''کے
''کالے کپڑے'' میں چھپا حرم ہے ۔
کعبہ کو سلام پیش کر اور گزر جا۔۔!
یہی تیرا کام ہے ایسے ہی شور نہ مچا تو ''


کون ہو تم َ؟
''رنگی '' کہنے والے تم کون ہو ؟

مجھے کس نے رنگنا ہے ؟
میرا عشق باؤلا ہے اور روح مدہوش !
کیا تم نے رنگا مجھے ؟
ایک طرف جی چاہتا کالا کپڑا ہٹادوں ۔۔۔!
پھر جی چاپتا ہے پاس کھڑے مناجات کروں !
مجھے یقین ہے وہ میری دعا کو سنے گا !
وہ جس کا گھر ہے ''یہ''
دعا ہوگی میری قبول ،
اس کے بعد کیا ہوگا ؟
میرا نہ رنگ رہے گا اور نہ روپ ۔۔۔۔۔!!
میرے اندر کون ہوگا ؟کیا تم ۔۔۔۔؟


سنو۔۔۔!!

وہ کعبہ اِدھر ہے تو'' یہ'' کعبہ اُدھر ہے ۔
ِادھر بھی رنگ کالا ہے اور اُدھر بھی۔
اِدھر طوافِ خاک اور ادُھر میری ذات ہے۔
اِدھر بدن مست ہے اُدھر میں مدہوش ہوں
اِدھر تم نظر آتے ہو اور اُدھر تم بس چکے ہو
اب بس چکے ہو تو طواف ہو رہا ہے ۔
اِدھر بدن محو رقص تھا اب روح محوِ رقص ہے!!
اُدھر کوئی عاشق تھا تو اِدھر مجذوب ہے !!
اُدھر ست رنگی اور اِدھر یک رنگی ۔۔۔
اُدھر شاہد تھا کوئی اور اب مشہود
اُدھر کوئی ضرب لگائے پھرتا ہے۔
لا مشہود الا اللہ!
لا موجود الااللہ!
لا مقصود الا اللہ!
لا معبود الا اللہ!
حق ! لا الہ الا اللہ!
اور ِادھر خاموشی ۔۔۔!


'' خاموش'' تم اب بھی رنگی ہو ۔۔ !
سارے رنگ تمھارے میرے ہیں !
تیرا باطن اور ظاہر کس کا ہے؟
تیرا قبلہ و کعبہ کس کا ہے ؟
بھید چھپا اندر کس کا ہے ؟
تیرے دل میں عکس کس کا ہے ؟
یہ اکتساب و اضطراب کس لیے؟
فنا کے راستے پر حدود کس لیے ؟
اے خاکی ! یہ شبہات کس لیے ؟


یہ'' اضطراب۔۔۔! ''
تو نہ ختم ہونے کا ایک سلسلہ ہے۔
جو شاید قیامت تک جاری رہے گا۔
اس اضطراب کا اظہار کیسے کروں ؟
اپنے ''اندر ''کا جلوہ کیسے کروں ؟
وہ رنگ جو بکھرے تھے!
اب وہی رنگ جمع ہو کر،
ایک سفید روشنی کو جنم دیتے ہیں ۔
اس پر کالا کپڑا ہے ۔
اس کو دیکھوں کیسے؟ ؟


ہائے ! یہ اضطرابی۔۔۔!
کیسے ہوگی دید ؟
کتنے پردوں میں چھپا ہے'' تو''
یہ رنگوں کی دنیا ہے!
خوشبو کی دنیا ہے!
نغموں کی دنیا ہے!
اور سب کے اندر ''تو''
بس ایک آواز لگنی باقی!
بس وہ ہے تیری " حق ھو"
ہائے ! یہ حجابی ۔۔۔!
کیسے دیکھوں ؟
میرے رنگ'' کالے کپڑے'' نے کھینچ لیے
اور میں خالی ۔۔۔۔!
میرا اندر خالی!
میرا باہر خالی!
مگر باقی اک ''تو ہی ''تو''
تو ہی میرا سائیاں !
تو ہی میرا سائیاں!
دل کرے اب دہائیاں۔۔!
تو ہی میرا سائیاں۔۔!
جھلک کرداے نا اب!!


''سنو''
رنگی ۔۔۔۔!!!
حجاب ضروری ہے اور طواف بھی ضروری ہے ۔تم طواف کرتے رہے ہو اور تمھیں طواف میں سرشاری کے مقامات پر شاہد رہنا ہے ۔ تمھارا اضطراب اور خواب سب حقیقت میں بدلنے والے ہیں ۔اور ان کے بعد'' رازِ کن فیکون ''ہو جانا تم پر لازم ہے ۔زبان تمھاری خاموش رہنی چاہیے اور دل کو جاری رہنا چاہیے ۔ تمھاری ذرا سی کوتاہی تمھیں مجھ سے میلوں دور کر دے گی ۔اور دور ہوجانے والے بعض اوقات '' عین '' سے دور ہوجانے والے ہوتے ہیں۔۔۔!!!اپنی تقدیر تم کو خود بنانی ہے ۔وہ جو لوح و قلم پر رقم ہے اس کی دونوں انتہاؤں کو رقم کیا جاچکا ہے ۔ راستے متعین تمھاری عقل نے کرنے ہیں اور اس کے بعد عقل کا کام ختم ہو جائے گا ۔



او ۔۔!'' رنگی'' ۔۔۔!
جب عقل اپنا کام تمام کر چکے گی ۔
تیرا لا شعور تب جاگ جائے گا۔
تب خاکی سچا موحد ہوگا!
اور تیرے ذکر میں میرا ذکر ہوگا۔
''الا بذکر الا اللہ تطمئن القلوب''
میرا ذکر تیری چادر بن جائے گا!!
خوشبو چار سو پھیل جائے گی ۔
اور تب سب حجاب مٹ جائیں گے ۔
تیرا اضطراب بھی مٹ جائے گا۔
او خاکی ! تو صرف میرا ہوجائے گا ۔


خلقت کعبے کے گرد ''سو'' طواف بھی کرلے ''حج'' نہ ہوگا جب تک میرا طواف نہ کرے ۔ دیواروں کو چومتے چومتے ، کالا ہونے کی دعا مانگنے والے کم کم ہوتے ہیں ۔ یہی '' خلا '' تو بقا ہے ۔ اسی میں چھپی دوا ہے ۔ اور کالا رنگ اترنے میں دیر کتنی لگتی ہے ۔ کیا سنا نہیں تم نے ؟

إنما أمره إذا أراد شيئا أن يقول له كن فيكون



یہی مجھ تک پہنچے کے مدارج ہیں ۔ ان مدارج کو پہنچے بغیر حج کا عین تم نہ پاسکو گے ۔ بالکل اسی طرح تم کو ثوابِ طواف ضرور ملے گا جس طرح تم قرانِ حکیم کو سمجھے بغیر پڑھتے ہو بالکل اسی طرح تم حاجی بھی کہلاؤ گے ۔ جب تم آیتوں کو کھول کر پڑھو گے اور آیتوں کو آیتوں سے ملاؤ گے تو مشہودیت تم پر لاگو ہوجاؤ گی

 

نور وجدان

لائبریرین


میری ایک فریاد ۔۔۔۔۔!!!
ایک عرضی اور فریاد اپنے محبوب کے نام جس نے یہ جہاں بنایا ۔ اس نے ''ُکن '' کہا اور ''فیکُون'' تشکیل و تعمیر کی راہ پر تکمیل کو پہنچا ۔ مخلوق بھی اسی 'کُن ' کی محتاج ہے اور جب وہ دعا مانگتی ہے اور اس کی بارگاہ میں عرضیاں پیش کرتی ہے تو سبھی کچھ یقین کی راہ سے مسافر کی خواہشوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیتا ہے ۔ میں نے اس سے عشق کی التجا کی ہے اور اپنی عرضی ڈالی ہے:

درد کے میں سوت کاٹوں!
یا غموں کی رات کاٹوں!
خون بہتا کیا میں دیکھوں؟
یا سہوں مخمور ہو کے ؟
رقص بسمل کا کروں کیا؟
مور کی مانند ناچوں؟
''تم'' سنو فریاد میری!
نالہ غم کس سے کہوں میں ؟
''تجھ'' بنا کیسے رہوں میں ؟
لوگ قصہ عام کرنا چاہتے ہیں!
اور مجھے بدنام کرنا چاہتے ہیں!
خود تو محوِ عشق ہیں ''وہ'' !
تذکرہ میرا' وہی' اب عام کرنا چاہتے ہیں!
سات پردوں میں چھپا '' اللہ '' تو ہے!
جلوہ گاہوں میں بسا'' اللہ'' تو ہے !
آنئے بنتے ہیں کوئی ،
عکس بھی ہوتے ہیں کوئی،
ہے پسِ آئینہ بھی وہ ،اور پسِ مظہر بھی وہ ہی ہے ،
اس کا جلوہ چار سو ہے !
التجا میری ،دعا میری ،رَموزِ عشق کی ہے داستاں کیا؟
بے ادب نے تو حدیثِ دل سُنا دی ہے جہاں کو ۔۔۔۔،

َجمال والا وصالِ ُصورت نظر میں آئے
سکونِ دل کو وبالِ ُصورت نظر تو آئے
فگاِر دل ہوں، جلائے ُشعلہ مجھے سدا یہ!
َجلن بڑھے ! نورِ حق َبصیرت نظر تو آئے
َلگاؤں حق کا میں دار پر چڑھ کے ایک نعرہ
مجھے زمانے کی اب حقارت نظر تو آئے
کہ نعش میری َبہائی جائے َجلا کے جب تک
دھواں مرا سب کو حق کی ُصورت نظر تو آئے
کٹَے مرا تن کہ خوُں پڑھے میراَکلمہ'' لا ''کا
کہ خواب میں بھی یہی ِعبارت نظر تو آئے


کائنات میں عاشق کا سب سے بڑا مرتبہ شاہد ہونا ہے یعنی کہ اس کے وجود کی گواہی دینا ہے ۔ جس کا جلوہ چار سو ہے ۔ وہی عیاں ہے اور وہ ہی نہاں ہے ۔ اے مولا ! مومن دل والے پاک ہوتے ہیں ۔ ان کے دل میں تیری ذات بسیرا کرتی ہے اور مومن کون ہے ؟ ایک بندہ شہاب تھا جس نے دنیا کا لطف بھی لیا اور اور راہ عشق کا مسافر بھی بنا ۔ وہی شہاب جس نے قطب الاقطاب سے پیالہ فقر رد کردیا کہ دنیا اور دین دونوں کی چاہت پر اس کا یقن استوار رہا ہے ۔ انسان وہ بھی تیرا کہ وہ چلا گیا مگر اس کا ذکر آج بھی زندہ ہے ۔ ہم نے سنا ہے کہ اس کے میخانے میں شراب عشق کے جام مفت مل جاتے تھے اور ایک اور بندہ جس نے کعبہ پاک کو کالا کوٹھا بنا دیا اور اپنی ذات کے طواف میں مست ہوگیا اور خود میں ناچنے لگا ۔ مالک ! یہ کیسی رمز ِ عشق ہے جو عاشق کو بے ادب و گُستاخ بنا دے اور وہ وہ بول دے جس کا زمانہ درک نہ رکھے ۔


َرموزِ عشقِ کا آئینہ ،عینُ العین ہے کون؟
مجاہدُ حیدرِ کرّار بابُ العلم ہے کون؟
َجلالی اور َجمالی صاحبِ رائے بھی ہے کون؟
ہے صِدیقی و حبیبی کون ؟یارِ غار ہے کون؟
ُمعزز وہ زَمانے کے، ہیں ہم رسوائے دنیا !
وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ
ذلیل و خوار مجھ سا اس زمانے میں ہے بھی کون؟
مرے عیبوں پہ پردہ ڈال کے مولا کرم کر !
مری ُپر عیب ، کم تر ذات۔۔۔ اس کا رکھ بھرم تو!
کرم تیرا کہ اب ترتیل میری ذات کر دی !
رہی خامی نہ ،یوں ترتیب میری ذات کردی!
ے شک! ذلیل کیے جانے میں امن ہے اور شہرت میں رسوائی ہے ۔۔۔! . یہ راستہ اور اس سفر میں تھکن نے مجھے مضطرب کردیا ہے. مولا! مجھ کو کس راہ پر ڈال دیا.تیری راہ کے عشاق بڑے عجیب ہیں ۔ کچ مفتوح اور کچھ فاتح ، کچھ ممدوح تو کچھ ثناء خوان اور کچھ ذلیل تو کچھ معزز ہیں ۔ یہ تیرے فیصلے ہیں کہ تو جسے چاہے جیسے نوازے اور جس روپ میں نوازے اور جو شکر کرلے۔ ایک شاہ الہند التتمش کیسا بھیدی تھا۔سلطانِ ہند خواجہ معین الدین چشتی کی نمازِ جنازہ وہی شخص پڑھے گا جس کی عصر کی چار مسنون رکعت کبھی قضا نہ ہوئی ہیں اور جاتے جاتے اس ولی کا راز فاش کرگئے اور وہ کیسا غلام تھا جو بادشاہ بن گیا ۔ ایک سالار جس کی تلوار کی ہیبت سے اس کا نام. " بت شکن " پڑا ۔ وہ جس نے خانہ کعبہ میں حجر اسود کو اس کی جگہ پر پہنچایا اور ایک عاشق وہ تھا جس کو دنیا نور الدین زنگی کے طور پر جانتی تھی. وہی "نور " جس مردِ مجاہد کو خواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پکارا تھااور اس نے روضہ رسول کو سیسہ پلائی دیوار سے محفوظ کردیا تھا ۔صلاح الدین بھی اپنے کام سے آیا اور مسجد اقصی کا شکشتہ خواب پایہ تکمیل پہنچا گیا ۔ جس کے بارے کہا گیا ۔
ایک بار پھر یثرب سے فلسطین آ
راستی دیکھتی ہے مسجد اقصی ترا

ہم میں سے مالک کوئی ایسا نہیں آیا جو ترا یوں نام روشن کرتا جیسے اوپر کیے ذکر گئے اصحاب نے کیا اور اپنا نام منور کرتے عالم کو بتا دیا کہ جن کو یقین کی راہیں مل جاتی ہیں ان کو وسوے ڈرا نہیں سکتے اور نہ ہی وہ ڈگمگا سکتے ہیں ۔ہم سے تو ترے نام کی صدا بلند نہیں ہوتی اور نا ہمارا دل ترے ترانے سنتا ہے اور نا ہی دل میں تیری یاد کے چراغ روشن ہوتے ہیں ۔ ہم تو وہ لوگ ہیں مولا ! جنہوں نے کلمے کی لاج بھی نہ رکھی ، ہم نام کے مسلمان بھی نہیں ہیں ۔

لیس کمثلہ شئی ....
" "لیس لہٗ کفو احد!!
" "لیس ہادی الا ھو!"
"ھو! ھو! اللہ ھو!!
" "لا الہ الا اللہ"
"حق! حق! اللہ اللہ"
" حسبی ربی جل اللہ"
"ما فی قلبی الا اللہ"

"
مجھ کو حدی خوان بنایا ہوتا !!
یا احد! نغمہ سراں بنایا ہوتا !
ایک تیری راہ میں قربان ہوتی!
مجھ کو نفس پر رہنما بنایا ہوتا!
اے کون و مکان کے مالک!
نور پوشیدہ کتنا رہتا ہے!
ہمیں نظر نہیں آتا ....
حق! مالک کیونکہ اندھیرے میں میری ذات ہے
. رخ سے اب اپنا پردہ ہٹادو
تاکہ دنیا پر تیرے "نور " سے
عالم میں اجالا ہو جائے​
 

نور وجدان

لائبریرین
ایک سمت سے دوجی سمت چلی میں

سوچ مقید ہو نہیں سکتی
روشنی بند ہو نہیں پاتی
خوشبو ہر سو پھیلتی ہے
سورج دن کو نکلتا ہے
کام سب چلتا رہتا ہے
ڈھنگ بدل جاتا ہے
آئین اسلامی ہو جاتاہے
جسم روحانی ہوجاتا ہے​

حضرت محمد ﷺ کی جب بات ہوجائے ، ہر سمت خوشبو پھیل جاتی ہے۔ دل میں مناجات رہ جاتی ہیں جو بعد میں حمد و ثناء میں ڈھل جاتی ہیں۔ آنکھ کا سُرمہ زائل ہوجاتا ہے ۔ بصیرت کھو بھی جائے تو غم نہیں ہوتا کہ سب کو فنا ہے اور اگر کسی کو فنا نہیں تو وہ ذات نورانی ذوالجلال ہے۔ اس ذات سے روشن سب ہیں ۔یہ رُوشنی سب میں موجود ہے مگر اس کو ڈھونڈنے کی سعی کوئی نہیں کرتا ہے ۔۔۔۔۔! اے میرے مولا کریم ! کچھ گُنہ گار ، سیہ کار کی عرضی سُن لے ۔۔

اے میرے مولا!
نمیدہ دل کو فراخ کردے!
میرے درد کو خاص کردے!
سینے میں آگ بھر دے!
آگ میں بھسم کردے!
میری راکھ جل جل کے،
بکھر جائے ہر کونے میں،
ذرہ ذرہ روئے بچھونے کو،
راکھ کے ہر حصے میں،
اے نورِ ازل!
اے نورِ ابد!
لکھ دے اپنا نام۔۔!
میری کچھ نہ ہونے پر۔۔۔!
لکھ دے، لکھ دے نام اپنا ۔۔۔۔!
ترے کرم کی تجلی سے۔۔!
میرے دل کی ہر دھڑکن ،
رقص کرے بن کے بجلی،
ہوش کھو جاؤں ،
مدہوش ہوجاؤں،
ترے عشق میں ۔۔!
ہست کھو جاؤں!

اے مالک !
اے خالق!
اے رازق!
اے لم یزل!
اے حسن حقیقی!
اے دل کے نور!
اے جلیل !
اے حبیب!
میری آرزو اب یہی ہے!
آپ سے آرزو رہے میری!
محبت کی نشے میں گم ہوجاؤں!
عشق کی ہستی بن جاؤں!
گمشدہ بستی بن جاؤں!
کہ آپ کو بقا ہے!
اور مجھ کو فنا ہے!
اور مجھ کو فنا ہے!
فنا کی مٹی کو مالک،
فنا کی مٹی کو۔۔۔۔۔۔!
اپنے عشق میں نچا دے،
ایسی جلن اور مزہ دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
خیالات کی باتیں کبھی کبھی نثر میں اچھی لگتی ہیں ۔۔ کچھ نثری باتیں ہیں اور ان میں شامل موسم کی سوغاتیں ہیں ۔ انسان کیا ہے ؟ کچھ بھی نہیں ،، سوا راکھ کے ، اگر جل جائے عشق میں تو پروانہ بن جائے ۔۔۔ کبھی جلے تو بات بنے ۔۔ کبھی تو دل کے دیے جلیں گے ۔۔ کبھی تو شمعیں روشن ہوں گی ۔۔۔ اور دل کی مسند احد اور اُحد کا کلمہ پڑھے گی ۔ساتھ ساتھ اس کے محبوب کی باتیں کرے گی کہ مالک تک پہنچنا ممکن ہے تو اس کے محبوب ------رحمت اللعالمین کے ذریعے پُہنچا جاسکتا ہے ۔۔۔۔میری زندگی کا لفظ لفظ ان کی ثناء میں گزرے کہ اب یہی صدا میری ہے

شافی محشر۔۔۔!
ساقی کوثر۔۔۔!
والی کون و مکاں!
ہم چلے جہاں جہاں !
ذکر آپ کا وہاں وہاں!
صدیق و امین کے بیاں!
ہم نے سُنے یہاں وہاں!
محبت کا میٹھا کنواں!
کینہ کردے دھواں!
سچائی کے ہیں قالب!
نور پر نور کے جالب!
اے قاصد برحق!
در پر کھڑی ہے سگ!
سنہری جالیاں تکنے!
کاش روح لگے دمکنے!
نور کی بارش ہو جائے!
دیدار کی حسرت ہو پوری!
دنیا بے شک رہے ادھوری!
زندگی کے سب رنگ!
چلنے لگے تیرے ڈھنگ!
میرا دل و جاں و روح!
یک دل و جاں و روح!
پیش کرتے ہیں سلام تجھ کو!
بھیج رہے درود کا نذرانہ !
قبول کرلیں نذر عاجزانہ!​

دل کی صدا کبھی کبھی'' یوں'' بھی ہونے لگتی ہے کہ اس صدا میں خوشی و شادمانی کی لہروں کے ساتھ بے قراری رگوں میں ڈورتی ہے اور دل پکارتا ہے


ترا دل اسم محمد سے چمکے!
سبھی ستارے اس دم سے دمکے!
یہ اسم بڑا ہے نورانی و سبحانی!
نہیں اس جیسا کوئی جہاں میں لاثانی!
دل کی کثافتیں دھوئے گا یہ اسم!
تری ذات کو چمکائے گا یہ اسم!
جس دل میں اسم محمد کا ہو ورد!
اس دل میں رب ہے بسیرا کرے!
طوفان میں دے گا کنارا یہ اسم!
معطر گلاب کی مانند ہے نام ِمحمد!
سجدہ شکر اسم محمد کی عطا پر کر!
ذات کا اسم اعظم ہے نام محمد!
۔۔۔۔۔
ایک سمت سے دوجی سمت چلی میں ۔۔۔!
بن کے ہوا شوخ
احساس کی بارش پر کروں گی جان کو وار
میں ہوجاؤن گی گُلنار !
محبوب کون ہیں ۔۔؟
جو اس دنیا میں پیغام لے کر آئے
کس کا ؟ حق کا۔۔۔ !
اس لیے تو ان کا نام روشن آج تک ہے !
ان کے نام کے بغیر نماز و قران کہا ہے ۔۔۔!
کلمہ میں بھی نام ہے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔۔۔۔۔!
۔۔۔۔۔۔
اقراء کا جب آیا فرماں۔۔!
کہنے لگے جنابِ محمد ﷺ!
امی پر کچھ نہیں ہوتا عیاں!
پڑھیے ! اندر ہے سب پنہاں!
انوار کی بارش آپ پر ہوگئی!
خوف کی رات طاری ہوگئ!
گھر آکے کہا خدیجہ رض سے!
زملونی زملونی ..
کملی والے کا لقب پاگئے!
مدثر و مزمل سے ہوئی ابتدا !
نشرح ہوئی جب نازل !
سینہ محبوب کا کھل گیا !
رب نے ذکر کیا عام !
ورفعنا لک ذکرک ہوئی بات!
محمد کی سیرت سے ہوگا!
اسلام کے ہر دور کا بول بولا!
اس ذکر میں ہے آئینِ قران کا ہالہ!
جو بھی کہے گا محمد ﷺ کو دیوانہ !
اس کا حال خود ہو گا مجنونانہ !
چلیے ان کی راہ پر چلیے سب!
رب کچھ اسرار تو کھولیے اب!

۔۔۔۔۔۔۔۔​
!
اب باتیں کرم کی ہوں گی!
فضل سے کام چلتا رہے گا!
بادِ صبا کی اوڑھ میں ہم،
چلیں گے کوہساروں پر،
اور خوشبو پھیلے گی چار سو،
رنگ دنیا کا نکھرے گا!
ہر سو نور پھیلے گا!
حق کی بات ہے!
حق نے کہا ہے!
دنیا تلاش کر رہی ہے جسے،
وہ نہاں ہے ، نہاں دل میں!
نہاں روح کے اسرار خانے میں!
یہاں وہاں نہ دھونڈو! اے صاحب!
مجنوں کو نہیں ملتا سکون پینے میں!
پینے کے بعد تشنہ رہ جانے میں!
کیا سکون ہو گا ؟ کیا سکون ہو گا؟
اب کہ تشنگی سے کام چلتے رہا گا
ندی کی طرح بہ رہی ہے ایک وادی!
اس وادی میں رہ رہا ہے ایک حق والا!
اس حق کی ھو سے اب عالم نکھرے گا!
۔۔۔۔۔

آؤ ! دیوانو ! شرابِ عشق لو پی
رقص میں گُم خود کو کھو لینے تُو اب دو

آگ میں اپنی جلو ! بن شمع دکھاؤ
کپڑا جلنے دو کہ پروانہ اُڑا دو

خون سے بھر جائے مٹی زمیں کی
آہ سے اپنی شجر کو بڑھنے تو دو

زندگی کم، رات کا قصہ کہیں کیا
خاک کو بادِ صبا سے ملنے تو دو

حلق پر خنجر چلے چپ چاپ سہ لے
درد کو کم ہونے دو! خوش ہو لو دو پل


نور مجسم کی بات کرو!
حسن مکمل کی بات کرو!
جمالِ یار کی بات کرو!
حسرت کے مارو۔۔!
دیدار ِ یار کی بات کرو!
حق کے نور کی بات کرو!
حق ھو کا نور ایک ہے!
اس نور سے روشن عالم ہے!
اس نور کی بات کرتے جاؤ!
رنگ سے یک رنگ ہوتے جاؤ!
اس کے سنگ چلتے جاؤ!
زندگی سنورے گی!
دنیا والوں کی،
نور کا ذکر کرنے ،
نور کی بات کرنے سے!​

نور ۔۔۔نور ۔۔۔۔نور۔۔۔۔!!!
نور کی بات اب کون سمجھے گا!
نور دنیا میں رہ کر پھیل رہا ہے!
دیکھو، سنو اور سمجھو حق کو،
دنیا میں رہ کرنا کیا ہے؟
دنیا تو فانی ہے!
جان بھی آنی جانی ہے!
وہ ذات یکتا ہے!
نور جس کو کہتے ہیں!
نور کے آگے جھک جاؤ!
نور کو اپنا لو۔۔۔!
حق اللہ !حق اللہ !حق اللہ !
اے خالق کون و مکاں!
اے مالک دو جہاں!
ہم گر گئے ہیں گڑھے میں،
گناہوں سے بچا لے ہم کو۔​


عشق احمد ﷺچاہئے!
حبِ مدینہ چاہیے!
ہو جائیں ہم خاک جب،
خاک ِ مدینہ چاہیے!
سرمہ عشق کا ہوجاؤں!
قدموں کا دھون ہو جاؤں!
جالیوں کو پکڑ لوں ا!
بولوں یانبیﷺ سلام آپ پر!
یا رسولﷺ سلام ہو آپ پر!
درود ہزار ہو آپ ہو!
نعت کا ہدیہ قبول کیجے!
آپ کی فصاحت کی بات کروں کیا!
آپ کی بلاغت کا داعی قران ہے!
یانبی ﷺ آپ چلتا پھرتا قران ہو!
آپ ﷺکے نور سے شام نہیں ہوئی!
خورشید کو روشن آپ نے کیا!
چاند کو حسن آپ نے دیا ہے!
یہ دنیا منور آپ سے ہے!​

اے عفوِ کمال ِ ہستی!
اے صبر مثال ہستی
اے رحمت عالمین!
شافی المذنبین!
سید الثقلین!
امام القبلتین!
نبی الحرمین!
راحت العاشقین!
مراد المشتاقین!
شمس العارفین!
سراج السالکین!
مدحت کا بیاں کیا ہو؟
کس زباں سے مدحت کرو؟
تری مدحت میری بولی!
تو خزانہ میں ہو جھولی!
تری عطا نظرِ کرم ہے!
میری خلش مرا جرم ہے!
امام ہو تمام نبیوں کے!
پہچان تمام سرداروں کے!
اے مدنیﷺ و مکی ﷺ!
اے مزمل ﷺو مدثرﷺ
اے بشیر ﷺونذیرﷺ
اے یسﷺ طہ ﷺ
سرورِ دو جہاں ﷺ
نور عیںِ زمان و مکاں!
حق کا ہو آپﷺ نشاں!
کون مدحت کرے گا یہاں!
ہم سے کیا ہو آپ کا بیاں!
ہمارا قلم چلے تو چلتا رہے!
آپ کی تعریف ہوتی رہے!
ہمارا کام بنتا رہے یانبی ﷺ
آپﷺ کی نظرِ کرم کے محتاج ہیں!
ایک نظر سے پیمانہ پھر دیجئے!
آپ ﷺکا نام ہماری زبان پر چلتا رہے!
آپﷺ کا نام ہمارا قلم لکھتا رہے!
سانس چلے تو آپﷺ کا نام سے!
قدم رکیں تو آپﷺ کے نام سے!
ہماری سانسیں آپﷺ پر ہو قربان!
ہمارا قطرہ لہو کا آپﷺ پر ہو قربان!
آپ ﷺکے ہوتے رہیں سب پیروکار!
آپ ﷺسے ملتا رہا سب یاروں کو یار!
بھیجیں سب درود ، پڑھیں سب صلوۃ!

''یاصاحب الجمال ویا سید البشر
من وجھک المنیر لقد نو القمر
لا یمکن الثناء کما کان حق ھو
بعد از بزرگ توئی قصہ مختصر
مختصر سی میری کہانی ہے
جو بھی ہے ان کی مہربانی ہے
جتنی سانسوں نے نام لیا ہے
یہ میرے آقاﷺ کی مہربانی ہے
نعت محبور دعور مستند ہوگئی
فردِ عصیاں میری مسترد ہوگئی
مجھ سا عاصی بھی آغوشِ رحمت میں ہے
یہ تو بندہ نوازی کی حد ہوگئی ''

لفظوں کی کہانئ اب کون سمجھے گا؟
میری زبانی اب کون سنے گا؟
آپ کی عطا سے ہو برگرفتِ خامہ!
مدحت کروں،بن جائے سخن نامہ!
تاجدار لکھوں ،سر کٹ جائے نذرانہ
مشہد میں آپ سے ہوجائے یارانہ!
مجھ کو بھجئے، مقتل بنا کے میخانہ!
سر کٹ جائے ادا ہو ہر جانہ!
خار گل سے بھی دل کو بہلانا!
خوشبو سے نگر کو ہے سجانا!
اے جان ، جاناں ،جانِ جاناں!
قبول کیجئے میرا ادنی سا نذرانہ!​
 

نور وجدان

لائبریرین


مجسمِ حیرت ہوں اور دیکھ رہی ہوں اس کو... سب نظر آتا ہے جیسے کہ بس نظر نہیں آ رہا ہے ، سب ظاہر ہے مگر ظاہر نہیں ہے . نقش نقش میں عکس میں ہے آئینہ اس کا مگر میری نظر کمرے میں موجود ٹیبل لیمپ کی طرف مرکوز رہی .

میں نے اُس کو یک ٹک دیکھا اور سُوچا اس طرح محبت مل جائے گی . مسکرا دی ! اور بہار کا عالم سا محسوس ہوا کہ اب بہار کا موسم رہے گا کبھی نہ جانے کے لیے مگر اس بہار کو محسوس کرنا ہے کیسے .... یک ٹک دیکھنے سے ؟

نہیں ! پھر کیسے ؟

کمرے میں موجود ہوں اور مقید ہو کے نظر جمائے لیمپ کی روشنی دیکھ رہی ہوں اور کبھی ٹیوب لائٹ سے نکلنے والی روشنی ... یوں لگا منبع تو ایک ہے مگر ... مگر ایک نہیں ہے ..دونوں میں رنگ کا فرق ہے ... قریب گئی اور ہاتھ لگا کہ دیکھا ... لیمپ قدرے گرم تھا .. احساس ہوا کہ جاؤں اور ٹیوب لائٹ کو ہاتھ لگاؤں .. اس کا لگا کے دیکھا مگر مجھے محنت کرنی پڑی اس کو ہاتھ لگانے کے لیے ..... میں نے بالآخر لگایا ہاتھ .... احساس فرحت بخش تھا ... !

خود سے بولی : احساس ایک ہی ہے مگر جمال ہے جلال ..... ! جلال ہے کہ جمال ... ! یہ کہتی رہی ہوں میں .... روشنی روشنی ... بس روشنی روشنی ہے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں اس کو کوئی نام دوں ... روشنی کا نام ہے پھیل جانا اور اس کا کام اجالے دینا ، اُجیارا کرنا ... سیاہی کو مٹانا ...

فرق سے یاد آیا...

ارے !! یہ تو وہی چاند اور سورج کی روشنی ہے ... چندا روشنی لیتا ہے اور سورج کا ظرف ..... !!! سورج کا ظرف کہ وہ دے کر خاموش ہے ...تعریف چاند کی ہوتی ہے... تمثیل چاند ہوتا ہے .... محبوب بھی چاند ....!

سورج کی تمثیل نہیں کیا؟

ارے ! ہوتی ہے بابا!!! ہوتی ہے ! بس اس تمثیل میں آسمان و زمین کے قلابے نہیں ملائے جاتے ..... ظرف کا فرق ہے نا !!! ظرف ... جس کا جتنا ظرف ہے اُتنا وہ خاموش ہے اور جو ہوتا ہے سمندر ... وہ خاموش رہ کر تصور باندھے رکھتا ہے چاند کا تو کبھی سورج کا اور سورج کا ہو کر چاند کو دیکھتا ہے کہ چاند ! کہ چاند ! تیری حقیقت کیا ہے ؟ کتنا غرور کرلے گا تو ؟ جتنا بھی کرے مگر اس پر کر .... ''دین'' تو ایک سے ہے اور لینے کا سلیقہ بس یہی کہ محبت میں رہے بندہ عاجز......!!!'

چاند گردش کس لیے کر رہا زمین کے گرد؟ کس لیے ؟ بتاؤ نا !!!

وہی تو .... لینے کا سلیقہ ہے اور دینے کا بھی ... اس ہاتھ لے اور اس ہاتھ دے ..... ملتا بھی تو ایسا ہے کہ فرق محسوس نہیں ہوتا کہ مل رہا ہے یہ چاند دے رہا ہے..


روشنی کی مشقت ! یا روشنی سے مشقت !

دونوں کرنی پڑتی ہیں... دونوں سے زندگی چلتی ہے جسم سے سرمدی نغموں کی لہریں نکلتی ہیں کہ نغمے کہاں سے آیا.... نغمہ صدیوں پر محیط ہو سکتا ہے ... صدی بھی پل پھر کی ہوتی ہے یا پل میں صدیاں ... اور فاصلے کو کب ناپا جا سکتا ہے ... فاصلے بس فاصلے ... چلتے رہتے ہیں قافلے .... قافلے کو چلنا چاہیے کہ محبوب تو ایسے ملتا ہے ... نہ ملیں تو دکھ ، دکھ اور اس کے سوا کچھ ہوتا بھی نہیں ہے.... فاصلوں کا تکلف ... ہمیں کیا غرض ... ہمیں غزض ہو صرف اور صرف قافلے سے کہ جس کی سوچ پر چلنا ہے کائنات کا رُواں رُواں ... اس میں شمولیت کا ہونا عجب نہیں کہ عجب نہیں کائنات کے اس نگار خانے میں ... کوئی بیکار شے بھی کیا ہے کائنات کے اس کارخانے میں ؟؟؟

ارے ! ارے ! نہیں نہیں !!!! کچھ بھی نہیں ہے بیکار ! کچھ بھی نہیں ہے بیکار اس کارخانے میں....


کیا درد کا احساس بیکار نہیں ؟ کچھ بھی نہیں کہ دو پل کی زندگی ہے ، خوشی میں گزار دے اور جا نا ! جاکے عیش کر ! چار دن کی چاندنی ہے ...! گزار دے !

درد ! ہائے ! یہ درد ! جب سے محبوب جُدا ہوا ہے ،،،زمین تھم جاتی ہے ایسا لگتا ہے کہ تھم دل بھی گیا ہے مگر اسی تیزی سے گھومتا ہے کہ صُبح کی نوید کوئی استعارہ ملے ....!!! کوئی اشارہ اور حوالہ ! یہ دنیا ہے ... دن اور رات کا چکر دنیا .... اس لیل و النھار کے چکر سے گھبرا مت .....!!! رات دن کی مجنوں اور دن رات کو لیلیٰ کی طرح چاہتا ہے ... رات کو دوام چاند سے ہے ... چاند کا رشتہ سورج سے ہے .... سورج روشنی ہے ! کون جانے گا اس روشنی کا.... کوئی کہے محشر کی گرمی ہے وصال میں اور کوئی راحت ہی راحت ہے چاند کے دیدار میں.... کون جانے درد کے کتنے چہرے ہیں ... کون جانے سب سے خوبصورت درد کا چہرہ .....؟

سب سے خوبرو چہرہ محبوت کا ہے.... سب سے پیارا درد کا چہرہ محبوب کا ہے .... اس کا احساس درد ہے ، مگر اس احساس سے دوامیت ملتی ہے ..... کون جانے گا اس محبت کے درد کو.... درد خوشبو ہے ، درد راحت بھی .. درد پیغام بھی ، درد الہام بھی ، درد اشکال بھی ، درد جمال بھی ، درد جلال میں.........کون جانے ! کون جانے ! کوئی نہ جانے ! جو جان جائے وہ کیا بتائے ! آہ ! درد بہت پیارا ہے............! اس درد کو میں اور آپ کیا محسوس کریں گے .....!

درد --------محبوب ---- روشنی

کیا تعلق درد کا روشنی سے کہ درد محبوب سے ملتا ہے ........ !!! جب تک ! جب تک درد نہ ملے ، آگاہی ہوتی نہیں ہے . اس کا انعام سمجھ اور تقسیم کو اکرام سمجھ ... اس تقیسم پر جہاں مرتا ہے ... مگر ہر کوئی مراد کہاں پاتا ہے .... راضی ہو جا اُس سے ، جو تجھ سے راضی ہے ... اس کی رضا میں سر جھکا ! سر جھکا ، مگر چھلکا کچھ بھی نا! جب جھکے گا سر ، تب ملے گا پھل ... اور جب ملے پھل تب کھلے گا اصل ... سب ایک ہی سے جڑا مگر مقصد جدا جدا ہیں...اصل اصل ہے اور نقل نقل ہے ..


مٹی کیا ہے َ؟ کیا ہے مٹی ہے؟ کچھ بھی نہیں ہے مٹی کی حقیقت .... کچھ بھی نہیں ... بس مٹی ایک ملمع ہے ، ایک پانی ہے ملمع کاری کا... بس اور کچھ نہیں .. نقلی چیز کون پسند کرتا ہے ...کوئی نہیں... سب سونا خالص مانگتے ! اور سونا خالص ہر جگہ ملتا نہیں ہے ....! جہاں ملے وہاں عطا ہوجاتی ہے ..


میرا سوال پھر بھی ادھوارا ہے کہ محبوب کو میں نے کہاں کہاں پایا ہے .....َ؟

سب کچھ سامنے ہے اور سوال پر سوال... غور کرآلے کچھ ... فکر کر لے کچھ.... محبوب کو درد میں پایا کیا؟ محبوب کا احساس میں پایا کیا؟ محبوب کو مظاہر میں پایا کیا ہے ؟ محبوب کو دل میں پایا کیا؟ اگر پایا تو سوال بڑا لا یعنی ہے اور نہیں پایا تو سوال بے معنی ہے جس کی تُک نہیں ... سب کچھ پکی پکائی کھیر نہیں کہ آنکھ چاہے ، دل مانگے جو وہی مل جائے ... بس جب فکر کی جائے تو آنکھ سے پہاڑ کی طرح کچھ بھی اوجھل نہیں ہونا.... بس راضی رہ ! راضی کرنا بھی سیکھ! خوش رہ اور خوش کرنا بھی سیکھ ! شکر کر اور شکر کرنا بھی سیکھ! چلتا بھی رہے اور ساکت رہنا بھی سیکھ کہ پانی بہتا بھی ہے اور ساکت بھی ہوتا ہے ، شور بھی مچا موج کی مانند اور خاموش بھی رہ سمندر کے جیسا...!!! درد لینا بھی سیکھ ، درد کو سمیٹنا بھی سیکھ ..! سیکھ سب ... فکر کر کیا کیا سیکھنا اور پھر جستجو کر
 

نور وجدان

لائبریرین


کبھی کبھی تعریف کرنے کو دل چاہتا ہے میں خود کی تعریف کروں کہ میں حُسنِ مجسم ہوں ۔ ویسے تو ہر کوئی حُسن پرست ہے مگر میں کچھ زیادہ ہی حُسن پرست ہوں۔ گھنٹوں آئنہ دیکھوں مگر دل نہ بھرے ۔ میں نے آئنہ دیکھنا تو بچپن سے ہی شروع کیا کہ ہر کوئی پچپن سے کرتا مگر اپنے حسین ہونے کا احساس بچپن سے ہی جڑ پکڑ گیا کہ میں نور مجسم ہوں۔ میں حسین اور مجھ سا کوئی حسین نہیں۔ سوا اپنی حسن پرستی اور خُود نمائی کہ کچھ نہیں ۔ کچھ عرصہ ایسا گزارا میرے دل نے آئنے کے سامنے کھڑا ہونا چھوڑ دیا مجھے لگا کہ میں حسین نہیں ہوں ۔ میں سدا کی حُسن پرست ، جمال و ذوق کی خاطر اپنا نقصان کرنے والی ، ایک دن دنیا کی خاطر اپنے ذوق کا نقصان کردیا۔


آج میں کھڑی ہوں آنئے کے سامنے اور صبُح سے تک رہی خود کو۔۔۔ سوچ رہی ہوں میں کتنی حسین ہوں ، مجھ پر سحر سا طاری ہو رہا ہے جیسے میں کسی جھیل کے کنارے کھڑی ہوں ، اور ندی کی جھرنے میں سے میرا عکس میرے ہوبہو کھڑا مجھ سے باتیں کر رہا ہے اور میں ان جھرنوں کی موسیقیت میں خود کو سمو لے کر پُھولوں کی مہک محسوس کرتی ہوں میرا تن من مہک جاتا ہے ۔ گُلاب کی خوشبو کی میں شُروع سے دیوانی۔۔۔!!! مجھے خوشبو پاگل کر دیتی ہے

یہ میری خود پسندی نہیں ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے ہر بندہ خوبصورت ہے کہ نگاہ میں ہو خوبصورتی بس! تلاش کو گر خوبصورتی کی مورتیں ۔۔۔کہاں ملیں گی ؟ کھوج لو یہ مورت اندر ! مل جائے گی خوبصورتی ۔۔ اس کی قیمت ابدی ہے ۔ یہ ویسے ہی خوبصورتی ہے ، جیسا کہ دنیا میں ہر سو باد ک جُھونکوں نے اشجار کے پتوں میں آواز پیدا کر دی ہو۔۔۔ ہواؤں نے گُلوں کی خوشبو جہاں میں مہکا دی ہو ۔ ندیوں نے پانی کی غزل بنا دی ہو۔ پرندوں نے موسیقی سے تال ملا دی ہو ، پہاڑوں نے کوئی گواہی دی ہو تب۔۔۔۔۔۔۔!!! گواہی دی ؟ ہاں دی !

کس کی گواہی ؟ حُسن کی گواہی !

''میں'' کہ اس وادی میں، جہاں سب مظاہر میری تعریف کرتے ہیں کہ ''میں'' ہی سب کچھ ہوں اور ''میں'' ایک حقیقت ہوں ۔ کیا حسین ہونا ہی خوبصورتی ہے ؟ میں نے کبھی خود کی تعریف نہیں کی تھی مگر آج جی چاہتا کہ تعریف کیے جاؤں اور کہے جاؤں کہ ''میں'' خوبصورت ہوں ۔ ''میں'' سرمدی نغمہ ہوں ۔۔۔!!!

میری اندر کی ''تو'' کی جنگ کو شکست فاش ہوگئی ہے ۔ کشمکش کو انجام ہونا تھا ۔ کشمکش انجام پا گئی ہے ۔ اس لیے اب کہ ''میں ''خود اپنے جمال میں محو ہوں ۔ انسان کتنی عُمر لے کے آیا ؟ کتنی لے کر جائے گا؟ بچہ پیدا ہوا معصوم ۔۔ لے کر آیا جمال اور واپس نہ جاسکا بحالتِ جمال تو کیا ہوگا؟


ابھی جمال میں محو ۔۔۔!!!


ابھی اشکوں نے شرر بار کردیا ! ابھی ندامت میں سر جھک گیا ! ابھی حلاوت نے فرحت ختم کردی ! ابھی رموز و آداب سے واقف نہیں ہوں۔ اس لیے اپنے آپ میں محو ہوں ۔ ابھی سجدہ کیا ! سجدہ کیا کہ معبود کا سجدہ عین العین ہے ۔۔۔ ابھی گُناہوں کی معاف مانگی ۔!!! انسان سمجھتا نہیں ہے کہ انسان جمال کا طالب ہے ، حسن کا مشتاق ہے ، پاگل ہے ، آوارہ ہے ، نہریں کھودتا دودھ کے ، کچے گھڑے پر بھروسہ ہوتا ، اور جانے کیا کرتا ہے ، حاصل ِ ذات اگر کامل ذات نہ ہو تو فائدہ ؟ مجھے شرمندہ ہونا تھا ۔۔۔ آج کے بعد کبھی خود کو خوبصورت نہیں کہوں گی؟ مگر کیوں نہ کہوں اگر میں خود کو بُھلا دوں تو؟ مجھ میں کیا رہے گا ؟ مجھ میں واحد رہے گا ۔۔۔ تو پھر کیوں کروں خود سے نفرت ؟ میں خود سے نفرت کیوں کروں کہ خود سے محبت آج ہی تو کی ہے
 

نور وجدان

لائبریرین


اے پیارے دِل ، میری پیاری جان ، میرے مہمان .... جان لو ، گواہ بنا لو ، حق کی بات کو ...! گواہی کی ضرورت آن پڑی اور سجدہ کی اہمیت کو انکار کون کرسکتا ہے . سجدہ اور گواہی اور انسان .... ان کا تعلق بڑا گہرا ہے ، جو جان لے وہ مراد پا گیا اور گوہر کو لے اُڑا. انسان کی مٹی کی حیثیت کیا ہے ؟

کس کی حیثیت ہے ؟

وہ جس سے علم حاصل کرتے ہو ...!!!

کیا وہ حواس ہیں؟

نہیں پیارے ، او مرے دلدار ... اے جانِ جاناں ... حواس کا کام صرف محسوس کرنا ہے ، اندر محسوس کرنا ہے یا باہر .... استعمال پر منحصر ہے ... ؟

حواس کا کام محسوس کرنا ہے تو علم کہاں سے آتا ؟ حسیات سے تو آتا ؟

اے جانِ دل ، میری عزیز تر ، مجھ سے قریب تر ، کیا بتاؤں میں .... اے جان تجھ کو کیا بتاؤں ... علم کیا ہے ؟ علم ہی سب کچھ ہے مگر حاصل کہاں سے کیا ؟ حواس ؟ نہیں جانی ...!!! کبھی کمپیوٹر کو دیکھ لے ، ماؤس اور کی بورڈ کو دیکھ ..! اے جاناں ... یہ ہی حواس ہیں ... یہ کام کرتے ہیں ان کو جیسے چلایا جاتا ہے . مگر جاناں ... چلاتا ہے کون؟ انسان ... ؟ کون؟ کوئی سالار ؟ اے میرے قریب تر ، مجھے ہو عزیز تر... سُنو ! سنو! سُنو ! سن کے جب اثر ہوا تو کہاں ہوا؟ اصل تک اثر کس نے پہنچایا ؟ کس نے ؟ کوئی پروسیسر ہے ؟ ہے کوئی ... بس مانیٹر کرنے والی مشین جو ''دو '' کے درمیاں قائم کرے توازن ... وہ ہے عقل ...! کون قائم کرتا ہے عقل کو ؟ کون ملاتا ہے مالک کو غلام سے اور کون بناتا ہے غلام کو آقا؟ جو بناتا ہے غلام کو آقا...! وہ ہو جاتا ہے خراب اور خراب کون پوچھے ! سمجھ ! سمجھ ! سمجھ ! اور سمجھ کے غور کر ! غور کر اور حاصل کر ! حاصل کو عطیہ جان اور فخر کر کہ عطا خاص ہے جو ہر روح کو ملے مگر اس کے لیے راستہ سیدھا کون کرے گا؟ کون آئے گا محبوب کی تخلیق کے پاس ؟ او خاکی !!! ترا اوپر ایک مٹی کا ''میک اپ '' ہے .. اندر کی اصل اس لیپا پوتی میں نہ چھپا ! اپنے اندر کا چہرہ سامنے لا ....! لا سامنے نا ! لا سامنے ! اور سامنے لا کے دیکھ خود کو ...! محو ہوجا! مگر اگر بنالے تُو خُود کو حیوان اور ہوجائے ''میک اپ '' کا ماسک ترا چہرہ ... تو کون بچا پائے گا تجھ کو گمراہی سے !


اے دِل ، اس قدر ثقیل باتوں کو سمجھوں کیسے ؟ کیسے ؟ بتا دو نا ! بتا دو ! ثقیل کی عمیق میں کُھو کر پا جاؤں خُود کو .. یہ '' غلام " کون ہے ؟ اس غلامی سے نجات کی شرط کیا ہے ؟

اے حبیب ِ دل ! اے مکینِ دل ! اے قریب جان ! سوال بڑے عالمانہ ہیں مگر الجھ نہ ، سلجھا سب باتوں کو ..! سُن کہ غلامی حواس کے ذریعے اور نجات بھی حواس کے ذریعے ..! پروسیسر کی پراسسنگ ٹھیک ہونی چاہیے ... !

ہائے ! کیسے ہوگی ٹھیک !

ہوگی ٹھیک ! کر لے عہد کو تازہ اور شرشاری کو اپنا من و عن ، سمجھ کہ دو عالم کی سیر کے بعد ''الست بربکم '' پر سب نے کئے دستخط مگر کثافت میں آئے تو بھول گئے اور بھول گئے تو حواس نے غلام بنا لیا عقل کو .. محسوس موجودات کو کیا اپنی مرضی سے۔۔۔ اور چھوڑ دیا اپنا مرکز ، اپنی سمت کہ جس سمت سے دیکھنا تھا موجوادات کو... ہائے ۔۔!!!!کیا کریں گے وہ ۔۔! وہ جو چھوڑ گئے اپنے ''اعمال سیہ '' کے نشانات !!! کیا کریں گے ؟ جب ان کے سیہ کاریوں نے ان کو مرکز کو گُم کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!! ان کی سمت مرکز کے مخالف ہوگئی اور عقل نے بنا لیا حواس کو قبلہ...!!! کہاں جائیں گے وہ ؟ کہاں جن کو اب آئنہ سے کچھ نہ ملا تو وہ آخرت میں کیا پائیں گے ؟ کیا پائیں گے ؟ کیا پائیں گے ؟

وہ جنہوں نے عقل کو تابع کرلیا اور حواس کو پہچان لیا اور زندگی میں کردی شُروع جنگ ! کردی گئی ان پر دنیا تنگ ! اور ہوگئے سب ننگ ! کیا کریں گے پتنگے ؟ کہاں جائیں گے ؟ شمع کہاں سے پائیں گے ؟ شمع جس نے پالی ..اُس نے حقیقت کو جان لیا ...! سب سے پہلے اپنی پہچان لازم ہے ..! وہ پہچان جس کے لیے مرکز کو حُکم کہ حاصل کر اپنا ایمان تجدید کے ذریعے ...! مرکز نے سجدہ کر دیا مگر اِس سے پہلے کیا کیا ؟ کیا؟ مرکز نے مانا عقل کو تابع اپنا اور عقل نے کیا حواس کو تابع اپنا اور جب ایک ہوگئے سب ... سب نے یک بیک کہا !

'' قالو بلی''

اور قالو بلی ! سے ''قلم '' کو ملی روشنی ! عقل نے سیکھا پیچ و خم میں سے الجھ کر نکلنا اور گنہ سے بچنا اور پروسیسر پر لکھا گیا پیمانِ الست ! ایک پیمان کیا پہلی تخلیق پر .. یعنی اصل کی تخلیق پر اور ایک پیمان کرو تم سب مٹی میں آجانے کے بعد ، کثیف ہوجانے کے بعد... تاکہ کثافت میں رہتے ہوئے مرکز کو جان کر عقل کو مطیع کرکے ، حواس کو اپنے روح سے کرلو قریب تر ! جب یہ کرچکے تو ہوگئی تجدید ! عہد ہو گیا تازہ ! اور تاز ہ ہوجانے کے بعد کُھلا الہام و کشف و وحی کا سلسلہ ! جس نے کر دی تجدید اور سلسلہ کھُلا تو سمجھ لو کہ راضی ہوا رب اور جب کردیا راضی رب کو ! تو فرض کیا ؟ فرض یہ کہ سجدہ کر و ! سجدہ کہ شکر واجب ہوا اور تم ہوگئے اور خالق کے قریب تر ، اس کی رحمت سے کچھ بعید نہیں کتنا علم دے کہ '''وہ نوازنے پر آئے تو نواز دے زمانہ۔۔۔!!

مگر افسوس پیارے ! افسوس پیارے ! جنہوں نے اپنا خُدا بنایا مرکز کو چھوڑ کر ''دو'' سے ... یعنی تحقیق کی ، کھوجا ! اور کھوجا ماؤس اور کی بوڑد سے ، اپنی پروسییسر کے ذریعے .. انہوں نے منزل کھو دی ! جو منزل کھو دیں وہ کیا کریں ؟ بولو ؟ کیا کریں؟ کیا ؟ وہ مرکز جو سب مرکزوں کو اپنے سے جوڑے ہوئے ہیں ، اسکی تصویریں ہیں سب ، سب تصویروں میں لکھا خالق کانام اور جب خالق کا نام روح نے مٹا ڈالا تو ہوگئی اندھی ! اندھا کیا جانے سمت کیا ہے ؟ اندھے کا کام طنز کرنا ہے ، اندھے کا کام ہجو کرنا ہے ، اندھے کا کام دین میں سے نکالنا وہ باتیں جو پھیلائیں فتنہ اور کریں شرر بار ! جذبات کردیں مجروح ! اندھا تو کرے گا یہ کام مگر ہو گا کیا انجام اُس کا ؟

کبھی تٗوسوچو ! کبھی تو سوچو !

جو خالق کا نام لے لے کر ، اُس کے نام سے اُڑائے مزاق ، اُس پاک نام کی ہجو کرے ، اس کے بندے کو کرے ناراض ، اس کا انجام کیا ہوگا ؟ کیا ہوگا ؟ یقنیاً ! یقیناً! یقیناً ! ہوگا اس کا انجام بُرا مگر اے جاناں ! دُکھ اور تاسف ! دکھ انہوں نے پہچان کھو دی ! حقیقت سے دور ہوگئے اور اپنے خُدا بنا لیے ! ان خُداؤں سے نکلیں تو کریں تجدید !

افسوس ہے جو نہ کرپائیں گے تجدید ، وہ ہوجائیں گے رُسوا اور رُسوا ہو جانے کے بعد ملتا ہے عذاب ، درد ناک عذاب ، ملے گا پل پل میں صدی کا عذاب اور اس عذاب دُہرایا جائے گا صدیوں تک ! صدیوں کے پل اور صدیوں کا درد جب ملے گا تُو کیا ہوگا ! ہوگا کیا ! بس ہمیشہ کے لیے رہیں گے عذاب میں اور روئیں گے ہم نے علم حاصل نہ کیا جس کی وجہ سے ہمیں فرشتوں پر ٖفضیلت حاصل ہے !

سجدہ ! سجدہ ! اور بس ایک کر سجدہ اور ادا کر ساری عبادتیں قضا اس سجدے میں ، توبہ کرلے اور ہو جا حبیب ! بن جا خوش نصیب اور قریب ہونے سے حاصل کر رب سچے کا قُرب۔۔۔۔۔۔۔!
 

نور وجدان

لائبریرین
کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں ؟ نہیں اے میری جان ! جاننے کی سعی کرنے والے آغاز غور و فکر سے کرتے ہیں . علم کی سعی کی ابتدا غور و فکر ہے . کائنات میں موجوادت میں چُھپے اِسرار و رموز سے واقفیت کیسے حاصل کی جائے ؟ کیسے ؟

اس کا طریقہ ہے ! اپنے نفس کو حاکم بنا لے اور محکوم کر رعایا کو .. محکوم اور حاکم کا راعی ہو جا ...! ہر ذی نفس راعی ہے اور آخرت میں جوابدہ ہوگا اپنی رعیت کا ...!!! جس نے یہ کام کرلیا اس نے حکمت پالی .

حکمت سے کیا جاتا ہے غور و فکر ۔۔۔۔۔۔۔! حکیم شخص پر علم کے اسرار کُھلنے میں لمحات بھی نہیں لگتے مگر اس سے پہلے چاہیے ہوتی ہے ریاضت اور تپسا ! جب محنت مکمل درجہ پالے اور خلق کا سرچشمہ بن جائے۔۔۔۔۔۔۔۔!!! جس کی تمثیل پہلے بھی نہ ہو اور جس کی تمثیل بعد میں نہ ملے مگر اس کے آنئے بے شُمار نکلیں ! یہ سرچشمہ ِ فٰیض ایک ہے اور بخدا یہ ہی ہدایت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!


حکمت عام انسان کے لیے ہے کہ ہر روح جو حکیم ہو اس پر کھلتے ہیں اسرار کے پردے اور ہوتی ہے روح پر انوار کی بارش ، اس کو محفوظ کرتا جاتا ہے دماغ ِ انسانی ...! جب آپ خود دانش ور ہوجاتے ہو تو آپ میں اک بے تابی پیدا ہوجاتی ہے ، اک لگن و جستجو ، سعی ، علم حاصل کرنے کی پیاس .........! جناب وہ پیاس تجدید سے شُروع ہو کر لامتناہی ہوجاتی ہے ، انسان تب تک پیاسا رہتا ہے تک علم مکمل نہیں ہوجاتا ہے اور جب ہوجاتا ہے مکمل تب ہوتا ہے اصل سے وصل ! یہ ہے علم کی ابتدا سے انتہا تک کا فاصلہ ، جس کو ہر ذی روح نے حاصل کرنا ہے . جو حاصل نہ کر پائیں گے وہ وصل کے شراب سے محروم رہ جائیں گے .۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

انسانی دماغ ہی علم کی کنجی ہے اور اس سے کھُلتے ہیں اسرار کے تالے ، تالے کھلتے جائیں اور نہاتے جائیں ہم علم کی بارش میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!! ایک کے بعد ایک علم کا در کھلتا ہے اور انسان سیراب ہوجاتا ہے مگر تشنگی مزید بڑھ جاتی ہے ، اس علم کا سب سے بڑا ماخذ ایک" نوری محل" کا اس دنیا میں وجود میں آنا ہے کہ اس کی مثال اس دنیا میں کہیں ملتی ہی نہیں ہے ، وہ تمثیل کہ '''اس کے 'نور' سے نکلا ''نور'' ایک آسمانی '' نور'''' اور اس کا جمال ... اس جمال سے ملا ہے سب کو جمال اور ہوگئے سب حُسن والے ، انسان بھی ہے سدا کا عاشق مزاج ، ڈھونڈتا ہے معشوق جمال والا ، اس لیے چاند کا ''نور'' اس دنیا میں موجود ہیں ... پرابلم یہ ہے اس چاند کو ہر کوئی دیکھ نہیں سکتا اور جو دیکھ لے وہ سمجھے وہ دیکھ نہیں رہا بلکہ دیکھا جارہا ہے ، جو نظر َ کرم کا اسیر ہوجائے ، اس کو بس کسی اور سحر کی ضرورت نہیں کہ ''نوری سحر '' ہے بمثال ایک'' نوری محل'' جس کا ہے اک بڑا دروازہ جس دروازے کو ''باب العلم'' کا نام دیا گیا ہے ، جو اس دروازے سے داخل ہوگا۔۔۔۔!!! پہلے وہ اس دروازے کو چھوئے گا تاکہ اندر جانے کا سلیقہ و طریقہ سیکھ سکے ! سو جب وہ اندر گیا تو ہوگیا نوری اور کھُل گیا علم کا دروازہ .... ''عقل والے چلے گئے ، دیوانے آگئے ، منطقیں اُڑا کے دیوانہ بنا گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!'' پھر ایسا علم ملتا ہے جس میں دلیل کی گنجائش نہیں اور نہ کسی حوالے کی ضرورت۔۔۔۔۔ !! جب وہ ''قلم'' نوری ہوجائے تو اس کو چاہئے دوبارہ سے موجوادت کا مظاہر بن جائے تاکہ شاہد کی گواہی ''احد '' ہی نکلتی ہے اور ''لا الہ الا اللہ '' کا نغمہ ، صدیوں کا نغمہ سرمدی ہوجاتا ہے ،....!!!


یہ سلسلہ ! سرمدی نغموں کا سلسلہ ....! ازل سے ابد تک جاری رہے گا! جس نے ''نوری قلم سے لے لیا عکس '' اور ہوگیا آئنہ ، پھر جدھر وہ کرے گا نظر ، وہ ہوجائے گا آئنہ ، بن جائے گا عکس ، اس کے جسم ، روح سے پھوٹیں گے آئنے اور چلتی رہیں گی نسلیں سدا قیامت تک ! ایک وہ سلسلہ جو ہے تقسیم کا اور ایک وہ سلسلہ جو تقسیم ''خلق'' کے امر سے ہوا .. جس نے اولاد کو کر دیا عظیم تر ''نوری سر چشمے میں '' اور جس کی نظر سے نکلے عظمت والے آئنے ! وہ سب کے سب ہو گئے اُس آنئے کے شاہد ...! اور جب چلتا رہے گا یہ سلسلہ ! تو کیا ہوگا َ؟ یہ سلسہ اور اس سے جاری و ساری ثواب ابد تک چلے گا اور اجر اس حساب سے ملے گا !!!

جب نوری ہو قلم اور کردیا جائے عطا ایک سرچشمہ ...... تو وہ قلم ہوجاتا ہے شاہد ، بن جاتا ہے گواہ اور دیتا ہے گواہیاں کبھی مبشر ہو کے تو کبھی نذیز ہوکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!! کبھی سراج ہوکے اور کبھی منیر ہوکے ...۔۔۔۔۔۔۔۔۔.!!! اس قلم سے یہی حق کو ہوتا ہے مقصود .....!!! پھر حق بھئ گواہ اور قلم بھی گواہ ..۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!. کہ دیکھئے ہوتا ہے کیا ؟؟؟ کرتے ہیں دیوانے کیا ؟ جن کےقبلے دنیا کے خُدا .۔۔۔.!!. ان سے فیض کتنا ملتا ہے؟ علم کا فیض کس کا جاری و ساری اور کس کی عقل اس کے لیے بن جائے گی پھندا...۔۔۔!!. اسلئے شاہد کو بلا جھجھک کام کرنا چاہیے کہ بفضل ِ الہی اس پر کرم ہے ، اس کو اب دب کر رہنا چاہیے کیا َ ؟ کیا گواہی دینے والے ، کیا شاہد ڈٹ جاتے ہیں؟ کیا وہ لڑتے یا جنگ نہیں کرتے؟ سو جنگ کیجئے مگر اس طرح کے آپ کو پھیلنا ہے کرنا ہے ان نا خُداؤں کو مطیع بجائے اس کے مطییع ہو کر رہیں .۔۔۔۔۔۔۔!!!.. نرم گفتار اور خاموش ، شریف لوگ جانے جاتے ہیں بزدل ... کیا بزدل رہنا اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟

آپ کی دنیا اور میری دنیا عجائبات سے بھرپور ہے . ان عجائبات میں ایک صنم خانہ اقتدار والے رکھتے ہیں ، اک دولت والے رکھتے ہیں اور ایک صنم خانہ علم والے رکھتے ہیں ، علم والوں کے فیوض کیا ؟ وہ جو نائب ہوں اور جو نائب سے علم لیں ... دونوں ہوگئے علم والے ، احد کا کلمہ پڑھا... ''دل کے صنم خانے میں ہوگئ ایک قسم کی شراب جاری و ساری !! یہ شراب عطا کی عطا ہے اس پر جو نائب سے لیں اور جو براہ ِ راست ملے وہ نیابت کی نشانی ہے . جو نیابت کی نشانی اس کی تمثیل کہاں؟ ایک صنم خانہ دولت والوں کا اور ایک اقتدار والوں کو .... ............!!! دونوں کا کام ایک ہی ...........................!!! دونوں بن جاتے ہیں خُدا اور کرتے ہیں دعوے خُدائی کے ....!!! اور دونوں اقسام کے لوگ فطرت سلیم سے منہ موڑے ہوئے ہیں اس لیے ان کے مل جانے سے ہوتا ہے فتنہ پیدا مگر اچھا ہوتا ہے ان ''دو'' کے درمیان رہتا ہے عالم بھی جس کا کام آگاہ کرنا ہوتا ہے فتنے سے ! اور جب دل پر لگ جائیں تالے ، طلاق کھا جائیں دل تو ہوجاتا فتنہ پیدا ، ان کی عقل حواس کی مخدوم ہو کر ان سے چھین لیتی ہے عطیات ِ الہی اور وہ ملتے رہ جاتے ہیں ہاتھ ...!!! اس صورت میں عالم کی نصیحت کار گر ہوتی ہے بے شک جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہو سکتے ...!!!

جن کے پاس آجاتی ہے عقل او دولت کے دونوں صنم خانے ، وہ ہوجاتے ہیں دیوانے اور کردیتے ہیں شروع جنگ خانے وہ بھی حق کے خلاف .... نور کے خلاف......!!! کب چاہے گاحق کہ اس کے خلاف ایسا ہو ؟ کہ جنگ کرے اس کی اپنی تخلیق ؟ اس لیے کہ دی گئ اس کو کثرت سے نعمتیں اور ان نعمتوں کو اپنا جان کر سمجھ لیا ،دنیا میں رہنا مستقل اور کردیا خدائی کا دعوی ...ِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!. حق پر حملہ...۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! خدائی کے فوجدار کے جواب ہوا ضروری ...۔۔۔۔۔۔!!. اور حق نے نمرود ، شداد اور فرعون کے ساتھ کیا کیسا معاملہ .... ؟ ان میں جو کوئی ہوگا ڈرانے والا ... اس کی بات جس نے لی سُن ، وہ ہوگیا ہدایت پر ...............!!! آج بھی دنیا ایسے خُداؤں سے بھری ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

جنہوں نے فتنے سے نہ سیکھا اور مچا دیا تہلکا ، کردیا شروع قتل عام ، مخلوق کو کردیا پریشان ، اور جب باغی آئے اور الٹا دیا تختہ تو کیا ہوا....۔۔۔۔۔۔۔۔!!! بڑی حکومتیں۔۔!! ... بڑے ملک ایسے جن کے الٹے تختے اور آئے انقلاب ...۔!! انقلاب تو لاتا ہے خون و تباہی اور اس بلا سے کون بچ سکے گا؟؟ ... یہ ''قیامت'' کی نشانی مگر کون سمجھے گا اور جو سمجھے گا وہ پالے گا ہدایت ...۔۔۔۔۔!! مگر جو نہ سمجھے اس کا کیا ہوگا ؟ اس کا الٹا تختہ ، موت سے لگا اس کو جھٹکا اور قبر نے اس کو پکڑا ........!!! کردیا اس کو مبتلائے عذاب کہ قبر کا عذاب محشر کی نشانی ہے ....! جو سمجھے وہ ڈر کے کرے اعمال سیدھے اور جو نا سمجھے اس کا معاملہ ہوا حق کے ساتھ ....!!!

حق نے ڈرایا ہے تینوں صنم خانوں کو....'' دو'' کی ملی عبرت اکٹھی کہ ہوگا ان کا حشر قبر جو کہ ہوگی قیامتِ صغری اور جب بندے جمال والے ہوجائیں سخت اور دینے لگے بد دعا .............!!! اس کی تخلیق کو.........!!! کیا ہوگا ؟ حق چاہے گا اختیار کا فائدہ اٹھایا جائے؟ چاہے گا ؟ سو اس لے لیے بھی سزا کے واسطے قصہ ہے جو '' نور '' کا آئنہ اور اس آئنے نے جب مانگی بد دعا تو حق کو بھی آئی غیرت........!! کردیا ابتلا میں مبتلا ....!!! مگر جو معافی مانگ لے ........! اس کے ساتھ حق کا سلوک بڑا ہی اچھا.... اس کی معافی و توبہ کے بعد سلوک بہت کریمانہ .... !!! اللہ تعالیٰ کو جب آئے جلال تو کون بچ پائے گا ؟ اس لیے اعمال درست کرکے ، کر دیجئے درست قبلہ .......!!!
 

نور وجدان

لائبریرین
درود بھی ہو لبوں پر
سلام بھی ہو لبوں پر!
مدحت کے بولوں میں!
راحت کے جھولوں میں!
مست و کیف ہستی ہے!
رات بہت ہی اچھی ہے!
اس کرم پر جان حاضر!
اب تو ہی میرا باقر!
اے جان ! کلمہ محبت!
نقش ہوئی تری الفت!
پھولوں کا لیجیے نذرانہ !
دل میرا ہے فقیرانہ ۔

زندگی میں کیف و ہستی اور نشاط و مستی کبھی ایسے موڑ پر پہنچا دیتے ہیں کہ جستجو جہاں سے آگے جانے کی ہوتی ہے ۔ انسان پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ سکتا ہے ۔ ایک تو یہ کہ خاموش رہ کر منزل ساکت کردے یا جستجو میں بڑھتا چلا جائے ۔ ایک اچھے گھڑ سوار کی طرح شعور و لاشعور کی متعین کرکے منزل طے کرنا ہی کامیابی کی دلیل ہے ۔ اگر گھڑ سواری میں انسان ناکام ہوجائے تو سمجھے کہ ٹھوکروں نے اس کا راستہ پکڑ لیا ہے ۔ ہر نفس کو ہر قدم پر ایک مرحلہ آزمائش کا طے کرنا ہے ۔ آزمائش کی شرط صبر و خاموشی اور انکسارہے ۔ رب باری تعالی کو یہ صفاتِ عبدیت پسند ہیں اور جب غلامی شوق بن جائے تو غلام بے زنجیر گھومتا ہے ۔ یہ رب کی عطا اس کے خاص بندوں پر ہوتی ہے ۔ اور اس عطا پر شکر و عاجزی ایک مرحلہ آنچ کی طرح پگھلنا ہوتا ہے ۔ اگر پروانہ شمع کا طواف کرے تو جل جانے میں مزہ ہے ، اس طواف میں ہوش و جوش کو توازن میں رکھنا جلانے سے بچاتا ہے ۔ اگر آگ سے جلنا مقدر لکھا ہوتا تو آج اس دنیا میں کوئی انسان بچا ہی نہیں ہوتا۔

ایک اچھا مقلد نفس کے مراحل کی تسخیر میں جنگ کے لیے تیار رہتا ہے ، اپنے خیموں کو مستعد رکھتا ہے ، گھوڑا تیار رکھتا ہے ، تلوار کی دھار تیز رکھتا ہے ۔ گویا ہر نفسی کو کوئی پل بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے اس کی یاد میں تمام کام خود بخود ہوجاتے ہیں ۔ ایک مرحلہ ایسا ہوتا ہے کہ شعور و لا شعور کی جنگ میں توازن قائم ہوجاتا ہے اس مقام کو مقام ِ عین کہتے ہیں ۔ پیاس کا صحرا، تو کبھی بارشیں ، کبھی حبث تو کبھی طوفان ۔۔۔ یہ سب باتیں مقلد کے لیے بے معنوی ہوجاتی ہیں ۔

شک کے مراحل کو عبور کرنے کے بعد تسکین کے مرحل کی طرف چلنا ہوتا ہے ، ان دو سمندروں کے درمیان پیاس کا صحرا ہے اور یہ حالت ِ جلال ہے ۔ یہ تسخیر زندگی کی جمالیات کی طرف جانے کا عندیہ ہے ۔ شیطان کبھی شک تو کبھی وسوسے تو وہم کی صورت میں ترا سامنا کرے گا۔ اپنے نفس کو شیطان سے بچانا ہی منزل کی جانب ایک اور قدم ہے ۔ زینہ بہ زینہ سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے انسان حصول عشق میں کامیاب ہوتا ہے اور کچھ زینوں پر مشعل باندھے کھڑے رہتے ہیں اور کچھ لڑ کھڑا کر گر پڑتے ہیں ۔ استقامت سے ، صبر سے اور تحمل سے سب کچھ مسخر ہوجاتا ہے ۔

ایک محبت اللہ کی اور ایک محبت اس کے محبوب کی ہے ۔ اس کا محبوب رحمت اللعالمین ہے ذات کی تسکین اس رحمت سے ملتی رہتی ہے ، یہ ذات بڑا حوصلہ دیتی رہتی ہے کہ بے شک اس کا کام حوصلہ دینا ہے ۔ اس کی طرف رجوع گویا اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہوتا ہے ۔ اس کی محبت سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے ۔ وہ ذات بڑی نظیر ہے ، اس کا ثانی کوئی نہیں اس دنیا میں ۔۔۔۔ وہ رب بھی تو بڑا لا ثانی ہے ۔۔۔۔ ہاں اس کی لاثانیت کی قسم ۔۔۔۔!!

اللہ تعالیٰ اس دنیا کے اوپر اور دنیا کے نیچے ، دنیا میں پھیلا نور ہے ۔ اس نور کو پکڑنا گویا خود کو جلانے کی مترادف ہے ، جبکہ اس کو پیارے کو پکڑنا ایک راحت ہے ، ایک تسکین ہے سبب کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تسکین قلب ، یہ راحت ، یہ الفت ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے ! یہ مالک کا اعجاز ہے ۔ مالک چاہے تو رخ پھیر لے۔ کیا بندہ کچھ کر سکتا ہے ؟ نہیں نا۔۔۔!!!
جب بندے کی حیثیت دو کوڑی ہے تو اس دو کوڑی کو کبھی تکبر سے کام نہیں لینا چاہیے ۔ مٹی کا کام مٹی سے ہے اور مٹی سے ہی سارے محبت کے سلسلے ترے اعجاز کا سبب ہے ۔۔۔

او ۔۔! پیارے محبوب ! او میرے پیارے محمد ﷺ ۔۔۔ آپ اس جہاں میں ہم گنہ گاروں پر نظر کرم کردو ۔۔ ہم بڑے عاجز و حقیر ہیں ۔ اس دنیا کے لوگ آپ ﷺ کے پاس آتے ہیں مانگے ہیں ،



مجھ کو اپنا بنا لیجئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے محبوب آنکھ سے اشک روان ہیں اور تن میرا دھواں دھواں ہے ۔ ہوش و حواس پر ' نا ہونے ' کا گمان ہے ۔ اپنا کرم۔۔۔ اپنا کرم ۔۔۔ کرم ۔۔۔ سب کچھ اچھا کر دیں ۔۔۔مجھ کو دامن میں چھپا لیں ۔۔۔ مجھے اپنا بنا لیں ۔ یہ کرم ایسا کرم ہے ، میری ذات کا بھی یہ بھرم ہے ، مجھے بکھرنے سے بچا لیجیے ۔

یا نبی ﷺ ۔۔۔۔۔! حق ! حق!​
حق!
اللہ اللہ کریے تو تاں گل بندی اے​
کامل مرشد پھڑئے تو تاں گل بندی اے ۔​
اے مرشد کامل ۔۔۔!
اے ذوالقرنین ۔۔۔!

اپنا کرم کردو۔۔۔۔ دنیا جہاں کے لوگوں پر اپنا کرم کردو۔ سب کو دامن میں لے کر ، سب کا دامن بھر دو۔ سب کے حصے کے غم کا مداوا ہوجائے گا۔ ذرے ذرے میں نام کا اجالا ہوجائے گا۔
 

نور وجدان

لائبریرین


اس مستی و کیف کو بندہ کیا کہے اب کہ مستی میں ہستی اور ہستی میں مستی ....!

مستی میں ہوش کسے ہوتا ہے مگر جب ہوش و مستی تصادم ہوجائیں تو کیا ہو..! کچھ تو ہمیں اپنا پتا نہیں چلتا او کچھ ہم کو اس کی لت سی لگنی لگی ہے . مسئلہ کیا ہے َ ؟ ایک رند کا مسئلہ تو کچھ نہیں وہ جو بھی کرے ، وہ مستی ........! ارے ! مسئلہ رند ساز کا ہے کہ نغمہ درد کا ہوش میں نکلے مگر اس کے سوتے مستی میں .... کیا ہوگا..؟ '' نا ہوتی '' کا احساس .... دلکشی اور بے بسی کا امتزاج ... ہم جائیں گے نغمہ کی لے پر....! اس لے پر سازندگی کرتے ہوئے عدم کی جانب ................! اور ہونے کا احساس بیدار کریں گے . یوں سمجھ لیجیے کہ کچھ بھی نہیں تو مالک اللہ اور کچھ ہے بھی ، دنیا ، پھول ، چاند ستارے ........... سب میں اللہ ...

انسان کے اندر کون.. اللہ .... خوشبو اللہ کی چار سو ہے ، آپ کے اندر کی خوشبو سے یہ جگ مہکا ہے ، انسان انسان کو بھاتا ہے ، اس سے دوستی کرتا ہے کہ دو انسانوں کے بیچ کون...؟ دو انسان ایک دوجے سے کیوں پیار کرتے ہیں ، کیوں ایک دوجے سے پیار کریں ، ماں اولاد سے کیوں پیار کرے ... دل میں اللہ ہے ... یہ جہاں خالق کے نور سے مہک رہا ہے اور اس کا نور دو عالم میں ہر انسان کے دل میں بسا ہے ، ذرا سوچیے ... ہم سب ..........! اللہ تعالیٰ نے کیوں کہا کہ وہ شہ رگ ، جبل الورید سے قریب ہے . یہ وہ رگ ہے جس کا تعاون دماغ و دونوں سے ہوتا ہے اور انسان کے جسم کے اندر سب سے بڑی رگ جو دماغ کو اور جسم و دل کو خون پہنچاتی ہے اس سے چھوٹی چھوٹی نالیاں نکلتی ہیں .......... تو اللہ جی ..! اس سے بھی قریب ہیں ...! پھر ہم اس کے قریب کیوں نہیں ہوتے وہ تو کہتا ہے کہ میری طرف لپکو گے تو میں تمھاری طرف لپکوں گا.... !! تم ایک قدم تو بڑھو اور اس کے قدموں کو شمار کو چھوڑ دو...

تم قطرہ .. وہ سمندر​
تم ذرہ .. وہ صحرا​
تم جزو .. وہ کل​
تم فانی .. وہ باقی​

ہستی تو اس طرح مٹی گے جس طرح روئی کے ریشے ریشے ہوجاتے ہیں اور ان ریشوں کو مستی جوڑ دے گی ... ہائے ! اس مستی و ہستی کا تعلق... درد و خوشی کا ملاپ م ندیا کی جیسے پیاس.......خاموشی میں طغیانی ، لہریں وجدانی ... پھر ہوش کہاں رہنی ... اب ہوش کہاں رہنی .......!!!

جام جم کا ہے موسم !
حوضِ کوثر کا ہے موسم !
دل کے کھلنے کا ہے موسم !
من کے جلنے کا ہےموسم !
سانس جدا رکھنے کا موسم !
ہاتھ ہر ہاتھ رکھنے کا موسم !
آنکھ کو بند رکھنے کا موسم !
وضو تر چشم رکھنے کا موسم !
سانس پگھلنے کا ہے موسم !
آیا ہے اب بہکنے کا موسم !
بہک بہک کر لہکنے کا موسم !
جاناں کی جان سے ملنے کا موسم!
روبرو ہونے کا ہے موسم !
آرزو کرنے کا ہے موسم !
ستم کرنے کا ہے موسم !
ستم سہنے کا موسم !
سینہ روشن ہونے کا موسم !
برف پگھلنے کا ہے موسم !
پانی سے بلبلہ بننے کا موسم !
آنکھوں کو دھونے کا موسم !
بس بس! اب بس کر موسم !
بس! یہ ہے شراب کا موسم !
مست و بے خود رہنے کا موسم!
مستی میں دھواں ہونے کا موسم !
آگ سے کھیلنے کا ہے موسم !
یہ ہے جلال کا موسم !
ہوگا پھر جمال کا موسم !
او پاگل! یہ ہے بہار کا موسم !
چل آ! پیاس بجھانے کا ہے موسم​
 
Top