سوات طالبان کی پسپائی

نبیل

تکنیکی معاون
حوالہ؛ طالبان روپوش، حکومت بھی غائب

مشرف حکومت نے کوئی کام تو اچھا کیا ہے۔ :)


پاکستان کی وادی سوات میں تین تحصیلوں اور ملحقہ ضلع شانگلہ کے صدر مقام الپوری سے مولانا فضل اللہ کے حامی عسکریت پسندوں کی طرف سے راتوں رات تمام علاقوں کا کنٹرول چھوڑ کر نامعلوم مقام کی طرف روپوشی نے ایک بار پھر کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
تقریباً ایک ماہ قبل مقامی جنگجوؤں نے سوات کی تین تحصیلوں خوازہ خیلہ، مٹہ، مدئن اور ضلع شانگلہ کے صدر مقام الپوری پر بغیر کسی مزاحمت کے قبضہ کر کے وہاں قائم تمام پولیس تھانوں اور دیگر سرکاری عمارات کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ حکومت نے اس قبضے سے پہلے سوات میں ڈھائی ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات کئے تھے تاہم اس کے باوجود مولانا فضل اللہ کی حامیوں کو سرکاری عمارات کا کنٹرول حاصل کرنے میں کسی قسم کی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔

اس خبر میں سوات کی صورتحال کو بھی ایمرجنسی کی وجہ قرار دیا گیا ہے۔


اس کے باوجود زیادہ تر لوگوں کی رائے یہی ہے کہ سوات کے حالات کو ایمرجنسی کے نفاذ کے لئے بطور ایک جواز پیش کیا گیا جبکہ خود صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے بھی قوم سے خطاب میں اس بات کا اقرار کیا تھا کہ ہنگامی حالات کا نفاذ اس لئے ضروری ہو گیا تھا کیونکہ ان کے پاس اختیارات نہیں تھے کہ وہ سوات میں عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی کرسکیں۔

کیا ایمرجنسی سے صدر کو کوئی ایسے خصوصی اختیارات حاصل ہوگئے تھے جن کی بدولت شدت پسندوں کے خلاف کاروائی ممکن ہوئی؟
 

قیصرانی

لائبریرین
طالبان تو یہی کچھ افغانستان میں امریکی حملے کے وقت بھی کر چکے ہیں۔ ساری ان سائیڈ گیم لگتی ہے
 
Top