سوات سفر میں ہے۔۔۔۔۔۔

خورشیدآزاد

محفلین
اورجلد آپکے شہر پہنچنے والا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (محمد حنیف ۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام)

آپکے اگر بچے ہیں اور سکول جانے کی عمر کو پہنچ چکے ہیں تو آپ نے آج صبح یقیناً سکول بھیجا ہوگا۔ آپ چاہے شریف آدمی ہوں یا رشوت خور، چاہے آپ نے گزشتہ الیکشن میں کسی مولوی کو ووٹ دیا ہو یا کسی عورت کو، چاہے آپکا بچہ ٹاٹ والے سرکاری سکول میں پڑھتا ہو یا کسی پرائیویٹ ائیر کنڈیشنڈ سکول میں آپ نے اپنے بچے کو سکول ضرور بھیجا ہوگا۔ چاہے وہ بس پر گیا ہو یا بائسیکل پر، آپ نےڈرائیور کے ساتھ بھیجا ہو یا خود چھوڑ کر آئے ہوں اگر بچہ بیمار نہیں ہے یا بیماری کا بہانہ نہیں کر رہا ہے تو یقیناً وہ اس وقت کسی کلاس روم میں، چاہے یہ کلاس روم کھلے آسمان تلے ہی کیوں نہ ہو، بیٹھا کچھ پڑھ رہا ہوگا، لکھ رہا ہوگا، کھیل رہا ہوگا یا شاید ٹیچر کی ڈانٹ کھا رہا ہوگا لیکن سکول ضرور گیا ہوگا۔ بچے کو سکول بھیجنے سے پہلے یا اسکے بعد آپ نے اخبار دیکھا ہوگا ٹی وی پر چلتے ٹِکر پڑھے ہوں گے اور سوات کی ان بچیوں کے بارے میں سوچ کر تاسف سے سر ہلایا ہوگا جن کے سکول بارود سے اڑائے جا رہے ہیں۔

پھر اپنے دھندے پر لگ گئے ہوں گے۔ دل کے کسی کونے میں یہ تسلّی ہوگی کہ شکر ہے ہم سوات میں نہیں رہتے اور ساتھ یہ امید بھی کہ میرے شہر، میرے گاؤں میں ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔ اسلام کے نام پر یہ سب کرنے والے اسلام کی صحیح روح کو نہیں سمجھتے اور ہمارے سیاستدانوں سے یہ آسان سا مسئلہ بھی حل نہیں ہو سکتا۔

اگر سیاست کو لوگوں کی امنگوں کے پیمانے کے طور پر لیا جائے تو بنیادی حقیقت یہ ہے: 1988 کے انتخابات سے پہلے ایک غیرسرکاری ادارے نے پورے ملک کا ایک نمائندہ سروے کیا اور پوچھا کہ لوگوں کے مطالبات انتخابی امیدواروں سے کیا ہے۔ پہلے نمبر پر پینے کا صاف پانی، دوسرے نمبر پر گرلز سکول۔ اور لڑکیوں کے سکولوں کی زیادہ مانگ ان علاقوں میں تھی جنہیں عرف عام میں پسماندہ کہا جاتا ہے۔

اس سے پہلے جنرل ضیاالحق نے چادر اور چار دیواری کے نام پر عورتوں کو گھروں میں قید کرنے کی کوشش کی لیکن تمام تر کالے قوانین کے باوجود پہلے سے زیادہ لڑکیاں سکول جانے لگیں اور سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں اپنی جگہ بنانی شروع کردی۔ گذشتہ 20 سال میں بھی کاروکاری، ونی، زندہ دفن کیے جانے اور تیزاب پھینکنے کے ہزاروں واقعات کے باوجود لڑکیوں کی تعلیم پاکستان میں سب سے زیادہ پھیلتا ہوا کاروبار ہے۔ اور وجہ صاف ظاہر ہے کہ پسماندہ سے پسماندہ علاقے کے باسی کو بھی یہ پتہ ہے کہ اسکی آنے والی نسلیں اس سے بہتر زندگی گزاریں اور اس پسماندگی سے نجات کا واحد راستہ تعلیم میں نظر آتاہے۔

پاکستان کی مشہور فلم ساز صبیحہ سمارکی فلم The Dinner with President کے ایک سین میں صبیحہ خیبر ایجنسی کے پاس کچھ قبائلی بزرگوں سے تکرار کرتی ہیں کہ وہ عورتوں کو برابر حقوق کیوں نہیں دیتے جب وہ قبائلی روایتوں کی بات کرتے ہیں تو صبیحہ ناراض ہو کر جانے لگتی ہے۔ ایک بوڑھا قبائلی پیچھے سے کہتا ہے کہ ہم تو چاہتے ہیں ہماری بیٹیاں بھی تمہاری طرح پڑھ لکھ جائیں۔

جب افغانستان میں طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگائی تو یہ ہمارا مسئلہ نہیں تھا۔ وزیرستان کے سکول تباہ ہوئے ہم امریکہ کو گالی دیتے رہے۔ سوات میں آہستہ آہستہ سکول دھماکوں سے اڑائے جانے لگے ہم فوج پر تنقید کرتے رہے۔ اب طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی لگا دی ہے تو یہ آصف زرداری کی حکومت کی ناکامی ہے۔

اب قوم کے سیانے یہ بھی فرما رہے ہیں کہ سوات میں اگر شریعت نافذ کر دی جائے (اور یہ بھی یاد کرایا جاتا ہے کہ اس طرح کا قانون پہلے ہی موجود ہے) تو طالبان اپنی حرکتوں سے باز آجائیں گے۔

اسی طرح کی دلیل چند ہفتے پہلے اس وقت سننے میں آئی جب لاہور کے تھیٹروں کے باہر دھماکے ہوئے۔ یہ کہا گیا کہ اگر ان ڈراموں میں کام کرنے والے لوگ شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں، فحش جگت بازی نہ کریں تو دھماکے ہونا بند ہو جائیں گے۔

گلے اور کان کاٹ کر جس طرح کی شریعت طالبان نافذ کر رہے ہیں کیا پیپلز پارٹی کی حکومت اس سے بہتر شریعت نافذ کر سکتی ہے؟ اگر پورا ملک موسیقی سننا چھوڑ کر، لطیفوں اور جگتوں سے کان بند کر کے، شلوار ٹخنوں سے اوپر کر کے ایک ازلی نماز کی نییت باندھ لے تو کوئی گارنٹی دے سکتا ہے کہ کوئی دھماکہ نہیں ہوگا۔

جب تک آپ یہ باتیں پڑھیں گے، ان سے اختلاف یا اتفاق کریں گے سکول کی چھٹی کا وقت ہو چکا ہوگا۔ آپکا بچہ گھر آجائے گا آپ اس سے پوچھیں گے کہ سکول میں دن کیسا گزرا۔ شاید یہ خیال ایک مرتبہ پھر آئے کہ شکر ہے آپ سوات میں نہیں رہتے۔ لیکن پاکستان کا نقشہ اٹھا کر دیکھیے دو سال پہلے تک سوات بھی سوات نہیں تھا۔ سوات سفر میں ہے اور جلد آپکے شہر پہنچنے والا ہے۔
 

خورشیدآزاد

محفلین
شاید اردو محفل کے بہت سارے دوستوں کے لیےاس تحریر میں کوئی نئی یا خاص بات نہیں ہوگی لیکن میں نے یہ تحریر ایک خاص پس منظر میں یہاں پوسٹ کی ہے۔

یہ سال تھا 1997 اور ہم نے نیا نیا ڈش لگایاتھا جس کے ذریعے ہانگ کانگ میں ہم پی ٹی وی ، بھارتی چینل زی ٹی وی بھی دیکھ سکتے تھے۔ ایک شام میں کھانا کھا رہا تھا اور زی ٹی وی کے زی نیوز پروگرام میں پروگرام کا اینکر کشمیر جہاد کے موضوع پرایک تجزیہ نگار سے بات چیت کررہا ہے جس میں وہ پاکستان پر سخت تنقید کررہے ہیں۔ اتنے میں باہرسے میرا بڑا بھائی بھی آجاتا ہے اور یہ سب سننے کے بعد ڈش ریسیور سے زی ٹی وی چینل کو ہندوؤں کا چینل کہہ کر مٹا دیتاہے۔

اس دن کے بعد بہت عرصہ تک ہم نے پھر زی ٹی وی چینل نہیں دیکھا۔ لیکن آج جب بھی پاکستان میں بم دھماکہ ہوتا ہے مجھےاسی پروگرام میں اس اینکر کی بات یاد آجاتی ہے کہ "آج کشمیر میں تو ان جہادیوں کے نشانے پر بھارتی فوج ہے لیکن اگر پاکستان نے اپنی جہاد پالیسی نہیں بدلی تو کل یہی لوگ جہاد کے نام پر پاکستانیوں کو بھی نشانہ بنائیں گے"

اس وقت تو میں نےاور میرے بھائی نےبناغوروفکر کے ان باتوں کو بھارتی پروپیگنڈہ کہہ کر رد کردیااور گھر میں بھارتی چینل کی پابندی لگا دی لیکن افسوس صد افسوس آج پاکستان میں جوکچھ ہورہا ہے اس اینکر کی بات سچ ثابت ہوئی۔

آج جب میں نے محمد حنیف صاحب کی تحریر پڑی تو بےاختیار مجھے زی نیوز والی بات یاد آگئی کیونکہ آج بھی ہمارے بہت سارے پاکستانی بھائی اب بھی طالبان کے خطرے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور اس طرح کے کالمز کو سیکولرزم کا پروپیگنڈہ کہہ کر رد کردیتے ہیں۔

لیکن یہ پروپیگنڈہ نہیں ہے، ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت کو پاکستانی جتنی جلدی مان لیں اتنا ہی ان کے حق میں بہتر ہوگا۔
 

بلال

محفلین
بہت خوب خورشیدآزاد صاحب۔۔۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ہو۔
اسلامی شریعت نافذ کرنے والے شائد یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام نے کہیں بھی لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت نہیں کی۔ بس یہ اسلام کے نام پر اسلام کے خلاف ایک پرپیگنڈا ہے تاکہ اسلام کو شدت پسند اور تنگ نظر مذہب قرار دیا جائے سکے۔۔۔ انشاءاللہ ایسا نہیں ہو گا کیونکہ اسلام ایک روشن خیال مذہب ہے۔۔۔
 
Top