سوات، سیاحوں کی جنت

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سندباد

لائبریرین
سوات
سیاحوں کی جنت​
(وادیِ سوات کا تفصیلی اور جامع منظر نامہ)



مصنف
فضل ربی راھی
 

سندباد

لائبریرین
٭٭٭٭٭٭​
کتاب یااس کا کوئی بھی حصہ شعیب سنز/مصنف کی باقاعدہ تحریری اجازت کے بغیرکہیں بھی شائع نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ایسی کوئی صورت حال ظہور پذیر ہوتی ہے تو قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ ہے۔​

٭٭٭٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
انتساب

اپنی ماں کے نام!
جس کی شفقت و محبت
میرے لئے
تپتے ہوئے صحرا میں
راحت بخش چھاؤں ہے
 

سندباد

لائبریرین
حُسن ترتیب

٭ فلیپ (سید قاسم محمود)
٭ فلیپ (مستنصر حسین تارڑ)
٭ گُہر ہائے آبدار (کلیم چغتائی)
وادئ سوات ، ایک تعارف
٭ یہاں کے لوگ
٭ سوات کا تاریخی پسِ منظر
٭ دریائے سوات
٭ موسم اور آب و ہوا
٭ فاصلے
٭ سطح سمندر سے بُلندی
٭ رسد و رسائل کے ذرائع
٭ ہوائی سرو س کا شیڈول
٭ اہم ٹیلی فون نمبرز
٭ ہوٹل اور ریسٹ ہاؤسز
٭ وادئسوات کے تحائف
٭ آثارِ قدیمہ
٭ معدنیات
٭ صنعت و حرفت
٭ علم و ادب
٭ زرعی پیداوار
٭ گندھارا تہذیب
٭ منگورہ
٭ سوات میوزیم
٭ سیدو شریف
٭ مرغزار
٭ پانڑ،دنگرام،جامبیل، کوکارئ
٭ اوڈی گرام سے لنڈاکی تک
٭ گو گ درہ
٭ غالیگے ،شنگردار
٭ بری کوٹ کوٹہ، ابوہا، لنڈاکے
٭ وادئ بونیر
٭ کانجو،علی گرامہ، کبل ، شاہ ڈھیرئ، ٹال، دردیال
٭ فضا گٹ پارک
٭ ملم جبہ
٭ گلی باغ
٭ خوازہ خیلہ،شین، فتح پور، باغ ڈھیرئ
٭ شانگلہ،الپورئ،لیلونئی، کروڑہ، بشام، یخ تنگے
٭ میاں دم
٭ مدین، تیراتھ، جونوسر، شاہ گرام، چیل
٭ بشی گرام ڈنڈ(جھیل)
٭ سوات کوہستان
٭ بحرین
٭ درال ڈڈ(جھیل)
٭ سیدگئی ڈنڈ(جھیل)
٭ کالام
٭ وادئ کالام کے دل کش اطراف
٭ اُتروڑ گبرال
٭ کنڈلو ڈنڈ (جھیل)
٭ اُوشو، مٹلتان، گلیشیئر، آبشار، مہو ڈنڈ
٭ پہاڑ، درے اور چوٹیاں
٭ اخوند صاحبِ سوات (سیدو بابا)
٭ بانئی سوات میاں گل عبدالودود (بادشاہ صاحب)
٭ میاں گل عبدالحق جہانزیب (سابق والئی سوات)

٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
فلیپ

سوات اور شمالی علاقہ جات کے بارے میں آپ کے مضامین میں نے پڑھے ہیں۔ دل چسپ اور معلومات افروز ہیں۔ کاش پاکستان کے ہر علاقے اور ہر خطے کو ایک ایک فضل ربی راہی میسر آجاتا۔

[align=left:f25c7f2819](سید قاسم محمود کے ایک خط سے اقتباس)[/align:f25c7f2819]



[align=left:f25c7f2819]سید قاسم محمود[/align:f25c7f2819]
 

سندباد

لائبریرین
فلیپ

’’خوشحال خٹک نے کہا تھا کہ سوات وہ وادی ہے جو لوگوں کے دلوں کو خوشی سے بھردیتی ہے۔ تو آج کے عہد میں خوشی کی جتنی کمی ہے، وہ صرف سوات جانے سے ہی پوری ہوسکتی ہے۔ اور اگر سوات جانا ہے تو کیسے جانا ہے اور وہاں کہاں کہاں جانا ہے اور کیا دیکھنا ہے؟ بس یہی مشکل سوال تھے جنھیں راہی نے حل کردیا ہے اور یہ مشکل آسان ہوگئی ہے۔
سفرنامے کسی وادی یا علاقے کے بارے میں دل میں اُمنگ تو پیدا کرسکتے ہیں کہ وہاں جانا چاہئے لیکن آپ کی انگلی پکڑ کر آپ کو سفری ہدایات نہیں دے سکتے۔ اور یہ کام صرف ٹورسٹ گائیڈز ہی کرسکتی ہیں۔ راہی صاحب اہل سوات ہیں اور وہی ایسی گائیڈ بک لکھنے کے اہل تھے۔ اُمید ہے اس کے پڑھنے سے بُہتوں کا بھلا ہوگا۔‘‘


[align=left:6d4f9eacec]مستنصرحسین تارڑ
16 مارچ 2000ء[/align:6d4f9eacec]
 

سندباد

لائبریرین
گہر ہائے آبدار​

برادرم فضل ربی راہی سے تادم تحریر، میری ملاقات، صرف ان کی تحریروں کی صورت میں ہوئی ہے۔ میں ایک نہایت ذہین، سلجھے ہوئے، محنتی، مہذب، پرخلوص اور خوش اخلاق نوجوان سے ان تحریروں میں ملتا رہا ہوں، جنہیں وہ اپنے بہت اچھے مضامین یا خطوط کی صورت میں ماہنامہ ’’رابطہ‘‘ کے لیے ارسال کرتے رہے ہیں۔
فضل ربی راہی کا میدنِ تحریر، سیاحت ہے۔ بلاشبہ انھوں نے ہمیشہ اس موضوع کا حق ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور وہ اس کوشش میں بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ سفرنامہ لکھنا اور بات ہے لیکن سفرنامہ لکھنے یا سفر کرنے کی خواہش رکھنے والوں کی رہنمائی کرنا بالکل مختلف بات ہے۔ فضل ربی راہی نے جب بھی کسی سیاحتی مقام کا تعارف کروایا ہے، انھوں نے ان تمام احتیاطوں اور نزاکتوں کو نمایاں کیا ہے جو اس مقام کی سّیاحت کرنے والوں کو پیشِ نظر رکھنی چاہئیں۔ مزید یہ کہ وہ اپنے خوب صورت اور دل نشیں اندازِ تحریر اور گہری قوتِ مشاہدہ کے ذریعہ، مذکورہ مقام کی اتنی حسین تصویر کشی کرتے ہیں کہ دل بے اختیار اس مقام کی سیر کے لیے مچل اٹھتا ہے۔
فضل ربی راہی نے یوں تو پاکستان کے شمالی علاقوں کے مختلف حسین گوشوں پر بہت عمدہ مضامین تحریر کیے ہیں لیکن زیرِ نظر کتاب ’’سیاحوں کی جنت (سوات)‘‘ میں تو انھوں نے اس سرزمینِ دل پذیر کے کسی پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا ہے۔ کتاب کیا ہے، معلومات کا خزینہ ہے۔ اس خزینے کے لیے، گہرچینی اور پھر ان گہرہائے آبدار کو، قرینے سے سجاکر پیش کرنے میں، فضل ربی راہی کو جس عرق ریزی سے کام لینا پڑا ہوگا، اس کا اندازہ لگانا ذرا بھی دشوار نہیں۔
میں اس کتابِ بے بہا کی تیاری پر فضل ربی راہی کو دل کی گہرائیوں سے ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں۔



[align=left:33714c6b5c]کلیم چغتائی[/align:33714c6b5c]
[align=left:33714c6b5c] ایڈیٹر
ماہنامہ ’’رابطہ‘‘ کراچی
28 مارچ 2000ء[/align:33714c6b5c]
 

سندباد

لائبریرین
بِسمِ اﷲ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم ط​



وادئ سوات، ایک تعارف

[align=justify:8123f39de8]سوات کی سحرآگیں اورپُر بہار وادی سیر و سیاحت کے لئے دنیا بھر میں غیر معمولی شہرت کی حامل ہے۔ قدرت نے اس پُرفسوں خِطہ کو حُسن و دل کشی اور رعنائی و زیبائی کے اَن گنت رنگوں سے سجا دیا ہے۔ یہاں کی فضائیں عِطربیز اور مناظر سحرانگیز ہیں۔ برف پوش چوٹیوں، گن گناتے آبشاروں،نباتات سے پُر، قدرتی صاف و شفاف پانی کے چشموں، طلسماتی جھیلوں، پُرشور دریائے سوات اور گل و لالہ کی اس مہکتی وادی کا ہر رنگ اتنا دِل پزیر اور طراوت بخش ہے کہ یہاں آنے والا ہرشخص اس کی خوب صورتی اور رعنائی میں کھو جاتا ہے۔
دنیا کے حسین ترین خطوں میں شامل یہ علاقہ، پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے شمال مشرق کی جانب 254 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جب کہ صوبائی دارالحکومت پشاور سے اس کا فاصلہ 170کلومیٹر ہے۔ 1998ء کی مردم شماری و خانہ شماری کے مطابق ضلع سوات کی کل آبادی بارہ لاکھ ستاون ہزار چھ سو دو (1257602)ہے اور اس کا کل رقبہ 5337 مربع کلومیٹر پر پھیلاہوا ہے۔ اس کے شمال میں ضلع چترال، جنوب میں ضلع بونیر، مشرق میں ضلع شانگلہ، مغرب میں ضلع دیراور ملاکنڈ ایجنسی کے علاقے اور جنوب مشرق میں سابق ریاستِ امب(دربند) کا خوب صورت علاقہ واقع ہے۔
سوات کو تین طبعی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(1) بالائی سوات (2) زیریں سوات (3) کوہستان سوات
قدرت نے وادئ سوات کو بے حد حسین اور دل کش بنایا ہے۔ بلند و بالا سرسبز پہاڑ، پھلوں سے لدے پھندے درخت، صاف و شفاف پانی کی بپھری ہوئی ندیاں اور منہ زور دریا، گن گناتے چشمے اور شور مچاتے آبشار جنت کا منظر پیش کرتے ہیں۔
سردی کے موسم میں یہاں خوب برف باری ہوتی ہے۔ اردگرد کے پہاڑ برف سے ڈھک جاتے ہیں۔ برف کی سپید چادر ہر چیز کو ڈھانپ لیتی ہے۔ گرمیوں میں جب برف پگھلتی ہے تو پوری وادی دُھل جاتی ہے۔ موسم خوش گوار ہوجاتا ہے، درختوں کو نئی زندگی ملتی ہے اور ہر طرف سبزہ ہی سبزہ نظر آنے لگتا ہے۔ رنگ برنگ پھول ذہن کو آسودگی اور دل کو راحت سے معمور کردیتے ہیں۔ ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح سیر کے لئے آتے ہیں اور یہاں کے دل کش مناظر سے محظوظ ہوتے ہیں۔[/align:8123f39de8]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
یہاں کے لوگ
[align=justify:02d2266ff9]جس طرح وادئ سوات قدرتی حُسن و دل کشی سے مالا مال ہے، اسی طرح اس کے باشندے بھی ظاہری اور باطنی طور پر نہایت خوب صورت ہیں۔ یہاں پرزیادہ تر لوگ یوسف زئی پشتون ہیں تاہم کوہستانی باشندے بھی کافی تعداد میں آباد ہیں۔ کوہستانی لوگ یہاں کے پشتونوں کے ساتھ اخوت اوربھائی چارے کے رشتے میں گھل مل چکے ہیں اور پشتون کلچر ان پر اس قدر غالب آچکا ہے کہ وہ بھی خود کو پشتون کہلانے پر فخرمحسوس کرتے ہیں۔یہاں زیادہ تر پشتو زبان بولی جاتی ہے۔ تاہم کوہستانی علاقوں میں کوہستانی، گوجری، گاؤری اور قاشقاری زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔سوات میں پنجابی اور ہندکو بولنے والے بھی رہتے ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ اُردو یہاں کے قریباًتمام لوگ بول اور سمجھ سکتے ہیں۔
وادئ سوات کے باشندوں کو قدرت نے بہت سی خوبیوں سے نوازا ہے۔ یہاں کے اصل مکین فطری طور پر خوش اخلاق، ملنسار اور مہمان نواز ہیں۔ اگر کوئی اجنبی ان سے کوئی جگہ یا راستہ معلوم کرنا چاہے تو وہ اس کو منزل پر چھوڑ آتے ہیں۔ مہمانوں کی عزت اور تکریم کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ خصوصاً خواتین کا احترام بہت مقدم جانتے ہیں۔
یہاں کا عمومی لباس شلوار اور قمیض ہے۔ خواتین بھی یہی لباس زیب تن کرتی ہیں۔ کوہستانی علاقوں کی خواتین ہاتھوں سے کڑھے ہوئے روایتی لباس بڑے شوق سے پہنتی ہیں اور سوات کے روایتی چاندی اور سونے کے زیورات بھی استعمال کرتی ہیں جو سوات کی پُرانی تہذیب و ثقافت اور اُس دور کی مخصوص معاشرتی اقدار کے آئینہ دار ہیں۔[/align:02d2266ff9]

٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
سوات کا تاریخی پسِ منظر

[align=justify:97aeb334a8]وادئ سوات جہاں حسن و دل کشی کا حسین مرقع ہے، وہاں تاریخی اعتبار سے بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ قدیم زمانے میں یہ اپنی خوب صورتی اور شادابی کی وجہ سے بہت سے حملہ آوروں کی شکار رہ چکی ہے۔ لیکن یہاں کے رہنے والوں نے ہر دور میں غلامی کی زندگی پر موت کو ترجیح دی ہے اور کسی بھی دور میں کسی کے زیر نگین رہنا قبول نہیں نہیں کیا۔ اس مَردم خیز سرزمین نے بہت سی قابل اور تاریخ ساز شخصیات کو جنم دیا ہے۔ جنہوں نے اپنے غیر معمولی کارناموں کی وجہ سے تاریخ کے اوراق میں خود کو زندہ و پائندہ کردیا ہے ۔
قدیمی کتب میں سوات کا ذکر مختلف ناموں سے آیا ہے۔ جن میں سواستوس، سواد، اساکینی اور اُودیانہ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ اُودیانہ(Udyana) سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں گلستان یا باغ۔ وادئ سوات کی بے پناہ خوب صورتی اور اُس کے حسین مناظر اور دل کشی کے باعث اُس کا اودیانہ نام زیادہ خوب صورت اور موزوں نظر آتا ہے کیوں کہ اس نام پر سوات کو باغ اور گلستان سے تشبیہہ دی گئی ہے اور اُس کا یہ نام اسم بامُسمّٰی ہے۔ یونانی مورخین نے، جو سکندر اعظم کے ساتھ یہاں آئے تھے، اپنی رسم کے مطابق اس علاقہ کا ذکر اس کے دریا کی نسبت سے کیا ہے۔جواَب دریائے سوات اور اس عہدِ قدیم میں سواستو (Swastu) کہلاتا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ لفظ سویتا(Sweta) سے مشتق ہے جس کے معنی سپید کے ہیں۔ یقین کیا جا سکتا ہے کہ اس علاقے کے صاف و شفاف سپید پانی کے ندی نالوں اور دریا کی وجہ سے اُسے ’’سواستو‘‘ یا ’’سویتا‘‘ پکارا گیا ہوگا جو بعدمیں چل کر سواد، جیسا کہ مغل بادشاہ بابر کی تحریر سے ظاہرہوتا ہے، اور پھر سوات بن گیا۔
چھٹی صدی (ق۔م) سے لے کر جب یہ علاقہ ایرانی شہنشاہوں کی عظیم سلطنت کا ایک حصہ تھا،موجودہ دور تک سوات نے بڑے اہم انقلابات دیکھے ہیں۔ ڈھائی ہزار (ق۔م) میں آریائی نسل کے لوگ جب برصغیر میں داخل ہوئے تو وہ اسی وادی سے ہو کر گزرے تھے۔[/align:97aeb334a8]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:d30d044242]326 (ق۔م) میں سکندر اعظم ایران کو فتح کرکے کابل کے راستے ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو وہ علاقہ کونڑ(Conar) کابل سے ہوتا ہوا وادئ سوات میں داخل ہوا اور سوات کے بانڈئ نامی گاؤں کے قریب دریائے سوات کو عبور کرکے منگلور(سوات) تک پیش قدمی کی۔ سکندر اعظم اپنی فوج کے ہمراہ منگلور سے باہر ایک بڑے میدان میں مقیم ہوگیا۔ یہاں ایک زبردست معرکہ کے بعد جنگ بندی ہوئی اور سکندر اعظم اپنی من مانی شرائط منوا کر سوات میں مزید پیش قدمی کرتا ہوا آگے بڑھا اور دریائے سندھ کو عبور کرکے پنجاب میں داخل ہوا۔ سکندر کے زمانے میں سوات کا راجہ ارنس تھا، جسے سکندر نے شکست دی تھی۔ تاریخ میں مذکور ہے کہ سکندرِ اعظم کو اپنی فتوحات کے دوران صرف سوات میں سخت ترین مزاحمت کا سامناکرنا پڑا تھا جس میں وہ زخمی بھی ہوا ۔اُس وقت یہاں کے لوگ بُدھ مذہب کے پیروکار تھے۔
100ء میں سوات میں بُدھ مت عروج پر تھا۔ اس وقت سوات سلطنت گندھارا کا ایک اہم حصہ تھااوراس پر راجہ کنشک کی حکم رانی تھی۔ جس کا پایہ تخت پشاور تھا۔
403ء میںمشہور چینی سیاح اوربُدھ مت کے مقدس مقامات کا زائر فاھیان سوات آیا۔519ء میں ایک اور مشہور چینی سیاح سنگ یون کافرستان سے ہوتا ہوا سوات میں داخل ہوا۔ 630ء میں چین کا ایک تیسرا معروف سیاح، بُدھ مذہب کا عالم اور زائر ہیون سانگ کابل سے ہوتا ہوا سوات آیا۔ چینی سیاحوں میں آخری مشہور سیاح وکنگ تھا جو 752ء میں سوات آیا۔ ان چینی سیاحوں نے اپنے اپنے سفرناموں میں سوات کے اس وقت کے مذہبی ، معاشی، تہذیبی اور ثقافتی حالات کے متعلق تفصیلاً لکھا ہے جن سے معلوم ہوتاہے کہ اس وقت سوات میںبُدھ مت کادور دورہ تھا اور یہاں کے لوگ کافی ترقی یافتہ اور خوش حال تھے۔
گیارھویں صدی عیسوی میںمحمود غزنویؒ کی افواج باجوڑ کے راستے سوات میں داخل ہوئیں جنہوں نے اس وقت کے راجہ گیرا نامی حکم ران کو شکست دے کر سرزمینِ سوات کو اسلام کی ابدی قندیل سے روشن و تاباں کردیا۔[/align:d30d044242]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:8ee62f431d]1485ء میں کابل کے چغتائی ترک حکم ران الغ بیگ نے قبیلہ یوسفزئی کی سرکردہ شخصیتوں کودھوکہ سے قتل کردیا۔ شیخ ملی اور ملک احمد خوش قسمتی سے اس قتل عام سے بچ کر اپنے بچے کھچے قبیلے کے ہمراہ پشاور میں داخل ہو ئے اور ایک طویل لڑائی کے بعد یوسف زئی قبیلہ پشاور، مردان اور سوات پر قابض ہو گیا۔
1515ء میں سوات کے بادشاہ سلطان اویس کو تخت و تاج سے معزول کرکے سوات کے پُرانے باشندوں کو مانسہرہ ،ہزارہ چلے جانے پر مجبورکردیاگیا۔
1516ء میں جب مغل بادشاہ بابر افغانستان سے ہندوستان پر حملہ کرنے کی غرض سے جا رہا تھا تو اس نے سب سے پہلے سوات پر لشکر کشی کی لیکن اُسے یہاں مُنہ کی کھانی پڑی۔ آخر یوسف زئی قبیلہ کے سردار شاہ منصور کی بیٹی سے مصلحتاً (ڈپلومیٹک) شادی کی اور یہاں کے یوسف زئی قبیلہ کے باشندوں سے صلح کرکے انہیں اپنے لشکر میں شامل کیا اور بعدمیں ہندوستان کو فتح کرلیا۔
1530ء میں شیخ ملی نے ویش (زمینوں کی تقسیم) کا طریقہ رائج کیا اور یوسف زئی قبیلہ میں زمینوں کی باقاعدہ تقسیم عمل میں لائی گئی۔بابر کے مرنے کے بعد اُس کے بیٹے ہمایوں نے سوات کوبزورِ شمشیر فتح کرنا چاہا لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔ اِسی طرح تاریخ کا یہ دور گزرتا ہوا اکبر بادشاہ تک آن پہنچتا ہے جس نے 1586ء میں سوات پر حملہ کیا لیکن شکست کھا کر پسپا ہونے پر مجبور ہوا ۔
1825ء میں سید احمد شہید نے ان علاقوں(پنجتار) میں سکونت اختیار کرلی اور اپنی سرکردگی میں بہت سے مجاہدوں کو سکھوں کے خلاف جہادمیں شامل کرلیا ۔
1850ء تک سوات میں کوئی سیاسی تنظیم نہیں تھی اس لئے اس علاقہ کی سالمیت کے لئے اس دور کے خوانین اور رؤسا کی مشاورت سے حضرت اخوند عبدالغفور (سیدوبابا) نے پیر بابا کی اولاد میںسے سیداکبر شاہ کو 1850ء میں سوات کی پہلی شرعی حکومت کا امیر منتخب کیا لیکن 11مئی1857ء میں ان کی وفات کے بعد سوات پھر سیاسی افراتفری اور امنِ عامہ کی ابتری کا شکار ہوا۔
1863 ء میں امبیلہ کے مقام پر انگریزوں کے ساتھ سخت جنگ ہوئی۔ لیکن یہاں کے باشندوں نے سخت مزاحمت کی جس کے باعث انگریز سوات فتح کرنے میں ناکام رہے۔
1876-77ء میں اخون صاحب (سیدو بابا) وفات پا گئے ۔ اخون صاحب اور سیداکبر کی اولاد میں سوات کی بادشاہت کے لئے ایک طویل کش مکش شروع ہو گئی جو دیر اورباجوڑ کی سیاسی کش مکش میں ملوث ہونے کی وجہ سے اور بھی پیچیدہ صورت اختیار کر گئی۔[/align:8ee62f431d]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:b0e0d15776]1881ء میں میاں گل عبدالودود ( جو بعدمیں بانئی سوات بنے اور بادشاہ صاحب کے نام سے مشہور ہوئے) اخون صاحب کے چھوٹے بیٹے میاں گل عبدالخالق کے ہاں پیدا ہوئے ۔
1887ء میں میاں گل عبدالحنان اخون صاحب کے بڑے بیٹے ریاست بنانے میں ناکام ہوئے اور وفات پاگئے۔
1895ء اور 1897ء میں انگریزوںنے ملاکنڈکے راستے سے سوات پر دو الگ الگ حملے کئے مگر سوات کے بہادر عوام نے اُن کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ اِن معرکوں میں دیر، باجوڑ، بونیر اور موجودہ ملاکنڈ ایجنسی کے لوگ بھی شامل تھے۔
1903-07ء میں میاں گل عبدالرزاق اور میاں گل عبدالواحد، جو اخوند صاحب کے بڑے فرزند کے بیٹے تھے، اپنے چچا زاد بھائی میاں گل عبدالودود کے ہاتھوں قتل ہوئے اور میاں گل عبدالودود اخون صاحب کی تمام روحانی اور مادی میراث کے واحد وارث قرار پائے۔ اسی طرح سیاسی اقتدار کے لئے سخت کش مکش ختم ہوگئی۔
سوات میں مچی مسلسل افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سید عبدالجبار شاہ نامی ایک شخص نے 1914ء میں دریائے سوات کے پار شمالی علاقوں میں اپنی حکومت قائم کی۔ بعد میں میاں گل عبدالودود(بادشاہ صاحب) جو سیدوبابا کے پوتے بھی تھے، نے عبدالجبار شاہ سے حکومت کی باگ ڈور چھین کر 1917ء میں اپنی باقاعدہ حکومت کی بنیاد ڈالی۔1917ء سے 1926ء تک اندرونی طور پر ریاست سوات کی تشکیل و تعمیر اور اختیارات کے استحکام کے لئے تیز کوششیں شروع کی گئیں۔ سڑکیں، ٹیلی فون اور قلعہ جات وغیرہ بنائے گئے۔ بیرونی طور پر مختلف جنگوں کے ذریعے اس نوزائیدہ ریاست کی حدود وسیع کی گئیں اور از سر نو ان کا تعین کیا گیا۔برطانوی حکومت کی طرف سے رسمی طور پر ریاست سوات کو 1924ء میں تسلیم کیا گیا اور میاں گل عبدالودود کی حکم رانِ سوات کی حیثیت سے تخت نشینی عمل میں لائی گئی۔1947ء میں ریاست سوات کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا گیا۔
12 دسمبر 1949ء کو میاں گل عبدالودود نے عنانِ حکومت اپنے فرزند شہزادہ محمد عبدالحق جہان زیب (سوالئی سوات) کو سونپ دیئے ۔ جنہوں نے سوات کو ایک جدید اور ترقی یافتہ ریاست بنانے کی پوری کوشش کی اور سوات کی تعمیر و ترقی میں ایک ناقابلِ فراموش اور زندئہ جاوید کردار ادا کیا۔
28 جولائی 1969 ء میں ریاستِ سوات کو پاکستان میں ایک ضلع کی حیثیت سے ضم کردیا گیا اور یہاںباقاعدہ طور پر ڈپٹی کمشنر اور دیگر انتظامی اہل کاروں کی تعیناتی عمل میں لائی گئی۔[/align:b0e0d15776]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
دریائے سوات
[align=justify:79b440f552]وادئ سوات کی تمام تر خوب صورتی، رعنائی اور شادابی کا انحصار دریائے سوات پر ہے۔دریا ئے سوات ہی کی بدولت سوات کی تمام وادیاں قدرتی حُسن و جمال کا مظہر دکھائی دیتی ہیں اور اس کا ہر گوشہ سرسبز و شاداب نظر آتا ہے۔ سوات کی تقریباً تمام قابل دید وادیاں، دریائے سوات ہی کے کنارے آباد ہیں۔ ان میں اتروڑ،گبرال، اوشو،مٹلتان، گلیشیئر، کالام، بحرین، مدین، باغ ڈھیرئ، خوازہ خیلہ، شین، چارباغ اور منگورہ شامل ہیں۔
دریائے سوات، وادئ کالام سے لے کر ملاکنڈ کے بجلی گھر تک سو میل کا فاصلہ طے کرتا ہے۔ اس دوران یہ وسیع و عریض علاقے کو سیراب کرکے اس کی شادابی اور رعنائی کا باعث بنتا ہے۔
دریائے سوات اتنا ہی قدیم ہے جتنی قدامت سوات کی خوب صورت سرزمین کوحاصل ہے۔ ہزاروں سال قبل تو سوات اور بھی حسین اور دل کش تھا ۔اس وقت سوات جدید دور کی مشینی آلائشوں کی دست برد سے قطعی محفوظ تھا اور نہ صرف اس کی فضائیں پرکشش اور خوش رنگ پھولوں اور گھنے جنگلات کی وجہ سے معنبر تھیں بلکہ پوری وادئ سوات میں جو ندیاں، نالے، آبشار اور دریا تھے وہ ہر قسم کی آلودگی سے پاک تھے۔ دریائے سوات کے غیر معمولی طور پر پاک و شفاف سپید پانی کی وجہ سے سکندرِ اعظم کے ساتھ آئے ہوئے مؤرخین نے اس علاقے کا ذکر اس کے دریا کی نسبت سے کیا تھا موجودہ دریائے سوات اس قدیم عہد میں ’’سواستو‘‘ کہلاتا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ لفظ سویتا سے مشتق ہے جس کے معنی ’’سپید‘‘ کے ہیں۔
مشہور چینی سیاح ہیون سانگ نے بھی یہاں کے سپید پانی کا خصوصی ذکر کیا ہے اور گیارھویں صدی عیسوی میں البیرونی بھی سوات کے شفاف پانی کا ذکر کرتا ہے اور موجودہ وقت میں بھی سوات کے صاف و شفاف، چاندی کی طرح چمکتے ہوئے پانی کو دیکھا جائے تو عجیب سی مسرت محسوس ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ دریائے سوات کے قریب ’’سپینے اوبہ‘‘ (سپید پانی) کے نام سے ایک بستی بھی موجود ہے۔اس لئے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ اس علاقے کے صاف و شفاف سپید پانی کے ندی نالوں اور دریا کی وجہ سے اسے ’’سواستو‘‘ یا ’’سویتا‘‘ پکارا گیا ہوگا۔ جو بعد میں چل کر ’’سواد‘‘ اور پھر’’سوات‘‘ بن گیا۔[/align:79b440f552]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:5f4ae2e8a1]مشہور چینی سیاح سنگ یون 502ء میں کافرستان (چترال) سے ہوتا ہوا سوات آیا تھا اس نے اپنے سفر نامے میں دریائے سوات کا ذکر ’’دریائے سوٹو‘‘کے نام سے کیا ہے۔ بعض تاریخی کتب میں اس کے نام ’’دریائے سوتی‘‘ یا سواستو اور ’’سولتاس‘‘ بھی ملتے ہیں جو چار ہزار سال قدیم زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس دریا کے نام کی مناسبت سے اس علاقے کا نام بھی ’’سوتی‘‘یا’’سواستی‘‘ مشہور تھا جو بعد میں ’’سواد‘‘ یا ’’سوات‘‘ میں تبدیل ہو گیا۔ دریائے سوات کو سنسکرت میں ’’گوری‘‘ کا نام بھی دیا گیا اور قدیم مصنّفین کے ’’سوساتوس دریا‘‘(دریائے سوات) کا ذکر مقدس رگ وید میں بھی موجود ہے اور مہا بھارت میں بھی اسے یاد کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں یونانی سیاح ایرین نے بھی اپنی تحریروں میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔
بہرحال مختلف ادوار میں دریائے سوات کو مختلف توصیفی ناموں سے نوازا گیا ہے اور ہر قوم اور حملہ آور نے اس کا نام اپنے مزاج اور روایات کے مطابق رکھا۔ موجودہ دور میں اس کا معروف نام ’’دریائے سوات‘‘ ہے اور جب یہ دریا وادئ سوات کی حدود سے باہر نکل جاتا ہے تو دریائے پنج کوڑہ (دیر) کا معاون ہونے کی وجہ سے اسے ’’دریائے پنج کوڑہ‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ جب کہ وادئ پشاور اور چارسدہ میں یہ دریا ’’جیندی‘‘ اور’’خیالی‘‘ کے ناموں سے مشہور ہے۔
دریائے سوات کی مجموعی لمبائی ’’کالام‘‘ سے ضلع چارسدہ میں ’’نِستہ‘‘ تک قریباً 210 کلومیٹر بنتی ہے۔ یہ حسین دریا اپنا سفر طے کرتے ہوئے کہیں تو محجوب ہو کر سکڑ سمٹ جاتا ہے اور کہیں فخر سے سینہ پُھلا کربہنے لگتا ہے، چناں چہ وادئ بحرین اور کالام کے درمیان اس کی چوڑائی پچاس فٹ رہ جاتی ہے جب کہ سوات کی ایک خوب صورت وادی ننگولئی میں اور منگورہ میں فضا گٹ پارک کے قریب اس دریا کا پاٹ دو کلومیٹر تک چوڑا ہو جاتا ہے۔
دریائے سوات کو عبور کرنے کے لئے جگہ جگہ چھوٹے بڑے پل بنائے گئے ہیں۔ ان پلوں میں مضبوط اور جدید طرز کے پلوں کی تعداد سات ہے جن میں کالام،بحرین، خوازہ خیلہ، کانجو، شموزی(بریکوٹ) اور چک درہ کے پل شامل ہیں۔ اب جاپان کے تعاون سے جگہ جگہ جدید ’’سسپینشن پل‘‘ تعمیر کئے جا رہے ہیں جن میں سے ایک پل بحرین کے قریب ’’گورنئی‘‘ کے مقام پر تعمیر کیاگیا ہے۔ دریا پر بنائے گئے رسیوں اور لکڑی کے پل بے شمار ہیں۔ تیز بہاؤ والے علاقوں میں دریا کے اوپر مضبوط رسی تان کر باندھ دی جاتی ہے اور دوسری طرف اسی کے ذریعے اس کے ساتھ ڈھول نما کھٹولا باندھا جاتا ہے جس کے ساتھ مخالف اور موافق دونوں سمتوں سے رسی منسلک ہوتی ہے۔ ایک کنارے سے دوسرے کنارے کی طرف جاتے ہوئے ایک جانب کی رسی کوئی دوسرا شخص کھینچ لیتا ہے اور کھٹولا اسی سمت چلنے لگتا ہے۔
اس قسم کے کھٹولے کو مقام زبان میں ’’زانگوٹی‘‘ کہا جاتا ہے۔ دریا عبور کرنے کا یہ طریقہ خالصتاً مقامی ہونے کے ساتھ ساتھ دل چسپ اور ’’پرُخوف‘‘ بھی ہے۔[/align:5f4ae2e8a1]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:29f66d98c6]دریا پار کرنے کا ایک ذریعہ چیئر لفٹ کی طرز پر بنائی گئی’’زانگوٹیاں‘‘ بھی ہیں جو پک اَپ کے انجن کے ذریعہ دو مضبوط رسیوں سے منسلک ہوتی ہیں۔ جہاں پل نہیں ہیں، وہاں لوگ مقامی ساخت کی کشتیوں کے ذریعہ دریا عبور کرتے ہیں۔ اس قسم کی کشتی کو ’’جالہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
دریائے سوات کا منبع ایک نہیں ہے بلکہ اس کے کئی منبعے ہیں۔ یہ دریا کوہِ ہندوکش کی اوٹ میں واقع ’’سوات کوہستان‘‘ کے علاقوں سے نکلتا ہے اور مختلف مقامات پر اس کے ساتھ ندی نالے شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس کا ایک منبع کالام کوہستان میں ’’جل گہ‘‘ کے مقام پر ہے ۔ ’’جل‘‘ کوہستانی زبان میں پانی اور ’’ گہ‘‘ ندی کو کہتے ہیں۔ اس علاقے میں اسے ’’دریائے جل گہ‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، تاہم اسے صحیح معنوں میں انمنبعوں نے ’’دریائے سوات‘‘ بنا دیا ہے۔ مہوڈنڈ، کنڈلوڈنڈ، دریائے گبرال، گبرال کے قرب و جوار میں واقع خوب صورت مقامات گل آباد اور غوائی بیلہ کے ندی نالے اور درال ڈنڈ وغیرہ۔
دریائے سوات کالام سے وادئ مدین تک تنگ گھاٹیوں اور بڑی بڑی چٹانوں کو پھلانگتا ،کہیںگن گناتا اور کہیں دھاڑتا ہوا چالیس کلومیٹرکا راستہ طے کرتا ہے۔ وادئمدین میں اس کا پاٹ یک دم چوڑا ہو جاتا ہے اور یہاں اس کے ساتھ مشرق کی طرف سے آتا ہوا دریائے بشی گرام بھی شامل ہو جاتا ہے۔ دریائے سوات کا معاون دریائے بشی گرام، بشی گرام جھیل سے نکلا ہوا ہے۔ جس کے ساتھ راستے بھر میں برف پوش چوٹیوں اور مختلف چشموں سے نکلے ہوئے پاک و شفاف ندی نالے شامل ہوتے چلے گئے ہیں جو دریائے سوات کی مزید وسعت اور تندی و تیزی کا باعث بنتے ہیں۔باغ ڈھیرئ اور شین کے مقام پر دریائے سوات کے کنارے پُر لطف اور محفوظ کیمپنگ ایک خاص شہرت رکھتی ہے۔ یہاں اکثر و بیشتردریا کے کنارے مخصوص مقامات پر سیاحوں کی ٹولیاں کیمپنگ سے محظوظ ہوتی نظر آتی ہیں۔ منگورہ تک پہنچتے ہوئے دریائے سوات کے ساتھ متعدد جگہوں پر مزید ندی نالے شامل ہوتے چلے جاتے ہیں اور بالآخر یہ دریا ضلع چارسدہ میں ’’نِستہ‘‘ کے مقام پر دریائے کابل میں ضم ہو جاتا ہے۔[/align:29f66d98c6]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:c3955c3028]ملاکنڈ اور امان درہ کے مقام پر دریائے سوات سے دو نہریں نکالی گئی ہیں۔ ان پر درگئی بجلی گھر (پَن) اور ملاکنڈ بجلی گھر(پَن) بنائے گئے ہیں، جنہیں ملکِ عزیز کے سب سے پرانے پاور ہائیڈرو الیکٹرک ورکس ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ یہ بجلی گھر عرصہ دراز سے ملک کو مقدور بھر بجلی فراہم کرنے کے باعث بنے ہوئے ہیں۔ حکومت اگر چاہے تو کالام اور سوات کی دوسری ذیلی وادیوں میں دریائے سوات پر مزید بجلی گھروں کی تعمیر کا مربوط منصوبہ بناکر ان کے ذریعے ملک بھر کے لئے کافی بجلی پیدا کر سکتی ہے۔ یہ بجلی تھرمل بجلی گھروں میں پیدا ہونے والی بجلی کی نسبت بہت سستی پڑے گی۔
دریائے سوات اپنی قدامت کے باعث بھی تاریخ کے اوراق میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے کنارے دنیا کی کئی مشہور تہذیبیں پھلی پھولیں اور عروج کی منزلیں طے کرکے زوال پذیر ہوئیں۔ اس کی اسی اہمیت کے باعث اس دریا کا ذکر ہندوؤں کی مشہور مذہبی کتاب رگ وید میں بھی آیا ہے۔
سوات میں بدھ مت کے دورِ عروج میں اس کے کنارے سینکڑوں خانقاہیں اور بدھ مت کے علمی مراکز قائم تھے جن میں بدھ مت کے ہزاروںطالب علموں کو علم کے زیور سے آراستہ کیا جاتا تھا۔ ان بدھ خانقاہوں اور عبادت خانوں کاذکر مشہور چینی سیاحوں نے بھی اپنے سفر ناموں میں کیا ہے۔ چینی سیاح سنگ یون نے دریائے سوات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’رات کے وقت خانقاہوں میں اتنی کثرت سے گھنٹیاں بج اٹھتی ہیں کہ تمام فضا گونج اٹھتی ہے۔ ’’دریائے سوٹو‘‘ (دریائے سوات) کے کنارے بہت سی خانقاہیں آباد ہیں۔ سوات سرسبز و شاداب علاقہ ہے اور یہاں کے باشندوں کا گزارہ کھیتی باڑی پر ہے۔‘‘
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دریائے سوات ایک قدیم دریاہے اوراس کا مختلف مذہبوں اور تہذیبوں سے گہرا تعلق رہا ہے اور اس دریا کے سبب یہ علاقہ قدیم زمانے سے ہی سرسبز و شاداب اور زرخیز چلا آرہا ہے۔[/align:c3955c3028]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:cad7122f49]دریائے سوات انسانوں کے لئے طرح طرح کی نعمتیں لے کر آتا ہے۔ اس کے پانی سے متعدد فصلیں سیراب ہوتی ہیں جن میں مکئی، دھان اور گندم شامل ہیں۔ کئی طرح کی سبزیاں مثلاً آلو، مٹر، شلجم، گوبھی، ٹماٹر اور سرسوں اس دریا کی بدولت انسان کو نصیب ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد خوش ذائقہ پھل مثلاً خوبانی، آلوچہ، اسٹرابری، لوکاٹ، سیب، ناشپاتی، مالٹا، انگور، اخروٹ، شفتالو(آڑو) اور چائنا املوک کے درختوں کے لئے حیات بخش پانی، دریائے سوات ہی لے کر آتا ہے، یہی نہیں بلکہ دریائے سوات کے کنارے گلاب، گلِ نرگس، غانٹول، بنفشہ، پھلواری، ریحان اور دیگر طرح طرح کے خوشبودار اور دھنک رنگ پھول بھی کھلتے ہیں جو حسین سرزمینِ سوات کے حُسن کو مزید زیبائی عطا کرتے ہیں۔
قدرت نے دریائے سوات میں جو مچھلیاں پیدا کی ہیں ان میں ٹراؤٹ مچھلی سب سے زیادہ مشہور ہے۔ اس کے علاوہ مہاشیر مچھلی اور سواتی مچھلی بھی پائی جاتی ہے۔ ٹراؤٹ مچھلی بہت سرد پانی میں ملتی ہے۔ اس کا ذائقہ نہایت لذیذ اور بے مثال ہوتا ہے۔ ان مچھلیوں کا شکار کانٹے، جال، بجلی کے کرنٹ اور ڈائنامائٹ کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ تاہم کرنٹ اور ڈائنامائٹ کے ذریعہ مچھلی کا شکار غیر قانونی ہے البتہ محکمۂ ماہی پروری کے متعلقہ اہل کاروں سے لائسنس لے کر مچھلی کا شکار مروجہ طریقے سے کیا جا سکتا ہے۔
دریائے سوات کا پانی کسی زمانے میں بہت صاف و شفاف تھا اور ہر قسم کی آلودگی سے پاک تھا لیکن جب سے سوات میں ہوٹلوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ دریا کا شفاف پانی بھی قدرے آلودہ ہو گیا ہے۔ مقامی انتظامیہ نے دریائے سوات کے کنارے واقع ہوٹلوں پر پابندی عائد کی تھی کہ ان کا کوڑا کرکٹ اور فضلہ دریا میں نہیں پھینکا جائے لیکن اس پابندی پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہو پایا ہے۔ اس ضمن میں سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔
’’سوات کوہستان‘‘ کے پہاڑوں سے نکلا ہوا دریائے سوات پشتو زبان و ادب میں بھی کافی عمل دخل رکھتا ہے۔ اس دریا کی وجہ سے بہت سے ٹپے، چاربیتے (پشتو زبان و ادب کی مخصوص اصناف) اور ضرب الامثال وجود میں آئے ہیں۔ پشتو زبان کے بڑے بڑے شاعروں نے اس دریا کا ذکر اپنے اشعار میں بڑی خو ب صورتی اور برجستگی کے ساتھ کیا ہے۔ جن میں خوش حال خان خٹک، علی خان، بیدل، پروفیسر محمد نواز طائر، محمد اسلام ارمانی اور دیگر قدیم و جدید شعرائے کرام شامل ہیں۔
موجودہ دور کے ایک مشہور پشتو شاعر نصراللہ خان نصر(مرحوم) کی ایک پشتو نظم کے چند اشعار کا درج ذیل ترجمہ سوات اور دریائے سوات کی تاریخی عظمت ، قدامت اور دریائے سوات کے کنارے جنم لینے والی تہذیبوں اور تمدنوں کے متعلق کیسی خوب صورت منظر کشی کرتا ہے:
سر زمینِ سوات تیری منفرد اک شان ہے
تیرا ذرہ ذرہ ہے تاریخ و تہذیبوں کا گھر
تیرے دامن میں ہے کھولی کتنی تہذیبوں نے آنکھ
تیرے ہر منظر میں جنت کی بہاریں جلوہ گر
تیری وادی میں دراوڑ بھی رہے، منگول بھی
آریاؤں کو ہے لایا حُسن تیرا کھینچ کر[/align:cad7122f49]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
موسم اور آب و ہوا
[align=justify:a803721171]فلک بوس پہاڑوں اور برف پوش چوٹیوں میں گھری ہوئی وادئ سوات کا موسم سال کے بیشتر مہینوں میں نہایت معتدل اور خوش گوار رہتاہے۔ زیریں سوات میں گرمیوں میںنہ ہی شدید گرمی پڑتی ہے اور نہ ہی سردیوں میں شدید سردی۔ تاہم جولائی اور اگست کے مہینوں میں گرمی کی حِدت زیادہ محسوس ہوتی ہے اس طرح جنوری اور فروری کے مہینوں میں شدید برف باری کی وجہ سے یخ بستہ ہوائیں سردی کی شدت کا احساس دلاتی ہیں۔[/align:a803721171]
درجۂ حرارت
[align=justify:a803721171]یہاں موسمِ گرما میںمئی سے ستمبر تک زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارت 37.77 اور اکتوبر سے مارچ تک 26.66 سنٹی گریڈ رہتاہے۔ سردی کے موسم میں کم سے کم درجۂ حرارت صفر سے منفی 8سنٹی گریڈ تک ہوتاہے۔ موسمِ بہار یعنی مارچ اور اپریل میں زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارت 24 اور کم سے کم 22 ڈگری سنٹی گریڈ تک رہتا ہے۔[/align:a803721171]
 

سندباد

لائبریرین
بارش
[align=justify:03d28901e9]وادئ سوات میں زیادہ تر بارشیں فروری، مارچ ، اپریل اور اگست میں ہوتی ہیں جس کی سالانہ اوسط32 سے 36 انچ بنتی ہے۔[/align:03d28901e9]
برف باری​
[align=justify:03d28901e9]برف باری زیادہ تر ملم جبہ، ایلم، شانگلہ، مدین، بشی گرام، بحرین، کالام، اتروڑ ، گبرال، اُوشو، مٹلتان اور مہوڈنڈ(اَپر سوات) میں ہوتی ہے جو ایک فٹ سے 12 فٹ تک ہوتی ہے۔ جب کہ بلند وبالا چوٹیوں پر اس سے بھی زیادہ برف پڑتی ہے۔[/align:03d28901e9]
سیاحت کاسیزن
[align=justify:03d28901e9]ویسے توسوات میں سال کے بارہ مہینے سیروسیاحت کے لئے موزوں ہیں تاہم مارچ سے اکتوبر تک اس کی سیر وسیاحت سے کما حقہ لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔[/align:03d28901e9]
جنوری، فروری
[align=justify:03d28901e9]ان مہینوں میں سوات میں شدید برف باری ہوتی ہے۔ اس لئے برف باری سے لطف اندوز ہونے کے لئے یہ موزوں ترین مہینے ہیں۔[/align:03d28901e9]
مارچ ،اپریل
[align=justify:03d28901e9]ان مہینوں میں آمدِ بہار کی وجہ سے پورے سوات میں سبزہ ہی سبزہ نظر آتا ہے درختوں کونئی زندگی ملتی ہے اور پھل پھولوں کی رنگینی اور خوش بُو ہرطرف پھیلی ہوئی نظر آتی ہے۔ پہاڑوں پر برف پگھلنے کی وجہ سے آبشاراور ندی نالے پورے جوبن میں ہوتے ہیں۔[/align:03d28901e9]
مئی، جون
[align=justify:03d28901e9]اِن مہینوں میں بارشیں زیادہ نہیں ہوتیں۔ اس لئے کیمپنگ اور ٹریکنگ کے لئے یہ موزوں ترین مہینے ہیں۔ سوات کی قدرتی جھیلوں تک پہنچنے کے لئے یہ مہینے نہایت مناسب ہیں۔[/align:03d28901e9]
جولائی، اگست
[align=justify:03d28901e9]سوات کے بعض پہاڑی علاقے بالخصوص بحرین، کالام اور گبرال وغیرہ مون سون کی ہواؤں کی زد سے بچے رہتے ہیں۔ اس لئے یہاں کا موسم خوش گوار اثرات مرتب کرتاہے۔[/align:03d28901e9]
ستمبر ، اکتوبر
[align=justify:03d28901e9]ان مہینوں میں پھلوں اور پھولوں کی وافر افراط ہوتی ہے۔ اُس موسم میں خنکی کا احساس ہوتاہے جو دل و دماغ کو لطف وسرشاری سے ہم کنار کرتا ہے۔[/align:03d28901e9]
نومبر،دسمبر
[align=justify:03d28901e9]موسم قدرے سرد اور خشک ہوتاہے۔ خزاں اور پت جھڑ سے پورا ماحول زرد سا محسوس ہوتاہے۔ان مہینوں میں دریائے سوات کا پانی نہایت شفاف اور نیلگوں نظر آتا ہے۔ تاہم اس موسم کا بھی ایک عجیب سا لطف اور انجانا سا مزہ ہوتاہے۔[/align:03d28901e9]
٭٭٭​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top