سوئے مے کدہ نہ جاتے تو کچھ اور بات ہوتی ۔ آغا حشر کاشمیری

فرخ منظور

لائبریرین
سوئے مے کدہ نہ جاتے تو کچھ اور بات ہوتی
وہ نگاہ سے پلاتے تو کچھ اور بات ہوتی

گو ہوائے گلستاں نے مرے دل کی لاج رکھ لی
وہ نقاب خود اٹھاتے تو کچھ اور بات ہوتی

یہ بجا کلی نے کھل کر کیا گلستاں معطر
اگر آپ مسکراتے تو کچھ اور بات ہوتی

یہ کھلے کھلے سے گیسو انہیں لاکھ تو سنوارے
مرے ہاتھ سے سنورتے تو کچھ اور بات ہوتی

گو حرم کے راستے سے وہ پہنچ گئے خدا تک
تری رہ گزر سے جاتے تو کچھ اور بات ہوتی
 
آپ درست کہتے ہیں۔ یہ قافیہ غزل کے دیگر قافیوں سے جدا ہے۔ گو ریختہ پر بھی یہ شعر یوں ہی لکھا ہے۔ شاید یہ اس غزل کا شعر ہی نہ ہو یا شاید یہ مصرع کچھ مختلف ہو۔ موجودہ صورت میں یہ اس غزل کا حصہ نہیں ہوسکتا۔ مطلع میں جاتے اور پلاتے استعمال کیا گیا ہے لہذا سنورتے ان کا ہم قافیہ نہیں۔

ہم نے باقی اشعار کو دیکھے بغیر یہ سمجھا کہ آپ شاید سنورتے کے ہجوں پر معترض ہیں۔
 
Top