سمی یوسف کی ایک صوفیانہ فارسی نشید: زِ عشقت آنچناں مستم

سمی یوسف کی صوفیانہ نشید ترجمے کے ساتھ۔
(نوٹ: یہ کلام ایرانی فارسی میں پڑھاگیا ہے جبکہ اس کا متن افغان دری طرز پر لکھا گیا ہے تاکہ مکمل طور پر سمجھ آسکے۔)

ز عشقت آنچنان مستم کہ دیگر خود نمے دانم
در این مستی بوم حیران و با این حال خاموشم

(تیرے عشق میں میں اتنا مست ہوگیا ہوں کہ مزید اپنے آپ کو نہیں پہچانتا۔ اس مستی میں حیران ہوں لیکن اس حال میں بھی خاموش ہوں)۔

نہ دوریت بود ممکن نہ آغوشِ پر از مہرت
ز بوئے زلف مشکینت ولے همواره مدهوشم

(تجھ سے دور ہونا ناممکن ہے، نہ تیری مہر و محبت سے پُر آغوش سے دوری ممکن ہے۔ لیکن تیرے مشکیں بالوں سے ہمیشہ مدہوش رہتا ہوں۔)

رخت بگشا اے ساقی کہ جانم در طلب باشد
بده یک جرعہ ازان باده برد هم دم و هم هوشم

(اپنا چہرہ دکھا کہ میری جان تیری طلب میں مصروف رہے۔ ایک گھونٹ اُس شراب سے دے جو میری سانس لے لے اور میرا ہوش اُڑا دے۔)

در این دیر پر از مهنت بسے سختی پذیرفتم
در این اندیشہ تا روزے شراب معرفت نوشم

(اس عبادت خانے میں ، جو کہ پریشانی سے بھری ہوئی ہے، اس خیال کے ساتھ میں نے بہت سختی برداشت کی ہے کہ ایک دن ضرور تیری معرفت کی شراب پیئوں گا)

در این عالم تو را دارم تو را دارم بہ تنهایی
وصالت غایت عمرم در این ره همچنان کوشم

(اس دنیا میں تو ہی میرے ساتھ ہے، تجھے ہی تنہائی میں رکھتا ہوں۔ تیرا وصال ہی میری زندگی کا مقصد ہے اور اس راستے میں مصروفِ جدوجہد ہوں)

بود شور لقائت همچو آتش در درون من
در این آتش ہمے سوزم ولے فانی و خاموشم

(تجھ سے ملنے کا شور میرے جسم میں آگ کی طرح مچ رہا ہے۔میں اس آگ میں جل رہا ہوں حالآنکہ میں فانی اور خاموش ہوں)
 
Top