جاسمن

لائبریرین
مزدوروں کے مسائل
ہڈیاں پگھلتی ہیں اک مراد پانے تک
داستانِ دنیا میں محنتوں کے قصے ہیں
ڈاکٹر عبدلاحد
 

جاسمن

لائبریرین
گزرتے سال کا نوحہ

دسمبر جانے والا ہے
دکھائوں گا
میں اس کے انت میں
کچھ تلخ تصویریں
کہیں بچے،بلکتے بھوک سے بچے
سسکتی آرزوئیں مامتائوں کی
کہیں فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے مزدور بیچارے
گدائوں کی صدائیں جن میں دردو سوز شامل ہے
کہیں ٹھٹھری ہوئی شب
اور
کچھ ٹوٹے ہوئے خیمے
جہاں انسان بستے ہیں
کہیں سیلاب کے مارے
کہیں حالات کے مارے
کہیں بے رحم رسموں کے
برستے تازیانےِ ہیں
کہیں بچوں کی محنت اور
منظر کارو کاری کے
بہت سی وارداتیں خودکشی کی ہیں
کہیں مظلوم ہے عورت
کوئی خاوند ستائی ہے
کہیں ہوتا تشدد ہے
کہیں آہیں کراہیں ہیں
کہیں اِفلاس کے مارے
کہیں زردار ہیں اسراف پر مائل
سیاسی شعبدہ بازوں کی مصنوعی اداکاری
عدالت کے سٹالوں میں لگی انصاف کی بولی
کہیں ایوان میں لگتے ہوئے سودے
کہیں چٹی دلالوں کا چلن تھانے کچہری میں
کوئی کچرے میں ہے روزی کا متلاشی
کسی کے ہاتھ میں بستہ
کسی کے ہاتھ میں کاسہ
کہیں اشیائے خوردو نوش
گوداموں میں پوشیدہ ہے
کہیں مہنگائی کا ماتم
کہیں منظر جرائم کے
انہیں اب کون روکے گا
نکل آیا ہے اک اہلِ قلم ارشؔد
مجاہد کی طرح لینے
قلم سے کام نیزے کا
وہ محوِ جنگ رہتا ہے
وہ لڑتا ہے مسلسل ان عذابوں سے
چلو تم بھی معاون اس کے بن جائو
ارشد تونسوی
 

جاسمن

لائبریرین
بے حسی/سماجی تنہائی
کیا بے حسی کا دور ہے لوگو کہ اب خیال
اپنے سوا کسی کا کسی کو نہیں رہا
عرفان ستار
 

جاسمن

لائبریرین
چائلڈ لیبر/مزدوروں کے مسائل
کبھی اس جھونپڑی میں شام کو چکر لگانا
جہاں پر ایک روٹی سو نوالے ہو رہے ہیں

ہری شاخیں سنہرے پھول کالے ہو رہے ہیں
ہماری آنکھ سے اوجھل اجالے ہو رہے ہیں

خوشی میں رقص کرتا یہ سمندر کھو رہا ہے
کنارے جیسے موجوں کے حوالے ہو رہے ہیں

قلم کی نوک پوروں سے الجھتی جا رہی ہے
ذرا دیکھو مرے ہاتھوں میں چھالے ہو رہے ہیں

آئرین فرحت
 

جاسمن

لائبریرین
آلودگی
پرندے قید میں رکھتے ہیں پیڑ کاٹتے ہیں
یہ اہل دنیا کی فطرت سے بدسلوکی ہے۔
روفی سرکار
 

یاسر شاہ

محفلین
سماجی مسئلہ نمبر آٹھ :خر دماغی

ہم نے کہا بہت اسے پر نہ ہوا یہ آدمی
زاہد خشک بھی کوئی سخت ہی خر دماغ ہے
درد
 

جاسمن

لائبریرین
تعصب
تعینات علاقہ برادری فرقے
سپاہ جہل کہیں ہو نشان ایک سا ہے
خالد یوسف
 

جاسمن

لائبریرین
چائلڈ لیبر
بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے
 

جاسمن

لائبریرین
غربت کی تیز آگ پہ اکثر پکائی بھوک
خوش حالیوں کے شہر میں کیا کچھ نہیں کیا
اقبال ساجد
 

جاسمن

لائبریرین
آلودگی
سحر کی خوشیاں منانے والو، سحر کے تیور بتا رہے ہیں
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی، کہ سانس لینا عذاب ہو گا
 

جاسمن

لائبریرین
غربت
بھوک بچوں پہ جھپٹتی ہے درندوں کی طرح
تھک بھی جاتا ہوں تو آرام سے خوف آتا ہے
 
Top