سلسلہ مشہور شخصیات کے یادگار واقعات کا

عین عین

لائبریرین
جب خواب اور تصور میں اُبھرتے مناظر سانحہ بن کر حقیقت پاگئے
تحریر: عارف عزیز
گزرتے شب و روز کے آنکھوں میں ڈوبتے منظر، اور سمٹتے ماجرے کو ہم میں سے چند افراد تماشے سے زیادہ خیال نہیں کرتے۔
لیکن جب ان کی زندگی غیرمعمولی اور پُراسرار واقعات کا دفتر بن جائے، تو ان کا جواز ڈھونڈنے اور بھید جاننے کی خواہش محسوس ہوتی ہے، جو وقت کے ساتھ اضطراب کی چادر اوڑھ لیتی ہے اور وہ انھیں نظر انداز نہیں کر پاتے!
معروف شاعرہ، اردو ڈائجسٹوں کی مقبول کہانی کار اور ٹیلی ویژن کی مشہور اسکرپٹ رائٹر سیما غزل کا قلمی سفر طویل عرصے پر محیط ہے۔ ان کا نام ادیبوں اور ڈراما نویسوں کی فہرست میں نمایاں ہے۔ ان کی یادوں کے ذخیرے کا بیش تر حصہ انوکھے، حیران کن اور پُراسرار واقعات پر مشتمل ہے۔ اس ضمن میں بات کرتے ہوئے انہوں نے اپنے دو خواب اس طرح بیان کیے:
’’میں نے دیکھا کہ بارش ہو رہی ہے اور میرے سامنے سمندر ہے، جو مکمل طور پر پُرسکون ہے۔ مجھے اس کا پانی صاف شفاف معلوم ہو رہا تھا اور میں اس منظر میں گویا ڈوب گئی تھی۔ پھر دیکھتی ہوں کہ سمندر کا پانی مجھ پر آرہا ہے، لیکن اب وہ انتہائی گدلا ہے۔‘‘
یہ خواب یہاں تمام ہو گیا، لیکن اگلے دن پھر ماجرے کا ایک نگر آباد ہوا، جس میں ایک حقیقت کا اشارہ تھا۔
بتاتی ہیں، ’’میں نے دیکھا کہ چاروں طرف کالے رنگ کے پہاڑ ہیں اور میں ان کے درمیان گویا گھری ہوئی ہوں۔ ایک پہاڑ ایسا ہے، جس کے پیچھے بپھرے ہوئے سمندر کا احساس ہوا۔ بڑی بہن میرے ساتھ ہیں اور میں سوچ رہی ہوں کہ وہاں سے ان کے ساتھ کسی طرح نکل جاؤں۔ اسی اثناء میں میری نظر پانچ باوردی فوجیوں پر پڑی، اور مجھے یہ احساس ہوا کہ وہ کسی آپریشن کی تیاری کررہے ہیں۔ یہ دیکھ کر میں نے باجی سے بھاگنے کے لیے کہا، لیکن ہمیں راستہ سُجھائی نہیں دے رہا تھا۔ بہرحال، ہم نے ایک سمت میں قدم بڑھا دیے، لیکن واضح راستہ نہ پا کر اسی جگہ لوٹ آئے، جہاں وہ فوجی نظر آئے تھے، لیکن اب وہ وہاں نہیں تھے۔ خواب میں باجی سے ان کے بارے میں پوچھتی ہوں تو جواب ملتا ہے: وہ آپریشن پر چلے گئے!
کب، کہاں، کیسے! خواب میں یہ واضح نہ ہو سکا۔
وہ مزید بتاتی ہیں،’’اتنے میں ایک کالے پہاڑ پر میری نظر پڑی، جس میں پٹ سَن کے پانچ دروازے بنے ہوئے تھے، جن کا رنگ ’سی گرین‘ تھا اور انھیں زپ لگا کر بند کیا گیا تھا۔ یہ دیکھنے کے بعد ہم نے وہاں سے نکلنے کی کوشش کی اور ایک سمت میں آگے گئے تو وہاں شدید بارش ہو رہی تھی۔ اس دوران جب ہم ایک پہاڑ کے ساتھ مُڑنے لگے تو میری نظر باریک اور پیلے رنگ کی ریت کے ایک زمینی ٹکڑے پر پڑی، جس کی لمبائی اور چوڑائی کسی قبر کے برابر ہو سکتی تھی!‘‘
’’خواب میں اپنے آپ کو اس بات پر الجھن اور حیرت کا شکار محسوس کرتی ہوں کہ اتنی تیز بارش میں یہ ٹکڑا کیسے خشک رہ گیا۔ پھر میں باجی کا ہاتھ تھام کر ان سے کہتی ہوں: بھاگو، زلزلہ آرہا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ خواب تمام ہو گیا۔‘‘
سیما غزل حقیقی دنیا میں اپنی مصروفیات میں گُم ہو گئیں، لیکن اس عرصے میں وہ غیرارادی طور پر اپنے خواب سے جُڑی رہیں، اور یہ تعلق ایک افسوس ناک اور غم آگیں تعبیر پر ٹوٹ ضرور گیا، لیکن حیرت انگیز یاد کے طور انھیں آج بھی ستاتا ہے۔
سیما غزل نے بتایا، ’’اس خواب کو قریب تین ماہ بیتے کہ ایک روز میرے شوہر کی طبیعت خراب ہو گئی، ڈاکٹروں نے انجیوگرافی کے بعد بائی پاس کا کہا۔ اس سلسلے میں مقررہ دن پر اپنے شوہر کو اسپتال لے کر گئی تو وہاں میری نظر ایسے پانچ افراد پر پڑی جو سی گرین رنگ کا گاؤن پہنے ہوئے تھے۔ تھوڑے دن بعد میرے شوہر انتقال کر گئے اور اس طرح میرے ذہن کے پردے پر اس خواب کا ایک منظر واضح ہو گیا!‘‘
خواب میں نظر آنے والا زمین کا ایک ٹکڑا، جس کی لمبائی اور چوڑائی کسی قبر کے برابر تھی، اس تیز بارش میں کیسے خشک تھا؟ ابھی سیما غزل پر یہ بھید نہیں کُھلا تھا، البتہ خواب میں نظر آنے والے پانچ فوجیوں اور پہاڑ میں بنے سی گرین رنگ کے دروازوں کی حقیقت انھیں ضرور معلوم ہو چکی تھی۔ تاہم مزید حیرت ان کی منتظر تھی۔
سیما غزل کے شوہر عراق کے شہر کربلا کے رہنے والے تھے، جنھوں نے اپنی زندگی میں خواہش ظاہر کی تھی کہ ان کی تدفین کربلا میں کی جائے۔ شوہر کے انتقال پر سیما غزل نے ان کی وصیت پر عمل کیا اور میت لے کر عراق روانہ ہوئیں۔
سیما غزل نے بتایا،’’میں اپنے شوہر کی میت لے کر بغداد پہنچی، اور وہاں سے کربلا گئی، اور اسی جگہ میرے بدصورت خواب کا ایک اور حصّہ مکمل ہوا اور میں حیرت زدہ رہ گئی۔ کربلا میں ہر طرف ریت پھیلی ہوئی تھی، پیلی اور باریک ریت، جیسی خواب میں خشک رہ جانے والے زمین کے اُس ٹکڑے کی تھی۔‘‘
وہ خواب ایک دُکھ بھرا اشارہ تھا، جو ایک تکلیف دہ یاد بن گیا، لیکن ایسے پراسرار خواب اور کسی ماجرے سے قبل اُس کا احساس اب سیما غزل کے لیے نئی بات نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ذات اور اپنوں سے متعلق بہت سے معاملات کے بارے میں پہلے سے پراسرار طریقے سے جان لیتی ہیں۔
انھوں نے ایک اور حیرت انگیز واقعہ کچھ اس طرح سنایا،’’ان دنوں میں گلشنِ معمار میں رہتی تھی اور سہراب گوٹھ سے ویگن کے ذریعے گھر اور دفتر آنا جانا ہوتا تھا۔ ایک دن اپنے شوہر کے ساتھ خریداری کے بعد سہراب گوٹھ پہنچی اور ہم دونوں وہاں کھڑی ہوئی ایک ویگن میں بیٹھ گئے۔ ہمیں ڈرائیور کی پشت پر موجود سیٹ ملی۔ پہلے میرے شوہر بیٹھے اور ان کے بعد اسی سیٹ پر کھڑکی کے ساتھ میں بھی بیٹھ گئی۔ شام کے پانچ بج رہے تھے اور وہ گاڑی مزید مسافروں کے انتظار میں کھڑی ہوئی تھی۔‘‘
’’میں اس دن بہت تھکی ہوئی تھی۔ ویگن چلنے کا انتظار کرتے ہوئے میرے ذہن کے پردے پر گویا ایک فلم سی چلنے لگی۔ خیالات کی بھرمار اور ذہن میں تصویریں بننے کا سلسلہ مجھے ہمیشہ ہی پریشان رکھتا ہے۔ اب اگرچہ میں اس کی عادی ہو چکی ہوں، لیکن جب کوئی خیال حقیقت کا روپ دھارتا ہے تو سوچتی ہوں کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ خیر۔۔۔، میں نے دیکھا ہمارے بعد ویگن میں ایک خاتون آئی ہیں، جنھیں جگہ دینے کے لیے میں آگے کی طرف سرک گئی۔ وہ عورت میری جگہ پر کھڑکی کے ساتھ بیٹھ گئی اور اب میں اپنے شوہر اور اس عورت کے درمیان بیٹھی ہوئی ہوں۔ چند لمحوں کے بعد ہماری ویگن اسٹارٹ ہوئی اور پھر سفر شروع ہو گیا۔‘‘
سیما غزل نے وضاحت کی کہ وہ اُس وقت نیند میں نہیں تھیں، بلکہ ایک عجیب کیفیت ان پر طاری تھی اور ان کا چشمِ تصور واقعات ترتیب دے رہا تھا:
’’میں نے دیکھا کہ معمار کمپلیکس سے تھوڑا پہلے اچانک ایک بس ہماری ویگن کے نہایت قریب آگئی۔ ہمارے ڈرائیور کو جب یہ احساس ہوا کہ وہ بس انتہائی قریب ہے، لیکن ویگن کو دیکھ کر اپنی جگہ سے ذرہ برابر نہیں ہل رہی تو اس نے ہارن دیتے ہوئے، الٹے ہاتھ پر تیزی سے اسٹیئرنگ گھمایا اور اس طرح ویگن کا سامنے والا حصہ تو بچ گیا، لیکن ویگن کی ایک سائیڈ اس بس سے ٹکرا گئی اور حادثے میں کھڑکی کی طرف بیٹھی ہوئی وہ عورت زخمی ہو گئی، جسے میں نے اپنی جگہ دی تھی۔ اُس وقت تک یہ سب میرے چشمِ تصور کا ایک تماشا تھا، اور بس!‘‘
’’میں خیالات کی دنیا سے باہر نکلی تو دیکھا کہ ایک عورت ویگن میں اپنے لیے سیٹ کی تلاش میں نظریں دوڑا رہی ہے۔ میں اپنے شوہر کی طرف سرک گئی اور وہ میرے برابر میں بیٹھ گئی۔ ہمارا سفر شروع ہوا اور کم و بیش پانچ منٹ بعد ہماری گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا، اور یہ ٹھیک اسی طرح ہوا، جیسا خیالات کی رو میں بہتے ہوئے اپنے ذہن کے پردے پر دیکھ چکی تھی۔ حادثے کے بعد میں یہ سوچ کر کانپ اٹھی کہ تھوڑی دیر پہلے ہی میں اس عورت کی جگہ تھی۔
وہ کیا تھا، مجھے نہیں معلوم، لیکن میں آج بھی اس حادثے کا اثر اپنے دل و دماغ پر محسوس کرتی ہوں۔‘‘
سیما غزل ایسے متعدد پُراسرار اور محیرالعقول واقعات کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی عادی ہو چکی ہیں۔ کبھی خواب اور کہیں بیداریِ حس انھیں بتاتی ہے کہ اگلے چند لمحوں میں کیا ہوگا۔ تاہم اب وہ اس معاملے کی کھوج کرنے کا خیال ذہن سے نکال چکی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ متعدد بار مخفی علوم کے ماہرین سے رابطہ کرکے ان واقعات کو زیرِبحث لانے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور کوئی ماہر انھیں اطمینان بخش جواب نہیں دے سکا۔
وہ کہتی ہیں،’’میں جن، بھوت اور جادو ٹونے پر یقین نہیں رکھتی۔ توہم پرست نہیں ہوں، نہ ہی عام عورتوں کی طرح جادو اور آسیب کی باتوں کو اہمیت دی ہے۔ میں حقیقت پسند ہوں، لیکن یہ کیا ہے، میں اسے کیا نام دوں۔۔۔؟؟؟‘‘
http://www.express.pk/story/32973/
 
Top