مریم افتخار
محفلین
ہر نیا زخم مِرا درد بڑھا دیتا ہے
چارہ گر کیوں نہ مجھے آ کے دوا دیتا ہے؟
ایک تاریک سے زنداں کے حوالے ہو گیا
میرا بچپن جو مُجھے اب بھی صدا دیتا ہے
میری بستی کا یہ دستور نرالا ہے جو
ہر تہی دست کے تیشے کو جلا دیتا ہے
شغل دھرتی کے جوانوں کے تو ہیں ایسے کہ بس
ہر کوئی شغل ذرا اور سُلا دیتا ہے
اپنے اندر ہی بھٹک جاتا ہے وہ انساں جو
بندگی ایک خدائی کی بھلا دیتا ہے
چارہ گر کیوں نہ مجھے آ کے دوا دیتا ہے؟
ایک تاریک سے زنداں کے حوالے ہو گیا
میرا بچپن جو مُجھے اب بھی صدا دیتا ہے
میری بستی کا یہ دستور نرالا ہے جو
ہر تہی دست کے تیشے کو جلا دیتا ہے
شغل دھرتی کے جوانوں کے تو ہیں ایسے کہ بس
ہر کوئی شغل ذرا اور سُلا دیتا ہے
اپنے اندر ہی بھٹک جاتا ہے وہ انساں جو
بندگی ایک خدائی کی بھلا دیتا ہے