سلام

رباب واسطی

محفلین
سید اقبال رضوی شارب

غمِ شبّیر پہ صادر ہوئے فتوے کیا کیا
ہم نے دیکھے ہیں زمانے میں تماشے کیا کیا

سبطِ احمد کی شہادت پہ رہیں مہر بہ لب
اپنا مر جائے تو دیتے ہیں دلاسے کیا کیا

کربلا دیں کے لئے ایک چمکتا سورج
چند اسلاف نے ڈلوائے ہیں پردے کیا کیا

مثل حیدر کوئی ہم شکلِ پیمبر کوئی
حق نے مولا کو دیے نسل میں تحفے کیا کیا

کملی والے کو ملا کیسے شہادت کا شرف
کہتے ہیں سرِّ شہادت میں صحیفے کیا کیا

حیف بوذر سے صحابی کو کیا شہر بدر
سطوتِ شاہی نے رسوا کیے سچّے کیا کیا

وقتِ آخر نہ دیا خامہ و قرطاس تلک
ہائے امّت نے دکھائے ہیں قرینے کیا کیا

لاش پر لاش اٹھاتے رہے دن بھر سرور
کربلا نے دیے شبّیر کو صدمے کیا کیا

غازی عبّاس نہ جاتے سوئے دریا کیونکر
خشک کوزوں نے دیے انکو سندیسے کیا کیا

ہائے سجّاد کے تلووں میں وہ صحرا کی تپش
پھوٹ کر روتے رہے پاؤں کے چھالے کیا کیا

علی اکبر سا پسر ثانیِ حیدر اصغر
دیکھو پیری میں چھنے شہ سے سہارے کیا کیا

موت کس روپ میں دیگی تجھے دستک شارب
اسکے آنے کے بہانے ہیں نہ جانے کیا کیا
 
Top