سفر ہے شرط

با ادب

محفلین
سفر ہے شرط

یہ تپتے جون کی ایک سنہری شام کی بات ہے جب عنفوان شباب میں ہم مہم جویانہ طبیعت کے حامل تھے ۔
دن بھر شدید لُو کے تھپیڑے سہنے کے بعد اُس شام جب بادل آسمان پہ اُمڈ آئے تو پورے دن کی تھکن اتارنے کا اسلام آباد کی سڑکوں کو ماپنے کے علاوہ بہترین طریقہ اور کیا ہوسکتا تھا ...

ہم نے وہی مہم جویانہ نگاہ چھوٹے بھائی پہ ڈالی جو ہم مزاج بھی تھا اور مجھ سے بڑھ کر احمق بھی ...

چلے تو جائیں باجی لیکن ابو سے بائیک کی چابی کون لے گا؟ ؟
یہ وہ جملہ ہے جو ہمارے شوق کے غبارے میں سے ہوا نکالنے کو کافی ہوا کرتا ہے لیکن ایک باجی ہی تو تھیں ابو سے چابی لے لینے والی ...

اگر تم وعدہ کرو جہاں میں کہو‍ں وہاں چلو گے تو میں چابی لے کے ابھی آتی ہوں...
اچھا باجی یار وعدہ ...

زمانہ طالب علمی کا زمانہ وہ زمانہ ہوتا ہے جب آپ کی جیبیں کھنگال لیکن طبیعیت مہم جویانہ ہوا کرتی ہے ۔

پوری شام ہم نے اسلام آباد کی تمام سڑکوں کا طائرانہ جائزہ لیا ... بھٹکتے بھٹکتے دامن کوہ تک گئے .. اس سے آگے جانے میں بھی ہمیں کوئی دقت نہ ہوتی اگر راستے میں درجنوں کی تعداد میں موجود بندر نہ پائے جاتے ....

اس بندر راہ سے واپس ہو کر جانے کس کس سیدھی راہ کو چھوڑ کر ہم لوک ورثہ کی سڑک سے ہوتے ہوئے آگے چلے گئے ...

ملگجا اندھیرا چار سو پر پھیلائے رات کی گھور اندھیری تاریکی کو پکار رہا تھا .. مغرب کا وقت بیت چکا تھا .. بالکل سیدھی سڑک پہ چلتے ہم ایک موڑ غلط کاٹ چکے تھے .......
اس کا اندازہ تب ہوا جب ہم جھاڑیوں میں پھنسے سنسان ویران راستے پہ چلتے چلے جا رہے تھے ....

ٹرٹل ... ہم کہاں ہیں؟ ؟
باجی مجھے خود بھی علم نہیں یہ کونسی جگہ ہے ...
کیا بک رہے ہو بھائی .. ابو نے جان لے لینی ہے رات ہونے والی ہے ....
باجی ہم راستہ بھول کے کسی جنگل میں آن پھنسے ہیں اور بائیک میں پٹرول بھی ختم ہونے والا ہے ...اگر ہمیں یہاں سے نکلنے کا راستہ نہ ملا تو کسی بھی وقت ہم اسلام آباد کے تگڑے پِگز کے لیئے آج کا بہترین ڈنر ہونگے ... آپ کو تو شاید بریک فاسٹ کے لیئے بھی رکھ لیں ...
ایسا ہے کیا؟ ؟
بالکل ایسا ہی ہے .. اسلیے چپکی بیٹھ کر دعا مانگو کہ آج رات کوئی معجزہ ہو جائے ..کیونکہ یہاں سے اگر بچ کر نکل بھی گئے تو ابا حضور کے خاندانی جلال کے ہاتھوں دار فانی سے ضرور رخصت ہونگے ...
ڈرا رہے ہو؟ ؟
آپ ڈرتی بھی ہیں؟ ؟
اور ہم نے سوچا کاش بھائی یہ مکالمہ تم گھر میں کرتے پھر ڈر اور خوف کا فیصلہ ہوتے .... لیکن اب یہ گھر نہیں تھا اور ہم فقط چاند اور موٹر سائیکل کی روشنی میں کسی اندھیری کھائی کی جانب سفر کر رہے تھے ۔
سنو!
جی ...
کہتے ہیں صراط مستقیم سیدھے راستے کو کہتے ہیں ....
اسکا مجھے علم ہے ...
اور جو سیدھے راستے پہ چلتے ہوئے غلط موڑ مڑ جائے تو وہ جنگل میں پھنس جاتا ہے ..
جیسے ہم پھنس گئے ..
ہاں ..جیسے ہم پھنس گئے ...
اب جو بھی جنگل کی ہولناکیوں سے ڈر کر مر جاتا ہے وہ دوبارہ کبھی اس سیدھی راہ پہ لوٹ کے نہیں آتا ... صراط مستقیم کو دوبارہ پانے کے لیئے اپنے حوصلے مجتمع کر کے سفر جاری رکھنا ضروری ہوتا ہے ...تم بس فوکس کرو کہ ہم نے ایسی سڑک پہ پہنچنا ہے جہاں ٹریفک ہو .. کان لگاؤ غور سے سنو اتنے سناٹے میں ٹریفک کی آوازیں جس سمت سے آرہی ہوں اُس سمت میں سفر شروع کر دو۔
اور پٹرول ختم ہو گیا تو ...
تو بھی کوئی بات نہیں ہم پیدل چل لیں گے لیکن جنگل سے نکل کے اپنے راستے پہ پہنچنا ہے ورنہ کبھی بھی گھر نہیں پہنچ پائیں گے اور کسی درندے کی خوراک بن جائیں گے ...چلتے رہو رکو مت ...
کہ چلتے رہنا زندگی کا حاصل ہے ..اگر منزل پہ پہنچنا ہے تو رکنا نہیں .. منزل پہ فوکس رکھیے ان اسباب کو نظر میں رکھیے جنھیں تھام کر آپ اپنی کھوئی ہوئی راہ پا لیں گے پھر یقیناً آپ اپنی منزل ضرور پا لیں گے ..

دور بہت دور اسلام آباد کی جگمگاتی روشنیاں نظر آنے لگیں ...
خوف ماند پڑنے لگا ...اُمید جاگ اُٹھی تو بائیک کی رفتار بڑھ گئی ....
ایسا ہی تو ہوتا ہے جب صراط مستقیم پہ چلتے کوئی غلط موڑ مڑ جائیں تو پھر جد وجہد کرنی پڑتی ہے ..ہمت مجتمع کر کے سفر جاری رکھنا پڑتا ہے وگرنہ ہم کبھی بھی واپس اپنے راستے پہ پہنچ نہیں پاتے
اور جب راستہ کھو جاتا ہے تو منزل کبھی نہیں ملتی ..
اُس رات ہم نے راستے کو پا لیا اور ہم گھر پہنچ گئے ...
ابا جی نے کہا اللہ کا شکر ہے تم گھر پہنچ آئے بعض اوقات بلا وجہ کے خوف ہمیں دہلائے رکھتے ہیں اور ہم اس ڈر سے بھی منزل تک پہنچ نہیں پاتے کہ وہاں کوئی منتظر نہیں ہوگا اور اگر ہوگا بھی تو غضبناک ...
لیکن ہر دفعہ ایسا ہو یہ ضروری تو نہیں ...
ہم نے ٹرٹل کو دیکھا وہ مسکرا رہا تھا ...

سمیرا امام
 

فاخر رضا

محفلین
سفر ہے شرط

یہ تپتے جون کی ایک سنہری شام کی بات ہے جب عنفوان شباب میں ہم مہم جویانہ طبیعت کے حامل تھے ۔
دن بھر شدید لُو کے تھپیڑے سہنے کے بعد اُس شام جب بادل آسمان پہ اُمڈ آئے تو پورے دن کی تھکن اتارنے کا اسلام آباد کی سڑکوں کو ماپنے کے علاوہ بہترین طریقہ اور کیا ہوسکتا تھا ...

ہم نے وہی مہم جویانہ نگاہ چھوٹے بھائی پہ ڈالی جو ہم مزاج بھی تھا اور مجھ سے بڑھ کر احمق بھی ...

چلے تو جائیں باجی لیکن ابو سے بائیک کی چابی کون لے گا؟ ؟
یہ وہ جملہ ہے جو ہمارے شوق کے غبارے میں سے ہوا نکالنے کو کافی ہوا کرتا ہے لیکن ایک باجی ہی تو تھیں ابو سے چابی لے لینے والی ...

اگر تم وعدہ کرو جہاں میں کہو‍ں وہاں چلو گے تو میں چابی لے کے ابھی آتی ہوں...
اچھا باجی یار وعدہ ...

زمانہ طالب علمی کا زمانہ وہ زمانہ ہوتا ہے جب آپ کی جیبیں کھنگال لیکن طبیعیت مہم جویانہ ہوا کرتی ہے ۔

پوری شام ہم نے اسلام آباد کی تمام سڑکوں کا طائرانہ جائزہ لیا ... بھٹکتے بھٹکتے دامن کوہ تک گئے .. اس سے آگے جانے میں بھی ہمیں کوئی دقت نہ ہوتی اگر راستے میں درجنوں کی تعداد میں موجود بندر نہ پائے جاتے ....

اس بندر راہ سے واپس ہو کر جانے کس کس سیدھی راہ کو چھوڑ کر ہم لوک ورثہ کی سڑک سے ہوتے ہوئے آگے چلے گئے ...

ملگجا اندھیرا چار سو پر پھیلائے رات کی گھور اندھیری تاریکی کو پکار رہا تھا .. مغرب کا وقت بیت چکا تھا .. بالکل سیدھی سڑک پہ چلتے ہم ایک موڑ غلط کاٹ چکے تھے .......
اس کا اندازہ تب ہوا جب ہم جھاڑیوں میں پھنسے سنسان ویران راستے پہ چلتے چلے جا رہے تھے ....

ٹرٹل ... ہم کہاں ہیں؟ ؟
باجی مجھے خود بھی علم نہیں یہ کونسی جگہ ہے ...
کیا بک رہے ہو بھائی .. ابو نے جان لے لینی ہے رات ہونے والی ہے ....
باجی ہم راستہ بھول کے کسی جنگل میں آن پھنسے ہیں اور بائیک میں پٹرول بھی ختم ہونے والا ہے ...اگر ہمیں یہاں سے نکلنے کا راستہ نہ ملا تو کسی بھی وقت ہم اسلام آباد کے تگڑے پِگز کے لیئے آج کا بہترین ڈنر ہونگے ... آپ کو تو شاید بریک فاسٹ کے لیئے بھی رکھ لیں ...
ایسا ہے کیا؟ ؟
بالکل ایسا ہی ہے .. اسلیے چپکی بیٹھ کر دعا مانگو کہ آج رات کوئی معجزہ ہو جائے ..کیونکہ یہاں سے اگر بچ کر نکل بھی گئے تو ابا حضور کے خاندانی جلال کے ہاتھوں دار فانی سے ضرور رخصت ہونگے ...
ڈرا رہے ہو؟ ؟
آپ ڈرتی بھی ہیں؟ ؟
اور ہم نے سوچا کاش بھائی یہ مکالمہ تم گھر میں کرتے پھر ڈر اور خوف کا فیصلہ ہوتے .... لیکن اب یہ گھر نہیں تھا اور ہم فقط چاند اور موٹر سائیکل کی روشنی میں کسی اندھیری کھائی کی جانب سفر کر رہے تھے ۔
سنو!
جی ...
کہتے ہیں صراط مستقیم سیدھے راستے کو کہتے ہیں ....
اسکا مجھے علم ہے ...
اور جو سیدھے راستے پہ چلتے ہوئے غلط موڑ مڑ جائے تو وہ جنگل میں پھنس جاتا ہے ..
جیسے ہم پھنس گئے ..
ہاں ..جیسے ہم پھنس گئے ...
اب جو بھی جنگل کی ہولناکیوں سے ڈر کر مر جاتا ہے وہ دوبارہ کبھی اس سیدھی راہ پہ لوٹ کے نہیں آتا ... صراط مستقیم کو دوبارہ پانے کے لیئے اپنے حوصلے مجتمع کر کے سفر جاری رکھنا ضروری ہوتا ہے ...تم بس فوکس کرو کہ ہم نے ایسی سڑک پہ پہنچنا ہے جہاں ٹریفک ہو .. کان لگاؤ غور سے سنو اتنے سناٹے میں ٹریفک کی آوازیں جس سمت سے آرہی ہوں اُس سمت میں سفر شروع کر دو۔
اور پٹرول ختم ہو گیا تو ...
تو بھی کوئی بات نہیں ہم پیدل چل لیں گے لیکن جنگل سے نکل کے اپنے راستے پہ پہنچنا ہے ورنہ کبھی بھی گھر نہیں پہنچ پائیں گے اور کسی درندے کی خوراک بن جائیں گے ...چلتے رہو رکو مت ...
کہ چلتے رہنا زندگی کا حاصل ہے ..اگر منزل پہ پہنچنا ہے تو رکنا نہیں .. منزل پہ فوکس رکھیے ان اسباب کو نظر میں رکھیے جنھیں تھام کر آپ اپنی کھوئی ہوئی راہ پا لیں گے پھر یقیناً آپ اپنی منزل ضرور پا لیں گے ..

دور بہت دور اسلام آباد کی جگمگاتی روشنیاں نظر آنے لگیں ...
خوف ماند پڑنے لگا ...اُمید جاگ اُٹھی تو بائیک کی رفتار بڑھ گئی ....
ایسا ہی تو ہوتا ہے جب صراط مستقیم پہ چلتے کوئی غلط موڑ مڑ جائیں تو پھر جد وجہد کرنی پڑتی ہے ..ہمت مجتمع کر کے سفر جاری رکھنا پڑتا ہے وگرنہ ہم کبھی بھی واپس اپنے راستے پہ پہنچ نہیں پاتے
اور جب راستہ کھو جاتا ہے تو منزل کبھی نہیں ملتی ..
اُس رات ہم نے راستے کو پا لیا اور ہم گھر پہنچ گئے ...
ابا جی نے کہا اللہ کا شکر ہے تم گھر پہنچ آئے بعض اوقات بلا وجہ کے خوف ہمیں دہلائے رکھتے ہیں اور ہم اس ڈر سے بھی منزل تک پہنچ نہیں پاتے کہ وہاں کوئی منتظر نہیں ہوگا اور اگر ہوگا بھی تو غضبناک ...
لیکن ہر دفعہ ایسا ہو یہ ضروری تو نہیں ...
ہم نے ٹرٹل کو دیکھا وہ مسکرا رہا تھا ...

سمیرا امام
بہت اچھا لکھا ہے. سبق آموز
کیا باادب اور سمیرا امام ایک ہی شخصیت ہے
 

عرفان سعید

محفلین
ابا جی نے کہا اللہ کا شکر ہے تم گھر پہنچ آئے بعض اوقات بلا وجہ کے خوف ہمیں دہلائے رکھتے ہیں اور ہم اس ڈر سے بھی منزل تک پہنچ نہیں پاتے کہ وہاں کوئی منتظر نہیں ہوگا اور اگر ہوگا بھی تو غضبناک ...
لیکن ہر دفعہ ایسا ہو یہ ضروری تو نہیں ...
سو آنے درست بات کی ہے آپ نے۔
 

عرفان سعید

محفلین
سو آنے درست بات کی ہے آپ نے۔

چوراسی آنے اضافی خرچ کر دیئے بھائی۔
ہمارے پاس تدوین کا اختیار تھا لیکن اس بلا ارادہ سہو پر آپ کے چوراسی آنے جو غضب ڈھا رہے ہیں، اس کی وجہ سے اس ارادے سے دستبردار ہوئے۔
 
Top