مکمل سعادت حسن منٹو کی یاد میں از شاہد احمد دہلوی

فرخ منظور

لائبریرین
سعادت حسن منٹو کی یاد میں
از شاہد احمد دہلوی
دبلا ڈیل، سوکھے سوکھے ہاتھ پاؤں ، میانے قد، چمپئی رنگ، بے قرار آنکھوں پر سنہرے فریم کی عینک ، کریم کلر کا سوٹ ، سُرخ چُہچہاتی ٹائی ، ایک دھان پان سا نوجوان مجھ سے ملنے آیا۔ یہ کوئی چوبیس پچیس سال اُدھر کا ذکر ہے ۔ بڑا بے تکلف، تیز، طرّار، چرب زبان۔ بولا ۔ ’’میں منٹوؔ ہوں ، سعادت حسن۔ آ پ نے ہمایوں ؔ کا روسی ادب نمبر دیکھا ہو گا۔ اب ساقیؔ کا فرانسیسی ادب نمبر نکالنا چاہتا ہوں ۔‘‘
پہلی ہی ملاقات میں اس کی یہ ۔ ضرورت سے بڑھی ہوئی بے تکلفی طبعتب کو کچھ ناگوار گزری۔ میں نے اُس کا پانی اتارنے کے لئے پوچھا ۔ ’’آپ کو فرانسیسی آتی ہے ؟‘‘
بولا ۔ ’’نہیں !‘‘
میں نے کہا ’’تو پھر آپ کیا کر سکیں گے ؟‘‘
منٹو نے کہا۔ ’’انگریزی سے ترجمہ کر کے میں آپ کا یہ خاص نمبر ایڈٹ کروں گا۔‘‘ میں نے کہا ’’اپنا پرچہ تو میں خود ہی ایڈٹ کرتا ہوں ۔ پھر ساقیؔ کے چار خاص نمبر مقرر ہیں ۔ ان کے علاوہ اور کوئی نمبر فی الحال شائع نہیں ہو سکتا۔‘‘
منٹو نے دال گلتی نہ دیکھی تو فوراً اس موضوع کو ہی ٹال دیا۔ اور رخصت ہونے سے پہلے مجھ پر واضح کر گیا کہ اگر کسی مضمون کی ضرورت ہو تو معاوضہ بھیج کر اُس سے منگایا جا سکتا ہے ۔
اس زمانے میں منٹو ترجمہ ہی کیا کرتا تھا۔ اُس کی کتاب ’’سرگزشتِ اسیر‘‘ چھپ کر آئی تھی۔ منٹو سے کبھی خط و کتابت ہوتی رہی۔ اور اس کے چند مضامین ساقیؔ میں چھپے بھی ، مگر قلبی تعلقات اُس سے قائم نہ ہو سکے مجھے یہی گمان رہا کہ یہ شخص بہت بہکا ہوا ہے ، شیخی خُو ر اور چھچھورا سا آدمی ہے ۔ اس میں ’’میں ‘‘ سما گئی ہے ۔ زمانے کی چُھری تلے آئے گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔
معلوم ہو ا کہ بڑا کٹّر کمیونسٹ ہے اور مُسلم یونیورسٹی سے اسے یہ کہہ کر نکال دیا گیا ہے کہ تم کو دق ہے ۔ علی گڑھ سے نکالے جانے کے بعد وہ اپنے گھر امرت سر چلا گیا۔ گھر والے بھی اس کے باغیانہ خیالات سے نالاں تھے ، اس لیے اُن سے بھی بگاڑ ہو گیا تھا، امرتسر میں اپنے چند ہم خیال دوستوں کے ساتھ اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں ۔ ان کے لیڈر کمپنی کی حکومت ‘‘ والے باری (علیگ) تھے ۔ مگر یہ سب لوگ تو کچھ دبے دبے سے رہے ، اس لئے حکومت کی قید و بند سے بچے رہے ۔ پھر باریؔ رنگون چلے گئے اور میں بمبئی جا کر اخبار ’’مصّور ‘‘ میں نوکر ہو گیا۔
کئی سال گزر گئے ۔منٹو سے ایک آدھ ملاقات اور ہوئی ، مگر دل کی جواری ان سے اب بھی نہ کھلی۔ جیسا اور بہت سے ۔۔۔ ۔ مضمون نگاروں سے تعلق تھا اُن سے بھی رہا۔ یہاں تک کہ پچھلی بڑی جنگ کے زمانے میں وہ دلّی ریڈیو میں آ گئے ۔ اور اب جو ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے چھوٹتے ہی کہا۔
’’اب میں آپ سے معاوضہ نہیں لوں گا۔‘‘
میں نے پوچھا۔ ’’کیوں ؟‘‘
بولے ’’معاوضہ میں اس لیے لیتا تھا کہ مجھے پیسوں کی ضرورت رہتی تھی۔‘‘
دلّی ریڈیو اسٹیشن پر جنگ کے زمانے میں ادیبوں اور شاعروں کا بڑا اچھا جم گھٹا ہو گیا تھا۔احمد شاہ بخاری (پطرس) کنٹرولر تھے ، خبروں کے شعبے میں چراغ حسن حسرتؔ اور ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری پروگرام کے شعبے میں ن۔م۔راشد۔ انصار ناصری، محمود نظامی اور کرشن چندر ہندی کے مسودہ نویس اوپندر ناتھ اشکؔ اور اردو کے منٹو اور میراجی تھے ۔ اس زمانے میں منٹو کو بہت قریب سے دیکھنے کا مجھے موقع ملا۔
منٹو نے کچھ روپے جمع کر کے دو ٹائپ رائٹر خرید لئے ، ایک انگریزی کا اور ایک اردو کا۔ اردو کا ٹائپ رائٹر وہ اپنے ساتھ ریڈیو اسٹیشن روزانہ لاتے تھے ۔ منٹوؔ کے ذمہ جتنا کام تھا اس سے وہ کہیں زیادہ کرنے کی خواہش مند رہتے تھے ۔روزانہ دو تین ڈرامے اور فیچر لکھ دیتے ۔ لکھنا تو انہوں نے بالکل چھوڑ ہی دیا تھا، کاغذ ٹائپ رائٹر پر چڑھایا۔ اور کھٹا کھٹ ٹائپ کرتے چلے جاتے ۔ فیچر لکھنا اس زمانے میں بڑا کمال سمجھا جاتا تھا، مگر منٹو کے لیے یہ بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ ذرا سی دیر میں فیچر ٹائپ کر کے بڑی حقارت سے پھینک دیا جاتا کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’ لو، یہ رہا تمہارا فیچر!‘‘
منٹو کی اس تیز رفتاری پر سب حیران ہوتے تھے ۔ چیز ایسی جچی تلی ہوتی کہ کہیں اُنگلی دھرنے کی اُس میں گنجائش نہ ہوتی۔
دلّی آنے کے بعد منٹو کی افسانے نگاری کا دورِ جدید شروع ہوا۔ انہوں نے طبع زاد افسانے ایک اچھوتے انداز میں لکھنے شروع کئے ۔ ساقیؔ کے لئے ہر مہینہ ایک افسانہ بغیر مانگے مل جاتا۔ ’’دھواں ‘‘ اسی ریلے میں لکھا گیا، اور اس کی اشاعت پر دلّی کے پریس ایڈوائزر نے مجھے اپنے دفتر بلوایا۔وہ پڑھا لکھا اور بھلا آدمی تھا۔ انگریزی ادبیات میں میرا ہم جماعت بھی رہ چکا تھا۔ بولا ’’بھائی، ذرا احتیاط رکھو۔ زمانہ برا ہے ۔‘‘ بات آئی گئی ہوئی۔ میں نے منٹوؔ سے اس کا ذکر کیا۔ حسب عادت بہت بگڑا مگر ساقیؔ کے باب میں کچھ احتیاط برتنے لگا۔
لیکن یہ ناسور دلّی میں بند ہوا تو لاہور میں پھوٹا اور ’’بُو‘‘ پر حکومت پنجاب نے منٹو کو دھر لیا۔ صفائی کے گوا ہوں میں منٹو نے مجھے دلّی سے بلوایا تھا۔ عدالت ماتحت تو قائل نہ ہو سکی۔ لیکن اعلیٰ عدالت میں غالباً منٹو بری ہو گئے تھے ۔ اس کے بعد رہا سہا خوف بھی منٹو کے دل سے نکل گیا، اور انہوں نے دھڑلے سے ’’فحش ‘‘ مضامین لکھنے شروع کر دئیے ۔ حکومت پنجاب کے پریس ایڈوائزر چودھری محمد حسین ایک عجیب و غریب بزرگ تھے ۔ تھے تو علامہ اقبال کے حاشیہ نشینوں میں سے ۔ مگر انہیں یہ زعم تھا کہ اقبال کو اقبال میں نے بنایا ہے ۔ یہ صاحب ہاتھ دھوکر منٹو کے پیچھے پڑ گئے ۔ اور یکے بعد دیگرے انہوں نے منٹو پر کی مقدمات قائم کر دئیے ۔ پھر ان کا نشہ اقتدار اتنا بڑھ گیا کہ انہوں نے مضمون نگاروں کے ساتھ ناشروں اور کتب فروشوں کو بھی لپیٹنا شروع کر دیا۔ مقدمات کے سلسلہ میں منٹو کو بمبئی سے لاہور آنا پڑتا تھا۔ ادھر ہم بھی دلّی سے ملزموں کی برات لے کر پہونچے تھے ۔ چند روز لاہور کے ادبی حلقوں میں خاصی چہل پہل رہی۔ شاید ایک آدھ ہی افسانے میں جرمانہ قائم رہا، ورنہ اپیل میں سب بری ہوتے رہے اور چودہری صاحب کلتے رہے ۔ منٹو نے اپنے مقدمات کی رُوداد کسی کتاب کے دیباچے میں لکھی ہے اور اس کتاب کو چودہری صاحب ہی کے نام سے معنون کیا ہے ۔
منٹو کی باتیں بڑی دلچسپ ہوتی تھیں ۔ انہیں ہمیشہ یہ احساس رہتا تھا کہ میں ہی سب سے اچھا لکھنے والا ہوں اس لئے وہ اپنے آگے کسی کو گردانتے نہ تھے ۔ ذرا کسی نے دُون کی لی اور منٹو نے اڑ لگا یا خرابیٔ صحت کی وجہ سے منٹو کی طبیعت کچھ چڑچڑی ہو گئی تھی ۔ مزاج میں سہار بالکل نہیں رہی تھی ۔ بات بات پر اڑنے اور لڑنے لگتے تھے جو لوگ ان کے مزاج کو سمجھ گئے تھے وہ ان سے بات کرنے میں احتیاط برتا کرتے تھے ۔ اُن کا مرض بقول ان کے کسی ڈاکٹر سے تشخیص نہ ہو سکا ۔ کوئی کہتا دق ہے ، کوئی کہتا معدے کی خرابی ہے ، کوئی کہتا جگر کا فعل کم ہو گیا ہے ، اور ایک ستم ظریف نے کہا کہ تمہارا پیٹ چھوٹا ہے اور انتٹریاں بڑی ہیں ۔ مگر منٹو ان سب بیماریوں سے بے پروا ہو کر ساری بد پرہیزیاں کرتا رہا ۔
منٹوؔ کی زبان پر ’’ فراڈ ‘‘ کا لفظ بہت چڑھا ہوا تھا ۔ میرا جی کے ہاتھ میں دو لوہے کے گولے رہتے تھے ۔ میں نے ان سے پوچھا ، ان کا مصرف کیا ہے ؟ منٹو نے کہا ، فراڈ ہے ۔ میرا جی نے سیویوں کے مزعفر میں سالن ڈال کر کھانا شروع کر دیا ۔ میں نے کہا یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ منٹو نے کہا ’’ فراڈ ‘‘ ۔۔۔ اوپندر ناتھ اشکؔ نے کوئی چیز لکھی ، منٹو نے کہا فراڈ ہے ۔ اُس نے کچھ چیں چیں کی تو کہا ’’ تو خود ایک فراڈ ہے ۔ ‘‘
یادش بخیر ! ایک صاحب تھے دیوندرستّیاتھی ۔تھے کیا، اب بھی ہیں اور اردو اور ہندی کے بہت بڑے ادیب ہیں ۔ لوک گیتوں پر انگریزی میں بھی ایک کتاب چھپوا چکے ہیں ۔ اسی زمانے میں وہ دلّی آئے تو انہیں بھی افسانہ نگاری کا شوق چراّیا ۔ خاصے جہاں دیدہ آدمی تھے مگر باتیں بڑی بھولی بھولی کرتے تھے ۔ بھاری بھر کم قد آور آدمی ، چہرے پر بہت زبردست ڈاڑھی ۔ دراصل انہوں نے اپنی وضع قطع ٹیگور سے ملانے کی کوشش کی تھی ۔ ٹیگور کے ساتھ انہوں نے ایک تصویر بھی کھنچوائی تھی جس کے نیچے لکھا ہوا تھا ’’ گرو اور چیلا ‘‘ ایک طرف سفید بگلا استاد اور دوسری طرف کالا بھجنگ شاگرد۔
ہاں تو ستیّارتھی صاحب نے افسانے لکھنے اور سنانے شروع کئے ۔ ابتدا میں تو سب نے لحاظ مروّت میں چند افسانے سُنے پھر کنّی کاٹنے گلے ، پھر انہیں دور ہی سے دیکھ کر بھاگنے لگے ۔ مگر منٹو بھاگنے والا آدمی نہیں تھا ۔ منٹو نے ایک آدھ افسانہ تو سُنا ۔ اس کے بعد ستّیارتھی صاحب کو گالیوں پر دھر لیا ۔ منٹوؔ نے بر بلا کہنا شروع کر دیا ’’ تو بہت بڑا فراڈ ہے تیری ڈاڑھی ، ڈاڑھی نہیں ہے ، راپگینڈا ہے ۔ تو افسانے ہم سے ٹھیک کراتا ہے اور جا کر اپنے چھپوا لیتا ہے ۔ ‘‘ اور اس کے بعد مغلّظات سنانا شروع کر دیں ۔ مگر صاحب مجال ہے کہ ستّیارتھی کی تیوری پر بل بھی آیا ہو ! اسی طرح مسکراتے اور بھولی بھالی باتیں کرتے رہے میں کہتا تھا کہ اس شخص میں ولیوں کی صفات ہیں ۔
منٹو کہتا ’’ راسپوٹین ہے ، ابلیس ہے !‘‘
دراصل منٹو کو بناوٹ سے چڑ تھی ۔ خود منٹو کا ظاہر و باطن ایک تھا ، اس لئے لگی لپٹی نہیں رکھتا تھا ۔ جو کچھ کہنا ہوتا صاف کہہ دیتا ، بلکہ منٹو بدتمیزی کی حد تک منھ پھٹ تھا ۔
ایک دفعہ احمد شاہ بخاری نے بڑے سر پرستانہ انداز میں کہا ’’ دیکھو منٹو ، میں تمہیں اپنے بیٹے کے برابر سمجھتا ہوں ۔ ‘‘
منٹو نے جھلا کر کہا ۔’’ مگر میں آپ کو اپنا باپ نہیں سمجھتا ! ‘‘
مزہ تو اس وقت آیا جب چراغ حسن حسرتؔ سے منٹو کی ٹکر ہوئی ۔ واقعہ دلّی ریڈیو کا ہے جہاں اتفاق سے سبھی موجود تھے اور چائے کا دور چل رہا تھا ۔ حسرتؔ اپنی علمیت کا رعب سب پر گانٹھتے تھے ۔ ذکر تھا سومرسٹ ماہم کا جو منٹو کا محبوب افسانہ نگار تھا اور مولانا جھٹ بات کاٹ کر اپنی عربی فارسی کو بیچ میں لے آئے اور لگے اپنے چڑاؤنے انداز میں کہنے ’’ مقامات حریری میں لکھا ہے ۔ ۔ ۔ آپ نے تو کیا پڑھی ہو گی ، عربی میں ہے یہ کتاب ۔ ‘‘ ’’ دیوان حماسہ اگر آپ نے پڑھا ہوتا ۔ مگر عربی آپ کو کہاں آتی ہے ۔ ‘‘ اور حسرت ؔ نے تا بڑ توڑ کئی عربی فارسی کتابوں کے نام گنوا دئیے ۔
منٹو خاموش بیٹھا پیچ و تاب کھاتا رہا ۔ بولا تو صرف اتنا بولا ۔ ’’ مولانا ہم نے عربی فارسی اتنی نہیں پڑھی تو کیا ہے ؟ ہم نے اور بہت کچھ پڑھا ہے ۔ ‘‘
بات شاید کچھ بڑھ جاتی مگر کرشن چندر وغیرہ نے بیچ میں پڑکر موضوع ہی بدل دیا ۔
اگلے دن جب پھر سب جمع ہوئے تو حسرتؔ کے آتے ہی بھونچال سا آ گیا ۔ منٹو کا جوابی حملہ شروع ہو گیا ’’ کیوں مولانا آپ نے فلاں کتاب پڑھی ہے ؟ مگر آپ نے کیا پڑھی ہو گی ، وہ تو انگریزی میں ہے ، اور فلاں کتاب ؟ شاید آپ نے جدید ترین مصنف کا نام بھی نہیں سنا ہو گا ۔ ‘‘ اور منٹو نے جتنے نام کتابوں کے لئے ان میں شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہو جس کا نام مشہور ہو ۔ منٹو نے کوئی پچاس نام ایک ہی سانس میں گنوا دئیے اور مولانا سے کہلوا لیا کہ ان میں سے ایک بھی کتاب نہیں پڑھی ۔ ہم چشموں اور ہم نشینوں میں یوں سبکی ہوتے دیکھ کر مولانا کو پسینے آ گئے ۔
منٹو نے کا کہا ۔ ’’ مولانا اگر آپ نے عربی فارسی پڑھی ہے تو ہم نے انگریزی پڑھی ہے ۔ آپ میں کوئی سُرخاب کا پر لگا ہوا نہیں ہے ۔ آئندہ ہم پر رعب جمانے کی کوشش نہ کیجئے ۔ ‘‘
مولانا کے جانے کے بعد کسی نے پوچھا ۔ ’’یار تو نے اتنے سارے نام کہاں سے یاد کر لئے ؟ ‘‘
منٹو نے مسکر کر کہا ۔ ’’ کل شام یہاں سے اٹھ کر سیدھا انگریزی کتب فروش جینا ؔ کے ہاں گیا تھا ۔ جدید ترین مطبوعات فہرست اس سے لے کر میں نے رٹ ڈالی ۔ ‘‘
سُنا کہ اس بدمزگی کو یوں دور کیا گیا کہ احباب نے رات کو ایک (cock tail) پارٹی برپا کی ، اور جب چند دور ہو گئے تو منٹو اور حسرت کو گلے ملوا دیا ۔
منٹو نے کہا ’’ مولانا تم بھی فراڈ ہو اور میں بھی فراڈ ہوں ۔ ‘‘
حسرت ؔ نے کہا ’’ نہیں تم ماہم ہو ۔ ‘‘
منٹو نے کہنا ’’ تم ابن خلد ون ہو ۔ ‘‘
اور دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ گئے ۔
منٹو بڑا ذہین آدمی تھا ۔ اگر ذرا کوئی اپنی حد سے بڑھتا تو وہ سمجھتا کہ یہ شخص میری توہین کر رہا ہے ، مجھے احمق سمجھ رہا ہے ۔ دل میں بات رکھنے کا وہ قائل نہیں تھا ۔ اس کام کے لئے اوپندرناتھ اشکؔ بنا تھا ۔ بڑی گٹھل طبیعت کا آدمی تھا ۔ منٹو مہینے میں تسا چالیس ڈرامے اور فیچر لکھ دیتا تھا ، اور اشکؔ صرف دو ڈرامے لکھتا تھا ، اور وہ بھی رو رو کر ۔ پھر بڑی ڈھٹائی سے کہتا پھرتا تھا کہ جتنی تنخواہ مجھے ملتی ہے اس سے زیادہ کے یہ دو ڈرامے میں نے لکھے ہیں ۔منٹو اس کی بڑی درگت بناتا تھا ۔ سب کے سامنے اسے فراڈ اور حرام زادہ تک کہہ دیتا تھا ۔ اشکؔ اس وقت تو روکھا ہو جاتا تھا لیکن منٹو کی باتیں دل میں رکھتا گیا ، اور بعد میں بمبئی کی فلم انڈسٹری میں منٹو کی جڑ کاٹتا پھرا۔
شیخی کی باتیں منٹو کو سخت ناپسند تھیں ۔ اور شیخی کر کری کرے میں اُسے لطف آتا تھا ۔ ن ۔ م ۔ راشد سے میں نے کہا ۔ ’’ یہ آپ کی چھوٹی بڑی شاعری ہمیں تو اچھی نہیں لگتی آخر اس میں کیا بات ہے ؟ ‘‘
راشد نے (rhyme) اور (rythym) پر ایک مختصر لکچر جھاڑنے کے بعد اپنی نظم ’’ اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے ‘‘ مجھے سنانی شروع کی اور کہا ’’ دیکھئے ! میں نے اس نظم میں ڈانس کا روم رکھا ہے ۔ ‘‘
میں بڑی سعادت مندی سے سنتا رہا منٹو بھلا کب تاب لا سکتے تھے ۔ چٹخ کر بولے کونسا ڈانس ؟ والز ، رمبا ، کتھاکلی ، کتھک ، منی پوری ؟ فراڈ کہیں کا ۔ ‘‘
بچارے راشد کھسیانی ہنسی ہنس کر رہ گئے ۔
منٹو کے دماغ میں نئی سے نئی بات آتی تھی۔ ایسی اپج کسی اور میں دیکھی ہی نہیں ۔ ایک میم صاحب کی حسین ٹانگوں کو دیکھ کر کہنے لگے ۔ ’’اگر مجھے چار ٹانگیں مل جائیں تو انہیں کٹوا کر اپنے پلنگ کے پائے بنوا لوں ۔‘‘
ریڈیو اسٹیشن پر منٹو ایک دن بڑے بے زار بیٹھے تھے ۔ میں نے کہا ۔ ’’ خیریت تو ہے ؟ ‘‘ بولے ’’ سخت بدتمیز اور جاہل ہیں یہاں کے لوگ ٹیلی فون ( receive)کر کے کہتا ہوں ’’منٹو ‘‘ تو اُدھر سے وہ حیران ہو کر پوچھتا ہے ’’ون ٹو ؟ ‘‘ میں کہتا ہوں ’’ دن ٹو نہیں ، منٹو ‘‘ ۔ تو وہ کہتا ہے ’’ بھٹو ‘ ‘
منٹو کو اپنی زبان دانی پر بڑا ناز تھا ، اور واقع میں منٹو بہت صحیح اور عمدہ زبان لکھتے تھے ۔ انہوں نے اپنے کسی افسانے میں ایک عورت کا حلیہ لکھنے کے سلسلہ میں یہ بھی لکھا تھا کہ بچہ ہونے کے بعد اس کے پیٹ پر شکنیں پڑ گئی تھیں ۔ میں نے شکنیں بدل کر سُیں کر دیا ۔ جب افسا نہ ساقیؔ میں چھپ کر آیا تو منٹو اس لفظ پر اُچھل پڑے ۔ بولے ’’ میں نے جس وقت شکنیں لکھا تھا تو میں سوچ رہا تھا کہ یہ لفظ ٹھیک نہیں ہے ۔ مگر میری سمجھ میں اور کوئی لفظ نہیں آیا ۔ اصل لفظ یہی ہے جو میں لکھنا چاہتا تھا ‘‘ اس کے بعد کھلے دل سے انہوں نے سب کے سامنے کہا کہ ’’ میں صرف دو ایڈیٹروں کی اصلاح قبول کرتا ہوں ، ایک آپ اور دوسرے حامد علی خاں ۔ آپ دونوں کے علاوہ کسی اور کو میرا ایک لفظ بھی بدلنے کی اجازت نہیں ہے ۔ ‘‘
منٹو بظاہر بڑا اکھڑ اور بدتمیز آدمی نظر آتا تھا مگر دراصل اس کے پہلو میں ایک بڑا حساس دل تھا ۔ دنیا نے اسے بڑے دکھ پہونچائے تھے ۔ امیر گھرانے کا لاڈلا بچہ تھا ۔ بگڑ گیا اور خوب پیٹ بھر کے بگڑا ۔ دوست احباب ، کنبہ دار ، رشتہ دار، سب سے اسے تکلیفیں پہونچی تھیں ۔ اس لئے اس میں نفرت کا جذبہ بہت بڑھ گیا تھا ۔ مگر اس کی انسانیت مرتے دم تک قائم رہی ، منٹو کا گل گوتھنا سا بچہ اچھا خاصا کھیلتا مالتا ذرا سی بیماری میں چٹ پٹ ہو گیا ۔ مجھے معلوم ہوا تو میں بھی اس کے گھر پہونچا ، احتیاطاً سو روپے ساتھ لیتا گیا کہ شاید منٹو کو روپے کی ضرورت ہو ۔ صفیہ کا روتے روتے بُرا حال ہو گیا تھا ۔ موتا کا گھر تھا ، اس لئے میری بیوی کھانا لے کر پہونچیں ۔ انہوں نے صفیہ کو سنبھالا ۔ منٹو کی آنکھوں میں پہلی اور آخری بار میں نے آنسو دیکھے ۔ بچہ دفنا یا جا چکا تھا ۔ میں نے منٹو کو رسمی دلاسا دیا اور چپکے سے روپے ان کی طرف بڑھا دئیے ۔ منٹو نے روپے نہیں لئے ۔ مگر تھوڑی دیر کے لئے وہ اپنا غم بھول گیا اور حیرت سے میرا منہ تکتا رہا ، بعد میں اس واقعہ کا تذکرہ اس نے اکثر احباب سے کیا، اور متعجب ہوتا رہا کہ بے مانگے کوئی روپے کسی کو کیسے دے سکتا ہے ۔
منٹوؔ کو شراب پینے کی لت خدا جانے کب سے تھی ۔ جب تک وہ دلّی رہے ان کی شراب بڑھنے نہیں پائی تھی ۔ بمبئی جانے کے بعد انہوں نے پیسہ بھی خوب کمایا اور شراب بھی خوب پی ۔ جب پاکستان بنا تو وہ لاہور آ گئے ۔ یہاں فلموں کا کام نہیں تھا ۔ اس لئے انہیں قلم کا سہارا لینا پڑا۔ ہمارے ادب جیسی بنجر زمین سے روزی پیدا کرنا منٹو ؔ ہی کا کام تھا ۔ صحت پہلے کون سی اچھی تھی ۔ رہی سہی شراب نے غارت کر دی ۔ کئی دفعہ مرتے مرتے بچے ۔ روٹی ملے یا نہ ملے بیس روپے روز انہیں شراب کے لئے ملنے چاہیے ۔ اس کے لیے انھوں نے اچھا بُرا کچھ لکھ کر روزانہ دو ایک افسانے لکھنا ان کا معمول ہو گیا تھا ۔ انہیں لے کر وہ کسی ناشر کے پاس پہونچ جاتے ۔ ناشروں نے پہلے ضرورت سے انہیں خریدا ۔ پھر بے ضرورت پھر اُپرانے اور منہ چھپانے لگے ۔ دور سے دیکھتے کہ منٹو آ رہا ہے تو دکان سے ٹل جاتے منٹو کی اب بالکل وہی حالت ہو گئی تھی جو آخر میں اختر شیرانی اور میراجی کی ۔ بے تکلف لوگوں کی جیب میں ہاتھ ڈال دیتے اور جو کچھ جیب میں ہوتا نکال لیتے ۔ اس میں سے گھر کچھ نہیں پہونچتا تھا ۔ شراب سے بچانے کی بہت کوشش کی گئی ۔ خود منٹو نے اس سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو پاگل خانے مںو داخل کر ا لیا ۔ منہ سے یہ کافر لگی تو چھوٹ بھی گئی تھی مگر اللہ بھلا کرے دوستوں کا ایک دن پھر پلا لائے ۔ نتیجہ یہ کہ رات کو خون کی قے ہوئی ۔ ہسپتال پہونچا یا گیا ۔ مہینوں پڑے رہے اور جینے کا ایک موقع اور مل گیا ۔
اگست 1954ء میں کئی سال بعد لاہور گیا تھا ۔ لاہور کے ادیب ، شاعر ، اڈیٹر اور پبلشر ایک بڑی پارٹی میں جمع تھے کہ غیر متوقع طور پر منٹو وہاں آ گئے ، اور سیدھے میرے پاس چلے آئے ۔ ان کی حالت غیر تھی ۔ میں نے کہا ۔ ’’آپ تو بہت بیمار ہیں ۔ آپ کیوں آئے ؟ میں یہاں سے اٹھ کر خود آپ کے پاس آنے والا تھا۔ ‘‘
بولے ’’ ہاں بیمار تو ہوں ، مگر جب یہ سنا کہ آپ یہاں آ رہے ہیں تو جی نہ مانا ۔ ‘‘
اتنے میں ایک شامت کا مارا پبلشر ادھر آ نکلا ۔ منٹو نے آواز دی ’’ اوے اِدھر آ ۔ ‘‘ وہ رکتا جھجکتا آ گیا ۔ ’’ کیا ہے تیری جیب میں ؟ نکال ۔ ‘‘ اس نے جیب میں سے پانچ روپے نکال کر پیش کئے ۔ مگر منٹو پانچ روپے کب قبول کرنے والے تھے ۔ ’’ حرام زادے دس روپے تو دے ۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس کی اندر کی جیب میں ہاتھ ڈال دیا ، اور دس روپے کا نوٹ نکال کر پھر مجھ سے باتیں کرنے لگے ۔ گویا کچھ ہوا ہی نہیں ۔ پبلشر نے بھی سوچا سستے میں چھوٹے ، وہاں سے رفو چکر ہو گیا ۔ منٹو پندرہ بیس منٹ تک بیٹھے ، باتیں کرتے رہے مگر ان کی بے چینی بڑھ گئی اور عذر کر کے رخصت ہو گئے ۔ مجھ سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئے ۔
پانچ مہینے بعد اخباروں سے معلوم ہوا کہ منٹو اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ انہوں نے پھر چپکے سے شراب پی لی تھی، خون ڈالتے ڈالتے مر گئے ۔ہمیں تو منٹو کی عظمت کا اعتراف ہے ہی، خود منٹو کو بھی اس کا احساس تھا۔
 
Top