کلاسیکی موسیقی سر

مرزا عباس

محفلین
حالانکہ موسيقي کے متعلق ميرا علم کچھ سطحي نويت کا ہے پھر بھي مجھے اس موضوع پر بات
کرنا اچھا لگتا ہے۔ جس کسي نے موسيقي کے بارے ميں کچھ بتايا يا کچھ پوچھا وہ اس بندے کا
موسيقي سے لگاو کا اظہار ہے۔ ميرا حال بھي کچھ ايسا ہي ہے۔ ميں موسيقي کي بنيادي چيز
سر پر بات کرنا چاہوں گا۔ تمام راگ راگنياں اور ان سے بننے والي تمام د ھنيں اصل ميں سروں
کي مختلف ترتيبيں ہي ہيں۔ جيسے صفر سے نو تک ہندسوں سے تمام رقميں بنتيں ہيں ايسے ہي
سات سروں سے تمام د ھنيں بنتي ہيں۔ راگ ميں صرف سروں کي ترتيب ہي نہيں بلکہ سروں کو
بجانے يا گانے کي خاص ٹا‌ئيمنگ بھي بہت اہم ہوتي ہے کہ کوئي سر کب اور کتنے وقت کے ليے
لگانا ہے۔اسے لے کہتے ہيں۔ سر اور لے سے موسيقي بنتي ہے۔ ليکن سوال يہ ہے کہ "سر" اصل
ميں ہے کيا چيز؟ سا، رے، گا، ما، پا، دھا، ني سر نہيں بلکہ سروں کے نام ہيں سر مخصوص ارتعاش
کي آواز کو کہتے ہيں۔ يہ عام تجربے کي بات ہے کہ آواز ارتعاش سے پيدا ہوتي ہے جوں جوں
ارتعاش تيز ہو گا آواز باريک اور تيز ہو گي اور جوں جوں ارتعاش سست ہو گا آواز بھي موٹي اور دھيميں
ہو جاے گي۔ کم ارتعاش والي موٹي آواز کے مقابلے ميں اگر ذيادہ ارتعاش والي باريک آواز ہو تو ہم
موٹي آواز کو نيچے کا سر اور باريک آواز کو اوپر کا سر کہيں گي۔ اب سرگم ميں "رے" "سا" کے
مقابلے ميں اوپر کا اور "گا" کے مقابلے ميں نيچے کا سر ہے اس طرح سا، رے، گا، ما ،پا، دھا، ني نيچے
سے اوپر جاتي سيڑھي کي طرح موٹي سے باريک ہوتي آوازيں ہيں اور يہ ہي آوازيں سر کہلاتي ہيں۔
اب اگر "سا" کی آواز موٹی اور اس کے بعد آنے والے سر "رے" کی آواز پتلی ہے تو ان دونوں
سروں کے درمیان بھی آوازیں ہو سکتی ہیں لیکن موسیقی میں انھیں سر نہیں مانا جائے گا۔ موسیقی میں
مختلف سروں کے درمیان ارتعاش کے فرق کا ایک اٹل میعار مقرر ہے جسے بدلا نہیں جاسکتا۔ ہارمونییم
میں سروں کا یہ میعار آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اصل میں دنیا کے تمام ساز مخصوص ارتعاش کی
آوازیں یا سر نکانے کی مشینیں ہیں اور گانے والا اپنے گلے سے بھی یہ ہی کام لیتا ہے۔ میں آمید کرتا
ہوں کہ موسیقی کو سمجھنے والے حضرات "سر" پر مزید بات کریں گے اور میرے جیسوں کو سیکھنے
کا موقع ملے گآ۔
 

بلال

محفلین
بہت عمدہ تحریر ہے لیکن موسیقاروں کے لئے اب مجھ جیسے ایسے کہاں سمجھیں جنہیں موسیقی کی الف ب تک نہیں معلوم۔۔۔
 

چاند بابو

محفلین
واہ مرزا صاحب اتنی گہری باتیں لکھیں ہیں اور کہتے ہیں کہ سطحی نوعیت کا علم ہے۔ بہرحال بہت خوب۔
 
Top