سر فانی بدایونی کی زمین میں ایک حقیر غزل پیش کرنے کی جسارت

غزل۔۔۔۔۔۔‘

ملی ہے خاک میں نا حق جوانی دیکھتے جاؤ
ہوا ہے جسم و جاں میں خون پانی دیکھتے جاؤ

لبوں کے پاس لا کے توڑ پھینکا شوخ نے ساغر
کہ یوں آتی ہے مرگِ ناگہانی دیکھتے جاؤ

سنائیں آج رازِ دل تمہیں خاموش نظروں سے
ذرا ٹہرو ہماری بے زبانی دیکھتے جاؤ

رہا سینے میں دل باقی نا پہلو میں جگر رسوا
ستم ڈھاتی ہے کیوں کر زندگانی دیکھتے جاؤ

مآلِ آتشِ حسرت سراپا روگ ہے عاصمؔ
ہوا جاتا ہوں غم سے آج فانی دیکھتے جاؤ

عاصمؔ شمس
منگل۹؍دسمبر۲۰۱۴
 
مطلع میں " میں" نے مصرع کو مبہم سا بنا دیا ہے۔ لیکن یہ نہیں معلوم، شامل ہوا ہے یا خلاک ہوا ہے، کیا ہوا ہے ؟ تیسرا شعر خوب ہے ۔ چوتھے شعر میں نا کی بجائے نے درست ہو گا۔ بحرحال قبلہ الف عین صاحب یا یعقوب آسی صاحب مصدقہ رائے دے سکتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ تقریباً درست غزل ہے۔
ملی ہے خاک میں نا حق جوانی دیکھتے جاؤ
ہوا ہے جسم و جاں میں خون پانی دیکھتے جاؤ
۔۔محض جسم میں خون ہوتا ہے، جاں میں خون نہیں؟

لبوں کے پاس لا کے توڑ پھینکا شوخ نے ساغر
کہ یوں آتی ہے مرگِ ناگہانی دیکھتے جاؤ
درست، ویسے شوخ نے اپنے لبوں کے پاس لا کر ساغر توڑا یا عاشق کے؟

سنائیں آج رازِ دل تمہیں خاموش نظروں سے
ذرا ٹہرو ہماری بے زبانی دیکھتے جاؤ
÷÷درست

رہا سینے میں دل باقی نا پہلو میں جگر رسوا
ستم ڈھاتی ہے کیوں کر زندگانی دیکھتے جاؤ
۔۔’نا‘ کے بارے میں کہہ چکا ہوں۔
مزید یہ کہ دل تو باقی نہ رہا، لیکن جگر رسوا کیونکر ہوا؟ جگر کے لئے بھی باقی لہ نوع کا ہی کوئی لفظ لائیں۔

ے بارے میں پہلے کہیں کہہ چکا ہوں۔ یہاں تو صاف ’نہ‘ کا محل ہے جو وزن میں درست آتا ہے۔
البتہ
مآلِ آتشِ حسرت سراپا روگ ہے عاصمؔ
ہوا جاتا ہوں غم سے آج فانی دیکھتے جاؤ
واضح نہیں، کم از کم میری ناقص عقل کے اوپر سے گزر گیا!!!
 
Top