سر سید کی کہانی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
فہرست

باب اول : بچپن
باب دوم : عالم شباب
باب سوم : بزرگوں کا تذ کرہ
باب چہارم : عادات و خصائل
باب پنجم : تصانیف
باب ششم : واقعات 1857ء
باب ہفتم : انگریزی حکومت کا قیام
باب ہشتم : تعلیمی سرگرمیاں
باب نہم : مخالفت
باب دہم : علمی لطائف
باب یازدہم : متفرق

×××××​
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بچپن

بچپن کے حالات:

[align=justify:8a10d31fbc]سر سید کے والد میر متقی ۔ ۔ ۔ ایک نہایت آزاد منش آدمی تھے ۔ خصوصا جب سے شاہ غلام علی صاحب کے مرید ہوگئے تھے ان کی طبیعت میں اور بھی زیادہ بے تعلقی پیدا ہوگئی تھی ۔ اس لئے اولاد کی تعلیم و تربیت کا مدار زیادہ تر بلکہ بالکل سر سید کی والدہ پر تھا۔ سر سید سے ایک دفعہ ان کے بچپن کے حالات پوچھے گئے تو انھوں نے یہ جواب دیا کہ: [/align:8a10d31fbc]

" میری تمام سر گذشت کے بیان کو یہ ایک شعر کافی ہے :

طفلی و دامان مادر خوش بہشتے بودہ است
چوں بپائے خود رواں گشتیم سر گرداں شدیم" 1

شاہ غلام علی کی شفقت :

[align=justify:8a10d31fbc]جب سر سید پیدا ہوئے تو ان کے والد نے شاہ غلام علی صاحب سے نام رکھنے کی درخواست کی ۔ شاہ صاحب ہی نے بڑے بھائی کا نام محمد رکھا تھا ، ان کا نام احمد رکھا ۔ سر سید کے دادا ان کے والد کی شادی سے پہلے قضا کر چکے تھے اور یہ اور ان کے بہن بھائی شاہ صاحب ہی کو دادا حضرت کہا کرتے تھے ، سر سید کہتے تھے کہ :[/align:8a10d31fbc]

" شاہ صاحب کو بھی ہم سب سے ایسی ہی محبت تھی
جیسے حقیقی دادا کو اپنے پوتوں سے ہوتی ہے ۔ شاہ صاحب
نے تاہل اختیار نہیں کیا تھا اور وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ گو
خدا تعالٰی نے مجھے اولاد کے جھگڑوں سے آزاد رکھ ہے لیکن
متقی کی اولاد کی محبت ایسی دے دی ہے کہ اس کے بچوں کی
تکلیف یا بیماری مجھ کو بے چین کردیتی ہے ۔ " 2​

[align=justify:8a10d31fbc]اہل اللہ اور مقدس لوگوں کی عظمت کا خیال بچپن سے سر سید کے دل میں بٹھایا گیا تھا۔ وہ اپنے والد کے ساتھ اکثر شاہ غلام علی صاحب کی خدمت میں بٹھائے جاتے تھے اور شاہ صاحب سے ان کی عقیدت کا رنگ اپنی آنکھ سے دیکھتے تھے ۔ وہ کہتے تھے کہ :[/align:8a10d31fbc]"

مرزا صاحب کے عرس میں شاہ صاحب ایک روپیہ ان کے
مزار پر چڑھایا کرتے تھے اور اس روپیہ کے لینے کا حق میرے
والد کے سوا اور کسی کو نہ تھا۔ ایک دفعہ عرس کی تاریخ
سے کچھ پہلے ایک مرید نے شاہ صاحب سے اجازت لے لی کہ
اب کی بار نذر کا روپیہ مجھے عنایت ہو۔ میرے والد کو بھی
خبر ہوگئی۔ جب شاہ صاحب نے روپیہ چڑھانے کا ارادہ کیا تو
والد نے عرض کی کہ " حضرت ! میرے اور میری اولاد کے جیتے
جی آپ نذر کا روپیہ لینے کی اوروں کو اجازت دیتے ہیں ? "
شاہ صاحب نے فرمایا ، " نہیں نہیں ! تمہارے سوا کوئی نہیں
لے سکتا ۔" میں اس وقت صغیر سن تھا ، جب شاہ صاحب نے
روپیہ چڑھایا ، والد نے مجھ سے کہا ، " جائو روپیہ اٹھا لو! "
میں نے آگے بڑھ کر روپیہ اٹھا لیا۔ " 3​
سر سید کہتے تھے کہ:

[align=justify:8a10d31fbc]" شاہ صاحب اپنی خانقاہ سے کبھی نہیں اٹھتے تھے اور کسی کے ہاں نہیں جاتے تھے ، الا ماشاء اللہ صرف میرے والد پر جو غایت درجہ کی شفقت تھی اس لئے کبھی کبھی ہمارے گھر قدم رنجہ فرماتے تھے۔" 4[/align:8a10d31fbc]

(جاری ۔ ۔ ۔)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

بسم اللہ کی تقریب :


سر سید کہتے تھے کہ:

" مجھ کو اپنی بسم اللہ کی تقریب بخوبی یاد ہے ۔ سہ پہر
کا وقت تھا اور آدمی کثرت سے جمع تھے ، خصوصا حضرت شاہ
غلام علی صاحب بھی تشریف رکھتے تھے مجھ کو لا کر حضرت
کے سامنے بٹھا دیا تھا ۔ میں اس مجمع کو دیکھ کر ہکا بکا سا ہو
گیا ، میرے سامنے تختی رکھی گئی اور غالبا شاہ صاحب ہی نے
فرمایا کہ پڑھو ، بسم اللہ الرحمن الرحیم ، مگر میں کچھ نہ بولا
اور حضرت صاحب کی طرف دیکھتا رہا ۔ انہوں نے اٹھا کر مجھے
اپنی گود میں بٹھا لیا اور فرمایا کہ ہمارے پاس بیٹھ کر پڑھیں
گے " اور اول بسم اللہ پڑھ کر " اقراء " کی اول کی آیتیں " مالم
یالم " تک پڑھیں۔ میں بھی ان کے ساتھ ساتھ پڑھتا گیا۔ "​

سر سید نے جب یہ ذکر کیا تو بطور فخر کے اپنا یہ فارسی شعر ، جو خاص اسی موقع کے لئے انھوں نے کبھی کہا تھا ، پڑھا

" بہ مکتب رفتم و آموختم اسرار یزدانی
زفیض نقش بند وقت و جان جان جانانی " 5​

مجلس ختم قرآن :

[align=justify:dd0e605fa7]بسم اللہ ختم ہونے کے بعد سرسید نے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا۔ ان کے ننھیال میں قدیم سے کوئی نہ کوئی استانی نوکر رہتی تھی۔ سر سید نے استانی ہی سے، جو ایک اشراف گھر کی پردہ نشین بی بی تھی ، سارا قرآن ناظرہ پڑھا تھا ۔ وہ کہتے تھے کہ :[/align:dd0e605fa7]

" میرا قرآن ختم ہونے پر ہدیہ کی مجلس جو زنانہ میں ہوئی
تھی وہ اس قدر دلچسپ اور عجیب تھی کہ پھر کسی ایسی
مجلس میں وہ کیفیت میں نے نہیں دیکھی ۔" 6​

(جاری ۔ ۔ ۔)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
قدیم نوکرانی کی موت :

[align=justify:7365dda0e5]سر سید کو مسمات ماں بی بی نے، جو ایک قدیم خیر خواہ خادمہ ان کے گھرانے کی تھی ، پالا تھا ، اس لئے ان کو ماں بی بی سے نہایت محبت تھی وہ پانچ برس کے تھے جب ماں بی بی کا انتقال ہوا ، ان کا بیاں ہے کہ :[/align:7365dda0e5]

" مجھے خوب یاد ہے ، ماں بی بی مرنے سے چند گھنٹے
پہلے فالسہ کا شربت مجھ کو پلا رہی تھی ۔ جب وہ مر گئی
تو مجھے اس کے مرنے کا نہایت رنج ہوا۔ میری والدہ نے مجھے
سمجھایا کہ وہ خدا کے پاس چکی گئی ہے ، بہت اچھے مکاں میں
رہتی ہے ، بہت سے نوکر چاکر اس کی خدمت کرتے ہیں اور اس
کی بہت آرام سے گذرتی ہے تم کچھ رنج مت کرو۔" مجھ کو ان
کے کہنے سے پورا یقین تھا کہ فی الوقت ایسا ہی ہے ۔ مدت تک
ہر جمعرات کو اس کی فاتحہ ہوا کرتی تھی اور کسی محتاج کو
کھانا دیا جاتا تھا ۔ مجھے یقین تھا کہ یہ کھانا مان بی بی کے پاس
پہنچ جاتا ہے ۔ اس نے مرتے وقت کہا تھا کہ " میرا تمام زیور
سید کاہے " مگر میری والدہ اس کو خیرات میں دینا چاہتی
تھیں ، ایک دن انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ " اگر تم کہو تو یہ
گہنا ماں بی بی کے پاس بھیج دوں ? " میں نے کہا " ہاں بھیج دو۔"
والدہ نے وہ سب گہنا مختلف طرح سے خیرات میں دیدیا ۔ " 7​

گاوں کی یاد:

[align=justify:7365dda0e5]دلی سے سات کوس مغل پور ایک جاٹوں کا گاوں ہے۔ وہاں سر سید کے والد کی کچھ ملک بطور معافی کے تھی ۔ اگر کبھی فصل کے موقع پر ان کے والد مغل پور جاتے تو ان کو بھی اکثر اپنے ساتھ لے جاتے اور ایک ایک ہفتہ گاوں میں رہتے ۔ [/align:7365dda0e5]سر سید کہتے تھے کہ :

" اس عمر میں گاوں جا کر رہنا ، جنگل میں پھرنا ، عمدہ دودھ
اور دہی اور تازہ تازہ گھی اور جاٹنیوں کے ہاتھ کی پکی ہوئی
باجرے یا مکئی کی روٹیاں کھانا نہایت ہی مزہ دیتا تھا۔" 8​



(جاری ۔ ۔ ۔)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
خلعت کا حصول :

[align=justify:59a77f858a]سر سید کے والد کو اکبر شاہ کے زمانہ میں ہر سال تاریخ جلوس کے جشن پر پانچ پارچہ اور تین رقوم جواہر کا خلعت عطا ہوتا تھا مگر اخیر میں ۔ ۔ ۔ انہوں نے دربار کا جانا کم کردیا تھا اور اپنا خلعت سر سید کو ، باوجودیکہ ان کی عمر کم تھی ، دلوانا شروع کردیا تھا۔ سرسید کہتے تھے کہ:[/align:59a77f858a]

" ایک بار خلعت ملنے کی تاریخ پر ایسا ہوا کہ والد بہت سویرے اُٹھ کر قلعہ چلے گئے اور میں بہت دن چڑھے اُٹھا ۔ ہر چند بہت جلد گھوڑے پر سوار ہو کر وہاں پہنچا مگر پھر بھی دیر ہوگئی ۔ جب لال پردہ کے قریب پہنچا تو قاعدہ کے موافق اول دربار میں جا کر آداب بجا لانے کا وقت نہیں رہا تھا ۔ داروغہ نے کہا کہ بس اب خلعت پہن کر ایک ہی دفعہ دربار میں جانا۔ جب خلعت پہن کر میں نے دربار میں جانا چاہا تو دربار برخاست ہو چکا تھا اور بادشاہ تخت پر سے اُٹھ کر ہوادار پر سوار ہوچکے تھے۔ بادشاہ نے مجھے دیکھ کر والد سے ، جو اس وقت ہوادار کے پاس ہی تھے ، پوچھا کہ " تمہارا بیٹا ہے؟" انہوں نے کہا، "حضور کا خانہ زاد! " بادشاہ چپکے ہو رہے۔ لوگوں نے جانا بس اب محل میں چلے جائیں گے ، مگر جب تسبیح خانہ میں پہنچے تو وہاں ٹھہر گئے۔ تسبیح خانہ میں بھی ایک چبوترہ بنا ہوا تھا جہاں کبھی کبھی دربار کیا کرتے تھے۔ اس چبوترہ پر بیٹھ گئے اور جواہر خانہ کے داروغہ کو کشتئ جواہر حاضر کرنے کا حکم ہوا۔ میں بھی وہاں پہنچ گیا تھا۔ بادشاہ نے مجھے اہنے سامنے بلایا اور کمال عنایت سے میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ " دیر کیوں کی؟" حاضرین نے کہا ، " عرض کرو کہ تقصیر ہوئی " مگر میں چپکا کھڑا رہا۔ جب حضور نے دوبارہ پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ " سو گیا تھا! " بادشاہ مسکرائے اور فرمایا، " بہت سویرے اُٹھا کرو! " اور ہاتھ چھوڑ دئیے ۔ لوگوں نے کہا، " آداب بجا لاؤ! " میں آداب بجا لایا۔ بادشاہ نے جواہرات کی معمولی رقمیں اپنے ہاتھ سے پہنائیں۔ میں نے نذر دی اور بادشاہ اُٹھ کر خاصی ڈیوڑھی سے محل میں چلے گئے۔ تمام درباری میرے والد کو بادشاہ کی اس عنایت پر مبارک سلامت کہنے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ اس زمانہ میں میری عمر آٹھ نو برس کی ہوگی۔" 9​

(جاری ۔ ۔ ۔ )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کھیل کُود اور شرارتیں:

[align=justify:6d30603c82]بچپن میں سرسید پر نہ تو ایسی قید تھی کہ کھیلنے کودنے کی بالکل پابندی ہو اور نہ ایسی آزادی تھی کہ جہاں چاہیں اور جن کے ساتھ چاہیں کھیلتے کودتے پھریں۔ ان کی بڑی خوش نصیبی یہ تھی کہ خود ان کے ماموں ، ان کی خالہ اور دیگر نزدیکی رشتہ داروں کے چودہ پندرہ لڑکے ان کے ہم عمر تھے جو آپس میں کھیلنے کودنے کے لئے کافی تھے۔ ۔ ۔ خواجہ فرید کی حویلی جس میں وہ اور ان کے ہم عمر رہتے تھے ، اس کا چوک اور اس کی چھتیں ہر موسم کی بھاگ دوڑ کے کھیلوں کے لئے کافی تھیں۔ ابتداء میں وہ اکثر گیند بلّا ، کبڈی ، گیڑیاں ، آنکھ مچول ، چیل چلو وغیرہ کھیلتے تھے۔ اگرچہ گیڑیاں کھیلنے کو اشراف معیوب جانتے تھے مگر ان کے بزرگوں نے اجازت دے رکھی تھی کہ آپس میں سب بھائی مل کر گیڑیاں بھی کھیلو تو کچھ مضائقہ نہیں ۔ سر سید کہتے تھے کہ:[/align:6d30603c82]

" کھیل میں جب کچھ جھگڑا ہو جاتا تو بڑوں میں سے کوئی آکر تصفیہ کر دیتا اور جس کی طرف سے چنید معلوم ہوتی اس کو برا بھلا کہتا اور شرمندہ کرتا کہ چنید کرنا بے ایمانی کی بات ہے ، کبھی چنید مت کرو اور جو چنید کرے اس کو ہرگز اپنے ساتھ مت کھیلنے دو۔"​

ان کا بیان تھا کہ:

" باوجود اس قدر آزادی کے بچپن میں مجھے تنہا باہر جانے کی اجازت نہ تھی ، جب میری والدہ نے اپنے رہنے کی جدا حویلی بنائی اور وہاں آرہیں تو باوجودیکہ اس حویلی میں اور نانا صاحب کی حویلی میں صرف ایک سڑک درمیان تھی ، جب کبھی میں ان کی حویلی میں جاتا تو ایک آدمی میرے ساتھ جاتا ، اسی لئے بچپن میں مجھے گھر سے باہر جانے اور عام صحبتوں میں بیٹھنے یا آوارہ پھرنے کا بالکل اتفاق نہیں ہوا۔"​

[align=justify:6d30603c82]سرسید اپنے کھیل کود کے زمانے میں بہت مستعد اور چالاک اور کسی قدر شوخ بھی تھے ۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اکثر شوخی کیا کرتے ۔ وہ کہتے تھے کہ:[/align:6d30603c82]

" ایک بار میں اپنے ایک رشتہ دار بھائی کو، جو استنجا کر رہا تھا ، چپکے چپکے اس کے پیچھے جا کر چت کر دیا ، اس کے سارے کپڑے خراب ہوگئے ۔ وہ پتھر لے کر مجھے مارنے کو دوڑا اور کئی پتھر پھینکے مگر میں بچ بچ گیا ۔ آخر سب بھائیوں نے بیچ بچاؤ کر کے صلح کرادی۔ اسی طرح ایک بار میں شطرنج کھیلتے میں ایک اپنے رشتہ دار بھائی سے لڑ پڑا ، میرے مُکے سے اس کے ہاتھ کی اُنگلی اُتر گئی اور کئی دن بعد اچھی ہوئی ۔ ہمیشہ یونہی لڑائی بھڑائی مارکڑائی ہوتی تھی مگر آخر کو سب ایک ہو جاتے تھے۔" 10​


تیراکی کے جلسے:

[align=justify:6d30603c82]گرمی اور برسات کے موسم میں اب بھی دلّی کے اکثر باشندے سہ پہر کو جمنا پر جا کر پانی کی سیر دیکھتے ہیں اور تیرنے والے تیرتے بھی ہیں مگر پچاس برس پہلے وہاں اشراف تیرنے والوں کے بہت دلچسپ جلسے ہوتے تھے ۔ سرسید کہتے تھے کہ:[/align:6d30603c82]

" میں نے اور بڑے بھائی نے اپنے والد سے تیرنا سیکھا تھا ایک زمانہ تو وہ تھا کہ ایک طرف دلی کے مشہور تیراک مولوی علیم اللہ کا غول ہوتا تھا جن میں مرزا مغل اور مرزا طفل بہت سربرآوردہ اور نام تھے اور دوسری طرف ہمارے والد کے ساتھ سو سواسو شاگردوں کا گرروہ ہوتا تھا۔ یہ سب ایک ساتھ دریا میں کودتے تھے اور مجنوں کے ٹیلے سے شیخ محمد کی بائیں تک یہ سارا گروہ تیرتا جاتا تھا ۔ پھر جب ہم دونوں بھائی تیرنا سیکھتے تھے اس زمانہ میں بھی تیس چالیس آدمی والد کے ساتھ ہوتے تھے ۔ ان ہی دنوں میں نواب اکبر خاں اور چند اور رئیس زادے بھی تیرنا سیکھتے تھے۔ زینۃ المساجد کے پاس نواب احمد بخش خاں کے باغ کے نیچے جمنا بہتی تھی ، وہاں سے تیرنا شروع ہوتا تھا ۔ مغرب کے وقت سب تیراک زینۃ المساجد میں جمع ہوجاتے تھے اور مغرب کی نماز جماعت سے پڑھ کر اپنے اپنے گھر چلے آتے تھے ۔ میں ان جلسوں میں اکثر شریک ہوتا تھا۔" 11​

تیر اندازی کی صحبتیں :

[align=justify:6d30603c82]تیراندازی کی صحبتیں بھی سرسید کے ماموں نواب زین العابدین خان کے مکان پر ہوتی تھیں۔ وہ کہتے تھے کہ:[/align:6d30603c82]
" مجھے اپنے ماموں اور والد کے شوق کا وہ زمانہ جب کہ نہایت دھوم دھام سے تیراندازی ہوتی تھی ، یاد نہیں۔ مگر جب دوبارہ تیر اندازی کا چرچا ہوا وہ بخوبی یاد ہے۔ اس زمانہ میں دریا کا جانا موقوف ہو گیا تھا ۔ ظہر کی نماز کے بعد تیراندازی شروع ہوتی تھی ۔ نواب فتح اللہ بیگ خاں ، نواب سید عظمت اللہ خاں ، نواب ابرہیم علی خاں اور چند شاہزادے اور رئیس اور شوقین اس جلسہ میں شریک ہوتے تھے ۔ نواب شمس الدین خاں رئیس فیروز پور جھرکہ جب دلی میں ہوتے تھے تو وہ بھی آتے تھے ۔ میں نے بھی اسی زمانہ میں تیر اندازی سیکھی اور مجھ کو خاصی مشق ہو گئی تھی ۔ مجھے خوب یاد ہے کہ ایک دفعہ میرا نشانہ جو تودے میں نہایت صفائی سے جا کر بیٹھا تو والد بہت خوش ہوئے اور کہا، " مچھلی کے جائے کو کون تیرنا سکھائے! " یہ جلسہ برسوں تک رہا ، پھر موقوف ہوگیا۔" 12​


-----×××××-----​
۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


بزرگوں کا تذکرہ

دادا کا فارسی دیوان:


سرسید کہتے تھے کہ:

" سید ہادی فارسی شعر کہتے تھے اور ان کا پورا دیوان ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا میرے پاس موجود تھا جو غدر کے زمانہ میں تلف ہو گیا ۔" 15​

نانا کے بھائی فقیری راہ پر:

خواجہ نجیب الدین ، جو نواحِ دہلی میں شاہ فدا حسین کے نام سے مشہور ہیں، سہروردی خاندان میں ایک نیا فرقہ رسول شاہ کے پیروؤں کا پیدا ہو گیا تھا ۔ شاہ فدا حسین اس فرقہ میں ابتدائی عمر سے داخل ہو گئے تھے اور رسول شاہ کے جانشین مولوی محمد حنیف کے چیلے بن گئے تھے ۔ ۔ ۔ سر سید کہتے تھے کہ :

" وہ نہایت خوش بیان اور خوش تقریر تھے جب میرے والد کا انتقال ہوا تو میری والدہ کو جو ان کی بھتیجی تھیں ، اپنے پاس بلا کر ایسی عمدہ تقریر کی کہ اب تک اس کا لطف میرے دل سے نہیں بھولا۔"16​

والد کا مغلیہ دربار میں رسوخ:

سرسید کے والد میر متقی ایک آزادطبیعت کے آدمی تھے ۔ اگرچہ شاہ عالم کے زمانہ میں اور ان کے بعد اکبر بادشاہ کے زمانہ میں جو درجہ دربارِعام اور دربارِ خاص میں ان کے والد کا تھا وہی درجہ میر متقی کا بھی رہا ۔ ۔ ۔ مگر چونکہ ان کو اکبر شاہ کے ساتھ شاہزادگی کے زمانہ سے نہایت خلوص اور خصوصیت تھے اس لئے شاہ عالم کے انتقال کے بعد ان کا رسوخ دربار میں پہلے سے بھی زیادہ ہوگیا تھا۔ مثمن برج سے پیوستہ جو مکان خواب گاہ کے نام سے مشہور تھا اور جہاں خاص خاص لوگوں کے سوا کوئی نہ جا سکتا تھا ، میر متقی برابر وہاں جاتے تھے۔ سرسید کہتے تھے کہ:

" میں بارہا اپنے والد کے ساتھ اور نیز تنہا بھی اس خاص دربار میں گیا ہوں۔"17​

والدہ کی نصیحت کا اثر: ×

سر سید نے ایک شخص کا ہم سے ذکر کیا کہ :

" جب میں صدر امین تھا تو اس کے ساتھ میں نے کچھ سلوک کیا تھا اور اس کو ایک سخت مؤاخذہ سے بچایا تھا ، مگر ایک مدت کے بعد اس نے میرے ساتھ درپردہ برائی کرنی شروع کی اور ایک مدت تک میری شکایت کی گمنام عرضیاں صدر میں بھیجتا رہا ۔ آخر تمام وجہ ثبوت ، جس سے اس کو کافی سزا مل سکتی تھی ، میرے ہاتھ آگئی اور اتفاق سے اس وقت مجسٹریٹ بھی وہ شخص تھا جو اس کے پھانسنے کی فکر میں تھا ۔ میرے نفس نے مجھ کو انتقام لینے پر آمادہ کیا ۔ میری والدہ کو جب میرا یہ ارادہ معلوم ہوا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ سب سے بہتر تو یہ ہے کہ در گذر کرو اور اگر بدلہ ہی لینا چاہتے ہو تو اس زبردست حاکم کے انصاف پر چھوڑ دو جو ہر بدی کی پوری سزا دینے والا ہے ۔ اپنے دشمنوں کو دنیا کے کمزور حاکموں سے بدلہ دلوانا بڑی نادانی کی بات ہے۔ " ان کے اس کہنے کا مجھ پر ایسا اثر ہوا کہ اس دن سے آج تک مجھ کو کبھی کسی اپنے دشمن یا بدخواہ سے انتقام لینے کا خیال نہیں آیا اور امید ہے کہ کبھی نہ آئے گا ، بلکہ ان ہی کی نصیحت کی بدولت میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ آخرت میں خدا اس سے میرا بدلہ لے۔ " 18​

والدہ کا نظامِ مصارف:

جب کہ وہ دلی میں منصف تھے ان کو عمارات شہر اور نواحِ شہر کی تحقیقات کا خیال ہوا۔ وہ کہتے تھے کہ :

" میں اپنی کُل تنخواہ والدہ کو دے دیتا تھا ۔ وہ اس میں صرف پانچ روپے مہینہ اوپر کے خرچ کے لئے مجھ کو دے دیتی تھیں ، باقی میرے تمام اخراجات ان کے ذمہ تھے ۔ جو کپڑا وہ بنا دیتی تھیں پہن لیتا تھا اور جیسا کھانا وہ پکا دیتی تھیں ، کھا لیتا تھا۔ "​

اس کا سبب یہ تھا کہ ان کی آمدنی گھر کے اخراجات کو مشکل سے مکتفی ہوتی تھی ۔ ان کے بڑے بھائی کا انتقال ہو چکا تھا جس سے سو روپیہ ماہوار کی آمدنی کم ہوگئی تھی ، قلعہ کی تنخواہیں تقریبا بند ہو گئیں تھیں ، باپ کی ملک بھی بسبب حین حیات ہونے کے ضبط ہوگئی تھی ، کرایہ کی آمدنی بہت قلیل تھی ، صرف سرسید کی تنخواہ کے سو روپے ماہوار تھے اور سارے کنبے کا خرچ تھا۔ 19

والدہ سے دلبستگی:

[align=justify:5810c5044b]اپنی والدہ کے ساتھ جیسی ان کو دل بستگی تھی ایسی بہت ہی کم سنی گئی ہے ۔ اور جیسی کہ وہ جوانی میں ماں کی اطاعت کرتے تھے اور ان کے غصہ اور خفگی کی برداشت کرتے تھے اس طرح بچے بھی اپنے ماں باپ کا کہنا نہیں مانتے۔ وہ کہتے تھے کہ:[/align:5810c5044b]

" مجھ کو ماں کے مرنے کا اتنا رنج نہیں ہوا جتنا کہ بھائی کے مرنے کا ہوا تھا ، کیونکہ غدر کے مصائب کا زمانہ تھا اور ہر وقت یہ خیال رہتا تھا کہ ایسا نہ ہو میں پہلے مر جاؤں اور میرے بعد والدہ کی زندگی سختی اور تلخی میں گذرے ۔"​

[align=justify:5810c5044b]انہوں نے مرنے سے چند سال پہلے میرٹھ میں جہاں ان کی والدہ مدفون ہیں ، ایک پبلک اسپیچ میں اپنی ماں کا ذکر کیا، معاً ان کا دل بھر آیا اور اس بڑھاپے میں ان کو ماں کے ذکر پر روتا دیکھ کر لوگ متعجب ہوگئے۔ 20[/align:5810c5044b]

------------------------------------------------------------------------
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین



عادات و خصائل

آدم کی شراب سے لگاؤ:

[align=justify:33d6e33a4c]کسی قسم کے مسکرات کا تمام عمر انہوں نے کبھی استعمال نہیں کیا۔ مرنے سے نو دس برس پہلے ایک دفعہ وہ سخت بیمار پڑے تھے ، ڈاکٹر نے کوئی ہلکی سی شراب ان کے لئے تجویز کی ۔ ان کے ایک دوست نے ان سے ڈاکٹر کی تجویز کا ذکر کیا۔ انہوں نے شراب پینے سے انکار کیا اور مومن کا یہ شعر پڑھا [/align:33d6e33a4c]
عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومن
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے​

[align=justify:33d6e33a4c]کرنل گریہم لکھتے ہیں کہ جب وہ (یعنی سرسید) لندن میں تھے ، ایک دفعہ ڈیوک آف آرگائل کے ہاں ڈنر پر بلائے گئے جب شراب سامنے آئی تو انہوں نے کہا:[/align:33d6e33a4c]

" میں نوح کی شراب نہیں پیتا ، صرف آدم کی شراب (یعنی پانی) پیتا ہوں۔"21​

ملازموں سے بے تکلفی:


[align=justify:33d6e33a4c]بعض اوقات ان کے ماتحت یا ملازم ، جن سے بے تکلفی تھی، ان کو ایسا جواب دیتے تھے جس سے انہیں شرمندہ ہونا چاہیے تھا مگر وہ کبھی برا نہ مانتے تھے بلکہ خوب قہقہے لگاتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔ منشی غلام نبی خاں مرحوم نے اس امر کے متعلق ایک دلچسپ نقل بیان کی۔ وہ کہتے تھے کہ حافظ عبدالرحمٰن جو 45 برس سرسید کے رفیق رہے ، وہ رہتک میں بھی ان کے ساتھ تھے ۔ اگر چہ وہ سرکاری نوکر تھے مگر سید صاحب قلتِ تنخواہ کے سبب ان کو اپنے پاس رکھتے تھے ۔ اُن سے اکثر ہنسی چُہل کی باتیں ہوتی رہتی تھیں۔ حافظ جی اپنی ترقی کے لئے اکثر کہا کرتے مگر چونکہ ترقی کی گنجائش نہ تھی ، سید صاحب ہنسی سے یہ کہی کر ٹال دیتے تھے کہ:[/align:33d6e33a4c]

" تمہارا خط اچھا نہیں اور نہ کبھی اچھا ہو سکتا ہے کیونکہ تم بدصورت ہو اور بدصورت کبھی خوش نویس نہیں ہو سکتا۔ "

ایک دن حافظ جی نے کہا ، " آپ تو ماشاءاللہ بہت وجیہ ہیں ، آپ کا خط کیوں اچھا نہیں ؟ " سید صاحب نے کہا:

" میرے گلے کی رسولی نے میری وجاہت کو بگاڑ دیا ہے، اس واسطے میں بھی بدصورت ہوگیا ہوں، پس میرا خط کیونکر اچھا ہو سکتا ہے ؟ "

ایک دن سید صاحب نے حافظ جی سے کہا:

" بھلا صاحب ! اگر تم بادشاہ ہو جاؤ تو مجھے کیا عہدہ دو؟ "

حافظ جی نے وہ تمام سلوک جو سید صاحب ان کے ساتھ کرتے تھے ، بیان کئے کہ میں آپ کی بڑی خاطر کروں ، دونوں وقت آپ کو اپنے ساتھ کھانا کھلاؤں ، رات کو آپ کا پلنگ اپنے پلنگ کے برابر بچھاؤں اور چناں کروں اور چنیں کروں،

سید صاحب نے کہا،

" ان باتوں کو جانے دو ، یہ بتاؤ مجھے عہدہ کیا دو گے ؟"

حافظ جی نے ذرا روکھی صورت بنا کر کہا ، " حضرت میں مجبور ہوں ، چونکہ آپ کا خط اچھا نہیں اس لئے کوئی عہدہ نہ دے سکوں گا۔"

سید صاحب اور ہم سب لوگ یہ گرم فقرہ سن کر پھڑک گئے اور بہت دیر تک ہنستے رہے۔ 22

(جاری ۔ ۔ ۔ )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
میں سِڑا ہوں:

منشی صاحب× کہتے تھے کہ دلی میں مولوی امام بخش صہبائی نے سید صاحب سے پوچھا کہ، " تم نے غلام نبی میں کیا بات دیکھی جو اس پر اس قدر مہربان ہو؟" سید صاحب نے کہا :

" کچھ نہیں، صرف اتنی بات ہے کہ جیسا میں سِڑا ہوں ایسا ہی وہ سِڑا ہے۔" 23


مرزا غالب سے تجدیدِ مراسم:

دہلی کے جن نامور لوگوں کی تقریظیں آثارالصنادید کے آخر میں درج ہیں انہوں نے آئینِ اکبری پر بھی نظم یا نثر میں تقریظیں لکھی تھیں مگر آئین کے آخر میں صرف مولانا صہبائی کی تقریظ چھپی ہے ۔ مرزا غالب کی تقریظ جو ایک چھوٹی سی فارسی مثنوی ہے وہ کلیاتِ غالب میں موجود ہے مگر آئینِ اکبری میں سرسید نے اس کو قصدا ً نہیں چھپوایا۔ اس تقریظ میں مرزا نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ابوالفضل کی کتاب اس قابل نہ تھی کہ اس کی تصحیح میں اس قدر کوشش کی جائے۔ 24

سر سید کہتے تھے کہ :

" جب میں مرادآباد میں تھا ، اس وقت مرزا صاحب، نواب یوسف علی خاں مرحوم سے ملنے کو رام پور گئے تھے۔ ان کے جانے کی تو مجھے خبر نہیں ہوئی مگر جب دلی کو واپس جاتے تھے ، میں نے سنا کہ وہ مرادآباد میں سرائے میں آکر ٹھہرے ہیں ۔ میں فورا سرائے میں پہنچا اور مرزا صاحب کو مع اسباب اور تمام ہم راہیوں کے اپنے مکان پر لے آیا۔"

ظاہرا جب سے کہ سر سید نے تقریظ کے چھاپنے سے انکار کیا تھا وہ مرزا سے اور مرزا ان سے نہیں ملے تھے اور دونوں کو حجاب دامن گیر ہو گیا تھا اور اسی لئے مرزا نے مرادآباد میں آنے کی ان کو اطلاع نہیں دی تھی۔ الغرض جب مرزا سرائے سے سرسید کے مکان پر پہنچے اور پالکی سے اُترے تو ایک بوتل ان کے ہاتھ میں تھی انہوں نے اس کو مکان میں لا کر ایسے موقع پر رکھ دیا جہاں ہر ایک آتے جاتے کی نگاہ پڑتی تھی ۔ سر سید نے کسی وقت اس کو وہاں سے اُٹھا کر اسباب کی کوٹھڑی میں رکھ دیا ۔ مرزا نے جب بوتل کو وہاں نہ پایا توبہت گھبرائے ، سرسید نے کہا:

" آپ خاطر جمع رکھئے ، میں نے اس کو بہت احتیاط سے رکھ دیا ہے۔"

مرزا صاحب نے کہا، " بھئی مجھے دکھا دو ، تم نے کہاں رکھی ہے؟" انہوں نے کوٹھڑی میں لے جا کر بوتل دکھا دی ۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے بوتل اُٹھا کر دیکھی اور مسکرا کر کہنے لگے کہ، " بھئی ! اس میں تو کچھ خیانت ہوئی ہے۔ سچ بتاؤ، کس نے پی ہے ، شاید اسی لئے تم نے کوٹھڑی میں لا کر رکھی تھی، حافظ نے سچ کہا ہے:

واعظاں کایں جلوہ در محراب و منبر میکنند
چوں بخلوت میروند آں کارِ دیگر میکنند​

سرسید ہنس کے چُپ ہورہے اور اس طرح وہ رکاوٹ جو کئی برس سے چلی آتی تھی ، رفع ہوگئی ، میرزا دو ایک دن وہاں ٹھہر کر دلی چلے آئے۔ 25

-----------------------------------------------------------------
× : منشی غلام نبی خاں



(جاری ۔ ۔ ۔ )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کثیر اخراجات کی برداشت:

جس زمانہ میں سرسید مولوی نوازش علی مرحوم سے دلی میں پڑھتے تھے میر محمد مرحوم امام جامع مسجد دہلی بھی ان کے ساتھ پڑھتے تھے ۔ وہ کہتے تھے کہ جب سید صاحب چند روز کے لئے قائم مقام صدر امین مقرر ہو کر رہتک جانے لگے تو انہوں نے مولوی صاحب سے کہا کہ آپ بھی رہتک چلئے ۔ مولوی صاحب ہنسنے لگے اور کہا کہ میں بھلا کیونکر جاسکتا ہوں ؟ ایک جماعت کثیر طلبہ کی مجھ سے پڑھتی ہے ، ان کو کس پر چھوڑ کر جاؤں؟ انہوں نے کہا، " سب طلبہ کو بھی ساتھ لے چلئے ۔" مولوی صاحب کو اور زیادہ تعجب ہوا کہ اتنے طالبِ علم کھائیں گے کہاں سے؟ سید صاحب نے کہا:


(جاری ۔ ۔ ۔ )
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top