سرکہ حرام؟

سکون

محفلین
[FONT="Urdu_Umad_Nastaliq"]سکون صاحب۔
صرف ایک مثال دیجئے جو ایک عرصے سے شراب پی رہا ہو اور اسے نشہ نہ ہوتا ہو۔
عادی ہوجانا اور ہے ۔۔ اور نشے کی حالت میں یہ کہنا کہ "نشہ نہیں ہوتا " یہ اور بات۔۔
[/FONT]

ہمارا ایک چھوٹا ساشہر ہے اس کا چوکیدار وہ شراب اور بھنگ پیتا ہے اور کہتا ہے اور چوکیداری کرتا ہے پوری رات مجال ہے کہ آپ وہاں سے کوئی چیز چوری کر سکیں :grin:اور وہ کہتا ہے کہ اگر میں یہ نشہ نہ کرورں تو میں چوکیداری اور رات کو نہیں جاگ سکتا اسے ہم نے کبھی بھی بے ہوش نہیں دیکھا ہے جب بھی وہاں سے رات کو گزرتے ہیں اسے تندو تازہ اور ہوشیار پاتے ہیں ۔
مےرے بھائی کہنے کا مطلب یہ ہے کہ شراب کو اللہ تعالیٰ نے کیوں حرام کیا ہے یہ انھی کو مڈلحت کا پتا ہے ہمیں تو بس اس کے اکا دکا نقصآنات کا پتا ہے جس کی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ شاراب نسے دار ہے ورنہ نشہ تو کھانا کھانے کے بعد بھی ہوتا ہے خصوصا گندم کی روٹی تو کہا پھر وہ بھی حرام ہے ۔؟؟؟نشہ تو کھانسی کا سیرپ پینے سے بھی ہوتا ہے کیا کسی نے آج تک حرام قرار دیا ہے اسے ؟؟؟مطلب یہ کہ ِِ۔ ۔ قیاس کرنا صحیح نہیں‌ہے ۔امید ہے کہ میری بات واضح ہو گئی ہوگی
 

سکون

محفلین
بالکل حلال ہیں کیونکہ قرآن نے صرف "خمر" کا استعمال حرام قرار دیا ہے - یعنی جس سے نشہ ہو - اور الکوحل تو قرآن کے نزول کے بعد کی ایجاد ہے - الکوحل اسی صورت میں حرام ہوگی اگر وہ نشے کا باعث بنے -

آپ کا جواب تو تھیک ہے لیکن جو راستہ جواب ہے وہ درست نہیں‌ ہے کہ سرکہ جو حلال چیز سے بنے حرام نہیں ہے لیکن ۔ آپ کا یہ کہنا کہ الکوحل نزول قرآن کے بعد کی ایجاد ہے تو یہ درست نہیں ہے کیوں کہ قرآن مجید میں ہر خشک و تر کا ذکر موجود ہے تو اس زمن میں کوئی چیز نہیں ہے جس کا حکم قران مجید میں نہ ہو یہ الگ بات ہے کہ قران مجید میں ہر چیز کا نام نہیں ہے بلکہ کلی قوانین موجود ہیں جن کے زمرے میں تمام جزئیات آجاتی ہیں خیر الکحل کے حرام ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں قدرے اختلاف ہے لیکن اکثر لوگ اس کی حرمت کے قائل ہیں ۔ اور جو اس کے حرام ہونے کے قائل ہیں تو ان کے نزدیک اگر سرکہ اس الکوحل سے بنایا جائے تو وہ بھی حرام ہوگا اور جو اس کے جواز کے قائل ہیں توِ ۔ ۔ ِ ِ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔
 

سکون

محفلین
[FONT="Urdu_Umad_Nastaliq"]صحیح فرمایا آپ نے۔۔
اب دیکھئے ناں : ہومیو پیتھک ادویات میں بھی الکحل شامل ہوتا ہے ۔۔
علماء اور مفتیانِ کرام بھلا کیوں خاموش رہتے۔۔۔۔وجہ یہ ہے کہ اس سے نشّہ
نہیں ہوتا۔۔۔
فقط واللہ و وعلم بصواب
[/FONT]

جو مفتی الکحل کے حرام کے قائل ہیں وہ اس پر خاموش نہیں رہتے خآد کر پرفیوم وغیرہ ۔ ۔ ۔ ہاں البتہ اپ دوائی وغیرہ کی مثال یہاں نہیں‌لا سکتے کیونکہ ضرورت ، مجبوری ، اور اضطرار یہ چیزیں‌ ان صورتوں میں جائز قرار پاتی ہیں تو اگر کوئی اس وجہ سے دوا نہ کھائے کہ اس میں الکحل ہے اور اس کے لئے وہ دوائے کھانا لازمی ہو اور وہ مرجائے تو وہ خود کشی کے مترادف ہے ۔ تو حالت ضرورت میں بہت سی چیزیں جو حرام ہوتی ہیں جائز ہوجاتی ہیں جن کی مثالیں بہت سی ہیں اور واضح ہیں
 

سکون

محفلین
سکون صاحب قرآن نے "خمر" کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی جس سے نشہ ہو - اور شراب کا مطلب عربی میں‌ مشروب ہوتا ہے - نشہ نہیں - خدا نے جنتیوں کے لئے شرابِ طہورا کا وعدہ کیا ہے - یعنی "پاکیزہ مشروب" نا کہ نشہ آور شراب - اس لئے جو چیز نشہ آور ہو وہ حرام ہے وہ کوئی بھی ہوسکتی ہے صرف الکوحل پر منحصر نہیں‌ہے -


سوری برادر محترم نشی دار چیز کے لئے خمر نہیں بلکہ (مسکر ) استعمال ہوتا ہے جیسا کہ مشہور ہے کہ (الخمر مسکر ) کہ شراب نشہ دیتا ہے ۔ اور ویسے بھی ہم یہاں عربی میں نہین اردو میں بات کر رہے تھے تو خمر کا اردو ترجمہ اگر شرابب کے علاوہ کوئی اور لفظ ہے تو میرے علم میں بھی اضافہ ضرور کیجئے گا ۔باقی شراب کا استعمال جہاں تک عربی زبان کا تعلق ہے تو واقعا عام لفظ ہے ہر پینے والی چیز کے لئے استعمال ہوتا ہے چاہے وہ حلا ل ہو یا حرام لیکن ہم اردو میں بات کر رہے تھے ۔ شکریہ :grin:
 

سکون

محفلین
اگر کوئی شراب پیے نشے کے لیے نہیں صرف چھکنے کے لیے کہ بھئی دیکھوں تو کسی ہوتی ہے۔۔تو وہ حلال ہو جائے گی۔۔۔یا اگر شراب کا استعمال ادویات میں کیا جائے نشے کے لیے نہیں صرف بیماری دور کرنے کے لیے تو کیا وہ حلال ہو جائیں گی جب کہ اس پر تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی واضع دلیل ہے کہ کسی بھی حرام چیز میں شفا نہیں رکھی گئی ہے
ویسے الکوحل کی تیاری میں کیا اشیا استعمال ہوتی ہیں یہ دیکھنا چاہیے؟؟؟؟؟؟

نہیں آپ حالت ضرورت کی روایات اور احادیث کا مطالعہ کریں ۔ آپ کو معلوم ہوجائے گا ہم اپنی طرف سے کیوں حکم لگائیں جب کہ ان چیزوں کو حالت ضرورت میں جائز قرار دیا گیا ہے اس سے کسی کو اختلاف نہیں ہے ۔
 

سارا

محفلین
کیا اب یہی حرام ہے چغلی حرام ہے غیبت حرام ہے سور حرام ہے رشوت حرام ہے بہتاں حرام ہے تجسس اعمال حرام ہے اور بہت سی چیزیں ہیں جو کلئر کٹ حرام ہیں ان کو تو چھوڑ لو
ہر وہ چیز جو آپکو مدہوشی میں لے جائے حرام ہے اگر آپ اسے نشہ کرنے کے ارادے سے استعمال کریں تب اور اگر آپکا اپریشن ہونے والا ہو خدا نہ کرے تو وہ بے ہوشی جو آپ دی جارہی ہے وہ حلال اسی طرح بہت سی میڈیسن میں الکحل استعمال ہوتا ہے اتنی باریکیاں نہ تلاش کیا کرو ورنہ منزل کہیں اور رہ جائے گی

بھائی اس پر تو واضح دلیل موجود ہے۔۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ شراب کو بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کرتے تھے۔۔ایک صحابی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا پوچھا کیا کر رہے ہو تو انہوں نے کہا کہ دوا تیار کر رہا ہوں۔۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ خود بیماری ہے اس سے یہی ثابت ہوا کہ چاہے آپ حرام شے کو نشے کے لیے نہیں بیماری دور کرنے کے لیے استعمال کریں حلال نہیں ہو جائے گی۔۔۔
اور میرا خیال ہے دین کے معاملے میں ہی باریکی میں جانا چاہیے روزمرہ زندگی میں تو ہم بہت آگے تک جاتے ہیں دین کے معاملے میں بھی چھان بین کرنی چاہیے کہ کیا صحیح ہے کیا غلط۔۔۔
 

سارا

محفلین
بالکل حلال ہیں کیونکہ قرآن نے صرف "خمر" کا استعمال حرام قرار دیا ہے - یعنی جس سے نشہ ہو - اور الکوحل تو قرآن کے نزول کے بعد کی ایجاد ہے - الکوحل اسی صورت میں حرام ہوگی اگر وہ نشے کا باعث بنے -

قرآن کے نزول کے بعد کی حرام ایجاد کیا بعد میں حلال ہو جائے گی؟؟؟
ویسے کچھ ڈاکٹرز حضرات نے بھی الکوحل کو شراب کی ایک قسم ہی کہا ہے اور علماء کرام نے بھی اس پر فتوے دیے ہیں کہ اسے استعمال کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔۔
مجبوری کی حالت ایک الگ بات ہے جہاں جان کا خطرہ ہو وہاں تو حرام بھی کھایا جا سکتا ہے لیکن یہاں یہ بات ہو رہی ہے کہ کیا ایسی چیزوں کو روزمرہ زندگی میں استعمال کرنا چاہیے یا نہیں؟
 

سکون

محفلین
قرآن کے نزول کے بعد کی حرام ایجاد کیا بعد میں حلال ہو جائے گی؟؟؟
ویسے کچھ ڈاکٹرز حضرات نے بھی الکوحل کو شراب کی ایک قسم ہی کہا ہے اور علماء کرام نے بھی اس پر فتوے دیے ہیں کہ اسے استعمال کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔۔
مجبوری کی حالت ایک الگ بات ہے جہاں جان کا خطرہ ہو وہاں تو حرام بھی کھایا جا سکتا ہے لیکن یہاں یہ بات ہو رہی ہے کہ کیا ایسی چیزوں کو روزمرہ زندگی میں استعمال کرنا چاہیے یا نہیں؟

جی آپ نے بالکل درست فرمایا قرآن کے نزول کے بعد کی حرام ایجاد حلال نہیں‌ہو سکتی ہے ۔(حرام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حرام الی یوم القیامہ و حرام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حرام الی یوم القیامہ ) اس میںکوئی ردو بدل نہیں کی جاسکتی ہے ۔شکریہ
 

پپو

محفلین
بھائی اس پر تو واضح دلیل موجود ہے۔۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ شراب کو بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کرتے تھے۔۔ایک صحابی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا پوچھا کیا کر رہے ہو تو انہوں نے کہا کہ دوا تیار کر رہا ہوں۔۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ خود بیماری ہے اس سے یہی ثابت ہوا کہ چاہے آپ حرام شے کو نشے کے لیے نہیں بیماری دور کرنے کے لیے استعمال کریں حلال نہیں ہو جائے گی۔۔۔
اور میرا خیال ہے دین کے معاملے میں ہی باریکی میں جانا چاہیے روزمرہ زندگی میں تو ہم بہت آگے تک جاتے ہیں دین کے معاملے میں بھی چھان بین کرنی چاہیے کہ کیا صحیح ہے کیا غلط۔۔۔
میں معافی چاہتا ہوں میں نے آج کافی دنوں بعد اس پوسٹ کو دیکھا اکثر ایسا ہو جاتا ہے انسان گھومتے گھومتے کسی پوسٹ پر اپنی رائے دے جاتا اور بعد میں اسے پتہ نہیں چلتا کہ اس کا جواب بھی پوسٹ کیا گیا ہے
سارا جی میں نے اس پوسٹ پر کچھ چیزوں کا ذکر کیا تھا جو بغیر کسی اختلاف کے حرام ہیں‌ اور ان کو چھوڑدینے کی بات کی تھی میرا مطلب تھا کہ سرکہ ایک عرصہ سے ہماری خوراک اور دیگر ضروریات میں استعمال ہو رہا ہے اور میرا نہیں خیال کہ کوئی اسے نشہ کے لئے استعمال کرتا ہو گا جسے نشہ ہی کرنا ہے وہ حلال اور حرام کو تھوڑا دیکھے گا میرا مطلب صرف سرکہ کے استعمال کے لئے تھا کہ اس کو تخت مشق نہ بنایا جائے اس قسم کی بحث بہت سے اختلافات کا باعث بنتی ہے اور کوئی مقصد نہیں تھا
 

غازی عثمان

محفلین
کافی اہم مسئلہ پر کافی اہم گفتگو چل رہی ہے

لیکن نجانے مجھے ایک مثال کیوں یاد آرہی ہے؟؟؟

بھس میں چنگاری ڈل ۔۔۔ جمالو دور کھڑی ۔۔




اللہ تعالی آپ تمام لوگوں کو عقل سلیم عطا فرمائے
 

ساجداقبال

محفلین
میں‌ نے تو یہ پڑھا تھا کہ الکوحل کا دواؤں‌ اور کھانے کی چیزوں میں ایسا استعمال جس میں وہ اپنی ماہیت کھو دے، حرام نہیں۔
فقیہ العصر مولانا تقی عثمانی کی توضیح

الکوہل سے بنی ہوئی دواؤں کے بارے میں فرماتے ہیں: وحیث عمت البلوی فی ہذہ الأدویة فینبغي أن یوخذ فی ہذا الباب کمذہب الحنفیة أو الشافعی واللّٰہ اعلم․ ثم ہناک جہة أخری ینبغی أن یسأل عنہا خبراء الکیمیائی وہو أن ہذہ الکحول بعد ترکیبہا بأدویة أخری ہل تبقی علی حقیقتہا؟ أو تستحیل حقیقتہا وماہیتہا بعملیات کیمیاویة فان کانت ماہیتہا تستحیل بہذہ العملیات بحیث لا تبقی الکحل وانما تصیر شیئاً آخر فیظہر أن عند ذلک یجوز تناولہ باتفاق الأئمة لأن الخمر اذا صارت خلاً جاز تناولہا فی قولہم جمیعاً لاستحالة الحقیقة .

(جب الکحل سے بنی ہوئی دواؤں کا استعمال عام ہوگیا اوراس قسم کی دوائیں تمام لوگوں کی ضرورت میں داخل ہوگئیں تو عموم بلوی والی فقہاء کی اصطلاح کے اعتبار سے بھی جائز ہوگا، پھر ایک اور رخ سے بھی مسئلہ پر بحث ہوسکتی ہے، جس سے کیمیاء کیمسٹری کے ماہروں سے دریافت کیا جاسکتا ہے ، وہ یہ کہ الکحل کو دوسری دواؤں سے ملانے کے بعد کیا وہ الکحل اپنی اصل شکل میں رہ جاتا ہے یا اس کی شکل اور حقیقت مختلف کیمیائی مراحل اور ادوار سے گذارنے کے بعد وہ شکل و حقیقت اس طرح بدل جاتی ہے کہ الکحل کچھ بھی نہ رہے، پس صرف دوسری چیز وہ دوائیاں (الکحل جس سے بدل گئی ہیں) رہ گئی ہیں اور ظاہر ہے کہ الکحل جب اپنی حقیقت کھودیااور صرف دوائیاں رہ گئیں تو تمام ائمہ کے نزدیک اس کا استعمال جائز ہے، جیسا کہ شراب جب سرکہ بن جائے تو تبدیلیٴ ماہیت کی وجہ سے بالاتفاق جائز ہے، پھر آگے خنزیر کے اجزاء سے بنے جلاٹین سے بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ان کان العنصر المستخلص من الخنزیر تستحیل ماہیتہ بعملیة کیمیاویة بحیث تنقلب حقیقتہ تماماً․ زالت حرمتہ ونجاستہ وان لم تنقلب حقیقتہ بقی علی حرمتہ ونجاستہ لأن انقلاب الحقیقة موثر فی زوال الطہارة والحرمة عند الحنفیة ․

اگر خنزیر کے اجزاء سے بنا ہوا عنصر کیمیاوی تجزیہ سے اپنی پوری حقیقت بدل دے اور دوسری شکل اختیار کرلے تواس کی حرمت اور نجاست کا حکم بھی ختم ہوجائے گا اور اس کی اصلی شکل اور حقیقت باقی رہ جائے تو نجاست و حرمت کا حکم بھی باقی رہ جائیگا، اسلئے کہ طہارت و حرمت کے حکم کے بدل جانے میں حقیقت کا بدل جانا ہی اثرانداز ہوتا ہے۔ (بحوث فی قضایا فقہیة معاصرة:۳۴۱)
بحوالہ:‌ ای کوڈ کی شرعی حیثیت
 
Top