عرفان صدیقی سخن میں رنگ تمھارے خیال ہی کے تو ہیں

سخن میں رنگ تمھارے خیال ہی کے تو ہیں
یہ سب کرشمے ہوائے وصال ہی کے تو ہیں

کہا تھا تم نے کہ لاتا ہے کون عشق کی تابہ
سو ہم جو اب تمھارے سوال ہی کے تو ہیں

ذرا سی بات ہے دل میں اگر بیاں ہوجائے
تمام مسئلے اظہار حال ہی کے توہیں

یہاں بھی اس کے سوا اور کیا نصیب ہمیں
ختن میں رہ کے بھی چشم غزال ہوجائے

جسارت سخن شاعراں سے ڈرنا کیا
غریب مشغلۂ خیل و قال ہی کے تو ہیں

ہوا کی زد پہ ہمارا سفر ہے کتنی دیر
چراغ ہم کسی شام زوال ہی کے تو ہیں
 
Top