سخنورانِ محفل کے شعری فن پارے۔۔۔!

آپ کو یہ دھاگہ کیسا لگا۔۔۔؟


  • Total voters
    62

متلاشی

محفلین
یہاں اس فورم کے تمام شعراء کرام سے گذارش ہے کہ وہ اپنے شعری فن پارے(آپ کی وہ شعری کاوش جو آپ کے نزدیک آپ کی سب سے بہترین کاوش ہو یا آپ کی وہ کاوش جسے لوگوں نے بہت زیادہ سراہا ہو) جمع کروائیں۔۔۔! اس طرح اس فورم کے تمام شعراء کرام کی بہترین شاعری کا ایک مجموعہ تیار ہو گا۔۔۔ جسے اگر استاذِگرامی جناب الف عین مناسب سمجھیں تو اپنی ای بک لائبریری میں ایک ای بک کی شکل میں لگا سکتے ہیں۔۔۔!
 

متلاشی

محفلین
سو سب سے پہلے اپنی سب سے بہترین کاوش(بزعمِ خود) پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔۔۔! آپ کی آراء و تبصرہ جات کا شدت سے انتظار رہے گا۔۔۔!
دُعا​
الٰہی مجھ کو تو ذوقِ مسیحائی عطا کر دے​
جنوں کو تو مرے، مولا شکیبائی عطا کر دے​
بنوں رہبر دکھاؤں راہ میں گمراہ لوگوں کو​
مجھے وہ معرفت ، ایماں، وہ مولائی عطاکردے​
مری بے نام منزل کو نشانِ راہ دے دے تو​
مجھے تو ذات سے اپنی شناسائی عطا کر دے​
الٰہی سوچ سے میری ،ہو روشن اک جہانِ نو​
تخیل کو مرے تو ایسی گہرائی عطا کردے​
نگہ میری اٹھے جس سمت دنیا ہی بدل جائے​
مری بے نور آنکھوں کو ،وہ بینائی عطا کر دے​
معطر روح ہو جس سے ، مسخر قلب ہو جس سے​
زبان و نطق کو یارب ،وہ گویائی عطا کردے​
زَمن جس سے منور ہو، چمن جس سے معطر ہو​
مرے کردار کو مولا، وہ رعنائی عطا کر دے​
خیالوں کو ملے تصویر اور تعبیر خوابوں کو​
مرے وجدان کو یارب، وہ دانائی عطا کر دے​
اگر چہ عجز سے ہوں میں تہی دامن ، کرم سے تُو​
مرے بے ربط جملوں کو پذیرائی عطا کردے​
ترے در پر ندامت سے ،جھکی ہے پھر جبیں میری​
تمنائے حزیں کو اب، تو شنوائی عطا کر دے​
ترا ہی نام ہو لب پر ، نہ ہو پھر دوسرا کوئی​
نصرؔ کو اب تو وہ خلوت، وہ تنہائی عطا کردے​
محمد ذیشان نصر​
اپریل 2012​
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
کسی ایک کے بارے میں خود فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ میں چار پانچ غزلیں چن رہا ہوں۔ ان میں سے آپ حضرات جسے چاہیں، رکھ لیں۔ باقی ڈیلیٹ کر دیں!!

اس زمین میں غالب کی بھی ایک غزل ہے (زمین عام سی ہے)۔ غالب کی غزل کے مطلع کا مصرعہ اولیٰ ہے: "ز بسکہ مشقِ تماشا جنوں علامت ہے"۔
میری جسارت ہی سمجھیے:
نظر بہ مہر و وفا از سرِ ندامت ہے​
وگرنہ ذوقِ ستم گستری سلامت ہے​

نگار خانۂ وہم و گماں کا ہر پیکر​
غزال چشم و گل اندام و سرو قامت ہے​

درازئِ شبِ ہجراں بہ چشمِ غیض نہ دیکھ​
کہ دل مقابلِ دعوائ استقامت ہے​

مکینِ کوچۂ جاناں ہوا ہے طالبِ خلد​
مقامِ سرزنش و مَوردِ ملامت ہے​

اگرچہ راندۂ درگاہ ہوں مگر پھر بھی​
خدا کا شکر ہے کاسہ ابھی سلامت ہے​

کیا ہے خونِ تمّنا یہ سوچ کر کاملؔ​
غمِ شکستِ تمنّا بھی اک قیا مت ہے​
-------------​

غالب ہی کی ایک اور غزل "شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا" کی زمیں میں میری ایک اور جسارت:​

گرچہ گلشن میں کھلا ہرسو گلابِ تازہ تھا​
حیف زندانِ الم کا بند ہر دروازہ تھا​

کیا بتاؤں خستگی ہمدم تنِ رنجور کی​
مشربِ خونِ جگر ہر بار زخمِ تازہ تھا​

تیری آمد پر کیا ہے منعِ خوش رویانِ شہر​
یہ دلِ حسن آشنا پہلے تو بے دروازہ تھا​

کون ہے مشّاطہءِ فطرت بہ ہنگامِ غروب​
ابرِ آتش رنگ روئے آسماں کا غازہ تھا​

جس گھڑی آیا بہ دستِ کاملِؔ رنگیں نوا​
زورِ رفتارِ قلم از بسکہ بے اندازہ تھا​
------------​

ایضاً لہُ

کیا چین سے بیٹھوں کہ سکوں دل کو نہیں ہے​
آنکھوں سے تری فتنۂ محشر بہ کمیں ہے​

یہ دل کہ ہے گُلچینِ سمن زارِ تمّنا​
خارِ المِ ہجر سے آگاہ نہیں ہے​

اے محوِ تغافل اثرِ خونِ جگر دیکھ​
جو اشک بہا سو ترے خاتم کا نگیں ہے​

آغازو سر انجامِ وفا محملِ لیلیٰ​
منزل گہِ مجنوں نہ فلک ہے نہ زمیں ہے​

وہ کیوں کرے اصنامِ خود آرا کی پرستش​
جوخاکِ درِ یار سے آلودہ جبیں ہے​

کاملؔ بہ خیالِ رخِ زیبائے دل آرا​
صحرا بھی مجھے غیرتِ فردوسِ بریں ہے​
------​

باقی کی غزلیں (غالباً!) میری اپنی زمینوں میں ہیں۔​

پاتے نہیں چراغِ تمنّا سے سود ہم​
لیتا ہے نور غیر سمیٹے ہیں دود ہم​

عاجز ہوئے بہ ساحتِ کون و مکاں، دریغ!​
گو چاہتے تھے کشفِ رموزِ وجود ہم​

دے کر ادھار ہجر کو سرمایۂِ حیات​
پاتے رہے بہ رنگِ غم و درد سود ہم​

خوش تھے بہت عدم میں،جہانِ خراب میں​
لائے گئے بہ سازشِ چرخِ کبود ہم​

نیرنگِ آرزو کو بعنوانِ بندگی​
ڈھالا کیے بہ شکلِ قیام و سجود ہم​

کاملؔ چلو لباسِ جنوں زیبِ تن کریں​
کب تک رہیں گے وقفِ غمِ ہست و بود ہم​
----------​

ایضاً لہُ

منفعل ہو کے برسنے کو نہ ٹھہرے بادل​
دیکھ لے گر تری زُلفوں کے سنہرے بادل​

گھیر لیتے ہیں مجھے آ کے سرِشامِ فراق​
چار جانب سے تری یاد کے گہرے بادل​

خوشبوئیں آتی ہیں مٹی سے، جو تم شہر میں ہو​
آسمانوں پہ دیا کرتے ہیں پہرے بادل​

دیکھ کر شام میں سورج کی بکھرتی کرنیں​
یاد آئے تری زلفوں کے سنہرے بادل​

ایک لمحے کو جھکائیں جو نگاہیں اس نے​
گردشِ چرخِ کہن رک گئی، ٹھہرے بادل​

گیسوی وچہرۂ جاناں کی وہ چھب ہے کامل ؔ​
گردِ مَہ جیسے اُمنڈ آ ئیں سنہرے بادل​
--------​
 

محمد وارث

لائبریرین
بھئی یہ تو اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی سی بات ہے، لیکن خیر پھر بھی آپ یاد کر رہے ہیں تو حاضر ہوں گو جانتا ہوں کہ پاس کچھ بھی نہیں :)

غزل

تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے

میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے

سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مصحف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے

بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے

چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سلایا گیا مجھے

تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یونہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے
----------

آرزوئے بہار لاحاصل
عشقِ ناپائدار لاحاصل

قیدِ فطرت میں تُو ہے پروانے
تیرا ہونا نثار لاحاصل

ہے شفاعت اگر بُروں کے لیے
نیکیوں کا شمار لاحاصل

دلِ دنیا ہے سنگِ مرمر کا
لاکھ کر لو پکار لاحاصل

شعر و گُل میں ڈھلے اسد لمحے
کب رہا انتظار لاحاصل
------

بلا کشانِ محبت کی رسم جاری ہے
وہی اٹھانا ہے پتھر جو سب سے بھاری ہے

نگاہِ شوق نہیں، آہِ صبح و شام نہیں
عجب فسردہ دلی حیف مجھ پہ طاری ہے

نگہ میں آبِ رُخِ یار، ہاتھ میں تیشہ
زمیں کی مانگ اِسی جہد نے سنواری ہے

اسے بھی جھیل ہی جائے گی فطرتِ عشّاق
یہ مانا اب کے لگا ہے جو زخم، کاری ہے

یہی متاع ہے میری، یہی میرا حاصل
نہالِ غم کی لہو سے کی آبیاری ہے
------

اس جہاں میں ایسی کوئی بات ہو
جیت ہو اور نے کسی کی مات ہو

اس طرح پینے کو مے کب ملتی ہے
ناب ہو، تُو ساتھ ہو، برسات ہو

زخم دل کے چین سے رہنے نہ دیں
روزِ روشن ہو کہ کالی رات ہو

بس ہوس کے ہیں یہ سارے سلسلے
بابری مسجد ہو یا "سُمنات" ہو

برملا گوئی کا حاصل ہے اسد
اپنوں کی نظروں میں بھی کم ذات ہو
--------

رباعی

بکھرے ہوئے پھولوں کی کہانی سُن لے
ہے چار دنوں کی زندگانی سن لے
پیری میں تو ہوتے ہیں سبھی وقفِ عشق
کرتا ہے خراب کیوں جوانی سن لے

شکوہ بھی لبوں پر نہیں آتا ہمدم
آنکھیں بھی رہتی ہیں اکثر بے نم
مردم کُش یوں ہوا زمانے کا چلن
اب دل بھی دھڑکتا ہے شاید کم کم
 

متلاشی

محفلین
کسی ایک کے بارے میں خود فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ میں چار پانچ غزلیں چن رہا ہوں۔ ان میں سے آپ حضرات جسے چاہیں، رکھ لیں۔ باقی ڈیلیٹ کر دیں!!

اس زمین میں غالب کی بھی ایک غزل ہے (زمین عام سی ہے)۔ غالب کی غزل کے مطلع کا مصرعہ اولیٰ ہے: "ز بسکہ مشقِ تماشا جنوں علامت ہے"۔
میری جسارت ہی سمجھیے:
نظر بہ مہر و وفا از سرِ ندامت ہے​

وگرنہ ذوقِ ستم گستری سلامت ہے​


نگار خانۂ وہم و گماں کا ہر پیکر​

غزال چشم و گل اندام و سرو قامت ہے​


درازئِ شبِ ہجراں بہ چشمِ غیض نہ دیکھ​

کہ دل مقابلِ دعوائ استقامت ہے​


مکینِ کوچۂ جاناں ہوا ہے طالبِ خلد​

مقامِ سرزنش و مَوردِ ملامت ہے​


اگرچہ راندۂ درگاہ ہوں مگر پھر بھی​

خدا کا شکر ہے کاسہ ابھی سلامت ہے​


کیا ہے خونِ تمّنا یہ سوچ کر کاملؔ​

غمِ شکستِ تمنّا بھی اک قیا مت ہے​

-------------​


غالب ہی کی ایک اور غزل "شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا" کی زمیں میں میری ایک اور جسارت:​


گرچہ گلشن میں کھلا ہرسو گلابِ تازہ تھا​

حیف زندانِ الم کا بند ہر دروازہ تھا​


کیا بتاؤں خستگی ہمدم تنِ رنجور کی​

مشربِ خونِ جگر ہر بار زخمِ تازہ تھا​


تیری آمد پر کیا ہے منعِ خوش رویانِ شہر​

یہ دلِ حسن آشنا پہلے تو بے دروازہ تھا​


کون ہے مشّاطہءِ فطرت بہ ہنگامِ غروب​

ابرِ آتش رنگ روئے آسماں کا غازہ تھا​


جس گھڑی آیا بہ دستِ کاملِؔ رنگیں نوا​

زورِ رفتارِ قلم از بسکہ بے اندازہ تھا​

------------​


ایضاً لہُ


کیا چین سے بیٹھوں کہ سکوں دل کو نہیں ہے​

آنکھوں سے تری فتنۂ محشر بہ کمیں ہے​


یہ دل کہ ہے گُلچینِ سمن زارِ تمّنا​

خارِ المِ ہجر سے آگاہ نہیں ہے​


اے محوِ تغافل اثرِ خونِ جگر دیکھ​

جو اشک بہا سو ترے خاتم کا نگیں ہے​


آغازو سر انجامِ وفا محملِ لیلیٰ​

منزل گہِ مجنوں نہ فلک ہے نہ زمیں ہے​


وہ کیوں کرے اصنامِ خود آرا کی پرستش​

جوخاکِ درِ یار سے آلودہ جبیں ہے​


کاملؔ بہ خیالِ رخِ زیبائے دل آرا​

صحرا بھی مجھے غیرتِ فردوسِ بریں ہے​

------​


باقی کی غزلیں (غالباً!) میری اپنی زمینوں میں ہیں۔​


پاتے نہیں چراغِ تمنّا سے سود ہم​

لیتا ہے نور غیر سمیٹے ہیں دود ہم​


عاجز ہوئے بہ ساحتِ کون و مکاں، دریغ!​

گو چاہتے تھے کشفِ رموزِ وجود ہم​


دے کر ادھار ہجر کو سرمایۂِ حیات​

پاتے رہے بہ رنگِ غم و درد سود ہم​


خوش تھے بہت عدم میں،جہانِ خراب میں​

لائے گئے بہ سازشِ چرخِ کبود ہم​


نیرنگِ آرزو کو بعنوانِ بندگی​

ڈھالا کیے بہ شکلِ قیام و سجود ہم​


کاملؔ چلو لباسِ جنوں زیبِ تن کریں​

کب تک رہیں گے وقفِ غمِ ہست و بود ہم​

----------​


ایضاً لہُ


منفعل ہو کے برسنے کو نہ ٹھہرے بادل​

دیکھ لے گر تری زُلفوں کے سنہرے بادل​


گھیر لیتے ہیں مجھے آ کے سرِشامِ فراق​

چار جانب سے تری یاد کے گہرے بادل​


خوشبوئیں آتی ہیں مٹی سے، جو تم شہر میں ہو​

آسمانوں پہ دیا کرتے ہیں پہرے بادل​


دیکھ کر شام میں سورج کی بکھرتی کرنیں​

یاد آئے تری زلفوں کے سنہرے بادل​


ایک لمحے کو جھکائیں جو نگاہیں اس نے​

گردشِ چرخِ کہن رک گئی، ٹھہرے بادل​


گیسوی وچہرۂ جاناں کی وہ چھب ہے کامل ؔ​

گردِ مَہ جیسے اُمنڈ آ ئیں سنہرے بادل​

--------​
زبردست جناب کاشف عمران صاحب۔۔۔ زبردست۔۔۔! ساری غزلیں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔۔۔۔!
 

متلاشی

محفلین
بھئی یہ تو اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی سی بات ہے، لیکن خیر پھر بھی آپ یاد کر رہے ہیں تو حاضر ہوں گو جانتا ہوں کہ پاس کچھ بھی نہیں :)

غزل

تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے

میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے

سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مصحف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے

بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے

چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سلایا گیا مجھے

تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یونہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے
----------

آرزوئے بہار لاحاصل
عشقِ ناپائدار لاحاصل

قیدِ فطرت میں تُو ہے پروانے
تیرا ہونا نثار لاحاصل

ہے شفاعت اگر بُروں کے لیے
نیکیوں کا شمار لاحاصل

دلِ دنیا ہے سنگِ مرمر کا
لاکھ کر لو پکار لاحاصل

شعر و گُل میں ڈھلے اسد لمحے
کب رہا انتظار لاحاصل
------

بلا کشانِ محبت کی رسم جاری ہے
وہی اٹھانا ہے پتھر جو سب سے بھاری ہے

نگاہِ شوق نہیں، آہِ صبح و شام نہیں
عجب فسردہ دلی حیف مجھ پہ طاری ہے

نگہ میں آبِ رُخِ یار، ہاتھ میں تیشہ
زمیں کی مانگ اِسی جہد نے سنواری ہے

اسے بھی جھیل ہی جائے گی فطرتِ عشّاق
یہ مانا اب کے لگا ہے جو زخم، کاری ہے

یہی متاع ہے میری، یہی میرا حاصل
نہالِ غم کی لہو سے کی آبیاری ہے
------

اس جہاں میں ایسی کوئی بات ہو
جیت ہو اور نے کسی کی مات ہو

اس طرح پینے کو مے کب ملتی ہے
ناب ہو، تُو ساتھ ہو، برسات ہو

زخم دل کے چین سے رہنے نہ دیں
روزِ روشن ہو کہ کالی رات ہو

بس ہوس کے ہیں یہ سارے سلسلے
بابری مسجد ہو یا "سُمنات" ہو

برملا گوئی کا حاصل ہے اسد
اپنوں کی نظروں میں بھی کم ذات ہو
--------

رباعی

بکھرے ہوئے پھولوں کی کہانی سُن لے
ہے چار دنوں کی زندگانی سن لے
پیری میں تو ہوتے ہیں سبھی وقفِ عشق
کرتا ہے خراب کیوں جوانی سن لے

شکوہ بھی لبوں پر نہیں آتا ہمدم
آنکھیں بھی رہتی ہیں اکثر بے نم
مردم کُش یوں ہوا زمانے کا چلن
اب دل بھی دھڑکتا ہے شاید کم کم
مکرمی ومحترمی جناب محمد وارث صاحب ۔۔۔ آپ کا بہت بہت شکر گذار ہوں کہ آپ نے میری گذارش کو شرفِ قبولیت بخشے ہوئے مجھے اتنے خوبصورت کلام سے نوازا۔۔۔۔!
بہت ہی زبردست کلام ہے ۔۔۔ اگرچہ ساری غزلیں ہی ایک سے بڑھ کر ایک ہیں ۔۔۔ مگر مجھے سب سے زیادہ پہلی غزل پسند آئی۔۔۔!
 
ع: خداوندا، خدائی دردِ سر ہے

ہم فقیروں کو یوں رُسوا نہ کرو صاحبو! ہم فرش نشینوں کو خدائی سے کیا سروکار؟ کوئی کج کلاہ ہوتا تو اس کی گردن کچھ اور ٹیڑھی ہو جاتی۔

مزمل شیخ بسمل صاحب! ایک تو یہ فقیر ہے اور وہ علم و ادب کے وارث خود کو ’’خاکسار‘‘ کہتے ہیں۔ ایک فقیر ایک خاکسار کا احترام نہیں کرے گا تو کون کرے گا، بھلا۔
 
رہی بات شاعری کی، اور پھر اس پر شرط ’’بہترین‘‘ کی بھی۔ بہت مشکل ہے، بہت ہی مشکل ہے!

میری ساری شاعری (اردو : نظم اور غزل، پنجابی : نظم اور غزل) پہلے ہی محفل کے سارے احباب دیکھ چکے! ایک شعر ہے جو وہاں شامل نہیں ہے، سو عرض کئے دیتا ہوں:
عقلِ کم کوش کو موت کی گود میں جا کے نیند آ گئی​
عشق منہ زور تھا برزخوں کے سفر پر رہا حشر تک​

کوئی قافیہ سوجھ بھی گیا تو ردیف کہاں چلنے دے گی۔

جنابِ محمد وارث
 
Top