بہزاد لکھنوی ستمگر نے کیا خوب دادِ وفا دی - بہزاد لکھنوی

کاشفی

محفلین
غزل
(بہزاد لکھنوی)
ستمگر نے کیا خوب دادِ وفا دی
تبسّم کیا اور بجلی گرا دی

کبھی آنکھ پھیری، کبھی دل کو توڑا
کبھی یہ سزا دی، کبھی وہ سزا دی

محبت بنی ہے جوابِ محبت
فلک رو دیا اور زمیں مُسکرا دی

ذرا یہ بتادو کہ کیا چاہتے ہو
ہماری نظر سے نظر کیوں ملا دی

محبت کے مالک میں قربان تیرے
مری زندگانی مٹا کر بنا دی

وفا اس کو کہتے ہیں کیا دہر والے
کیا اس نے جب ظلم میں نے دعا دی

نگاہِ محبت کے قربان جاؤں
مجھے تو نئی ایک دنیا دکھا دی

نقاب ان کے رُخ سے جو محفل میں اُٹھی
مری ہر نظر نے کسی کو دعا دی

مجھے لے چلا جبکہ صیّاد میرا
نشمین کے تنکوں نے مجھ کو صدا دی

محبت تو ہے مجھ کو ہر شے سے لیکن
تمہاری محبت نے دُنیا بھلا دی

محبت نے بہزاد جب مجھ کو تاکا
مری موت پر زندگی مُسکرا دی
 
Top