سب نے خود سے ہی اِک حکایت کی۔ شہزاد نیر

شیزان

لائبریرین
سب نے خود سے ہی اِک حکایت کی
کچھ حقیقت نہیں محبت کی

بھیڑ میں راستہ بناتے ہوئے
لہر اُٹّھی بدن میں لذّت کی

دیکھ کر بھی اُسے نہیں دیکھا
آج ہم نے کمال غفلت کی

اب کوئی کیسے اختلاف کرے
اپنی ہر بات تونے آیت کی

خوُن کو دیکھ کر یہ سوچتا ہوں
کیا ضرُورت تھی اِس وراثت کی

اب محبت میں دل نہیں لگتا
اب عبادت ہے بات عادت کی

بادشہ ہوں میں پوُری دُنیا کا
میں نے اِک شخص پر حکوُمت کی

یاد کرنے سے جب ملی فرُصت
اُس قیامت پہ میں نے حیرت کی

اِس کو اپنی طرف نہ لے جانا
تم سے دُنیا کی اِک شکایت کی

ایک مدت سے جا چکی ہو تم
اب ضرُورت نہیں اِجازت کی

شہزاد نیّر
 
Top