سبزی فروش کا محبوبہ کے نام خط

عرفان سعید

محفلین
ٹماٹر کی طرح میری خوبصورت محبوبہ!

آداب کے بعد عرض ہے کہ تم تو ایسے خفا ہو گئی ہو جس طرح سردیوں میں کریلے ناراض ہو جاتے ہیں۔ تم جانتی ہو کہ تمہاری جدائی میں میرا چہرہ بے موسمی سبزیوں کی طرح بے رونق ہو جاتا ہے اور تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ جب تک تمہاری پودینے جیسی سبز آنکھیں نہ دیکھ لوں میری طبعیت ساگ کے ابال کی طرح بے چین رہتی ہے۔ میں نے کب سے دیسی ٹنڈے جیسی انگوٹھی بنوائی ہوئی ہے اور میں تمہاری بھنڈی جیسی انگلی میں پہنانے کے لیے بے قرار ہوں۔ تم کو کیسے سمجھاؤں کہ محبوب اور محبوبہ ہری مرچ اور ادرک کی طرح لازم و ملزوم ہیں مگر ایک تم ہو کہ ہر وقت سبزی منڈی کے بھاؤ کی طرح ناک بھویں چڑھائے رکھتی ہو۔ کبھی تو پھول گوبھی کی طرح کھلا ہوا چہرہ دکھا دیا کرو۔ یہ کیا ہر وقت بند گوبھی کی طرح منہ بند رکھتی ہو۔ مانا کہ میرا رنگ بینگن کی طرح کچھ پکا ہے مگر میرے دل کے حسین جذبات شلغم کی طرح سفید اور پالک کی طرح ہرے بھرے ہیں۔ دیکھو! اپنے پیار کو صرف اور صرف آلو کی طرح بناؤ جو ہر وقت، ہر موسم میں دستیاب ہوتا ہے۔ اسی میں دونوں کی بھلائی ہے۔

(مصنف: نامعلوم)
 
Top