سانحہ چلاس کا آنکھوں دیکھا حال

زلفی شاہ

لائبریرین
لغت سے باہر بھی ایک دنیا آباد ہے۔۔۔ آپ اس دنیا سے آنکھیں نہیں چرا سکتے۔ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہر وہ شخص جو از روئےحقیقت مولوی یا عالم نہیں ہے اسکے ہر غلط فعل کی مذمت کرتے وقت ہمیں اس شخص کیلئے مولوی یا عالم کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہئیے؟۔۔۔ اصولاّ یہ بات ٹھیک لگتی ہے لیکن عملی طور پر ایسا ممکن نہیں ہے۔۔۔ کیونکہ جو شخص از روئے حقیقت آپکو عالم یا مولوی نہیں لگتا وہ کسی اور شخص کی نظر میں مولوی یا عالم ہوسکتا ہے اور ایسا ہوبھی رہا ہے۔۔یہ جو بیشمار جنونی لوگ اپنے ہر غلط کام کا جواز مذہب میں سے نکال کر اسے دینی رنگ لباس پہنا دیتے ہیں، یہ بھی تو کسی ایسے ہی شخص کو عالم یا مولوی سمجھنے کے بعد ایسا کر پاتے ہیں۔۔۔ ۔چنانچہ جہاں کہیں مذمت کی جاتی ہے ان الفاظ یعنی مولوی یا عالم کا مصداق سمجھے جانے والے افراد کی ہی کی جاتی ہے۔۔
اور لغتیں بھی لوگوں کی بول چال سے مختلف زمانوں میں تشکیل پاتی ہیں۔۔۔ مثلا یہ لفظ مولوی یا ملّا جن زمانوں میں باعزت اور اہل علم لوگوں کیلئے وضع کئے گئے تحے، اب وہ زمانے گذر چکے ہیں۔۔۔ اب تو ہرکس و ناکس کو مولوی اور عالم کہہ دیا جاتا ہے۔۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے صوفی بزرگوں نے، شعراء نے نااہل لوگوں کے مسند دعوت اور شاد پر بیٹھ جانے کے بعد ان الفاظ کو مذمتی انداز میں بیان کیا۔۔۔ زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن۔
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی
یک نہ شد دو شد
یعنی اب سادات کی باری؟؟؟؟؟؟
 
وارث صاحب، واللہ ایسا قصداّ نہیں کیا۔۔۔ میرے ذہن میں یہ شعر اسی طرح محفوظ ہے اور آج تک میں اسے ایسا ہی سمجھتا رہا ہوں۔۔۔آج آپ نے بتایا ہے تو پتہ چلا کہ یہ تو مرج البحرین ہوگیا۔:)
براہِ کرم اصل اشعار بھی لکھ دیں اگر مصروف نہ ہوں تو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بسر و چشم

ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہٴ اہلِ نظر گئی
غالب

اور

پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی
میر تقی میر
 

حسن

محفلین
وہ بھی مارا گیا

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
آخری وقت اشاعت: اتوار 8 اپريل 2012 , 14:21 GMT 19:21 PST
اس کے جنازے میں بچپن اور جوانی کے لگ بھگ سبھی شیعہ، سنی، اسماعیلی دوستوں کو شرکت کا موقع مل گیا۔
وہ بھی انہی میں سے ایک بس میں سوار پنڈی سے گلگت جا رہا تھا اور اپنے تئیں سب سے محفوظ اور بے خوف مسافر تھا۔ کیونکہ وہ نہ تو شیعہ تھا اور نہ ہی سنی۔ البتہ اسے کبھی کبھی یہ دکھ ضرور ہوتا تھا کہ لوگ ایک دوسرے کو بنا جانے بوجھے کیسے مار ڈالتے ہیں۔
اور یہ محض خامخواہ کا دانشورانہ دکھ نہیں تھا۔ نہ ہی اس کے پیچھے حب الوطنی کا کوئی روایتی جذبہ تھا اور نا ہی وہ اتحادِ بین المسملین کا ٹھیکے دار تھا۔ اس کی یہ تکیلف لگ بھگ ویسی ہی تھی جیسی کسی بھی عام سے پڑھے لکھے نیم خوشحال نوکری پیشہ کو ایک اپنائیت آمیزی کے نتیجے میں ہو جاتی ہے ۔ البتہ اس کے ددھیال میں کچھ شیعہ ضرور تھے اور ننہال میں کچھ سنی بھی۔ مگر اس کا باپ اور وہ خود اسماعیلی تھے۔
آپ اس شخص کی آدھا تیتر، پونا بٹیر طرح کی خاندانی ساخت سے بالکل پریشان نا ہوں۔ جنرل ضیا کے دور سے پہلے گلگت بلتستان میں یہ عام سی بات تھی کہ ایک ہی خاندان میں چچا شیعہ ہے تو باپ سنی تو ماموں اسماعیلی اور صرف گلگت بلتستان ہی کیا یوپی، حیدرآباد دکن ، سندھ اور پنجاب میں بھی ایسی بہت سی مثالیں تھیں اور ہیں۔ بس یہ ہے کہ پہلے ایسی رشتہ داریوں کو ان ہونا نہیں سمجھا جاتا تھا کیونکہ معاشرہ روشن خیال ہو نا ہو وسیع المشرب ضرورہوا کرتا تھا۔
(لو میں بھی کیا مشکل مشکل لفظ استعمال کرنے پر اتر آیا ہوں ۔ بھلا آج کتنوں کو وسیع المشرب جیسے متروک لفظ کا مطلب اور استعمال معلوم ہوگا)
جب بس چلاس پہنچی تو مسلح افراد نے روک لی۔ سب مسافروں کو اتارا گیا۔ سب عورتوں مردوں کے شناختی کارڈ چیک ہوئے۔ کچھ مسافروں کو واپس بس میں بیٹھنے کی اجازت مل گئی اور باقیوں کو وہ لے گئے۔
تین روز بعد تصدیق ہوگئی کہ اوروں کے ساتھ وہ شخص بھی مارا گیا۔ وہ بھی ایک لاش کی صورت کچھ اور لاشوں کے ہمراہ دوبارہ پنڈی پہنچ گیا۔ خوش قسمتی سے اس کی لاش کو گلگت جانے والے طیارے میں بھی جگہ مل گئی۔ البتہ زندہ ماں، بہن، بیوی، بچے اور چھوٹے بھائی کو طیارے میں سیٹ نا مل سکی۔ جس بس میں وہ سوار ہوا تھا اسی بس میں اس کی ایک شیعہ کزن بھی سوار تھی جو تاحال لاپتہ ہے۔
سنا ہے گلگت کے مضافاتی علاقے میں اس کے جنازے میں بچپن اور جوانی کے لگ بھگ سبھی شیعہ، سنی، اسماعیلی دوستوں کو شرکت کا موقع مل گیا۔ انہوں نے ہی اسے قبر میں اتارا اور پھر پنڈی میں ائرلائن کے دفتر کے چکر لگانے والے خاندان کو اطلاع دے دی کہ تدفین بخیریت ہوگئی ہے۔ یہ خبر سکھ کا پہلا سانس تھا جو اس کے مرنے کے بعد گھر والوں کو میسر آیا۔
یہاں تک کی روداد تو میں سہولت سے لکھ گیا۔ لیکن اب میں ایک مشکل میں پھنس گیا ہوں۔ بھلا ایک ایسا اسماعیلی جسے سنیوں نے شیعہ سمجھ کر مار دیا، اسے میں کیا لکھوں؟ کیونکہ اس کی رگوں میں تو پچاس فیصد اسماعیلی اور پچیس، پچیس فیصد شیعہ اور سنی خون دوڑ رہا ہے۔
تو کیا مجھے یہ کہنے کی اجازت ہے کہ چلاس میں جو لوگ بسوں سے اتار کر مارے گئے ان میں ایک اسماعیلی العقیدہ شیعہ نژاد سنی انسان بھی تھا؟
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
2 اپریل کی رات 8 بجے باقی مسافروں کے ہمراہ میں بھی راولپنڈی سے سکردو کے لیے روانہ ہوا۔ راستہ بھر میں کنوائی کے نام پر گھنٹوں بسوں اور گاڑیوں کو روک کر رکھا گیا۔ ایک درجن سے زائد بسیں گلگت بلتستان جانے والی تھیں۔ راولپنڈی سے نکلتے وقت میرے ایک ہی عزیز کو علم تھا جبکہ باقی احباب سے میں نے خفیہ رکھا تھا، تاکہ دیر سویر کی صورت میں وہ پریشان نہ ہوں۔ راستہ بھر میری چَھٹی حس مجھے کسی دلسوز المیہ کا پتہ دے رہی تھی، لیکن میں برابر اسے وہم سمجھ کر ٹالتا رہا۔

اس دشوار سفر میں بار بار سانحہ کوہستان ذہن میں ابھرتا تھا، پھر میں دل ہی دل میں منصوبہ بندی کرتا رہا کہ اگر خدانخواستہ دہشتگرد بسوں میں آئے تو میں کسی ایک دہشتگرد کا اسلحہ چھین لوں گا اور باقی دہشتگردوں کو ماروں گا اور مسافروں کو محفوظ طریقے سے سکردو پہنچاوں گا۔ یہ سارے خیالات تھے، جو آپ سے شیئر کر رہا ہوں، لیکن میں نے اپنی آنکھوں سے جو مناظر دیکھے، خدا کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے۔ راستہ بھر کے منصوبے خاک میں مل گئے۔ بے سروسامانی اور ہزاروں بپھرے قاتلوں کی بھیڑ میں جو کچھ ہوا، فی الحال وہ سب کچھ بیان کرنیکا حوصلہ نہیں۔

جیسے ہی ہم چلاس میں گونر فارم کے قریب پہنچے تو اردگرد ہزاروں لوگ موجود تھے۔ کئی درجن موٹر سائیکل سواروں نے ہمیں رکوایا۔ تقریباً وہ سب لوگ مسلح تھے۔ میں نے کھڑکی سے جھانکا تو قریب ہی پولیس تھانہ اور عوامی اجتماع کو دیکھ کر مطمئن ہوا۔ موٹر سائیکل سواروں نے بس کو رکوایا، ہوائی فائرنگ شروع ہوگئی، دائیں بائیں سے ہزاروں کی تعداد میں موجود بھیڑئے امڈ آئے اور بس پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ اتنے میں دروازہ کھولنے کو کہا۔ میرے قریب چند خواتین اور ان کی گود میں چار سالہ بچہ بھی تھا۔ وہ خواتین دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں۔ بس کا دروازہ کھلوایا اور کہا ایک ایک کر کے نیچے اتریں۔ میں پیچھے تھا۔ پہلا مظلوم شخص شاید ان کا تعلق گلگت سے تھا وہ نیچے اتر ہی تھا کہ ایک کربناک آواز آئی۔ ابھی تک معلوم نہیں تھا کہ آواز کس کی ہے، دوسرا شخص بھی نیچے اترا۔ وہاں سے پوچھنے کی آواز آئی شناختی کارڈ دکھاؤ۔

تھوڑی دیر کے توقف کے بعد گولیوں کی آواز آئی اور ساتھ ہی شیعہ کافر کے نعرے بلند ہو گئے۔ بس سے مسافرین کانپتے، لرزتے قتل گاہ کی جانب بڑھ رہے تھے۔ سب کی زبان سے یااللہ مدد کا ورد جاری تھا۔ جب میری باری آئی میں نے اس معصوم بچے کو اٹھانے میں اس عورت کی مدد کی اور اس خاتون کو حوصلہ دیا اور کہا انشاءاللہ کچھ نہیں ہو گا، آپ بے فکر ہو جائیں، اس خاتون نے کہا کہ کچھ نہیں ہو رہا تو ان گولیوں کی آواز کیا ہے۔ میں باہر نکلا تو کئی لمبی لمبی داڑھی والے بوڑھے موجود تھے۔ انہوں نے میرے شناختی کارڈ کا پوچھا تو میں نے نفی میں سر ہلایا۔ انہوں نے میری قمیض اوپر کی اور پشت دیکھ کر کہا یہ شیعہ نہیں ہے زنجیر کی کوئی علامت نہیں۔ میں آگے بڑھ رہا تھا۔

ہمیں سائیڈ پر بلایا، لیکن میں کیا دیکھتا ہوں میرے ارد گرد 25،20 لاشیں پڑی تھیں۔ میں ان لاشوں سے گزر رہا تھا۔ میرے آگے والی بس سے بھی لوگوں کو اتار کر مار رہے تھے۔ میں نے قیامت کا وہ منظر دیکھا، جب ایک میاں بیوی یا شاید بہن بھائی ہوں، کو بس سے اتارا گیا۔ وہ دونوں شکل سے گلگت کے لگ رہے تھے۔ دہشتگردوں نے اس آدمی کے ہاتھ کو کھینچ کر دوسری طرف لے جانا چاہا تو اس خاتون نے چیختے چلاتے دوسرے ہاتھ کو دوسری طرف کھینچ لیا تو اس خاتون کے سامنے ہی گولی چلائی گئی۔ مجھ میں جرأت نہیں کہ اس خاتون کے سامنے اس کے عزیز کو تڑپتے سسکتے دیکھوں، لہٰذا میں نے اپنی نظریں پھیر لیں۔ کئی مرتبہ سوچا ان ظالموں پر حملہ کر دوں، لیکن ہزاروں درندوں میں اکیلا آدمی کیسے حملہ کرے۔؟

میری نظر دوسری طرف پھر گئی تو میں نے کیا دیکھا کہ سکردو کے ایک شخص کو پیچھے والی گاڑی سے نکال کر باہر لایا گیا۔ پتہ نہیں میری گناہگار آنکھوں نے یہ دلخراش منظر کیسے دیکھا، جب اس مظلوم پر پتھروں، ڈنڈوں اور ہر اس چیز سے جو ان کے ہاتھوں میں تھی حملہ شروع ہو گیا۔ میں نے کچھ دیر یہ منظر بھی دیکھا، لیکن اس وقت اس کی طرف نہیں دیکھ سکا، جب وہ حملوں کی تاب نہ لا کر زمین پر گر پڑا۔ وہ زور زور سے یاحسین ع کہہ رہا تھا۔ ایک ظالم نے پانچ سے دس کلو کا ایک بڑا پتھر اٹھا کر اس کے سر کی طرف پھینکا تو مجھ سے دیکھا نہیں گیا۔ اتنے میں میری نظریں ان ظالموں پر پڑیں جو چار پانچ بے گناہ شہیدوں کی لاشوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر دریا برد کر رہے تھے۔

میری بائیں طرف پولیس کا تھانہ تھا، جہاں دہشتگرد داخل ہو رہے تھے اور مسلح ہو کر باہر نکل رہے تھے۔ وہاں کربلا کا منظر تھا۔ کسی پر چھری چل رہی ہے، کسی پر ڈنڈے برسائے جا رہے تھے، کسی کی چیخ، کسی کی پکار، ہر طرف خون، شیعہ کافر کے نعرے اور لاشوں کی بے حرمتی۔ کمسن دہشتگردوں کے ہاتھوں میں بھی اسلحہ، بھائی کا بہن کے سامنے تڑپنا، بھائی کا بھائی کی نظروں کے سامنے شہید ہو جانا، یہ سب وہ دلدوز مناظر ہیں جو میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔ یہ وہ مناظر ہیں جن سے پہاڑوں کے دل دہل جائیں اور انسانیت کا سرشرم سے جھک جائے۔

ہاں ایک بات آپکو بتا دوں کہ میں نے ایک جرأت مند جوان کو دیکھا، جو خالی ہاتھ انسان نما درندوں سے لڑ رہا تھا۔ میں نے اسے اپنی بساط کے مطابق کسی پر مکا، کسی پر پتھر مارتے ہوئے دیکھا۔ اس پر گولیاں تو نہیں چلائی گئیں لیکن پانچ چھ درندہ صفت دہشتگرد اسے گھسیٹ کر بس کی دوسری طرف دریا کی سمت لے گئے۔ پھر نہیں معلوم انہیں کس بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔

جہاں تک کئی زندہ مسافروں کے دریا میں چھلانگ لگانے کا تعلق ہے تو وہ میں نے خود نہیں دیکھا البتہ جب ہمیں وہاں سے عورتوں اور دیگر لوگوں کے ساتھ ’’تھلی چے‘‘ نامی مقام پر کسی کے گھر میں لے جایا گیا تو کئی لوگوں نے ذکر کیا کہ تین مسافروں نے دریا میں چھلانگ لگا دی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور نے کودنے کی کوشش کی تو اس پر برسٹ مارا گیا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں شہداء کی تعداد جس کو میڈیا سولہ بتا رہا ہے، وہ غلط ہے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کیلئے ہے۔ اس سانحہ میں شہید ہونے والوں کی تعداد کم از کم 50 کے قریب ہے۔

ربط

انا للہ و انا الیہ راجعون

انتہائی تکلیف دہ اور اذیت ناک ، اس سب کے بعد زندگی کی اخلاقیات کہاں رہیں !
 

S. H. Naqvi

محفلین
حسن بھائی بجا فرمایا آپ نے، وقت کرتا ہے پرورش برسوں، حادثہ کوئی یک دم نہیں ہوتا کے بمصداق عرصے سے ہم سنتے آ رہے ہیں کہ ہنگو، گلگت اور چلاس میں سر عام سنی لوگوں کو مارا جا رہا ہے اور ان کے گھر جلا کر ان کے درو دیوار پر امہات المومنین اور خلفائے راشدین کے خلاف غلیظ قسم کے نعرے لکھے جا رہے ہیں اور آج یہ دلسوز خبر سننے کو ملی، اسی تناظر میں ذیل کی خبر ملاحظہ فرمائیں:

کراچی (ثناء نیوز) اہلسنت و الجماعت کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولانا اورنگزیب فاروقی نے گلگت میں اہلسنت کے پر امن احتجاج پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے گلگت کے سنی عوام کے مطالبات کو تسلیم اور قاتلوں کو گرفتار نہ کیا تو ملک گیر سخت احتجاج کریں گے۔ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک میں اہلسنت کو دیوار سے لگایا جارہا ہے ۔گلگت کے مظلوم اہلسنت کا خون حکومت کے سر پر ہے۔گلگت اہلسنت و الجماعت کے رہنماء مولانا عطاء اللہ ثاقب کی گرفتاری المیہ ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوںنے مرکز اہلسنت سے جاری اعلامیہ میں کیا ۔ انہوں نے کہا کہ گلگت کی اہلسنت عوام کئی دنوں سے اپنے حقوق کیلئے قانونی طریقہ کار کے مطابق پر امن جدوجہد کر رہی ہے اور کئی مرتبہ اپنے جائز مطالبات حکمرانوں کے سامنے رکھ چکی ہے ۔لیکن آج تک حکمرانوں نے ان مطالبات پر غور کرنے کی زحمت نہیں کی ۔گلگت حکومت اورانتظامیہ اس وقت مکمل جانب داری کا مظاہرہ کر رہی ہے ۔ایک عرصہ سے گلگت، بلتستان میں فرقہ واریت کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے ، ایک مخصوص طبقے کو نوازا جارہا ہے اور اہلسنت کے حقوق کو غصب کیا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ تعلیمی نصاب سے خلفاء راشدینؓ و ازواج مطہرات ؓ کے ناموں کو نکالنے کا مطالبہ کرنے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔اگر گلگت میں اہلسنت کے ساتھ زیادتی کرنے کی کوشش کی گئی تو حالات کی ذمہ دار حکومت ہوگی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ کراچی انتظامیہ کی جانب سے بلا وجہ اہلسنت و الجماعت کے پر امن کارکنوں اور ذمہ داروں کی گرفتاری قابل تشویش ہے ۔حکومت آج تک ہمارے کسی شہید کے قاتلوں کو تو گرفتار نہ کرسکی الٹا ہمارے محب وطن کارکنوں کو گھروں سے اٹھایا جاتا ہے ۔ہمیں اب تک امن پسندی کی سزا مل رہی ہے ۔ حکومت ہوش کے ناخن لے اوربار بار ہمارے صبر کا امتحان نہ لے ۔ہماری پر امن پالیسی کو بزدلی نہ سمجھا جائے ۔# ربط ۔
http://www.sananews.net/urdu/archives/80860

ذہن نشین رہے کے میں نہ پہلے فرقے کا حامی ہوں اور نا دوسرے فرقے کا اور نہ ہی مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کا قائل۔۔۔۔! مگر تصویر کے دونوں رخ دیکھنے چاہیں، مارنے والوں کو اس انتہا تک کون لے کر گیا، وہ کون سے اسباب ہیں جو ان سے انسانیت ہی چھین کر لے گئے ہیں؟؟؟؟http://www.sananews.net/urdu/archives/80860
 

S. H. Naqvi

محفلین
بالکل درست فرمایا آپ نے کہ یہ سب مذہب کے نام پر ہی ہورہا ہے اور کرنے والے بھی بظاہرکسی مذہبی شخصیت یعنی کسی نہ کسی مولوی کی ہمنوائی میں ہی یہ سب کرتے ہیں۔
بجا فرمایا غزنوی صاحب، مگر مذہبی شخصیات میں ذاکرین اور مجلس خواں بھی آتے ہیں، ان کا نام بھی شامل کر دیجیئے تا کہ فقرہ مکمل ہو جائے۔۔۔۔!:notworthy:
سچی بات تو یہ ہے کہ یہ سب دیکھ کر دل بہت کڑھتا تھا کہ یہ کونسا اسلام پھیلایا جارہا ہے اور یہ کونسی مذہبی رواداری ہے کہ جس میں اپنے سوا، باقی سب لوگ جہنمی، کافر، مشرک اور بدعتی ٹھہرتے ہیں۔۔۔
یہ بھی ٹھیک کہا آپ نے۔۔۔! میرا خود دل بہت کڑھتا ہے جب کسی مجلس کے بعد ، امام بارگاہ کے سامنے موجود کتابوں کے سٹال پر نظر دوڑاتا ہوں۔ نہ جانے یہ لوگ ایک دوسرے کو کافر کہنا کب چھوڑیں گے اور کب مسلمان بنیں گے کیوں کہ ابھی تک تو میں شیعہ، بریلوی، دیوبندی اور اہلحدیث سے ہی مل پایا ہوں، کاش کبھی کسی مسلمان سے بھی ملاقات ہو جائے؟؟؟؟
 

خرم زکی

محفلین
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا تھا کہ اخلاقیات کا جنازہ اس قتل و غارت گری سے نہیں نکلا بلکہ اکثریت کی خاموشی سے نکلا.۔۔اب یہاں کہا گیا کہ تصور کے دونوں رخ دیکھنے سامنے رکھنے چاہیئں۔۔بجا ارشاد فرمایا مگر جواب میں ایک دہشت گرد تنظیم کے راہنما کی پریس کانفرنس سے استدلال کیا گیا اور پھر اس کو خبر کے طور پر پیش کیا گیا۔
جہاں تک تعلیمی نصب کا معاملہ ہے، یہ بات واضح ہے کہ گلگت بلتستان میں شیعہ مکتب فکر کی اکثریت ہے تو کیوں کر ان کو اہل سنت کے عقائد کی تعلیم دی جا سکتی ہے ؟؟؟ کون سا عدل و اخلاقیات اس بات کی اجازت دیتی ہے ؟؟؟ شیعہ و سنی میں جن معاملات پر اختلاف ہے وہ واضح ہیں اور ١٤٠٠ سال سے یہ اختلافات موجود ہیں۔ کیا ایسا نہیں کہ ملک کے دیگر حصوں میں نصاب اہل سنت ہی کے عقائد کے مطابق ہے اور کوئی شیعہ اس پر اعتراض نہیں کرتا ؟؟؟ ایسا ہی ہے تو پھر گلگت و بلتستان میں اکثریتی مکتب کے مطابق نصاب کیوں نہیں ؟؟؟
شیعہ مکتب فکر سے وابستہ لوگوں کا جس طرح قتل عام کیا جا رہا ہے اس کے جو بھیانک نتائج نکلیں گے وہ تو واضح ہیں مگر یہ تمام ظلم و ستم روا رکھنے کے باوجود گلگت کے شیعہ عوام اور علماء خاص کر علامہ راحت الحسینی نے ٣٣ سنی یرغمالیوں کی رہائی کو ممکن بنایا اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ مشکل ترین و صبر آزما حالات میں بھی دین و اخلاقیات کے دامن سے وابستہ رہا جا سکتا ہے۔ یہ ویڈیو اس کی دلیل ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا تھا کہ اخلاقیات کا جنازہ اس قتل و غارت گری سے نہیں نکلا بلکہ اکثریت کی خاموشی سے نکلا.۔۔اب یہاں کہا گیا کہ تصور کے دونوں رخ دیکھنے سامنے رکھنے چاہیئں۔۔بجا ارشاد فرمایا مگر جواب میں ایک دہشت گرد تنظیم کے راہنما کی پریس کانفرنس سے استدلال کیا گیا اور پھر اس کو خبر کے طور پر پیش کیا گیا۔
جہاں تک تعلیمی نصب کا معاملہ ہے، یہ بات واضح ہے کہ گلگت بلتستان میں شیعہ مکتب فکر کی اکثریت ہے تو کیوں کر ان کو اہل سنت کے عقائد کی تعلیم دی جا سکتی ہے ؟؟؟ کون سا عدل و اخلاقیات اس بات کی اجازت دیتی ہے ؟؟؟ شیعہ و سنی میں جن معاملات پر اختلاف ہے وہ واضح ہیں اور ١٤٠٠ سال سے یہ اختلافات موجود ہیں۔ کیا ایسا نہیں کہ ملک کے دیگر حصوں میں نصاب اہل سنت ہی کے عقائد کے مطابق ہے اور کوئی شیعہ اس پر اعتراض نہیں کرتا ؟؟؟ ایسا ہی ہے تو پھر گلگت و بلتستان میں اکثریتی مکتب کے مطابق نصاب کیوں نہیں ؟؟؟
شیعہ مکتب فکر سے وابستہ لوگوں کا جس طرح قتل عام کیا جا رہا ہے اس کے جو بھیانک نتائج نکلیں گے وہ تو واضح ہیں مگر یہ تمام ظلم و ستم روا رکھنے کے باوجود گلگت کے شیعہ عوام اور علماء خاص کر علامہ راحت الحسینی نے ٣٣ سنی یرغمالیوں کی رہائی کو ممکن بنایا اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ مشکل ترین و صبر آزما حالات میں بھی دین و اخلاقیات کے دامن سے وابستہ رہا جا سکتا ہے۔ یہ ویڈیو اس کی دلیل ہے۔
اس سارے معاملے کا علاج یہ ہے کہ سنیوں کو شیعوں کے عقائد سے روشناس کرایا جائے اور اسی طرح شیعوں کو بھی اور ایسی چیزیں جس پر سارے متفق ہیں(جو کہ تمام اصول اور عبادات ہیں) ان پر زیادہ توجہ دی جائے اور اختلافی مسائل کو بھی ایسے پیرائے میں بیان کیا جائے جس سے کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ اس طرح سے آپ دوسرے فرقے کی عقائد سننے کے لئے کسی مولوی کا سہارا نہیں لیں گے اور برداشت کا ماحول رہے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ کسی شیعہ مولوی سے سنی عقائد کے بارے میں اور کسی سنی مولوی سے شیعہ عقائد کے بارے میں دریافت کریں گے تو یہ بہت بعید ہے کہ کوئی صحیح جواب ملے۔ اس کے برعکس اگر آپ جن کے عقائد کے بارے میں معلوم کرنا چاہئں تو ان ہی کی کتابوں کا سہارا لیا جائے تو اس طرح آپ کو اصلی تصویر نظر آئے گی۔
میں نے دونوں طرف کی کتابوں کا مطالعہ کیا اور آخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ آپ کے عقائد کا تعلق زیادہ تر اس بات سے ہے کہ آپ کہاں پیدا ہوئے ہیں۔ اگر آپ سنی گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں تو خلفہ راشدین کی شان میں بہت سی احادیث ملیں گی۔ اور اسی طرح آپ شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے تو اہل بیت کی امامت کے بارے میں بہت سی احادیث ملیں گی۔ اگر ہم اس بات کو سمجھ لیں تو بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ ہر کوئی اللہ کی خوشنودی چاہتا ہے اور اسی وجہ سے وہ احادیث کا سہارا لیتا ہے۔ اب حدیث کی کون سی کتاب کو وہ معتبر سمجھتا ہے اس پر اس کا کچھ زیادہ اختیار نہیں ہے۔ کیونکہ عام طور پر آپ اگر سنی یا شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں تو 99 فی صد امکان یہی ہے کہ آپ اسی عقیدے پر رہیں گے۔ جب یہ حالات ہیں تو ہم ایک دوسرے کو برداشت کیں نہ کریں؟
 

عثمان

محفلین
عقائد کے تبادلہ خیال کا یہ فارمولا محض شیعہ اور سنی تک ہی کیوں محدود رکھنا چاہتے ہیں ؟ باقی مذاہب تک کیوں نہیں ؟
تبادلہ کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں میں افراد اپنے عقیدے کو اپنی ذات تک محدود رکھ کر پر امن زندگی گزارتے ہیں۔ اسے اڈاپٹ کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے ؟
عام مسلمان مذہب کو اپنی ذات تک محدود نہیں سمجھتے۔ بلکہ وہ اس سے باہر نکل کر معاشرے میں اسے باقاعدہ قوانین کی شکل میں نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں مخالف عقائد کا تبادلہ کیونکر امن اورسمجھوتے کا ضامن ہوسکتا ہے ؟
 

سید ذیشان

محفلین
عقائد کے تبادلہ خیال کا یہ فارمولا محض شیعہ اور سنی تک ہی کیوں محدود رکھنا چاہتے ہیں ؟ باقی مذاہب تک کیوں نہیں ؟
تبادلہ کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں میں افراد اپنے عقیدے کو اپنی ذات تک محدود رکھ کر پر امن زندگی گزارتے ہیں۔ اسے اڈاپٹ کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے ؟
عام مسلمان مذہب کو اپنی ذات تک محدود نہیں سمجھتے۔ بلکہ وہ اس سے باہر نکل کر معاشرے میں اسے باقاعدہ قوانین کی شکل میں نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں مخالف عقائد کا تبادلہ کیونکر امن اورسمجھوتے کا ضامن ہوسکتا ہے ؟
تمام مذاہب پر بھی اس کا اطلاق ممکن ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ مسئلہ مسلمانوں کے بیچ کا ہے۔ اگرچہ ہندو، احمدی ، عیسائی بھی دہشت گردی کا شکار ہوتے ہیں لیکن وسیع پیمانے پر یہ شیعہ سنی مسئلہ ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں comparative religions کے نام سے سکولوں میں کورسس پڑھائے جاتے ہیں۔
باقاعدہ قوانین کا نفاذ اس وقت ممکن ہے جب ملک کے شہری کم از کم ایک دوسرے پر کسی حد تک اعتماد کرتے ہوں۔ اور پاکستان میں، جہاں اپنے عقائد کو دوسروں پر ٹھونسنا عام سی بات ہے ، ایسی اعتماد کی فضاء کیسے پیدا ہو سکتی ہے؟ یہ تو اسی طرح ہے کہ ہم آنکھیں بند کر لیں اور سمجھیں کہ بلی چلی گئی ہے۔ بلی وہی پر ہے اور آہستہ آہستہ قریب آ رہی ہے۔ جب تک ہم سب ٹھیک ہے کی رٹ لگائے رکھیں گے اور تبدیلی سے کترائیں گے یہ مسئلہ اپنی جگہ پر رہے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ کو یہ مسئلہ حل ہی نہیں کرنا جو کہ حکمرانوں اور فوج کا رویہ ہے۔ اس صورت میں حالات اس نہج پر آ جائیں گے کہ ہر کوئی پاکستان سے بھاگنے کی کرے گا اور یہاں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی اور کوئی محفوظ نہیں رہے گا۔
 

عثمان

محفلین
تمام مذاہب پر بھی اس کا اطلاق ممکن ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ مسئلہ مسلمانوں کے بیچ کا ہے۔ اگرچہ ہندو، احمدی ، عیسائی بھی دہشت گردی کا شکار ہوتے ہیں لیکن وسیع پیمانے پر یہ شیعہ سنی مسئلہ ہے۔
میرے خیال میں معاملہ مذہبی و فکری برداشت کا ہے۔ لوگ محض چند مخصوص فرقے ہی نہیں ، بلکہ کچھ بھی مخالف فکر برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ برداشت کروانے کے لئے شعور پیدا کیا جائے تو فرقہ واریت کا ذیلی مسئلہ بھی ٹھکانے لگ جائے گا۔ :)

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں comparative religions کے نام سے سکولوں میں کورسس پڑھائے جاتے ہیں۔
کئی ترقی یافتہ ممالک میں سکول کی سطح پر تعلیم کو مذہب اور عقائد سے کوسوں دور رکھا جاتا ہے۔ تقابل ادیان کا مطالعہ یونیورسٹی کی سطح پر کیا جاتا ہے۔ البتہ ایک قدر تمام ترقی یافتہ ممالک میں مشترک ہے اور وہ یہ کہ " مذہب نجی معاملہ ہے۔"
مذہبی عدم برداشت کا شکار معاشروں میں آپ اس اصول کو اس جملے سے ٹریڈ کرسکتے ہیں : " مذہب میرا نجی ٹھیکہ ہے۔" :)
 
Top