سانحہ راولپنڈی کا ذمہ دار ، امریکہ یا ہم خود

nazar haffi

محفلین
۔ نذر حافی

اگر کوئی غیر مسلم ملک ہوتا،کہیں کی کافر حکومت ہوتی، کسی پارٹی کا غیر اسلامی جلوس ہوتا اور کسی غیر مسلم عبادت گاہ سے اس جلوس کے خلاف تقریر کی جاتی ور اس طرح کشت و کشتار کا بازار گرم ہوتا تو اس کے باوجود بھی دنیا کا ہر باشعور انسان اس غیر مہذب حرکت کی مذمت کرتا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں ایک عرصے سے "دین اور اسلام" کے نام پر اس طرح کی نامناسب اور غیر مہذب کارروائیاں جاری ہیں۔

اس سال 10 محرم الحرام کو پاکستان کے شہر راولپنڈی میں یہ انتہائی دلخراش واقعہ اس وقت پیش آیا جب اطلاعات کے مطابق بروز جمعہ ایک مولوی صاحب نے نماز جمعہ کے خطبوں کے دوران شیعوں کو کافر قوم قرار دے کر انہیں مٹا دینے کا فتویٰ دیا اور ان پر حملے کے لیے لوگوں کے جذبات کو ابھارا ۔

جب جلوس اپنے روٹ کے مطابق وہاں پہنچاتو اس وقت بھی مولانا تقریر کررہے تھے ،ادھر جلوس کے لوگوں نے بھی مولانا کی تقریر رکوانے کے لئے غم و غصے کا اظہار کیا اورپھر کچھ ہی دیرکے بعد چلتے چلتےجلوس اس مسجد کے سامنے پہنچ گیا اور دونوں طرف کے مشتعل لوگ ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے اور پھر وہ خون خرابہ ہوا کہ الاماں ۔
سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ مولوی صاحب نے جان بوجھ کر نماز جمعہ کے مقررہ وقت سے زیادہ دیر تک لوگوں کو مسجد میں روکے رکھا۔لہذا سرکاری اداروں کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کریں۔
راقم الحروف سمیت غیرجانبدار حلقوں کی رائے یہی ہےکہ اس ملک کو بچانے کے لئے بلا تفریق مذہب و مسلک تمام شرپسندوں خصوصا شرپسند مولویوں کا قلع قمع انتہائی ضروری ہے۔

ہمارے لئے اس سے بڑھ کر بدقسمتی کی بات کیا ہوگی کہ عام طور پر قتل و غارت اور دہشت گردی کے واقعات میں جو لوگ ملوث پائے جاتے ہیں وہ یا تو کسی دینی مدرسے کے طالب علم ہوتے ہیں یا پھر کسی دینی پارٹی اور گروہ کے کارندے ہوتے ہیں۔ وہ دینی مدارس اور مساجد جن کا مشن انسان کو مسلمان اور مومن بنانا، عالم بشریت کو تحمل اور برداشت کا درس دینا اور دنیا میں اخوت و بھائی چارے کا فروغ ہونا چاہییے تھا، لیکن اب ان کا مشن "بے گناہوں کا خون بہانا" بن گیا ہے۔

ایک مسلمان ہونے کے ناطے کتنی شرم کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں کافر، شرابی، زانی، ڈاکو اور لٹیرے سب امن کے ساتھ رہ رہے ہیں، لیکن مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم لوگ اب پرامن طریقے سے سفر تک نہیں کرسکتے۔ مسافروں سے بھری گاڑیوں میں صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ ۔۔۔
۱،شیعہ کون ہے۔؟
۲،پاکستان کا فوجی کون ہے؟
شیعہ یا پاکستانی فوجی ثابت ہونے پر زندہ انسانوں کو جانوروں کی طرح ذبح کر دیا جاتا ہے۔
اسی طرح میرے جیسے کمزور ایمان والے لوگوں کو اگر نماز پڑھنے کے لئے غلطی سے مسجد میں جانے کا بہت ہی زیادہ دل کرے تو پہلے اچھی طرح یہ جاننا پڑتاہے کہ یہ مسجد کس فرقے کی ہے؟اگر غلطی سے کہیں کسی دوسرے فرقے کی مسجد میں داخل ہوگئے تو پھر زندہ باہر نکلنے کا شاید موقع ہی نہ ملے۔

ہم لوگ باعزت طریقے سے دین کے نام پر اب جلوس بھی نہیں نکال سکتے، وہ یوم القدس کا جلوس ہو، عید میلاد النبی (ص) کا جلوس ہو یا دس محرم الحرام کا ۔۔۔
ہمارے دینی مراکز پر بھی خوف و ہراس کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔۔۔
وہ مسجدیں ہوں
یا امام بارگاہیں،
سب کو دہشتگردی کا خطرہ ہے۔
ہمارے ہاں محب وطن اور دیانتدار پولیس آفیسرز ہوں یا آرمی کے جوان، ڈاکٹرز ہوں یا پروفیسرز، سب کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔ابھی دوروز پہلے گجرات یونیورسٹی کے ڈائریکٹر پروفیسر سید شبیر شاہ کو دن دھاڑے موت کے گھاٹ اتار دیاگیا اور یہ کہا گیاکہ یہ سانحہ راولپنڈی کا جواب ہے۔حالانکہ مقتول کا اس سانحے سے کوئی تعلق ہی نہیں۔
کیا اس طرح ماہرین تعلیم اور دانشوروں کو قتل کرکے اسلام اور پاکستان کی خدمت کی جارہی ہے یا پھر پاکستان اور اسلام کے دشمنوں کی خدمت۔۔۔
ہم ان سارے واقعات کو امریکی مداخلت، انتظامیہ کی سستی اور پولیس کی غفلت کہہ کر اپنی آئندہ نسلوں کی جان نہیں چھڑوا سکتے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات ہمارے ہاں بار بار نہ دہرائے جائیں اور ہماری آئندہ نسلیں ان خطرات سے محفوظ رہیں تو ہم سب کوملی وحدت، اجتماعی شعور، وسیع القلبی اور احترام باہمی کے لئے مل کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔
امریکہ، سی آئی اے اور غیر ملکی ایجنسیاں جو کچھ کر رہی ہیں وہ اپنی جگہ، لیکن جو ہماری ذمہ داری بنتی ہے ہم وہ تو ادا کریں۔

ہم حد اقل ان لوگوں کو تو مشخص کریں جن کا دین ہی شرارت ،دنگافساد،دوسروں کو مارنا اور قتل کرنا ہے،
جن کی شریعت ہی جلاو، گھیراو اور مار بھگاو ہے،
جن کا مذہب ہی دوسروں کو کافر اور واجب القتل کہنا ہے ۔۔۔ اور جن کی عادت ہی امن و امان کو تہہ و بالا کرناہے۔

ہم کم از کم ان دو رکعت کے اماموں کو تو بے نقاب کریں کہ جن کی تکبیریں صرف نفرت کی آگ کو بھڑکانے کے لئے ہیں۔
اگر ہم سب ملکر اور تعصبات سے بالاتر ہوکر شرپسندی، فرقہ واریت، تعصب اور دہشت گردی کے خلاف منظم جدوجہد کریں تو آج بھی ہمارے درمیان علامہ طاہرالقادری، مولانا منور حسن، علامہ قاضی احمد نورانی اور مولانا طارق جمیل جیسے بے شمار لوگ موجود ہیں جو اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود ان اختلافات کو ختم کرانے یا کم کرانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ہمارے ہاں عدم برداشت اور اجتماعی شعور کے فقدان کے علاوہ ایک اہم مسئلہ "حالات سے حکومتی سیٹ اپ کی چشم پوشی" بھی ہے۔ آپ مثال کے طور پر اسی دس محرم الحرام کے واقعے کو ہی لیجئے، سرکاری اہلکاروں کی نیک نیتی اپنی جگہ، لیکن جب سرکاری انتظامیہ کو معلوم ہے کہ اس روٹ سے دس محرم الحرام کا جلوس آرہا ہے اور وہ جانتے بھی ہیں کہ اس روٹ کے راستے میں ایک ایسی مسجد آتی ہے جس میں ایک امام صاحب نے نماز جمعہ کا خطبہ بھی دینا ہے تو ان کو چاہیے تھا کہ امام صاحب کو قبل از وقت ضروری ہدایات دی جاتیں اور خطبے سے پہلے ان سے امن و امان قائم رکھنے کا عہد لیا جاتا۔

اگر انتظامیہ روز جمعہ کے اجتماع، عزاداری کے جلوس اور مولانا موصوف کے مزاج سے چشم پوشی نہ کرتی تو یقینی طور پر اتنا بڑا حادثہ پیش نہ آتا۔ انتظامیہ کے "مولانا" سے عہد نہ لینے کی صرف تین ہی تو وجوہات ہوسکتی ہیں۔
الف۔ مولانا پر انتظامیہ کا حسن ظن
ب۔ مولانا کو انتظامیہ کی طرف سے آشیرباد
ج۔ انتظامیہ کی حالات سے چشم پوشی

ہم سب کو موجودہ حالات سے نکلنے کے لئے یہ سمجھنا چاہیے کہ جب تک ہماری عوام میں اجتماعی شعور اور ملی وحدت نہیں اور حکومتی اہلکار اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کر رہے ہیں، اس وقت تک اس ملک میں سکون اور امن قائم نہیں ہوسکتا۔غیر ملکی دشمن اور بیرونی ایجنسیاں اسی وقت کسی ملک یا قوم میں کامیاب ہوتی ہیں، جب کوئی قوم فرقوں اور ٹولوں میں بکھر جاتی ہے اور اس کے حکمران اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتنے لگتے ہیں۔

ہمارے ملک کی بربادی میں جتنا حصہ غیر ملکی ایجنسیوں اور فرقہ پرست مولویوں کا ہے، اتنا ہی غیر ذمہ دار سرکاری اہلکاروں کا بھی ہےجو خطرے کے وقت کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
بات شیعہ اور وہابی یا سنی کی نہیں بلکہ بات فتنے اور فساد کو بھڑکانے کی ہے۔جو شخص بھی اپنے قول و فعل سے لوگوں کو قتل و غارت اور مار دھاڑ پر اکساتاہے وہ ملعون ہے خواہ شیعہ ہویاوہابی ہو یا سنی۔ہمیں اگر اس ملک کو بچاناہے تو لوگوں کو مشتعل کرنے والے منافقین کو بے نقاب کرناہوگا وہ جس فرقے سے بھی تعلق رکھتے ہوں۔
ہمیں اپنے مسالک اور فرقوں سے زیادہ ااپنا کردار مدنظر رکھنا چاہیے ۔ہم چاہے کسی بھی مسلک سے تعق رکھتے ہوں اگر اس طرح کے واقعات پر ہم خوش ہوتے ہیں اور ہم ظلم کو ظلم نہیں کہتے،بلکہ دنگے فساد کو جہاد اور قتل و غارت کو اسلام کالبادہ اوڑھاتے ہیں تو خدا کے ہاں ان بے گناہوں کا خون ہماری گردن پر بھی ہے ۔
بلا شبہ جو شخص کسی قوم کے فعل پر راضی ہے وہ گویا اس کے عمل میں شریک ہے اور جو ظالموں اور مفسدین فی الارض کے کرتوتوں پر راضی ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم سب کو قیامت کے دن عدل الہی کاسامنا کرنا پڑے گا۔
 
آخری تدوین:
Top