سادہ سا سوال ہے !

ہاں واقعی۔۔
بہت شکریہ سیدھے سوال کا سیدھا جواب دینے کا۔ورنہ فیصل عظیم فیصل بھائی نے تو پوسٹمارٹم کر ڈالنا تھا کھنک اور چھنک کا۔
مطبل آپ کے مطابق من سٹھیایم؟

کھنک جب زیادہ ہو جائے تو پلس کنون کے مطابق اس میں چھنک پیدا کر لیتی ہے ۔
ویسے بھی سوفٹ ویئر اپ ڈیٹ ہو جائے تو بڑی بڑی کھنک چھنک میں بدل جاتی ہے

چاچے دا کھڑاک
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
مطبل آپ کے مطابق من سٹھیایم؟

کھنک جب زیادہ ہو جائے تو پلس کنون کے مطابق اس میں چھنک پیدا کر لیتی ہے ۔
ویسے بھی سوفٹ ویئر اپ ڈیٹ ہو جائے تو بڑی بڑی کھنک چھنک میں بدل جاتی ہے

چاچے دا کھڑاک
کون سے چاچے دا؟
چاچے بوٹے دا؟؟؟
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ایک سادہ سا سوال ہے۔ کرنا یہ ہے کہ اس جملے کے آگے پیچھے کی کہانی بتانی ہے اپنے الفاظ میں۔
دل کے کئی گوشے اب بھی لہو لہو تھے
 

سیما علی

لائبریرین
ایک سادہ سا سوال ہے۔ کرنا یہ ہے کہ اس جملے کے آگے پیچھے کی کہانی بتانی ہے اپنے الفاظ میں۔
دل کے کئی گوشے اب بھی لہو لہو تھے
لہجے کی شدت اور پیکر کی ندرت کے اعتبار سے
قائم چاندپوری نے بھی اس مضمون کو ایک غزل کے دو شعروں میں لاجواب طرح سے لکھا ہے؎

نہ دل بھرا ہے نہ اب نم رہا ہے آنکھوں میں
کبھی جو روئے تھے خوں جم رہا ہے آنکھوں میں

وہ محو ہوں کہ مثال حباب آئینہ
جگر سے کھنچ کے لہو جم رہا ہے آنکھوں میں
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
لہجے کی شدت اور پیکر کی ندرت کے اعتبار سے
قائم چاندپوری نے بھی اس مضمون کو ایک غزل کے دو شعروں میں لاجواب طرح سے لکھا ہے؎

نہ دل بھرا ہے نہ اب نم رہا ہے آنکھوں میں
کبھی جو روئے تھے خوں جم رہا ہے آنکھوں میں

وہ محو ہوں کہ مثال حباب آئینہ
جگر سے کھنچ کے لہو جم رہا ہے آنکھوں میں
بہت زبردست۔
لیکن کہانی اپنے الفاظ میں بنانی ہے
 

سیما علی

لائبریرین
ایک سادہ سا سوال ہے۔ کرنا یہ ہے کہ اس جملے کے آگے پیچھے کی کہانی بتانی ہے اپنے الفاظ میں۔
دل کے کئی گوشے اب بھی لہو لہو تھے
مصحفیؔ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
 

یاسر شاہ

محفلین
رخشندہ نے چوری کی غزلیں پوسٹ کر کر کے فیس بک پہ جمال کے دل میں اپنی جگہ بنا ہی لی تھی ۔آخر وہ گھڑی آگئی جب لندن سے رخشندہ نے کوچ کیا اور کراچی ائیر پورٹ پہ جمال نے اسے ریسیو کیا۔
جمال اپنی فیس بک کی تصویر سے بالکل مختلف تھا ،سارا کیا دھرا ایڈوب فوٹو شاپ کا تھا۔نکاح کر کے جب جمال اسے اپنے گھر لایا تو ساس کی تیوری چڑھی ہوئی تھی ۔
شادی کے پانچویں روز جب رخشندہ نے جمال کو دفتر کے لیے رخصت کیا اور گرمی کی وجہ سے اے سی آن کیا تو اس کی ساس کہیں سے برآمد ہوئی اور کہنے لگی:"نگوڑی ! اے سی کیا جہیز میں لائی تھی ،بند کر بل بہت آتا ہے "رخشندہ کے سارے خواب چکنا چور ہو گئے اور اس نے پہلی بار اپنی ذاتی غزل لکھی جو چوری کی نہ تھی آمد ہی آمد تھی مطلع کچھ یوں تھا

جس گھر کے سپنے دیکھے ہم اس گھر کی بہو تھے
دل کے کئی گوشے اب بھی لہو لہو تھے

اب رخشندہ لندن میں اپنے دو سالہ بیٹے کے ساتھ رہتی ہے اور اس کی شاعری کی ایک کتاب بھی چھپ چکی ہے جس کا عنوان ہے :دل لہو لہو:
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ایک سادہ سا سوال ہے۔ کرنا یہ ہے کہ اس جملے کے آگے پیچھے کی کہانی بتانی ہے اپنے الفاظ میں۔
دل کے کئی گوشے اب بھی لہو لہو تھے
اب رخشندہ لندن میں اپنے دو سالہ بیٹے کے ساتھ رہتی ہے اور اس کی شاعری کی ایک کتاب بھی چھپ چکی ہے جس کا عنوان ہے :دل لہو لہو:
کیابات ہے
دل لہو لہو ۔۔۔
سچ ہے جب کھلا تضاد سامنے ہو دل لہو لہو ہی ہونا ہے ۔۔۔۔
 
Top